میرو کو گئے آج 5 دن ہو گئے تھے علایا مسلسل میرو کے نا آنے سے پریشان تھی اسے روز وہ جلاد نما غنڈہ کھانا دے کر چلا جاتا تھا اور اسکی اس ڈراؤنے سے غنڈے سے یہ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی کہ میرو کہاں ہے اور کیوں نہیں آرہا ۔آج بھی وہ غنڈہ کھانا رکھ کر چلا گیا اور علایا اسے جاتا دیکھتی رہ گئی آج اسکا دل بہت اداس تھا کیونکہ اسکی زندگی میں آنے والا وہ واحد انسان جو اسے خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا اک دم سے اسکی زندگی سے بنا بتائے غائب ہو گیا تھا علایا کو اس ہمدرد انسان کی کمی کا احساس اتنی شدت سے ہوا کے وہ بلا ارادہ ہی رو پڑی۔
وہ گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی کہ اچانک پھر سے دروازہ کھلنے کی آواز پر علایا نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو سامنے میرو کھڑا تھا ۔
علایا میرو کو دیکھ کر دیوانوں کی طرح بھاگ کر اسکے پاس آئی کہاں رہ گئے تھے آپ کتنا پریشان رہی میں آپکو اس بات کا کوئی احساس بھی ہے؟؟؟
علایا اپنی دھن میں پتہ نہیں کیا لیا بولی جا رہی تھی اور میرو حیران سا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔
علایا نے جب میرو کو چپ سا کھڑا دیکھا تو تھوڑی شرمندہ ہوئی کہ وہ دیوانوں کی طرح کیا کیابولی جارہی ہے ۔
سچ تو یہ تھا کہ علایا نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اسے ایسا کوئی انسان نہیں ملا تھا جو اسے اتنی توجہ اور عزت دیتا ہو اس سے گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرے کچھ اپنی کہے کچھ اسکی سنے میرو کی شکل کی میں اسے ایسا انسان پہلی بار ملا تھا وہ چند ہی دنوں میں اسکی عادی ہو گئی تھی اب اسکے اتنے دن نا آنے سے وہ بہت بے چین اور اداس ہو گئی تھی اور جیسے ہی اسے اپنے سامنے دیکھا تو سو طرح کے سوال کر ڈالے ۔
معذرت چاہتا ہوں اتنے دن نہیں آپایا کچھ ضروری کام آگیا تھا ۔
جی کوئی بات نہیں علایا نے سر جھکا کر کہا ۔
آپ ناراض ہو ؟؟؟ میرو نے تھوڑا جھک کو علایا کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی ۔
ارے نہیں میں کیوں ہونے لگی آپ سے ناراض میں تو بس یہاں اکیلی تھی اتنے دن سے تو تھوڑا اداس ہو گئی تھی اور دوسرا آپکی کچھ خیر خبر بھی نہیں تھی علایا نے اپنی کچھ دیر پہلے کی حالت پے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا ۔
اور ویسے بھی مجھے کوئی حق نہیں آپ سے ناراض ہونے کا علایا نے اک بار پھر سر جھکا کر کہا ۔
اب تو صرف آپ ہی کو تو حق ہے مجھ پر میرو نے بہت آہستگی سے کہا پھر بھی علایا کے کانوں تک اسکی آواز پہنچ گئی تھی ۔
جی ؟؟؟
کیا کہا آپ نے؟؟؟
علایا نے پھر بھی تصدیق کرنی چاہی کہ شاید اسے غلط فہمی ہوئی ہو ۔
ہہہہہن میں نے؟؟؟
میں نے تو کچھ نہیں کہا میرو گڑ بڑا سا گیا ۔
نہیں جی آپ نے ابھی کہا کہ آپ ہی کو تو حق ہے مجھ پر صرف بتائیں اسکا مطلب بتائیں بتائیں علایا بچوں کی طرح ضد کرنے لگی ۔
اففف بول کر پھنس گیا میرو اب تو میرو نے دل میں سوچا۔۔۔
وہ آپ میری اتنی اچھی فرینڈ جو بن گئی ہو اس لئے اور دوستوں کو تو حق ہوتا اپنے دوست پر بس یہ ہی کہا میں نے کے آپ دوست ہو میری آپکو حق ہے مجھ پر بس میرو نے جلدی سے بات بنائی ۔
اوہ اچھا معصوم سی علایا فورا ہی اسکے بات بنانے کو سچ سمجھ گئی اور اسکی کبھی ضد اور کبھی فورا مان جانے والی عادت نے ہی میرو کا دل چرا لیا تھا ۔
اچھا بتائیں آپ نے کھانا کھا لیا ؟؟؟ میرو نے بات بدلی
جی دل نہیں کر رہا تھا کھانے کو پر اب آپ آ گئے ہیں تو مل کے کھاتے ہیں ہم دونوں علایا نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔
ہاں جی مل کے کھائیں گے پر ہم دونوں نہیں ہم تینوں میرو نے مسکرا کر کہا تو علایا اسکی بات سن کے الجھن کا شکار ہوئی ہم تینوں مطلب؟؟؟
بتاتا ہوں پر پہلے آپ وعدہ کریں آپ میری بات توجہ سے سنیں گی اور پچھلی بار مجھے ضروری کال آگئی تھی جسکی وجہ سے مجھے جانا پڑا تھا علایا اب آپ وعدہ کریں گی تو ہی بات شروع کروں گا میں , اتنا کہہ کر میرو چپ ہو گیا ۔
میرو آپ نے میرا اتنا خیال رکھا اتنا تو کوئی اپنا بھی نہیں کرتا جتنا آپ نے میرے لئے کیا ,میں آپکی بات سنوں گی بھی اور عمل بھی کروں گی اک اچھے دوست کی طرح علایا نے بہت ہی عزت کے ساتھ کہا ۔
اور وہ شخص عزت دیے جانے کے قابل بھی تھا اتنا تو علایا جان ہی گئی تھی اتنے دنوں سے جو شخص اک اغواء کی گئی لڑکی کو اتنی عزت دے رہا تھا وہ یقینا اک با کردار اور نیک دل انسان تھا اسی لئے علایا نے اسکی بات سنے بنا ہی مان بھی لی تھی ۔
مجھ نا چیز کو اتنا مان اور عزت دینے کا شکریہ میرو نے مسکرا کر کہا بات یہ ہے کے زندگی میں ہر انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں کچھ غلطیاں بہت بڑی بھی ہوتی ہیں جن کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا جس انسان نے آپکو دکھ پہنچایا ہو اسے معاف کرنے کا حوصلہ کسی کسی میں ہوتا ہے پر یاد رکھنا علایا معاف کرنے والا انسان اللّہ کو بہت پسند ہے کیونکہ میرے رب کی عظیم صفات میں سے اک صفت بار بار معاف کرنے کی ہے اور آپکو پتہ ہے کہ اللّہ پاک اپنے اس بندے کو بہت پسند کرتا جو معاف کرنے والا ہو۔میں آج آپکے سامنے بھی معافی کی درخواست کرنے آیا ہوں پلیز معاف کردیں میرو نے بڑی امید سے کہا ۔
آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا آخر کس کو معاف کر دوں میں ؟؟؟ علایا نے نا سمجھی کے عالم میں کہا ۔
اپنے بابا کو ! دھیمی آواز میں کہہ کر میرو نے سر جھکا لیا ۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میرو نے دوبارہ بات شروع کی علایا میں جانتا ہوں آپکا دل بہت دکھا ہے ہمیشہ,آپکے بابا نے کبھی آپکو وقت نہیں دیا بچپن میں جب آپکو انکی ضرورت تھی تو وہ آپ سے دور رہے پر وہ اب اپنے کئے پر شرمندہ ہیں ۔
میں جانتا ہوں انکی وجہ سے آپکی جنت آپکی امی آپ سے چھن گئیں پر علایا اب وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ ہیں اور دکھی ہیں انہیں آپکی ضرورت ہے علایا ماں اگر جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ اور وہ خود چل کر آئیں ہیں آپ سے معافی مانگنے معاف کر دیجئے انہیں۔
ان سب باتوں کے بعد جب میرو نے علایا کا چہرہ دیکھا تو وہ آنسوؤں سے تر تھا شاید اسے اپنے ساتھ ہوئی بچپن سے لیکر اب تک کی سب زیادتیاں یاد آ گئیں تھیں کہ کیسے اس کے بابا اسکے سامنے مشاء اور ہادی کو تو گود میں لیتے تھے پر اسے کبھی نہیں اٹھاتے تھے ۔نا ہی کبھی اسکا حال تک پوچھا انہوں نے
میں نے بابا کو معاف کیا بہت رونے کے بعد علایا کے منہ سے یہ الفاظ بمشکل ادا ہوئے ۔
میرو اسی وقت اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اسکے ساتھ علایا کے بابا سیٹھ شہاب الدین بھی تھے ۔
علایا سر جھکا کر بیٹھی تھی کہ اچانک اسے اپنے سر پر کسی کے ہاتھ رکھنے کا احساس ہوا اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس کے سامنے اسکے بابا کھڑے تھے بنا کچھ بولے انہوں نے علایا کو سینے سے لگالیا اور علایا جو بچپن سے جوانی تک باپ کی شفقت کو ترسی تھی اپنے بابا کے سینے میں منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی بیٹا اپنے باپ کو معاف کردو میں تمہارا مجرم ہوں میری وجہ سے تم سے تمہاری ماں دور ہو گئی ۔
پتہ نہیں وہ مجھے روز محشر معاف کرے گی کہ نہیں کم از کم تم تو اپنے بابا کو معاف کردو بیٹا میں اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہوں تمہاری ماں کے جانے کے بعد مجھے کبھی سکون میسر ہی نا آیا یہ مکافاتِ عمل ہی ہے کہ میں نے اسکی قدر نہیں کی اور آج سلمہ بیگم میری قدر نہیں کرتی
میں بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں بیٹا بہت دکھی ہوں اپنے بابا اور ملیحہ کا دل دکھانے کی سزا مل رہی ہے مجھے معاف کردو معاف کردو معاف کردو بولتے بولتے سیٹھ شہاب الدین کی آواز رندھ گئی اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر انہوں نے علایا کے آگے ہاتھ جوڑ دیے اپنے بابا کے جڑے ہاتھوں کو دیکھ کر علایا تڑپ کر رہ گئی اور روتے ہوئے آگے بڑھ کے انکے ہاتھوں پر بوسہ دیا ,بابا آپ مجھے گناہ گار نا کریں پلیز
میں نے آپکو معاف کیا علایا نے انکے ہاتھوں کو آنکھوں سے لگا کر کہا ۔
چلیں بس اب کوئی نہیں روئے گا اور ہم سب مل کر کھانا کھائیں گے اور خوب ساری باتیں کریں گے میرو جو کب سے کھڑا یہ ساری کاروائی خاموشی سے دیکھ رہا تھا بیچ میں بول پڑا ۔
جی بلکل علایا نے اپنے اور اپنے بابا کے آنسو پونچھ کر کہا۔
مشاء کی عادت بچپن ہی سے بہت خراب تھی ماں باپ کے لاڈ پیار نے اس کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر کسی نہ کسی بات پر ضد کر کے ناراض ہو جاتی تھی سب سے” آج بھی صبح ہی صبح وہ اپنی ماما سلمہ بیگم سے الجھ رہی تھی ماما آپ نے مجھے کینیڈا نہیں جانے دیا نا
اور ہادی بھائی کو اک بار کہنے پر سپورٹس کار لے دی مجھ سے تو آپکو بلکل بھی پیار نہیں
میری کوئی بات نہیں مانی جاتی اس گھر میں ۔
مشاء بیٹا کیا پاگل پن ہے بیٹا میرا دل نہیں مانا اپنی لاڈلی بیٹی کو خود سے دور کرنے کو ۔
ہاں ہاں سیدھا سیدھا کہیں کے میں آپ کے اعتبار کے قابل ہی نہیں مجھے آپ سے اس ٹاپک پر بات ہی نہیں کرنی چاہیے تھی میں جارہی ہوں ,کہاں جا رہی ہو ؟؟؟ سلمہ بیگم نے پوچھا
بھاڑ میں جا رہی ہوں مشاء بدتمیزی سے کہتی وہاں سے نکل گئی اور سلمہ بیگم کو لگا کہ وہ ناراض ہو کر اپنے لاہور والے گھر چلی گئی کیونکہ وہ اکثر ناراض ہو کر لاہور چلی جاتی تھی جہاں سیٹھ شہابالدین کا اک اور بنگلہ تھا جہاں رمشاء اکثر ناراض ہو کر چلی جاتی تھی اور موڈ ٹھیک ہونے پر خود ہی لوٹ آتی تھی اسی لئے سلمہ بیگم نے اسے روکا نہیں کہ موڈ ٹھیک ہونے پر خود ہی آ جائے گی پر اس بار ایسا نہیں ہوا مشاء اک بار گئی تو لوٹی ہی نہیں اور گھر والے یہی سمجھتے رہے کہ وہ لاہور والے بنگلے میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...