(Last Updated On: )
احمد عطاءؔ اللہ غزل کے حوالے سے ایک معتبر مقام رکھتے ہیں۔ آپ کا پہلا مجموعہ ’’ بھول جانا کسی کے بس میں نہیں ‘‘ ۱۹۹۸ء میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے میں اٹھاون غزلیں جب کہ کئی متفرق اشعار شامل ہیں ۔ کتاب کا دیباچہ اُردو کے نام وَر ادیب احمد ندیم ؔقاسمی نے لکھا ہے جب کہ ا نتساب آمنہؔ کے نام ہے۔ اس مجموعے کے بارے میں احمد ندیمؔ قاسمی لکھتے ہیں:
’’احمد عطاءؔ اللہ اول آخر فن کار ہے۔۔۔ اب اس نے اپنی شاعری کو ایک مجموعے کی صورت میں یک جا کیا ہے تو اس کے مطالعے سے مجھے یہ سوچ کر مسرت ہوئی ہے کہ احمد عطاءؔ اللہ کی تخلیقی کاوشوں کے سلسلے میں میرے اندازے صد فی صد درست نکلے۔ ‘‘(۱)
’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘دراصل آپ کی غزل کا ایک مصرع ہے مکمل شعر کچھ یوں ہے۔
آپ کیا سبھی کے بس میں نہیں
بھول جانا کسی کے بس میں نہیں
احمد عطاءؔ اللہ کی غزل میں دیہات، لڑکی، گلاب، پنگھٹ، آنگن، بستی، گھر، وغیرہ اہم موضوعات ہیں۔ آپ کی تمام شاعری روایت کے ساتھ ساتھ انفرادیت کی حامل بھی نظر آتی ہے۔ بھول جانا کسی کے بس میں نہیں ‘‘ کا اولین شعر جو کتاب کے آغاز سے قبل درج ہے اپنی معنویت کے لحاظ سے بہ جا طور پر ایک منفرد شعر ہے۔
جب غزل پھر رہی تھی سر کھولے
یہ ہمیں تھے جنھوں نے در کھولے
اپنی شاعری کے حوالے سے احمد عطاءؔ اللہ اسے زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اچھے ادب سے ہی بد دل انسانیت کو مادیت پرستی کے زہر سے بچایا جا سکتاہے۔ آپ ہر رنگ نسل ، مذہب اور فرقے سے بالا تر صرف ادب کو اد ب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ احمد عطاءؔ للہ کی شاعر ی زندگی کی تمام تر رعنایوں سے لبریز نظر آتی ہے۔ اردو غزل میں عشق و محبت کی روایت جو صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ آپ نے اسے بھی خوب صورتی سے نئے ڈھنگ میں نبھایا ۔ آپ کے ہاں عشق و محبت کے موضوعات بھی بہ کثرت مل جاتے ہیں:
ہم تہی دست و تہی کف ہیں تو حسرت کیسی
گرم بازاری میں نکلے تھے محبت لے کر
٭٭٭
اپنی اوقات سے باہر نہیں ہونے دیتا
عشق انسان کو خود سر نہیں ہونے دیتا
احمد عطاءؔ کی غزل میں الفاظ کا استعمال اس قدر خوب صورتی سے ملتا ہے کہ قاری داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ نہایت اہم بات کو اس قدر سادگی و سلاست سے بیان کر جاتے ہیں جو بہت آسانی سے قاری کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ واردات قلبی میں آپ کو کمال مہارت حاصل ہے۔ آپ اپنی تمام تر کیفیات کو شعر میں سمونے کا فن جانتے ہیں۔ آپ کا محبوب کوئی ماورائی مخلوق نہیں بلکہ اردو غزل کا ہی روایتی محبوب ہے جس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ایک معشوق میں ہوتی ہیں۔
ہمارا ایک ہی دشمن تھا دل
سو ہم نے اس کا بھی چاہا بھلا
’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘ کے بارے میں احمد عطاءؔ اللہ اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں:
’’اس وقت میرا مجموعہ چھاپنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ لیکن عباس تابش ؔسے قریبی تعلقات تھے اور ان دنوں عباس تابشؔ ایک طباعتی ادارے کے مالک تھے۔ انھوں نے ہی میری غزلیات جمع کیں اور اسے ایک مجموعے کی شکل میں شائع کر دیا۔ ‘‘(۲)
احمد عطاءؔ اللہ کے اس پہلے مجموعے میں قریب قریب اردو غزل کے تمام اہم موضوعات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس مجموعے میں جہاں احمد عطاءؔ اللہ نے عشق و محبت، ہجر و وصال، عورت، گائوں، لڑکی، شہر ، جنس جیسے موضوعات کو ذریعۂ اظہار بنایا وہاں زندگی کی بے ثباتی کو بھی بہت خو ب صورتی سے بیان کیا ہے۔ ایک ابدی حقیقت ہے کہ ہر کسی کو موت آنی ہے اور موت برحق ہے۔ زندگی کی اس بے ثباتی کو ہر بڑے شاعر نے اپنے کلام میں جگہ دی۔
بے ساختگی:
احمد عطاءؔ اللہ نے اردو ادب کی سب سے مقبول صنف غزل کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا۔ آپ نے اگرچہ مزاح بھی لکھا اور نظم میں بھی طبع آزمائی کی لیکن غزل آپ کی وجۂ شہرت بنی اور آپ کے دستیاب دونوں مجموعے غزل پر ہی مشتمل ہیں۔ آپ کی غزل آپ کی شاعرانہ طبیعت کی آئینہ دار ہے۔ احمد عطاءؔ کی غزل میں بے ساختگی نظر آتی ہے۔ کیوں کہ اگر شعر میں بے ساختگی نہ ہو تو وہ شاعری اعلا نہیں کہلائے گی۔ احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں بھی شعری بے ساختگی نہایت خوب صورت رنگ سے جھلکتی دکھائی دیتی ہے:
مانگتا ہے چیز پرائی کیا
دِل کو دیتا نہیں دکھائی کیا
٭٭٭
اتنے اچھے نقوش لے کر تم
بیٹھ رہتے ہو جا کے اندھوں میں
احمد عطاءؔ اللہ کے کلام میں بے ساختگی و سادگی کے جو نمایاں اوصاف ہیں وہ ہر اچھے شاعر کا خاصا ہوتے ہیں آپ کے کلام میں اس بات کا بھی واضح اشارہ ہے کہ آپ محبت پر یقین رکھنے والی شخصیت کے حامل ہیں۔ آپ کے خیال میں محبت ہر نفرت کے بیچ بھی سمو سکتی ہے اور محبت کی طاقت آگے نفرت ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ آپ کے ہاں عشق و محبت کے موضوعات کی کوئی کمی نہیں ۔ آپ کا کلام جا بہ جاعشقیہ مضامین سے عبارت ہے:
مہنگائی محبت کی ہو جتنی نہیں رہتی
بازار میں ہر روز یہ تیزی نہیں رہتی
ان کے خیال میں محبت جتنی بھی گراں ہو ایک نہ ایک دن حاصل ہو ہی جاتی ہے لیکن اس کی بنیادی شرط آپ کا تسلسل اور وفا ہے۔ محبت کو آپ اپنی شہرت کی وجہ بتاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اگر آپ محبت نہ کرتے تو آپ شاعر نہ ہوتے اور آپ کی شاعری ہی آپ کی وجہ شہرت ہے:
عطاءؔ یہ شاعری یہ عاشقی، یہ عارضہ دِل کا
انہی بدنامیوں میں سے کہیں شہرت نکل آئی
اسی محبت کو ہر شاعر نے اپنا موضوع بنایا غلام محمد قاصرؔ نے تو یہاں تک کِہ ڈالا:
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
احمد عطاءؔ اللہ بھی محبت کے جذبات سے لبریز ہر انسان سے محبت کرنا چاہتے ہیں آپ محبت ہی کو زندگی کی رونق سمجھتے ہیں۔ اور نفرتوں کے موسم میں بھی محبت کے پھول کھلانا چاہتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں:
خزاں آثار بستی کو گل و گل زار کرنا چاہتے تھے ہم
کہ جو مل جائے رستے میں اسی سے پیار کرنا چاہتے تھے ہم
شہر اور گائوں کا موضوع:
احمد عطاءؔ کی شاعری میں شہر اور گائوں کا تذکرہ بھی حددرجہ موجود ہے۔ آپ کا تعلُق تو کشمیر سے ہے لیکن آپ کی پیدائش لاہور جیسے بڑے شہر کی ہے جہاں آپ کو احمد ندیمؔ قاسمی مرحوم جیسے ادیب کی رفاقت بھی میسر رہی۔ اگر احمد ندیمؔ قاسمی کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کے کلام میں دیہات ایک بنیادی موضوع ہے۔ شاید اسی اثر کو احمد عطاءؔ اللہ نے قبول کیا اور آپ کے ہاں گائوں کے ساتھ شہر بھی ایک اہم موضوع کے طورپر نظر آتا ہے۔ آپ نے شہر اور گائوں کے مسائل اور وہاں کے ماحول کی جس قدر خوب صورتی سے منظر کشی کی ہے وہ آپ ہی کا خاصا نظر آتا ہے۔ آپ کے اس موضوع کے حوالے سے ڈاکٹر صائمہ نذیر لکھتی ہیں:
’’گائوں کی صاف ستھری فضا، کھلا ماحول اور لوگوں کی سادگی ان کی شاعری میں جھلکتی ہے۔ گائوں کے لوگ صاف دِل ہوتے ہیں جو بات دل میں ہوتی ہے وہی ان کی زبان پر ہوتی ہے باتوں کو دلوں میں چھپانا انھیں نہیں آتا۔۔۔ احمد عطاءؔ اللہ بھی گائوں سے شہرآکر گائوں کی یادوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکے اور ہر موڑ پر انھیں گائوں کی یاد ستاتی ہے۔ وہ گائوں کے لوگوں کے خلوص کو یاد کرتے ہیں۔ رشتوں کا خلوص اور جذبوں کی صداقت جو گائوں کے لوگوں میں اب بھی زندہ ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں اس کا ذکر کثرت سے ملتا ہے اور وہ شہر اور شہر والوں کے خلوص کی کمی کو بھی موضوع بناتے ہیں۔ ‘‘(۳)
فسادِ شہر کی بنیاد ہم
ہمی کو علم تک ہوتا نہیں
٭٭٭
گائوں کی ہنستی ہوئی سرسوں مجھے تڑپائے گی
شہر کے مایوس منظر کی طرف جاتے ہوئے
آپ شہر کے مقابلے میں گائوں کے ماحول کو بہت پسند کرتے ہیں آپ کے خیال میں جو سکون اور فرحت گائوں میں ہے شہر کے ماحول میں وہ کبھی میسر نہیں آسکتی ۔ دیہات میں ہر شخص ذاتی طور پر ایک دوسرے کو جانتا ہے اور پھر اس پہچان میں وہ ایک دوسرے کے دکھ درد سے بھی آگاہ رہتا ہے۔ عطاؔ کے خیال میں:
چھوٹے شہروں کی ایک خوبی ہے
چند لوگوں کا جا بہ جا ملنا
میل ملاپ کو آپ بہت اہم سمجھتے ہیں۔ اسی طرح آپ کے نزدیک جو محبت اور پیار گائوں والوں میں ہوتا ہے وہ شہر میں نہیں ۔ حُسن شہر کی نسبت گائوں کے فطری ماحول میں زیادہ ہے۔ آپ گائوں کی فطرت نگاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پنگھٹ ،دھان کے کھیت، پگڈنڈی، کچے راستے آپ کے ہاں اس طرح کے الفاظ واضح گائوں کی طرف اشارہ ہیں:
دھان کے کھیت میں جھکا چہرہ
کوئی خواہش بھی بو گیا ہو گا
٭٭٭
ایسی بنجر زمیں تھی اُگا کچھ نہیں
سچ سے خلق خدا کو مِلا کچھ نہیں
٭٭٭
دی ہیں پنگھٹ کو دعائیں کیا کیا
جب نظر آیا ہے چہرہ اس کا
٭٭٭
کون بستی سے ہو گیا ناراض
پہلی ٹھنڈک نہیں ہے چشموں میں
٭٭٭
سر پر اُٹھائے رہتی ہمیں دور کی ہوا
سوندھے گھروں کی کچی سی مٹی میں رہ گئے
آپ کی شاعری پڑھ کر قاری پر واضح تاثر جاتا ہے کہ آپ کا تعلق کسی گائوں سے ہے جیسا کہ ڈاکٹر صائمہ نذیر لکھتی ہیں:
’’احمد عطاءؔ اللہ کا تعلق غالباً گائوں سے ہے۔ غالباً کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ میں انھیں نہ تو جانتی ہوں نہ ہی کبھی ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کو میں نے جتنا سمجھا ان کی شاعری سے سمجھا ہے۔‘‘(۴)
لیکن ایسا بالکل نہیں ہے آپ کا تعلق کبھی دیہات سے نہیں رہا۔ لیکن آپ کی شخصیت میں گائوں کی محبت فطری طور پر رچی ہوئی ہے آپ کے ہاں جو دیہات نظر آتا ہے وہ دیہات بھی پنجاب کا ہے۔ جب کہ آپ بنیادی طور پر کشمیر کے باسی ہیں۔ آپ نے اپنی عمر کا طویل حصہ لاہور جیسے شہر میں گزار اور آپ کی شاعری کا آغاز بھی لاہور سے ہوا۔ آپ کے ہاں دیہات اور دیہات بھی پنجاب کا عین ممکن ہے اسی وجہ سے اہم موضوع بنا ہو۔آپ خود بھی اس بارے میں حتمی طور پر نہیں جانتے کہ آپ کے ہاں دیہات اس قدر بنیادی موضوع ہونے کی کیا وجہ ہے۔
عشق و محبت:
عشق و محبت کا موضوع اردو غزل کی روایت میں شامل ہے اور امیر خسر و کے بعد آج تک سبھی شعرا کے ہاں اس موضوع کو مختلف انداز میں اپنے کلام کا حصہ بنایا۔ شاعر حضرات فطری طور پر بھی حسن پسند ہوتے ہیں۔ ولیؔ دکنی جو اردو شاعری کا باوا آدم کہلاتے ہیں جمال پرست شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ولیؔ کے ہاں عشق کے موضوعات کثرت سے ملتے ہیں ولیؔدکنی کے مطابق بھی عشق کے راز سے آشنا ہو جانا بہت بڑا فلسفیانہ کام ہے۔
جو ہوا راز عشق سوں آگاہ
وہ زمانے کی فخر رازی ہے
(ولی دکنیؔ)
ولیؔ کے علاوہ میرؔ، غالبؔ ، اصغر گونڈویؔ ،آتشؔ،اقبالؔ اور دیگر سبھی شعرا نے عشق کے موضوعات کو خوب صورتی سے استعمال کیا:
عشق ہی سعی مری، عشق ہی حاصل میرا
یہی منزل ہے، یہی جادہ منزل میرا
(اصغرؔگونڈوی)
جوں ہم مریضِ عشق کے تیماردار ہیں
اچھا اگر نہ ہو تو، مسیحا کا کیا علاج؟
(غالبؔ)
مقدمہ شعرو شاعری میں حالیؔ لکھتے ہیں:
’’جن لوگوں نے اول غزل لکھی ہو گئی ضرور ہے کہ انھوں نے عشق و محبت کے اسباب اور مداعی محض نیچرل اور سیدھے سادے طور پر معشوق کی صورت حسن و جمال نگاہ اور ناز و انداز و غیرہ کو قرار دیا ہو گا۔ ‘‘(۵)
جو چاہیے سینہ روشن تو سوزِ عشق پیدا کر
شعاعِ مہر پر اک تار ہے مشعل کے گرد کا
(آتشؔ)
محبت کا کوئی نہیں ہے سہارا
محبت ہی دکھ ہے محبت ہی چارا
(صوفی تبسمؔ)
احمد عطاءؔ اللہ نے اسی شعری روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے اپنے کلام میں عشق و محبت کے موضوعات کو خاص الخاص جگہ دی اور بڑی خوب صورتی سے ان کو بیان کیا۔ آپ کی شاعری کلاسیکی رنگ میں رنگی ہوئی ہونے کے باوجود اپنی انفرادیت کی بھی حامل ہے ۔آپ نے محبت کو موضوع تو بنایا لیکن اسے اپنے انوکھے اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ آپ نے حسن و عشق کے معاملات میں جو کاروباری و تجارتی الفاظ کا استعمال کیا وہ ایک انوکھا اور جدید اسلوبیاتی تجربہ ہے مثلاً آپ نے مہنگائی ، بازار، بازار کی تیزی جیسے الفاظ کو محبت کے لیے جس خوب صورتی سے استعمال کیا وہ آپ کے منفرد اسلوب کی واضح دلیل ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ پیار اور محبت کو دھوکا سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ اس کے ہامی ہیں۔ آپ کے نزدیک یہ دھوکا ہی سہی لیکن اسے ایک دفعہ کھانے میں کوئی تامل بھی نہیں ایک دفعہ یہ دھوکا کھایا جا سکتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ اس مضمون کو یوں نظم کرتے ہیں:
پیار، محبت، عشق وغیرہ سب دھوکا ہے
پھر بھی اک آدھ بار تو کھایا جا سکتا ہے
آپ محبت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ کے نزدیک محبت ہی زندگی سے عبارت ہے آپ کا پہلا مجموعہ چوں کہ آپ کی عین جوانی کے ایام میں شائع ہوا، اس لیے اس میں آپ کی محبت کا پہلو بالکل واضح ہے:
ایسا نہیں کہ شہر میں قلت زیادہ ہے
ہم کو محبتوں کی ضرورت زیادہ ہے
٭٭٭
مجھ کو خبر ہے حسن کہانی ہے عارضی
وہ جانتا ہے عشق حقیقت زیادہ ہے
احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری کا نمایاں ترین رجحان عشق و محبت کا جذبہ ہے۔ عشق کی کیفیت کئی انداز میں بیان ہو چکی ہے اور آئے دن انداز بدلتے نظر آتے ہیں ۔ احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری کا مرکزی دھار ا بھی عشق کی خاک نشینی سے پھوٹتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ محبت کے جذبوں سے سرشار شخصیت رکھنے والے انسان ہیں۔ جن کے پہلو میں دھڑکتا ہوا دل عشق کے جذبے سے لبریز نظر آتا ہے۔ آپ کی شاعری میں عشق و محبت کے تلخ تجربات واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔ عشق کا نمایاں وصف حیران کرنا اور حیرت میں ڈالنا ہے بہ قول ڈاکٹرعابد سیالؔ:
وہ حیران کہ عشق نرالا کھیل تھا
میں خاموش کہ دیکھا بھالا کھیل تھا
احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں عشق کی سرشاری اور عشق کی مختلف کیفیات کا بیان انتہائی خوب صورتی اور نفاست سے بھر پور ملتا ہے۔ جذبہ عشق دراصل ایک فطری عمل جو کہ انسان میں فطری طور پر شامل ہوتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ بھی ایک ایسی ہی شخصیت کے حامل ہیں جن کے ہاں عشق ایک اٹل حقیقت ہے اور یہ ہونا لازمی امر ہے۔
پیار ہونے پہ کیسی حیرانی
عین ممکن ہے، ہو گیا ہو گا
احمد عطاءؔ اللہ کے پہلے مجموعے ’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘ میں رومانوی لہجہ بہت شدت سے نظر آتا ہے۔ جس وقت آپ کا یہ مجموعہ منظر عام پر آیا وہ دور عین آپ کی جوانی کا تھا۔ آپ کے جذبے جواں تھے اور دل عشق کی سرشاری اور بے اختیاری سے لبریز تھا۔ آپ کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ عشق کوئی آسان راستہ نہیں لیکن اس کے باوجود آپ اس بات کے ہامی ہیں کہ اس راہ پر چل کر دیکھا جائے۔ آپ کا شعر ملاحظہ ہو:
عشق و وفا کچھ بھی سجھائی نہیں دیا
ممکن ہے راہ اس کو ہی چھو کر دکھائی دے
احمد عطاءؔ اللہ محبت کو ایک کھیل سمجھتے ہیں اور اس کھیل میں آپ خود کو ایک نووادر کھلاڑی سمجھتے ہیں۔ آپ عشق میں دشواریوں سے بھی آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ عشق میں آسودگی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دل آزاریوں کا سامان بھی موجود رہتا ہے۔ آپ کا خیال ہے:
یہ محبت تو ایک کھیل ہے اور
آپ کا تجربہ نہیں لگتا
احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں عشق میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ عشق کا واضح اقرار بھی ملتا ہے۔ آپ عشق کے لمحات کو ہمیشہ آنکھوںمیں سجائے رکھنے پر قانع نظر آتے ہیں:
عشق ہے کارِ مسلسل ورنہ
کام تھے ہم کو بھی دیگر کیا کیا
عطاءؔ یہ شاعری ، یہ عاشقی، یہ عارضہ دِل کا
انہی بدنامیوں میں کہیں شہرت نکل آئی
اکثر لوگ الزام دھرتے ہیں کہ دور حاضر میں محبت ایک نایاب چیز ہے اور محبت اب فقط ایک استعارہ بن کر رہ گئی ہے جیسا کہ افتخارؔ مغل کہتے ہیں:
محبت اب کہاں؟ ان موسموں میں!
محبت استعارہ رہ گیا ہے
فرہاد حمد فگارؔ کے خیال میں:
نظر آتے ہیں پجاری تو بہت دولت کے
کوئی الفت کا طلب گار نہیں دیکھا ہے
جب کہ احمد عطاءؔ اللہ اس کے برعکس پر امید ہیں کہ محبت کبھی کم یاب نہیں ہو سکتی۔ یہ ہمیشہ زندہ رہنے والا جذبہ ہے آپ اس پر قانع نظر آتے ہیں کہ ضرور کچھ وقت کے لیے محبت نایاب ہوئی مگر یہ ہمیشہ نہیں رہنے والی اور بہت جلد یہ پھر سے عام ہوجائے گی۔ آپ اس کو ایک بازار سے تشبیہ دیتے ہیں۔ بازار کا یہ اصول ہے علم ِمعاشیات کے مطابق کسی بھی چیز کی قیمت یکساں نہیں رہتی اور آئے روز قیمتوں میں اتار چڑھائو لگا رہتا ہے۔ آپ بھی امید کرتے ہیں کہ یہ محبت کی گرانی بھی بہت تھوڑے وقت کے لیے ہے اور جلد یہ ارزاں ہو جائے گی:
مہنگائی محبت کی ہو جتنی، نہیں رہتی
بازار میں ہر روز یہ تیزی نہیں رہتی
احمد عطاءؔ اللہ عشق کی مسافرت سے آگاہ ہیں اور آپ کا جذبہ اس بار کو اٹھانے کی ہمت رکھتا ہے جگر ؔ مراد آبادی نے تو کہا تھا کہ:
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جب کہ احمد عطاءؔ اللہ اسے جدید رنگ میں رنگتے ہیں اور محبوب کی خاطر دریا عبور کرنے کی بہ جائے کئی منظر ٹھکرا کے پہنچتے ہیں آپ کے خیال میں محبوب کی محبت اور اس کی دید تمام نظاروں پر بھاری ہے:
تجھ تک آنا تھا سو ٹھہرے ہی نہیں
ورنہ راہوں میں تھے منظر کیا کیا
احمد عطاءؔ اللہ کے مطابق عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر دکھ کا احساس مٹا دیتا ہے اور عشق اپنے مقصد میں سچا ہونے کا نام ہے۔ اس میں کوئی لا ابالی اور دھوکا نہیں۔ عشق تو محبوب کے ساتھ ساتھ زندہ رہتا ہے۔ اور محبوب کے بعد بھی اس کا وجود ختم نہیں ہوتا جیسا کہ علامہ اقبالؔ کہتے ہیں:
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مرجاتا نہیں
روح میں غم بن کر رہتا ہے مگر جاتا نہیں
احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں عشق کی سرشاری اور مختلف کیفیات کا بیان نہایت دل کش انداز میں ملتا ہے۔ آپ کو اس بات کا بہ خوبی علم ہے کہ عشق کے سفر میں نشیب و فراز آتے ہیں اور آئیں گے لیکن اس کے باوجود آپ اپنے سفر پر تاب قدم ہیں۔
صنفِ نازک کا موضوع:
غزل کا ایک مطلب چوں کہ عورتوں سے بات کرنا ہے اور اردو شاعری میں عورت کے موضوعات بھی مل جاتے ہیں۔ اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ہم احمد عطاءؔ اللہ کی غزل کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ کے ہاں بھی یہ موضوع بہ کثرت مِل جاتا ہے آپ نے عورت کے موضوع کو اپنی شاعری کا اہم حصہ بنایا ہے اور مختلف معنوں میں عورت کو بیان کیا ہے:
یہ ہیں شہزادیوں کی آہٹیں پتھر کی بستی میں
کہ ان چاول بھگوتی لڑکیوں کے دل دھڑکتے ہیں
دیوار چھپاتی ہے کہاں پھول کی خوش بو
کمرے میں پڑی کوئی بھی لڑکی نہیں رہتی
تو وہ پگلی سی لڑکی سوچتی ہے
یہ دنیا گِرد اس کے گھومتی ہے
درجہ بالا اشعار میں احمد عطاءؔ اللہ نے نہایت خوب صورتی سے صنفِ نازک کو بیان کیا ہے اور اس کے حسن کا ذکر کیا ہے تو کہیں استفہامیہ لہجہ اپنایا ہے۔پہلے شعر میں عطاءؔ نے گائوں کی لڑکیوں کی خوب صورتی کا تذکرہ کیا ہے کہ پتھروں کی بستی میں چاول بھگوتی لڑکیوں کے دل دھڑکتے ہیں اسی طرح تیسرے شعر میں حیرانی سے استفہافیہ لہجہ اپنایا ہے کہ وہ پاگل لڑکی یہ سوچتی ہے کہ دنیا اس کے گرد ہے اور اس کے علاوہ دنیا نہیں ہے۔ یہاں آپ نے اپنی انا بھی ظاہر کی ہے کہ اس لڑکی کے وجود کے بغیر بھی دنیا حسین ہے اور وہ اگر یہ سمجھتی ہے کہ دنیا صرف اس کے ساتھ ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔
ممکن تھے جتنے عیب بھی لڑکی کی ذات کو
چمکتے ستارے بن کے اماوس کی رات میں
اس شعر میں بھی احمد عطاءؔ اللہ نے لڑکی کی ذات کو عیب سے تعبیر کیا ہے کہ اس کی ذات میں جتنے بھی عیب ممکن تھے وہ تمام اماوس کی رات میں ستارے بن کر چمکنے لگے ہیں۔اسی طرح کہیں آپ لڑکی کی عادت کو بیان کرتے ہیںکہ کسی طرح لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے کبھی ہنسنا زور زور اور کبھی کمرے میں خود کو بند کر کے چپکے چپکے رو لینا لیکن ان کی اس عادت کو کون جان سکتا ہے؟
کون جان پایا لڑکیوں کی عادت کو
زور زور سے ہنسنا، چپکے چپکے رونا بھی
اسی طرح ایک جگہ یوں گائوں کی لڑکی کے حسن کی تعریف کرتے ہیں۔ آپ کا محبوب چوں کہ اسی دنیا کا جیتا جاگتا انسان ہے اور وہ ضرور کوئی صنف نازک ہی ہے جِس کے بارے میں آپ کہیں کہیں تعریف بھی کرتے ہیں مگر کہیں اس کا شکوہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے حسن کے چرچے میں ایک شعر ملاحظہ ہو۔
گائوں کی سب سے حسین لڑکی ہے
اور میلوں میں ہے شہرہ اس کا
اسی طرح آپ کہیں عورت کو وفا کی دیوی کہتے ہیں آپ کے خیال میں مرد بے وفا ہے لیکن اس کی نسبت عورت با وفا ہے اور مرد کو عورت سے وفا سیکھنی چاہیے۔ عورت در حقیقت وفا کا نمونہ ہے ۔ جب کہ اردو شاعری کا محبوب کبھی با وفا نہیں رہا۔ اس تناظر میں احمد عطا اللہ کا تخیل ملاحظہ ہو:
مرد تھے سو بے وفائی ہی رہی اپنی سرشت
وفا سیکھیں عطاؔ صاحب کسی عورت سے ہم
اس طرح آپ نے صنفِ نازک کو اپنا خاص موضوع بنایا ہے اور اپنی شاعری میں اس کو خاص جگہ دی ہے۔
یاد:
اردو غزل میں یاد ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اردو غزل کے نام وَر شعرا نے یاد کو نہایت خوب صورتی سے اپنے کلام میں برتاہے۔ شاعر یادوں کے سہارے اپنا جیون بِتانے کی بات کرتا ہے اور اسے اپنے لیے قیمتی اثاثہ گرادنتا ہے۔ مثلاً فیضؔ کہتے ہیں:
جب تجھے یاد کر لیا، صبح مہک مہک اٹھی
جب ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی
اسی موضوع کو منیرؔ نیازی مرحوم کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
یاد آئی صبح کوئی ابتدائے عمر کی
وہ گل تازہ کی صورت مسکرانے میں لگے
راقم الحروف (فرہاد احمد فگارؔ) کا یاد کے حوالے سے خیال ہے:
چلی آتی ہیں مری خلوت میں
یادیں کتنا خیال رکھتی ہیں
احمد عطاءؔ اللہ نے بھی اس موضوع کو بہت خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا ہے۔ آپ کے ہاں اس موضوع پر بہت خوب صورت اشعار نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس شعر کو دیکھیے اس میں احمد عطاءؔ اللہ محبوب کی یاد کو تکیہ کیے ہوئے ہیں اور اس کی یاد سے کہیں بھی پیچھا نہیں چھڑا پاتے:
اس کی گئی نہ یاد جھمیلوں میں بھی عطاؔ
اور آج کل تو خیر سے فرصت زیادہ ہے
اسی یاد کے موضوع کو لے کر احمد عطاءؔ اللہ کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز نے مجھے تیری یاد سے غافل نہیں ہونے دیا اور ہر مصروفیت کے باوجود تیرا خیال اور تیری یاد میرے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ مثلاً شعر ملاحظہ ہو:
عطاءؔ اس چل چلائو میں کبھی بھولے نہیں اس کو
غزل اس پر کہی ہم نے قصیدہ مختصر کر کے
اسی طرح یہ شعر ملاحظہ ہو:
اس پر سکون نیند نے گھر کیا بسا لیا
بستر پر اس کی یاد کے تکیے بکھر گئے
سرما کی برف رات میں یاد آگیا وہ جسم
پنجاب کی سی لُو میں بہت دور تک گئے
ہجرو وصال کا موضوع:
احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں موضوعات تو روایتی ہیں لیکن آپ کا اسلوب انفرادیت کا حامل ہے۔ آپ کے ہاں رومانوی لہجہ تازگی کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ نے غزل کے قریب قریب تمام روایتی موضوعات سے استفادہ کیا ہے۔ جہاں آپ نے عشق و محبت اور یاد جیسے موضوعات چنے ہیں وہیں آپ نے غزل کا ایک اور اہم ترین موضوع ہجر و وصال بھی اپنایا۔ ہجر ووصال کی کیفیات شعری روایات کا خاصا رہی ہیں۔ جہاں عشق و محبت کے جذبات ہوں گے وہاں ہجر وصال بھی لازمی موضوعات ہیں۔ محبت اور ہجرووصال لازم و ملزوم ہیں۔ اردو شاعری کے دو بڑے دبستان لکھنئو اور دہلی ہیں ۔ ان میں دہلی والوں کے ہاں ہجر کی کیفیت زیادہ ہے جب کہ لکھنو یت میں وصال کا موضوع زیادہ ملتا ہے۔آتشؔلکھنو کے نمائندہ شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آتش کا شعر ملاحظہ ہو:
وصل کی رات تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا
اسی طرح دہلی والوں کے ہاںہجر کی تلخیاں نظر آتی ہیں غالب ؔ کا شعر ہے کہ:
مرے دِل میں ہے غالبؔ شوقِ وصل و شکوہ، ہجراں
خدا وہ دِن کرے جو اس سے میں یہ کہوں وہ بھی
اس روایت کو قیام پاکستان کے بعد کے شعرا نے بھی برقرار رکھا اور ہجرو وصال کو غزل سے جدا نہ ہونے دیا۔ سیف الدین سیفؔ کا شعر دیکھیے:
کیا قیامت ہے ، ہجر کے دِن بھی
زندگی میں شمار ہوتے ہیں
پروین شاکرؔ ہجر کے حوالے سے یوں کہتی ہیں:
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
میں نے ایک بات کی تھی اس نے کمال کر دیا
فرہاد احمد فگارؔ کا شعر دیکھیں:
تجھ سے یہ دوریاں فگارؔ اکثر
مرا جینا محال رکھتی ہیں
احمد عطاءؔ اللہ نے بھی اپنی غزل میں ہجروصال کے تجربات کو موضوع بنایا۔ آپ نے روایت پسندی میں دیگر اَساتذہ سخن کی پیروی کی۔ آپ کے ہاں فرازؔ کی رومانوی لہجہ بھی ملتا ہے اور میرؔو ناصرؔ کاظمی کی قنوطیت بھی، احمد عطاءؔ اللہ نے تمام اَساتذہ سے فیض اٹھایا۔ آتشؔ کی رجائیت بھی آپ کے کلام میں نظر آتی ہے اور غالبؔ کا ہجر بھی ۔ یہی کیفیات ہیں جو احمد عطاءؔ اللہ کو عصر ِحاضر کے ایک ممتاز غزل گو کی شاعر کی حیثیت سے پہچان دلاتے ہیں۔ غزل کو بلند مقام دلوانے میں جہاں عشق اہم محرک رہا ہے وہاں ہی عشق میں ہجروصال کی کیفیات بھی نمایاں ترین محرک رہی ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں ان کیفیات کا اظہار نہایت موثر انداز میں ملتا ہے۔ آپ وصل کی نسبت ہجر کے ہامی نظر آتے ہیں مگر وصل کے لمحوں کو بھی کھونا نہیں چاہتے اور آپ وصل کی گھڑیوں کی بھی تمنا رکھتے ہیں۔ آپ کے ہاں وصل کے لمحوں کی سرشاری اور خوش گواری نہایت مسحور کن کیفیت قائم کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے آپ کے کلام سے شعر ملاحظہ ہو:
بھلے ہوں ہجر کی دھوپیں ، سہانے وصل کے بادل
ہم آتے موسموں کو اس کے رخ پر دیکھ لیتے ہیں
احمد عطاءؔ اللہ اس بات کی قطعاً پروا نہیں کرتے کہ ہجر ہو یا وصل آپ کے لیے ملنا یا بچھڑنا معنی نہیں رکھتا۔ محبت تو فقط آپ کے احساس کا نام ہے اور جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر ادا اور ہربات بھاتی ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کو وصل عزیز ہے مگر وصل سے زیادہ ہجر کا اشتیاق ہے۔ ہجر پسندی کا رجحان ہماری شاعری میں نمایاں ہے۔ وصل چوں کہ ملن ہے اس لیے یہ آرزو کی موت ہے جب کہ ہجر میں تمنائیں اور آرزوئیں بے قرار اور برقرار رہتی ہیں۔ اسی لیے ہجر کو آرزو کی حیات تصور کیا جاتا ہے۔ ملاپ کے شیدائی احمد عطاءؔ اللہ وصل کے کسی پل کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ محبوب سے ملنے کے لیے آپ موسم کی سختیاں جھیلتے نظر آتے ہیں۔ آپ محبوب کی دید اور ملاقات کے لیے کسی بھی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے:
چاندنی رات کا تو ذکر ہی کیا
جلتے سورج میں اس سے جا ملنا
اسی موضوع پر مولانا حسرتؔ موہانی کا شعر دیکھیے:
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پائوں آنا یاد ہے
احمد عطاءؔ اللہ کی وصل کی تمنا اپنی جگہ لیکن اپنے محبوب کے بچھڑنے کا خدشہ وصل کے لمحوں کے دوران میں بھی کہیں سر اٹھاتا نظر آتا ہے۔ شاعر اسی ہجری فضا کو محبوب کی مجبوری کا نام دیتا ہے اور اپنے دل کو ڈھارس بندھواتا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ اپنے محبوب کے نہ مل پانے پر بھی شکوہ نہیں کرتے بل کہ اپنے آپ کو ہی تسلی دیتے نظر آتے ہیں:
ہو گا مصروف دنیا داری میں
سوچتا ہوں کہ اس سے کیا ملنا
محبوب کے اسی لا ابالی پن اور بے پروائی کو ایک اورشاعر اس طرح بیان کرتے ہیں کہ محبوب پر حرف نہ آنے پائے:
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں ہی کوئی بے وفا نہیں ہوتا
ہجر کی کیفیت عشق کی زندگی کی سرشاری کے لیے بہت کارگر اور خوش آئند ہے۔ اس کیفیت میں آرزوئیں بے قرار رہتی ہیں ہر گھڑی محبوب سے ملنے کی حسرت اسے دیکھنے کی آرزو اور اس سے بات کرنے کی تمنا دل و دماغ پر حاوی رہتی ہے۔ جدائی کے عالم میں صبا کے جھونکے بھی محبوب کے در کے قاصد کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ۔ عاشقی میں جدائی کی صعوبتیں اور تکالیف تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہیں راقم الحروف (فرہاد احمد فگارؔ)نے اس موضوع کو کچھ یوں لکھا :
عشق میں ہیں صعوبتیں ایسی
مجھ کو ہر پل نڈھال رکھتی ہیں
اسے محبوب اگر بے نیازی اور غرور سے کام نہ لے تو اس کی شا ن کے خلاف ہے اس لیے اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کے لیے کون کتنا بے قرار ہے۔ اور اگر اسے پتا چل جائے تو وہ اور زیادہ خود سر ہو جاتا ہے ۔ یہ حسن کا وصف اور محبوب کے غم میں پگھلنا اور امیدوں کے چراغ جلانا عاشق کی پہچان ہے۔ اس لیے احمد عطاءؔ اللہ بھی اپنے محبوب کے اس رویے سے ذرابھر نالاں نظر نہیں آئے:
آنکھ کو چبھتے ہیں سو بار جفا کے تیور
دِل ہی احساس ذرا بھی نہیں ہونے دیتا
احمد عطاءؔ اللہ کو محبوب کا وصل بہت کم میسر آیا۔ آپ کے ہاں ہجر کی تڑپ زیادہ ہے۔ وصل ویسے بھی اردو شاعری میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اس کی نسبت ہجر کی تڑپ اور ہجر کے مضامین عاشق کے لیے راحت و تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔ جب ہی احمد عطاءؔ اللہ محبوب کے ہجر کو انتہائی درجہ قرار دیتے ہیں۔ محبوب تو گیا لیکن ساتھ میں اپنا تذکرہ بھی لے گیا۔ یہاں بھی احمد عطاءؔ اللہ محبوب کے نہ ملنے کی وجہ اس کی کم فرصتی ہی بتلاتے ہیں:
وائے کم فرصتی کہ وصل تھا کم
اور اب ذکر بھی تمھارا گیا
اس بات کو غالبؔ اپنی بد قسمتی بتاتے ہیں:
یہ نہ تھی ہماری قسمت ،کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
احمد عطاءؔ اللہ ہجر اور وصال کی روایت کے ساتھ رہ کر ایک خاص اور نیا مضمون بھی یوں پیدا کرتے ہیں کہ وصل میںبھی دوری ہو سکتی ہے۔ اور اس کو بھی مجبوری سے عبارت کرتے ہیں کہ مجبوری ایسی ہو سکتی ہے کہ کوئی پاس رہ کر بھی پاس نہ ہو۔ اکثر شعرا کے نزدیک محبوب دور رہ کر بھی پاس ہو سکتا ہے۔ مومن خان مومنؔ کا بہت مشہور شعر ہے:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اسی پاس اور دور کے حوالے سے احمد عطااللہ کہتے ہیں:
پاس بہت ہی پاس بھی رہ کر ، دوری تو ہو سکتی ہے
ایک ہی چھت کے نیچے بھی مجبوری تو ہو سکتی ہے
اردو شاعری میں ہجر ایک اہم استعارہ ہے۔ شعرا نے ہجر کو موسم سے تشبیہ دی ہے اور اسے ایک سودمند حیثیت سے بیان کیا ہے۔حسنؔ ظہیر راجا کے مطابق:
میں ترے ہجر کے موسم کو برا کیسے کہوں
ایسا موسم تو مجھے تازہ غزل دیتا ہے
جب کہ احمد عطاءؔ اللہ ہجر کو ایک باوفا دوست مانتے یں۔ آپ ہجر کو وصال پر فوقیت دیتے ہوئے اپنے جذبات کو یوں بیان کرتے ہیں :
ہجر جیسا باوفا ، یہ تلخ راتوں کا دوست
میں چلا تھا وصل پر قربان کرنے کے لیے
فطرت نگاری:
احمد عطاءؔ اللہ کے پہلے مجموعے’’ بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘ میں جہاں موضوعات کی دیگر روایات کا پاس رکھا گیا ہے اور اردو غزل کی روایات کو نبھایا گیا ہے۔ وہاں غزل کا ایک اہم موضوع فطرت نگاری بھی آپ نے خوب نبھایا ہے۔ مولانا حالیؔ فطری شاعری کو پسند کرتے تھے۔ آپ نے اپنی کتا ب مقدمہ شعر و شاعری میں بھی اس طرز کی شاعری کے بارے میں پورا مضمون رقم کیا ہے۔ حالیؔ کے مطابق ، فطرت نگاری غزل کی خوش نمائی اور د ل ربائی میں اضافہ کرتی ہے۔ عہدِ رفتہ اور عہدِ حاضر کے سبھی شعرا نے فطرت سے قریب رہ کر شاعری کی ۔ مولانا آزادؔ نے فطرت نگاری کے اوپر باقاعدہ انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے کام کیا۔ جب کہ علامہ اقبالؔ کے ہاں بھی فطرت ایک خاص موضوع رہا ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ نے ماضی کی اسی روش کو برقرار رکھا اور اپنی غزل میں فطری مظاہر کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ کے اشعار سے مثالیں ملاحظہ ہوں:
سدا شامیں نہ گزریں گی ہمارے دوپہر جیسی
سدا سورج مزاج یار کا اونچا نہیں رہتا
٭٭٭
جب چلی وقت کی آندھی تو عطاؔ
جھک گئے سرو و صنوبر کیا کیا
٭٭٭
اس سے برسات رت میں ملنا ہے
کچھ نہیں جس پہ کارگر موسم
٭٭٭
عطاؔ اچھی لگی وہ سانولی سی
جو پیچھے تتلیوں کے بھاگتی ہے
احمد عطاءؔ اللہ نے اپنے اشعار میں فطرت کو جگہ تو دی لیکن آپ نے بالکل ایک انوکھے ڈھنگ سے فطرت نگاری کی۔ کہیں بھی آپ کے ہاں ٹھہرائو نظر نہیں آیا۔ چشمہ، نظارے، برف، پھول، تتلی، چاند، خوش بو ایسے فطری مظاہر ہیں جن کو احمد عطاءؔ اللہ نے نہایت خوب صورتی سے اپنی شاعری میں جگہ دی۔ شعر دیکھیں کہ کس طرح احمد عطاءؔ اللہ نے اپنے چشموں کا المیہ بیاں کیا ہے:
کون بستی سے ہو گیا ناراض
پہلی ٹھنڈک نہیں ہے چشموں میں
احمد عطاءؔ اللہ ایک فطرت شناس شاعر ہیں ۔ آپ کے ہاں خارجیت اور داخلیت دونوں طرح کی واردات ملتی ہیں۔ آپ ایک خوش فکر، سادہ اور فطری شاعرہیں۔ آپ کے ہاں غزل کی جدت بھی نظر آتی ہے اور روایت کی رنگینی بھی۔ آپ کی غزل میں قاری کے لیے ذہنی مشقت زیادہ نہیں بل کہ آپ کی غزل عام قاری کے لیے اسی دل چسپی کا باعث ہے۔ جس طرح کی دل چسپی ادبی قاری کے لیے ہے۔ آپ اپنی ذات کے لیے سفر کرتے تو نظر آتے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ آپ کی شاعری میں عام آدمی کے جذبات کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ غزل کا ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ اسے باآسانی سمجھ میں آجانا چاہیے لیکن مشکل پسندی اس کی علامات اور استعارات بھی ہمارے تہذیبی مزاح اور روایت کا حصہ رہے ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ نے قدیم و جدید الفاظ کو الگ معنوی جہت بخشی ہے۔آپ کے ہاں مشکل اسلوب کی جگہ آسان شعری اسلوب نظر آتا ہے۔ جس وجہ سے خواص اور عوام دونوں آپ کی شاعری سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ احمد عطااللہ کی غزل عام قاری کے لیے اتنی ہی تسکین اور لطف کا باعث ہے جتنا کہ خواص کے لیے۔ آپ کی غزل میں فنی تسلسل بھی ملتا ہے اور فکری ہم آہنگی بھی:
ہلکی مہک سے شہر کو آباد کر گیا
اک پھول سات پردوں کے اندر کھِلا ہوا
بلاشبہ احمد عطاءؔ اللہ کی غزل میں مربوط فضا ملتی ہے ۔ آپ کے اکثر اشعار ایسے ہیں جو پڑھتے ہی قاری کو ازبر ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ آپ کی سلاست اور لفظی حسن ہے جو آپ کی غزل میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔
جنس نگاری:
احمد عطاءؔ اللہ نے اپنی غزل میں جنسی رویوں پر مبنی جذبوں سے متعلق مضامین کو بھی بیان کیا ہے۔ آپ کی شاعری میں محبت کا موضوع بھی ہے اور جنس کا بھی آزاد کشمیر میں مرزا طالبؔ گورکانی کے بعد آپ اس اعتبار سے بہت اہم شاعر ہیں۔ جن کی شاعری میں جنسی موضوعات ملتے ہیں۔ آپ کی غزلیات میں غزل کی روایت کا گہرا شعور بھی ملتا ہے۔احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کی شاعری پر لاہور جیسے بڑے ادبی مرکز میں رہنے کے اثرات کسی حد تک مرتب ہوئے ہیں ۔
احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری میں قیام لاہور کا سب سے خوش گوار اثر زبان و بیان کی صحت ہے۔ ادبی مرکز سے قریب اور اپنے عہد کی اہم ادبی شخصیات سے رابطے کی بنا پر احمد عطا ؔاللہ زبان کی سلاست اور اس میں محاورات اور روزمرہ کی جادو بیانی کو بہ خوبی سمجھ گئے ہیںاور آپ کی زبان بھی خاصی سنور گئی ہے۔ عمر کا بیشتر حصہ ایک بڑے ادبی مرکز میں رہنے کا ایک مثبت اثر یہ بھی پڑا کہ احمد عطاءؔ اللہ اپنے دور کے ادبی اور شعری رجحانات کو قریب سے دیکھنے کے قابل ہو گئے ۔آپ کو اس سارے منظر نامے میں اپنی منفرد اور الگ پہچان بنانے میں مدد ملی بالخصوص ان مضامین میں جن کا تعلق محبت اور جنس سے ہے:
روز کے مانوس بستر کی طرف جاتے ہوئے
موت آتی ہے میسر کی طرف جاتے ہوئے
بیشتر شعراکے ہاں محبت جنس سے عبارت ہے۔ جیساکہ میراجیؔ محبت کو محض جنسی کشش سمجھتے تھے۔ میرا جیؔ کی اس بات پر حد درجہ یقین رکھنا جنسیات یا نفسیات کے حوالے سے تو اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے لیکن جمالیات اور شعریات کے حوالے سے قابل ِغور ضرور ہے۔ جنسی رجحانات دراصل انسان کا ایک فطری عمل ہے۔ جو ازل سے انسان میں موجود ہے۔ فن ِشعر میں جنس کا اظہار ایک فطری چیز ہے۔ محبت اور جنس سے وابستہ یہ تصورات گزشتہ چار ، پانچ دہائیوں میں زیادہ واضح شکل میں سامنے آئے ہیں۔ بل کہ بعض نقادوں نے تو محبت سے وابستہ تمام رومانویت کو تہ وبالا کرنے میں اس جذبے کو ایک ہی زاویے سے دیکھا ہے بقول سلیم احمد:
’’آپ عورت کو خوب صورت الفاظ سے خوش نہیں کرسکتے ۔ صرف کپڑے، زیور اور نان نفقہ سے بھی نہیں۔ یہاں تک کہ صرف اس کام سے بھی نہیں جسے محبت کہتے ہیں اور جس کی جہد تقدیس شاعری کا ازلی و ابدی موضوع ہے۔ ‘‘(۶)
احمد عطاءؔ اللہ نے بھی جنس نگاری کو اپنا موضوع خاص بنایا آپ کی شاعری میں جابہ جاایسے اشعار نظر آتے ہیں جو جنسی موضوع پر مبنی ہیں۔ دراصل اردو شاعری میں جنس ایک ایسا موضوع ہے جس سے الگ ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے چوں کہ عشق و محبت اردو غزل کا اہم موضوع ہے۔ اگر محبت ہو گی تو اس کے ساتھ ساتھ جنسی خواہشات بھی جنم لیتی ہیں۔ احمد فرازؔ ، ثروتؔ حسین، چراغ حسن حسرت ؔوغیرہ کے علاوہ دیگر کئی شاعروں کے ہاں یہ موضوع خاصا اہم نظر آتا ہے احمد فرازؔ کا شعر دیکھیے:
کِسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجئے
کام اس پل ہے تیرے جسم کی عریانی سے
(ثروتؔحسین)
آج کی رات کٹ گئی تو کیا
زندگی یوں بسر نہیں ہوتی
(چراغ حسن حسرتؔ)
احمد عطاءؔ اللہ نے بھی اسی روایت کو بڑے احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے جنسی موضوعات کو اپنی غزل کا خاص موضوع بنایا ہے آپ کے جنسی موضوعات سے شعری مثالیں ملاحظہ ہوں:
اس ہوس کار زمانے سے ہمت لے کر
اس کے در تک ہی چلے جائیں یہ حسرت لے کر
٭٭٭
مہذب بنے پھرتے تھے تیرے ہجر کے صدقے
ذرا سا وصل مہکا تو دبی حسرت نکل آئی
٭٭٭
خواہش کا پیرہن لیے اٹھے عطاؔ نہ ہم
جب تک اسے لباس یہ پہنا نہ دیا
٭٭٭
جگایا گرم سی پوروں سے اس کو
تھکن سے روح تک جو سو چکا تھا
آتی شب وصال تو منہ ڈھک کے پڑ رہے
دن بھر جو گفت گو میں بہت دور تک گئے
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ احمد عطاءؔ اللہ کی غزل میں روایتی اور کلاسیکی روایت کا رنگ واضح نظر آتا ہے جو کہ اردو شاعری میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ آپ کے ہاں جنسی موضوع میں زیادہ پختگی نظر آتی ہے۔ آپ کی غزل میں جہاں حسن و محبت ہے وہاں جنس کے معاملات سے متعلق مضامین کی بھی کمی نہیں۔ جنسی مضامین آپ کے ہاں جذباتی تہذیب اور اس شائستگی کے ساتھ ظاہر ہوئے ہیں جو یہاں کی ثقافتی قدروں کی پہچان ہے۔
٭٭٭