جس سمے میرے ذہن نے تجلّی کی سوئیٹ سکسٹین (سولھویں سال گرہ) منانے کا سوچا، اس وقت یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کے فوری بعد میری اور ٭ّتجلی کی زندگی میں ایک دھماکا ہونے والا ہے۔
میں اپنی بیٹی ٭ّتجلی کی سوئیٹ سکسٹین متضاد سوچوں کے ہجوم میں ڈکسی اسٹریٹ کے ایک چھوٹے سے لیکن بے حد خوب صورت ’’نیو ایج ہال‘‘ (New Age Hall) میں منائی۔ ڈنر بھی اچھا دیا۔ بیٹی کی مرضی کے مطابق۔ میں نے اپنے حلقۂ احباب میں سے کسی کو بھی مدعو نہیں کیا۔ میرا حلقۂ احباب اور میرے شوہر کا حلقۂ احباب کٹر، راسخ العقیدہ دیوبندی مدرسۂ فکر سے متعلق مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ ایک دو دور کے رشتے دار جو میرے شوہر کے ناتے سے میرے ہوگئے تھے اور جو لبرل اسلا می فکر کے حامل تھے، دو ایک گورے، چند ایک ہندو اور سکھ زن و شوہر میرے مدعو کیے ہوئے شریک تھے۔ ان کے علاوہ ٭ّتجلی کے دوستوں کو جن کی فہرست میری توقع سے کہیں زیادہ طویل تھی،میں نے اور خود ٭ّتجلی نے مدعو کیا تھا۔
٭ّتجلی کا خیال تھاکہ اس تقریب کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ آرتھوڈکس (Orthodox) مسلم طبقے کے لوگ اس کو مسترد کر دیں گے۔ عین ممکن ہے دو ایک اپنے تیکھے فقروں اور ایٹی ٹیوڈ (Attitude) سے ماحول کو نا خوش گوار بنا دیں۔
’’ممی ڈیئر میں وعدہ نہیں کرسکتی کہ مجھ پر کسی نے براہِ راست کوئی جملہ چست کیا یا میری مدعو سہیلیوں اور دوستوں کے لباس اور برتائو پر کسی نے حرف زنی کی تو میں…..‘‘
٭ّتجلی نے اپنے آپ کو آ گے کہنے سے روک لیا۔ میں نے بھی اس کو آ گے کہنے پر اکسانا غیر ضروری سمجھا۔ تقریب خوش گوار ماحول میں اختتام تک پہنچی۔ ٭ّتجلی کی شیر خواری سے لے کر سولھویں سال میں قدم رکھنے تک کی تصاویر اور اہم اور دل چسپ واقعات کو بہت بڑے Images کی صورت میں اسٹیج پر لگے ہوئے اسکرین پر دکھایا گیا۔ اس دوران موسیقی میں اتار چڑھائو کی مدد سے پورے ہال کی فضا کو ہم آہنگ کیا گیا۔ رقص بھی ہوتے رہے۔ ٭ّتجلی نے جن کے ساتھ رقص کیا ان میں اس علاقے کے سب سے امیر تاجر اور صنعت کار ریان ملر کا بیٹا بوبی ملر شامل تھا۔ ٭ّتجلی نے صلاح الدین اکبر کے ساتھ بھی رقص کیا جو میرے شوہر کے مخصوص دوست تھے۔ کھانا بھی موقے کی مناسبت سے بے حد لذیذ اور عمدہ تھا۔ مشرقی اور مغربی دونوں طرح کے کھانوں کا اہتمام تھا۔
ہال میں ٭ّتجلی اور اس کے دوستوں نے خوشیاں بکھیر رکھی تھیں۔ ٭ّتجلی سچ مچ ٭ّتجلی ہی ٭ّتجلی تھی۔ روشن روشن، کھلی کھلی، لڑکی کے روپ میں۔ سولہ سالہ ایک انسانی شگوفہ کچھ بند اور کچھ کھلا— نیم وا— مجھے نجانے کیوں وہ ایک پری لگی جو ’’طلسمِ ہو شربا‘‘ کے کسی باب سے نئی نئی برآمد ہوئی ہو۔ میں نے سوچا، یہ میں ہوں اور اپنا ایک اور جنم گزار رہی ہوں۔ البتہ میری سوئیٹ سکسٹین نہیں منائی گئی تھی۔ ہماری طرف اس کا رواج ہی نہیں تھا۔ یہ باہر کی دنیا، سمندر پار کی دنیا ہے۔
تقریب کے ختم ہونے کے بعد کسی کام سے ہال کے باہر گئی تو کسی نے مجھے مخاطب کیا، ’’آپ مسٹر کمال مرحوم کی زوجہ شانیہ کمال ہیں؟‘‘
میں نے جواب میں کہا، ’’جی ہاں میں شانیہ کمال ہوں۔‘‘
انھوں نے مجھ پر نہیں البتہ میرے لباس پر ایک نظر ڈالی اور بولے، ’’میں اپنی بیٹی شرمین کو لینے آیا ہوں۔ مجھے آپ کا سوئیٹ سکسٹین منانا اچھا نہیں لگا۔ شاید میرے مرحوم دوست کمال کو بھی اچھا نہیں لگتا۔ بہرحال آپ کو آپ کی بیٹی کی سوئیٹ سکسٹین مبارک ہو۔ میرا نام احمد رضا ہے۔ اللہ حافظ۔‘‘
یہ سب کہہ کر احمد رضا صاحب اِدھر اُدھر ہوگئے۔ تو یہ مشہور مسلمان اسکالر احمد رضا تھے جن کا آ ج کل بڑا چرچا ہے۔ ایک لحظے کے لیے میں نے ان کے بارے میں سوچا۔ ایک ہی لمحے کے لیے میرے شوہر کمال کی شبیہ میری آ نکھو ں کے سامنے اُبھری۔ اسی دوران میری دوست صدف نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں ایک بار پھر ہال کے اندر چلی گئی۔
ایک مدت تک ٭ّتجلی کا ’’سوئیٹ سکسٹین‘‘ موضوعِ بحث رہا، میرے اور میرے مرحوم شوہر کے حلقوں میں۔ کہیں اور نہ بھی رہا ہو تو میرا ذہن اس پر سوچتا رہا۔ ٭ّتجلی کے چہرے مہرے اور اس کی باتوں سے یہ پتا نہیں چلا کہ وہ خوش ہونے کے علا وہ کچھ اور بھی ہے۔
٭ّتجلی کا پودا نئی زمینوں میں خوب خوب جڑ پکڑ چکا ہے اور لہلہا رہا ہے، میں نے طمانیت سے سوچا، لیکن یہ کیسا اطمینان ہے جو دکھی بھی کیے دے رہا ہے، شاید یہی وہ کرب ہے جس کا تعلق ہجرتوں سے ہے۔ میرے آس پاس ایسے بھی لوگ ہیں جو ان ہجرتوں کو ہجرت نہیں مانتے۔ ان کا ذہن ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ سے آگے سوچنے سے انکار کرتا ہے۔ مولانا احمد رضا سے پوچھوں گی اگر ان سے ایک اور ٹکر ہوئی۔ شانیہ احمد نے اس موضوع کو ٹالتے ہوئے سوچا۔
سولھویں سال کی تقریب کے کچھ مدت بعد ٭ّتجلی نے گھر سے بھاگ کر میرے مرحوم شوہر کے دوست صلاح الدین اکبر سے نکاح کرلیا۔ یہ نکاح خلافِ قانون تھا۔ میں چاہتی تو صلاح الدین کو گرفتار کروا سکتی تھی۔ میں جانتی تھی کہ اس ضمن میں میری اپنی بیٹی ٭ّتجلی کا بیان بھی اس شخص کو نہیں بچا سکے گا کہ ’’سب کچھ لڑکی کی مرضی اور اجازت سے ہوا۔‘‘ ٭ّتجلی نے اپنے اٹھارہ سال بھی پورے نہیں کیے تھے۔ آئین اور قانون کی رو سے وہ مائنر تھی، لیکن میں نے صبر و استقا مت سے یہ عظیم دھچکا سہار لیا۔ یہ بات بھی میری سماعت تک پہنچی کہ ٭ّتجلی اور صلاح الدین کا نکاح مسجد میں ہوا اور مولانا احمد رضا نے پڑھایا تھا۔ اس سنّت کی ادائیگی کے وقت مسجد سے متعلق چند لوگوں کے علاوہ دیگر کوئی نہیں تھا۔
اب ان تفصیلات کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ٭ّتجلی نے ایک ایسا دھماکا کیا تھا جس نے میری شخصیت کے تانے بانے بکھیر دیے تھے۔ اس سے قبل میری زندگی کا ایک بڑا دھماکا میرے مر حوم شوہر کمال احمد نے سرانجام دیاتھا۔ اپنے مرنے کا دھماکا۔
مرحوم کی موت خودکشی تو نہیں کہلائی جاسکتی البتہ خود کردہ(Self inflicted) ضرور تھی۔ وہ مجھ سے قطعی مختلف شخصیت اور مزاج کے آدمی تھے۔ من مانے، مستانے اور مہماتی۔ سر میں جو سما جائے کر گزرتے تھے۔ ان کا فلسفۂ حیات ان کی ذات کے محیط میں گردش کرتا تھا اور ان کی ذات ہمہ وقت کسی مہم، کسی ایڈونچر کی طلب گار رہتی۔ ان ملکوں کے بارے میں ان کا رویہ تھا کہ ’’جب روم میں رہو تو وہ سب کرو جو رومن کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنی زندگی کو مغرب کے سانچے میں ڈ ھالنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ وہ مجھ سے بھی ایسے ہی رویے کی توقع رکھتے تھے۔ وہ کسی بھی ریستوران میں لنچ اور ڈنر کھا سکتے تھے۔ وہ سب کھا لیتے جن کی ہمارے دین میں ممانعت آئی ہے۔ میں ایسے موقعے پر صرف فش فلے پر گزارا کرتی اور وہ تمام وقت میرا مذاق اڑاتے رہتے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ وہ ایڈز کے خوف کی وجہ سے یہاں کی عورتوں سے پرہیز کر تے رہے۔ یہ اور بات کہ جب کبھی موضوع چھڑ جاتا تو وہ اکیلے میں یہاں کی گوریوں کے قصیدے پڑھنے سے باز نہیں آتے۔ ان کے گورے بدن، سنہری بالوں پر واری صدقے جاتے۔ ان اوقات میں تو شاید میں اپنے اندر جل کر کبھی آگ، کبھی راکھ ہوتی رہتی۔ ایسے وقت وہ یہ بھی بھول جاتے کہ میں ان کی پسند اور مانگ تھی۔
’’کیا انھوں نے حقیقت میں مجھ کو چاہا بھی تھا یا مجھے اپنے دوست صلاح الدین اکبر سے چھین کر اپنی پَھڑ لینے اور جھپٹ لینے کی نفسیات کو تسکین پہنچائی تھی۔ صلاح الدین اکبر جو شہر میں برقی آ لات، ساز و سامان کے سب سے بڑے تاجر تھے۔ معاشرے میں کمال سے کہیں زیادہ صاحبِ مرتبہ ہونے کے علا وہ بے حد دل کش شخصیت کے مالک تھے۔ دراز قد، سیاہ بال، چوڑا ماتھا، پیار بھری آنکھیں، روشن چہرہ جس محفل میں ہوتے نمایاں رہتے اور وہ جو کسی نے کہا ہے، ’’اس کی باتوں میں ُگلوں کی خوش بو۔‘‘ صلاح الدین اکبر کو میں دل و جان سے اپنا مان چکی تھی۔ اور میرے سخت گیر لوگ بھی میرے شائستہ اشاروں اور حیا آ میز کنایوں سے میری مرضی جاننے کے ساتھ اس پر صادر کرچکے تھے۔ صلاح الدین اکبر نے ایک دن کمالِ سادگی سے میرے لیے اپنی چاہت اپنے جھپٹ لینے والے دوست کمال پر افشا کر دی، اور اس نے میرے لوگوں سے مجھے حاصل کرلیا۔ صلاح الدین اکبر اور میں کچھ بھی نہ کرسکے۔ اور میں شانیہ ذوالفقار سے شانیہ کمال احمد بن گئی۔ صلاح الدین اکبر جو میرے لیے تھے، میرے نہ ہوسکے۔ کمال احمد جن کو اکبر کے مقابل لانے کا میںسوچ بھی نہ سکتی تھی، میرے ہوگئے۔ اکبر میرے نہ ہونے کے باوجود میرے تھے، اور کمال میرے ہونے کے باوجود میرے نہ تھے، شاید اسی کو زندگی بھوگنا کہتے ہیں۔ اکبر کے بارے میں سوچنے کی مجھ میں سکت تھی نہ تاب۔ میں ان کی مجرم تھی کہ ان کی نہ ہوسکی، وہ میرے مجرم نہیں تھے کہ انھوں نے کسی اور کو اپنانا پسند نہیں کیا— اور میری اور کمال کی شادی کے بعد وہ ہمارے گھر آ نے سے گریز کرتے رہے۔
اب جو میں شانیہ احمد، کمال احمد مر حوم کی بیوہ ہوں، اپنے شوہر کی موت کو ایک دھماکے کا نام دیتی ہوں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ میرے شوہر کمال احمد ایک دن اسکیٹنگ شوز اور ہیڈگارڈ خرید کر گھر پہنچے تو میں نے ان کا بہت مذاق اُڑایا، ’’میرے خیال میں اسکیٹنگ بچوں کا شوق ہے۔‘‘ جب کمال نے اس میں سنجیدگی سے دل چسپی لینا شروع کی تو میں حیران ہو کر رہ گئی۔
کمال نے تیزی سے اس شوق کو آگے بڑھایا۔ اس کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور ایک دن وہ مجھے اپنے ساتھ اسکیٹنگ فیلڈ لے گئے۔ مجھے تماش بینوں میں بٹھایا اور خود مقابلے میں حصہ لینے جنگلے کے اندر چلے گئے۔ وہاں کچھ مرد اور عورتیں سولو اور کپلڈ اسکیٹنگ میں اپنے کمالات دکھا رہے تھے۔
اسکیٹنگ کے مقابلے میں کمال کی شرکت کو میں نے نظر انداز کر دیا۔ وہ شاید نمبر تین آئے، ایک عدد کپ بھی ملا مگر مجھے یہ سب بچکانہ لگا۔ اسکیٹنگ کو میں بڑوں کا کھیل سمجھنے میں قاصر تھی۔ ’’آئس اسکیٹنگ بچکانہ کھیل نہیں ہے۔‘‘ کمال نے پُرزور الفاظ میں کہا۔ میں نے چپ سادھ لی۔ کمال کے ساتھ یہی روا رکھنا پڑتا تھا۔ کمال نے آئس اسکیٹنگ سے اسکینگ (Skiing) کی جانب قدم بڑھائے تو میں نے بہت شور مچایا۔ میں جانتی تھی کمال کے لیے اسکینگ جان لیوا بھی ہو سکتی تھی۔ کمال یوں تو کسی بھی کھیل کو جان جوکھم کی حد تک لے جانے والے مزاج کے ما لک تھے، مگر اسکینگ تو کھیل ہی خطرات سے معمور ہے۔ میں نے کمال کو اس سے باز رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر ڈالی، لیکن بالآخر مجھے چپ سادھنی پڑی۔ کمال جو مغربی بودوباش میں رنگ جانا چاہتے تھے، اچانک انھوں نے مانٹریال (کینیڈا) کے سرمائی کھیلوں (Winter Sports) میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ کینیڈا میں سال ۲۰۱۳ء کا کرسمس برفانی نہیں تھا۔ دعائوں کے باوجود بیش تر علاقوں میں برف نہیں پڑی۔ ماسوا ان علاقوں کے جہاں اکتوبر سے ہی برف باری شروع ہونے لگتی ہے۔ پہلی ژالہ باری ہوئی اس کے بعد دو ایک دن تک فریزنگ بارش ہوئی۔ خزاں زدہ، بے لباس درختوں نے برف کا زیور پہنا۔ پیڑوں کی ڈالیوں سے برف کے ہار اور آ ویزے لٹکے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ڈالیاں ہیروں کے زیور سے آ راستہ ہو ں۔پھر برف پڑی، اتنی پڑی کہ مولا دے بندہ لے۔
کمال نے کافی پیسہ لٹاکر اسکینگ کی تربیت حاصل کی، لیکن تھے تو محض اناڑی۔ موت تو بہانے ڈھونڈتی ہے۔ اپنے کینیڈین دوستوں کے ساتھ وہ اپنی جرأت کا ثبوت دینے ان اکناف کی سب سے اونچی چوٹی سے اسکینگ کرتے ہوئے نیچے چھلانگ لگا گئے۔ نیچے موت نے ان کو اپنی آ غوش میں لے لیا۔ بعد میں جو تفصیلات سامنے آئیں اس سے یہ پتا چلا کہ خود ان کے ٹرینر نے ان کو باز آنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے وعدہ بھی کیا تھا کہ آئندہ سرما میں وہ ضرور ان کو پہاڑی کی چوٹی سے پھسلوا دے گا، لیکن کمال نے ایک نہ سنی۔ وہ دوسروں کے مشوروں کو ٹھکرا کر مزہ لینے والی فطرت کے مالک تھے۔ ان کی اس مہماتی اور اچانک موت نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی موت کے بعد میرے لیے اپنی سابقہ محبت صلاح الدین اکبر کی جانب لوٹنے کا راستہ کھلا تھا، مگر میں نے اپنے آپ کو ٭ّتجلی کے لیے وقف کر دیا اور اس راستے پر ایک قدم بھی نہیں چلی جو میری محبت اور صلاح الدین اکبر کی جانب جاتا تھا۔ صلاح الدین اکبر نے اب تک شادی نہیں کی تھی۔ شاید وہ کسی اور کو میری جگہ دینا نہیں چاہتے ہوں گے۔ ایسا میں نے سوچا ضرور تھا۔
٭ّتجلی پر اپنی محبتیں مرکوز کرکے میں یہ سمجھتی رہی کہ یہ ٭ّتجلی کا حق ہے۔ اس کو ماں کی محبت اور باپ کی شفقت دینے میں دل و جان سے مصروف ہوگئی۔ اس مصروفیت میں یہ بھی پتا نہ چل سکا کہ ٭ّتجلی نے کب باپ کا نسائی روپ اختیار کرلیا۔ وہی مہم جوئی، وہی پھڑ لینے والی خود مر کزی فطرت، ٭ّتجلی کی بھی فطرتِ ثا نیہ بن گئی۔
صلاح الدین اکبر سے نکاح کا دھماکا اور مسلم کمیونٹی میں بھونچال پیدا کرنے کے بعد اس نے مجھ سے ایک بار رابطہ کیا، اور ای میل بھیجی۔ میں نے اس کی ای میل کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے بھی بارِ دیگر رابطہ نہیں کیا۔ میں اس کی ای میل کا جواب دیتی بھی تو کیا دیتی۔ اس نے سوال، جواب، گفت و شنید کی گنجا ئش ہی کہاں چھوڑی تھی۔ لکھاتھا:
ممی ڈیئر میں نے انکل اکبر کو اپنا لیا ہے۔ اس میں ان کی خواہش شامل نہیں ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے کوئی پیش قدمی۔ بس میں نے انھیںمجبور کر دیا تھا۔ جو کچھ آپ کو ڈیڈی کے جانے کے بعد کرنا تھا وہ میں نے کیا۔ میں آپ کی اور ان کی (میرے شوہر کی) لَواسٹوری سے واقف ہوں۔ آپ نے مجھ سے چھپائی تو کیا ہوا؟ میں نے آپ کی جانب سے ان کو پسند کیا اور آپ کی پروکسی کرتے ہوئے ان کی ہوگئی۔ آپ نے ان سے شادی نہیں کی۔ میرے لیے قربانی دی۔ اپنے آپ کو اور ان کو اذیت اور محرومی بخشی۔ میں نے اس غلطی کا تدارک کر دکھایا— میں نے بہت برا کیانا—؟
اگر آپ ایسا سمجھتی ہیں تو مجھے معاف کردیں۔
آپ کی محبت کرنے والی بیٹی
٭ّتجلی
میں نے اس کی ای میل کا جواب نہیں دیا۔ ا س سے اور اس کے شوہر سے کسی قسم کا رابطہ رکھنے یا استوار کرنے کے لیے پتھر کا کلیجہ چاہیے تھا، جو میری پہنچ سے باہر تھا۔