اندھیرا چھٹ رہا تھا سورج کی کرنیں زمین والوں کو اپنی جھلک دیکھانے لگی۔ ہسپتال کے سرد کوریڈور میں کھڑے انہیں چھ گھنٹے ہونے کو آئے تھے۔ مگر ڈاکٹرز ابھی تک باہر نہیں آئے تھے۔
ہر نیوز چینل پر یہ خبر بریکنگ نیوز بن کر چل رہی تھی۔ صحافتی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جا رہی تھی۔ حکومتی رہنماؤں کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا رہا تھا۔
فاطمہ نماز پڑھنے کے بعد لاؤنچ بیٹھی تھی جب یہ خبر ٹی وی پر انہوں نے دیکھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ٹی وی سکرین کو دیکھ رہی تھی۔ مریم نے ٹھٹھک کر انہیں دیکھا جو سکتے کی حالت میں بیٹھی ٹی وی کو دیکھ رہی تھیں اور پھر ٹی وی کی طرف دیکھا جہاں زائر کی تصوریں دیکھائی جا رہی تھی۔ مریم نے چیخ روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ آنسو ابل ابل کر اس کی آنکھوں سے نکل رہے تھے اُس کی سسکیاں سن کر فاطمہ چونک کر ہوش میں آئی ان کا پورا چہرہ آنسوں سے تر تھا۔
مریم کو بازوں کے گھیرے میں لے کر اس سر کو اپنے کندھے سے ٹیکائے وہ رو بھی رہی تھی اور اسے تسلی بھی دے رہی تھی۔
“کچھ نہیں ہو گا اسے انشااللّٰہ وہ بلکل ٹھیک ہو کر واپس بھی آئے گا اور پھر ہم دھوم دھام سے اس کا ولیمہ کریں گے”۔ ان کے آنسو مریم کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔ مریم کی سسکیاں بلند ہو رہی تھی۔
عمر نے حیرت سے لاؤنچ کا منظر دیکھا ان کے قریب آ کر اس کی نظر ٹی وی پر پڑی جہاں ابھی بھی یہ خبر چل رہی تھی۔ وہ ٹھٹھک کر وہی رک گیا۔ پھر فاطمہ کی طرف متوجہ ہوا جو مریم کو حوصلہ دیتے دیتے خود بھی رو رہی تھی۔ عمر نے اپنے عصاب پر قابو پایا ۔
“امی میں ہسپتال جا رہا ہوں “۔ وہ کہہ کر باہر کی طرف بھاگا۔
میں بھی جاؤں گی خالہ ۔۔۔۔ فاطمہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر پھر اسے دیکھ کر
خاموش رہی اور سر ہلا دیا۔
جس وقت وہ ہسپتال پہنچے مرسلین ڈاکٹر کے آفس میں تھا صائم نے فاطمہ کو دیکھا تو بھاگ کر ان کی طرف آیا ۔
“بھائی کا آپریشن ہو گیا ہے “۔ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے وہ فاطمہ کے گلے لگ گیا۔
“کچھ دیر میں وارڈ میں شفٹ کر دیں گے اب زائر کی حالت بہتر ہے “۔ احمد انہیں تفصیل بتا رہا تھا۔
کچھ دیر میں اس کے آفس کے کولیگ ، مرسلین کے گھر والے ، بلال صاحب بھی ہسپتال آ گئے۔
زائر کی حالت کی بہتری کا سن کر سب نے شکر ادا کیا تھا۔ ہادیہ مریم اور فاطمہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔ مرسلین کی تلاش میں اس نے نظریں ڈورائی مگر بےسود!! وہ ابھی تک ڈاکٹر کے پاس تھا۔
مریم کے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ وہ چہرہ جھکائے آنسو بہانے میں مصروف تھی۔ اُس کا خوف اُس کے آنسوں کے زریعے نکل رہا تھا۔
شائستہ اور رجب علی بھی ہسپتال آ گئے تھے۔ رجب علی نے مریم کو گلے لگایا وہ تو جیسے کسی سہارے کی منتظر تھی اب کھل کر رو رہی تھی۔ رجب علی اس کا سر تھپتھپا رہے تھے۔
“بلکل ٹھیک ہے وہ اب بیٹا رونے کی بجائے اللّٰہ کا شکر ادا کرو جس نے اسے نئی زندگی دی ہے “۔
مریم نے آنکھیں صاف کی اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھی ۔
دوپہر تک سب چلے گئے تھے مرسلین ،احمد ،فاطمہ اور مریم ہی ہسپتال میں تھے۔ مریم ان کے بہت بار کہنے کے باوجود بھی گھر نہیں گئی تھی۔ زائر کو وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر مریم کے آنسو ایک دفعہ پھر نکل آئے تھے۔ کون سا احساس تھا جو اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا؟؟ وہ یک ٹک اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی جس پر زخموں کے نشان تھے۔
” میں نے اسے ایسے دیکھنے کی خواہش تو کبھی نہیں کی تھی”۔ وہ روتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
وہ اِس سے ناراض تھا یہ بات اس کو چب رہی تھی۔ سب کے سامنے بھی اس نے اپنے آنسوں پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
※••••••※
فاطمہ کمرے کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہی تھی ۔ جبکہ مریم اس کے بیڈ کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھی تھی۔ مرسلین ڈاکٹر کے پاس جبکہ احمد کھانا لینے گیا تھا۔
زائر نے آنکھیں کھولی ، سب دھندلا دھندلا نظر آیا اُس نے سر جھٹک کر اس احساس سے پیچھا چھرانے کی کوشش کی ، تکیے پر سر رکھ گہرے سانس لیے اور پھر کمرے میں نظر ڈورائی۔ فاطمہ نماز پڑھ رہی تھی جبکہ مریم آنکھیں موندے کرسی پر بیٹھی تھی۔
زائر کی کراہ پر مریم نے جھٹ سے آنکھیں کھولی ، فاطمہ بھی جائےنماز لپیٹ کر فوراً بیڈ کی طرف آئی۔ زائر کو آنکھیں کھولتے دیکھ فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے اس کا سر چوما۔
وہ مریم کو نظر انداز کیے فاطمہ کے سوالوں کا آہستگی سے جواب دے رہا تھا۔ مرسلین بھی ڈاکٹر کے ہمراہ آ گیا۔
“اب کیسے ہو ینگ مین کیسا فیل کر رہے ہو ؟؟ ” ڈاکٹر نے مسکرا کر پوچھا۔
“بیٹر “۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد مرسلین اس کی طرف متوجہ ہوا۔
“اب تو بیٹر فیل ہو گا ہی کل سے ہمیں سولی پر لٹکا کر رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔ ویسے اب تم نے کون سا انکشاف کرنا ہے اور کس کے بارے میں مجھے پہلے ہی بتا دو تاکہ میں ایمرجنسی نافذ کروا دوں ہسپتال میں ۔۔۔۔ “۔ مرسلین دل جلانے والی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے بولا۔
زائر نے ناگوار نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور ایک نظر احمد کو جو اندر داخل ہو رہا تھا۔ “آنٹی آپ جا کر کھانا کھا لیں ، بھابھی آپ بھی جائیں”۔ ان دونوں کے جانے کے بعد احمد شرٹ کے بازو فولڈ کرتا اس کی طرف متوجہ ہوا۔
“چچ چچ کیسا محسوس ہو رہا ہے ۔۔۔ زائر کچھ کہنے ہی لگا تھا جب وہ دوبارہ بول پڑا۔
“اس بار ثبوت سکندر لاشاری کے خلاف ڈھونڈنا (سکندر لاشاری وزیر تھا اور فیوڈل لارڈ بھی تھا)، تین کی بجائے چھ گولیاں کھانا صحت کے لیے کافی اچھی ہوتی ہیں ، مرسلین جوس دینا یار کل سے بھاگ بھاگ کر انرجی ضائع ہو گئی ہے ، ہاں تو میں کہہ رہا تھا”۔ مرسلین کو کہہ وہ زائر کی طرف متوجہ ہوا جو ناگواری سے اسے گھور رہا تھا۔
“بکواس کر رہے تھے تم “۔ وہ شدت ضبط سے آنکھیں میچ کر بولا۔
“آہا بہت اچھے !! اس کا مطلب تین گولیوں سے کافی آفاقا ہوا ہے “۔ مرسلین مسکراہٹ دبائے بولا۔
“پیشنٹ کو آرام کرنے دیں اب “۔ نرس کمرے میں آتے ہوئے بولی۔
دوائیوں کے اثر سے زائر نیند میں چلا گیا جبکہ وہ دونوں آہستگی سے باتیں کر رہے تھے۔
※••••••※
مرسلین اور احمد گھر چلے گئے تھے ۔ عمر اور صائم کمرے میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے جب زائر کی دوبارہ آنکھ کھلی۔ عمر اور صائم سے باتیں کرتے ہوئے اس کی نظر بار بار مریم کی طرف بھٹک کر جا رہی تھی۔ اس کے ہوش میں آنے کے بعد مریم نے اس کا حال پوچھا جس کا جواب اس نے آہستگی سے دیا تھا اور پھر وہ فاطمہ سے باتوں میں مصروف ہو گیا تھا۔
مریم فاطمہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔ وہ آہستگی سے اس سے کچھ بات کر رہی تھی جس کے جواب میں وہ سر ہلا رہی تھی۔ زائر سے اپنا نظر انداز کیا جانا برداشت نہیں ہوا تو فاطمہ کو آواز دے ڈالی۔
فاطمہ اور مریم نے اس کی طرف دیکھا۔ زائر نے دونوں کو ایک نظر دیکھا پھر جب کچھ جواب نا بن پڑا تو جلدی میں بول گیا۔
“امی ہسپتال سے چھٹی کب ملے گی میری روٹین ڈسٹرب ہو گئی ہے “۔ فاطمہ نے بیٹے کو ایسے دیکھا جیسے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہو۔ ابھی ایک دن ہی تو ہوا تھا اسے یہاں ۔۔۔زخم بھی نہیں بھرے تھے ، کندھے کا زخم ابھی تازہ تھا۔ گردن پر گولی چھو کر گزری تھی ۔
فاطمہ نے دانت پیسے مگر بظاہر سکون سے بولی۔
“دو ہفتے کم از کم تمہیں یہاں رہنا ہے دو مہینے کی آفس سے بھی چھٹی مل گئی ہے تمہیں لہذا جانے کا خیال دل سے نکال دو “۔ فاطمہ کے ڈپٹ کر کہنے پر اس نے برا سا منہ بنایا۔
“امی آپ کو پتا ہے میں زیادہ دیر ہسپتال میں نہیں رہ سکتا ۔۔۔ مجھے الجھن ہو رہی ہے ہر چیز سے “۔ زائر نے کہنے کے ساتھ ہی بازو ہلانا چاہا مگر کراہ کر دوبارہ سے بازو سیدھا کر لیا۔ فاطمہ نے جتاتی نظروں سے بیٹے کو دیکھا ۔
” میں نے نہیں کہا تھا پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑاؤ”۔ فاطمہ کے طعنے پر زائر کو دھکا سا لگا۔ جبکہ مریم نے مسکراہٹ چھپانے کے لیے چہرہ جھکا لیا مگر زائر سے اس کی یہ حرکت چھپی نہیں رہ سکی اس کی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ عمر اور صائم نے دل کھول کر قہقہہ لگایا۔
زائر منہ پھولا کر آنکھیں موند گیا۔ اسے اس وقت کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
“خالہ آپ چلی جائیں گھر میں ہوں یہاں “۔فاطمہ کے اس کو گھر جانے کا کہنے پر وہ بولی۔
“ٹھیک ہے ” ۔ فاطمہ مسکراہٹ دباتے ہوئے جھک کر زائر کا ماتھا چوما۔ زائر نے جھٹ سے آنکھیں کھولی۔ فاطمہ کو ہنستے دیکھ کر وہ خود بھی ہنس پڑا۔
“آپ کا طعنہ سیدھا دل پر لگا ہے “۔
“لگنا تو دماغ پر چاہیئے تھا “۔ مریم بڑبڑائی۔
“جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پھر میں اپنے بیٹے کا ولیمہ دھوم دھام سے کروں گی “۔ فاطمہ جاتے جاتے بولی۔
“مریم بیٹا خیال رکھنا اپنا اور اس کا بھی “۔ مریم نے سر ہلا دیا۔ ان تینوں کے جانے کے بعد نرس اندر آئی۔
“یہ ڈرپ کب ختم ہو گی؟؟”۔ نرس نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“یہ تو ختم ہو جائے گی اس کے بعد پھر سے لگے گی اور آپ چپ چاپ اپنا علاج کروایں ۔۔۔ آپ کے دوست کہہ کر گئے ہیں کہ اگر آپ نے کچھ بھی ایسا ویسا بولا تو ہسپتال میں آپ کا قیام بڑھا دیا جائے ۔۔۔۔ “۔ نرس کے کہنے پر زائر نے دانت پیسے۔
“بےغیرت کہہ کر تو ایسے گئے ہیں جیسے میں فائیو سٹار ہوٹل میں ہوں “۔
“اب گردن کا درد کیسا ہے ؟؟”۔
“گردن کا ٹھیک ہے مگر کندھے اور بازو پر درد ہو رہا ہے “۔
“یہ دونوں زخم گہرے ہیں میں انجیکشن لگا دیتی ہوں ابھی ٹھیک ہو جائے گا”۔ مریم خاموشی سے دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔
نرس باہر جاتے ہوئے مریم کو ہدایات دے گئی تھی۔
“اب زخم کیسا ہے درد تو نہیں ہے ؟؟”۔ زائر آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا جب مریم کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولی اور سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا۔
“بہت جلدی خیال نہیں آ گیا میرے زخم کا ؟؟”۔ اس کی سنجیدہ آواز پر وہ چپ رہی۔ زائر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے آنکھیں موند گیا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی چھائی رہی جسے زائر کی آواز نے توڑا۔
“ٹھیک ہے اب “۔ وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے بولا۔ مریم بےساختہ مسکرائی۔ کوئی خول سا تھا جو دونوں طرف سے ٹوٹ رہا تھا۔
“میں ۔۔۔۔ میں بہت ڈر گئی تھی ۔۔۔ پتا نہیں کیسا احساس تھا جو میرے دل پر حاوی تھا ۔۔۔ مجھے آپ واقعی اچھے نہیں لگتے مگر میں دوبارہ کبھی اس تکلیف نہیں گزرنا چاہتی جو تکلیف کل میں نے سہی تھی”۔ وہ نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہی تھی۔ زائر مسکرایا۔
“کیوں ؟؟؟”۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
“اس کا جواب میں کبھی نہیں دوں گی “۔ وہ بھی مسکراتے ہوئے بولی۔
“میں بیمار ہوں اور بیمار لوگوں کی ہر خواہش پوری کرنی چاہیئے”۔
“میں خالہ والی بات دہراتی ہوں “۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولی۔ ( اس کا اشارہ طعنے کی طرف تھا)
“مجھے اس کا جواب چاہیئے”۔ وہ اس کی بات کو نظر انداز کر کے بولا۔
“گڈ نائٹ “۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولی۔ زائر نے خشگمیں نظروں سے اس کی طرف دیکھا جو پلٹ کر باہر کی طرف جا رہی تھی۔
※••••••※
سرخ اینٹوں کے بنے اس دیدہ زیب گھر کے اوپر والے کمرے میں پانچ انسانوں کے ہونے کے باوجود گہری خاموشی چھائی تھی۔ اونچی چھت اور خوبصورت شیشوں سے مزین یہ کمرہ نئی طرز تعمیر پر مشتمل جدید آسائشات سے لیس تھا۔ وسط میں لٹکتا فانوس اور اس کی تیز روشنی سورج کی روشنی سے مدغم ہو کر نگاہوں کو دہکائے دے رہی تھی۔
کھڑکی کے ساتھ پڑی بڑی سی کرسی پر وہ شان و شوکت سے بیٹھا وجود غیظ و غضب کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ سامنے صوفے پر اس کا بیٹا بیٹھا باپ کو اور کبھی سر جھکائے ان تین لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے لیے یہ سیچوئیشن بہت مزے کی تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔
“تم تینوں کو پندرہ سال سے پال رہا ہوں میں ۔۔۔۔ اپنا محنت سے کمایا ہوا پیسہ تم لوگوں پر لٹایا۔۔۔ حلال ، حرام ہر چیز دی ۔۔۔ اور یہ صلہ دیا ہے مجھے کہ میرا دشمن آج زندہ ہے ، اس کی سانسیں چل رہی ہیں اور کل کو وہ ٹھیک ہو کر پھر سے میرے پیچھے آئے گا”۔ اصغر خان غصے میں کرسی سے اٹھ کر ادھر سے ادھر چکر لگا رہا تھا۔
“اور موسیٰ تم ۔۔۔ ” وہ ان تینوں میں سے ایک کی طرف گھوما۔ موسیٰ آنکھیں نیچی کیے کھڑا تھا۔
“اس بات کا دعوا کر کے گئے تھے تم کہ بزدلوں کی طرح اس کے اوپر سے گولیاں گزاروں گے ؟؟؟ ہاں ؟؟ “۔ وہ اس پر چلایا۔
“ایم سوری سر “۔
“ڈونٹ سے سوری موسیٰ حیات ۔۔۔ اس لفظ سے مجھے سب سے زیادہ نفرت ہے ۔۔۔۔ اپنی غلطی کو درست کرو اور پھر میرے پاس آؤ ۔۔۔۔ “وہ انگلی اٹھا کر گویا ہوا سورج کی کرنیں چھن چھن کمرے میں پڑ رہی تھی۔
وہ چلتا ہوا موسیٰ کے پاس آیا جبکہ باقی دونوں سانس روکے اسے دیکھ رہے تھے۔ موسیٰ کی ٹائی کی نٹ درست کی ۔۔۔۔ شرٹ پر سے نادیدہ گرد جھاڑی اور جب بولا تو اس کا لہجہ سرد تھا۔
” پہلی بات تو یہ کہ غلطی ہی مت کیا کرو اور اگر کرو تو ۔۔۔۔ زور سے اس کی ٹائی کی نٹ ٹھیک کی کی موسیٰ کا سانس رک گیا مگر وہ نظریں اس پہ جمائے اسے سن رہا تھا۔
” تو اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنا سیکھو ورنہ بہت پچھتاؤ گے کیونکہ زندگی بار بار موقع نہیں دیتی “۔ اور ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔ ان تینوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا ان کے نکلنے کے بعد وہ کرسی پر گر سا گیا۔ اور ماتھے کو دو انگلیوں سے مسلنے لگا۔
اتنے سالوں کی محنت پر پانی پھر رہا تھا۔ دن بادن اس پر گھیرا تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ اسے کچھ نا کچھ ضرور کرنا تھا اور وہ بھی بہت جلد ۔۔۔۔ سیاسی رہنماؤں سے مدد حاصل کرنی تھی کس کس کو خریدنا تھا۔ کس جج کو فون کرنا تھا۔ وہ تمام پہلوؤں پر غور کر رہا تھا۔ جبکہ اس کا بیٹا سامنے بیٹھا غور سے باپ کے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا۔
※••••••※
زائر کو ہسپتال میں ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا۔ وہ سخت الجھن میں تھا۔ ڈاکٹر سے کئی دفعہ اس نے ڈسچارج ہونے کا کہا مگر وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ۔ اب تو اس کے زخم بھی بھرنے لگے تھے بس کندھے پر تکلیف تھی وہ بھی ایک دو دن میں ٹھیک ہو جانا تھا۔ آج اس کا پکا ارادہ تھا وہ ڈاکٹر سے بات کرے گا اگر ڈاکٹر نے ڈسچارج کر دیا تو ٹھیک ورنہ وہ بھاگ جائے گا ۔۔۔ وہ واقعی تنگ آ گیا تھا۔۔۔!!
اس کی باغیانہ سوچ کو بریک مریم کی آواز پر لگا۔ جو اس سے کھانے کا پوچھ رہی تھی۔
“مجھے نہیں کھانا کچھ بھی “۔ وہ منہ بنا کر بولا۔
“دو دن اور قیام بڑھ جائے گا یہاں سوچ لیجیے”۔ وہ پلیٹ اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔
“میں آج گھر جا رہا ہوں “۔ وہ اسے بتا رہا تھا۔
“اچھا “۔ مریم نے ناک پر سے مکھی اڑائی۔
“میں سچ کہہ رہا ہوں “۔ وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولا۔
“ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی “۔ وہ چائے پیتے ہوئے بولی۔ زائر یہ بات دن میں چھ سے سات بار کرتا تھا وہ جانتی تھی ابھی زائر بھی یہی ہے اور وہ خود بھی!!۔
عمر آیا تھا اور مریم اس کے ساتھ چلی گئی ۔اب اس نے شام کو آنا تھا۔
زائر کچھ دیر بستر پر لیٹا سوچتا رہا ۔ نرس اندر آئی ۔
“کیسی ہیں آپ ؟؟”۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
“ٹھیک ٹھاک آپ کیسے ہیں ؟؟”۔
“میری طبیعت تو آپ کو پتا ہو گی”۔ اس کی بات پر وہ ہنس دی۔
“اچھا ڈیوز کلئیر ہیں سارے میرے ؟؟”۔ وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
“جی آپ کے ڈیوز کلئیر ہیں “۔ وہ اسے میڈیسن دیتے ہوئے بولی۔
“اب آپ ریسٹ کریں “۔
“جی ضرور”۔ نرس کے جانے کے آدھے گھنٹے بعد وہ اٹھا وارڈ بوائز سے ہیلو ہائے کیا ۔۔۔ وہ سب سمجھے تھے کہ وہ نیچے واک کے لیے جا رہا ہے ۔۔۔۔ وارڈ بوائے اسلم اسے بےبسی سے دیکھ رہا تھا۔
زائر نے مرسلین کو کال ملائی۔
“اڈریس سینڈ کر رہا ہوں پانچ منٹ میں یہاں نا پہنچے نا تو چھٹے منٹ میں تانیہ بی بی کے ساتھ مسکرا مسکرا کر جو تصویریں بنائی تھی ہادیہ کے موبائل کی زینت بن جائیں گی ۔۔۔ پانچ منٹ”۔ زائر نے مرسلین کی ہیلو ، ہائے ، کیا کو نظر انداز کر کے فون بند کر دیا۔
مرسلین چوتھے منٹ میں ہی اس جگہ پہنچ گیا تھا۔ اور زائر کو مسلسل گھور رہا تھا جو اس کی گھوریوں کو نظر انداز کیے مسکرا کر گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔
“انتہائی خبیث انسان ہو تم ۔۔۔ انسانیت نام کی چیز تو ہے ہی نہیں تم میں ۔۔۔۔ ہسپتال سے بھاگ آئے ہو او میرے اللّٰہ !! لڑکے تمہیں اللّٰہ پوچھے ۔۔۔ اور یاد رکھنا اس بلیک میلنگ کو بھولوں گا نہیں ۔۔۔”۔ وہ جلے دل سے بول رہا تھا۔
زائر مسکراتے ہوئے اس کی بکواس سن رہا تھا۔
گھر میں سب معمول سے کاموں میں مصروف تھے زائر کو گھر میں دیکھ کر سب کو ہی جھٹکا لگا۔
“خوش ہوں جائیں موم آپ کا سپوت گھر آ گیا ہے اف بہت مشکل راستے تھے مگر شکر ہے میرے دوست کا جس نے میری مشکل حل کر دی ۔۔۔۔ تھینک یو مرسلین “۔ فاطمہ کے گھورنے پر مرسلین بکھلا گیا۔
مریم نیچے آئی تو نیچے کا منظر دیکھ وہ بھی حیرت زدہ تھی۔
زائر نے مسکرا کر اسے دیکھا اور کمرے میں چلا گیا ۔مریم نے اسے گھورنے پر اکتفا کیا۔
“اس شخص کا کچھ نہیں ہو سکتا” ۔ سوچتے ہوئے وہ کچن کی طرف چلی گئی۔ جبکہ مرسلین فاطمہ کو ابھی تک صفائیاں دے رہا تھا۔
زائر اپنی پڑھائی کے سلسلے میں ہوسٹل میں رہتا تھا۔ رجب علی لاہور میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتے تھے ۔ چھٹیوں میں جب بھی مریم ان کے گھر آتی تھی زائر اس وقت ہوسٹل میں ہی ہوتا تھا۔ ان دونوں کا آمنا سامنا بہت کم ہوتا تھا۔ مریم کے میٹرک کے پیپرز کے بعد رجب علی اسلام آباد شفٹ ہو گئے تھے۔ زائر تب تھرڈ ائیر میں تھا۔ دو سال ایسے ہی گزر گئے مریم کی ایف ایس کے بعد وہ تین ماہ فاطمہ کے گھر رہی تھی۔ اسی دوران رجب علی اور شائستہ عمرہ کرنے گئے تھے۔
عمر اور صائم کے ساتھ کھیلنا کودنا، فاطمہ کے ساتھ کھانا بنانا وہ یہی کرتی رہتی تھی۔ زائر چھیٹوں میں گھر آیا اس دن وہ تینوں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ مریم کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گیا تھا۔
“یہ اتنی بڑی ہو گئی ہے “۔ وہ حیرت سے سوچ رہا تھا۔ اس کی نظریں بار بار بھٹک کر اس کی طرف جا رہی تھی۔ وہ اسے ایک کزن کی حثیت سے ہی ٹریٹ کرتا تھا۔ اس نے سر جھٹک کر اس احساس سے پیچھا چھرانا چاہا۔
کھانے کے بعد سب ہی بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے۔ زائر چپ چاپ اس پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ مریم نے کسی احساس کے تحت سامنے دیکھا زائر بند مٹھی ہونٹوں پر ٹیکائے بیٹھا تھا۔ مریم کے دیکھنے پر اس نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر فاطمہ سے باتوں میں مصروف ہو گیا۔
مریم نے کندھے اچکائے اور پھر سے عمر کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئی۔
عباس صاحب نے اس کا رشتہ طے کر دیا تھا مریم کے ساتھ یہ بات اسے بہت دیر بعد پتا چلی تھی۔
” ابو کی پسند ہے میں کون ہوتا ہوں اعتراض کرنے والا”۔ فاطمہ کے بات کرنے پر اس نے لاپرواہی سے کہہ دیا۔
عباس صاحب کی وفات کے بعد وہ بہت زیادہ ٹوٹ چکا تھا عباس صاحب نے اس کی پڑھائی کے دوران اس پر کبھی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی تھی۔ عباس صاحب کی وفات کے بعد سارے گھر کی ذمہ داری اس پر آ گئی تھی۔ اپنی ذمہ داریوں کے دوران وہ کچھ سنجیدہ ہو گیا تھا مگر عمر اور صائم کے ہوتے ہوئے اس کی سنجیدگی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پائی تھی۔
مریم گزرتے وقت کے ساتھ کچھ تلخ ہو گئی تھی۔ زائر کے جانے پر وہ ہمیشہ اسے نظر انداز کرتی تھی۔ زائر کے لیے اس کا رویہ ایک معما تھا جو بہت جلد حل ہونے والا تھا۔
زائر مرسلین اور احمد ریستورانٹ میں بیٹھے تھے جب زائر کی نظر سامنے اٹھی ۔ غصے کی ایک تیز لہر اس کے دل میں اٹھی تھی جسے وہ بمشکل دبا سکا۔ مریم دو لڑکیوں اور تین لڑکوں کے ساتھ بیٹھی تھی پورے ہال میں ان لوگوں کے قہقہے گونج رہے تھے ۔ زائر نے مٹھیاں بینچ کر بمشکل اپنا غصہ دبایا۔ وہاں سے واپسی پر وہ سیدھا مریم کے گھر گیا تھا۔
چار بجے مریم گھر آئی تھی زائر نے ایک ناگورا نظر اس پر ڈالی۔ خالہ کچن میں کام کر رہی تھی وہ مریم کے کمرے میں دستک دے کر داخل ہوا۔
مریم نے حیرت سے اسے دیکھا ۔
“آئیں بیٹھے “۔ وہ اپنی حیرت دبا کر بولی۔
“آج تم کہاں گئی تھی؟؟”۔
“میں یونیورسٹی سے آ رہی ہوں “۔ وہ ناگواری سے بولی۔
“اچھا یونیورسٹی کی کلاس اب ریستورانت میں بھی ہوتی ہیں ۔۔۔ واؤ مجھے لیے نئی خبر ہے یہ “۔ وہ طنز سے بھرپور لہجے میں بولا۔
مریم نے پرسکون انداز میں اس کی طرف دیکھا۔
“میں اپنے دوستوں کے ساتھ تھی میری دوست کی سالگرہ تھی اس نے ٹریٹ دی تھی ہمیں “۔
“ٹریٹ یونیورسٹی میں بھی دی جا سکتی ہے ضروری نہیں ہے کہ ریستورانٹ میں اونچے قہقہے لگا کر ہی ٹریٹ دی جائے ۔۔۔ اپنی دوستوں کو یونیورسٹی کے اندر ہی رکھو ۔۔۔۔ یہ ہمارے خاندان کی روایت نہیں ہے کہ لڑکی سڑکوں پر گھومتی پھرے اور لڑکوں کے ساتھ اونچے اونچے قہقہے لگائے ۔۔۔ بی کیئر فل نیکسٹ ٹائم !!”۔ زائر ناگواری سے بولا۔ کہیں نا کہیں اس کے لہجے میں اپنے رشتے کا استحقاق آ گیا تھا۔
مریم لب بینچے اسے سن رہی تھی۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہیں نا کہیں اس کے دل میں زائر کا ڈر موجود تھا اسی لیے وہ اسے چپ چاپ سن رہی تھی۔
اس کے بعد مریم نے زائر کے سامنے جانا اور کم کر دیا تھا۔ وہ ان کے گھر بھی زائر کی غیر موجودگی میں ہی جاتی تھی۔
فاطمہ نے جب اس سے شادی کی بات کی اس وقت وہ واقعی شادی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک کیس کے سلسلے میں وہ بری طرح پھنسا ہوا تھا وہ نہیں جانتا تھا یہ معاملہ کب حل ہو گا فاطمہ کے سامنے اس نے بہانا بنانے کی کوشش کی مگر فاطمہ نے اس کی ایک نہیں چلنے دی ۔۔۔۔ وہ پہلے ہی اس وجہ سے ڈسٹرب تھا اوپر سے مریم کی کال ۔۔۔۔ !!
اس کی بات سن کر وہ اور بھڑک اٹھا تھا۔ ٹھیک ہے اس کی بھی مرضی شامل تھی مگر یہ رشتہ اس کا باپ طے کر کے گیا تھا وہ نہیں جانتا تھا مریم کے انکار کی وجہ کیا تھی مگر اسے بہت غصہ آیا تھا ۔
وہ مریم کو سنانے کے لیے اکثر یہ کہتا تھا ۔
“آہ !! ابو آپ کہاں پھنسا گئے مجھے !!”۔ اس کی دہائی پر مریم غصے سے بھڑکتی اس جگہ سے ہی اٹھ جاتی تھی۔۔۔”
“زائر چائے !!”۔ مریم کی آواز پر وہ چونک کر اپنی سوچوں کے حصار سے باہر آیا۔
“تھینک یو ۔۔۔ لیپ ٹاپ پکڑانا مجھے “۔
“خالہ نے مجھے سختی سے منع کیا ہے آپ کو کام نہیں کرنے دینا ۔۔۔ سوری ۔۔۔”۔ وہ کندھے اچکا کر بولی۔
“کبھی شوہر کی بھی مان لیا کرو لڑکی”۔
“ساس کی نہیں مانو گی نا تو شوہر کو ہی پروبلم ہو گی اسی لیے ساس کا حکم پہلے !!”۔ مریم مسکراہٹ دبائے بولی۔
“تم کتنی چالاک ہو مریم ۔۔۔۔ اتنا بڑا دھوکا دیا ہے مجھے تم نے ۔۔۔ دل توڑ دیا ہے میرا !!”۔ زائر افسوس سے بولا۔
مریم بےساختہ ہنس دی ۔
※••••••※
مرسلین گھر آیا تو سب سو رہے تھے ہادیہ صوفے پر بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ مرسلین اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت میں گھر گیا۔
ہائے !! وہ دھپ سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
“وعلیکم اسلام !!”۔ وہ کتاب پر نظریں جمائے بولی۔
“تم میرا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ یو نو مجھے بہت اچھا لگا ہے “۔
ایکسکیوز می!! ہادیہ نے بےساختہ کتاب سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
“معاف کیا !!”۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
“میں یہ کتاب پڑھ رہی تھی ہنہ تمہارا انتظار !!”۔
“بہانا بھی تو چاہیئے تھا تمہیں !!”۔ وہ آہستگی سے بڑبڑایا۔ ہادیہ نے تیز نظروں سے اسے گھورا۔
“اچھا ایک کپ کافی تو بنا دو “۔ ہادیہ جانے لگی تھی جب مرسلین جلدی سے بولا۔
ہادیہ جھنجھلا کر کچن میں چلی گئی۔
“اب تو امی سے بات کرنی ہی پڑے گی یہ لڑکی تو ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے “۔ مرسلین آہستگی سے بڑبڑایا۔
ہادیہ نے کافی کا کپ اسے پکڑایا۔
“شکریہ خاتون”۔
“مرسلین تم اتنی رات تک آفس میں کیا کرتے ہو تمہارا پروگرام تو دس سے گیارہ ہوتا ہے صرف تین دن ۔۔۔ ایک بجے تک کون سا آفس چلاتے ہو؟؟”۔ ہادیہ نے کتاب سے نظریں ہٹا کر اس سے پوچھا۔
“امریکا کے صدر کے خلاف جوابی ٹویٹ سوچتا رہتا ہوں “۔ وہ جل کر بولا۔
“کبھی انسانوں کی طرح بھی جواب دے دیا کرو “۔
“سوال بھی تو ویسے ہی پوچھا کرو “۔ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
ہادیہ نے برا سا منہ بنایا اور اسے نظر انداز کیے اقبال کی کتاب ” کلیات اقبال ” پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔
※••••••※
اصغر خان اپنے آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا جب موسیٰ دستک دے کر اندر داخل ہوا۔ اس نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔ اور کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور پین کو ہاتھوں میں گھومانے لگا۔
“آؤ موسیٰ !!”۔
“سر کام نہیں ہو سکا”۔ اصغر خان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
“مجھے معاف کر دیں سر میں نے بہت کوشش کی مگر کام نہیں کر سکا۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ پورے ملک میں یہ خبر پھیل چکی ہے آپ کے خلاف بھی اور اس پر اٹیک کی بھی ۔۔۔۔ میں پہلے بھی اس کے حق میں نہیں تھا مگر خیر ۔۔۔(اس کا اشارہ زائر پر حملہ کرنے کی طرف تھا)۔
ایک غلطی پہلے ہم سے ہوئی۔۔۔۔۔ دوسری بات پولیس اور باقی اداروں کی نظر میں آپ مجرم ہیں وہ آپ کے خلاف کاروائی کرنے سے پہلے ایک سیکنڈ نہیں سوچے گے اب آپ کو کچھ دوستوں کی مدد حاصل ہے اس لیے کوئی آپ کے خلاف نہیں اٹھ رہا ۔۔۔ اصغر خان سنجیدگی سے اسے سن رہا تھا۔
” تیسری بات پولیس ہر وقت اس کے گھر کے باہر ہوتی ہے اسی لیے مجھ سے یہ نہیں ہو سکا۔۔ ایک ریزن یہ بھی تھا کہ اب کی بار ڈایریکٹ وہ لوگ آپ کو پکڑیں گے “۔ موسیٰ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اس نے گہری سانس لی ۔
“مجھے خوشی ہے تم نے اتنا کچھ سوچا ۔۔۔ یہ باتیں میرے ذہن میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔ مگر موسیٰ یہ کام تم نے ہی کرنا ہے آج کرو یا کل مجھے وہ لڑکا زندہ نہیں دیکھنا ۔ تم سمجھ چکے ہو میری بات کو ۔۔”۔
“جی سر انشااللّٰہ آپ کو بہت جلد یہ خوشخبری ملے گی “۔
“اب تم جا سکتے ہو “۔ وہ کہہ کر دوبارہ سے اپنی فائلوں میں گم ہو گیا۔
“سر وہ عمیر صاحب ۔۔۔۔” موسیٰ جھجھک کر بولا۔
“ایک تو یہ لڑکا بھی نا تنگ کر کے رکھا ہوا ہے اس نے ۔۔۔ اب کیا تکلیف ہے اسے؟؟”۔
“سر وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ان کی ٹکٹ کنفرم کروا دوں “۔
“اس لڑکے کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ۔۔۔ تم جاؤ اور اس کی ایسی کسی بیوقوفی کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے میں دیکھ لیتا ہوں اسے “۔
“جی بہتر سر “۔ اس کے جانے کے بعد اصغر خان اپنے بیٹے کے متعلق ہی سوچ رہا تھا۔
※••••••※
فاطمہ ، شائستہ اور رجب علی اپنے کسی رشتہ دار کی شادی میں گئے تھے۔ زائر کی طبعیت اب بہتر تھی تین ہفتوں بعد اس نے آفس جانا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت بھی وہ آفس میں ہی تھا۔ عمر سویا ہوا تھا جبکہ صائم اور مریم ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔
“آپ کو کیا ملتا ہے ان ڈراموں سے حالانکہ ہمارے گھر ان ڈراموں سے بڑے ڈرامے موجود ہیں “۔ کافی پیتے ہوئے صائم بولا۔
“آنے دو عمر کو بتاتی ہوں “۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
“میں آپ کے شوہر کی بات کر رہا ہوں “۔ صائم مسکراہٹ دبائے بولا۔ مریم نے اسے گھور کر دیکھا۔
“میں اپنے شوہر کے خلاف ایک لفظ نہیں سنو گی “۔ وہ مصنوعی خفگی سے بولی۔
“اتنی اچھی ہیں آپ ۔۔۔ ہاؤ سویٹ”۔ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
اسلام علیکم !! زائر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
“آج تو بہت جلدی آ گئے ہیں “۔
“کہو تو واپس چلا جاؤں “۔ وہ جل کر بولا۔
“نہیں خیر اب آ گئے ہیں تو ٹھیک ہے “۔ وہ ہنستے ہوئے بولی صائم بھی ہنس دیا۔
“کھانا؟؟ “۔ زائر چینج کر کے آیا تو وہ صائم غائب تھا جبکہ مریم ہنوز ٹی وی کے آگے موجود تھی۔
“آج کھانا تو بنایا ہی نہیں “۔ وہ مصومیت سے بولی۔
“کیوں ؟؟”۔ وہ حیرت سے بولا۔
“پہلے تو خالہ بناتی تھی وہ بھی شادی پہ چلی گئی ہیں میں اکیلی کیسے بناتی “۔
“شاباش !! اب ہم بھوکے مریں گے “۔
“کیوں بھوکے کیوں مریں گے ۔۔۔ ابھی چلے کچن میں دونوں مل کے کھانا بناتے ہیں “۔ وہ چٹکی بجاتے ہوئے بولی۔
“میڈیم میں اینکر ہوں مجھے وہی رہنے دیں شیف مت بنائیں “۔
چلیں !!
“کیا یار مجھے کہاں بنانا آتا ہے کھانا “۔ وہ جھنجھلا کر بولا۔
“ہاں جیسے میں تو جانتی نہیں ہوں نا کہ دبئی میں کون کھانے بناتا تھا “۔
“کیا کھانا چاہتی ہیں ملکہ عالیہ “۔ زائر شیلف سے ٹیک لگائے سینے پر بازو باندھے اس پر نظریں جمائے مسکراتے ہوئے بولا۔
“میں بریانی کھانا پسند کروں گی “۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ بولی۔
“اوکے آج آپ اینکر پرسن زائر عباس کے ہاتھ کی بنی ہوئی بریانی کھائیں گی “۔ شرٹ سے بازو فولڈ کرتے ہوئے وہ مختلف چیزیں نکال نکال جر رکھتے ہوئے بولا۔
“”شیف زائر عباس “۔ مریم نے اس کی تصیح کی۔
“ہاں ہاں وہی “۔ وہ لاپرواہی سے بولا۔
مریم کرسی ہر بیٹھی بند مٹھی چہرے سے ٹیکائے مسکراتے ہوئے زائر کو دیکھ رہی تھی ۔ جس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔
ایک گھنٹے بعد جب مریم کھانا ٹیبل پر لگا رہی تھی عمر اور صائم اکٹھے دھمک آئے ۔
“آج تو بہت خوشبویں اٹھ رہی ہیں “۔ عمر بیٹھتے ہوئے بولا۔
“آج سپیشل بریانی بنی ہے شیف زائر کے ہاتھ کی “۔
“واؤ بہت دیر بعد ہم بھائی کے ہاتھ کا کھانا کھائیں گے “۔ عمر نے جھٹ سے پلیٹ اپنی طرف کھسکائی۔ اور پھر تینوں زائر کا انتظار کیے بغیر کھانے میں مشغول ہو گئے۔
※••••••※
اصغر خان اپنے کمرے میں تھا جب زور دار آواز میں دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا۔ اس نے ناگواری سے دروازے کی طرف دیکھا۔
“تمیز سے عمیر خان جوش انسان کو کبھی کوئی کامیابی نہیں دیتا۔۔۔۔۔ جوش کے ساتھ ہوش بھی ہونا چاہیے تو کامیابی آپ کے قدموں میں آ گرتی ہے ۔۔۔ اسی لیے ذرا ہوش سے کام لو “۔
“پاپا میں ہوش میں ہی ہوں اور اپنے پورے ہوش و حواس میں کہہ رہا ہوں مجھے پاکستان جانا ہے آپ نے موسیٰ کو کیوں منع کیا تھا “۔ وہ غصے سے بولا۔
اصغر خان نے سنجیدگی سے اپنے بیٹے کو دیکھا جو شدید غصے میں تھا۔ اس کا بس نہیں تھا چل رہا ورنہ وہ کیا کر ڈالتا۔۔۔۔!!
“وجہ ؟؟ تم مجھے وجہ بتاؤ پاکستان جانے کی ۔۔۔ سارے حالات تمہارے سامنے ہیں ہر کیس میں تمہیں بھی انوولو کیا جا رہا ہے نیب بھی ہمارے خلاف کیسز تیار کر رہی ہے اگر تم پاکستان جاؤ گے تو ائیرپورٹ پر ہی تمہیں پکڑ لیا جائے گا ۔۔۔ ان حالات میں تم کیا کرو گے اور میں کیا کروں گا اس بات کا جواب ہے تمہارے پاس۔۔۔ تمہاری ماں یہاں بیمار ہے جسے تمہاری ضرورت ہے اور تم سب چھوڑ چھاڑ کر خود کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کرو گے کہ آؤ اور مجھے پکڑ لو۔۔۔۔”۔ وہ طنز سے بھرپور لہجے میں بولا۔
“مگر مجھے جانا ہے پاپا اور ممی کے پاس ہیں آپ ۔۔۔ آپ ان کا خیال رکھ سکتے ہیں اور صرف ایک ہفتے کی بات ہے “۔
“عمیر پاگل مت بنو !! میرا ایک ہی بیٹا ہے جسے کھونے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے فار گاڈ سیک عمیر پاکستان جانے کا خیال کیوں تمہارے دل میں آیا ہے۔۔۔ ون منٹ !! کہیں کسی لڑکی کا تو مسئلہ نہیں ہے؟؟”۔
“او پلیز پاپا ایسا کچھ نہیں ہے “۔
“پھر یہ بھوت کیوں تمہارے سر پر سوار ہے “۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
“اس کا جواب میں آپ کو بعد میں دوں گا مگر اتنا یقین رکھیں کہ آپ کا بہت بڑامسئلہ حل ہو جائے گا “۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
“تمہارے گرفتار ہونے سے میرا مسئلہ حل ہو گا؟؟”۔ ان کے طنز پر وہ دل کھول کر ہنسا۔
“پاپا جب آپ کا پروبلم حل ہو گا بلکہ یوں کہنا چاہیے آپ کے راستے کا سب سے بڑا کانٹا نکلے گا “۔
“تم کیا کرنے والے ہو عمیر ؟؟”۔
“سرپرائز پاپا ۔۔۔۔ یہ سرپرائز ہے اور آپ کو بہت جلد ملے گا۔۔۔ بیلیو می !! بس آپ میرا پاکستان جانے کا انتظام کر دیں “۔ عمیر کہہ کر باہر نکل گیا جبکہ اصغر خان کی پرسوچ نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔
※••••••※
فاطمہ کے آنے کے بعد ولیمہ کی تقریب رکھی گئی تھی۔ سارے رشتہ داروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ احمد اور مرسلین ہر کام میں پیش پیش تھے ہر دو منٹ بعد آنے والی “عمر” نام کی پکار عمر کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رہی تھی ۔ فاطمہ نے اسے صبح سے کاموں میں لگایا تھا۔ اور وہ جلتا بھنتا ہر کام کر رہا تھا۔ کبھی ہوٹل کے چکر تو کبھی بازار کے ۔۔۔۔ !!
مریم کی ساری شاپنگ فاطمہ اور ہادیہ کر رہی تھی۔ مریم شائستہ سے ملنے گئی ہوئی تھی ۔
عمر پورے گھر میں جھنجھلایا ہوا پھر رہا تھا اس کے کپڑے صائم نے کہیں رکھ دیئے تھے اور صائم غائب تھا۔ پورے گھر میں اس نے ڈھونڈھ لیے تھے مگر کپڑے نادارد۔۔۔!! وہ صوفے پر بیٹھا صائم کا نمبر ملانے میں مصروف تھا جب زائر وہاں آیا۔
عمر میری ٹائی کہاں ہے؟؟ زائر اُس کو دیکھتے ہی گویا ہوا۔
“میں آپ کی ماں نہیں ہوں ۔۔۔ جائیں اور خود ڈھونڈھیں۔۔۔ حد ہو گئی ہے آپ سب نے تو نوکر ہی سمجھ لیا ہے مجھے میں بھائی ہوں آپ کا میرے کپڑے نہیں ہے اس کی فکر نہیں ہے اور اپنی ٹائی ڈھونڈھتے پھر رہے ہیں ۔۔۔۔!!” وہ جل کر بولا۔ زائر اسے گھورتے ہوئے واپس پلٹ گیا۔
“عمر آنٹی بلا رہی ہیں تمہیں ۔۔۔”۔ اس کا کزن اس سے بولا۔ عمر نے اسے گھور کر دیکھا۔
یااللّٰہ میرے حال پہ رحم کر اور ان لوگوں کو ہدایت دے جو تیرے ایک خوبصورت سے بندے کو مارنے پہ تلے ہیں۔۔۔ یااللّٰہ ان سب کی آنکھوں میں عمر کی جگہ صائم کی تصویر ڈال دے اور ان کے منہ سے صائم کا نام ہی نکلے ۔۔۔۔ مجھے یہ بھولے سے بھی یاد نا کریں اور میرے کپڑے بھی مل جائے صائم تمہیں اللّٰہ پوچھے !! کون سی دشمنی نکالی ہے مجھ سے ۔۔۔۔ !!”۔ اس کی دہائی پر اس کے سارے کزنز کا قہقہہ بےساختہ تھا۔
“آپ لوگ ابھی یہی ہیں ؟؟”۔ صائم کی آواز پر عمر نے بےساختہ گردن گھما کر اسے دیکھا۔ وہ دروازے کے بیچ حیرت سے ان سب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بلیک پینٹ کوٹ پہنے ، بال ماتھے پہ پیچھے کو سیٹ کیے ، اپنی پرکشش آنکھیں ان سب پہ جمائے جن میں حیرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ، دفعتاً وہ دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھائے پیچھے ہوئے بولا۔
“آئی ایم سوری !! “۔ عمر مسلسل اسے گھور رہا تھا۔
“مجھے بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ تمہارے کپڑے میرے کمرے میں ہوں گے ورنہ میں کبھی روم لاک نا کرتا ۔۔۔۔ سوری “۔ صائم کہہ کر فوراً اوپر بھاگا۔ جبکہ باقی سب تیار ہو کر ہوٹل پہنچ چکے تھے۔
ولیمے کی خوبصورت تقریب رات گئے تک اپنے اختتام کو پہنچی تھی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...