باہر نکل کر وہ کچه ہی دور چلا ہوگا کہ صفدر سے مڈ بهيڑ ہو گئی۔
واہ۔۔۔ استاد!” اس نے کہا !”کمال ہی کر ديا آپ نے، جب خود يہ سب کچه کر رہے تهے تو پهر مجهے بور “
“!کرنے کی کيا ضرورت تهی! ميں سوچ بهی نہيں سکتا تها کہ صادق آپ ہی ہوں گے
“!بور کيا تها! تمہارے چوہے ايکس ٹو نے۔ ميرے فرشتوں کو بهی علم نہيں تها کہ۔۔۔”
يہ آپ نہيں کہہ سکتے! کيونکہ آپ نے پچهلی رات مجهے آواز دے کر کہا تها کہ ميں بلا ضرورت مداخلت نہ “
“!کروں
ارے ہاں ۔۔۔ ميرا خيال ہے کہ ميں نے تمہيں اپنا تعاقب کرتے ديکها تها۔۔۔ مگر ميں تو سمجها تها کہ شايد تمہيں “
“!وہ لڑکی پسند آ گئی ہے
عمران صاحب مجهے بيوقوف نہ بنايا کيجئے! اف فوہ! کل رات کی اچهل کود! ميرا تو سر چکرا گيا تها! آپ “
“!کے پير زمين پر لگتے معلوم ہی نہيں ہوتے تهے۔
“!اسی لئے بزرگوں نے کہا ہے کہ بهنگ ايک بہت واہيات نشہ ہے”
کيا مطلب”
“!پچهلی رات کسی نے مجهے بهنگ پلائی تهی””
صفدر ہنسنے لگا ! اور عمران نے ايسی شکل بنا لی جيسے اسے پچهلی رات بهنگ پی لينے پر بے حد
“!شرمندگی ہو! پهر اس نے ٹهنڈی سانس لے کر کہا۔ “يہ ايکس ٹو بڑا خطرناک ہے
“کيوں؟”
“!کل وہ خود بهی بيلمر ہاؤس ميں موجود تها۔”
ہاں ميرا خيال ہے کہ ميں نے بهی اس کی جهلک ديکهی تهی۔ وہ سياہ سوٹ ميں تها اور اس کے چہرے پر “
“!سياہ نقاب موجود تها! مگر عمران صاحب يہ قصہ کيا ہے
!عمران نے اسے مختصر بتانے کی کوشش کی مگر مقصد کيا تها؟” صفدر نے پوچها۔”
کچه نہيں۔۔۔ بس ديوانگی! يار يہ آدمی خود کو اشرف المخلوقات کہتا ہے مگر ميرا خيال ہے کہ وہ گدهوں سے “
“!زيادہ اونچا نہيں ہے! بلکہ ميرا خيال ہے کہ گدهوں سے بهی بدتر ہے
“کيوں؟”
گدهے کبهی گدهے پن کی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش نہيں کرتے! مگر آدمی خواہ مخواہ اپنا وقت “برباد کرتا رہتا ہے کوئی صاحب کينچوؤں کے پيچهے پڑ گئے ہيں! کوئی صاحب چيونٹيوں کا شجرہ نسب جاننے کی فکر ميں ہيں! کوئی صاحب پرندوں سے رسم و راہ پيدا کرنے پر ادهار کهائے بيٹهے ہيں! اب ايک
“!صاحب اٹهے تهے کہ آدمی ہی کی کايا پلٹ کر کے رکه ديں کام واقعی شاندار تها عمران صاحب!” صفدر نے کہا۔”
بشرطيکہ اسے قانون کی حمايت حاصل ہو جاتی دوبارہ اس طرح حرکت قلب جاری کرنا کہ آدمی کی “
“!شخصيت ہی بدل جائے
“!ليکن جو تين جانيں ضائع ہو گئيں اسے کس کهاتے ميں ڈالو گے” کاش اسے قانون کی حمايت حاصل ہوتی!” صفدر نے کہا۔”
ايسی ديوانگيوں کو بعض اوقات قانون کی بهی حمايت حاصل ہو جاتی ہے! خطرناک ايجادات کے سلسلے ميں “نہ جانے کتنی جانيں ضائع ہو جاتی ہيں اور يہ قوانين ہی کے سائے ميں ہوتا ہے۔ پچهلی جنگ عظيم کو مختلف ممالک کے قوانين کی ہی حمايت حاصل تهی۔ قوانين ہی کے سائے تلے لاکهوں آدميوں کی لاشوں پر فتح کے
“!جشن برپا کئے گئے تهے۔۔۔ اور کتنی مثاليں دوں
دفعتدفعتًاًا عمران چلتے چلتے رک گيا۔ صفدر بهی رکا۔۔۔؟ اور عمران کی طرف سواليہ نظروں سے ديکها۔ “!ميرا دل چاہتا ہے کہ يہيں سڑک پر ناچنا شروع کر دوں”
“!اگر آپ ايسا کر بيٹهے تو ميں اسے ديوانگی کہوں گا۔ عمران صاحب”
تم ديوانوں کی سی باتيں کر رہے ہو صفدر! اگر تمہيں دنيا ميں کبهی کوئی ايسا آدمی مل جائے تو مجهے اس “کے پتے سے ضرور آگاہ کرنا۔ ميں اسے کسی عجائب گهر مںيں رکهوا دوں گا تاکہ ديوانے اسے ديکه کر محظوظ ہو سکيں! اگر ميں اس سڑک پر ناچنا شروع کر دوں تو تم مجهے ديوانہ کہو گے ليکن لاشوں پر ناچنے والے سورما کہلاتے ہيں! انہيں اعزاز ملتے ہيں! ان کی چهاتياں تمغوں سے سجائی جاتی ہيں۔