(Last Updated On: )
افسانے کا مقصد زندگی کی ترجمانی ہے لیکن زندگی کی یہ ترجمانی میکانکی یا صحافتی انداز سے نہیں ہوتی بلکہ ایک تخلیق لمس اور فنکارانہ لے کی موجودگی میں ہوتی ہے ۔اس وجہ سے اس کا مقصد گرد و پیش کے حالات کو بے جان اور معروضی انداز سے پیش کرنا نہیں بلکہ زندگی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کی دھڑکنوں کی کمیت کا بھی اندازہ لگانا ہے اور کیفیت کا بھی ۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں لکھاری اپنےا ٓپ کو معاشرے کے ساتھ صرف معنوی طور پر ہی پیوست نہیں کرتا بلکہ اس میں جذب بھی ہو جاتا ہے ۔
کہانی کار اپنے سماج سے کٹ کر سانس لینے والا انسان نہیں ہے بلکہ عام آدمی کے مقابلے میں وہ سماج سے زیادہ جڑا ہوا ہے اس لیے کہ وہ سماج کا خاموش تماشائی نہیں بلکہ خاموش مفکر بھی ہے اور بے لاگ مبصر بھی۔ زندگی اور ادب کے اسی اٹوٹ انگ پر بات کرتے ہوئے طارق بن عمر لکھتے ہیں:
‘‘ جب فرد اپنے رویے کو معاشرے کے رویے میں ہم آہنگ کرے گا تو ایک رویہ جنم لے گا جسے ہم سماجی، معاشی اور سیاسی بیداری کا نام دے سکتے ہیں یہ فکری عمل بعض اوقات زندگی کی کچھ بے رحم تصاویر بھی دِکھاتا ہے۔’’ (۱)
اردو میں جہاں جدید افسانہ علامت کے بھول بھلیوں میں گم ہونے یا بہ الفاظ دیگر مرنے کے قریب ہے ایسے میں کچھ افسانہ نگار ایسے بھی نظر آتے ہیں جو کہانی کو علامت کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھانے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔اس لیے کہ ایسے کہانی کاروں کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ کہانی اور زندگی کے درمیان کوئی بھی چیز حائل ہو گئی تو کہانی کی روح کی موت یقینی ہے ۔ایسے افسانے لکھنے سے بہتر ہے کہ آزاد ، مبہم اور علامتیت کی حامل نظمیں لکھی جائیں یا پھر پہیلیاں بوجھی جائیں ۔زندگی بذات خود ایک پہیلی ہے ، کہانی میں جب اسے مزید پہیلی بنانے کی کوشش کی جائے گی تو کہانی کچھ مبہم علامات اور استعارات کا ڈھیر تو بن جائے گی لیکن کہانی نہیں رہے گی ۔
زیب النسا زیبی کا شمار ایسے افسانہ نگاروں میں کیا جاسکتا ہے جو کہانی میں تکنیک کے اعتبار سے اس قسم کی ادبی مہم جوئی کا شکار نہیں ہوئیں انہوں نے کہانی کی رگوں میں زندگی کا لہو دوڑانے کی کوشش کی ہے ۔وہ ایک ایسی افسانہ نگار ہیں جنہوں نے زندگی کو دیکھا بھی ہے ، چکھا بھی ہے اور اس کی خوشبو محسوس بھی کی ہے ۔ وہ ایک ایسی لکھاری ہیں جو اپنی اعلیٰ ذہانت اور حساس طبیعت کی بدولت اپنے ارد گرد رونما ہونے والے حادثات و واقعات پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ایسے موضوعات پر قلم آزمائی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جن کا تعلق عام لوگوں کی زندگی سے ہے۔
زیبی کو افسانے لکھنے کا خاص ملکہ حاصل ہے ۔ انہوں نے معاشرے میں بکھرے ہوئے موضوعات کو اپنے مخصوص فکری زاویوں کے ساتھ افسانے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے ایک مخصوص معاشی، سیاسی، مذہبی اور ثقافتی نقطۂ نظر کی پیداوار ہیں۔
یہ مخصوص ثقافتی ، تمدنی اور سماجی نقطہ نظر ان کے افسانوں کا فکری حوالے سے کینوس وسیع کرنے کا باعث بنتا ہے اور ان کے افسانوں میں مقامی رنگوں کے ساتھ ساتھ آفاقی رنگ بھی بھرتاہے ، یوں ان کی کہانی ہر انسان کے دل کی دھڑکن بن جاتی ہے۔وہ زندگی کے پھولوں سے معنی کا رس نچوڑتی ہیں ۔ خیر اور شر ، مثبت اور منفی ، اچھا اور برا، خواہش اور خواہش کی تکمیل میں رکاوٹیں ، جنسی بھول بھلیاں اور ان میں گرفتار آدمیوں کی بھرمار ، عورتوں کے جنسی اور نفسیاتی مسائل ، معاشی حوالوں سے آسودہ اور بعض کہانیوں میں ناآسودہ لوگ ، جدید مشینی زندگی او راس میں پرزوں کی مانند ڈھلتے انسان اور اس سے ملتے جلتے دیگر مسائل ان کے افسانوں کی فکری جہت کا تعین کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں فکری حوالوں سے ایک مخصوص نقطۂ نظر کی تلاش کا عمل اس حوالے سے سود مند ہو گا تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے افسانوں میں مواد کا اصل خاکہ کیا بنتا ہے اور زیبی نے اس میں اپنےتخیل کی آمیزش سے نئے رنگ بھرنے کی کس حد تک کوشش کی ہے اور ساتھ ساتھ اس میں صداقت کے عناصر کس حد تک موجود ہیں۔
اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم ادب اور کہانی کے مقصد پر تھوڑی بحث کریں ۔میتھو آرنلڈ ادب کے حقیقی فنکارانہ مقصد پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘شاعر یا ادیب اپنے خیال کو ایسی صورت میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ سننے اور پڑھنے والے پر وہی اثر وارد کرے جو کہ شاعر یا ادیب کے اپنے دل پور وارد ہو’’ (۲)
یعنی میتھو آرنلڈ کے مطابق تحریر ایسی ہو جو کہ پڑھنے اور سننے والے کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیں۔اور یوں اسے بھی اپنے خیال یا فکر کی دنیا کی سیر کراسکے اور اسے اس عرفان ذات اور عرفان کائنات کے اس عمل سے دوچار کر سکے جس سے ادیب خود دوچار ہوا تھا۔عرفان کائنات کے حوالے سے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ عرفان ذات سے مراد عرفان سماج ہی ہے ۔اس لیے کہ کہانی میں انسانوں کے معاملات اور واقعات ہی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔
۱.۳ معاشرتی برائیاں:
زیب النسا زیبی کے افسانوں میں حقیقت نگاری کا لمس واضح محسوس ہوتاہے۔ ان کے تجربات اور مشاہدات کا تعلق ان کے اپنے گرد وپیش سے ہوتا ہے ۔وہ روزمرہ مسائل اور معاملات کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ان افسانوں سے نہ صرف معاشرے کی بھرپور عکاسی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام حالات و واقعات زیب النسا زیبی پر بھی گزرے ہوئے ہیں۔یوں جگ بیتی میں آپ بیتی کا رنگ جھلکنے لگتا ہے ۔ ان کے افسانوں میں صداقت کا پرتو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ان کے افسانوں میں معاشرے میں موجود مختلف مسائل مثلاً غربت و افلاس، بے حسی، جنسی رویے، جہالت، حکومت پر طنز اور جاگیر دارانہ نظام جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایسے موضوعات کو بھی اُٹھایا جو بظاہر تو چھوٹے ہیں لیکن ان سے ہی برائیوں کا آغاز ہوتا ہے جیسا کہ انٹرنیٹ بظاہر تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی مگر اس پر غور کیا جائے تو اس کی وجہ سے نوجوان نسل میں پیداہونے والی برائیوں کا ادراک ممکن ہے۔
زیب النسا زیبی کا افسانہ ‘‘ایک بہن اور نیٹ’’ ان برائیوں کی عکاسی کرتا ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں روز بروز پھیلتی جا رہی ہیں اس افسانے میں ایک ایسے لڑکے اور لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے کہ جن کی غربت کی وجہ سے شادی نہیں ہوتی۔جنس اپنے لیے مجبوری کی وجہ سے نت نئے راستے تراشتا رہتا ہے ۔اس سیل کے سامنے تمام بند ٹوٹ جاتے ہیں اور نتیجتاً رشتوں کا تقدس پامال ہونے لگتا ہے ۔اقدار شرم کے مارے منہ چھپانے لگتے ہیں ۔یورپ میں تو بہن بھائی ، بیٹی اور ماں یا باپ اور بیٹی کا جنسی عمل کوئی ثقافتی مسئلہ بھی نہیں رہا لیکن ہمار ااقدار پرور معاشرہ بھی ان آلودگیوں کی نذر ہونے پر مجبور ہے ۔مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ یہ نوجوانوں کی بے روزگاری کے ساتھ ساتھ بروقت شادی کا نہ ہو نا بھی ہے ۔مثلاً اسی افسانے میں بھائی بہن سے کہتا ہے کہ چلو نیٹ پر گیم کھیلتے ہیں تو بہن بھائی دونوں گیم کھیلتے ہیں لیکن لڑکا اپنے جنسی تقاضے پوری کرنے کی خواہش کا اظہار کرتاہے اور اپنی بہن سے کہتا ہے :
‘‘سیما تم سے ایک بات بولوں مانو گی؟
کیا بھائی!
تم میرا کتنا خیال رکھتی ہو۔ یہ کہہ کر سیما کو گلے سے لگا کر ماتھے پر پیار کیا۔
آج سیما کو بھائی کے گلے لگ کر کچھ بے چینی محسوس ہوئی اور وہ کسمسا کر بھائی سے دور ہو گئی۔’’(۳)
اللہ نے عورت میں ایک ایسی حس رکھی ہے جو مرد کی نظروں اور ارادوں کو بھانپ لیتی ہے۔ بظاہر نبیل اور سیما تو نیٹ پر بات کر رہے تھے مگر دور بیٹھی سیما نبیل کے سارے ارادے بھانپ گئی تھی:
‘‘سیما تم بہت پیاری ہو
تم پر تو جان دینے کو جی کرتا ہے
سیما نے آگے بڑھ کر بھائی کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا
ایسی بات پھر کبھی مت کرنا
نبیل نے سیما کو گلے لگانا چاہا
سیما ٹھٹک کر پیچھے ہو گئی
سیما:بھائی آگے مت بڑھنا ورنہ امی کو بتا دوں گی
اور ابو کے غصے کو تم جانتے ہو۔’’ (۴)
بظاہر پر سکون مگر غصے سے پاگل سیما دیکھ رہی تھی کہ کس چالاکی سے اس کا بھائی اس مقدس رشتے کو پامال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس افسانے میں زیب النسا زیبی نے معاشرے کے ایک بڑے المیے پر قلم اُٹھایا ہے کہ جن گھروں میں غربت کی وجہ سے مناسب عمر میں شادیاں نہیں ہوتیں تو پھر اس قسم کی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ زیب النسا زیبی کے اس بے باک انداز پر شفیع عقیل رقم طراز ہیں:
‘‘زیبی معاشرے کی ناہمواریوں کو کھل کر بیان کرتی ہیں۔ انہوں نے انسانی محرومیوں کو موضوع بنایا ہے اور انسانی منافقتوں پر بھی تنقید کی ہے۔’’ (۵)
غربت بھی انسانی معاشرے میں ایک ازلی اور ابدی حقیقت کے طور پر موجود رہی ہے ۔دنیا کا کوئی معاشرہ غربت کے آسیب سے خالی نہیں ۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے چند لوگوں کی تجوریاں تو ہیرے اور جواہرات سے بھر دی ہیں ۔لیکن انسانوں کا ایک سیل بے پایاں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیے مارا مارا پھر رہاہے ۔دولت کی اسی غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں بھکاریوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے ۔بھکاری ہمارے معاشرے کا ایک سنگین مسئلہ بھی ہیں اور حساس المیہ بھی۔ ان کے ہاتھ دوسروں کے سامنے پھیلے ہوئے اور ان کے کان دوسروں کی کڑوی سننے کے عادی ہوتے ہیں اور ان کی زبانیں اپنا دکھڑا سناتے سناتے تھک جاتی ہیں ۔زیب النسا زیبی کا افسانہ ‘‘سچائی’’معاشرے کے اس طبقے اوران کے مسائل کے متعلق ہے ۔افسانے میں اگر چہ ناقابل یقین حد تک مبالغے کی فضا موجود ہے جو انسانی نفسیات اور ہمارے روزمرہ کے مشاہدات کے مطابق نہیں ۔لیکن اس کے باوجود یہ افسانہ ایک امکان کی طرف اشارہ ضرور کرتاہے ۔اس افسانے میں ایک بھکاری عورت کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے کہ کس طرح سے پیٹ کی آگ خون کو سفید کر دیتی ہے اور یہ بھکاری عورت اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنی کوکھ اُجاڑ لیتی ہے۔ اقتباس بطورِ مثال:
‘‘عورت فٹ پاتھ پر گھسٹ رہی ہے کچھ فاصلے پر اس کا تین سال کا بچہ ایک روٹی کا ٹکڑا چبا رہا ہوتا ہے وہ گھسٹ گھسٹ کر بچے تک پہنچ کر روٹی کا ٹکڑا حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن یہ بچہ بھوک سے مجبور ہو کر روٹی نہ دینے پر بضد تھا اس نے غصے میں بچے کو گالی بکی بچے نے اس پر بھی روٹی کا ٹکڑا نہ چھوڑا پھر اس نے ناچار قریب پڑے ایک پتھر کو اُٹھا کر بچے کو دے مارا اور خود روٹی کی طرف لپکی۔’’ (۶)
اس عورت کا بچے کو مارنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔اور اس وجہ سے انسانی نفسیات سے بعید ہے ۔ماں کی ممتاکبھی بھی یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اس بچے کی جان لے لی جائے جو روٹی کا ٹکڑا دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے ۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ بھوکے سوتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔یہ لوگ کسی بھی دن اس عورت کی مانند اٹھ کر ریاست کی بنیادیں ہلاسکتے ہیں ۔بھوک غربت کی انتہائی سطح ہے ۔ غربت کا گراف اس سے زیادہ تباہ کن نہیں ہو سکتا کہ ایک زندہ چلتے پھرتے انسان کو دو وقت کی روٹی بھی نہ ملے ۔
بھوک کے علاوہ افلاس کی کئی ایک اور تہیں بھی زیب النسا زیبی کے افسانوں میں موجود ہیں ۔یہ موضوع ان کی کہانیوں میں روپ بدل بدل کر آتاہے ۔اس سلسلے میں وہ رسمیں جو والدین کے جسم سے خون نچوڑ دیتی ہیں ، بہت اہم ہیں ۔ مثلاً ان میں سے ایک اہم رسم جہیز کی ہے ۔یہ ہمارے معاشرے کی ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس نے ہماری زندگی آسان بنانے کی بجائے مشکل اور ناقابل برداشت بنادی ہے ۔مثلاًکتنی ہی بیٹیاں آنکھوں میں ہزاروں ارمان لیے اپنے گھروں میں ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں ۔ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ان کی شادیاں نہیں ہوتیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے انہوں نے اپنے افسانے ‘‘دنیا کے روپ نرالے’’ میں اس مسئلے کو اٹھا یا ہے ۔
جہیز ایک ایسی حقیقت ہے کہ چاہے محبت ہو یا رشتے داری ہو مگر جہاں جہیز کی بات آتی ہے وہاں ہر رشتہ منہ موڑ لیتا ہے۔ایسے میں لڑکیوں کے خواب شکست و ریخت سے دوچار ہوتے ہیں ۔مثلاً مذکورہ افسانے میں زرتاب ایک ایسی لڑکی ہے جو محبت پر یقین رکھتی ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ محبت کی طاقت کے سامنے تمام بند کمزور ہیں مگر اس کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب صفدر کے گھر والے جہیز کی طلب کرتے ہیں :
‘‘ زرتاب ایسا کرتے ہیں پہلے نکاح کر لیتے ہیں رخصتی بعد میں کسی بھی وقت ہو جائے گی میرے گھر والوں کے اعتراضات بھی ان کے ریتوں رسموں کے ساتھ دفن ہو جائیں گے بقول ان کے ہم لوگوں کو کیا جہیز دکھائیں گے ہمارے گھر جو لوگ دلہن دیکھنے آئیں گے انہیں کیا جواب دیں گے ہماری بے عزتی ہو جائے گی کہ کہاں شادی کردی؟’’ (۷)
یعنی اس افسانے میں زیب النسا زیبی نے یہ بات بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب جہیز کی بات آتی ہے تو پھر کوئی رشتہ یا محبت کام نہیں آتا۔ انہوں نے اپنے کردار زرتاب کی زبانی اسلام میں جہیز کا مقام بھی بیان کرنے کی کوشش کی ہے:
‘‘ یہی ہمارا مذہب کہتا ہے کیا یہی شریعت ہے کیا اسی طرح حضرت فاطمہؓ کی شادی ہوئی تھی کیا ہم مسلمان ہیں؟’’ (۸)
زیب النسا زیبی خود بھی ایک سماجی کارکن ہیں اور انہوں نے ان مختلف تنظیموں کے ساتھ کام بھی کیا تو انہوں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا تو اس افسانے میں اُسے بیان کرنے کی کوشش کی یعنی اس افسانے میں زیب النسا زیبی نے معاشرے میں موجود ان لوگوں کے چہروں پر سے بھی نقاب ہٹایا جو معاشرے کے بہت معزز لوگ بنتے ہیں۔ بقول عصمت چغتائی:
‘‘ زیب النسا زیبی سے مل کر میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیائے ادب کو ایسے ذہین انسانوں پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ زیبی نے اپنی تحریروں کو سچائیوں سے ہم آہنگ کرنے کی جدوجہد کی ہے۔’’ (۹)
زرتاب اپنی دوست غزالہ سے ملتی ہے جو ایک سماجی کارکن بھی ہے تاکہ جہیز اکٹھا کیا جا سکے مگر وہ لوگ جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اس کی کوئی مدد نہ کر سکے :
‘‘زبیر صاحب نے اِدھر اُدھر میز کی درازیں دیکھیں اور بولے ارے بھئی غزالہ سوری وہ گفٹ تو جانے میرے سیکرٹری نے کہاں رکھ چھوڑے ہیں جیسے ہی وہ آئے میں نکلواتا ہوں پھر تمہیں فون کردوں گا سو ہفتہ گزرنے کے باوجود زبیر کی جانب سے کوئی فون نہ آیا۔’’(۱۰)
ایک ادارے نے ہامی تو بھری مگر:
‘‘شادی والے دن آکر دیں گے تصویریں بنیں گی اخبار میں فیچر لگے گا۔’’ (۱۱)
ایک اور صاحب سماجی کارکن کا رویہ کچھ یوں تھا۔
‘‘ویسے آج کل میں پہلے ہی کئی لوگوں کو زکوٰۃ خیرات میں بہت کچھ دے چکا ہوں لیکن اب آپ آگئی ہیں تو مجھے وقت دیں میں اپنی بیوی سے مشورہ کرکے انہیں کچھ زکوٰۃ وغیرہ نکالنی ہوگی تو آپ کو دے دوں گا آپ کل آکر معلوم کرلیں۔’’ (۱۲)
لوگوں کے یہ مختلف رویے زیبی کے افسانوں میں زندگی کے اس رخ کو سامنے لاتے ہیں ، جو دکھوں اور المیوں سے عبارت ہے ۔لیکن اس کے باوجود ان کے افسانے قنوطیت کی لپیٹ میں نہیں آتے بلکہ رجائیت کے حامل ہیں ۔ان کے کرداروں میں اتنی توانائی موجود ہے جو زندگی کے ایسے نازک موڑ پر خودکشی کی طرف مائل نہیں ہوتے، یا مایوسی کے سیل بے پناہ میں بہہ نہیں جائے، بلکہ خودداری کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہمت کرسکتی ہیں۔یہ گفتگو سننے کے بعد زرتاب غصے سے کھڑی ہو جاتی ہے اور کہتی ہے چلوغزالہ اِنہوں نے ہمیں بھکاری سمجھ لیا ہے اور پھر:
‘‘ اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہو گئے۔’’ (۱۳)
زیب النسا زیبی نے اس افسانے میں ایک طرف جہیز جیسی لعنت پر قلم اُٹھایا اور ایک لڑکی کے احساسات و جذبات کی ترجمانی بھی کی کہ ایسی مظلوم لڑکی کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف ایسے لوگوں کے چہروں سے پردہ ہٹایا جو ریڈیواور ٹیلی ویژن پر آکر بہت بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں مگر ان لوگوں کی حقیقت یہ ہے کہ جب ان سے مدد کی توقع کی جائے تو یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں ۔ زیب النسا زیبی نے بہت سچائی اور بہت بے باکی سے جھوٹے اور منافقانہ رویوں کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔بقول شفیع عقیل:
‘‘ زیبی معاشرے کی ناہمواریوں کو کھل کر بیان کرتی ہیں انہوں نے انسانی محرومیوں کو بھی موضوع بنایا ہے انسانی منافقتوں پر بھی تنقید کی ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے نہ علامتوں کا سہارا لیا نہ استعاروں کاا ور نہ لفاظی سے کام لیا۔’’ (۱۴)
اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے گھر میں جہیز کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں شادی سے محروم رہتی ہیں زیب النسا زیبی کے یہ افسانے‘‘زندگی ہے ایک فریب مسلسل’’ میں بھی جہیز کی وجہ سے ‘‘عارض ’’ کی شادی ‘‘ساحر’’ سے نہیں ہو پاتی اور یہ عام سی شکل و صورت کی لڑکی بہت سی محرومیوں کا شکار ہو جاتی ہے:
‘‘اسے پہلی بار اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا کہ وہ معمولی سے نقش کی گہرے سانولے رنگ کی ایک مفلس طبقہ کی لڑکی ہے بد صورتی اس کا سب سے بڑا گناہ اور مفلسی سب سے بڑا جرم ہے۔’’ (۱۵)
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کا سب سے بڑا المیہ بھی یہ ہے کہ یہاں جب کسی بھی لڑکی کو پسند کیا جاتا ہے تو وہ مالدار ہو جہیز زیادہ لے کر آئے اور خوبصورت ہو لیکن لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اس طرح بہت سی لڑکیاں ہزاروں ارمان دل میں لے کر گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں اورنفسیاتی مریض بنتی جارہی ہیں ۔شادی کے دیر سے ہونے یا نہ ہونے سے جو نفسیاتی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں ، زیبی کے افسانوں میں اس کی مؤثر ترجمانی بھی پائی جاتی ہے۔
زیب النسا زیبی نے ان سب برائیوں پر نظر ڈالی وہ بظاہر ان برائیوں کا حل نہیں پیش کر سکیں، اور حل نکالنا فنکار کا فریضہ بھی نہیں ہے ۔اس کا کام محض یہ ہے کہ وہ زندگی کو فنکارانہ انداز سے پیش کرکے پڑھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کرے ۔اور ان کی توجہ متعلقہ مسائل کی طرف پھیرنے کی کوشش کرے ۔انہوں نے ایسے افسانے لکھ کر اپنے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی اور کمزور طبقات کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ۔
زیب النسا زیبی ایک بہت ہی حساس دل خاتون ہیں ۔انہوں نے اپنے گردوپیش پہ نظر ڈالی اور ہر قسم کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کیا اور ان کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد ایسے موضوعات جن پر قلم اُٹھانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ان تمام موضوعات کو سامنے لا کر بہت سے ایسے چہروں کو بے نقاب کیا جن کی اصلیت سے بہت سے لوگ واقف نہیں ہوتے ۔ایسے لوگوں کاحقیقی چہرہ نہ صرف اپنی کہانیوں میں دکھا یا بلکہ ان کے افسانوں کی زیریں سطح پر ان کے خلاف ایک بھرپور احتجاج بھی دیکھنے کوملتا ہے۔ان کے افسانے ‘‘اختلاف، انتظار، خواہش ، سزا ، سپنے ٹوٹ گئے اور دُکھ کے بادل’’ ہمارے معاشرے میں موجود برائیوں ، قباحتوں ، گناہوں ، خامیوں ، استحصال کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ افضال شوق رقمطراز ہیں:
‘‘ان کے افسانے اس عہد کی حقیقتوں کی جیتی جاگتی کہانیاں ہیں جن کا گہرا تاثر قاری اپنے دل و دماغ اور روح میں اُترتا محسوس کرتا ہے ان کے موضوعات، کہانی کی تکنیک، خیال، کردار اور اندازِ تحریر سب کے سب ہمارے اردگرد حقیقی واقعات کے عکاس ہیں۔’’ (۱۶)
۲.۳ احساسِ ندامت:
زیب النسا زیبی کے افسانوں کا ایک اہم فکری حوالہ احساس ندامت بھی ہے ۔جب ان کے کردار اپنے آپ کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہوا پاتے ہیں ۔وہ خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہیں ۔زندگی جس قدر تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے تو جسم کی بھول بھلیاں میں کھو جانے کا عمل بھی تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ثقافتوں کے درمیان فاصلے سمٹے تو اقدار کی ادلا بدلی کا عمل بھی تیز ہو گیا ۔آج کل مشرق و مغرب کے ثقافتی مزاج میں بہت کم فرق رہ گیا ہے اور مشرق اپنے اقدار کا خون ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے اور زخم زخم ہے ۔جدید کلچر روحانیت کی بجائے جسم کے انگ انگ کی کہانی ہے ۔زیبی کے افسانوں میں ان جدید رویوں کا اثر بھی کافی زیادہ ہے اور ان اقدار کو اس نے ایک ایسے حقیقی اور تخلیقی لمس سے بھرا ہے، کہ جگ بیتی میں آپ بیتی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی فرضی کہانیاں نہیں بلکہ گردوپیش میں ان کے سچے مشاہدے کا ثمر ہیں ۔
ہماری روزمرہ زندگی میں معمولی سے حالات و واقعات و احساسات کو زیب النسا زیبی نہایت سادگی اور نرمی سے پیش کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں ۔یہی سادگی اور نرمی ان کے افسانوں میں لطافت اور تاثیر پیدا کرتی ہیں اور قارئین نہ صرف ان افسانوں کو پڑھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ان کے اندر برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔مثلاًزیب النسا زیبی کا افسانہ ‘‘احساس کے زخم’’ ایک ایسی کہانی کو پیش کر تا ہے جو آج کل عام ہوتی جا رہی ہے یعنی محبت کے نام پر جسموں کاکھیل ۔ اس افسانے کے نام سے ہی معلوم ہو تاہے ‘‘احساس کے زخم’’ یعنی اپنے کیے ہوئے عمل پر پچھتانا ۔ اس افسانے میں دو محبت کرنے والوں کی کہانی بیان کی گئی ہے کہ دونوں آپس میں محبت تو کرتے ہیں لیکن اس محبت میں اپنی حدود بھی پار کر جاتے ہیں اور اپنے اس عمل پر دونوں کو بہت پچھتاوا ہوتا ہے افسانے میں اس حقیقت کی ترجمانی کرتے یوں کی گئی ہے:
‘‘اُف میرے خدایا! عامر عزیز نے بے چینی سے کروٹ بدلتے ہوئے سوچا کیا انسان اس قدر جلد پستیوں میں گر سکتا ہے کیا انسان کی حیثیت ، انسان کی عظمت یہی ہے نہیں وہ سب خواب ہوگا میں نرگس کو کبھی دُکھ نہیں پہنچا سکتا۔ ’’ (۱۷)
دوسری طرف نرگس احساس ندامت سے کچھ یوں دوچار ہے:
‘‘ دوسری جانب نرگس اپنے وجود کو کئی گھنٹوں سے رگڑے جا رہی تھی اور پھر اس کے ہاتھ اور تیزی سے چلنے لگے حتیٰ کہ تمام صابن اس نے اپنے جسم پر رگڑ ڈالا لیکن ایک احساس تھا جو جسم کی دیواروں سے چپکا ہوا تھا۔ جسے صابن بھی نہ دھو سکا اس نے گھبرا کر سر پٹکا اس کا سر بالٹی سے جا ٹکرایا اور وہ درد سے بلک پڑی۔’’ (۱۸)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کردار جسمانی طورپر گناہوں کے دلدل میں پھنسنے کے باوجود گناہوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساس ندامت کاشکار ہو چکے ہیں ۔گناہوں کے بوجھل پن سے خمیدہ ایک کردار نرگس بھی ہے ۔جس کے جسم میں کانٹے چبھ رہے ہیں اور جس کا احساس زخمی ہے ، جس کا ضمیرگناہ کی تلخ یاد کی زہرناکی سے آلودہ ہے ۔جو پاک رہنا چاہتی ہے لیکن رہ نہیں سکتی ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہاں جنسی بھول بھلیوں کو طوائف تک محدود کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ شریف زادیاں اس کی زد میں آگئی ہیں ۔اس حوالے نے زیب النسا زیبی کے افسانوں نے موضوعاتی اعتبار سے ایک نئی کروٹ بدلنے کی کوشش کی ہے اور ایک ایسا زاویہ سامنے آیا ہے ، جو بڑے بڑے تلخ حقیقت نگاروں کے ہاں بھی اس انداز سے نہیں ملتا جیسا کہ زیبی کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے ۔نرگس احساس گناہ ، احساس ندامت اور احساس ذلت سے دوچار ہے ۔ایک شریف زادی کے ایسے موقع پر خیالات کس قسم کے ہو سکتے ہیں یہاں اس کی بڑی کامیاب ترجمانی کی گئی ہے :
‘‘جب نرگس رات کو سونے کے لیے پلنگ پر لیٹی تو اس نے اپنے اطراف بڑی چھوٹی بہنوں کو دیکھا ان کے جسم کتنے شفاف تھے اور اس کا وجود کتنا ناپاک اور گھناونا۔ نیند اس کی آنکھوں سے روٹھ چکی تھی۔’’ (۱۹)
یہ احساس ندامت ان حدوں کو بھی چھونے لگتا ہے کہ جب زندگی کندھوں پر بوجھ معلوم ہونے لگتی ہے ۔اور ایک شریف زادی موت کی آغوش میں سونے کو جینے پر ترجیح دیتی ہے ۔اس قسم کی کہانیوں میں جذباتیت موجود ہے ۔اور بعض مقامات پر مبالغہ بھی ۔لیکن یہ باتیں انسانی زندگی کے ایک نفسیاتی رخ کی ترجمان ضرور ہیں ۔ان کہانیوں میں جذباتیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ کرداروں کی زبان میں خود مصنفہ بولنے لگتی ہیں ۔کہانی میں فنی حوالے سے حسن کا ایک تقاضا ضرور ہے کہ لکھنے والے کا سایہ کہانی میں کسی کردار پر نہیں پڑنا چاہیے ۔یہ سایہ جب پڑتا ہے تو کردار کا اپنا چہرہ اس سائے میں اوجھل ہو جاتاہے ۔مثلاً اس کہانی میں یہ مقام :
‘‘نہیں نہیں نرگس نہیں مر سکتی وہ زندہ ہے وہ زندہ ہے۔’’ (۲۰)
اس افسانے میں زیبی نے ہمارے معاشرے میں روزمرہ ہونے والے واقعات و حادثات سے پردہ اُٹھاتے ہوئے ان کے اصل محرکات سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔ یہ افسانے نئے نویلے نوجوانوں اور بالخصوص لڑکیوں کے مسائل کے حقیقی ترجمان بن گئے ہیں ۔لہٰذا ان میں تادیب کا ایک عمل بھی ہے اور تنبیہ کا حوالہ بھی ۔ اس قسم کے افسانے بے باک حقیقت نگاری کے ترجمان ہیں ۔ انہوں نے حالات کو دیکھتے ہوئے جو تاثر لیا ، اس کو اسی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی اور اس میں کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی بلکہ بہت بے باک انداز میں معاشرے کی عکاسی کا فریضہ سرانجام دیا۔
ان کا اور ایک افسانہ ‘‘سپنوں کی رات’’ بھی کچھ اسی قسم کے حالات کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح سے جاوید اور ندا کا نکاح ہو جاتا ہے اور ندا کی رخصتی نہیں ہوتی اور وہ سہاگ رات کے بارے میں سوچتی ہے تو اس کے گھر کے کوارٹر میں جو نوکر ہے وہ کسی کام سے آتا ہے مگر ندا کو خیال ہی نہیں رہتا کہ وہ ملازم ہے یا جاوید وہ جذبات کی رو میں بہتی چلی جاتی ہے اور اپنے تمام تقاضے پامال کر بیٹھتی ہے:
‘‘اُف میں یہ سوچ بھی نہ سکتی تھی میں اتنی گھٹیا حرکت بھی کر سکتی ہوں میں نے چند لمحوں کی محبت کے زہر کو امرت سمجھ کر کیوں اپنی روح میں اُتار لیا آخر کیوں؟ آخر کیوں؟ بھڑکتے ہوئے شعلوں کو سرد کرنے کا کیا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ میں جذبات کی اندھی راہوں پر یوں بھی بھٹک سکتی تھی یہ تو میرے خیال و خواب میں بھی نہ تھا میں جاوید کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ جاوید تو میری محبت تھا میرا مالک تھا۔’’ (۲۱)
زیب النسا زیبی نے اس افسانے میں بھی عورت کے جذبات کی ترجمانی موثر انداز میں کرنے کی کوشش کی ہے ۔وہ خود ایک عورت ہیں ، لہٰذا وہ ایک عورت کی سوچ اور اپروچ کا بڑی آسانی کے ساتھ اندازہ لگا سکتی ہیں اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہو جاتی ہیں ۔ انہوں نے ایسی لڑکیوں کے احساسات وجذبات کو بڑی سحرکارانہ زبان بخشی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ہر لڑکی کے کچھ ارمان اور کچھ خواب ہوتے ہیں لہٰذا اس کو وقت کے ساتھ ساتھ پورا کر دینا چاہیے۔ جیسا کہ اس افسانے میں لڑکی کا نکاح ہوتا ہے مگر رخصتی کے ارمان اس کے دل میں رہ جاتے ہیں اور وہ راہ راست سے بھٹک جاتی ہے اور اپنی زندگی کا سب سے بڑا گناہ کر بیٹھتی ہے۔ زیب النسا زیبی ایک گہری فکر کی حامل خاتون ہیں اور وہ خواتین کی پیچ درپیچ اور تہہ در تہہ نفسیاتی کیفیات سے بھی بخوبی واقف ہیں اور اس کی ترجمانی بھی کرتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ اس المیہ کی طرف بھی پڑھنے والوں کا ذہن منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں جہاں سے ایک لڑکی اپنی اور اپنے خاندان کی نظروں سے گرنے لگتی ہے۔
احساس ندامت کی پیشکش کے اعتبار سے ان کا افسانہ ‘‘پچھتاوا’’ بھی اہم ہے ۔لیکن اس کی کہانی دوسرے افسانوں سے ذرا ہٹ کر ہے اس افسانے میں عورت کی بے بسی اور اللہ کے انصاف کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس افسانے میں ایک ایسی عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے جس کے ہاں بیٹا پیدا نہیں ہوتا اور بیٹیوں کی وجہ سےا س کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے گھر میں کوئی قدر نہیں ہوتی ساس اور نندوں کی بھی باتیں سننا پڑتی ہیں ہر وقت طعنے سننے پڑتے ہیں مگر وہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتی ہے:
‘‘ جب کنول نے جنم لیا تو جاوید کی آنکھوں کی مسرت یکدم معدوم ہو گئی۔ اس کی تو ہر مرد کی طرح یہی خواہش تھی کہ اس کے ہاں بھی پہلے بیٹا جنم لے لیکن قدرت دکھ سہنے والوں کو ہی دکھ دیتی ہے۔’’ (۲۲)
ثریا کی اس کے بعد جڑواں بیٹیاں ہوتی ہیں اس کے بعد تبسم، سحر، مہر، آسمہ، نادیہ ، زینت اور رخسانہ سے گھر بھر گیا۔ ہر وقت جاوید اس کے اکھڑ اکھڑارہتا اور زیادہ اخراجات ہونے کی وجہ سے دوسری شادی بھی نہیں کر سکتا مگر ایک دن اچانک جاوید کے پیٹ میں درد شروع ہوتا ہے اور وہ درد سے نڈھال ہو جاتا ہے جب ثریا جاوید کو سنبھالنے لگتی ہے تو وہ ماؤں بہنوں کو دیکھ کر ثریا کو دھکادے دیتا ہے اور کچھ اس قسم کے الفاظ بولتا ہے:
‘‘اپنے اس مٹکے نما اتھل پتھل کرتے وجود کو مجھ سے دور لے جاؤ’’( ۲۳)
کہتے ہیں نا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے تو جاوید کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے بیماری بڑھتی جاتی ہے اور ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ جاوید کو عمر بھر اس بھاری پیٹ کے ساتھ چلنا پڑے گا:
‘‘اس بھاری پیٹ کا وزن اس کو تب تک اُٹھانا ہے جب تک جینا ہے اس نے ثریا کی جانب دیکھا جو گزشتہ پندرہ برسوں سے یہ وزن بلا کسی سے کچھ کہے خاموشی سے اُٹھائے چلی آتی تھی اور کسی نے اس کے دکھ کا اندازہ نہ کیا تھا۔’’ (۲۴)
زیب النسا زیبی کو لکھنے پر عبور حاصل ہے انہوں نے بہت خوبصورتی سے نہ صرف معاشرے کے حقائق بیان کرنے کی کوشش کی بلکہ انہوں نے خدا کی قدرت بھی دکھائی کہ انسان کو ہمیشہ اللہ کا خوف رکھنا چاہیے کہ اس خدا کی شان جس وقت جلال میں آتی ہے تو وہ پروردگار ہر چیز پر قادر ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ تو اس افسانے کے ذریعے زیب النسا زیبی نے ایسے لوگوں تک پیغام پہنچایا ہے جو بیٹے کی لالچ میں کسی پر ظلم کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ جو سب کچھ ہماری خاطر چھوڑ کر آئی ہے تو اس کا خیال رکھیں اسے عزت دیں نا کہ اس کے ارمانوں کا گلا دبائے اس کی خواہشات کو اپنے قدموں تلے روند دیں ۔ اس افسانے کے ذریعے افسانہ نگار ایک ایسے روپ میں سامنے آتی ہیں جن کی کہانیوں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہاں حقیقت نگاری کا حق ادا کیا گیا ہے ۔ ہمارا معاشرہ عورت کے ساتھ بہیمانہ سلوک روا رکھتا ہے ۔بیٹے اور بیٹے کی تقسیم فطرت کی طرف سے ہوتی ہے لیکن ہم اس کی پیدائش کی ذمہ داری عورت پر ڈال دیتے ہیں ۔اور یوں عورت کو ایسے جرم کی سزا بھگتنا پڑتی ہے جو اس کے بس میں ہے ہی نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے ۔
زیبی کے افسانوں میں دولت مند اور افسر شاہی کلچر کی ترجمانی کا حق بھی ادا کیا گیا ہے ۔اس کلچر سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے مشاعل ، ان کی پسند و ناپسند ، زندگی کے حوالے سے ان کا مخصوص زاویہ نظر العرض سب کچھ ملتا ہے ۔مثلاً افسرشاہی طبقے یا نسبتاً مالدار اور جاگیر دار طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتیں اولاد کی تربیت کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتیں بلکہ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ذمہ داری ان کے نوکروں اور دایوں کی ہے ۔ان کا افسانہ ‘‘گل جانہ’’ بھی ہمارے معاشرے کے اس پہلو کی بھرپور انداز میں تصویر کشی کرتا ہے ۔یعنی مشرقی لوگوں نے مغربی تہذیب کو اپنا لیا ہے مائیں بچوں کی جنم دینے کو ہی بس اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ افسانے میں تصویر کے دو رخ دکھائے گئے ہیں ایک طرف تو وہ مسز فراز جو جوانی میں بچی کو پیدا کرکے اپنی زندگی میں دوبارہ مصروف ہو گئی اس کی دیکھ بھال نہیں کرتی مگر جب بڑھاپا آجاتا ہے تو وہی فراز جوانی میں اس کی تعریفیں کرتا تھا آج موجود نہ تھا آج اس نے اپنی بیٹی کو پہلی بار جوانی میں قدم رکھتے دیکھا تو اپنے بڑھاپے کا احساس ہوا:
‘‘ اس کا احساس تو انہیں گل جانہ کو دیکھ کر ہواتھا۔ آج پہلی بار اپنے چہرے پر بڑھاپے کے آثار نظر آئے تھے۔’’ (۲۵)
یوں وہ پہلی بار اپنی زندگی میں اولاد کی ضرورت بھی محسوس کرنے لگتی ہے اور ان کے وجودکا بھی احساس ہوتاہے ۔ لیکن یہ احساس احساس ندامت کی زد میں ہے ۔اسے محسوس ہوتا ہے کہ پودے کو خونِ جگر سے سینچنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے لہٰذاوہ ماں ہوتے ہوئے ممتا سے خالی تھی اور اب اس کی بیٹی کی شخصیت میں سرخی کہیں نظر نہیں آتی جو ماں کے خونِ جگر سے عبارت ہوتی ہے :
‘‘انہوں نے جو بیج ۱۸ برس پہلے بویا تھا وہ پودا ثمر تو دے رہا تھا لیکن یہ پھل سچے ہونے کے باوجود بھی کس قدر مصنوعی پن میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان میں کوئی خوشبو، کوئی مٹھاس کوئی تازگی نہیں تھی۔‘‘ (۲۶)
وہ جذبات جو ایک بچے میں اپنے والدین کے لیے ہونے چاہیں تھے ، گل جانہ اس سے مکمل طورپر خالی تھی ۔ لیکن اس کی قصور وار گل جانہ نہیں بلکہ مسز فراز تھی۔ انہوں نے بچی پر توجہ نہ دی لہٰذا بچی کے لیے بھی خون کے رشتوں میں کوئی کشش نہ تھی ۔
وہ والدین کی عدم توجہ کی وجہ سے دوستوں کے ساتھ باہر گھومنے جاتی اور احسان عمر کی وجہ سے حاملہ بن گئی اور آخر گل جانہ اپنی اولاد کی پیدائش کے موقع پر خود خالق حقیقی سے جا ملتی ہے اورا س کی دوست رفیہ سوچتی ہے۔
‘‘رفیہ بچی کو سینے سے چمٹائے سوچ رہی تھی کہ کیا اس بچی کو بھی گل جانہ بنانے کے لیے مسز فراز کی گود میں ڈال دے لیکن ذہن میں گل جانہ کے تباہ کن تصور کے رینگتے ہی رفیہ نے بچی کو سینے سے سختی سے بھینچ لیا۔’’ (۲۷)
اس افسانے کے ذریعے زیب النسا زیبی نے یہ بات باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ جو لوگ جوانی میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دیتے تو ایسے لوگوں کا بڑھاپا دنیا اور آخرت تینوں خراب ہو جاتے ہیں اور ان کے بچے بھی صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے خراب زندگیاں گزارتے ہیں یعنی جو کچھ والدین نے ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے بچے بھی پھر اپنے بچوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں اور یہ روایت پھر نسل در نسل چلتی ہے لہٰذا انسان کتنا بھی امیر کیوں نہ ہو جائے اسے اپنا مذہب اور اپنی روایات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
ان کے افسانے ‘‘عزم’’ قدرت کا انتقام، فیصلہ، انتظار، خواہش اور شکر کے آنسو’’ وغیرہ ایسے ہیں جن میں ہمیں معاشرتی برائیاں اور پھر ان برائیوں پر احساس ندامت کا شدت کے ساتھ احساس ہوتاہے ۔ یعنی زیب النسا زیبی نے ان افسانوں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔اس قسم کے افسانے ان کے ادبی مشن کے ترجمان ہیں ۔اور اس قسم کی کہانیوں نے ان کے فن میں وہ رنگ بھر دیا ہے جسے مقصدیت کی ہمہ گیر اصطلاح سے تعبیر کیا جاسکتاہے ۔ایسی مقصدیت جو نئی امنگوں اور نئے مسائل کی ترجمان ہے۔اصلاح اور مقصدیت کا یہ نیا حوالہ افسانوی دنیا میں یقیناً ایک نئے ذائقے کا حامل ہے۔
۳.۳ غربت و افلاس:
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس وقت اس کا سب سے بڑا المیہ غربت و افلاس ، بے روزگاری، معاشی مسائل وغیرہ ہیں اور جس جگہ غربت و افلاس اور بے روزگاری جیسے مسائل ہوں گے وہاں بہت سے دیگر مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ زیب النسا زیبی نے اپنے ارد گرد کے ماحول میں جس چیز کو محسوس کیا اس میں اپنے احساسات و جذبات و خیالات کو شامل کرکے قارئین کے سامنے پیش کر دیا۔مصنفہ نے ان موضوعات پر قلم اُٹھایا جس میں وقت کے بدلاؤ کے ساتھ ساتھ ابھی تک کوئی بدلاؤ نہیں آیا اور یہی مسائل اور ان سے ملتے جلتے مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک لکھاری کا تو منصب ہی یہی ہے کہ وہ بہت سے المیوں اور مسائل کو یکجا کرکے ہماری توجہ مبذول کرنے کی سعی میں مصروف رہے۔ رام لعل کے نزدیک:
‘‘ کہا جاتا ہے کہ تخلیقی آرٹ کی صحیح نشو و نما کے لیے نا آسودہ زندگی یعنی پسماندہ بستیوں یا بھیڑ بھاڑ و الے شہروں کا ماحول ہی بے حد سازگار ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ہمارے بیشتر لکھنے والے اسی قسم کے ماحول کے پروردہ تھے اور انہوں نے اپنے گرد وپیش کی سچی عکاسی کی۔ نئی تبدیلیوں کا احساس عام کیا اور ایسے خوابوں کے تانے بانے بھی بنے جو بہتر زندگی، بہتر ماحول اور خوشحالی کی تمناؤں سے معمور تھے۔۔۔۔’’ (۲۸)
اردو ادب کے میدان میں بہت سے لکھاریوں نے معاشرے میں موجود ایسے موضوعات پر بھی قلم اُٹھایا جن کے ذریعے معاشرے میں موجود مسائل سے پردہ اُٹھایا جا سکے۔ زیبی معاشرے میں موجود مسائل پر نظر رکھتے ہوئے ان کے حوالے سے مستور انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ان کے افسانوں میں سماجی الجھنوں، معاشی تلخیوں اور سیاسی نوعیت کے مختلف پہلوؤں کی بے لاگ مصوری کے علاوہ اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کا ذکر بھی آزادی کے ساتھ ہوا ہے۔ بقول پروفیسر سحر انصاری:
‘‘ زیبی کے اندر اظہار کا ایک طوفان چھپا ہوا ہے۔ ’’ (۲۹)
ان کا ایک اہم افسانہ ‘‘گرل فرینڈ’’ ہے ۔ جس کے ذریعے سے زیبی نے معاشرے کے بے رحم چہروں سے پردہ ہٹایا ہے اور معاشرے میں موجود انسانوں کے روپ میں موجود بھیڑیوں کی غلط سوچ کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔یہ افسانہ ہمارے معاشرے کے ایک انتہائی اہم مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے ۔افسر شاہی طبقہ یا وہ لوگ جن کے ہاتھ میں نوکریوں کی زمامیں ہیں ، ان کا اختیار لوگوں کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذہنی اور جذباتی تسکین کے لیے ہے ۔ہر کوئی اپنے جسم کی پکار کا پجاری ہے اور روح کو تنومند بنانے کی اسے کوئی فکر نہیں ہے ۔ہر ایک آفیسر کے قریب جب کوئی تعلیم یافتہ لڑکی نوکری کی خواہش لے کر جاتی ہے تو اس کی طرف سے جسم کی خواہش لے کر واپس پلٹتی ہے ۔ہر ایک آفس میں خواہش میں لتھڑے ہوئے لوتھڑے موجود ہیں ۔یہاں ایک ایسی لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو ملازمت کے لیے در بدر ٹھوکریں کھاتی ہے مگر ہر کوئی اس کو غلط نظر سے دیکھتا ہےاور اس کو گرل فرینڈ بنانے کی سوچتا ہے اس آفس میں اس کے والد کی عمر کا آدمی کہتا ہے:
‘‘ہم تمہیں گرل فرینڈ ہی کہیں گے چاہے تم برا مانو’’ (۳۰)
آشا اس آفس کو چھوڑ کر اپنے لیے کہیں اور ملازمت ڈھونڈتی ہے مگر اس کو ہر جگہ ایسے ہی لوگ ملتے ہیں ۔ رشوت، سفارش یا پھر گرل فرینڈ بننے کا بولا جاتا ہے ایک اور آفس میں اسے کہا جاتا ہے:
‘‘تم بھی چاہو تو نہ صرف ملازمت بلکہ ترقی کی راہیں بھی تم پر کھل سکتی ہیں یہاں بس ہم سے دوستی کرلو ہماری گرل فرینڈ بن جاؤ’’ (۳۱)
آشا کواور کوئی چارہ نظر نہیں آتا تو پھر وہ اپنی ایک سہیلی سے بات کرتی ہے اور اس کی دوست اس کو بتاتی ہے کہ اس کا باس رحمدل انسان ہے آشااس کی دوست کے ساتھ باس کے گیسٹ ہاؤس میں پہنچتی ہے مگر وہ بھی ویسا ہی ہوتا ہے آشاکی باس کے ساتھ روم میں چلی جاتی ہے مگر وہاں پر موجود ایک لڑکا جب آشاکا ہاتھ پکڑتا ہے تو آشازور سے چیختی ہے اور پھر اس کی سہیلی شراب کے نشے میں دھت برہنہ باہر آجاتی ہے اور کہتی ہے۔
‘‘اے تم خواہ مخوا گھبرا گئیں میں نے منور صاحب سے تمہاری نوکری کی بات کرلی ہے وہ تو صرف تمہیں اپنی گرل فرینڈ بنانا چاہتے تھے۔’’ (۳۲)
پھر آخر میں آشاکی ملاقات ایک فرمان نامی نیک انسان سے ہوتی ہے وہ آشاکو جاب کی یقین دہانی کرواتا ہے اور وہ اشنا سے کہتا ہے کہ اندر جاکر اپنا البم لے کر آتا ہوں :
‘‘فرحان صاحب البم لینے کمرے میں چلے گئے اشنا نے ایک رسالہ اُٹھا کر ورق گردانی شروع کر دی یہ کیا پہلا صفحہ کھولتے ہی اس کے رگ و پے میں خوف کی گہری لہر اتر گئی اس نے ننگی تصاویر دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں اور رسالہ نیچے پھینک دیا۔’’ (۳۳)
زیب النسا زیبی نے اس افسانے میں معاشرے کے اس پہلو کی نشاندہی کی ہے جس پر ہر کوئی بات نہیں کرتا۔ آشا فرحان صاحب سے پوچھتی ہے کہ اس گھر میں اور کوئی نہیں رہتا تو وہ بتاتے ہیں کہ یہ گھر تو صرف گرل فرینڈ کے لیے رکھا ہوا ہے:
‘‘آشا آج جب گھر لوٹی تو اس حقیقت کو سمجھ چکی تھی کہ بغیر گرل فرینڈ بنے اس کو نوکری ملنا محال ہے اور پھر دوسری صبح وہ فرحان کو فون کرکے ملنے کا ٹائم مقرر کر رہی تھی۔’’ (۳۴)
اس افسانے میں زیبی نے بہت بے باک انداز میں ایک ایسے مسئلے سے پردہ اُٹھایا جس کو بہت کم لوگ سامنے لاتے ہیں۔ یعنی ہمارے معاشرے میں لڑکی کو غلط راستوں پر ڈالنے کے لیے کس حد تک مجبور کیا جاتا ہے اور آخر میں الزام بھی لڑکی پر ہی لگتا ہے کہ اگر عورت موقع نہ دے تو ایک مرد میں جرأت پیدا نہیں ہو سکتی۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ، ہمارے دفتروں میں اس قسم کے لوگ لڑکی کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی تاک میں بیٹھے رہتے ہیں ۔اور طرح طرح سے اس کو مجبور کیا جاتا ہے، تاکہ اس کے جسم کے ساتھ کھیلا جاسکے ۔ یہ افسانہ اس مسئلے کی بھرپور ترجمانی کرتا نظر آتاہے۔ بقول حارث جنید داؤد:
‘‘ زیب النسا زیبی کی تخلیقات میں سیاسی اور سماجی دونوں حوالوں سے معاشرے کے مسائل ، الجھنوں اور پریشانیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔’’ (۳۵)
اسی طرح زیب النسا زیبی کا افسانہ ‘‘ یہ عالم شوق کا’’ بھی ہمارے معاشرے میں موجود سب سے بڑا مسئلہ یعنی بے روزگاری اور غربت و افلاس کی تصویر کشی کرتا ہے افسانہ نگار نے بہت مہارت کے ساتھ ہمارے اس معاشرتی المیہ کی طرف قارئین کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے اس افسانے میں زیب النسا زیبی نے ایک کردار ‘‘رحمت’’ کے ذریعے غریب طبقے کے لوگوں کے فن اور ہنر کی بھی ترجمانی کی ہے رحمت نے کوئی روزگار نہ ہونے کی وجہ سے کبوتر پال رکھے ہیں صبح ان کو اُڑاتا ہے اور ان کے ساتھ جو دوسرے کبوتر واپس آتے ہیں اُن کو پکڑ کر بیچتا ہے اور اس طرح اس کے گھر کا چولہا جلتا ہے جیسا کہ اس افسانے میں بیان کیا گیا ہے:
‘‘ رحمت، بھئی نایاب کبوتر ہے کسی رئیس کو دوگے تو کافی رقم مل جائے گی۔۔۔۔ خلیفہ شبن۔۔۔۔ ہاں جی اپنا کاروبار بھی یہی ٹھہرا۔’’ (۳۶)
اس افسانے میں یہ بھی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شوق تو صرف رئیس لوگ ہی کر سکتے ہیں غریب بچارے تو کسی طرح سے گھر کا چولہا بھی جلا لیں تو بہت بڑی بات ہے:
‘‘رحمت نے کہا کہ یہ آج ہی پتا چلا ہے کہ تم نرے کبوتر باز نہیں بلکہ کبوتر پالنے کے بھی شوقین ہو۔۔۔۔۔۔خلیفہ شین یار ہم مزدور لوگ کیا شوقینی کریں گے شوق تو رئیسوں میں ہوتا ہے تم نے سنا ہوگا کہ لکھنؤ کے نواب واجد علی شاہ جب نظر بند ہو کر مٹیا برج پہنچے تو وہاں انہوں نے چڑیا خانہ بنوایا اور ایک کبوتر کا جوڑا جس کا نام ریشم پری تھا پچیس ہزار میں خریدا تھا۔ ’’ (۳۷)
زیب النسا زیبی نے اس افسانے کو بہت اچھے انداز سے پیش کیا ہے یعنی اس بات کی بھی وضاحت نظر آتی ہے کہ غریب بچارہ تو صرف پیٹ کی آگ بجھانے میں بھی غنیمت سمجھتا ہے اور شوق تو امیروں کے ہوتے ہیں اگر انہیں قید و بند بھی ہو تو وہاں بھی شوق پورا کرلیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زیبی کے مطالعے کو بھی داد دینی پڑے گی کیونکہ زیبی نے اس افسانے میں جس طرح سے کبوتر کی نسلیں اور نام وغیرہ بتائے تو وہ ایک شوقین اور کبوتر باز ہی بیان کر سکتا ہے ۔
زیب النسا زیبی نے اپنے افسانوں میں تقریباً ہر طبقے سے وابستہ لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے اس میں چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، ملازمت پیشہ ہو یا بے روزگار یعنی وہ معاشرے میں موجود تقریباً تمام مسائل کو سامنے لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا افسانہ ‘‘نو ویکنسی’’ بھی غربت اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ احساس کمتری کی تصویر پیش کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس افسانے میں عورت کے جنسی مسائل کو بھی پیش کیا گیا ہے کہ ایک عورت اپنی جنسی خواہشات کو کس طرح پورا کرتی ہے۔
افسانہ ‘‘تو ویکنسی’’ میں ایک ایسے لڑکے کی کہانی بیان کی گئی ہے جس کے پاس روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں اور وہ عورتوں کی جنسی خواہشات کو پورا کرکے اس کے عوض رقم وصول کرتا ہے اور اس طرح مہینے کا پندرہ بیس ہزار کما لیتا ہے نیٹ پر فیصل اپنا نام یاسمین رکھ کر اس سے رابطہ کرتا ہے اور اس سے اس جاب کی وجہ پوچھتا ہے تو اپنا جسم بیچنے والا ‘‘ایکسپرٹ مین’’ کے نام سے مشہور یہ لڑکا بیان کرتا ہے کہ:
‘‘یہ میری جاب ہے میری روزی ہے’’ (۳۸)
پھر نعیم اس کو احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ گناہ ہے مگر ‘‘ایکسپرٹ مین’’ کہتا ہے کہ میں کسی کے ساتھ زبردستی تو نہیں کرتا جس کی خواہش ہوتی ہے وہ لوگ خود میرے پاس آتے ہیں:
‘‘ یہ وہ لڑکیاں ! جو اپنی اور ایج کی عمر قید کی سزا کا حل کہاں ڈھونڈیں۔ یہ عورتیں اپنے بوڑھے مزاج شوہروں یا ملک سے باہر رہنے والے شوہروں کے انتظار میں خود سے کب تک سمجھوتہ کریں؟۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لڑکیاں ہیں جو سماج کی بے جا رسوم و رواج ، غربت، ماں باپ کی انا کے سبب شادی کی عمر سے نکل گئی ہیں۔ جہیز ، اسٹیٹس، خوبصورتی یہ سب ان کی دسترس میں نہیں تھا۔۔۔۔۔’’ (۳۹)
زیبی معاشرے کی دھڑکنوں کو محسوس کرسکتی ہیں ۔ انہوں نے بہت خوبصورت اور عمدہ انداز میں اس معاشرے کے اُس المیے کی طرف بھی توجہ مرکوز کروائی جس کے بارے میں بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ کس طرح سے بیٹیاں گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں اور پھر جب فیصل سوچتا ہے کہ کیوں ناں وہ بھی اس پیشے کو اپنائے کیونکہ اس کے پاس بھی کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں لیکن دوسرے ہی لمحے فیصل اُداس ہو جاتا ہے :
‘‘ فیصل نے اپنے منحنی جسم پر نظر ڈالی تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا یہاں بھی تمہارے لیے نو ویکنسی ہے ہاں نو ویکنسی فیصل میاں اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔۔’’ (۴۰)
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں روزبروز جو بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں ۔ٹارگٹ کلنگ، خود سوزی، چوری ڈکیتی وغیرہ اور ہر طرح کی برائی کے پیچھے اس کی اصل وجہ بے روزگاری اور غربت ہے انہوں نے ان برائیوں کا جب تجزیہ کیا تو پس منظر میں ان کو یہی وجہ نظر آئی ہے۔
زیب النسا زیبی نے اپنے افسانوں میں غربت و افلاس، معاشرتی مسائل، سماجیات جیسے مسائل کو بیان کیا ہے اس ضمن میں ان کے افسانے ‘‘افلاس کے سائے’’ سپنوں کی رات، سزا، مزدور اور بھوک ’’ وغیرہ بھی خاص طورپر قابل ذکر ہیں اور یہ افسانے ایسے ہی موضوعات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
۴.۳ حکمرانوں پر طنز:
زیب النسا زیبی کے افسانے ہمارے موجودہ معاشرے کی خامیوں، برائیوں اور کج رویوں پر برابر نظر رکھے ہوئے ہیں وہ چونکہ خود سیاسی مقتدر حلقوں میں ایک فعال رکن کے طور پر موجود رہی ہیں اور وہ سماجی کارکن کے طور پر بھی کافی متحرک رہی ہیں اس وجہ سے ان کا تجربہ اور مشاہدہ خاصا وسیع ہے ان کی کہانیاں حکومتی حلقوں کی اُن خامیوں کو بھی سامنے لاتی ہیں جس تک ایک عام آدمی کی نظر نہیں پہنچ سکتی اور اس کے ساتھ ساتھ چونکہ وہ سماجی کارکن کے طور پر عام لوگوں کے ساتھ بھی ربط میں رہتی ہیں لہٰذا عام لوگوں کے مسائل کا احساس بھی ان کو شدت کے ساتھ ہے۔انہوں نے اپنے افسانوں میں حکومتی اداروں اور عہدیداروں کی وجہ سے عام انسانوں کو جن مشکلات ، مصائب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن کی نشاندہی کی ہے اور اس معاملے میں انہوں نے صاف گوئی سے کام لیا ہے۔اُن کے قلم کا جھکاؤ محض حقیقت کو حقیقت دکھانے کی حد تک نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اپنے تخیل کے رنگ شامل کرکے اُن میں ایک مخصوص قسم کا مبالغہ آمیز کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ہمارے اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر ایسے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اس کی من مانی تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیبی کے افسانے ‘‘کرپشن کا سیلاب ’’ میں انسپکٹر شان ملک کا اعلیٰ افسر اپنے ماتحت افسر کی تیار کی ہوئی اس رپورٹ کوبدلنے کا حکم دیتا ہے جو سچائی پر مبنی ہے۔ انسپکٹر شان ملک اور اعلیٰ افسر کی گفتگو کچھ یوں ہوتی ہے:
‘‘ پھر اس اعلیٰ افسر نے ہونٹ بھینچ کر کہا‘‘مسٹر شان ملک یہ کیسے۔۔۔؟
سر!۔۔۔۔ یہ بالکل سچ ہے۔۔۔۔’’ انسپکٹر شان ملک نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔
آپ اب بھی چاہیں تویہ رپورٹ بدل سکتے ہیں۔’’
وہ کس لیے سر؟ انسپکٹر شان ملک کے چہرے پر گہرا استعجاب چھا گیا۔
اس لیے کہ۔۔۔۔۔ کیا آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ اس رپورٹ کا کیا انجام ہوگا؟’’ اعلیٰ افسر نے اسے دھمکانے کی کوشش کی۔’’ (۴۱)
ہمارے اداروں کا یہ مزاج تخلیق پاکستان سے لے کر اب تک کچھ اسی قسم کارہا ہے ان لوگوں میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ حقائق کو جوں کا توں گوارا کرنے کی زحمت کرتے ایسی صورت میں ماتحت افسر کی ایمانداری اُسے لے ڈوبتی ہے زیبی نے اس مقام پر اعلیٰ افسر کی زبانی ہمارے افسر شاہی کی ذہنیت بڑی کامیابی کے ساتھ سامنے لانے کی کوشش کی ہے:
‘‘ شٹ اپ۔۔۔۔ اس نے بڑے زور سے میز پر مکا مارا اور کتے کی طرح غرایا پھر پوری قوت سے میز پر مکا مارا ۔ تم ہماری حکومت کے خلاف زہر اُگل رہے ہو۔ نفرت کا بیچ بو رہے ہو۔۔۔’’ (۴۲)
پھر اس افسر کا رد عمل کچھ اس طرح سامنے آتا ہے:
‘‘اتنا کہہ کر ہوم سیکرٹری نے رپورٹ پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی اور نئے افسر کو نئی رپورٹ تیار کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ ’’ (۴۳)
اس افسانے میں حکومت اور اعلیٰ عہدیداروں کے بارے میں افسانہ نگار نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اعلیٰ افسران کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کی کرپشن پر یہ اعلیٰ افسر کس طرح پردہ ڈالتے ہیں۔
اسی طرح زیب النسا زیبی کا ایک اور افسانہ ‘‘دیس پر دیس ہوا’’ بھی حکمرانوں کی نا اہلی اور کمزوریوں کی وجہ سے جو ملکی حالات ہوتے ہیں اور ان میں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان سے تنگ آکر ایک جوڑا پر دیس چلا جاتا ہے کہ وہاں کچھ سال رہ کر ملازمت کرکے کچھ کمالیں گے تو واپس آجائیں گے مگر وہاں جا کر وہ واپس نہیں آتے اور اپنے ملک کے بدلتے ہوئے حالات و حادثات کی وجہ سے وہیں پر رہتے ہیں جب وہاں ایک اور پاکستانی کافی عرصے بعد اس جوڑے سے ملتا ہے تو ان کی گفتگو کچھ اس طرح سے ہوتی ہے۔
‘‘میرا خیال تھا کہ آپ وطن جا کر کوئی کاروبار کر رہے ہوں گے۔۔؟’’
میں نے کہا۔
ارادہ تھا۔۔۔۔ لیکن ملتوی کر دیا۔
وہ کس لیے؟
‘‘اس لیے کہ پاکستان کی کرنسی روز بروز اپنی قدر کھوتی جا رہی ہے ۔ ’’اس نے جواب دیا
‘‘وہاں کی رہائش سے کرنسی کا کیا تعلق ہے؟’’(۴۴)
پھر اس سوال پر کچھ اس طرح سے جواب دیتا ہے:
‘‘بہت گہرا تعلق ہے۔۔۔! وہ ہنسا’’ دس برسوں میں پاکستان کی کرنسی کا بیڑہ غرق ہونے والا ہے۔ کرپشن۔۔۔۔ رشوت ستانی۔۔۔ لوٹ کھسوٹ اور بد عنوان حکمران۔۔۔۔ وہاں خزانہ خالی ہو رہا ہے۔’’ (۴۵)
ان کرداروں کے ذریعے زیب النسا زیبی نے بیرون ملک مقیم ہم وطنوں سوچ اور حکمرانوں کی نا اہلی اور کرپشن کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ آگے چل کر ان کرداروں کے ذریعے انہوں نے سیاسی رہنماؤں اور وڈیروں کی اصلی تصویر اور حقیقت دکھائی ہے۔
‘‘ سیاسی جماعت۔۔۔۔؟ کس سیاسی جماعت کی بات کر رہے ہیں۔۔۔۔ ملک و قوم سے کون مخلص ہے آپ بتائیں۔۔۔؟ وڈیرے ، جاگیر دار۔۔۔۔ سیاسی رہنما۔۔۔۔ سبھی دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔۔۔۔بیانات سے بہلا رہے ہیں۔۔۔ بے وقوف بنا رہے ہیں۔۔۔۔ کسی نہ کسی آڑ سے مال پیدا کر رہے ہیں۔۔۔۔ غیر ملکی آقا کے پٹھو بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔؟ آپ فاتحہ پڑھ لیں۔’’ (۴۶)
زیبی ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں انہوں نے اپنے افسانوں میں سچائی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا اور بہت بے باک انداز میں ہر طبقہ کے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی اور حکومت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کا افسانہ ‘‘تماشا’’ بھی نہ صرف حکومت پر طنز کی ایک عمدہ مثال ہے بلکہ الیکشن کے دوران یہ حکومتی نمائندے جس طرح سے خود کو اچھا ثابت کرنے سے لے کر قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات میں پس پردہ ملوث ہوتے ہیں ، اس کی بھی بھرپور ترجمانی کی گئی ہے ۔ان حادثات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن کے پس پردہ کسی کا اپنا کوئی سیاسی مفاد پوشیدہ ہو تا ہے ۔کہانی میں کردار ‘‘سیما’’ کے ذریعے ہر قسم کی کرپشن اور ملکی حالات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیما کو سیاست سے سخت نفرت تھی کیونکہ:
‘‘پچھلے ہی برس سیما کا منتوں مرادوں سے مانگا ہوا معصوم ایم اے کا طالب علم بھائی سیاسی، مذہبی ، لسانی جھگڑوں کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔’’ (۴۷)
سیما ایک لکھاری تھی اور ایسے گھر سے تھی جس میں روزگار کا کوئی خاطر خواہ ذریعہ نہیں تھا۔ لہٰذا سیما نے اپنا قلم بیچ دیا یعنی ایک سیاسی پارٹی کے ہاتھوں بک گئی اور موجودہ حکومت کی کرپشن کے بارے میں خوب کھل کر بولی:
‘‘آج وہ ٹی وی چینل پر بیٹھ کر چلا چلا کر بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، پرچی ونڈ مافیا، خود کش دھماکوں، کرپشن، رشوت، لوٹ مار اور موت کے بھیانک کھیل تماشے پر زور و شور سے دلیلیں دے رہی تھی۔ ’’ (۴۸)
پھر آخر سیما کے ساتھ بھی وہی ہوا اگلے دن سیما کی لاش ریلوے پٹڑی سے ملی اور اس کو خود کشی ظاہر کیاگیا ۔ زیب النسا زیبی نے اس مقام میں حد درجے کی بہادری اور حوصلہ مند خاتون ہونے کا ثبوت دیا وہ خود بھی حکومتی نمائندہ تھی مگر انہوں نے اپنے قلم کا سودا نہیں کیا ۔ اور بہت اچھے اور موثر انداز میں ہماری ملکی سیاست کے بھیانک چہرے سے نقاب ہٹایا۔ بقول مہناز حسن زیدی:
‘‘زیبی عام لوگوں کی زندگی سے بہت متاثر ہیں ان کی تحریروں میں ایک پوری نسل کا تجربہ موجود ہے کھلے ہوئے ماحول کی کشمکش سے دو چار لوگوں کی زندگیوں کا مشاہدہ ہے مظلوموں کی ہم نوائی اور استعماری قوتوں کے خلاف بھرپور جہاد ملتا ہے۔ ’’(۴۹)
زیب النسا زیبی کا ایک اور افسانہ ‘‘انقلاب انقلاب’’ بھی حکومت پر کڑی تنقید کی غمازی کرتا ہے اور اس افسانے کے عنوان سے ہی اس میں موجود مواد کی ترجمانی ہورہی ہے اس افسانے میں حکومت کا اور عوام کا وہ روپ دکھایا گیا ہے جو آج کل ہمارے میڈیا بھی دکھا رہا ہے یعنی الیکشن سے پہلے حکومتی نمائندے اور لیڈر جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور عوام سے وعدے کرتے ہیں ان کو بیان کرنے کی کوشش کی اور اس کی مثال اس افسانے سے پیش ہے۔
‘‘ دوسرے دن مندوبین کا جلسہ تھا۔ بڑی بڑی دھواں دار تقریریں ہوئیں۔ انسان کی فطری آزادی، صوبائی خود مختاری، سماجی برابری،انسانی حقوق تسلیم کرنے کی باتیں، سماج کو بدلنے، نیا معاشرتی ڈھانچہ تشکیل دینے، غربت اور افلاس، سرمایہ دارانہ، جاگیر دارانہ، استحصالی بالادست طبقے اور غیر ملکی طاقتوں کے سامنے نہ جھکنے کے عہد جیسے بلند و بالا دعوے کیے گئے۔’’ (۵۰)
لیکن جوں ہی جلسہ ختم ہونے کے بعد کھانا کھانے کا مرحلہ آیا تو تمام لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑے لیکن پھر زیب النسا زیبی نے حکومتی نمائندوں کا وہ چہرہ بھی دکھایا جس کو دکھانے کا حوصلہ بہت کم لوگ رکھتے ہیں:
‘‘ کار ایک جھٹکے سے رکی اور وہ سب اپنے اپنے کمروں میں پہنچا دئیے گئے رات کو شراب کا دور چلا اور چند خوبصورت لڑکیوں کا شباب مدہوش بنانے کے لیے اپنا رنگ جمانے لگا۔ کچھ پرمٹ، کچھ زمینوں کے کاغذات، کچھ پروموشن کے کاغذات کی تقسیم پر دستخط ہوئے۔’’ ( ۵۱)
یہ وہی لوگ ہیں جو ملک کو سنبھالنے اور ملکی مسائل کو دور کرنے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر ان کی اصلیت یہ ہوتی ہے۔اس مقام پر طنز کی لے کافی تیز ہوگئی ہے جو ہر ایک جملے بلکہ لفظ میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔ زیبی کے اس اندازِ تحریر کے بارے میں نقاش کاظمی رقم طراز ہیں:
‘‘ زیب النسا زیبی کوقلم کار کو حیثیت سے بیس برس سے جانتا ہوں۔ ان کی مفتوحات کے کئی شعبے ہیں وہ سرکاری افسر، صحافی، شاعرہ، افسانہ نگار، کالم نویس اور سماجی کارکن ہیں وہ بڑی جرأت اور بیباکی اور سچائی اور کہیں کہیں عصمت و منٹو کرشن چندر اور میرا جی کی برابری کرتی نظر آتی ہیں۔ ’’ (۵۲)
ان افسانوں کے علاوہ زیب النسا زیبی کے بیشتر افسانوں مثلاً ‘‘ فیصلہ، بھوک، منزل اور تماشا ’’وغیرہ میں بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ تمام افسانے بھی اسی موضوع کی ترجمانی کا حق اداکرتے نظر آتے ہیں ۔
ہندوستانی معاشرہ اور پھر اس کے تسلسل میں موجودہ پاکستانی معاشرہ جاگیردارانہ جبر کا شکارر ہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جاگیر دار ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت بن گئے ہیں ۔آج کے دور میں اقدار اور سماجی ساخت میں تعلیم اور سوشل میڈیا کی وجہ سے بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آرہی ہیں اور اس کے مطابق لوگوں اور جاگیرداروں اور نوابوں کے رویے بھی کافی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں لیکن آج سے بیس تیس برس پہلے شاید ایسی صورتحال نہیں تھی۔ کسانوں اور کاشتکاروں کے ساتھ ان کاظلم و جبر مثالی نوعیت کا تھا اور ان کے متعلق سوچتے ہوئے بھی روح اور جسم دونوں کانپ اٹھتے تھے ۔زیبی کے افسانوں میں ہر استحصال گر طبقہ بے نقاب نظر آتا ہے ۔
ان کے افسانوں میں متنوع قسم کے موضوعات ملتے ہیں ، جنہیں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ زیب النسا زیبی نے زندگی کے ہر پہلو پر غور کیاہے اور ہمارے معاشرے میں موجود مسائل کو پرکھا ہے اور ان مسائل پر غور کرنے کے بعد ان کو صفحۂ قرطاس پر اُتارا ہے تاکہ ایسے لوگوں کا چہرہ بے نقاب ہو سکے جو کہ خود کو بہت نیک اور پارسا سمجھتے ہیں۔ زیب النسا زیبی نے تمام موضوعات پر لکھ کر ایک لکھاری ہونے کا حق ادا کیا ہے یعنی چاہے کوئی بھی موضوع ہو انہوں نے حقیقت پسندی اور بے باکی سے کام لیا ہے ۔ جہاں انہوں نے ہمارے سماج کی ناہمواریوں مثلاً بے روزگاری، غربت و افلاس ، حکومت پر طنز اور بے حسی جیسے موضوعات کو زیر بحث لانے کی کوشش کی ، تو اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے وڈیروں اور جاگیرداروں کی حقیقت بھی بیان کی۔ اور ان کا گھناؤنا چہر ہ قارئین کے سامنے لانے کی کوشش کی ۔بقول افضال شوق:
‘‘ اپنی تحریروں میں گہرے مشاہدے ، درد مندانہ دل ، حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ جابرانہ و ظالمانہ نظام ، بوسیدہ رسوم و رواج، سیاست دانوں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں مظلوم طبقے کے استحصال پر کربناک حقیقت پسندانہ انداز میں بہت ہمت اور حوصلے کے ساتھ زیبی نے قلم اُٹھایا ہے۔’’ (۵۳)
۵.۳ جاگیر دارانہ نظام:
ان کے افسانوں میں جاگیرداروں اور وڈیروں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح جاگیردار مزدور پیشہ لوگوں پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں اور ان سے جانوروں کی طرح کام لیتے ہیں مگر پھر بھی ان کو ان کا حق ادا نہیں کرتے اگر کوئی ان سے قرضہ لے لے تو پھر اس قرضے کے عوض سود اور سود کے ساتھ ساتھ جب تک قرضہ ادا نہیں ہوتا ان کی غلامی کرتا ہے اور پھر یہ غلامی نسل در نسل چلتی ہے اس کے ساتھ زیبی نے ان کے چہروں کو کچھ اس طرح سے بھی بے نقاب کیا ہے کہ یہ صرف زمینوں کو ہی اپنی جاگیر نہیں سمجھتے بلکہ انہیں اگر کوئی لڑکی پسند آجائے تو وہ بھی ان کی جاگیر ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے یہ لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
اسی بات کی ترجمانی ان کا افسانہ ‘‘مردیچہ’’ کرتا ہے یہ افسانہ ہمارے معاشرے کے جاگیردارانہ نظام کے سپوتوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے افسانہ نگار نے بڑے بھرپور انداز میں جاگیرداروں کے بگڑے ہوئے بیٹوں کی بے لگامی کی عکاسی کی ہے زیبی نے لکھا ہے کہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی بگڑی ہوئی اولادیں کس طرح اپنے زیر دست لوگوں کی عزتوں سے کھیلتے ہیں اس افسانے میں ‘‘وزیر عباسی’’ نامی جاگیردار کے کردار کی روشنی میں جاگیرداروں کی سوچ بھرپور انداز سے سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔وہ تمام ہتھکنڈے جو وہ استعمال کرتے ہیں، انہیں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
وزیر عباسی کو نورین نامی لڑکی پسند آجاتی ہے اور وہ اس کو حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر وہ اس کی دولت سے مرغوب نہیں ہوتی تو وزیر عباسی سوچتا ہے کیوں نا اس کو محبت کے جھانسے میں پھنسایا جائے اور اس کا یہ تیر نشانے پر لگتا ہے اور نورین اس کی اس چال میں پھنس جاتی ہے وزیر عباسی نورین سے شادی کر لیتا ہے مگر وہ اس سے پھر آئے روز بدلے لیتا ہے اور اس کے بدلے کا انداز ایسا تھا کہ وہ روز روز عیاشی کرتا اور نورین سے اس کی شادی کا مقصد نورین کو شکست دینا تھا:
‘‘پہلے ہی دن وزیر عباسی شراب کے نشے میں دھت نورین کے کمرے میں داخل ہوا اور گھونگھٹ الٹتے ہی اسے اپنی فتح کا مژدہ سنا کر تمام شب اس کی ذات اور روح کو پامال کرتا رہا۔’’ (۵۴)
وزیر عباسی کے پاس تو دولت کے انبار تھے اور اس دولت کے استعمال کی زیبی نے ترجمانی کچھ یوں کی۔
‘‘اب تو یہ وزیر عباسی کی زندگی کا معمول بن گیا تھا اس کی عیاشیاں عروج پر تھیں اس کی زندگی میں دولت اور جائیداد کی تو کمی نہ تھی، اختیارات کے لیے ایک محکمے میں اعلیٰ عہدہ بھی رشوت اور سفارش کے عوض حاصل کر لیا تھا اب کی زندگی کا مقصد اس کی بے اندازہ دولت کو لٹانا تھا جو اس کے باپ دادا نے لاکھوں مجبور لوگوں کی زندگیوں کو روند کر حاصل کی تھی۔’’ (۵۵)
انسان جب کسی کے دل میں محبت پیدا کرنا چاہتا ہے تو کافی وقت لگتا ہے مگر نفرت پیدا ہونے کے لیے ایک لمحہ بھی کافی ہوتا ہے تو وزیر عباسی کی حرکتوں کی وجہ سے نورین کو اس سے نفرت ہو جاتی ہے جب بھی وزیر اس کے پاس آنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس سے گھن محسوس کرتی ہے:
‘‘ وزیر عباسی کو اس لمحے ایسا محسوس ہوتا جیسے انہوں نے زندگی میں جس عورت سے شکست کھائی ہے وہ نورین ہی ہے وہ کبھی بھی نورین کو جیت نہ سکے وہ نورین جو اس کی تھی شرعی لحاظ سے بھی مگر وہ اسے پل کے پل میں اپنے سے اتنا دور پاتے کہ نورین انہیں ایک خواب کی طرح محسوس ہوتی۔’’ (۵۶)
اس افسانے میں جاگیر داروں کی کھلی عیاشی کو بیان کیا گیا ہے کہ نہ صرف وزیر عباسی بلکہ جتنے بھی جاگیر دار، سرمایہ دار اور یہ وڈیرے ہوتے ہیں ان کا مشغلہ ہی عیاشی ہے اور ان کا زیادہ رخ بازارِ حسن کی طرف ہوتا ہے۔
زیب النساء زیبی کا افسانہ ‘‘پھول بنے انگارے’’ بھی ان جاگیرداروں اور وڈیروں کی عیاشی کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح ان محلات میں بہت سے راز چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ افسانہ نگار نے ان تمام رازوں کو بڑی جرأت سے بے نقاب کیا ہے ۔یہ کہانی ایک بوڑھے جاگیر دار کی ہے جو ساری زندگی ہوس پرستی اور نوخیز کلیوں کو روندنے میں مصروف رہا اس سے اپنی حویلی کی کوئی نوکرانی محفوظ رہی اور نہ ہی کوئی رشتے دار ۔ اس نے ساری زندگی ایسے گزاری۔ اس کی ایک ملازمہ پر نظر ہوتی ہے اور یہی ملازمہ اس کے بیٹے کی بھی منظورِ نظر ہوتی ہے مگر اس کا باپ اس لڑکی کی عزت پامال کر چکا ہوتا ہے اس لڑکے کو معلوم نہیں ہوتا اور وہ اپنے باپ سے ضد کرکے اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے مگر وہ اس راز کو چھپائے رکھتی ہے لیکن وقت نزع وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں سب کے سامنے یہ حقیقت بتا دیتی ہے:
‘‘ سیما نے ساری زندگی اس راز کو دفن رکھا کہ چوہدری سجاد حسین اس کی عزت لوٹ چکا ہے۔ حتیٰ کہ سیما نے ایک بیٹی کو جنم دیا جو سجاد حسین کے نطفے سے تھی۔ دوسرے بچے کی پیدائش پر سیما کی حالت غیر ہو گئی اور وہ موت کی دہلیز پر آکھڑی ہوئی اس وقت سیما میں نہ جانے کہاں سے اتنی جرأت آگئی کہ وہ مرتے مرتے تمام خاندان کے سامنے چوہدری سجاد حسین کا راز طشت از بام کر گئی جس سے حویلی میں کہرام مچ گیا۔’’ (۵۷)
زیبی نے جاگیر دارانہ نظام پر کھلی تنقید کی ہے اور بڑی جرأت سے ان کے اصلی روپ کی نشاندہی کی ہے جو قابل ستائش ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام جاگیردار ایسے نہیں ہوتے جیسا کہ اس جاگیردار کا بیٹا اپنی ملازمہ سیما سے محبت کرکے اس سے نکاح جیسا رشتہ استوار کرلیتا ہے ۔لیکن کچھ ہوس کے بندے بھی ہوتے ہیں جو عورتوں کے رسیا ہوتے ہیں اور یوں اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لیے ان کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ کچھ غریب اور بے بس لوگوں کا معاشی قتل عام کرتے ہیں کچھ اپنے زیردستوں کو حیوانوں سے بدتر سمجھتے ہیں اور کچھ خدا ترس اور نیک لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن یہ تناسب نہ ہونے کے برابر ہے جاگیر دارانہ نظام میں ظلم، نا انصافی، حق تلفی ، ہوس پرستی اور تکبر بھرا پڑا ہے لیکن اگر اس نظام میں کوئی شریف النفس، خدا ترس اور غریبوں کا ہمدرد جاگیردار پیدابھی ہو جائے تو اسے کیچڑ میں کھلنے والا کنول ہی کہا جا سکتا ہے۔زیب النساء زیبی کا ایک افسانہ ‘‘راز’’ بھی دولت مند وڈیروں کی جھوٹی آن بان کے پیچھے ہونے والے ظلم کی کہانی ہے ۔ اس افسانے میں جاگیرداروں اور وڈیروں کی اپنی دولت کے بل بوتے پر کی جانے والی عیاشی اور اس کے نتیجے میں معصوم لڑکیوں کی زندگیاں عذاب ہونے کی حقیقت کو اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ جاگیردارانہ نظام میں عام لوگوں کو جس طرح اپنی جائیداد تصور کیا جاتا ہے ، اور غریب کاشتکاروں کی عورتوں پر جاگیرداروں کی طرف سے محلات میں جو ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں افسانہ نگار نے اس کی جاندار تصویر پیش کی ہے۔
۶.۳ تلخ حقائق و حوادث:
ایک قلم کار کا فریضہ بھی یہی ہے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو سچائی کے سامنے جوابدہ پاتا ہے ۔اسے عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حساس بھی ہونا چاہیے اور زیادہ صداقت پرست بھی ۔اس کا قلم اس کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری رکھ دیتا ہے جس سے عہدہ برآہونا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔وہ اپنے قلم کی طاقت سے معاشرے کی فلاح اور ترقی کے لیے مختلف انداز میں اپنا فریضہ سر انجام دیتا ہے وہ ادب کے ذریعےہمیں زندگی کے حقائق و حوادث اور اس کے مضمرات سے روشناس کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ وقار عظیم کے خیال میں:
‘‘ ادب نے ہمیں دکھایا کہ زندگی کیا ہے اور کیسی ہے۔۔۔۔ اب وہ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ زندگی کیا نہیں ہے اور اسے کیا بننا ہے۔ ادب ایک نئی زندگی کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔’’ (۵۸)
ادب کو تخلیق کرنے والا ایک فنکار ہوتا ہےاور فنکار میں یہ خداداد صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کی ترجمانی سے دستبردار نہیں ہو سکتا یعنی وہ جس بھی چیز کو دیکھتا ہے اپنی قوت مشاہدہ کے ذریعے اس کا اظہار مختلف اصناف کے ذریعے سے کرتا ہے، اگر دیکھا جائے تو اردو افسانہ نگاروں نے بڑی حد تک اس فریضہ کو نبھانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر شکیل احمد لکھتے ہیں:
‘‘۔۔۔۔۔۔ افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد نے اُردو میں سماجی افسانوں کی تخلیق کی۔’’ (۵۹)
زیبی نے بھی اپنے افسانوں میں گرد وپیش کو نظر انداز نہیں کیابلکہ اردو افسانے میں پریم چند سے گردوپیش کی صداقتوں کی پیشکش کا جو سلسلہ شروع ہوااور جس سلسلے کی کڑیاں راجندر سنگھ بیدی ، منٹو، عصمت چغتائی ، کرشن چندر وغیرہ کے ہاں ملتی ہیں، زیبی کے قلم کا خمیر بھی اسی سے اٹھا ہے ۔ان کے افسانوں میں ان افسانہ نگاروں کی فکری روح بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے اور کہیں کہیں ان کی بازگشت کے اثرات بھی واضح ہیں ۔صرف اس فرق کے ساتھ کہ زیبی نے اس روایت کو اپنے مخصوص اندز میں نبھانے کی کوشش کی ہے ۔ انہیں یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات سے بھی کوئی نہ کوئی بڑا موضوع نکال لیتی ہیں۔اور ان موضوعات کو اپنے تخیل و تصور کے قالب میں ڈھال کر ایک جیتی جاگتی کہانی بنانے کا ہنر بہت خوبصورتی سے ادا کرتی ہیں۔ زیبی کے افسانوں میں زندگی کے نشیب و فراز ملتے ہیں اور وہ اپنی کہانیوں کے ذریعے سماج اور معاشرت پر گہرا طنز کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ زیب النسا زیبی نے اپنے افسانوں ‘‘ کٹی پتنگ، میں بچہ تو نہیں ،اتوار کی ڈیوٹی، آئیڈیل، اک حصار، ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں اور گالی جیسے افسانوں کے ذریعے معاشرے کے تلخ حقائق کی تصویر کشی بڑے مؤثر پیرائے میں کی ہے۔ ان کا افسانہ ‘‘امیر زادے اور امیر زادیاں’’ ہمارے معاشرے کا سب سے اہم موضوع ہے یعنی اس میں برگر فیملی کے لڑکے لڑکیاں جو آپس میں دوستی اور جنسی ملاپ کو فیشن سمجھتے ہیں ان کی طرف توجہ مرکوز کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس میں لڑکا لڑکی کے ساتھ فزیکل ریلیشن نہیں رکھتا تو یہ لڑکی اتنی بے باک ہوتی ہے کہ اس کا اظہار خود کردیتی ہے۔:
‘‘ تم بہت بزدل ہو، ایک حسین لڑکی تمہارے سامنے ہے اور تم اس سے نظریں چرا رہے ہو۔’’ (۶۰)
زیب النسا زیبی جس بے باکی اور جرأت کے ساتھ جنسی معاملات کو احاطۂ تحریر میں لاتی ہیں یہ انہیں کا حصہ ہے۔ ان کے افسانوں میں پرانی اقدار کی شکست و ریخت اور ان کی جگہ لیتے ہوئے نئی اقدار کی لہر بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے ۔ وہ معاشرہ جو مغرب کے رنگ میں رنگتا جا رہاہے اور ہمارا طبقہ اشرافیہ مغربی تہذیب کے اثرات قبول کر رہا ہے ، یہ تمام سلسلہ زیبی کے افسانوں میں بآسانی دیکھا جاسکتاہے ۔وہ بڑی بے باکی سے اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتی ہیں اور ان کے اپنے موضوع پر گرفت کہیں بھی ڈھیلی نہیں پڑتی۔
زیبی نے اس افسانے کے ذریعے ان گھرانوں کی ذہنیت پر بات کی ہے جہاں دوستی میں جنسی ملاپ کو ئی منفی فعل تصور نہیں کیا جاتا،بلکہ دوستی میں جنسی تعلق ایک فیشن کے طور پر شامل رہتا ہے۔ زیبی نے اس حقیقت کو بڑے خوبصورت انداز میں اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔
ان کا ایک اور افسانہ ‘‘میں بچہ تو نہیں ’’ میں بھی جنسی رویوں کو بیان کیا گیا ہے کہ ایسے گھرانے جس میں ماں باپ بچوں کا لحاظ نہیں کرتے تو ان کی سوچ وقت سے پہلے بڑی ہو جاتی ہےاس میں ایک میٹرک کلاس کے بچے کے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے جو سیکس کا متمنی ہے اور وہ یہ عمل اپنی ٹیچر سے کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے ہمارے معاشرے کا اس وقت سب سے بڑا المیہ بھی یہی ہے کہ پہلے وہ استاد جن کو ماں باپ کا درجہ دیا جاتا تھا اور استاد بھی بچوں کو اپنی اولاد سمجھتے تھے مگر آج کل یہ تصور بالکل ختم ہو گیا ہے اور ہر طرف ہوس کا بازار گرم ہے۔
اس افسانے میں زیبی نے یہ بات باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ جب ماں باپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فلمیں دیکھتے ہیں اور ان میں بوس و کنار کے مناظر کو دیکھتے ہیں اور بار بار ان کی آنکھوں کے سامنے جب یہ مناظر گزرتے ہیں تو ان کے دلوں میں جنسی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے ۔یہ ان کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے ۔اور ان کی جبلت میں سرایت کر جاتی ہیں ۔ان کی سب سے بڑی خواہش اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا آدرش ہی یہ بن جاتا ہے ۔وہ خوابوں اور خواہشات کی اس دنیا کو عمل کا حصہ بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں یا اپنے کلاس فیلوز یا اپنے جنسی مخالف تلاش کرتے ہیں جس سے وہ اپنی خواہش پوری کر سکیں ۔جنس ایک فطری عمل ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم اگر والدین اپنے بچوں کے سامنے کچھ احتیاط کریں اور ان کی تربیت سازی پر توجہ دیں تو جنسی بے راہروی کا سد باب ممکن ہے ۔
ہماری زندگیاں المیوں سے ہمیشہ دوچار رہیتی ہیں ۔زلزلے ، سیلاب ، قحط ، جنگ اور اس قسم کی دوسری قدرتی و انسانی آفات آن کی آن میں انسانی زندگی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیتی ہیں۔مثلاً زیبی کے افسانے ‘‘ہماری بے زبانی دیکھتے جاؤ’’میں ایسی ہی ایک تلخ سچائی کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔کہانی میں ایک ایسی لڑکی کو سامنے لایا گیا ہے جو قدرتی آفت کی زد میں آچکی ہے اور اب تقدیر کے کندھوں پر سوار ہے اور اپنی زندگی کی سمت کا تعین کرنے میں ناکام ہے ۔ جس کے گھر والے سیلاب کی زد میں آگئے اور یہ ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی ۔یہ ایک ہسپتال میں داخل ہوتی ہے وہاں ایک بوڑھی عورت اس کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے اور اس کی شادی اپنے بیٹے سے کروا دیتی ہے کیونکہ یہ لڑکی لا وارث ہوتی ہے اور لاوارثی تو زندگی کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے اور پھر اس کو ساری زندگی طعنے سننے پڑتے ہیں اورپھر ایک دن ایسا بھی آجا تا ہے کہ یہ جیتے جی جہنم رسید کر دی جاتی ہے :
‘‘ پھر ایک وہ دن آیا کہ اس گھر میں ایک سوکن نے قدم رکھ کر اس کا جینا حرام کر دیا۔’’ (۶۱)
راحیلہ نے زندگی میں اتنے تلخ حالات دیکھے ہوتے ہیں کہ وہ ماضی کے کواڑوں کو بند کر چکی تھی لیکن جب سیلاب آتا ہے تو راحیلہ ایک بار پھر تڑپ اٹھتی ہے:
‘‘راحیلہ نے اپنے ماضی کے کواڑوں کو مقفل کر لیا تھا لیکن آج جب ریشما نے سیلاب کی ہولناک خبر اس کے سامنے پڑھ کر سنائی تو وہ تڑپ اُٹھی اس کا ماضی اس کے سامنے واہو گیا اور بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ ’’ (۶۲)
اس افسانے میں ایک لڑکی کی بے بسی کی ترجمانی کی گئی ہے اسی طرح زیب النسازیبی کا ایک اور افسانہ ‘‘اختلاف’’ بھی تلخ حقائق کی تصویر پیش کرتا ہے کہ جب میاں بیوی کی سوچ اور آپس میں نہیں ملتی تو پھر بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں اور اس افسانے کے عنوان سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کسی ایسی ہی کہانی کو بیان کرکے معاشرے کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ برداشت کرنا عورت کے خمیر میں گندھا ہے اپنے مجازی خدا کے حکم کی بجا آوری کرنا اس کی جسمانی کمزوری کا بھی تقاضا ہے اور سماجی بندھنوں کی دین بھی ہے ۔ اس افسانے کے ذریعے زیبی نے اُن نادان عورتوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے جو یہ چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر ان کے تابع ہوں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرد عورت کے تابع ہوتا بھی ہے مگر ضروری نہیں کہ سب مرد ایک جیسے ہوں بعض اوقات عورت کو بھی جھکنا پڑتا ہے۔
طوائف کی زندگی ، ان کے مسائل اور سوچ کے حوالے سے منٹو نے اردو افسانے میں ایک توانا روایت کی بنیاد رکھ دی تھی۔یوں پہلی مرتبہ منٹو نے اتنی باقاعدگی کے ساتھ معاشرے کے پھوڑوں کو چیرنے پھاڑنے کی کوشش کی۔ ان کا افسانہ ‘‘ہتک ’’ طوائف کی زندگی کے حوالے سے ایک خوبصورت افسانہ ہے ۔لیکن یہ ایک ایسا موضوع ہے جو نئے نئے حوالوں کے ساتھ ادب کا موضوع بن سکتاہے ۔زیبی نے بالاخانے میں موجود طوائف کے جذبات پر بھی لکھا ہے اور یوں اس نے بھی ہمارے معاشرے کی اس تلخ حقیقت سے آنکھیں بند کرنے کی بجائے اس کے ساتھ آنکھیں چار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا افسانہ ‘‘ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں’’ ایک عورت کی پکار ہے جسے طوائف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے عورت تو عورت ہے خواہ وہ بالاخانے پر ہو یا کسی بنگلے میں افسانہ نگار نے پہلے پہل تو ایک طوائف کے دکھ کو بڑے خوبصورت انداز میں موضوع بنایا ہے اور اس کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے یا معاشرے میں اسے جس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس پر بڑی معنی خیز بحث کی ہے ۔ اس عورت کے دل کی آواز لفظوں میں ڈھل کر ایک نوحے کی صورت اختیار کر گئی ہے ۔
‘‘ میں ایک عورت ہوں جو سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں جو کبھی کبھی دنیا کو ہلا دیتی ہے اور خود جنبش تک نہیں کرتی ایسی عورت جو ظاہر ہوتی ہے تو لاکھوں انسانوں کی زبان بن جاتی ہے۔’’ (۶۳)
ایک عورت اپنے طوائف ہونے پر شرمندگی اور ذلت محسوس کرتی ہے ۔اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بالاخانے تک معاشرے نے ہی اسے پہنچایا ہے ۔وہی معاشرہ جو جنسی پیاس بجھانے کے لیے طوائف کے کوٹھےکا رخ بھی کرتا ہے ، اور طوائف پر لعنت بھی بھیجتا ہے ۔ایسے میں ایک طوائف کا عورت پنا کس حدتک مجروح ہوتا ہے اور وہ جیتے جی اس جہنم میں کس ذہنی کرب سے گزرتی ہے، اس کا اندازہ درج ذیل جملوں سے لگایا جاسکتاہے ۔
‘‘ میں بھی ایک نقطہ ہوں جو بے معنی ہے بے حقیقت ہے لیکن میں یہاں پہنچی کس طرح، سیما، رعنا، نزہت، نرگس، ناہید، زریدہ، ساجدہ، عنبرین، رفیہ، ثریا یہ سب یہاں کس طرح پہنچیں کیا یہ سلسلہ یونہی قائم رہے گا نہیں، نہیں غزالہ چیخ پڑی یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ ’’ (۶۴)
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بالاخانوں پر بیٹھنے والی عورتیں آخر وہاں تک گئیں کیسے؟ اس حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے ہم میں سے کوئی بھی تیار نہیں ہاں البتہ طوائف کو ذلیل و رسوا کرنے اس کی جھولی میں زیادہ سے زیادہ غلیظ خطابات ڈالنے کے لیے ہر کوئی ہمہ وقت تیار رہتا ہے ۔ان المیوں پر کسی نے سوچنے کی زحمت ہی گوار ا نہیں کی ۔ایک طوائف جب طوائف بنتی ہے تو اس میں بہت سے عوامل اور حادثات حصہ لیتے ہیں ۔جنگ ، ہجرت، معاشی مسائل ، لڑکیوں کا اغوا اور ان کی خرید و فروخت اور اس کے علاوہ اور بہت سے عوامل اکٹھے ہوسکتے ہیں ۔کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی خواہش بھی ایک لڑکی کو طوائف بننے کی طرف راغب کرسکتی ہے اور جنسی بے راہروی یا پھر کسی کے ساتھ گھر سے بھاگنا بھی اسے اس مصیبت میں گرفتار کر سکتاہے ۔بہر حال اس افسانے میں افسانہ نگار نے اس خیال کو موضوع بحث بنایا ہےکہ ایک عورت کو بالاخانے تک پہنچانے میں پورا معاشرہ اور پورا نظام حصہ لیتا ہے لیکن جب پھٹکار اور سزا کی بات آتی ہے تو اس کا سامنا محض طوائف کو کرنا پڑتا ہے ۔
‘‘بھگوان’’بھی ان کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں کھیل ہی کھیل میں اسلام اور بت پرستی کا موازنہ کیا گیاہے اور کوشش کی گئی ہے کہ ہندومت اور اسلام کا فرق واضح کیا جا سکے افسانہ نگار نے جس طرح بچوں کو کردار بنا کر اس موضوع کو چھیڑا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔
زیب النساء زیبی نے ہماری گردوپیش کی زندگی کے بیشتر موضوعات کو چھیڑا ہے چاہے وہ موضوع معمولی ہو یا غیر معمولی ، حساس نوعیت کا ہو، نازک ہو ، لطیف ہو اور یا پھر کثیف ۔ان کے قلم کی پہنچ انسانی زندگی اور نفسیات کے ہر پہلو کی طرف ہے ۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں مواد کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ مسائل کو بغیر لگے لپٹے بیان کرنے کی قائل ہیں۔انہوں نے غربت کو گالی کے سوا اور کچھ نہ لکھا ۔ معاشرے میں دولت کے پجاری کسی نیک ،ذہین اور اچھے انسان کا کیا حال کرتے ہیں ، افسانے میں اس پر بڑی خوبصورتی سے بات کی گئی ہے ۔اچھے ، سچے ، نیک ، ذہین اور مثبت لوگوں کے لیے جینے کے تمام راستے مسدود کر دیے جاتے ہیں ۔انہیں وہ عزت نہیں ملتی جو ان خوبیوں کی بنیاد پر ان کا حق ہوتا ہے اور آخر کار جب ایک خوبصورت خیالات رکھنے والا مثبت انسان معاشرے کے اس رویے کو دیکھ کر باغی ہوتا ہے تو وہ سب کچھ بھلا کر ایسے راستے انتخاب کر لیتا ہے جس پر چل کر وہ خود ایک گالی بن جاتا ہے افسانہ ‘‘بھگوان’’ میں کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے۔
۷.۳ ضعیف الاعتقادی:
اس وقت ہمارے معاشرے کا ایک اور گھمبیر مسئلہ ضعیف الاعتقادی، جذبہ ایمان اور توکل باللہ کی کمی اور جھوٹے او جعلی پیروں، فقیروں پر اندھا اعتماد ہے۔ زیب النسا زیبی نے اس حساس سماجی مسئلے کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے ۔تو ہم پرستی تو ہمارے معاشرے کا مزاج بن چکی ہے اور اس سے لوگوں کو فائدہ نہیں اُلٹا نقصان ہی ہورہا ہے ایک طرف تو لوگ دولت کو ان جھوٹے پیروں فقیروں کے ہاتھوں لٹا رہے ہیں دوسری طرف اولاد کے چکروں میں عورتیں اپنی عزتیں پامال کروا رہی ہیں ہمارے معاشرے کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ جھوٹے پیروں، فقیروں کے پاس جانا اُن سے دعا کروانا وغیرہ صرف جاہل طبقے کا ہی وطیرہ نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگوں کا رجحان بھی اس طرف ہے۔
زیبی کے اس قسم کے افسانوں میں اصلاح کی ایک شدید خواہش زیریں لہر کے طور پرموجود رہتی ہے اور بعض مقامات پر کہانی میں سر اٹھانے کی کوشش بھی کرتی ہے ۔انہوں نے اپنے افسانوں میں اس موضوع کو زیر بحث لا کر لوگوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ ان کا افسانہ ‘‘پونم کی رات’’ اس جذبے اور سوچ کی بہترین انداز میں ترجمانی کرتا ہے ۔ اس افسانے میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک باباجی کی درگاہ ہے جس میں ہر چاند کی چودھویں کو دعائیں قبول ہوتی ہیں پونم کا کوئی رشتہ نہیں آتا ہے اور یہ بھی بہت پریشان تھی جب اس کو اس درگاہ کا حال معلوم ہوا تو وہاں حاضری کے لیے چلی گئی اور وہاں تو ایک لمبی فہرست جس میں ‘‘ٹیکنوکریٹ، بیورو کریٹ، وزرا، فقرا، امرا اور غربا سبھی شامل تھے:
‘‘ مرادیں پوری ہونے کی اہم رات ہوتی ہے جو ہر ماہ کی چودھویں تاریخ کو یہاں نہایت عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے اس میں شہر کے تمام چھوٹے بڑے امرا و فقرا دور دور سے آکر شریک ہوتے ہیں۔ پونم حیران تھی جانے وہ چودھویں کی رات کیسی ہوتی ہوگی جب اسے اس کی دل کی مراد ملے گی اس کی ماں چلنے کے قابل ہو جائے گی اور پونم کو اس کا جنم جنم کا ساتھی ملے گا جو اس کے دل کی آرزو پوری کرے گا۔’’ (۶۵)
اس افسانے میں اُس گروہ کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا گیا ہے جو پونم جیسی مجبور اور بے بس عورتوں کو پیروں، فقیروں اور جعلی عاملوں کے چنگل میں پھانسنے کا کام کرتا ہے۔آخر کار پونم کو چاند کی جس چودہ تاریخ کا انتظار تھا وہ رات آجاتی ہے اور پونم دم بخود رہ جاتی ہے اور وہ سراپا شوق بن جاتی ہے کہ وہ اس رات کو ضرور پالے گی:
‘‘پونم اپنے خیالات سے چونکی تو اس کے ارد گرد چودھویں کی رات اپنے عروج پر تھی ہر شخص اپنے دکھوں کو بھولے ہوئے تھا اور پونم بھی اپنے شہزادے کی بانہوں میں مدہوش تھی۔ دوسری صبح جب پونم کی آنکھ کھلی تو اس کا سر چکرا رہا تھا شاید رات کو نشے کی پڑیاں دی گئی تھی اور جب پونم نے اپنے ہاتھ میں اس نے اپنے پاٹنر کے نام کی انگوٹھی دیکھی تو اس پر فیاض حسن تھا اور پھر آنکھیں مسل کر دیکھی تو یہ تو وہی انگوٹھی تھی جو اس کے بھائی نے اپنی شادی پر اسے تحفے میں دی تھی پھر اس شام فیاض حسن کے گھر سے دوجنازے اُٹھے ایک پونم کا اور ایک اس کی ماں کا اور سائیں بابا کی درگاہ پر پھر وہی جشن کا سماں تھا اور سلمیٰ خورشید پھر کسی پونم کو چودھویں رات کے بارے میں اپنی سحر انگیز گفتگو سے مسحور کر رہی تھی۔’’ (۶۶)
زیبی نے اس افسانے میں ہمیں ان ایجنٹوں کے بارے میں بھی خبردار کرنے کی کوشش کی ہے ۔جو اپنے جعلی پیر ، فقیر کے لیے بڑی ہی چالاکی کے ساتھ معصوم اور سادہ لڑکیوں کو پھانسنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں ۔اور اس میں اتنے زیادہ پختہ کام ہوتے ہیں کہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ من گھڑت کہانیاں بنا کر لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اس فن میں کافی طاق ہوتے ہیں ۔
زیب النسا زیبی کا ایک اور افسانہ ‘‘آستانہ’’ ایک ایسے آستانے کا ہے جس کا پیر ایک پروفیسر ہے اور وہ لوگوں کو ملازمت وغیرہ کے مواقع بھی دلواتا ہے لوگوں کو امتحانات کی تیاری بھی کرواتا ہے جن کی اولاد نہیں ہوتی ان کے مسائل بھی حل کرتا ہے یعنی اس کے پاس ہر مرض کی دوا ہے وہ نفسیات میں ایم اے کرنے والے لالہ اسلم کو تیاری کرواتا ہے اور یہ ٹاپ کرتا ہے پھر ‘‘ڈاکٹر اسلم چوہدری’’ جو کہ اس آستانے کا پروفیسر ہے ،‘‘لالہ اسلم’’ کو لیکچرار بھی لگواتا ہے۔
در اصل اس آستانے کا پیر ‘‘ڈاکٹر اسلم چوہدری’’ بھی دوسرے پیروں فقیروں کی طرح ہے یہ نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کی عزت بھی پامال کرتا ہے اور اس کے عوض ان کے کام کرواتا ہے۔ اس افسانے میں آفتاب نامی کردار بھی ماہر نفسیات بننا چاہتا ہے مگر اس آستانے کی حقیقت معلوم ہونے پر وہ یہ موضوع ہی چھوڑ دیتا ہے مگر اس کا بیٹا جب بڑا ہوتا ہے تو وہ بہت ضد کرتا ہے کہ ماہر نفسیات بنے گا:
‘‘آفتاب چونکے اور رومانہ سے مخاطب ہوئے یہ مہتاب کو کیا ہوا تو رومانہ ڈرتے ڈرتے بتاتی ہے کہ مہتاب کا آج اسلم چوہدری سے اپوائنٹمنٹ تھا۔ ’’ (۶۷)
اس افسانے میں پیروں فقیروں کے چہروں سے پردے ہٹا کر اصل روپ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔زیبی کے افسانوں کا یہ رخ مقصدیت کی ایک دبیز تہہ کے زیرِ اثر ہے ۔اصلاح کا جذبہ بھی شدت کے ساتھ موجو دہے ۔لیکن اسے فنکارانہ لمس سے آشنا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
افسانوی ادب میں خود مصنف کی زندگی کروٹ کروٹ بدلتی محسوس ہوتی ہے ۔کہانی دوسروں کی زبانی اپنی ہی داستان سنانی ہے ۔کردار فرضی ہوتے ہیں لیکن ان میں کہیں کہیں اپنی ذاتی زندگی کی جھلک بھی دکھائی دے جاتی ہے۔ زیبی کے افسانوں میں ان کی ذاتی زندگی نہ صرف کرداروں کی زبانی بلکہ خود ان کی اپنی زبانی بھی بیان ہوتی دکھائی دیتی ہے۔اور اکثر مقاما ت پر بآسانی محسوس کیا جاسکتاہے کہ اس بات کے پیچھے زندگی کا کوئی گہرا تجربہ اور مشاہدہ موجود ہے ۔
۸.۳ ادیبہ کی زندگی:
زیبی خود ایک عورت ہیں اور زندگی کے مختلف پیشوں سے وابستہ بھی رہیں تو اس دوران ان کو شوہر کی طرف سے یا گھر والوں کی طرف سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا یا پھر اگر ان کو ان مسائل سے سامنا نہیں بھی کرنا پڑا مگر اس پیشہ سے وابستہ جن جن خواتین کو یہ مسائل درپیش تھے انہوں نے ان مسائل کا بغور مشاہدہ کیا اور پھر انہیں اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ۔
ان کا افسانہ ‘‘سمجھوتہ’’ بھی ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک ادیبہ جو کہ شادی سے پہلے مختلف مشاعروں اور شاعری کے پروگراموں میں شرکت کیا کرتی تھی مگر شادی کے بعد اس پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں اور اس کو ہر قدم پر ایک عورت ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے ۔ وہ اپنے شوہر کی طرف سے لگی ہوئی مختلف پابندیوں کا سامنا کرتی ہے اور وہ ادبی پروگراموں اور مشاعروں میں شرکت کرنا چاہتی ہے لیکن شوہر اس پر پابندی عائد کرتا ہے اور جب یہ نہیں بات مانتی تو شوہر اپنا آخری ہتھیار کا استعمال کرتا ہے کہ اگر وہ نہیں مانی تو گھر سے نکل جائے یا وہ اسے چھوڑ دے گا یعنی طلاق کی دھمکی دیتا ہے۔ایسی صورت میں ایک فنکارہ کو جس ذہنی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے ، زیبی نے اسے بڑے موثر پیرائے میں پیش کیا ہے ۔اس معاشرے میں ایک ادیبہ کے فن کی قدر کس طرح کی جاسکتی ہے اور گھر کی دہلیزسے باہر قدم رکھتے ہوئے اسے کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے ۔یہاں خواتین کو ہمیشہ زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی گئی ہے اور انہیں ہمیشہ مردوں کے مقابلے میں کمتر درجے کی مخلوق سمجھا گیاہے ۔ عورت پر پابندیاں عائد کرکے عورت پر ایک طرح سے عدم اعتماد کا اظہار اس معاشرے کے خمیر میں شامل ہے ۔ یعنی ہمارے معاشرے میں عورت کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ داری گھر کو سنبھالنا، بچوں کو پالنا اور شوہر کی خدمت کرنا ہے ۔ ادبی پروگراموں میں جانا اور فلاحی اداروں سے وابستہ ہو کر فلاح و بہبود کے کام کرنا اس کا منصب نہیں ہے۔ زیب النسا نے بہت عمدہ انداز میں معاشرے کے اس پہلو کو بیان کیا ہے اور بہت حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک فنکارہ کی زندگی کے اس المیے پر روشنی ڈالی ہے۔
زیب النسا زیبی کا افسانہ ‘‘ضر ورت ’’ میں ندا نامی لڑکی کے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے کہ جب لڑکیاں گھروں میں ہوتی ہیں تو ان کو فیملی کی طرف سے تقریباً ہر بات کی اجازت مل جاتی ہے۔ ان لڑکیوں کو گھروں میں نہ صرف تعلیم بلکہ سماجی فلاح و بہبود کے کاموں میں شمولیت کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ ندا مشاعروں میں جاتی ہے مگر جب اس کی شادی ہو جاتی ہے تو ہر چیز پر پابندی عائد ہوجاتی ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں عورت کو ہمیشہ افزائش نسل کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے اور یہ کہ عورت کا کام گھر کو سنبھالنا ہے ۔ ایسی صورت میں عورت مرد کے شانہ بشانہ نہیں چل سکتی۔ لہٰذا جب ندا اپنے شوہر علی سے مشاعرے میں جانے کا ذکر کرتی ہے تو وہ آگ بگولا ہو جاتا ہے اور ہر مرد کی طرح اس کے الفاظ بھی یہی ہوتے ہیں:
‘‘ شہرت پسند خود غرض عورت میں تجھے ہر گز آزادی نہیں دے سکتا کہ تو غیر مردوں کے ساتھ گلچھڑے اُڑائے، شعر و شاعری کرتی پھرے، اگر تجھے اس گھر کو مکان ہی بنانا ہے تو جا میری طرف سے تو آزاد ہے جس کے ساتھ تیرا جی چاہے رنگ رلیاں منا، کلبو ں میں گھوم ، مشاعروں میں جا، شہرت اور نام کما میں تجھ پر تھوکتا ہوں تھوکتا ہوں۔’’ (۶۸)
زیب النسا زیبی کے ان افسانوں میں اہم اورکڑوی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں کا مرد کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو جائے لیکن اس کی ذہنیت اس کی سوچ وہی روایتی رہتی ہے یعنی وہ ہمیشہ یہی سمجھتا ہے کہ عورت شاید گھر سے آزادی اور گھر سے فرار کے طریقے سوچتی ہے یا پھر ان کی ایک سوچ یہ بھی ہے کہ عورت گھر سے باہر نکل کر دوسرے مردوں سے روابط استوار کرنا چاہتی ہے زیب النسا کا افسانہ ‘‘ضرورت’’ بھی کچھ اس طرح کی ذہنیت اور سوچ رکھنے والے مردوں کی ترجمانی کرتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں میں لکھاری خواتین کو جو دیگرمسائل درپیش ہیں انہیں بھی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
زیب النسا زیبی کا ایک افسانہ ‘‘گھومنی’’بھی اسی موضوع پر ہے اس افسانے کو زیب النسا نے کمالِ فن کے ساتھ پیش کیا ہے اس افسانے میں زیب النسا نے عورت کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اس کی پوری زندگی کے خد وخال کا تعین ممکن ہے۔ یہ اصل میں ایک عام طبقے کی عورت کی کہانی ہے جو ساری زندگی تگ و دو میں گزارتی ہے وہ ایک ادیبہ بھی ہے مگر اسے اپنے آپ کو اور اپنے فن کو زندہ رکھنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ زیب النسا زیبی نے انتہائی گہرائی سے زندگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کو صفحۂ قرطاس پر بکھیرا ہے اس افسانے کو پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے یہ ان کا کوئی افسانہ نہ ہو بلکہ ان کی آپ بیتی کا حصہ ہو ۔یعنی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان سب مسائل کا سامنا انہوں نے خود کیا ہو۔
افسانے کا نام ‘‘گھومنی’’ بذات خود معنویت کا حامل ہے۔ ایک ادیبہ کی زندگی کی کھردری اور صبر آزما حقیقتوں سے جس طرح پردہ اُٹھایا ہے وہ واقعی ایک گھومنی ہی نظر آتی ہے ۔گھومنی ایک ایسا استعارہ ہے جو کہ ایک عورت کی زندگی پر سو فیصد لاگو ہوتا ہے اس افسانے کے ذریعے زیب النسا نے اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ عورت کی زندگی ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتی ہے جس پر جو بھی تحریر لکھی جائے ثبت ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کا دوسرا پہلو بھی دکھایا گیاہے کہ اس کو اپنی انا عزیز ہوتی ہے ایک جگہ زیب النسا زیبی تحریر کرتی ہیں :
‘‘گھومنی جز جز ہو کر کل بنتی ہے اور پھر کل کے حصار کو توڑ کر جز جز بن کر بکھر جاتی ہے ۔ شخصیت ایک ہیرے کی سی ہے جس کے ہر پہلو کے رنگ جدا جدا ہے وہ ایک شخصیت نمودار ہوتی ہے وہ بالکل جدا بھی ہے اور سب جیسی بھی۔’’ (۶۹)
اس افسانے میں زیب النسا زیبی نے عورت کا ہر روپ دکھایا ہے ماں ، بہن، بیوی ، بیٹی اور غرض گھومنی کو ان سب کرداروں پر پورا اُترے ہوئے دکھایا ہے اور پھر جب وہ سماجی حلقوں میں اپنے فن کی بدولت جانی پہچانی جاتی ہے اور اپنے فن اور اپنے قلم کی مدد سے زندگی کی حقیقتوں کو بیان کرتی نظر آتی ہے تو معاشرے کے ‘‘قد آور بونے’’ اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں اور پھر گھومنی کو اپنی شناخت ہی دھندلی معلوم ہونے لگتی ہے۔
الغرض افسانہ نگار نے بڑی مہارت اور مشاہدے کے ساتھ اس نازک موضوع پر قلم اُٹھایا اس افسانے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا المیہ ہے جس میں عورت کو اس کی فنکارانہ صلاحیتں ہونے کے باوجود بھی سراہا نہیں جاتا اور وہ بیچاری ساری زندگی اپنی صلاحیتوں کو لے کر اپنے قدردانوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے لیکن اس کو اس کی صلاحیتوں پر داد دینے والا شاید ہی کوئی ہو۔
زیبی کے افسانوں کا یہ فکری مطالعہ واضح کرتا ہے کہ ان کے افسانے زندگی کے متنوع رنگوں سے بھرپور افسانے ہیں ۔ان کہانیوں میں ہر وہ موضوع ملتاہے جو ہماری کلاسیکی کہانیوں کے فکر ی کینوس میں نظر آتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے موضوعات بھی ملتے ہیں جو اس سے پہلے کے افسانہ نگاروں کے ہاں نہیں پائے جاتے۔انہوں نے اپنے افسانوں کو حقیقت نگاری کے جس نئے ذائقے سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے ، اس میں فنی مٹھاس کا احساس بھی ہوتا ہے اور حقیقت کی کڑواہٹ کا بھی ۔انہوں نے اپنے فن کو فن ہی رہنے دیا اور اسے صحافت میں بدلنے کی غلطی نہیں کی۔ان کے ہاں نہ تو صحافیانہ بے رنگی موجود ہے اور نہ ہی اسلوب کا خشک پن دیکھنے کو ملتا ہے ۔البتہ فنکارانہ اور دانشورانہ سنجیدگی کا احساس قدم بہ قدم ہو تاہے ۔ان کے موضوعات شہری مسائل سے لے کر دیہات کی سیدھی سادی زندگی تک بکھرے ہوئے ہیں ۔اگر چہ یہاں حقیقت نگاری کی ایسی کیفیت بھی مل جاتی ہے جو جذباتیت سے بھرپور ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جذبے کو فن کی آگ میں دہکانے کے حوالے بھی مل جاتے ہیں جس کی وجہ سے زیبی کے افسانے فنی پختگی اور فکری بالیدگی کے حامل دکھائی دیتے ہیں ۔انہوں نے زندگی کے حساس مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔بعض مقامات پر حقیقت نگاری کا وہ رنگ بھی ابھرتا ہے جو اقدار سوزبھی ہے اور جس نے منٹو اور عصمت چغتائی جیسے لکھاریوں کی بدولت ادبی فیشن کا درجہ اختیار کیا ۔لیکن اس رنگ میں بھی زیبی کا اپنا مخصوص رنگ غالب نظر آتاہے ۔
انہوں نے جنس کی بھول بھلیوں کا بھی ذکر کیا لیکن منٹو کی طرح اپنے قلم کی توانائی محض اس کے لیے وقف نہیں کی بلکہ ان کے قلم کا کینوس اتنا ہی وسیع ہے جتنی وسعت بذات خود زندگی میں موجود ہے ۔ انہوں نے زندگی اور ادب کا رشتہ نئی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی ۔وہ خود بھی عورت ہیں لہٰذا عورتوں کے مسائل کا ادراک و احساس ان کے ہاں کہیں زیادہ ہے ۔عورت کے حوالے سے ان کے ہاں زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ صنفی اعتبار سے بھی ان افسانوں کی بہت اہمیت ہے ۔عورت کے مسائل پر جس طرح سے انہوں نے لکھا ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سماجی کارکن بھی رہی ہیں ۔لہٰذا ان مسائل کے حوالے سے علم ان کے روزمرہ تجربے کا حصہ تھا ۔وہ خود چونکہ اعلی خاندانی پس منظر رکھتی ہیں اس وجہ سے جدید زندگی جس طرح سے شراب و کباب میں ڈھل رہی ہے اور مغربی زدگی جس طرح سے ہمارے آنگنوں اور بالخصوص امرا اور افسر شاہی کے طفیل گھر کی دہلیز تک آگئی ہے اور اس کی وجہ سے مشرقی اقدار جس قدر تیزی کے ساتھ شکست و ریخت کے عمل سے دوچار ہیں ، زیبی کے افسانے اس کی ترجمانی بڑی عمدگی کے ساتھ کر تےہیں ۔یوں ان افسانوں کا ایک وسیع فکری تناظر اور پس منظر بنتا ہے جس کا مطالعہ قاری کی ذہنی وسعت میں اضافہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتاہے ۔
حوالہ جات
۱۔ طارق بن عمر ماہنامہ خط رنگ، جلد نمبر ۲، شمارہ نمبر۳، لاہور، پاکستان، مئی ۲۰۱۰ء، ص
۲۔ پروفیسر وقار عظیم، کہانی او رحسن بیان، مشمولہ اردو نثر کا فنی ارتقاء مرتبہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۱۳
۳۔ زیب النسا زیبی، عکسِ زندگی، (کلیات) زیبی اینڈ عائز پبلی کیشنز کراچی، ۲۰۱۴ء، ص ۲۹۱
۴۔ ایضاً، ص ۲۹۲
۵۔ شفیع عقیل، ماہنامہ خط رنگ، جلد نمبر ۲، شمارہ نمبر۳، لاہور، پاکستان، مئی ۲۰۱۰ء، ص ۲۴
۶۔ زیب النساء زیبی، ڈبل ہیروئن، مشمولہ عکسِ زندگی، ص ۴۰
۷۔ ایضاً، ص ۶۰
۸۔ ایضاً
۹۔ عصمت چغتائی، سہ ماہی کتابی سلسلہ، اسالیب ، شمارہ نمبر ۱۰، سرگودھا، پاکستان، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۹ء، ص ۳۴
۱۰۔ زیب النساء زیبی، ڈبل ہیروئن، مشمولہ عکسِ زندگی، ص ۵۷
۱۱۔ ایضاً، ص ۵۸
۱۲۔ ایضاً، ص ۵۸
۱۳۔ ایضاً، ص ۵۶
۱۴۔ شفیع عقیل، ماہنامہ خط رنگ، ص ۲۴
۱۵۔ زیب النسا زیبی، جھوٹی کہیں کی، مشمولہ، عکسِ زندگی ، ص ۳۹۶
۱۶۔ افضال شوق، شہ رگ پہ خنجر، تخیل شعر اور دل میں ہیں آپ کی تخلیق کار، مشمولہ ، سہ ماہی کتابی سلسلہ دریچہ انٹرنیشنل پاکستان، سپین، اکتوبر ۲۰۰۹ء، تا مارچ ۲۰۱۰ء، ص ۲۹
۱۷۔ زیب النساء زیبی، ڈبل ہیروئن، مشمولہ عکسِ زندگی، ص۳۳
۱۸۔ ایضاً، ص ۳۴
۱۹۔ ایضاً، ص ۳۵
۲۰۔ ایضاً، ص ۳۷
۲۱۔ ایضاً، ص ۴۰۵
۲۲۔ ایضاً، ص ۳۸۳
۲۳۔ ایضاً، ص ۳۸۵
۲۴۔ ایضاً، ص ۳۸۶
۲۵۔ ایضاً، ص ۴۴۹
۲۶۔ ایضاً
۲۷۔ ایضاً، ص ۴۵۲
۲۸۔ رام لعل، اردو افسانے کی نئی تخلیقی فضاء، آدینہ آفسٹ پریس، نئی دہلی، ۱۹۸۵ء، ص ۴۳
۲۹۔ سحر انصاری، سہ ماہی کتابی سلسلہ، اسالیب، شمارہ نمبر ۱۰، ص ۳۴
۳۰۔ زیب النساء زیبی، عکسِ زندگی، ص ۴۸۹
۳۱۔ ایضاً، ص ۴۹۲
۳۲۔ ایضاً، ص ۴۹۴
۳۳۔ ایضاً، ص ۴۹۶
۳۴۔ ایضاً
۳۵۔ حارث جنید داؤد، زیب النسا زیبی، شخصیت اور فن ، زیبی اینڈ عائزاز پبلی کیشنز، کراچی، ۲۰۱۴ء، ص ۳۰
۳۶۔ زیب النساء زیبی، عکسِ زندگی، ص ۸۵
۳۷۔ ایضاً
۳۸۔ ایضاً، ص ۲۰۱
۳۹۔ ایضاً، ص ۲۰۲
۴۰۔ ایضاً، ص ۲۰۳
۴۱۔ ایضاً، ص ۱۸۱
۴۲۔ ایضاً، ص ۱۸۴
۴۳۔ ایضاً
۴۴۔ ایضاً، ص ۷۶۱
۴۵۔ ایضاً
۴۶۔ ایضاً، ص ۷۶۲
۴۷۔ ایضاً، ص ۷۶۶
۴۸۔ ایضاً، ص ۷۶۷
۴۹۔ مہناز حسن، ماہنامہ، خط رنگ، جلد نمبر ۲، شمارہ نمبر۳، لاہور، پاکستان، مئی ۲۰۱۰ء، ص ۷۶۷
۵۰۔ زیب النسا زیبی، عکسِ زندگی، ص ۲۲۵
۵۱۔ ایضاً، ص ۲۲۶
۵۲۔ نقاش کاظمی، ماہنامہ خط رنگ، جلد نمبر ۲، شمارہ نمبر ۳، لاہور، پاکستان مئی ۲۰۱۰ء، ص ۲۵
۵۳۔ افضال شوق، شہ رگ پہ خنجر، تخیل کا شعر اور دل میں ہیں آپ کی تخلیق کار، مشمولہ، سہ ماہی کتابی سلسلہ دریچہ انٹرنیشنل پاکستان، سپین، اکتوبر ۲۰۰۹ء، تا مارچ ۲۰۱۰ء، ص ۲۹
۵۴۔ زیب النسا زیبی، عکسِ زندگی، ص ۲۵۳
۵۵۔ ایضاً
۵۶۔ ایضاً، ص ۲۵۸
۵۷۔ ایضاً، ص ۲۵۳
۵۸۔ وقار عظیم، نیا اسفانہ، جناح پریس دہلی، س۔ن، ص ۶۴
۵۹۔ شکیل احمد، ڈاکٹر، اردو افسانوں میں سماجی مسائل کی عکاسی، آفسٹ پریس، گورکھپور، انڈیا، ۱۹۸۴ء، ص ۴۶
۶۰۔ زیب النسا زیبی، عکسِ زندگی، ص ۶۵۰
۶۱۔ ایضاً، ص ۳۲۴
۶۲۔ ایضاً
۶۳۔ ایضاً، ص ۶۰۶
۶۴۔ ایضاً، ص ۶۰۷
۶۵۔ ایضاً، ص ۲۸۴
۶۶۔ ایضا، ص ۲۸۹
۶۷۔ ایضاً، ص ۱۲۰
۶۸۔ ایضاً، ص ۳۷۹
۶۹۔ ایضاً، ص ۶۳۵