گزشتہ اقساط کا خلاصہ:-
سکندر حیات کا تعلق گاوں کہ ایک جانے مانے قبیلہ سے تھا اپنے باپ کہ بعد جب وہ گدی نشین ہوئے تو ان کی نگرانی میں گاوں کہ ہر چھوٹے بڑے فیصلہ لئے جانے لگے ۔۔۔۔۔
سکندر کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی ۔۔۔۔۔۔
ان کا خواب تھا کہ ان کا چھوٹا بیٹا درراب سکندر ان کی زندگی میں ہی گدی پہ بیٹھے لیکن اس کی مختلف مزاجی اسے پولیس فورس کی جانب لے آئی ۔۔۔۔۔۔ دانیہ سکندر حیات بھائی کی چہیتی اور باپ کی لاڈلی تھی لیکن سکندر حیات کا جابرانہ اور حکمرانہ رویہ اسے دکھ اور اذیت میں مبتلا کردیتا تھا۔۔۔۔ درراب کی خواہش کہ پیچھے سراسر جس کا ہاتھ تھا وہ دانیہ کا۔ تھا دانیہ ہر گز یہ گوارہ نہ کرتی کہ اس کا جان سے پیارا بھائئ بھی باپ کہ نقش قدم پہ چل نکلے ۔۔۔۔ یوں درراب کی محنت اور دانیہ کی بھائی سے بے پناہ محبت نے اسے اس منزل پر پہنچایا تھا لیکن یہ کامیابی دانیہ اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکی وہ یہ خواب لئے ہی قبر میں جا سوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعیدہ بیگم کہ دو بیٹے شمشیر الدین اور ضعیم احمد تھے ۔۔۔ شمشیر الدین اپنی ماں کہ ساتھ رہتے تھے جبکہ ضعیم پڑھنے کی غرض سے شہر آیا تو وہیں بس گیا۔۔۔ کاروبار جمایا اور پھر شادی بھی وہیں کرلی تھی ۔۔۔۔۔
شہر کی آبادی تو اختیار کر ہی لی لیکن آبائی علاقہ سے تعلق نہیں توڑا تھا۔۔۔
بڑے بیٹے عمیر کا ولیمہ بھی میر پور خاص میں ہی ہوا تھا تھا۔۔۔۔۔۔
جو کہ اب اسلام آباد میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا ۔۔۔۔
ضعیم کے اندر وڈیروں والی خاصیت ہنوز قائم تھی ۔۔۔ جہاں پلے بڑھے تھے وہاں کہ رنگ کو مکمل طور پہ ختم نہ کرسکے تھے۔۔۔۔
ضعیم احمد کی بیٹی عنبرین کا رشتہ بچپن میں ہی ریان سے جوڑ دیا گیا تھا۔۔۔۔ جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ ضعیم آبائی گھر سے جڑے رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمیر کی طرح عنبرین کی شادی بھی گاوں میں ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
۔ماجد ضعیم صاحب کے بڑے بھائی کا بیٹا تھا ۔۔۔
اس کی شادی بھی عمیر کہ ساتھ کردی تھی اگر وٹہ سٹہ کہا جائےتو درست ہوگا۔۔۔ عمیر کے سالے سے عنبرین کی شادی ہوئی تھی ۔۔۔۔
ماجد اپنی دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔۔۔۔
ماجد سے ایک سال چھوٹی روبینہ عمیر کی بیوی تھی۔۔۔ جبکہ روقیہ چار سال چھوٹی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
حیرت انگیز طور پر دو سال گزر جانے کہ بعد بھی ان کی زندگی پرسکون گزر رہی تھی۔۔۔
شاید اس کی بڑی وجہ عمیر کا اسلام آباد میں رہنا اور عنبرین کا سادہ مزاج تھا۔۔۔۔۔۔
دوسری بیٹی عینی کی شادی ریان احمد سے کی تھی ریان احمد ان کا چچا ذاد تھا ۔۔۔۔ جو کہ میر پور خاص میں قیام پذیر تھا میر پور خاص میں ان کا ابائی گھر واقع تھا جہاں باقی بھائیوں کی اولادیں رہ رہیں تھیں۔۔۔۔
راحب دو بہنوں سے چھوٹا اور عنایہ ضعیم احمد سے بڑا تھا۔۔۔۔ عنایہ ارٹس اینڈ ڈیزائن کی ہونہار طالبہ تھی رنگوں سے کھیلنے والی نازک اندام حسینہ جس کی خوشحال زندگی کو گرہن لگ گیا تھا ۔۔۔
سکندر حیات اپنی فیملی کہ ساتھ میر پور خاص شادی میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے سکندر حیات شمشیر الدین کا جگری یار تھا دونوں کہ ایک سے مزاج تھے تحکمانہ ۔۔۔۔۔
دوستی کو رشتہ داری میں بدلنے کا فیصلہ کیا اور عینی اور ریان کہ ولیمہ پر معراج (جو کہ شمشیر الدین کا بھتیجا ) اور دانیہ کا نکاح طے کردیا ۔۔۔ یہ خبر وہاں موجود راحب کو دھچکہ کی طرح لگی تھی ۔۔۔ دانیہ کو ہرگز یہ رشتہ گوارہ نہ تھا وہ تو پہلے ہی وہاں کہ لوگوں سے نالاں تھی رہی بات ساری زندگی کی۔۔۔
درراب کو انتہائی فیصلہ کرگزرنا تھا لیکن قسمت نے اسے کوئی قدم اٹھانے کا موقع ہی نہ دیا اور بارات کی صبح ناحق موت نے دانیہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔۔۔۔ دانیہ کی موت نے درراب کو توڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔۔
مہتاب بیگم سکندر حیات کی بیوی دانیہ کی جدائی برداشت نہ کرسکیں اور بستر سے جالگیں۔۔۔۔۔۔۔۔
پنچائیت نے دانیہ کی جگہ عنایہ کو ونی کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔ لیکن درراب نے باپ کی اس بات کو ماننے سے انکار کردیا ۔۔۔ دوسری صورت میں اسے رقم لینی پڑتی لیکن وہ اپنی بہن کہ قاتلوں سے خون بہا کی رقم لینا گوارہ نہ تھا۔۔۔۔۔۔
اس لئے عنایہ کو بطور ونی اپنے نکاح میں قبول کرنا پڑا۔۔ یہاں سے عنایہ کی زندگی نے درد ناک رخ اختیار کرلیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر حیات نے ضعیم اور شمشیر الدین سے تمام تعلقات توڑ لئے تھے یہاں تک کہ اماں جان (سعیدہ بیگم ) کو بھی عینو سے ملنے نہ دیا یہ غم وہ برداشت نہ کرسکیں اور سکندر کی دہلیز پہ ہی دم توڑ گئیں۔۔۔۔۔
عینو کہ اندر درراب اور حویلی کہ لیے نفرت کی آگ اور پھیلتی چلی گئی۔۔۔ اور اس نے یہ عزم کرلیا تھا جب تک اس اگ میں وہ حویلی کہ تمام مکین کو جلا کر خاکستار نہ کردے گی سکون سے نہیں بیٹھے گی۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا عنایہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی ، سکندر حیات کو ان کہ ظلم کی سزا ملے گی یا اس بار بھی وہ پینترا بدل کر حالات کا رخ موڑ دیں گے ۔۔۔ کیا عنایہ درراب سے طلاق لے لے گی یا سب کچھ بھلا کر زندگی کو نئے سرے سے جینا شروع کردے گی ؟؟؟؟؟
یہ سب آپ جان سکیں گے آنے والی اقساط میں ۔۔۔
___________________________
(اب آگے پڑھیئے)
تم جانتی ہو میں آج یہاں کیوں آئی ہوں اتنے برسوں بعد ؟؟؟؟
“نہ ہی میں جانتی ہوں اور نہ ہی میں جاننا چاہتی ہوں ۔۔۔ میں حویلی کہ کسی بھی فرد سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتی ۔۔۔۔”
مونا بیگم کی سرد مہری پر وہ یک ٹک انھیں دیکھے گئیں۔۔۔۔۔۔۔
یعنی وہ آج بھی اپنے دل میں اماں جان اور ان کہ اہل خانہ کیلئے تمام تر نفرت لئے بیٹھی تھی ۔۔
“مونا اماں جان کا انتقال ہوگیا ہے ۔۔۔۔”
نجمہ کی دل سوز خبر پر وہ اس بار نگاہیں نہیں چرا پائیں تھیں۔۔۔۔
مونا کی بے یقین نگاہوں سے ے نجمہ کو طمانیت سی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
“ہاں تم ہی تو کہہ کر آئیں تھیں کہ اب میدان حشر میں ملاقات ہوگی ۔۔۔۔”
نجمہ نے ان کہ کچھ نہ بولنے پر بات جاری کی چہرہ کا تناو کچھ ڈھیلا پڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔
“تم اتنی سنگ دل کیسے ہوسکتی ہو مونا وہ تمہاری ماں تھیں ۔۔۔۔۔”
“نہیں ہے وہ میری ماں سنا آپ نے نہیں ہے وہ عورت صرف میرے باپ کی بیوی تھی بس۔۔
میرا نہ تو اس کی زندگی میں کوئی تعلق تھا اور نہ ہی مرنے کہ بعد کوئی تعلق ہے۔۔۔۔”
مونا نے ٹہرے ہوئے انداز میں کہہ کر بات ہی ختم کردی تھی۔۔۔۔
یہ قیامت خیز انکشاف نجمہ کو ساکت و جامد کرگیا تھا۔ ۔۔۔
تو۔ کیا تم اماں جان کی سگی اولاد نہیں ہو ؟؟؟
“میں نے کہا ناں آپ سے ۔۔۔ میں ان کی کچھ نہیں لگتی آئندہ مجھے ان سے کسی بھی رشتہ سے منسلک نہ کریں تو زیادہ بہتر رہے گا ۔۔۔ آپ سے میرا تعلق صرف اور صرف عینو کی وجہ سے ہے ۔۔۔۔۔”
مونا نے اس بار ان کا اور اپنا تعلق واضح کردیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں سب کچھ تو نہیں جانتی مونا لیکن اب اماں جان رہی ہی نہیں تو کونسی نفرت لئے بیٹھی ہو وہ تو دو گز زمین نیچے جاسوئیں ہیں۔۔۔۔”
نجمہ نے بڑی مشکل سے اپنی بات مکمل کی تھی حلق میں آنسووں کا گولا پھنس گیا تھا۔۔۔۔۔
“تم یہ سب کہہ سکتی ہو کیوں کہ تم پہ وہ سب نہیں گزری ۔۔۔ جس پر گزرتی ہے وہ ہی جانتا ہے ۔۔
تم کبھی جان بھی نہیں پاو گی کہ میں کس عذاب سے گزری ہوں۔۔۔۔”
اب کہ خول چٹخنے لگا تھا درار پڑنے لگی تھی اس بند خول میں۔۔۔۔۔
“مونا کہہ دو جو کہنا چاہتی ہو نکال دو سارا بار جو برسوں سے اپنے دل میں چھپائے بیٹھی ہو ۔۔۔۔”
“نجمہ نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا تھا وہ چاہتی تھی کہ اب وہ نکل آئے اس دوہرے عذاب سے ۔۔۔۔”
نجمہ بیگم کل ہی راحب کہ ساتھ اگئیں تھیں ۔۔۔ عینو سے تو ان کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی البتہ وہ سوچ کر آئیں تھیں کہ نجمہ سے مل کر تمام گھتی سلجھائیں گی لیکن مونا تو انھیں اماں جان سے کسی بھی رشتہ سے ملنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ ماضی میں ایسا کون سا واقعہ ہوا تھا جس کا اثر آج بھی مونا کی نظروں سے نظر آتا ہے۔۔۔۔۔
“چائے پیو ٹھنڈی ہورہی ہے ۔۔۔”
نجمہ لبوں سے چائے کا کپ لگائے ان کہ چہرہ کو بغور دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ بلاشبہ مونا پروقار اور مضبوط عورت تھی ۔۔۔۔۔۔
عینو کیسی ہے ؟؟؟
“ٹھیک ہے بس آزمائشیں ہیں اس کہ ساتھ ۔۔۔۔ ”
نجمہ بیٹی کہ ذکر پر آبدیدہ ہوگئیں۔ ۔۔۔۔
نجمہ تمھیں اپنی بیٹی کہ لئے خود ہی آواز اٹھانی پڑے گی اور اس گماں میں ہر گز نہ رہنا کہ ضعیم عنایہ کو وہاں سے لے آئے گا ۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی اسے وہاں جانے ہی نہیں دیتا ۔۔۔۔ حویلی والوں کا سارا زور بیٹیوں پر ہئ چلتا ہے۔۔۔ یہ بات جب مجھے سمجھ آئی تھی تو میں چھوڑ آئی تھی حویلی کو ورنہ میری بیٹی بھی کسی اور کہ گناہوں کا کفارہ ادا کرتی ۔۔۔۔۔
تم سے اتنا ہی کہوں گی اپنے بیٹوں سے کہو کہ وہ عنایہ کے لئے عدالت سے رجوع کریں ورنہ تمھیں یہ لوگ عینو کی شکل نہ دیکھنے دیں گے میں جانتی ہوں اس اذیت کو جو تم جھیل رہی ہو مجھے تو اللہ نے بیٹے نہیں دیئے تھے اور نہ ہی میرا شوہر تھا جو ان کہ خلاف آواز اٹھاتا ۔۔۔۔ اس لئے میں وہاں سے بھاگ اٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور نجمہ سوچ میں پڑگئی تھی کتنے زخم وہ اپنے سینے میں دبائے بیٹھی ہے۔۔ ۔
____________________________
وہ جب سے آیا تھا مسلسل ادھر ادھر بے چین سا ٹہل رہا تھا کبھی کسی کو کال ملا تھا تو کبھی کسی کو ۔۔۔۔
اسے تو یکسر فراموش ہی کر بیٹھا تھا جسے ساتھ لایا تھا ۔۔۔۔
وہ خاموش نظروں سے اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔۔۔
“بابا جان آخر کب تک ہم یہاں مہسور ہو کر رہیں گے آج میری کمیشنر کہ ساتھ میٹنگ تھی ۔۔۔ ”
جنھجھلائی آواز پر عنایہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔۔
“جو کہہ رہا ہوں وہ کرو بڑا شوق تھا نہ تمھیں پولیس آفیسر بننے کا تو اب بھگتو نجانے کتنے دشمن تمہاری گھاٹ لگائے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔”
“مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کو کیسے پتا اور کون ہے وہ جس کو میرے آنے جانے کا پتا ہے ۔۔۔۔”
“بھائی جان نے بتایا تھا مجھے اور برخوردار اگر اتنا ہی مجھے معلوم ہوتا تو اس کو گدی سے دبوچ کر پٹخ دیتا میرے بیٹے اتنے بھی ارزاں نہیں ہے کہ ہر کوئی ان پر ہاتھ ڈالے۔۔۔۔ ”
“تم سے جتنا کہا ہے اتنا کرو اور اپنی بیوی پر نظر رکھنا ایسا نہ ہو کہ وہ ہی ان سب کہ پیچھے ہو ۔۔۔۔۔۔”
سکندر کی آخری بات پر درراب نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا جو اب نجانے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں کیا تلاش کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ موبائل جیب میں رکھتا ہوا اس کی طرف اکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔
وہ واقعی اس کی آہٹ محسوس نہ کرسکی تھی یا جان بوجھ کر انجان بنی ہوئی تھی اس لمحے وہ کچھ سمجھ نہیں پایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا دن ان دونوں کا سفر میں کٹا تھا گھر آنے ہی والا تھا کہ سکندر صاحب کی کال نے انھیں وہیں رکنے کا حکم دیا تھا۔۔۔
اب تین گھنٹے سے وہ ایک لکڑی کہ بنے ہوئے گھر میں تھے ۔۔۔۔ پرانے وقتوں کی بنی چھوٹی سی کٹیا تھی یا مسافروں کہ آرام کیلئے بنائی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ وہاں کوئی ایسی چیز نہ دکھی جس سے ظاہر ہوتا کہ پہلے یہاں کوئی آیا بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
درراب کو چار و ناچار باپ کی بات ماننا پڑی تھی ۔۔۔ اتنا۔ تو اسے بھی محسوس ہوگیا تھا کہ کوئی اس پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھیں پتا ہے ہم یہاں کیوں ٹہرے ہوئے ہیں؟؟
کافی دیر تک جب عنایہ نے گردن اونچی کر کہ اسے نہ دیکھا تو وہ خود ہی پوچھ بیٹھا۔۔۔۔
“نہیں۔۔”
جاننا چاہتی ہو ؟؟؟
“نہیں۔۔۔”
“ہمممم”
“بابا جان کہہ رہے تھے کہ کوئی مسلسل ہماری گاڑی کو فولو کررہا تھا ۔۔۔”
کون ؟؟
عنایہ نے جھٹکہ سے سر اٹھا کر پوچھا :
“اگر یہ مجھے پتا ہوتا تو وہ کب کا جیل کی سلاخوں کہ پیچھے ہوتا۔ ۔۔۔۔۔۔”
“بابا جان کا کہنا ہے تم نے ہی ان کو خبر دی ہے ۔۔۔”
عنایہ خاموش نظروں سے اسے دیکھے گئی ۔۔۔ وہ اس سے ان سب باتوں کی امید کرسکتی تھی ۔۔۔۔
بولو تم نے دی ہے نہ خبر ؟؟؟
نہ کوئی سختی تھی آواز میں نہ چہرہ پر سخت تاثرات تھے نہ الفاظ پتھریلہ تھے ۔۔۔۔۔
عنایہ ہنسی اور ہسنتی چلی گئی اتنا ہنسی کہ انکھیں پانی سے لبالب بھر گئیں۔۔۔۔۔۔۔
پاگل ہوگئی ہو ؟؟؟
درراب نے اسکا بازو پکڑ کر اسے ہنسنے سے روکا ۔۔۔
یک دم ہی ہنسی تھم گئی تھی لبوں پر مسکراہٹ کا شبہ تک نہ تھا ۔۔ چہرہ سے لگتا تھا وہ تو مسکرانا ہی بھول گئی ہو ۔۔۔۔
“کاش میرے پاس ان سب کا اختیار ہوتا ۔۔۔ لیکن افسوس! انکل کی یہ خواہش میں پوری نہ کرسکی ۔۔۔۔۔۔۔”
“چلو سوچ لو جو مجھے فولو کررہے ہیں وہ تمہارے ہی بندے ہیں یا تم ایک آفیسرز ہو جس کہ پاس تمام اختیارات ہوں ۔۔۔ ”
جو کام تم پہلے کرو گی وہ کون سا کام ہوگا۔؟؟؟
درراب اسے اماں جان کی موت کے فیز سے نکالنا چاہ رہا تھا۔۔ یا اپنا ہی کوئی کیس حل کررہا تھا یہ تو خود وہ بھی نہیں سمجھ پارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تو میں سب سے پہلے انکل پر کیس درج کرواتی اور ان پر ظلم و بربریت اور ناحق قتل کہ کیس میں سزائے موت دلواتی ۔۔۔۔”
“منہ بند رکھو آپنا میرے بابا نے کسی کا قتل نہیں کیا ہے اپنی حد میں رہ کر بات کیا کرو۔۔۔۔۔”
کیوں سچ سن کر برا لگا ڈی ایس پی درراب شاہ ؟
“بڑی ہی عجیب بات ہے نہ سچ اور انصاف کا پرچار کرنے والا دوسروں کو انصاف تو دلارہا ہے لیکن اپنے گھر میں کبوتر کی طرح انکھیں بند کررکھی ہیں۔۔۔ ”
ان سب باتوں سے تم کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہو ؟؟؟
“سمجھ دار کے لئے اشارہ ہی کافی ہے مزید میں کوئی بحث نہیں چاہتی۔۔۔”
عنایہ نے کہہ کر درراب کی جانب سے رخ موڑ لیا۔۔۔۔
درراب اس کو دیکھ کر رہ گیا تھا ۔۔
۔:” کچھ عمل ہمارے بے اختیاری ہوتے ہیں جو سامنے والے پر برا اثر چھوڑ جاتے ہیں”
درراب کی باتوں نے عنایہ کو۔ اس سے بدزن کردیا تھا اور اب حالات انتہائی رخ اختیار کرگئے تھے ۔۔۔ جن کو وہ سمجھ نہیں پارہا تھا اس سب میں کون غلط تھا بابا جان ، عنایہ ، راحب یا میں ؟؟؟
یا کوئی اور ؟؟؟
___________________________
وہ اپنے آگے لیب ٹاپ کھولے ای میل چیک کررہا تھا جو انڈسٹریز کے مینیجر نے کل سینڈ کی تھی ۔۔۔
انکھوں پر نفیس سے گلاسس لگے تھے کشادہ پیشانی اسے ذہین اور مغرور ظاہر کرتی تھی ۔۔۔ سفید ٹی شرٹ پہنے بلیک ٹائی لگائے وہ انہماک سے اپنے کام میں مگن تھا جبھی سائیڈ میں رکھا ٹیلی کام بج آٹھا ۔۔۔۔۔
ریسور کان سے لگایا۔۔
جی؟؟
سر وہ ارٹ اینڈ ڈیزائن کی مینجر آپ سے میٹنگ کا خیال ظاہر کررہے ہیں؟؟؟
“ٹھیک ہے آپ انھیں آدھے گھنٹے کا کہہ دیں اور میٹنگ ارینج کروادیں۔۔۔۔”
مس مہرین کو بھیجے؟؟
“سر وہ تو لیو پر ہیں ۔۔۔”
بنا بتائے وہ لیو پر چلی گئیں اور آپ اب بتارہیں ہیں؟؟؟
یک دم اس کی پیشانی پر بل نمایاں ہوئے۔۔۔۔
نو سر وہ لیو ایک دن پہلے ہی دے چکی تھیں میں آپ کو بتا نہ سکی سو سوری رئیلی سوری سر؟؟
“آئندہ اس طرح کی لاپرواہی آپ کو جاب سے فارغ کردے گی ۔۔۔ سو لاسٹ ٹائم وارننگ اینڈ بی کیئر فلی۔۔۔۔”
“اوکے سر ۔۔”
اترے ہوئے منہ کہ ساتھ کہا گیا تھا۔۔۔۔۔
ٹھیک آدھے گھنٹے میں سب میٹنگ ہال میں موجود تھے ۔۔
مہرین آج نہیں آئی تھی سو اسے ہی راحب کہ ساتھ میٹنگ اٹینڈ کرنی تھی ۔۔۔۔۔
کوٹ پہن کر مڑے ہوئے کف سیدھے کئے گلاسس درست کرکہ بالوں میں ہاتھ پھیرا اور موبائل اٹھا کر کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔
شیرین جو فائل تھامے اسی کا انتظار کررہی تھی اسے آتا دیکھ کر اس کہ پیچھے چلنے لگی۔۔۔۔
راحب گلاس ڈور کھول کر سائیڈ میں ہوا تاکہ پیچھے آتی شیریں اندر چلی جائے ۔۔۔۔ اس کی عورت کو عزت دینے والی عادت مہرین کو فدا کرگئی تھی ۔۔۔ لیکن راحب کا نگاہ اٹھا کر نہ دیکھنا اسے اپنی حد میں رکھے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔۔
ہال میں پہنچ کر سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
سامنے بیٹھے نفوس پر نگاہ اٹھی تو پلٹنا بھول گئی۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ وہ بڑے اطمینان سے بیٹھی اپنی سیکرٹری کو کچھ پوائنٹ سمجھا رہی تھی۔۔۔
___________________________
بابا جان کا حکم ملتے ہی وہ لوگ نکل چکے تھے ۔۔۔ آدھے گھنٹے کہ سفر کہ بعد آخر کار وہ دونوں گھر پہنچ گئے تھے۔۔۔
درراب کا ارادہ اسٹیشن جانے کا تھا لیکن تھکن اتنی تھی کہ وہ فریش ہوکر سوگیا۔۔۔۔
عنایہ بھی تھکن سے چور تھی دماغی اور جسمانی تھکن اسے کچھ اور سوچنے نہیں دے رہی تھی اس پر درراب کی اس طرح کی باتیں اسے پھر سے ازیت میں مبتلا کرگئیں تھیں۔۔۔۔۔
“تلوار کا گھاو تو بھر جاتا ہے لیکن زبان کا گھاو تاعمر ساتھ رہتا ہے ۔۔۔۔ ”
__________________________