اردو تنقید کی مختصر روایت
کسی بھی ادب میں تنقید کے ارتقاء کا احاطہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس حوالے سے بے شمار مسائل رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان پر متضاد آرا اس عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ لہٰذا یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ تنقید کس طرح کی تحریر و انداز کو کہا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے بے شمار ترجیحات سامنے آتی ہیں تاہم تنقید ابتداء میں تخلیق کے ساتھ وجود میں آئی اور اس کے بعد یہ مختلف ادوار میں ارتقائی مراحل سے گزر کر موجودہ صورت میں ہم تک پہنچی۔
تاہم اردو میں تنقید کا ایک مسلسل اورف مستقل ارتقا ء ملتا ہے۔ اگرچہ اس میں مغرب کے تنقیدی ارتقا ء سی وسعت اور گہرائی موجود نہیں ہے کیونکہ یہاں تنقیدی نظریات پر فلسفیوں کی بجائے شاعروں اور ادیبوں نے اظہارِ خیال کیا ہے۔
تاہم اردو تنقید کے بکھرے ہوئے نقوش قدیم شاعروں کے کلام میں ملتے ہیں اگرچہ یہ باقاعدہ تنقیدی حیثیت نہیں رکھتی لیکن ان میںبھی ایک معیار کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا اردو تنقید کے سلسلے میں تذکرہ نویسی میں بالعموم شاعر کے حالاتِ زندگی، شخصیت، ماحول، بیان ، کلام پر رائے تنقید اور انتخابِ کلام جیسی خصوصیات مشترک ہیں۔
اردو شعراء کے بارے میں لکھے گئے چند تذکروں کے نام درج ذیل ہیں:
� نکات الشعراء
میر تقی میر
� تذکرہ شعرائے اردو
امیر حسن
� ریاض الصفحا اور تذکرہ ہندی
مصحفی
� مخزنِ نکات
قائم چاند پوری
� گلشنِ ہند
مرزا علی لطف
� تذکرہ ریختی گویاں
گردیزی
� مجموئہ نغز
قدرت اللہ قاسم
� چمنستان الشعراء
لچھمی نرائین
� گلستانِ سخن
مرزا قادر بخش
� طبقات الشعراء
کریم الدین
اگرچہ کسی بھی تذکرے کو باقاعدہ تنقیدی تصنیف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا لیکن ان میں موجودہ تنقیدی اشاروں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’اس زمانے میں ادبی تنقید کا بڑا مقصد یہ تھا کہ زبان کو متروکات اور غیر فصیح الفاظ سے پاک کیا جائے۔‘‘
(سید عبداللہ، 1986ء، ص:215)
ناقدین کا کہنا ہے کہ تذکروں کے زمانے سے معیارِ تنقید کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے ۔ اس طرح اس دور کی تنقید کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی تذکروں کے تنقیدی معیار کے بارے میں کہتے ہیں:
’’تذکروں میں تنقید ہے لیکن اجمال کے ساتھ معیار ہیں لیکن وہ آج کل کے معیاروں سے مختلف ہے۔ ان میں صرف تنقیدی روایات اور تنقیدی شعور کو تلاش کرنا چاہیے۔ تنقید کے مکمل اور بہترین نمونوں کا ڈھونڈنا بے سود ہے۔‘‘
(عبادتِ بریلوی، 1979-80ء، ص: 33)
لہٰذا جدید تنقید کا انحصار انہی تذکروں میں موجود اشارات پر ہے چنانچہ ان تذکروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ قدیم روایات میں یہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ خواہ ان میں تنقید کی معمولی جھلکیاں ہی دستیاب ہوں۔
دنیا بھر میں بہت سے معاشرتی و سیاسی سطح پر ایسے انقلابات ہوتے ہیں جنہوں نے ہر ملک کے ادب پر اپنا اثر ڈالا ہے۔ 1857ء کی جنگ کے بعد برصغیر پاک و ہند میں بھی ایسے ہی کچھ سیاسی و معاشرتی انقلابات رونما ہوئے جنہوں نے ادب کو کافی حد تک متاثر کیا۔ سرسید کی تحریک کا اثر دیگر شعبوں کی طرح ادب میں تنقید پر بھی ہوا ہے۔ اس سے پہلے تنقید اپنی وضع اور مربوط شکل میں موجود نہ تھی۔
سر سید کا رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ اس سلسلے کی پہلی کڑی ثابت ہوا۔ اگرچہ اس رسالے میں سرسید کے علاوہ دیگر ناقدین جن میں حالی، شبلیؔ اور آزاد نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔
اردو ادب میں تنقید کا باقاعدہ اور باضابطہ آغاز خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی شہرہ آفاق کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے ہوتا ہے جو پہلی مرتبہ دہلی میں 1993ء میں ’’دیوانِ حالی‘‘ کے ساتھ چھپا۔ مقدمہ شعر و شاعری کے اصولِ تنقید پر بھرپور انداز میں اظہار خیال کیا ہے اور شعر و شاعری کو مختلف پہلوئوں اور مختلف زاویوں سے دیکھنے کی سعی کی گئی ہے۔
مولوی عبدالحق کے بقول:
’’مقدمہ شعر و شاعری میں شاعر ی کی ماہیت، حیات اور معاشرے سے اس کا تعلق، اس کے لوازم، زبان کے مسائل ، اردو شاعری کی اصنافِ سخن، ان کے عیوب و محاسن اور اصلاح پر نہایت معقول ، مدلل اور مفکرانہ بحث کی ہے۔ اردو زبان پر تنقید کی یہ پہلی کتاب ہے۔‘‘
جدید تنقید کا ارتقا بلاشبہ حالیؔ سے ہوتا ہے۔ حالیؔ اپنی تنقید میں ادب اور زندگی کے تعلق کے استواری پر زور دیتے ہیں۔ ان کی تنقیداصلاحی ہے۔ حالیؔ نے مغربی تنقید کے نظریات سے بھی فائدہ اٹھایا مگر ان کی مغربی تنقید تک براہِ راست رسائی نہ تھی۔ مولانا حالیؔ پہلے ایسے نقاد ہیں جنہوں نے اپنے نظریات کو منظم انداز میں پیش کیا۔ ان کی تنقید مشرقی اور مغربی تنقید کا امتزاج پیش کرتی ہے۔ ’’یادگارِ غالب‘‘ ، ’’حیاتِ سعدی‘‘ اور ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں انہی نظریوں کے عوامل کارفرما ملتے ہیں جن میں حالیؔ اپنی عملی تنقید میں اپنے اصولوں کو سامنے رکھ کر تنقید کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کی عملی تنقید کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ان سے قبل اس طرح اصولوں کو سامنے رکھ کر باقاعدہ تنقید نہیں کی جاتی تھی ۔ حالیؔ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ دی۔‘‘
(عبادت بریلوی، 1979-80ء، ص: 43)
مولانا شبلیؔ نعمانی نے نظریاتی تنقید اور اس کے مختلف مباحث و مسائل کو مفصل انداز میں تحریر کیا۔ ان کا تنقیدی سرمایہ ’’شعر العجم‘‘ ، ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ پر مشتمل ہے۔ شبلیؔ مشرقی ادب کے ساتھ ساتھ مغربی ادب سے بھی کسی حد تک واقف تھے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی نظریات کو پیش کرنے کے لیے غور و فکر اور عقل و شعور سے کام لیا۔ وہ شاعری کی افادیت کے قائل ہیں۔ وہ اپنے بتائے ہوئے اصولوں کو عملی تنقید میں پیش نظر رکھتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات کسی شاعر کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے ان اصولوں سے انحراف بھی کر جاتے ہیں۔ شبلیؔ کا مقامِ تنقید اردو میں آزادی رائے اور مجتہدانہ بحثوں کی وجہ سے منفرد ہے۔
مولانا محمد حسین آزاد عہدِ تفسیر کے نقادوں میں اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ آبِ حیات ان کا اہم ترین مجموعہ ہے۔ محمد حسین آزاد کی ’’آبِ حیات‘‘ تذکرہ نگاری کا نقطہءِ عروج ہے۔ یہ کتاب تذکرہ نگاری سے ہٹ کر ادبی تاریخ، ادبی سوانح، ادبی تنقید اور لسانی تحقیق کے حوالے سے اپنا تعارف کراتی ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کہتے ہیں:
’’آبِ حیات اردو ادب کی پہلی تصنیف ہے جسے تذکرہ شعرا کے ساتھ ساتھ ہم اردو میں ادبی تاریخ، ادبی سوانح، ادبی تنقید اور لسانی تحقیق کا اولین نمونہ کہہ سکتے ہیں۔‘‘
(فرمان فتح پوری، 1998ء، ص:61)
محمد حسین آزاد پر مشرقی نظریاتِ تنقید کا گہرا اثر ہے۔ وہ شاعری اور الہام تصور کرتے ہیں۔ ان کے ہاں معانی کی اہمیت بھی ہے لیکن اندازِ بیاں اور اسلوب کو وہ زیادہ اہم تصور کرتے ہیں۔ ان کی عبارت و اسلوب رنگین ہوتا ہے۔ وہ علمی تنقید میں مشرقی اصطلاحات کا بہت استعمال کرتے ہیں۔ البتہ بعض خامیوں کے باوجود تنقید میں آزاد کا مقام بہت اہم ہے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر میں انگریزی زبان و ادب سے آگاہی کے باعث اردو تنقید کا روایتی منظر نامہ بھی بدلنا شروع ہوا اور بعد میں حالی، شبلیؔ اور آزاد کے ذریعے تنقید کا آغاز ہوا۔ ان میں حالیؔ کو اخلاقی و عمرانی ، شبلیؔ کو ذوقی جمالیاتی اور آزاد کو لسانی و تہذیبی نقاد کہا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ الگ الگ دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو تنقید نے اپنے ارتقائی سفر میں ان ابتدائی دبستانوں سے کسی نہ کسی طور پر رہنمائی ضرور حاصل کی ہے۔
مذکورہ اصحاب کی مساعی سے تنقید کی طرف توجہ اور دلچسپی لینے والوں نے اس طرف خاص توجہ کی۔ اس حوالے سے تین اہم نام جن میں وحید الدین ، امداد امام اثر اور مہدی افادی شامل ہیں۔
وحید الدین سلیم نے تنقید کے موضوع پر کوئی مستقل تصنیف نہیں چھوڑی۔ وقتاً فوقتاً لکھے گئے چند تنقیدی مضامین کو ’’افادتِ سلیم‘‘ کے زیرِ اثر سائنٹفک اندازِ تنقید اختیار کرنے کی کوشش کی ہے جیسے ادب و شاعری کو قافیہ پیمائی نہ سمجھنا اور زندگی معاشرے سے اس کا تعلق جوڑنا وغیرہ۔ وہ حالیؔ سے بھی بہت متاثر تھے۔ ان کے چند مضامین میں عملی تنقید کے نمونے بھی ملتے ہیں۔
’’افادتِ سلیم میں صرف دو تین مضامین ایسے ہیں جن میں وحید الدین سلیم کی عملی تنقید کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سودا کی ہجویہ نظمیں، میر کی شاعری اور دکن میں ایک رباعی کا شاعر بس یہ چند مضامین ہیں جن میں ان کی عملی تنقید کےنمونے ملتے ہیں۔‘‘
(عبادت بریلوی، 1979-80ء ۔ ص:203)
امداد امام اثر ؔنے دو جلدوں میں ’’کاشف الحقائق‘‘ کے نام سے کتاب چھوڑی ہے جس میں اصولِ تنقید کم اور عملی تنقید زیادہ ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کی تمام اصناف کے لیے چند اصول وضع کیے اور ان کی روشنی میں اردو شعرا کے کام کا جائزہ لیا۔ اس لیے اردو تنقید میں ان کا بھی ایک مقام ہے۔
’’کاشف الحقائق‘‘ میں عملی تنقید کا پلہ بھاری ہے۔ اس میں اردو شاعری کے اصنافِ سخن پر بھی تنقید ہے اور شاعروں کے کلام پر بھی۔ امداد امام اثر کو اس اعتبار سے اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے اردو شاعری پر تنقیدی زاویہ نظر سے ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔‘‘
(عبادت بریلوی ، 1979-80ء، ص:207)
اس زمانے میں مہدی افادی بھی اس زمانے کے تنقیدی رجحانات سے متاثر ہوئے۔ اس سلسلے میں ان کی تنقید میں شبلیؔؔ کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں۔ انہوں نے تنقید کے حوالے سے کوئی الگ کتاب تو نہیں لکھی تاہم ان کے تنقیدی مضامین جو اخبارات و رسائل میں لکھے گئے ہیں، انہیں ’’افاداتِ مہدی‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔
’’مہدی افادی کے تنقیدی نظریات افادی مہدی کے مختلف مضامین ادھر ادھر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں ان کے تنقیدی نظریات پر روشنی ملتی ہے۔‘‘
(عبادت بریلوی، 1979-80ء، ص:211)
آزادؔ و حالیؔ نے تنقید کی جو شمع جلائی، اس کی روشنی نے کئی نوجوانوں کے راستے ہموار کیے۔ اس سلسلے میں مولوی عبدالحق کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے اردو تنقید کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان کی تنقید پر حالیؔ کے اثرات بہت نمایاں نہیں تاہم ایک اعتبار سے وہ حالیؔ سے مختلف ہیں کہ حالیؔ مغربی ادبیات سے پورے طور پر واقف نہ تھے جبکہ وہ مشرقی و مغربی دونوں علوم پر عبور رکھتے تھے۔
چنانچہ ان کی تنقید میں مشرقی اصطلاحات کا اکثر استعمال ملتا ہے۔ وہ مغربی ادبیات اور تنقید سے واقف ہونے کے باوجود اپنی تنقید میں مشرقی رنگ دینے کی شعوری کوشش کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تنقید میں قدامت پرست ہیں وہ نئے اصولوں کے حامی ہیں اور وہ اپنی تنقید مین مشرق و مغرب دونوں کے تنقیدی اصولوں سے کام لیتے ہیں۔ کلیم الدین لکھتے ہیں:
’’اردو تنقید میں تحقیقی دور کا آغاز باقاعدہ عبدالحق سے ہوتا ہے۔ عبدالحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کی متعدد کتابوں کو بہت تلاش، جستجو، دقتِ نظر اور باریکی بینی سے ترتیب دے کر انہیں ضائع ہونے سے بچایا ہے۔‘‘
(کلیم الدین احمد، 1978ء، ص:45)
حافظ محمود شیرانی ایک اعلیٰ پائے کے محقق ہیں۔ ان کی تصانیف ’’تنقیدِ شعرا‘‘ ، ’’العجم‘‘ ، ’’پنجاب میں اردو‘‘ ، ’’آبِ حیات‘‘ اور ’’فردوسی پر چار مقالے‘‘ شامل ہیں۔
پروفیسر حامد حسن قادری ارد و ادب کے امیر نقاد ہیں جن کے نظریات ’’تاریخِ داستانِ اردو‘‘ ، ’’تاریخ و تنقید ادبیاتِ اردو‘‘ اور ’’نقد و نظر‘‘ میں ملتے ہیں۔ وہ مشرقی تنقید پر اپنا تمام تر دھیان صرف کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
’’وہ مشرق کی اہمیت کے قائل ہیں اسی وجہ سے انہوں نے اپنی تنقید میں مشرقی رنگ دیا ہے حالانکہ وہ مغربی تنقید سے ناواقف نہیں ہیں۔‘‘
(عبادت بریلوی، 1979-80ء، ص:2185)
ڈاکٹر محیی الدین زور بھی اردو ادب کے محقق ہین لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نقاد کے فرائض بھی ادا کیے ہیں۔ انہوں نے شعوری طور پر مغربی ادب کے اثرات قبول کیے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری ایسے نقاد ہیں جو یورپ کی کئی زبانیں جانتے تھے تاہم مغرب سے واقفیت نے ان میں مرعوبیت کی بجائے یہ اثر کیا کہ وہ اپنی ملکی چیزوں کو کمتر سمجھنے کی بجائے بلند مرتبہ سمجھنے لگے۔ اسی لیے ان کے ہاں تقابلی پہلو نمایاں ہیں۔ ان کی نوعیت ذوقی اور وجدانی ہے نہ کہ سائنسی۔ اس سلسلے میں ان کا مضمون ’’محاسن کلامِ غالب‘‘ خاص اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے زیادہ تر غالب کی جمالیات پر بحث کی اور ثابت کیا کہ مشرق کا یہ شاعرکسی طرح مغرب کے اکابر شعرا سے کم نہیں بجنوری کا انداز تاثراتی اور رومانوی ہے۔ اسی وجہ سے بجنوری کا یہ مقدمہ تنقید سے زیادہ تخلیقی ادب کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اس میں تقابلی تنقید کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا۔
’’بجنوری نے سب سے پہلے اس تقابلی تنقید کی بناید ڈالی جس میں تفصیل اور گہرائی کی خصوصیات ملتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے اس کو اپنی تقابلی تنقید کے سلسلے میں خاص طور پر پیشِ نظر رکھا۔‘‘
(کلیم الدین احمد، 1978ء، ص:25)
ان کے ہاں تنقید میں تقابل کے علاوہ تجربے کی خصوصیت بھی ملتی ہیں۔ غالب کی شاعری پر انہوں نے جو تنقید کی ہے اس میں شاید ہی کوئی پہلو ان کی نظر میں بچا ہو۔ یہ تما خصوصیات ان کی تنقید میں نفسیات کر رنگ بھرتی ہیں۔ مجموعی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالرحمان بجنوری کی حیثیت ، اردو تقنید اور خصوصاً اس کے اندر مغرب کے اثرات کو لانے میں مسلمہ ہے۔ ان کی تقابلی تنقید معلومات افزا ہے۔ بعض جگہ وہ بہک بھی جاتے ہیں لیکن ان سے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بجنوری کی تنقید مغرب کے گہرے اثرات کا نتیجہ ہے۔ ان کی ہر بات میں مغربیت نمایاں ہے۔ اردو میں بجنوری کی عطا تنقید کی ایک مختصر سی کتاب اور چند متفرق مضامین ہیں۔ تاہم وہ اردو کے اہم ترین رومانوی نقادوں میں شمار ہوتے ہیں۔
بجنوری کی طرح نیاز فتح پوری نے تنقید میں صرف جذبے کو اساس نہیں بنایا بلکہ اس کے لیے عقلی اصول وضع کیے۔ عبدالماجد دریابادی نے بھی رومانوی تنقید کے حوالے سے شہرت حاصل کی۔ ان کی تنقید اساسی طور پر مہدی افادی کے مکتب سے تعلق رکھتی تھی۔
مجنوں گورکھپوری ایک رومانی نقاد کے برعکس ترقی پسند نقاد تھے۔ ان کی جدید تنقیدی تحریریں جن مین تاثراتی رنگ غالب ہے، ’’تنقیدی حاشیے‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ رومانی تحریک کا آخری زاویہ فراق گورکھ پوری ہے۔ وہ تاثراتی نوعیت کے نقاد ہیں۔ تنقید کے حوالے سے ان کی کتاب ’’اندازے‘‘ قابلِ ذکر ہے۔
تاثراتی و جمالیات تنقید کے بعد اردو تقنید میں ایک نمایاں رنگ سامنے آیا۔ یہ رنگ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر پیدا ہوا۔ ان ترقی پسند نقادوں میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور سید احتشام قابلِ ذکر ہیں۔
سجاد ظہیر نے تنقید میں ترقی پسند نقطہءِ نظر کو واضح کیا۔ ان کی تنقید میں مارکسی تنقید کی جھلک ملتی ہے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ انقلاب کے نام سے شائع ہوا۔ اختر حسین رائے پوری نے تنقیدی حوالے سے سب سے پہلے ترقی پسند نقطہ نظر پیش کیا۔ سید احتشام حسین کی تنقیدی نوعیت کی کتاب ’’تنقیدی جائزے‘‘ بہت اہمیت کی حامل ہے۔
علاوہ ازیں قیامِ پاکستان کے بعد تنقید کے میدان میں ڈاکٹر سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر سہیل احمد خاں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر تحسین فراقی نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا، انیس ناگی، ڈاکٹر سہیل بخاری، رشید امجد، مظفر علی، ڈاکٹر سید معین الرحمان، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر سعادت حسن سعید جیسے نقاد بھی تنقیدکے میدان میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔