وقت گزرتا رہا۔ سندھ، دجلہ اور نیل کی وادیوں میں تہذیبیں ابھرتی اور مٹتی رہیں۔ ایران، چین اور یونان میں علم و دانش کے چراغ جلتے اور بجھتے رہے۔ رومتہ الکبریٰ کا غلغلہ بلند ہوا اور فضا میں گم ہوگیا۔عباسیوں اور مغلوں کے پرچم بڑے جاہ وجلال سے لہرائے اور سرنگوں ہوگئے۔ مغربی علوم کی روشنی دوردورتکج پھیلی مگرانسانی تہذیب کے اولیں گہواروں میں اندھیرا ہی رہا۔
غار افسانہ بھی ہیں اور تاریخ بھی۔ وہم کی آنکھوں سے دیکھو تو ان غاروں میں ہرسمت موت کے مہیب سائے ناچتے نظرآئیں گے۔آدم خور دیوؤں کی چنگھاڑیں، بیتالوں اوربھوتوں کے خوف ناک قہقہے، چمگادڑوں کے روپ اِدھر اُدھر اڑتی ہوئی بد روحیں اور پچھل پائیاں ۔ منھ سے آگ اگلنے والےاژدھے اورانھیں کے آس پاس بھٹوں میں چھپے ہوئے شیر، بھالو، بھیڑیے، ڈاکو اور راہ زن۔۔۔۔ غرض روایت نے غاروں کو ہر قسم کی تخریبی قوتوں کا مسکن قرار دیا ہے۔ چنانچہ پرانی داستانوں میں غاروں کے ان دہشت ناک باشندوں کے تذکرے جابجا ملتے ہیں۔ وہ غار ہی تھا جس میں کانے دیو نے ہومر کے ہیرو اوڈیسیس کو ساتھیوں سمیت قید کیا تھا اور چالاک اوڈیسیس نے دیو کو نشہ پلایا تھا اور جب دیو مدہوش ہو گیا تھا تو اس کی آنکھ میں لوہے کی گرم سلائی پھیردی تھی۔ اور بھیڑ کے پیٹ سے لپٹ کر غار سے فرار ہوا تھا اور وہ بھی غار تھا جس میں علی بابا کے بھائی کو دولت کی ہوس لے گئی تھی مگر وہ “کھل جا سم سم” کا طلسمی کلمہ بھول گیا تھا اور ڈاکوؤں نے اسے قتل کرکے لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔
مگرتاریخ کی آنکھ سے دیکھو تو یہی غار انسان کی قدیم ترین پناہ گاہ نظر آئیں گے جہاں اس نے اپنی 25،30 لاکھ سالہ زندگی کی بیش تر مدت بسر کی ہے۔ وہیں اس نے افزائش نسل کے راز سیکھے، موسم کی سخت گیریوں سے بچنے کے طریقے وضع کیے، آگ جلانے کے تجربے کیے،اوراس طرح تسخیرِ قدرت اور کیمیاوی عمل کے ایک ایسے انقلابی راز سے آگاہ ہوا جس نے آگے چل کر اسے اقلیمِ ارض کی فرماں روائی عطا کی۔ یہ غار اس کے اولین مولدو مسکن بھی تھے اور معبدو مقابر بھی۔ یہاں پہنچ کر وہ تمام ارضی و سماوی آفتوں سے محفوظ ہو جاتا تھا۔ یہ غار رحمِ مادر سے بھی کسی قدر مشابہ تھے۔ اپنی ظاہری شکل میں بھی اور باطنی کیفیت میں بھی۔ وہی پراسرار تاریکی، وہی پیچ و خم اور امن و عافیت کا وہی احساس۔ مگرانسان کی فراموش طبعی دیکھو کہ لاکھوں سال ان غاروں میں رہنے کے بعد جب اس نے یہ مسکن ترک کیے اور جھونپڑے، گاؤں اور شہر بسائے تو پھر ان غاروں کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ انھیں ایسا بھولا گویا ان سے کبھی وابستہ ہی نہ تھا۔ غاروں کے دہانے، چٹانوں، مٹی کے ملبوں اور جنگلی جھاڑیوں سے پٹ گئے۔ ان کی تلخ اور شیریں یادیں ذہنوں سے محو ہو گئیں اور آنے والی نسلیں اس حقیقت سے بھی واقف نہ رہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کبھی غاروں میں رہتے تھے۔
وقت گزرتا رہا۔ سندھ ، دجلہ اور نیل کی وادیوں میں تہذیبیں ابھرتی اور مٹتی رہیں۔ ایران ، چین او ر یونان میں علم و دانش کے چراغ جلتے اور بجھتے رہے۔ رومتہ الکبریٰ کا غلغلہ بلند ہوا اور فضا میں گم ہوگیا۔ عباسیوں اور مغلوں کے پرچم بڑے جا ہ و جلال سے لہرائے اور سرنگوں ہوگئے۔ مغربی علوم کی روشنی دور دورتک پھیلی مگر انسانی تہذیب کے اولیں گہو اروں میں اندھیرا ہی رہا۔
پھریوں ہوا کہ انیسویں صدی کی ایک روشن سہ پہر میں اسپین کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک کتا ایک لومڑی کا پیچھا کرتے کرتے ایک بھٹ میں گھس گیا۔ کتے کا مالک مارسیلو داساؤ تولا کتے کو نکالنے کی غرض سے بھٹ میں اترا تو پتہ چلا کہ اندر اچھا بڑا غار ہے۔ مارسیلو داساؤتولا کو آثارِ قدیمہ کا شوق تھا۔ اس نے غار کو کھودنا شروع کیا کہ شاید اس کے اندر پرانے زمانے کی کچھ چیزیں مل جائیں۔ ایک دن وہ غار میں اترا تو اس کی کمسن بچی ماریا بھی اس کے ہمراہ تھی۔ ساؤتولا غار کھودنے میں مصروف ہوگیا اور ماریا پتھر کے ٹکڑوں سے کھیلنے لگی۔ دفعتاً ساؤتولا نے ماریا کی چیخ سنی۔ ” تورو، تورو (بیل بیل) ساؤتولا بچی کی طرف لپکا مگر وہ حیران تھا کہ اس تنگ غار میں بیل کہاں سے آئے۔ وہ ماریا کے پاس پہنچا تو ماریا غار کی چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ ساؤتولا کو جب بیل کہیں نظرنہ آئے تو اس نے بچی سے پوچھا اور تب بڑی مشکل سے اس کی آنکھوں سے وہ نظارہ دیکھا جسے بیس ہزار سال سے کسی انسان نے نہ دیکھا تھا۔ سرخ اور سیاہ رنگ کے بیلوں کی ایک لمبی قطار تھی جو چھت پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ التمیرا کا غار تھا جس میں قدیم حجری انسان نے اپنی فن کاری کا مظاہرہ کیا تھا اور جس کو ساؤ تولا نے 1879ء میں اتفاقاً دیکھ لیا۔
ساؤتولا نے غار کی دیواروں کو غور سے دیکھا تو کہیں رنیگن بھِینسے اور بیل بنے ہوئے تھے، کہیں جنگلی سور، کہیں ہرن اور چیتل، کہیں ہاتھ کے چھاپے۔ شمارکیا تو اس نگار خانے میں جانوروں کی 170 تصویریں تھی۔ ان کے رنگ اس قدر شوق اور روشن تھے گویا یہ تصویریں ابھی کل بنی ہوں۔ ساؤتولا نے اپنے اس حیرت انگیز انکشاف کا اعلان اخباروں میں کیا اور آثارِ قدیمہ کے ماہروں سے درخواست کی کہ وہ آکر غار کا مطالعہ کریں لیکن دانایانِ مغرب نے ساؤتولا کا مذاق اڑایا۔ کسی نے کہا یہ اسکول کے لڑکوں کا کھلواڑ ہے۔ کسی نے کہا مقامی چرواہوں نے اپنی اکتاہٹ دور کرنے کی خاطر مویشیوں کی تصویریں بنائی ہوں گی بعضوں نے غریب ساؤ تولا کو فریبی اور جعل ساز کہنے سے بھی دریغ نہ کیا اور یہ الزام لگایا کہ ساؤ تولا نے میڈرڈ کے کسی مصور سے ساز باز کیا ہوگا۔ تجارت اور شہرت کی خاطر۔ غرض کہ نہ حکومت نے ان دیواری تصویروں کی طرف توجہ کی اورنہ ماہرینِ فن نے اس غار کو در خور اعتنا سمجھا۔ بے چارہ ساؤ تولا خاموش ہورہا۔
یہ درست ہے کہ التمیرا کی دریافت سے بہت پہلے آثارِ قدیمہ کے ماہروں کو عہد قدیم کے پتھر کے اوزار، ہاتھی دانت کے ٹکڑوں پر کھدے ہوئے نقوش اور سیپ اور ہڈی کے زیورات دست یاب ہو چکے تھے۔ مثلاً بروئِیلے (Brouillet) نامی ایک فرانسیسی ماہر کو سوینی (Savigny) کے مقام پر ہڈی کا ایک ٹکڑا انیسویں صدی کی ابتدا میں ملاتھا۔ اس ٹکڑے پر دوہرن کندہ تھے۔ کلونی Cluny کے عجائب گھر نے 1851ء میں ہڈی کے اس منقوش ٹکڑے کو حاصل کرلیا تھا مگرکسی کو اس کی قدامت پر غور کرنے توفیق نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح 1833ء میں میئر Mayor نامی ایک انگریز محقق کو ہڈی کی ایک چھڑی ملی تھی جس کے ایک رخ پر ایک گھوڑا کندہ تھا اور دوسری طرف ایک پودا بنا تھا۔ 1852ء میں آری ناک (فرانس) کے مقام پر ہڈیوں کا ایک ہار اور ہڈی اور ہاتھی دانت کے چند زیورات بھی دریافت ہوئے تھے۔ ایڈورڈلارتیت کو مسات Massat کے مقام پر بارہ سنگھے کی ہڈی پر ریچھ کا سر کھدا ہوا ملا تھا اور 1863ء میں اسے وزیر ندی کی وادی میں جو پیرس سے ڈھائی سو میل جنوب مغرب میں واقع ہے متعدد چھوٹی چھوٹی چیزیں آلات اور و اوزار دست یاب ہوئے تھے۔ چنانچہ 1864ء میں اس نے ان دریافتوں پر ایک مختصر سا رسالہ فرانسیسی زبان میں شائع بھی کیا تھا۔ اسی سال کو مارلین (فرانس) کے مقام پر میمتھ کا ایک دانت ملا تھا جس پر نہایت باریک خطوں میں اس ناپید جانور کی شکل کندہ تھی۔
یہ تو خیر چھوٹی چھوٹی منقولہ اشیا تھیں جن سے قدیم انسان کی فن کاری کا کوئی واضح تصور قائم کرنا قدرے دشوار تھا مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ التمیرا اسے پیش تر دنیا کے مختلف گوشوں میں چٹانوں پر اور غاروں میں جو تصویریں اور نقوش ملے ان کی تاریخی اہمیت کو بھی نظر اندزز کردیا گیا۔ مثلاً 1837ء میں سرجارج گرے نے آسٹریلیا کی سیاحت کے دوران اقلید سی انداز کی بڑی پراسرار اور رنگین تصویریں کمبر لے کی کوہستانی پناہ گاہوں میں دریافت کی تھیں۔ 1848ء میں جھیل اور نیگا (روس) کے مشرقی ساحل پر غاروں میں متعدد نقوش دیواروں پر کھدے ہوئے ملے تھے۔ یہ وہیل مچھلی، بارہ سنگھے اور ایلک کے نقوش تھے۔ انھیں دنوں سٹو (Stowe) کو جنوبی افریقہ کی چٹانوں پر اقلید سی انداز کی مصوری کے چند نادر نمونے نظر آئے تھے اور اس نے ان کو بڑی محنت سے نقل کرلیا تھا مگر یہ نقش و نگار تہذیب کے اصل مرکز یعنی یورپ سے بہت دور پس ماندہ علاقوں میں پائے گئے تھے۔ ان کو نہ تو ایک رشتے میں جوڑا جا سکا تھا اور نہ تہذیب انسانی کی ارتقائی تاریخ مرتب کرنے میں ان سے مدد مل سکتی تھی۔ کم سے کم اس دور کے دانش وروں کا یہی خیال تھا۔
ساؤلا تولا کے دس سال بعد موسیو شیرون (Cheron) نے شیبوت (Chabot) (فرانس) کے غار کی تفصیلات شائع کیں، اس غار کا سراغ انھوں نے کئی سال پیش تر لگایا تھا، لیکن ان کا حشر بھی وہی ہوا جو ساؤلا تولا اکا ہو چکا تھا۔
انیسویں صدی کے اختتام کو ابھی پانچ سال باقی تھے کہ ایک اور مصور غارلا موتھ (فرانس) کے مقام پر دریافت ہوا، وہ بھی اتفاقاً۔ ایک کاشت کار اپنے مویشیوں کے لیے ایک پہاڑی پناہ گاہ صاف کررہا تھا کہ اچانک غار کا دہانہ کھل گیا۔ گاؤں میں یہ خبر پھیلی تو چند نڈر لڑکوں نے غار میں اُترنے کی ٹھانی۔ انھوں نے موم بتیاں لیں اور غار میں گھس گئے۔ واپس آئے تو اُنھوں نے بتایا کہ غار کی دیواروں پر جا بجا گھوڑے، بیل، بارہ سنگھے، گینڈے، بیسن اور بیسن سے بھی بڑے بڑے جانوروں کی تصویریں بنی ہیں۔ چند سال بعد اسی غار کے نواح میں ایک پورا نگار خانہ ملا جس میں دو سو دیواری تصویریں موجود تھیں۔ یہ فونت دے گام کا مشہور غارتھا جو ستمبر 1901ء میں دریافت ہوا۔ اسی دوران میں مشرقی اسپین کی کھلی چٹانوں پر رنگین تصویروں کے آثار دیکھے گئے۔ ان تصویروں میں غلبہ جانوروں کا تھا مگر ہیئت میں یہ تصویریں التمیرا اور فونت دے گام سے مختلف تھیں لیکن کتابی علم کا غرور اور پندار کی بے اعتنائی کہیے کہ دانش و ران روشن نشانیوں کو بھی جھٹلانے پر اصرار کرتے رہے۔ چنانچہ فرانس میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی جو بین الاقوامی کانفرنس ہوئی اس میں ان جدید دریافتوں پر بحث کرنے کی بھی اجازت نہ ملی۔
مگر حقیقت سے بہت دن تک چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ اسے دیر سویر ماننا ہی پڑتا ہے۔ چنانچہ یکم اکتوبر 1902ء کو ماہروں کا ایک گروہ ایبے بروئیل کے اصرار پر پہلی بار التمیرا کے غار میں داخل ہوا۔ اس مہم کا ذکر کرتے ہئوے ایبے بروئیل لکھتا ہے کہ روشنی کےے لیے ہمارے پاس فقط موم بتیاں تھیں مگر اس نیم تاریک ماحول میں بھی ہماری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ غار میں نمی تھی اس لیے سقفی تصویروں کا چربہ نہیں لیا جا سکا تھا کیوں کہ رنگ گیلا تھا اور کاغذ پر چپک جاتا تھا۔ چربہ لینے کے معنی ان تصویروں کو ضائع کرنے کے ہوئے لہٰذا اپیبے بروئیل نے ان کو ہو بہو نقل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ” میں روزانہ آٹھ گھنٹے زمین پر پیٹھ کے بل لیٹ کر ان تصویروں کو نقل کرتا جو چھت پر بنی ہوئی تھیں”۔ ایبے بروئیل نےیہ کام تین ہفتے میں مکمل کرلیا مگر کوئی پبلشر التمیرا کے اس رنگین مرقعے کو چھاپنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر ایبے بروئیل نے پرائیویٹ امداد سے التمیرا پر ایک مصور کتاب 1908ء میں شائع کی۔
ان حجری فن پاروں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کو ایبے بروئیل جیسا دُھن کا پکا اور لگن کا سچا فن کارمل گیا۔ ایبے بروئیل نے اپنی زندگی حجری فن پاروں کی نقل اور تفتیش و تحقیق کے لیے وقف کردی۔ چنانچہ آج ایبے بروئیل کی نقل کی ہوئی تصویروں کا اتنا بڑا ذخیرہ فرانس میں موجود ہے کہ اس سے کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔
اب چراغ سے چراغ ملنے لگا۔ غاروں کی دریافت نے ایک مہم کی شکل اختیار کرلی۔ چنانچہ ہر سال ایک نہ ایک مصور غار کا سراغ ملتا۔ کبھی اسپین اور فرانس میں کبھی جرمنی اوراٹلی میں، کبھی روس اور چیکو سلواکیہ میں، کبھی سویڈن اور ناروے میں۔ آخری غارہ وہ ہے جو Baumed Dullins کے مقام پر مارچ 1951ء میں دریافت ہوا۔ اس سے پیش تر ایک نہایت اہم غار لاسکا میں ستمبر 1940ء میں دو لڑکوں نے دریافت کیا تھا۔
یوں تو قدیم حجری دور کے یہ فن پارے یورپ میں التمیرا سے جھیل بیکال تک اور فن ہاگن (ناروے) سے کیڈز (اسپین) تک بکھرے ہوئے ہیں مگر اس دور کے فن کا سب سے بڑا مرکز جنوب مغربی فرانس ہے۔ وہاں اب تک ستر غار دریافت ہو چکے ہیں۔ یہ غار دو منطقوں میں واقع ہیں۔ ایک وہ پہاڑی علاقہ ہے جو دریائے دوردون کی وادی میں ہے اور دوسرا فرانس کی جنوبی سرحد پر کوہِ پیر نیز میں۔ ان کے علاوہ اسپین کے شمال مغربی، مشرقی اور جنوبی علاقوں میں اس عہد کے کم و بیش چالیس غار اور کوہستانی پناہ گاہیں اب تک مل چکی ہیں۔ پھر چٹانوں پر اور کھوہوں کے اندر رنگین تصویروں اور کندہ نقوش کا وہ طویل سلسلہ ہے جو اسپین سے شروع ہوتا ہے۔ سمندر پار کر کے مراکش اور الجزائر سے گزرتا ہوا صحرائے اعظم کو عبور کرتا وسطی مشرقی اور جنوبی افریقہ میں اپنے نشان چھوڑتا کیپ ٹاؤن پر ختم ہوتا ہے۔ یہ نقوش اور تصویریں گو قدم حجری دَور سے تعلق رکھتی ہیں مگر تکنیک اور ہیئت کے اعتبار سے یورپ کے ان فن پاروں سے مختلف ہیں جن کا ذکر ہم کررہے ہیں اس لیے اُن پر الگ بحث کی جائے گی۔ آسٹریلیا کی حجری دَور کی تصویریں افریقی تصویروں کے علاوہ ہیں البتہ وہ ٹیکنیک کے لحاظ سے آپس میں بڑی مشابہت رکھتی ہیں۔
سو ڈیڑھ سو سال پیش تر تک اس زمین کے بسنے والوں اور ان کے ماضی بعید کے بارے میں ہماری معلومات بہت ناقص اور محدود ہیں۔ عہدِ قدیم زمین کے سینے میں دفن تھا۔ ہمیں ان دفینوں کی خبر تھی اور نہ ان کی تلاش و تحقیق کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس موجود تھا۔ ہماری آگہی کا سارا اثاثہ چند مذہبی کتابیں تھیں یا وہ لوک کہانیاں جو پرانی قوموں میں مدت سے رائج ہیں۔ انھیں روایتوں اور کتابوں کی روشنی میں انسان اور اس کے قدیم معاشرے کی ابتدا کا سراغ لگایا جاتا تھا۔ چنانچہ سترھویں صدی کے ایک پادری اشر نے انجیل کی کتاب پیدائش کی مدد سے یہ ثابت کیا تھا کہ ظہور آدم کا واقعہ 4004 قبلِ مسیح میں پیش آیا تھا اور دانایان مغرب نے پادری اُشرکی اس حساب دانی کو بہت سراہا تھا لیکن انیسویں صدی عیسوی میں جب سائنس نے ترقی کی اور نئے نئے علوم مثلاً علم الافلاک، علم الارض اور علم لحیوان کو فروغ ہوا تو ان پرانے عقیدوں کی صداقت خطرے میں پڑگئی۔ سائنس دان زمین اور زندگی کی عمریں متعین کرنے لگے۔ ارتقائے حیات کے نظریے بنانے لگے۔ انھوں نے زمین کی تہوں سے بے شمار ایسی چیزیں برآمد کیں جن سے ان کے دعوؤں کی تصدیق ہوتی تھی۔ انھوں نے ان معدوم جانوروں کے ڈھانچے بھی ڈھونڈ نکالے جو لاکھوں برس گزرے زمین پر موجود تھے اور جب 1891ء میں پروفیسر دوبائے کو جاوا میں قدیم انسان کی چار لاکھ برس پرانی ایک کھوپڑی دستیاب ہوئی تو پادری اُشرکا حساب بالکل ہی غلط ثابت ہوگیا۔ اس کے بعد 1907ء میں ہائیڈل برگ (جرمنی) کے مقام پر آدمی کا ایک جبڑا ملا جو پانچ لاکھ برس پرانا تھا اور 1927ء میں پیکنگ (چین) کے نواح میں ایک غار میں آدمیوں کے 45 ڈھانچے نکلے جو چار لاکھ برس پرانے تھے اور اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انسان کم سے کم پندرہ لاکھ برس سے اس کرہ ارض پر آباد تھے۔
محققین نے یہ بھی ثابت کیا کہ اس پندرہ لاکھ برس کے عرصے میں انسان کے رہن سہن، رسم و رواج، آلات و اوزار، عقاید اور عادات اور فکر و فن میں وقتاً فوقتاً نمایاں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ انسانی تہذیب کوئی ساکت اور جامد شے نہیں ہے جو ایک مقام پر ٹھہری رہتی ہو بلکہ وہ ایک تغیر پذیر اور فعال حقیقت ہے جس نے اب تک ارتقا کے مختلف مدارج طے کیے ہیں اور یہ عمل بدستور جاری ہے۔ ان تبدیلیوں کا باعث وہ آلات و اوزار ہیں جن کو انسان اپنی اپنی سماجی ضرورتوں کے تحت خود بناتا رہتا ہے۔ دراصل تہذیبِ انسانی کے مختلف عہدوں کی شناخت انھیں آلات و اوزار سے ہوتی ہے چنانچہ 1836ء میں کرسٹین ٹامیسن (Christian Toomsen) نامی ایک فرانسیسی عالم نے آلات و اوزار کے فرق کے پیشِ نظر انسانی تہذیب کے تین بنیادی عہد متعین کیے تھے۔
1۔ پتھر کا زمانہ ، جب آلات و اوزار پتھر، لکڑی یا ہڈی کے ہوتے تھے۔
2۔ دھات کا زمانہ، جب کہ آلات و اوزار (تانبے اور ٹن کو ملا کر) کانسے کے ہوتے تھے۔
3۔ لوہے کا زمانہ، جو ایک ہزار قبلِ مسیح کے قریب شروع ہوا اور ہنوز جاری ہے۔
پتھر کا زمانہ اندازً پانچ لاکھ قبلِ مسیح سے پانچ ہزار قبلِ مسیح تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کو زمانہ قبل از تاریخ بھی کہتے ہیں۔
قدیم حجری دور کے جو آثار اب تک ملے ہیں ان سے یہی اندازہ ہوتاہے کہ اس زمانے کا انسان تقاشی، مصوری، مجسمہ سازی اور موسیقی سے واقف تھا۔ یورپ کے غاروں میں حجری دورکے سب سے قدیم فن پارے 30،40 ہزار برس پرانے ہیں۔ ان کے عروج و کمال کا زمانہ مادی لانی دور کا وسطی عہد ہے جس کے آخر تک آتے آتے یہ فن ختم ہوگیا۔ کیوں کہ جن لوگوں نے یہ فن پارے تخلیق کیے تھے وہ معدوم ہوگئے یا ان علاقوں سے مستقل طورپر ہجرت کرکے کہیں اور آباد ہوگئے۔
قدیم حجری دور کا ماحول سخت برفانی تھا س لیے اس دور کو برفانی دور بھی کہتے ہیں۔ اس وقت یورپ کا تمام وسطی اور شمالی علاقہ ( برطانیہ، جرمنی پولینڈ، ناروے، سویڈن اور شمالی روس) برف کی چادروں سے ڈھکا ہوا تھا اور کسی جانور یا انسان کا وہاں گزر نہ تھا۔
البتہ اسپین، فرانس، اٹلی، جزیرہ نما بلقان اور دریائے وولگا کی وادی برف سے نسبتاً محفوظ تھی۔ سردیوں میں گو اس خطے میں بھی شدید برف باری ہوتی تھی اور سرد ہواؤں کے طوفان آتے تھے لیکن شمالی یورپ کے مقابلے میں وہاں کا موسم معتدل تھا۔ اس خطے میں اونچے اونچے درختوں کے جنگل تھے۔ پھل دار جھاڑیاں تھیں،دریا اور میدان تھے اورگھاس تھی لہٰذا میتمہ، بیسن، ریچھ، بالدار گینڈے، بارہ سنگھے، جنگلی بیل، گھوڑے اورہرن، غرض اس عہد کے تمام جانور اسی خطے میں رہتے تھے اوران کے بڑے بڑے غول خوراک کی تلاش میں دور دور تک نکل جاتے تھے۔ اس وقت کے انسان کا دارو مدار انھیں جانوروں کے شکار پر تھا اس لیے انسانی قبیلے بھی جانوروں کے تعاقب میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے تھے۔
انسانی قبیلے خانہ بدوشی کی یہ زندگی غاروں یا کوہستانی پناہ گاہوں میں گزارتے تھے البتہ میدانی علاقوں میں وہ اپنے رہنے کے لیے زمین میں گڑھا کھود لیتے تھے اور گڑھے کے اوپر گھاس پھوس کی چھت ڈال لیتے تھے۔ ان میں دو جھونپڑیوں کے آثار جنوب مشرقی یورپ میں ملے ہیں۔ جنگلی جانوروں ان کا کھاناپینا اور اوڑھنا بچھونا تھے۔ ان جانوروں کا گوشت وہ بطور غذا استعمال کرتے تھے۔ چربی سے چراغ جلاتے تھے۔ کھال اوڑھی اور بچھائی جاتی تھی۔ موٹی ہڈیوں سے شکار کے اوزار مثلاً نیزے کی انیاں اور تیروں کے پھل بنتے تھے اور پتلی ہڈیوں سے سینے کی سوئیاں، انتڑیوں اور نسو سے تاگے اور رسّی کا کام لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ آگ کے استعمال سے واقف ہوچکے تھے اور شکار کو بھون کر کھاتے تھے۔
برفانی دور کے ان شکار پیشہ قبیلوں کے آلات اور اوزار لکڑی، پتھر یا ہڈی کے ہوتے تھے۔ ہتھوڑے، کلہاڑیاں، نیزے، چاقو، سوئیاں وغیرہ سب انھیں چیزوں سے بنائی جاتی تھیں۔ شکار کے لیے بڑے بڑے بلم یا لاٹھیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ ان کے سرے پر پتھر یا ہڈی کی تیز اور نکیلی انی لگی ہوتی تھی۔ ان ہتھیاروں کی مار زیادہ دور تک نہیں تھی لہٰذا شکار یوں کو چھپ چھپا کر جانوروں کے بہت قریب تک جانا پڑتا تھا۔ مگر میمتھ، ہاتھی اور بیسن جیسے دیو پیکر جانوروں کو بھالوں یا لاٹھیوں سے مارنا ممکن نہ تھا۔ ان کے قریب جانے میں جان کا خطرہ بھی تھا اس لیے ان بڑے جانوروں کو ہانکا کر کے کسی گڑھے یا کھڈ کی سمت لے جاتے تھے جب شکار گڑھے میں گر پڑتا تھا تو اسے پتھر مار مار کر ہلاک کردیتے تھے۔ فرانس میں ایسے کئی کھڈ ملے ہیں جن میں ہزاروں بیسنوں کی ہڈیاں ایک ہی جگہ پر موجود ہیں۔ لیسکا کے غار میں ایک مقام پر اس طرزِ شکار کی باقاعدہ منظر نگاری بھی کی گئی ہے۔ اس منظر میں چند جنگلی گھوڑے ایک گڑھے میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ گھوڑوں کے درمیان چٹان میں جو قدرتی نشیب موجود ہے اس کو گڑھے کی علامت کے طورپر استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ تصویر کو دیکھنے سے یہی تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ عاجز اور پریشان گھوڑے واقعی گڑھے میں چھلانگ لگارہے ہیں۔ بعض خطوں کے لوگ بھالے کو دور دور تک پھینکنے کے لیے نیزہ انداز آلے بھی بنانے لگے تھے۔ جنوبی اسپین اور افریقہ کے قدیم حجری انسان نے تیر کمان بھی بنا لی تھی۔
برفانی دور کا انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ ہر قبیلہ دراصل ایک گھرانا ہوتا تھا جو اجتماعی زندگی گزارتا تھا۔ آلات و اوزار مشترکہ ہوتے تھے اور شکار میں جو کچھ ملتا تھا اسے بھی آپس میں بانٹ کر کھالیتے تھے۔ قبیلے کے ہر فرد کا تحفظ پورے قبیلے کا فرض ہوتا تھا۔ قبیلے کے اندر تقسیم کار کا طریقہ رائج تھا۔ مرد شکار کرتے تھے، عورتیں ساگ پات جنگلی پھل اور جڑیں وغیرہ اکٹھا کرتی تھیں۔ یہ چیزیں خوراک کے کام آتی تھیں۔ شکار میں بھی عورتیں ہانکے می شریک ہوتی تھیں۔ حصول غذا کے علاوہ عورتوں کا کام بچوں کی دیکھ بھال کرنا، کپڑے سینا اور غار کو صاف ستھرا رکھنا ہوتا تھا۔ مردوں کا بنیادی پیشہ یوں تو فقط ایک ہی تھا یعنی شکار مگر ان میں بھی تقسیم کارپائی جاتی تھی۔ قبیلے کے ہر فرد کو پتھر کاٹنے، آلات و اوزار بنانے، نشانہ لگانے اور شکار کرنے کا فن سیکھنا پڑتا تھا لیکن بعضوں کا نشانہ قدرتی طورپر اچھا ہوتا تھا۔ بعضوں میں صناع بننے کی صلا حیت دوسروں سے زیادہ ہوتی تھی۔ بعضوں کو مصوری یا کندہ کاری کا شوق ہوتا تھا چنانچہ اسی ہنر مندی، صلاحیت اور شوق کے مطابق ان کے کاموں کی تقسیم بھی ہوتی تھی اور وہ آہستہ آہستہ اپنے فن کے ماہر بن جاتے تھے۔ مصوری سے ملا ہوا سحر کا فن تھا۔ یہ فن ان کی شکار پیشہ زندگی کا لازمی جز تھا اوراس کی اہمیت شکار سے کم نہ تھی۔ ساحر قبیلے کا روحانی پیشوا ہوتا تھا۔ وہ شکار کی تصویریں بناتا اور سحر کی رسمیں ادا کرتا تھا۔ اس کے عوض قبیلہ اس کی ضروریاتِ زندگی کی کفالت کرتا تھا۔ خود شکاریوں کے بھی درجے ہوتے تھے۔ ان میں بعض ماہر شکاری ہوتے اور بعض بالکل مبتدی جن کو ہانککا کرنے کا کام سپرد کیا جاتا تھا۔ شکار کے بعد شکار کی تقسیم ہوتی تھی۔ گوشت عورتوں کو دیا جاتا تھا اور انتڑیاں، کھال، نسیں اور ہڈیاں الگ کر کے ان لوگوں میں تقسیم کردی جاتی تھیں، جو ان چیزوں سے سامان بناتے تھے۔
غاروں کے اندر جو مدفون ڈھانچے ملے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے برفانی دور کا انسان اپنے مردوں کو باقاعدہ قبر میں دفن کرتا تھا۔ زمین سے پودوں اور بوٹوں کو اگتا دیکھ کر شاید اسے یہ خیال گزرا ہو کہ اگر مردے کو زمین میں دفن کردیا جائے وہ بھی اوپر آجائے گا۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ قبر کی شکل عورت کے اسی عضو بدن سے بہت مشابہ ہوتی ہے جہاں سے بچہ نکلتا ہے۔ چنانچہ برفانی دور کا انسان اپنے مردے کے گھٹنوں کو پیٹ سے ملا دیتا تھا اور اس طرح اس کی پوزیشن قریب قریب وہی ہو جاتی تھی جو بچے کی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ لاش کے سرکے نیچے پتھر کا تکیہ رکھ دیا دیا جاتا تھا اور قریب ہی گوشت کے ٹکڑے، ہڈیاں اور شکاری آلات و اوزار قرینے سے سجا دیے جاتے تھے۔ تب قبر کا منھ بند کر کے اوپر پتھر کی سل رکھ دی جاتی تھی۔ یہ قبریں آباد غاروں میں بنائی جاتی تھیں۔ بعض قبریں تو چولھے کے بالکل پاس ہی ملی ہیں۔ شاید لوگوں کا عقیدہ ہو کہ آگ کی گرمی سے مردے کے ٹھنڈے جسم کو زندگی کی حرارت دوبارہ حاصل ہو جائے گی۔ حیات اور حرارت میں جو رشتہ ہے اس سے وہ لوگ پوری طرح آگاہ تو نہ تھے مگر اس رشتے کا ایک مبہم سا تصور ان میں ضرور موجود تھا ۔ البتہ وہ حرارت کو زندگی کی علامت نہیں بلکہ اس کی علت سمجھتے تھے۔ گوان کے مردے کبھی نیند سے نہ جاگے اور چولھے کی گرمی نے کبھی زندگی کی حرارت نہ بخشی مگر رسم و رواج کی آہنی زنجیریں بڑی مشکل سے ٹوٹتی ہیں۔
قدیم حجری انسان ہنوز مذہب کے تصور سے آشنا نہ ہوا تھا۔ وہ کسی مافوق القدرت طاقت یا طاقتوں کو نہیں مانتا تھا اور نہ کسی دیوی ، دیوتا کی پرستش کرتا تھا البتہ سحر پر اس کا عقیدہ بہت پختہ تھا۔ مذہب اور سحر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مذہب کا محرک قدرت کی اطاعت اور خوشنودی کا جذبہ ہے۔ اس کے برعکس سحر کا محرک تسخیر قدرت کا جذبہ ہے۔ سحر دراصل سائنس کی بالکل ابتدائی شکل تھی اسی لیے فریزر نے سحر کو ” ساقط سائنس اور ناقص آرٹ” سے تعبیر کیا ہے۔
علمائے آثا ر کا خیال ہے کہ برفانی دور کا انسان کوئی زبان ضرور بولتا تھا البتہ اب تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ زبان کیا تھی۔ آیا تمام قبیلے ایک ہی بولی بولتے تھے یا مختلف خطوں میں مختلف بولیاں بولی جاتی تھیں۔ غاروں میں جو آثار ملے ہیں ان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ قدیم انسان نقش گری، مصوری، مجسمہ سازی، موسیقی اور رقص کے فن سے آگاہ تھا لیکن ایسی کوئی شہادت اب تک نہیں ملی ہے جس سے اس کی زبان کے بارے میں کوئی بات یقین سے کہی جا سکتی ہو۔
برفانی دور میں شرح اموات بہت زیادہ تھی ، خصوصاً شیر خوار بچے بڑی تعداد میں فوت ہو جاتے تھے۔۔۔۔ بیماریوں میں سب سے عام بیماری گٹھیا کی تھی۔ لوگ طب اور جراحی کے فن سے واقف نہ تھے لیکن آدمیوں کے بعض ڈھانچھے ایسے ملے ہیں جن کے پاؤں کی ہڈیوں پر عمل جراحی کے آثار نظر آتے ہیں۔ شاید ان شکاریوں کے پاؤں شکار میں ٹوٹے ہوں اورپھر ان کو کسی طرح جوڑ گیا ہو۔
یہ ہے ایک دُھندلا سا خاکہ قدیم حجری دور کے انسان اور اس کے ماحول اور معاشرے کا مگر جب ہم اس عہد کے غاروں کے رنگین نقش و نگار اور حسین مجسموں کو دیکھتے ہیں تو اس شکاری انسان کی صناعی ، ہنر مندی، فن کاری اور ذہانت پر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ قدیم حجری دور کے بعد آج تک دنیا کی کسی قوم نے کسی ملک اور کسی عہد میں بھی جنگلی جانوروں کی حسی کیفیات سے لبریز اتنی جان دار اور متحرک، اتنی خوش رنگ اور خوش آہنگ، اتنی موزوں اور متناسب تصویریں نہیں بنائیں۔ قدیم حجری دور کا انسان اپنے فن میں یکتا و بے مثال ہے کیوں کہ کسی دوسرے دور میں انسان کو جانوروں سے اتنا گہرا لگاؤ نہیں رہا اور نہ جانوروں کے کردار، مزاج، عادات و اطوار اور جسم کے مطالعے پر ا س کی زندگی کا دارو مدار ہوا۔
قدیم حجری دور کے فن کار کی عظمت کا ا س سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ دورِ جدید کے کتنے ہی عظیم فن کار اس کی نقالی پر ہی اپنی شہرت کے پرچم اڑاتے ہیں۔
آئیے اب قدیم حجری دور کے گمنام فن کاروں کے ایک زمین دوز نگارخانے کی سیر کریں۔ یہ نگار خانہ لاسکا کے غار میں ہے۔ اب تک جنتے غار دریافت ہوئے ہیں لاسکا کا غار ان سب میں ممتاز ہے۔ اس کی رنگین تصویروں پر موسمی تغیرات کا بہت کم اثر پڑا ہے۔ یہ تصویریں ابھی تک اپنی اصلی حالت پر ہیں اوران کے رنگ کی آب و تاب میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لاسکا کا غار دریائے وزیر کے شمالی ساحل پر ایک گھنے جنگل کے اندر واقع ہے۔ وہاں کوئی آبادی نہیں ہے البتہ ندی کے دوسرے کنارے پر ایک چھوٹا سا فرانسیسی گاؤں ہے۔ التمیرا کی مانند یہ غار بھی اتفاقیہ طورپر دریافت ہوا اور وہ بھی 1940ء میں ۔ ہوا یوں کہ نواحی مدرسے کے چار پانچ لڑکے جنگل میں کھیل رہے تھے۔ ان کا کتا ایک گڑھے میں جو کافی گہرا تھا گر پڑا۔ لڑکے کتے کو نکالنے گئے تو انھیں غار کا دہانہ نظر آیا۔ تلاش و جستجو کی یہ عمر انھیں غار میں لے گئی مگر دہانہ اتنا تنگ تھا کہ لڑکوں کو پیٹ کے بل رینگنا پڑا۔ ملبے کے ڈھیر سے رینگتے ہوئے وہ داخل ہوئے داہنی جانب بیس فٹ کی گہرائی پر انھیں ایک بڑا سا ہال ملا جو بیضاوی شکل کا تھا۔ سو فٹ لمبا، 33 فٹ چوڑا اور 20 فٹ اونچا۔ اس ہال کی چھت اور دیواریں بیلوں، گھوڑوں اور ہرنوں کی بڑی بڑی رنگین تصویروں سے آراستہ تھیں۔ لڑکوں نے یہ ماجرا اپنے استاد موسیو لاوالؔ سےس بیان کیا انھوں نے ایبے بروئیل کو خبردی۔ ایبے بروئیل نے غار کا معائنہ کیا۔ اسے آری ناسی دور کا شاہ کار قرار دیا اور اس طرح مہذب دنیا کو چالیس ہزار برس پرانا ایک نایاب وفینہ ہاتھ آیا۔
لاسکا کے ہال میں داخل ہوتے ہی پہلی تصویر ایک سیاہ گھوڑے کی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد ایک عجیب و غریب جانور بنا ہے جس کے دو متوازی سینگ آگے کو نکلے ہوئے ہیں۔ پیٹ پھولا ہوا ہے اورجسم پر گول گول نشان ہیں۔ پھر چند بہت بڑے بڑے بیل ہیں جن میں سے چار اب تک محفوظ ہیں۔ ان کی لمبائی چار تا چھ گز ہے۔ دو بیل جن کے خاکے سیاہ لکیروں سے بنے ہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اوران کے درمیانی خالی جگہ میں پانچ سرخ، سیاہ اور زرد رنگ کے ہرن بنے ہیں۔ پہلے بیل کے اوپر لال رنگ کا ایک بڑا سا گھوڑا دوڑ رہا ہے۔ اس کے کھر اور ایال کالے ہیں دوسرے بیل کے عقبی حصے میں لال رنگ کی ایک گائے بھی ہے جو چر رہی ہے۔ بیلوں کے درمیان بالائی حصے میں ایک اور لال گھوڑا ہے جس کی تھوتھنی دوسرے بیل کے سینگوں کے اندر ہے البتہ اس کے پاؤں غائب ہیں۔ بظاہر یہ چند جانوروں کی تصویریں ہیں مگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی ایمائیت واضح ہو جاتی ہے اوران میں ترتیب و آہنگ بھی نظر آنے لگتا ہے۔ بیل یوں تو بڑے مہیب اور قوی ہیکل ہیں لیکن مصور نے انھیں ساکت اور جامد بنا دیا ہے۔ وہ نہ حملہ کرسکتے ہیں اورنہ حرکت۔۔۔۔ وہ بالکل بے بس گم سم کھڑے ہیں، کیوں کہ وہ سحر زدہ ہیں۔ ان کے جسم پر بھالے کے چھوٹے چھوٹے نشان ہیں۔ اس کے برعکس گھوڑے بہت مگن دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سرپٹ دوڑ رہے ہیں، اور بارہ سنگھوں کا نڈرپن دیکھو کہ وہ ان خون خوار بیلوں کے درمیان بڑے بے فکری سے کھڑے چہلیں کررہے ہیں۔ رنگ زندگی کی علامت ہے اسی لیے گھوڑے اور بارہ سنگھے رنگین ہیں اور بیلوں کو اس سے محروم کردیا گیا ہے۔ داہنی جانب والے بیل کی ناک سے تو خون بھی نکل رہا ہے۔
ہال کے عقبی حصے میں چھت بہت نیچی ہو جاتی ہے اور زمین کی ڈھلوان بڑھ جاتی ہے۔ وہاں سے ہم ایک تنگ راستے میں داخل ہوتے ہیں تو عین دہانے کی چھت پر ایک ہرن اور اس کے ہم جنس دوسرے جانوروں کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ آگے بڑھیے تو چھت پر لال رنگ کی نہایت حسین گائیں اور مختلف نسلوں کے چھوٹے بڑے بہ کثرت گھوڑے بنے ہیں، گایوں کی نازک اور حساس تھوتھنیاں اور پتلی پتلی سڈول سینگیں اپنی ساخت میں بڑے ہال کے بیلوں سے مختلف ہیں، یہاں پہنچ کر راستہ اور تنگ ہو جاتا ہے مگر اس تنگی سے بھی فن کار نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک دوڑتی ہوئی گائے کی تصویر اس انداز سے بنائی ہے کہ اس کے اگلے پاؤں دہانے کے ایک سرے پر ہیں اور پچھلے پاؤں دوسرے سرے پر۔ درمیان میں چھت کے نصف دائرے پر گائے کا پورا جسم پھیلا ہوا ہے اور یوں محسوس ہورہا ہے کہ گویا یہ گائے خلا میں چھلانگ لگا رہی ہے۔ اورآگے بڑھو تو ایک بے حد لمبی چوڑی گائے ایک جالی نما نشان کی جانب جست لگا رہی ہے ۔ یہ نشان مستطیل ہے اور اس میں تین متوازی لکیریں بھی ہیں۔
یہ نشان یا تو ہم رنگ زمین جال کی علامت ہے جس میں گائے کو پھنسا یا جارہا ہے یا سحر کی ۔ اور آگے بڑھو تو دو جنگلی گدھے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک حاملہ ہے آخرمیں چھت نیچی ہونے لگتی ہے اور موڑ آجاتا ہے۔ وہاں بھورے رنگ کا ایک گھوڑا ایک گڑھے میں گرتا نظر آتا ہے۔ اس کے چاروں پاؤں ہوا میں ہیں۔ یہاں چٹانوں میں جو قدرتی نشیب ہے فن کارنے اس سے گڑھے کا کام لیا ہے۔
غار کے دوسرے گوشے میں پتھر پر کندہ کاری کے بہ کثرت نشان ملیں گے۔ یہ تصویریں ایک کے اوپر ایک کھدی ہیں شاید یہ جگہ نو آموز فن کاروں کی مشق کے لیے تھی۔ یہاں کسی جگہ فقط کھربنے ہیں، کہیں دم، کہیں سر، کہیں کوہان مگران میں بڑی صفائی اور روانی پائی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ خاکے ہاتھ کی ایک ہی جنبش سے بنے ہیں۔ ایک اورگوشے میں پتوں والی ایک بیل کندہ ہے۔ یہ واحد شجری نمونہ ہے جو حجری دورکے کسی غار میں ملا ہے۔ ایک اور گوشے میں کئی گھوڑے اور گھوڑیاں ہیں۔ گھوڑیاں حاملہ ہیں اوران کے جسم میں بھالے پیوست ہیں۔ ایک گھوڑے ساتھ بھالے چبھے ہوئے ہیں۔ ایک بہت بڑی سیاہ گائے بنی ہے جو حاملہ ہے۔ اس کے پاؤں کے پاس کئی مستطیل نشان ہیں۔ ایک جگہ دو بھورے رنگ کے بیسن پیٹھ جوڑے کھڑے ہیں۔ ایک چھت پر پانچ نہایت خوبصورت ہرن ندی میں تیرتے دکھائی دیتے ہیں، اس منظر کی لمبائی 16فٹ ہے۔
مگر لاسکا کا سب سے حیرت خیز منظر وہ ہے جو غار کے سب سے پوشیدہ ، تاریک اور مشکل مقام پر بنایا گیا ہے۔ دراصل یہ بیس فٹ گہرا ایک کنواں ہے۔ کنوئیں کے ایک طرف کی دیوار کو کاٹ کر اس میں سیڑھیاں نکالی گئی ہیں۔ کنوئیں میں اُترنے کا راستہ شاید یہی تھا۔ اس کنوئیں کی دیوار پر ایک آدمی کی اقلید سی شکل سہلہوٹ میں بنی ہے۔ اس کا سر اور چونچ پرندے کا ہے البتہ نچلا دھڑ آدمی کا ہے۔ اس کے دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں لیکن ہاتھوں میں انگلیاں فقط چار ہی ہیں۔ اس کا عضو تناسل اِستادہ ہے اور وہ زمین پر گرتا نظرآتا ہے یا مردہ پڑا ہے۔ اس کی پشت کی جانب ذرا ہٹ کر ایک چھڑی زمین پر گڑی ہے۔ اس چھڑی پر ایک چڑیا بیٹھی ہے۔ اس چڑیا کا سرآدمی کے سر سے بہت مشابہ ہے۔ پاس ہی بھالا پھینکنے والا ایک اوزار پڑا ہے۔ اس اوزار سے زاویہ قائمہ بناتا ہوا ایک بھالا ہے جو ایک سیاہ رنگ کے بیسن کے پیٹ اورپیٹھ کے آرپار ہوگیا ہے۔ بیسن کی انتڑیاں باہر نکل آئی ہیں۔ اس کی دُم اُٹھی ہوئی ہے اور اس کی پیٹھ اور گردن کے بال کھڑے ہیں۔ اس کا سر حملے کے انداز میں جھکا ہوا ہے اور اس کی سینگوں کا رُخ آدمی کی طرف ہے۔ اس کے پاؤں کی سختی اور اس کے جسم کا داخلی تناؤ بتا رہا ہے کہ وہ حملہ کرنے کے لیے بے چین ہے مگر حرکت سے معذور ہے۔ حملہ آور کے اندرونی تناؤ اور خارجی بے بسی کے درمیان جو تضاد ہے وہ اس تصویر سے نمایاں ہے۔ آدمی سے تھوڑے فاصلے پر ایک گینڈا بنا ہے جس کی پیٹھ آدمی کی طرف ہے اور وہ دور ہٹ رہا ہے۔ اس کے دو سینگ ہیں۔ یہ غار کا واحد گینڈا ہے۔ گینڈے اور آدمی کے درمیان چھ بڑے بڑے سیاہ دھبے بنے ہیں، دو دو کی قطار ہیں۔
اس غیر معمولی منظر کی اب تک کوئی معقول تشریح نہیں ہوسکی۔ بعض عالموں کا خیال ہے کہ یہ تصویر یادگاری ہے۔ اس کا تعلق کسی قبیلے کی زندگی کے کسی اہم واقعے سے ہے۔ شاید قبیلے کا سردار گینڈے یا بیسن کے شکار میں مارا گیا تھا۔ اس وقت اس نے چڑیے کا سوا نگ بھر رکھا تھا کہ یہ طریقہ بہت عام تھا ۔ (چنانچہ بِہلیے اور چڑی مار اب تک یہی کرتے ہیں)۔ مصور نے اس حادثے کی منظر کشی کرکے مورخ کے فرائض انجام دیے ہیں لیکن اس تشریح سے ان چھ نقطوں کی توجیہہ نہیں ہوتی جو آدمی اور گینڈے کے درمیان بڑے قاعدے سے لگائے گئے ہیں۔ نہ بیسن کی بے بسی کا سبب واضح ہوتا ہے اور نہ گینڈے کے فرار کی تشریح ہوتی ہے۔ یہ راز بھی نہیں کھلتا کہ اگر اس تصویر کا تعلق سحر کی کسی نہایت خفیہ رسم سے نہیں ہے تو پھر اس کو انتہائی پوشیدہ اور تاریک کنوئیں میں کیوں بنایا گیا تھا۔
لاسکا کے غار میں مختلف نسل کے گھوڑوں کی 58 تصویریں ہیں۔ دو جنگلی گدھے ہیں، بیس بیل اور گائیں ہیں، ہرنوں کی تعداد بیلوں سے کم ہے، سات بیسن ہیں، چھ بلی کی نسل کے جانور ہیں، ایک گینڈا ہے، ایک بھیڑیا ہے، ایک ریچھ ہے، ایک یونی کارن ہے اور ایک چڑیا۔
یوں تو قدیمی حجری دورکا ہر مصور غاردیدنی ہے لیکن فنی اعتبار سے چھ غار خاص طورپر ذکر کے قابل ہیں۔ اول التمیرا کا غار، جو سب سے پہلے دریافت ہوا اور سب سے مشہور ہے ۔ دوئم فونت واگام، سوئم تین بھائیوں کا غار، چہارم لاسیل، پنجم لے کومبریل اور ششم لاسکا۔
التمیرا کے غار میں جانوروں کی تقریباً170 تصویریں اب تک صحیح و سالم موجود ہیں۔ اس کے بڑے کمرے میں جو چار پانچ فٹ اونچا ہے چھت پر جو رنگین تصویریں بنی ہوئی ہیں وہ دیواری فن مصوری کے قیمتی نوادر میں شمار ہوتی ہیں یہ دراصل پندرہ گز لمبا ایک منظر ہے جس میں ایک ہرن اور بیس بیسنوں کی خاموش جنگ کا مرقع پیش کیا گیا ہے۔ فقط دو گھوڑے اور دو سُور، ہرن کے حمایتی ہیں۔ مگر ہرن فتح یاب ہے۔ یہ تصویریں کندہ ہیں اور رنگ آمیز بھی۔ ان تصویروں میں حسنِِ ترتیب کے علاوہ بڑا تنوع ہے۔ دراصل اس مرقعے میں ہر جانور کی انفرادی کیفیت کا اظہار کیا گیا ہے مگر مجموعی تاثر کا خون نہیں ہوتا بلکہ اس میں اور شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ میکس رفیل نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ ہرن دراصل ایک قبیلے کی نمائندگی کرتا ہے جس نے اپنے سحر کے زور سے دوسرے حریف جانوروں کو جو دشمن قبیلوں کی علامت ہیں ہلاک کیا ہے۔ یہ منظر مُثلث یا عمودی اصولِ تو ضیح پر نہیں بنا ہے بلکہ انسان کے کھلے ہوئے ہاتھ سے مشابہ ہے۔
لے کو مبریل کا غار نو سو فٹ لمبا اور تین یا چھ فٹ چوڑا ہے۔ اس غار میں تقریباً تین سو تصویریں بنی ہیں جو مختلف جانوروں کی ہیں البتہ سوانگ بھرے ہوئے حیوان نما انسان کی تعداد یہاں سب سے زیادہ ہے۔ ایک آدمی کا سر تو ممیتھ کا ہے۔ ان کے علاوہ ایک موٹا آدمی ہے جو ایک عورت کا تعاقب کررہا ہے۔ دیواروں پر جا بجا انسانی شکلیں کھدی ہیں مگر ان کے سر جانوروں کے ہیں۔
تین بھائیوں کا غار فرانس کےایک پرانے نواب کی زمین پرہے۔ 1912ء میں نواب کےتین لڑکے تعطیل میں گھر آئے ہوئے تھے۔ قریب ہی دریائے دولپ بہتا ہے۔ یہ دریا قصبے سے تھوڑے فاصلے پر ایک غار میں غائب ہوجاتا ہے اورپھر ایک دوسرے مقام پر پہاڑ سے نمودار ہوتا ہے۔ تینوں بھائیوں نے ایک چھوٹی سی کشتی بنائی اور اس زمین دوز دریا کا سراغ لگانے نکلے۔ کشتی غار میں چلتی رہی اورایک ایسے مقام پر پہنچی جو دراصل ایک جھیل تھی۔ وہاں چٹان پر انھیں سترھویں صدی کے چند آثار ملے جس سے اندازہ ہوا کہ کچھ لوگ ان سے پیش تر بھی وہاں تک پہنچے تھے۔ وہ اور آگے بڑھے تو ایک سمت ایک سرنگ ملی جس کا دہانہ پتھر کی ایک باریک سی چادر سے ڈھک گیا تھا مگر اس پار کی روشنی چھن کر آرہی تھی۔ لڑکوں نے یہ چادر توڑ دی اوراب وہ ایک نگار خانے میں تھے۔ اس غار میں یوں تو دوسرے غاروں کی مانند کندہ کاری اور مصوری کے بہ کثرت نمونے موجود ہیں مگروہاں کی چند اپنی خصوصیتیں بھی ہیں۔ مثلاً مٹی کے دو بیسن ایک چٹان سے لگے کھڑے ہیں۔برفانی اُلو کا ایک جوڑا چٹان پر کھدا ہوا ہے۔ قریب ہی ان کے بچے کی شکل بھی بنی ہے لیکن سب سے اہم دریافت وہ جادوگر ہے جس کے گرد لاتعداد جانوروں کا ہجوم نقش کیا گیا ہے۔ اس جادوگر کے کان بارہ سنگھے کے کانوں سے مشابہ ہیں اور کھڑے ہیں۔ اس کی داڑھی بہت لمبی ہے البتہ دہانہ ندارد ہے۔ اس کی کہنیاں اُٹھی اور آپس میں ملی ہوئی ہیں اور دونوں ہاتھ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ انگلیاں ننھی ننھی اورپھیلی ہوئی ہیں۔ عضو تناسل بہت نمایاں ہے مگر استادہ نہیں ہے بلکہ بال دار دُم کے اندر پیوست ہے۔ ایبے بروئیل کی رائے میں اس کے سحر کا تعلق جانوروں کی افزائشِ نسل سے ہے۔
لاسیل (وادیِ دوردون) کے غار نمایاں خصوصیات عورتوں کے فرازی مجسمے ہیں جو چٹانوں پر اُبھرے ہوئے ہیں۔
لاسیل کے غار میں عورتوں کے جو پانچ فرازی مجسمے ملے ہیں وہ اس فن کی سب سے پرانی یادگار ہیں۔ ان مجسموں میں نسوانی اندام بہت نمایاں ہیں۔ انھیں میں ڈیڑھ فٹ کا وہ مشہور فرازی مجسمہ بھی ہے جو اب عجائب گھر کی زینت ہے۔ عورت کے اس مجسمے کے چاروں طرف پتھر کو کھود کر بہت گہرا کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے مجسمے کا اُبھار اور واضح ہو گیا ہے۔ یہ عورت سرسے پاؤں تک برہنہ ہے۔ اس کے کولھے بہت بھاری اور چوڑے ہیں۔ چھاتیاں بھی بہت بڑی ہیں اور لوکی کی مانند لٹکی ہوئی ہیں۔ رانوں کے درمیان اُبھار بھی بہت واضح ہے۔ وہ بیسن کی ایک سینگ لیے ہوئے ہے جو ہلالی ہے۔ سینگ پر چند متوازی عمودی نشان کندہ ہیں۔ اس کا بایاں ہاتھ پیڑو پھر دھرا ہے۔ پیڑو پھولا ہوا ہے جس سے حمل کا گمان ہوتا ہے۔ چہرے کی تفصیلات جان بوجھ کر نہیں بنائی گئی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ صرف انھیں اعضا کی نمائش مقصود تھی جن کا تعلق افزائشِ نسل سے ہے۔ عورتوں کے چار مجسمے بھی ہیں جو اسی انداز کے ہیں۔ ان مجسموں پر جگہ جگہ سرخ رنگ بھی پایا گیا ہے۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ شاید یہ سرخ رنگے ہوئے تھے۔ سرخ رنگ حجری دورمیں زندگی کی علامت تھا۔
گارگاس کا غار اس لحاظ سے اہم ہے کہ وہاں ہاتھ کے چھاپے بہ کثرت ملے ہیں۔ یہ چھاپے الگ الگ بھی ہیں اور اکٹھا بھی۔ ایک چٹان پر تو ایک ہی جگہ ڈیڑھ سو چھاپے لگے ہیں۔ ان میں ایک کمسن بچے کا چھوٹا سا ہاتھ بھی ہے۔ یہ چھاپے سرخ بھی ہیں اور سیاہ بھی۔ بعض جگہوں پر ہاتھ کو رنگ میں ڈبو کر دیوار پر چھاپہ لگادیا گیا ہے اور بعض جگہوں پرہاتھ کے سلہوٹ بنے ہیں یعنی انگلیوں کو دیوار پر پھیلا دیا گیا ہے اورپھران کے گرد رنگ پھیر دیا گیا ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اکثر چھاپوں میں چار انگلیاں نظر آتی ہیں مگر انگوٹھا غائب ہے اور انگلیوں کے سرے کے پور کٹے ہوئے مگر بعض پنجے پورے بھی ہیں۔ ان چھاپوں میں بائیں ہاتھ کی کثرت ہے اور یہ قدرتی بات ہے کہ کیوں کہ دائیں ہاتھ سے رنگ آمیزی کی جاتی تھی۔ قدیم حجری فن میں ہاتھ کے نشان کی جو اہمیت اور خصوصیت ہے اس پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے۔یہاں فقط اتنا بتا دینا کافی ہے کہ حجری فن کے ہنئیتی ارتقا کی سب سے ابتدائی شکل ہاتھ کے یہی چھاپے ہیں۔ اسی غار میں عورت کے جنسی عضو کی شکل بھی الگ کندہ ہے اورایک مرغابی کوپانی میں تیرتا دکھایا گیا ہے۔
ابتدا میں عام خیال یہی تھا کہ حجری دورمیں فن کار اپنی تصویریں اور مجسمے فقط غار کے عمیق ترین گوشوں میں بناتے تھے یا نہایت دُشوار گزار مقامات پر جو تنگ و تاریک ہوتے تھے۔ التمیرا اور اس قبیل کے غاروں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے مگر جنوبی اور مشرقی اسپین میں جو دریافتیں ہوئیں ان سے خیال کو تردید ہو گئی کیوں کہ ان خطوں میں بکثرت رنگین تصویریں زمین کےاوپر چٹانوں پر منقوش یا کندہ ملی ہیں۔ شاید اس عہد کے فن کاروں نے تصویریں غاروں کے اندر بھی بنائیں اور کھلی ہوئی چٹانوں پر بھی۔ جو تصویریں کھلی جگہوں پر تھیں وہ دھوپ ، ہوا اور بارش کے سبب ضائع ہوگئیں اور جو غاروں میں تھیں وہ موسمی اثرات سے محفوظ رہیں۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ جو قبیلے غاروں کے اندر رہتے تھے اورجن کی بودوباش نسبتاً سخت ماحول میں تھی انھوں نے غاروں میں تصویریں بنائیں اور جنوبی اسپین اور افریقہ کے لوگوں نے جو دوسری نسل سے تعلق رکھتے تھے اور نسبتاً گرم ماحول میں رہتے تھے کھلی ہوئی چٹانوں کو ترجیح دی۔
سطح زمین سے اوپر کی حجری تصویروں کو بناتے وقت شاید مصنوعی روشنی روشنی کی ضرورت نہ پڑی ہو لیکن گہرے غاروں اور تاریک سرنگوں میں تو دن کے وقت بھی ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا چہ جائیکہ تصویر کشی اور کندہ کاری کرنا اس لیے روشنی کا انتظام ضروری تھا۔ قدیم حجری دور میں روشنی کےلیے چراغ اور مشعل استعمال ہوتے تھے۔ ان میں چربی جلائی جاتی تھی۔ غاروں میں بہ کثرت ایسی چیزیں ملی ہیں جن سے چراغ یا مشعل کا کام لیا جاتا تھا۔ کئی مقامات پر پتھر کے ایسے دیئے بھی دستیاب ہوئے ہیں جن میں چربی کے ٹکڑے اور جلی ہوئی بتیوں کے گل موجود تھے۔ اسی طرح جلی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے بھی افراط سے ملے ہیں۔
قدیم حجری دور کےفن کار تین بنیادی رنگ استعمال کرتے تھے۔ سرخ۔ زرد اور سیاہ۔ نیلے اور سبز رنگ کے آثار کہیں نہیں ملتے۔ شاید یہ لوگ نیلا اور سبز رنگ نہیں بنا سکتے تھے۔ یہ رنگ چوں کہ جلد خراب ہو جاتے ہیں اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ ہزاروں سال بعد اب یہ اُڑ چکے ہوں۔ یہ رنگ معدنی اشیا سے بنائے جاتے تھے نہ کہ بناتات سے۔ کالے رنگ کے لیے تو لکڑی کا کوئلہ یا چراغ کا دھواں موجود ہی تھا البتہ سرخ اور زرد رنگ مینگینز، سیندور اور لوہے کے آکسائڈ سے بنائے جاتے تھے۔ یہ معدنی اشیا خود غاروں میں یا نواح میں افراط سے پائی جاتی تھیں۔ ان معدنی رنگوں کے باریک سفوف کو جانور کے خون، چربی اور انڈے کی سفیدی میں گوندھ لیا جاتا تھا۔ مو قلم کی جگہ ابتدا میں انگلیوں سے کام لیا گیا، پھر درخت کی پتلی پتلی شاخوں یا پرندوں کے پر کو کچل کر ان سے قاز بنائے گئے۔ زیادہ باریک کام کے لیے ہڈی کی پتلی پتلی تیلیوں کو پتھر پر رگڑ کر نوک نکال لیتے تھے۔ ان رنگوں کو پتھر کی تھالیوں میں رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ غاروں میں رنگوں کی تھالیاں اور برش کثرت سے ملے ہیں۔ کندہ کاری پتھر کے نکیلے ٹکڑوں سے کی جاتی تھی۔
یہ فن پارے ایک سال یا ایک صدی کے اندر نہیں بنائے گئے بلکہ و ہ انسان کی ہزاروں سال کی محنت کا ثمر ہیں، شکاریوں کے قافلے آتے، چند مہینے یا چند سال ایک مقام پر رہتے۔ اپنی ضرورت، ذوق اور صلاحیت کے مطابق غاروں میں نقش و نگار بناتے اورپھر شکار کے تعاقب میں کسی اور سمت کی راہ لیتے۔ برسوں بعد وہاں کسی دوسرے قبیلے کا گزر ہوتا تو وہ ان غاروں کو دوبارہ روشن کرتا اور اپنی ضرورت اور صلاحیت کے مطابق تصویریں بناتا۔ کبھی پرانی تصویروں سے ہٹ کر کبھی ان کے پہلو میں، اور کبھی انہیں کے اوپر۔ چنانچہ بعض غاروں میں تصوریروں کے خط اور رنگ آپس میں اس طرح گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ ان کو الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ اس گڈ مڈ کی وجہ سے تصویروں کو فنی نقصان ضرور پہنچا ہے لیکن ماہرین آثار کے لیے اب تصویروں کے مختلف عہد اور ادوار متعین کرنا آسان ہوگیا ہے۔ مثلاً ایبے بروئیل اور اوپر میئر نے فقط فونت دے گام کے غار میں سات مختلف ادوار کا سراغ لگایا ہے۔ بعض غاروں میں تو تیرہ چودہ اَدوار کے آثار موجود ہیں لیکن ہنوز یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ ان ادوار میں ایک سو سال کا فرق ہے یا ایک ہزار سال کا۔
بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ ایک قبیلے نے چند تصویریں بنائیں اور رخصت ہوگیا اور جب دوسرا قبیلہ آیا تو اس نے ان تصویروں کو جوں کا توں رہنے دیا البتہ چند تصویروں کا اضافہ کرکے ایک نیا منظر ترتیب دے دیا۔
بہرحال قدیم حجری دور کے اس فن نے ارتقا کی خواہ کتنی منزلیں کیوں نہ طے کی ہوں اور وقت اورقبیلوں کے فرق کے سبب سے خواہ اس فن میں کتنی تبدیلیاں کیوں نہ آئی ہوں مگر ان کے فن کی غرض و غایت اور نوعیت اور خصوصیت میں کبھی فرق نہیں آیا اور نہ اس کی بنیادی ہیئت بدلی۔ ہردور میں ا س آرٹ کا محور، مرکز اور محرک شکاری جانور ہی رہا وہ جانور جس کی افزائشِ نسل پر اور جس کے شکار پر خود انسان کی پوری زندگی کا دارو مدار تھا۔ اس پور ے عہد میں جانوروں کی جو شکلیں بنائی گئیں وہ اصل کے عین مطابق ہیں۔ بالکل سچی اور نمائندہ تصویریں نسبتاً بھونڈی اور ناقص تھیں۔
ان تصویروں کی عمر کی بابت اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان میں سب سے قدیم وہ ہیں جو کم سے کم چالیس ہزار سال پرانی ہیں اور جدید نقش و نگار بھی دس ہزار برس پرانے ضرور ہیں۔
قدیم حجری دور میں مصوری، کندہ کاری اور مجمسہ سازی کے فن کی ابتدا کیسے ہوئی۔ انسان نے سب سے پہلا نقش کیوں اور کیوں کر بنایا۔ وہ کون سےمحرکات تھے جنھوں نے اسے اس ایجاد پر آمادہ کیا۔ کیا وہ پیدائشی فن کار تھا، اور نقش گری ا س کی فطرت اور جبلت میں داخل تھی یا خارجی حالات و اثرات نے اس میں یہ شعور پیدا کیا۔ کیا کسی وجدانی اور غیر شعوری جذبے نے اس میں تصویر کشی کی امنگ پیدا کی اوراس نے دیواروں پر خط اور رنگ کے حسین مرقعے بنانے شروع کردیے یا اس تخلیقِ فن کے اسباب مادی اور تاریخی ہیں؟ مگر ان سوالوں کے جواب کیوں نہ خود فن کاروں سے پوچھیں۔ گو ان کی زبانیں مدت گزری بند ہو چکی ہیں اوران کے مو قلم ہزاروں برس سے سوکھے پڑے ہیں لیکن شاید ان کی تصویریں اور ان کے نقوش ہماری کچھ مدد کرسکیں۔
غاروں نقش و نگار کا بغور مطالعہ کرنے سے پیش ترہمیں ایک نہایت اہم نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ مصوری کے فن کو ایجاد کرتے وقت انسا ن کو قطعاً یہ احساس نہ تھا کہ وہ کسی فن کی داغ بیل ڈال رہا ہے۔ ٹی ۔ایس۔ ایلیٹ نے کلچر کی بحث میں ایک جگہ لکھا ہے کہ کلچر بسا اوقات وہ لوگ تخلیق کرتے ہیں جن کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ کلچر تخلیق کررہے ہیں۔ یہی حال قدیم حجری دورکے انسان کا تھا۔ وہ نہ تو فن کی اصطلاح سے واقف تھا اور نہ فن کی خاطر فن پیدا کررہا تھا۔
آئیے ، اب ایک غار میں چلیں۔ اس غار میں آپ کو چٹانوں پر چند نشان کھدے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ نشان آدمیوں نے نہیں بنائے بلکہ برفانی عہد کے بڑے بڑے ریچھوں نے اپنے ناخنوں سے کھودے تھے۔ ریچھ قدیم حجری دور کے انسانوں کا ہم عصر تھا اور آدمیوں کی مانند غاروں میں رہتا تھا۔ وہ اپنے سامنے پنجوں کو تیز یا صاف کرنے کی خاطر چٹان پر رگڑتا تھا۔ اس کے پنجے اتنے مضبوط اوراس کے دانت اتنے تیز تھے کہ ان کو رگڑنے سے پتھر پر نشان پڑجاتے تھے۔ اب ذرا اِن نشانوں کا مقابلہ اُن نشانوں سے کیجئے جو التمیرا کے غار میں انسان نے اپنی انگلیوں سے دیوار کی مٹی پر کھینچے ہیں۔ ریچھ نے ناخنوں سے جو کیاریاں بنائی ہیں اور انسان نے جو جلیبیاں اور سویاّں بنائی ہیں ان میں بڑی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی بنا پر علما ئے آثارِ قدیمہ کا خیا ل ہے کہ قدیم انسان نے ریچھ کی دیکھا دیکھی یہ نشان بنائے تھے۔
مگرانسان نے ریچھ کی نقل کیوں کی!
اس لیے کہ اس نے ریچھ میں اوراپنے آپ میں بہت سی باتیں مشترک پائیں۔ ریچھ انسان کی مانند غار میں رہتا تھا۔ اس کےجسم پر بھی بڑے بڑے بال تھے۔ وہ اپنے سامنے کے پاؤں سے قریب قریب وہی کام لیتا تھا جو انسان اپنے ہاتھوں سے لیتا تھا۔ شاید اس کے بڑے بڑے ناخنوں والے بال دار ہاتھ ریچھ کے ناخن اور پنجوں سے ملتے جلتے ہوں۔ ریچھ انسان کی مانند پاؤں پر کھڑا ہوجاتا تھا۔ انسان ہی کی طرح درختوں پر چڑھ کر پھل توڑتا تھا اور جانوروں کا شکار کرتا تھا مگر بہت سی باتوں میں وہ انسان سے افضل تھا۔ مثلاً وہ انسان سے کہیں زیادہ طاقت ورتھا۔ ریچھ کی جنسی قوت کی جو حکاتیں سنی جاتی ہیں ممکن ہے قدیم انسان نے اس قوت کا مشاہدہ بھی کیا ہو، شاید قدیم انسان نے ریچھ کی جسمانی طاقت کا مرکز اس کے ہاتھوں اور ناخنوں کو سمجھا ہو اور یہ سوچا ہو کہ اگر میں بھی پتھر پر انگلیوں سے نشان بناؤں تو میرے ہاتھوں میں بھی وہی طاقت آجائے گی جو ریچھ میں ہے چنانچہ اوبر میئر اوبر میسر کہتا ہے۔
“ان جھجکے جھجکے سے ناقص نشانوں کی ابتدا بلا شبہ خارجی اثرات سے ہوئی۔ اس کے لیے ہمیں کم سے کم مغربی یورپ میں غار میں رہنے والے ریچھ کا ممنون ہونا چاہیے، مگر اس سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ انسان تحت الشعور میں فنی رحجان پہلے سے موجود تھا۔ ریچھ کے کھرچے ہوئے نشانوں کی بدولت انسان نے جو ابتدائی کوششیں کیں انھیں ہم آرٹ کا نام دیں یا نہ دیں لیکن یہ طے شدہ امر ہے کہ قدیم انسان میں اگر ایسی صلاحیت ابتدا ہی سے ودیعت نہ کی گئی ہوتی جو فنی اثر قبول کرکے اورپھر خود فن کی تخلیق کرسکے تو وہ کبھی فن کار نہیں بن سکتا تھا۔”
غرض کہ کندہ کاری کی سب سے پہلی جلیبیوں اور سویوں کے سے وہ لہراتے اور بل کھاتے نشان تھے جو انسان نے ریچھ کی دیکھا دیکھی غار کی دیواروں پر جمی ہوئی گیلی مٹی پر اپنی انگلیوں سے کھینچے۔ ان نشانوں میں بڑی حرکت اور روانی ہے۔ مگر انسان ریچھھ کی اس نقالی سے بہت جلد آزاد ہوگیا۔اس کا تشکیلی اور تصویری شعور ابھر آیا اوروہ ان سوچوں جیسی لکیروں ہی سے جانوروں اور عورتوں کے خاکے بنانے لگا۔ اس نے انگلیوں کا استعمال ترک کردیا اور ان خاکوں کے لیے دو شاخی، سہ شاخی سینگ یا لکڑی کے ٹکڑوں سے کام لینے لگا۔ گیلی مٹی میں کھدے ہوئے یہ خاکے چوں کہ بہت جلد خراب ہو جاتے تھے اس لیے اس نے پتھر کے نکیلے اورتیز ٹکڑوں کی مدد سے یہ خاکے چٹانوں میں کھودنے شروع کردیے۔
پروفیسر جو ہانزمارنگز کا خیال ہے کہ رنگین تصویروں کی ابتدا کا زمانہ بھی وہی ہے جو کندہ کاری کا ہے اور فنِ مصوری کے عہدِ ترقی کی تاریخ بھی غاروں کے بغور مطالعے سے باآسانی مرتب ہو سکتی ہے۔ پروفیسر کی رائے میں سب سے پرانی تصویریں وہ ہاتھ ہیں جو برفانی انسان نے دیواروں پر بنائے۔ ہاتھوں کے یہ چھاپے ابتدائی عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ چھاپے سل ہوٹ ہوتے تھے۔ انسان اپنا ہاتھ گیلی چٹان پر رکھ دیتا تھا۔ انگلیوں کو پھیلا دیتا تھا اور پھرایک نالی کے ذریعے رنگین سفوف کو انگلیوں کے گرد پھونکتا تھا یا رنگ کو پانی میں گھول کر ہاتھ اس میں ڈبو دیا جاتا تھا۔ پھر اس کی چھاپ دیورا پر لگای دی جاتی تھی۔ ایسے سرخ، بادامی، اودے، زرد، سیاہ اور سفید چھاپے متعدد غاروں میں ملے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ ہاتھ غائب ہوجاتے ہیں اوران کی جگہ رنگین لہریے لے لیتے ہیں۔ یہ لہریے انگلیوں کور نگ میں ڈبو کر بنائے جاتے تھے۔ ابتدا میں بھری مٹی پر انگلیوں سے جو بے رنگ نشان کھینچے جاتے تھے، ان کے مقابلے میں یہ رنگین نشان زیادہ جاذبِ نظر ہوتے ہوں گے اور غار کے اندھیرے میں سرخ اور زرد رنگوں کی چمک کا اثر ابتدائی انسان کے جذبات اور احساسات پر بہت شدید ہوتا ہوگا۔ ان لہریوں کے درمیان جانوروں کی ابتدائی شکلیں بھی ملنے لگتی ہیں۔ شروع میں جانوروں کی یہ شکلیں دراصل خاکے ہیں جن کے لیے دو یا تین متوازی لکیروں سےکام لیا گیا ہے۔ تب کہیں واحد لکیروں کی باری آئی ہے۔ یہ واحد لکیریں بھی پہلے موٹی ہیں، پھر پھیکی پھیکی سی جیسےکسی نے انھیں سوختے سےخشک کیا ہو او رتب وہ باریک ہوتی گئی ہیں۔ خاکوں میں رنگ بھرنے کا دور بہت بعد میں آیا۔ ابتدا میں جانوروں کے خاکے بھونڈے ہوتے تھے۔ ان کے اعضا اکڑے اکڑے سے اور سخت ہوتے تھے اور جسم کے وہی حصے بنائے جاتے تھے جو قریب اورسامنے سے نظر آتے ہیں مگر کچھ عرصے کے بعد خاکوں میں روانی آجاتی ہے اوروہ متحرک نظر آنے لگتے ہیں۔
قدیم حجری دورمیں فنِ مصوری کا آغاز ہاتھ کے چھاپوں سے کیوں ہوا۔ جانوروں کی تصویروں سے کیوں نہیں ہوا؟ اس کی سب سے معقول توجیہہ میکس رفیل نے کی ہے۔
” دراصل جو چیز انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے ہاتھ ہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کی بقا اور ترقی میں دماغ اورزبان کی اہمیت کم ہے۔ مگر جس عضو بدن کی بدولت وہ د وسرے جانوروں سے الگ ہوا ، جو اس کا سب سے کارآمد اورموثر حربہ اور اَوزار ثابت ہوا اورجس کی مددسے اس نے تسخیرِ قدرت کی ابتدا کی وہ اس کے ہاتھ ہی تھے۔”
دانش وروں میں ا تک اس بات پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ فکر اورگویائی کی طاقت فقط انسان کا خاصہ ہے یا دوسرے جانور بھی اپنے اپنے انداز میں سوچتے اور بولتے ہیں۔ بعض دانش ور کہتے ہیں کہ دماغ اورزبان انسان کا اجارہ ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نہیں، دوسرے جانورو ں کے پاس بھی دماغ اورزبان موجود ہے اور ثبوت میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جس چیز کو سریا بھیجا کہتے ہیں تمام جانوروں کے پاس ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان کو قوتِ فکر سے محروم قراردیں۔ اسی طرح وہ اعضا بھی جو کلام کے لیے ضروری ہیں یعنی زبان، دانت، حلق، منھ اور سر، اکثر جانوروں میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اکثر جانور منھ سے طرح طرح کی آوازیں بھی نکالتے ہیں۔ لہٰذا فقط اس بنا پر کہ ہم ان آوازوں کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے ہم ان کو بے زبان کہنے کا حق نہیں رکھتے۔ مگراس بات پر تمام دانش وروں کا اتفاق ہے کہ جس عضو بدن کو ہم ہاتھ کہتے ہیں وہ فقط انسان کو نصیب ہے اور اِس عضو سے جو کام انسان لیتا ہے دوسرا کوئی جانور اپنے کسی عضو سے نہیں لے سکتا۔
دراصل انھیں ہاتھوں نے انسان کو صحیح معنی میں انسان بنایا۔ ان ہاتھوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ذریعے انسان نے تخلیق کا عمل شروع کیا۔ اس نے ان کی مدد سے نئی چیزیں پیدا کیں۔ دنیا کا کوئی دوسرا جانور مظاہرِ قدرت میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا بلکہ اس کی اطاعت پر مجبور ہے کیوں کہ وہ خود کوئی چیز پیدا کرنے اور بنانے پر قادر نہیں ہے۔ اس کے برعکس انسان پیدا آور جانور ہے۔ اس نے پتھر کے ٹکڑوں کو رگڑ کر آگ پیدا کی ہے، آلات و اَوزار بنائے ہیں پوشاک تیا ر کی ہے مٹی کے برتن گڑھے ہیں، زمین کھودکر نئی فصلیں اُگائی ہیں ، اونچی اونچی عمارتیں کھڑی کی ہیں، تحریر کا فن ایجاد کیا ہے، کارخانی اور فیکٹریاں تعمیر کی ہیں اور برقی اورایٹمی طاقت پیدا کی ہے اور یہ ساری تخلیقیں اور ایجادیں براہِ راست ہاتھوں سے ہوئی ہیں۔ ہزاروں سال پیش تر کا ابتدائی انسان دماغ کے پراسرار اور پوشیدہ عمل سے واقف نہیں ہو سکتا تھا اور وہ ذہن اور ہاتھوں کے تخلیقی عمل میں جو رشتہ ہے اس کا ادراک کرسکتا تھا البتہ وہ ہاتھوں کی معجز نمائیوں کو دیکھ سکتا تھا، محسوس کرسکتا تھا، اس کا سارا سرمایہ حیات واقعی یہی ہاتھ تھے۔ پھر وہ اس دولت آفریں عضو بدن کو سحر سے معمور کیوں نہ خیال کرتا۔
ہاتھ اس کے نزدیک جسمانی طاقت کی علامت تھے اس لیے بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہاتھوں ہی سے شکار کرتا تھا۔ چنانچہ اس کی منطق یہ تھی کہ اگرکسی ترکیب سے ہاتھوں کی تعداد بڑھائی جا سکے تو شکار کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔ چھاپے چوں کہ ہاتھ کا ہو بہو عکس ہوتے تھے اس لیے قدیم انسان کے نزدیک ان میں ہاتھوں کی تاثیر کا ہونا لازمی تھی۔ وہ چھاپوں کو بے جان تصویریں نہیں سمجھتا تھا ، کیوں کہ جان دار اوربے جان کے فرق سے ہنوز اس کا ذہن نا آشنا تھا۔
کوئی فن ایک دن میں نہیں آتا بلکہ اس کو سیکھنے کے لیے پہیم مشق کرنی پڑتی ہے۔ آج کل تو خیر حصولِ فن کے لیے درس گاہیں موجود ہیں جہاں کہنہ مشق استاد اپنے نو آموز شاگردوں کو فن کی تعلیم دیتے ہیں۔ مگرکیا اب سے چالیس ہزار سال پیش تر بھی استاد اور مدرسے ہوتے تھے؟ شواہد کہتے ہیں کہ استادو شاگرد کا رشتہ اس وقت بھی موجود تھا اور قبیلے کے نوجوانوں کو مصوری اور کندہ کاری کا فن باقاعدہ سکھایا جاتا تھا۔ مثلاً لیموئیل کے غار میں ایک ہی مقام پر پتھر کی 137 چھوٹی چھوٹی تختیاں ملی ہیں جن پر نقاشی کی مشق کی گئی ہے۔ ان میں بعض خاکے بہت اچھے ہیں اور بعض بے حد ناقص۔ ان پر جا بجا کسی استاد کی اصلاح بھی نظرآتی ہے۔ اسی طرح پاریا لو (اسپین) کے غار میں پتھر کی 1430 تختیاں ملی ہیں جن پر تصوریریں کھدی یا بنی ہیں۔ پتھر کا ایک ایسا ٹکڑا بھی ملا ہے جو تصویروں سے لپا ہوا ہے۔ اُلٹی سیدھی، آڑی ترچھی، اوپر تلے، پشت پر غرض کہ سیکھنے والے نے اس ایک ٹکڑے پر لا تعداد شکلوں کی مشق کی ہے۔ ہونہار شاگرد تعلیم سے فارغ ہو کر خود استاد بن جاتے تھے۔ سحرکی رسوم بھی یہی فن کار ادا کرتے تھے، ابتدا میں ان ساحروں اور فن کاروں کی حیثیت قبیلے کے دوسرے افراد سے مختلف نہ تھی اور نہ انھیں خاص رعایتیں حاصل تھیں مگرفن کے تقاٖضے اور ادائیگی رسوم کی ضرورتیں بڑھیں تو ساحروں کو شکار یعنی حصولِ غذا کے فرائض سے مستثنٰی کردیا گیا۔ وہ اپنے سحر اورفن کے ذریعے قبیلے کو شکار حاصل کرنے میں مدد دیتے تھے اور قبیلہ اس کے عوض ان کو غذا فراہم کرتا تھا۔
غاروں کے نقش و نگار خود پکا ر پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہم اناڑی ہاتھوں کی تخلیق نہیں ہیں بلکہ ہمیں بڑے کہنہ مشق استادوں نے بنایا ہے۔ ایسے صاحبِ فن استاد جن کی آنکھوں نے اپنے گردو پیش کے جانوروں کا ان کے عادات و خصائل کا، کردار، مزاج اور حرکات کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا۔ یہ فن کار جانتے تھے کہ حملہ کرتے وقت یا دوڑتے وقت جانور کے جسم کی داخلی اور خارجی کیفیت کیا ہوتی ہے اور جانور زمین پر بیٹھا یا آرام کرتا ہو تو اس کی دھج کیا ہوتی ہے۔ تجربے اور مشاہے سے اس نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ جسم کے کسی حصے پر بھالے کی ضرب سے جانور کو گرایا جا سکتا ہے۔
غار کی تصویروں پر نیزوں اور بھالوں کی مشق کے جو نشان بنے ہیں ممکن ہے کہ ان کا مقصد نو آموز شکاریوں کی تعلیم ہو۔ ابتدائی حجری دور کا انسان کفایت شعاری کرنے پر مجبور تھا۔ اس کے پاس نہ تو آلات و اَوزار کی فراوانی تھی اورنہ جانوروں کی۔ وہ نہ تو آلاتِ شکار ضائع کرسکتا تھا اور نہ شکار۔ یوں بھی بعض جنگلی جانور بڑے خطرناک ہوتے تھے اور چوں کہ وار بہت قریب سے کیا جاتا تھا اس لیے اندیشہ رہتا تھا کہ وار خالی ہونے کی صورت میں شکار کہیں پلٹ کر حملہ نہ کردے لہٰذا دُور اندیشی کا تقاضہ تھا کہ جانوروں کے ہو بہو مجسمے اور تصویریں بنائی جائیں اور نئے شکاریوں سے ان پر نیزہ اندازی کی مشق کرائی جائے تاکہ نشانہ پختہ ہو جائے۔ تب انھیں شکار کی مہم میں شریک ہونے کی اجازت دی جاتی تھی۔ آج کل جو چاند ماریاں یا فوجی مشقیں ہوتی ہیں ان کا بھی یہی مقصد ہے۔ پرانے زمانے میں دیو پیکر جانوروں کا شکار جنگی مہم سے کم خطرناک نہ ہوتا تھا۔
ہر عہد کا فن روحِ عصر کا ترجمان یا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس میں معاشرے کی اجتماعی اور انفرادی ہیجانات و اضطراب کی جھلک پائی جاتی ہے۔ وہ معاشرے کی کلفتوں اور اذیتوں، آرزؤوں اور امنگوں کا اظہار کرتا ہے، اس کی خوشیوں اور کامرانیوں کے گیت گاتا ہے اس کی قدروں کی پاس داری کرتا ہے اوراس کے مروجہ عقائد و تصورات کی خدمت کرتا ہے۔ چنانچہ قدیم مصری آرٹ کا محور اور محرک پرستی ہے کیوں کہ مصر کے فرعونوں اور پروہتوں نے بڑی چالاکی سے پوری قوم کو حیات بعد الموت کے جال میں پھنسا رکھا تھا۔ خود نہایت عیش و آرام کی زندگی گزارتے تھے اور عام رعایا کو دوسری دنیا کا سبز باغ دکھاتے تھے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ رعایا فرعون اور دوسرے بر گزیدہ بندوں کی بے چوں و چراں خدمت کرتی رہے۔ اسی طرح یونان اور ہندوستان کے فنون کی بنیاد صنم پرستی پر ہے اور قرونِ وسطیٰ کے مغربی فن کی مسیحی عقائد کی ترویج و اشاعت پر۔
فن اور معاشرے کا یہ تعلق فقط مقصد اور ماہیت تک محدود نہیں ہے بلکہ فن کی ہیئت اور طرزِ اد ا میں بھی روحِ عصر کا پر تو صاف نظر آتا ہے۔ مثلاً زراعت کی ایجاد کے بعد ہر ملک کا فن اقلید سی اصول کا پابند ہوگیا۔ چنانچہ مصر اور بابل کے تمام مجسمے، تصویریں اور عمارتیں دراصل ایک مَثلت ہیں۔ اس کے برعکس جسمِ انسانی سے لذت لینے والے یونانیوں اور ہندوستانیوں کا تمام آرٹ جسمِ انسانی کی بنیادی ساخت کے تابع ہے۔ ایک خطِ مستقیم ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی مانند پوری تصویر کا بوجھ برداشت کرتا ہے اور جس طرح جسمِ انسانی میں تناسب موجود ہے یعنی ریڑھ کی ہڈی کے ایک سمت ایک ہاتھ ہوتا ہے اور دوسری سمت دوسرا ہاتھ یا دو آنکھیں اور دو پاؤں ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان ملکوں کی تصویروں میں بھی تناسب پایا جاتاہے۔
مگر قدیم حجری دور کے انسانی معاشرے کے بارے میں ہماری معلومات اتنی مختصر اور ناکافی ہیں کہ اس عہد کے فن کے مقاصد و محرکات کی تہہ تک پہنچنا آسان نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آثارِ قدیمہ کے عالموں میں غاروں کی تصویروں، کندہ کارویوں اور مجسموں کی غرض و غایت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
بعض دانش وروں کا خیال ہے کہ یہ فن پارے دراصل وقت کاٹنے کے مشغلے تھے۔ بارش، برف باری یا شدید سردی میں لوگ جب غاروں میں بے کار بیٹھتے تھے تو دل بہلانے کی خاطر تصویریں بنایا کرتے تھے۔
اسی سے ملتا جلتا وہ دبستانِ فکر ہے جس کا خیال ہے کہ یہ تصویریں فقط ذوق جمال کی تسکین اور اظہارِ حسن کے جذبے کے تحت بنائی گئیں۔ ان تصویروں کا مقصد فقط غاروں کی آرائش و زیبائش تھی۔
مگران جمالیاتی اور تفریحی نظریوں کے خلاف بکثرت داخلی اور خارجی شہادتیں موجود ہیں۔
اوّل یہ کہ قدیم انسان نے یہ تصویریں ان غاروں میں نہیں بنائیں جن میں وہ رہتا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مصور غاروں میں بودو ماند کے کوئی آثار نہیں ملتے۔ وہاں نہ جانوروں کی ہڈیاں پائی گئی ہیں اور نہ کوئلے اور راکھ کے ڈھیر۔ اس کے برعکس فن کاروں نے بسا اوقات غیر آباد غاروں کے کسی نہایت تاریک اور تنگ گوشے کو چنا ہے۔ ان غاروں میں روشنی کا گزر نہ تھا۔ وہاں پہنچنے کے لیے انھیں رینگ کر جانا ہوتا تھا اور تصویر بنانے کے لیے زمین پر لیٹ کر کام کرنا ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ تفریح کے لیے با ذوقِ جمال کی تسکین کے لیے کوئی اتنے پاپڑ نہیں بیلتا۔
دوسرے یہ کہ بکثرت تصویریں غاروں کے ایک مخصوص حصے میں ایک دوسرے کے اوپر بنائی گئی ہیں۔ حالاں کہ باکل قریب کی چٹانیں بالکل خالی پڑی ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہےکہ سحر پر اعتقاد رکھنے والے قدیم انسانوں کی نظر میں ان مخصوص جگہوں کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ جگہیں بڑی سبھاگی تھیں۔ بڑی بخت آور تھیں۔ ایک کے اوپر دوسری تصویر بنانے کی روایت غالباً اس طرح پڑی ہوگی کہ پہلے کسی قبیلے نے اپنے سحر کے لیے غار کا ایک حصہ چنا ہوگا اور وہاں شکاری جانوروں کی تصویریں بنائی ہوں گی اور افزائشِ نسل اور ہلاکت نسل کے سحر میں کامیاب ہوئے ہوں گے یعنی جانوروں کی نسلیں بڑھیں ہوں گی اور شکار بھی افراط سے ہاتھ آیا ہوگا۔ اس قبیلے کے چلے جانے کے بعد دوسرا قبیلہ آیا ہوگا۔ اس متبرک مقام کا علم ممکن ہے اسے پہلے سے ہو یا وہ وہاں پہنچ کر اس راز سے آگاہ ہوا ہو۔ زیبائش و آرائش سے نہ تو اس کے پیش رؤوں کو کوئی دل چسپی تھی نہ نو واردوں کا مقصد زیبائش و آرائش تھا ورنہ وہ اپنے پش رؤوں کے شاہکار کو خراب نہ کرتے اور نہ پرانی تصویروں کے اورپر دوسری تصویریں بناتے۔ اس عمل کا مقصد یہ تھا کہ ان کا افزائش نسل اور ہلاکت نسل کا سحر بھی اسی طرح کامیاب ہو جس طرح ان کے پیش رؤوں کا ہوا تھا۔
تیسرے یہ کہ اکثر دیواری تصویروں کے اردگرد عجیب و غریب اقلید سی علامتیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ علامتیں جمالیاتی اورفنی نقطہ نظر سے بہت بھونڈی اور بے جوڑ ہیں اور تصویروں کے حسن ترتیب و آہنگ سے میل نہیں کھاتیں اور نہ اصل تصویر کا جز معلوم ہوتی ہیں۔ دراصل سحر کے علاوہ ان علامتوں کی اور کوئی توجیہہ ہوہی نہیں سکتی۔ اسی طرح بہ کثرت تصویریں ایسی ہیں جن میں بھالے، نیزے، تیروغیرہ کے نشان بنے ہیں جو صاف بتاتے ہیں کہ فن کار نے شکار کے مناظر کی نقشہ کشی کی ہے۔ بہت سی مصور چٹانوں پر تو بھالے، نیزے اورتیراندازی کے نشان تک موجود ہیں، ان سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تصویروں کی تکمیل کے بعد کسی خاص رسمِ سحر کے تحت ان پر ہتھیار پھینکے گئے تھے یا نشانے کی مشق کی گئی تھی۔
آلاتِ شکار پر بھی جانوروں کی تصویریں اسی سحر کے ماتحت بنائی گئی ہیں کیوں کہ برفانی دور کے انسان کا عقیدہ تھا کہ ہڈی، ہاتھی دانت اورپتھر کے آلاتِ شکار پر جانوروں کے نقش کھودنے سے اصل جانور آلات کے قابو میں آجاتے ہیں۔ہڑپا، موہن جودڑو، مصر، عراق اور ایران وغیرہ میں قدیم زمانے کے جو نقشی ظروف ملے ہیں ان کے نقوش کا تعلق بھی عمل سحر سے ہے۔ یہ ظروف سجاوٹ کے لیے نہیں بنائے گئے تھے۔ اورنہ روز مرہ کے استعمال میں آتے تھے مگر اس بحث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برفانی دور کا انسان ذوقِ جمال یا جمالی ذوق سے خالی تھا۔اس کی فنی آگہی کا سب سے بڑا ثبوت اس کی تصویریں ہیں جن میں اس نے فن کے تمام تقاضے بڑی خوبصورتی سے پورے کیے ہیں۔ وہ ان تصویروں کو بڑی محنت اور محبت سے بناتا تھا۔ ان تصویروں میں خطوط کی روانی، اختصار اور سادگی ان کے لیے اثر انگیز اور معنی خیز رنگوں کا انتخاب، ان کی گہرائی ااور موزونیت غرض جس پہلو سے بھی دیکھئے ان قدی فن کاروں کے شعور کی داد دینی پڑے گی۔ ہونہار مصوروں کو باقاعدہ تصویر کشی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ وہ برسوں مشق کرتے تھے تب کہیں انھیں متبرک مقامات پر تصویر بنانے کی اجازت ملتی تھی۔ گھٹیا درجے کی تصویریں رد کر دی جاتی تھیں۔ عمدہ تصویروں کے نمونے اور چربے دُور دُور بھیجے جاتے تھے یا محفوظ رکھ لیے جاتے تھے۔ یہ ساری کاوش و مشق، یہ ردد قبول ہمیں بتاتی ہے کہ ان کا اپنا ایک معیارِ حسن اورمیزانِ فن ضرور تھا۔ البتہ وہ فقط زریعہ تھا اصل مقصد کی تسکین کا۔
بعض تصویریں ایسی ضرور ہیں جن کی حیثیت تاریخی یا یادگاری ہے۔ شاید ان کاتعلق قبیلے کی زندگی کے اہم حادثے سے ہو یا کوئی ایسا سانحہ پیش آیا ہو جس سے پورا قبیلہ متاثر ہوا ہو۔ مثلاً لیسکا کے غار میں موت کا منظر یا ریچھ اور آدمی کی لڑائی یا التمیرا کے سقف کی تصویریں۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ برفانی انسان نے نمائندہ تصویریں کیوں بنائیں۔ تجریدی تصویریں کیوں نہیں بنائیں۔ پروفیسر ہینز کون کا خیال ہے کہ برفانی انسان کا ذہن فقط ٹھوس حقیقتوں کا تصور کرسکتا تھا۔ وہ جو کچھ دیکھتا تھا اس کے ہو بہو نقل بنا سکتا تھا، مگرابھی اس کے ذہن نے اتنی ترقی نہ کی تھی کہ وہ ان ٹھوس حقیقتوں کی تجرید کرسکے۔ وہ درختوں کو دیکھ سکتا تھا، مگر جنگل کا تصور نہ کرسکتا تھا پروفیسر ہیو گو اوبرمیئرؔ اور ایبے بروئیلؔ اس نظریے کو نہیں مانتے۔ وہ اپنی تائید میں آدمیوں کی وہ مجرد تصویریں پیش کرتے ہیں جو جانوروں کی نمائندہ تصویروں کی ہم عصر بلکہ ان کا جز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برفانی انسان ہو بہواور نمائندہ تصویریں بھی بنا سکتا تھا اور تجریدی عمل سے بھی واقف تھا اور حسب ضرورت ان دونوں طریقوں سے کام لیتا تھا۔ اس نے جانوروں کی نمائندہ تصویریں اس لیے بنائیں کہ ان پر آلات شکار کی مشق کرنی ہوتی تھی یا اس لیے بنائیں کہ ایک نئے اور حقیقی جانور کو اپنے سحر کے زور سے عدم سے وجود میں لانا تھا یا اسے ہلاک کرنا تھا۔ برفانی انسان کی مثال اس ریڈ انڈین کی ہے جس نے ایک آرٹسٹ کو بیسن کی تصویریں بناتے دیکھ کر شکایت کی تھی کہ تم نے ہمارے کئی بیسن اپنی کتاب میں بند کرلیے ہیں۔
برفانی دور کا انسان تین قسم کے سحر پر اعتقاد رکھتا تھا:
1۔۔۔۔ سحرِ تخلیق
2۔۔۔۔ سحرِ تخریب
3۔۔۔۔سحرِ رضا جوئی سے
ان میں سب سے قدیم تخلیق کا سحر ہے۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ برفانی عہد کے سب سے پرانے فن پارے وہی ہیں جن کا تعلق تخلیق کے سحر سے ہے۔ یہ فن پارے عورتوں کے مجسمے ہیں۔ یہ مجسمے مشرق میں جھیل بیکال سے اسپین کی شمالی سرحد تک پائے گئے ہیں یعنی اس پورے خطے میں جو عہدِ قدیم میں برف سے ڈھکا ہوا نہیں تھا۔ یہ مجسمے جن کی تعداد 130 سے تجاوز کر گئی ہے اسپین، فرانس، جرمنی ، اٹلی، آسٹریا، روس چیکو سلو واکیہ کے غاروں میں ملے ہیں۔ ان کی ساخت میں قبیلوں کی فنی روایتوں اور جغرافیائی حالات کے اختلاف کے باعث تھوڑا بہت فرق ضرور پایا جاتا ہے م گر اپنی نوعیت اور ماہیت کے اعتبار سے سب مجسمے یکساں ہیں۔ مثلاً پتھر کے یہ مجسمے قریب قریب سب ہی عورتوں کے ہیں اوران میں فن کار کی توجہ کا مرکز عورتوں کے جنسی اعضا ہیں۔ ان اعضا کو برے مبالغے کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے البتہ دوسرے اعضا کو مثلاً آنکھ، ناک، منھ کو نظرا نداز کردیاگیا ہے۔ یہ مجسمے بالکل برہنہ ہیں مگربعض مجسموں میں عورتیں زیور پہنے ہوئے ہیں۔ یہ مجسمے ” ماں” کے ہیں جو تخلیق کا سر چشمہ ہے۔
ان میں سب سے مشہور مجسمہ وہ ہے جو 1908ء میں وِلن دراف (آسٹریا) کے مقام پر دریافت ہوا۔ عورت کا یہ بت ساڑھے چارانچ بڑا ہے۔ اس کے سر کے بال شہد کے چھتے کی طرح ہیں۔ ان کی چھاتیاں مشک کی مانند پھولی ہوئی اور لوکی کی مانند نیچے کو لٹکی ہوئی ہیں۔ اس کے کولھے بہت چوڑے ہیں اور پیٹ بہت بڑا ہے۔ اس کی بانھیں بہت پتلی ہیں اورپیڑو پر رکھی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی کنواری لڑکی یا بانجھ عورت کا مجسمہ نہیں ہے بلکہ ایسی عورت کا مجسمہ ہے جو ماں بن چکی ہے یا بننے والی ہے۔ فنی اعتبار سے پونے چھ انچ کا وہ مجسمہ بھی نہایت حسین اور مکمل ہے جو جنوبی فرانس میں ملا ہے۔ یہ مجسمہ بھی عورت کا ہے جس کے جنسی اعضا کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا ہے۔ قدیم انسان کے لیے جنسی اعضا کو بالخصوص عورت کے جنسی اعضا کو تخلیق کی علامت قرار دینا قدرتی بات تھی۔ اس تخلیقی عمل میں مرد کے کردار کا انسان کو شاید شعور نہ ہو لیکن عورت کے بارے میں تو کسی شک اور شبہے کی گنجائش نہ تھی کیوں کہ وضعِ حمل کے کچھ عرصے کے بعد عورت کے جسم میں تبدیلیاں ہونے لگتی تھیں اورایک دن جب مرد شکار سے واپس آتا تو غار میں اسے نومولود بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ تخلیق کے یہی مظاہر اس نے جانوروں میں بھی دیکھے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے عقیدے میں عورت کی اہمیت مرد سے زیادہ تھی۔ لہٰذا عورت کا جسم تخلیق کی علامت بن گیا۔ اس وقت کے انسان کو خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت نہ تھی بلکہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ افزائش نسل تھا کیوں کہ آبادی بہت کم تھی۔ موسم نہایت سخت تھا۔ برف کے طوفان آتے اور ٹھنڈی اور بھیگی ہواؤں کے تیر ہڈیوں میں پیوست ہو جاتے تھے۔ بچے موسم کی اس سخت گیری کی تاب نہ لا سکتے اور بیمار ہو کر مرجاتے۔ دوا علاج کا بھی کوئی انتظام نہ تھا نتیجہ یہ تھا کہ صغرسنی کی موت عام تھی۔ قبیلوں کے لیے اپنی زندگی کی بقا اوراپنی نسل کی افزائش اتنی ہی اہم تھی جتنی شکار کی تلاش۔ آبادی کی قلت کے باعث جنگلی جانوروں کے شکار میں بھی دشواری پیش آتی تھی۔ قبیلے کی آبادی زیادہ ہوتی تو شکار بھی زیادہ ہاتھ آتا تھا۔ آبادی کم ہوتی تو شکار بھی کم ملتا تھا اور جب شکار کم ملتا تو آبادی کی قوتِ مدافعت گھٹنے لگتی اور قبیلے کی تعداد اورکم ہو جاتی۔ غرض پورا معاشرہ بدی کے ایک چکر میں مبتلا تھا اوراس چکر سے نکلنے کی بس یہی صورت تھی کہ نسلِ انسانی میں جس طرح بھی ہو اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ افزائش نسل کے لیے مادرِ تخلیق کے مجسمے بنائے گئے تاکہ تخلیق کے سحر میں کام آسکیں۔ یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ سحر کیا تھا۔ شاید عورت اور مرد مباشرت سے پہلے اس مجسمے کو چھوتے ہوں یا اپنے بعض اعضا کو اس پر رگڑتے ہوں یا جب عورت یا مرد سنِ بلوغ کو پہنچتا تو جادوگر ان کو پاس بٹھا کر کوئی منتر پڑھتا یا کوئی خاص رسم ادا کرتا۔ بعض پرانی قوموں میں اب بھی یہ رواج ہے کہ لڑکی کو جب پہلی بارحیض آتا ہے تو پوری بستی میں بڑی خوشی منائی جاتی ہے۔ لڑکی کو سرخ رنگ کی پوشاک پہنائی جاتی ہے کہ سرخ رنگ قدیم سے زندگی کی علامت ہے اورپھر سب لوگ اسے مبارک باد دیتے ہیں۔ یہ رسمیں اسی زمانے کی یادگار ہیں جب افزائشِ نسل ایک اہم سماجی عمل تھا۔ بہرحال برفانی انسان کے لیے یہ مجسمے تخلیق کی علامت تھے۔ اس سے غرض نہیں کہ وہ ان کو چھوتا تھا یا ان پر منتر پڑھتا تھا البتہ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ وہ ان مجسموں کی پرستش نہیں کرتا تھا کیوں کہ ابھی تک اس میں اپنے سے افضل و اعلیٰ کسی خارجی طاقت کا شعور پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان غاروں میں جہاں یہ مجسمے تھے پرستش کے کوئی آثار بھی نہیں ملے ہیں نہ چڑھاوے کی چیزیں نکلی ہیں اورنہ قربانی کے نشان۔ البتہ کئی ہزار سال بعد جب آنے والی نسلوں نے دیوی دیوتا بنائے تو اس مادرِ تخلیق نے کہیں عشتار کا روپ دھارا اور کہیں وہ ناہید، اَشاء افرودیتی یا وینس کی شکل میں لوگوں کی عبادت کا مرکز بن گئی۔
مادرِ تخلیق کے یہ مجسمے تاریخی اعتبار سے سب سے قدیم ہیں اوران کا محرک نسلِ انسانی کی افزائش کا جذبہ ہے البتہ بعد میں جب آبادی بڑھ گئی اور نسلِ انسانی کی افزائش سے زیادہ جانوروں کی افزائش ضروری خیال کی جانے لگی تو عورتوں کے ان مجسموں کی جگہ حاملہ جانوروں کی تصویروں نے لےلی۔ چنانچہ اسپین اور فرانس کے غاروں میں حاملہ جانوروں کی کثرت ہے۔
نسل انسانی کی افزائش اور بقا کے علاوہ برفانی انسان کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اپنے قبیلے کے لیے غذا اور دوسری ضروریاتِ زندگی کیوں کر حاصل کی جائیں۔ یہ ضروریات زندگی فقط جانوروں کے شکار سے پوری ہوتیں تھیں شکار کی یہ مہمیں آج کل کے مرغابی یا ہرن کے شکار کی مانند نہ تھیں بلکہ ان میں جان جوکھم کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جنگل میں شیر، بھالو، گینڈا اور دوسرے درندے ہوتے تھے۔ ہڈی کے تیر اورپتھر کے نیزے ان پر اثر نہ کرتے تھے۔ دوسرے جانور بھی مشکل سے ہاتھ آتے تھے۔ اس لیے شکار کی مہم سے پیش تر ہلاکتی یا تخریبی سحر کی ضرورت پڑتی تھی۔ کبھی وہ ایک رسم کے تحت دیوار پر بنی ہوئی تصویروں پر تیر، نیزے اور بھالے مارتے تھے (اس نشان بازی کے نشان تصویروں پر اب تک موجود ہیں) اوران کو یقین ہو جاتا تھا کہ ان کا شکار ہلاک ہوگیا یا ہو جائے گا۔ کبھی ساحرا نہیں ان تصویروں کے رو برو لے جاتا تھا جن میں جانوروں کو جال میں پھنسا ہوا یا سحر کے اثر سے بے بس اور لاچار دکھایا گیا ہے یا جن کے جسم پر زخم کے نشان بنے ہیں اور وہ خون آلود ہیں یا جن کے جسم میں آلاتِ شکار پیوست ہیں۔ ان رسموں کے بعد شکاری بڑی خوداعتمادی اور یقین سے اپنی مہم پر روانہ ہو جاتے تھے۔ اگر کامیاب لوٹے تو سحر کی گرفت ان کے ذہنوں پر اور مضبوط ہو جاتی تھی۔ ناکام ہوئے تو اپنے آپ کو یہ کہہ تسلی دے لیتے تھے کہ ادائیگی رسم میں ہم سے کوئی بھول ہو گئی ہو گی۔
رضا جوئی کا سحر درندوں اور دوسرے خطرناک جانوروں کی خوشنودی کےلیے مخصوص تھا۔ برفانی انسان ان درندوں کو ہلاک کرتے ڈرتا تھا کہ مبادا وہ یا ان کی نسل خفاہوکر ہمیں کوئی گزند پہنچا دے چنانچہ یہ لوگ شکاری درندوں کو مارنے کے بعد ایک رسم کے تحت ان کی خوشامد کرتے تھے تاکہ ان کی خفگی دور ہوجائے۔ فرانس کے ایک غار میں مٹی کا بنا ہوا ریچھ کا ایک مجسمہ ملا ہے جس کا سر ندارد ہے البتہ اس کی گردن کے پاس خون کے نشان ہیں اور آس پاس کئی ریچھوں کی کھوپڑیاں پڑی ہیں۔ علمائے آثار نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ برفانی انسان ریچھ کا شکار کرنے بعد اس کا سر (جسے وہ جسم کا سب سے اہم حصہ سمجھتا تھا) مٹی کے دھڑ سے جوڑ دیتا تھا اور یہ سمجھ لیتا تھا کہ ریچھ کو اس کے ہاتھوں کوئی ضرر نہیں پہنچا ہے بلکہ وہ دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ تب وہ ریچھ کے جسم کو کھا لیتا تھا اور اس کی کھال سے اپنے لیے پوشاک تیار کرتا تھا۔ کتنا کارآمد تھا یہ سحر۔ التمیرا کے سقف میں اسی طرح بیسنوں کی رضا جوئی کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ چین اور جاپان کی پرانی رسم ہے کہ باورچی سبزیوں کو پکانے سے پہلے میز پر قرینے سے سجا دیتے ہیں اوران کے سامنے دوزانوں بیٹھ کر اورہاتھ جوڑ کر سبزیوں سے معافی کی دعا مانگتے ہیں۔
قدیم حجری دورکے ہم پر برے احسانات ہیں۔ اُس دَور میں انسان جانور سے آدمی بنا۔ تہذیب کی ابتدا ہوئی، آدمی نے آگ کا استعمال معلوم کیا، آلات اور اوزار بنائے، تسخیر قدرت کی کوششیں شروع کیں اور مادے کی ہیئت و ماہیت میں تبدیلیاں کرکے سائنس کی جانب پہلا قدم اٹھایا۔اس نے مصوری اورمجسمہ سازی جیسےدو نہایت دل کش فن ایجاد کیے۔ حجری انسان کی فنی تخلیقات کی دریافت سے ہمارے تہذیبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہی نہیں ہوا بلکہ جدید انسان کا نقطہ نظر بھی بدلا ہے۔ ان دریافتوں سے پیشتر دورِ حاضر کے لوگ حجری دَور کے انسانوں کو جنگلی اور وحشی خیال کرتے تھے اوران کو جمالیاتی ذوق اور لطیف احساسات سے قطعاً عاری سمجھتے تھے۔ غاروں کے حسین نقوش نے ثابت کردیا کہ حجری انسان کا تخلیقی شعور بیدار ہو چکا تھا۔ اس کا عزم جوان تھا اورہمت شکن حالات کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے وہ بڑی خود اعتمادی سے ان حالات کا مقابلہ کرتا تھا اوران کو بدلنے میں حتی المقدور کامیاب بھی ہوتا تھا۔
غلطی ہائے مضامین
مولانا کوثر نیازی کی ذاتِ گرامی سے میں 1953ء سے واقف ہوں۔ مولانا ممدوح تحریکِ ختمِ نبوت ؐ کے سلسلے میں گرفتار ہوکر لاہور سینٹرل جیل تشریف لائے تھے۔ اس وقت ان کا تعلق جماعتِ اسلامی سے تھا۔ سیاست میں ہر چند کہ ہماری راہیں جدا تھیں لیکن جیل سے نکلنے کے بعد بھی ہم ایک دوسرے سے ملتےرہے، کبھی لاہور میں اورکبھی کراچی میں۔ پھر یوں ہوا کہ مولانا مرکزی حکومت میں وزیر ہوگئے۔ اب کہاں ایک مقتدر وزیر کی بلند پروازیاں اورکہاں ایک پاشکستہ خاک نشین کی درماندگیاں، ملاقات کے تمام امکانات ختم ہوگئے۔ مولانا کی بے پناہ مصروفیتوں نے ان کو کبھی اتنی فراصت نہ دی کہ ایک پرانے رفیق ِ زندان کو یاد کریں اور یہاں یہ شرم دامن گیر کہ غرض مندروں کی طرح دربار میں جائیں تو درخواست میں لکھیں کیا۔ کاغذ کی فراوانی ضرور تھی لیکن کاغذی پیرہن پہننا ہم کو آتا نہیں لہٰذا ہم کبھی راہ میں ملے نہ مولانا نے ہم کو اپنی بزم میں بلایا۔
اب حسنِ اتفاق کہیے یا سوء اتفاق کہ جن دنوں میں نفسیاتی ڈاکٹروں کی کانفرنس کے لیے مقالہ لکھ رہا تھا (تہذیب کا اثر ہمارے خیالات پر) تو اخبار جنگ میں مولانا کوثر نیازی کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اس مضمون میں مولانا نے کہ شاعر شیریں سخن بھی ہیں مولانا مفتی محمد شیخ مرحوم سے عقیدت کے جوش میں ایک جن کا قصہ کیا لکھا کہ مجھ کو ” خوباں” سے چھیڑ کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ میں سمجھا تھا کہ جس طرح بچے جن پری کے قصوں کوفرضی حکایت جان کر پڑھتے ہیں مولانا نے بھی مفتی صاحب کی داستان جن کا قصہ سمجھا ہو گا مگر نہیں جناب، مولانا کوثر نیازی توقرآن، حدیث اور مشرق و مغرب کے علماء کے اقوال زریں سے جنوں کا وجود ثابت کرنے بیٹھ گئے۔ اِدھر ہم ہیں کہ اپنی حرکت پر نادم۔ عقیدت کے رنگین محل میں جس پر منقولات کا پورا لشکر پہرہ دے رہا ہو مجھ سے بد عقیدہ کا گزر کہاں ہو سکتا ہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ مولانا نے جنوں کی بحث اس لیے چھیڑی ہے کہ وہ اُن مسائلِ زندگی پر جن سے ہم دو چار ہیں کچھ لکھنا خلافِ مصلحت خیال کرتے ہیں۔
مولانا کوثرنیازی نے مفتی محمد شفیع مرحوم کے حوالے سے جن کا جو قصہ بیان کیا اس سے یہ تو پتہ چلا کہ یہ جن صاحب بڑی مافوق الفطرت صلاحیتوں کے مالک تھے اور بحمداللہ مسلمان بھی تھے لیکن یہ راز نہ کھلا کہ موصوف ایک بزرگ عالمِ دین کی زوجہ محترمہ کی طرف جو پردہ فرماتی تھیں کیوں متوجہ ہوئے اوران کی اس غیر شرحی حرکت کا جواز کیا تھا۔
میرا مقالہ چونکہ ذہنی امراض کے ڈاکٹرو ں کے لیے تھا لہٰذا میں نے مثالیں دے کر بتایا تھا کہ ہمارے معاشرے میں جو مختلف تو ہمات رائج ہیں ان سے سیدھے سادے عقیدت مندوں کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ مثلاً یہ واقعہ ہے کہ ایک صاحب نے خواب دیکھا جس میں ان کو حکم ہوا تھا کہ اپنے بیٹے کو قربان کردو چنانچہ انھوں نے سنتِ ابراہیمی کی تقلید میں بیٹے کو ذبح کردیا۔ اسی طرح ایک بانجھ عورت نے کسی کے کہے میں آکر اپنے پڑوسی کے بچے کو قتل کیا اوراس کے خون سے نہائی تاکہ صاحبہ اولاد ہوجائے۔ میں نے لکھا تھا کہ بہ ظاہر یہ دیوانوں کے افعال ہیں لیکن درحقیقت ایک بڑے سماجی مرض کی نشان دہی کرتے ہیں اور وہ مرض ہے توہم پرستی کا جور وز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ مولانا کوثر نیازی کو شاید علم نہ ہو کہ فقط شہر کرامی میں ذہنی مریضوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے۔ میں ان پیٹ بھروں کا ذکر نہیں کررہا ہوں جو اعصابی بیماریوں کا شکار ہیں بلکہ کم استطاعت لوگوں کا جو کسی شدید صدمے، حادثے یا گھریلو پریشانیوں کے سبب اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ میرے ایک دوست نے حال ہی میں ایک دستاویزی فلم ” آسیب زدوں” پر بنائی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا مریضوں کو ان کے خوش عقیدہ اعزاواقربا ایک درگاہ سے دوسری درگاہ اور آسیب اُتارنے والے ایک بزرگ کے آستانے سے دوسرے بزرگ کے آستانے پر لیے پھرتے ہیں اور ذہنی امراض کے اسپتال یا ڈاکٹر کے پاس آخر میں اس وقت پہنچتے ہیں جب مرض لا علاج ہو چکتا ہے۔ کیا کسی کو یقین آئے گا کہ اس “ترقی یافتہ” شہر میں آسیب اُتارنے والے اصحاب کے اپنے نجی “قید خانے” بھی ہیں جن میں ہمارے بد نصیب مجنوں زنجیروں بیڑیوں سے بندھے زمین پر بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں اور ہزاروں مکھیاں ان کے جسموں پر بھنبھناتی رہتی ہیں۔ اس دستاویزی فلم کی ہر تصویر سچی ہے اور مولانا اگریہ فلم دیکھ لیں تو شاید پھر کبھی جنوں کا ذکر نہ کریں ۔
نفسیات کے ڈاکٹروں سے گفتگو کیجئے تو وہ اپنے مریضوں کے بیان کردہ ایسے ایسے ” سچے” واقعات کا ذکر کریں گے کہ آپ سن کر حیران ہو جائیں گے۔ لطف یہ ہے کہ ہر مریض بڑے خلوص سے یہی کہے گا یہ واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا یہ سانحہ خود پر گزرا ہے۔ یہ تو خیر دیوانوں کی بڑ ہوئی۔ اگرآپ کسی بھلے چنگے شخص کو جس کو سراب کی اصل حقیقت نہ معلوم ہو ریگستان میں دوپہر کے وقت کھڑا کردیں تو اس کو ہر طرف پانی سے بھری جھیلیں نظر آئیں گی اوروہ قسم کھاکر کہے گاکہ میں نے فلاں ریگستان میں جھیلیں دیکھی ہیں۔
طب کی پرانی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی زمانے میں لوگوں کو بیماریوں کے اصل اسباب معلوم نہ تھے۔ ان کا راسخ عقیدہ تھا کہ انسان کے جسم میں جب کوئی عفریت یا بھوت داخل ہو جاتا ہے تو وہ بیمار پڑجاتا ہے لہٰذا ہر بیماری کا علاج خواہ و زکام اور بخار ہو یا یرقان اور مرگی جادو منتروں سے ہوتا تھا۔ علاج کرنے والے یہ جادوگر “طبیب” عبادت گاہوں کے پروہت ہوتے تھے۔ چنانچہ اہلِ بابل کی عکادی زبان میں طبیب، پروہت اورجادوگر، تینوں کے لیے ” آزو” اور “ایازو” کی اصطلاحیں استعمال ہوتی تھیں۔ سحر اور طب میں کوئی فرق نہ تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جادو منتروں کے ساتھ دوائیں بھی استعمال ہونے لگیں اور دواؤں کا پلہ بھاری ہوتا گیا لیکن یونانی طب کے فروغ سے قبل تک قدیم مصر اور بابل میں جادو منتر علاج کا لازمی جز سمجھے جاتے تھے۔ مثلاً مصری آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں پندرھویں صدی قبل مسیح سے سن عیسوی کی ابتدا تک کے بے شمار خریطے ملے ہیں جن پر امراض اوران کے علاج کی ترکیبیں درج ہیں۔ ان سب کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ بیمار پر کوئی عفریت سوار ہے یا کوئی بد روح اس میں گھس گئی ہے لہٰذا علاج تجویز کرنے والا جادو گر طبیب یہ نہیں لکھتا کہ ” یہ نسخہ” فلاں بیماری کا ہے۔” بلکہ یہ لکھتا ہے کہ یہ نسخہ عفریت کو ” مار بھگانے ” کا ہے یا ” ڈرانے دھمکانے” کا ہے یا “ہلاک کرنے” کا ہے۔
مگرجوں جوں علم طب نے ترقی کی ، بیماریوں کے اصل اسباب پتہ چلے اوران سے شفا پانے کے لیے دوائیں دریافت ہوتی گئیں تو لوگوں نے اپنے تجربے سے دیکھ لیا کہ بیماریوں کا علاج جادو منتر ، ٹونے ٹوٹکے جھاڑ پھونک سے نہیں ہوتا بلکہ دواؤں سے ہوتا ہے لہٰذا لوگوں کا اعتقاد ان توہمات پر سے اٹھتا گیا لیکن اب بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ شاید کروڑوں عقیدت مند ایسے ہیں جو علاج کے قدیم طریقوں پر یقین رکھتے ہیں نتیجہ یہ ے کہ آپ کو ہر شہر، قصبے اور دیہات میں ایسے پیر فقیر مل جائیں گے جن کا جھاڑ پھونک کا کاروبار انھیں توہمات کے طفیل چلتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جن بھوت ان لوگوں کو بالکل نہیں ستاتے جو ان کے وجود کو سرے سے مانتے ہیں نہیں حالاں کہ اس بد اعتقادی کی سزا سب سے پہلے انھیں کو ملنی چاہیے نہ کہ ان سیدھے سادے لوگوں کو جو ان قوتوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔
جن بھوتوں کا عقیدہ دراصل قدرت کی ظاہرہ اور ان دیکھی قوتوں کے تجسیمی تصور ہی کی ایک شکل ہے۔ ابتدائی انسان ان قوتوں کو۔۔۔ سورج چاند، ہواطوفان، بادل کی گرج، بجلی کی چمک، سیلاب، آندھی، زلزلہ وغیرہ۔۔۔ اپنی ہی طرح جان دار، فعال اور با ارادہ سمجھتا تھا۔ جو قوتیں اس کو فائدہ پہنچاتی تھیں ان کو وہ خیر اورنیکی کی قوتوں سے تعبیر کرتا تھا اوران کو پیارکرتا تھا۔ اس کے برعکس جو قوتیں اس کو نقصان پہنچاتی تھیں ان کو وہ بدی اور شرکی قوتیں خیال کرتا تھا اور ان سے ڈرتا تھا۔ چنانچہ مصر و بابل ، یونان و ایران ، ہندوستان و چین ہر جگہ ان قوتوں کو دیوی دیوتا کا روپ دے دیا گیا اور بری قوتیں کہیں یم کہلائیں، کہیں قیامت، کہیں اہرمن اور کہیں موت۔ یہ دیوی دیوتا انسانوں ہی کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے عادات و اطوار بھی انسانوں کے سے تھے۔ شادی بیاہ، آل اولاد، محبت نفرت، دشمنی دوستی، غرض یہ کہ دیوی دیوتاؤں کی دنیا کسی انسانی جذبے سے خالی نہ تھی۔ اس کے علاوہ وہ انسانوں کے معاملات میں بھی دخل دیتے تھے چنانچہ ٹرائے کی دس سالہ جنگ میں کوہ اولمپس کے بعض دیوتا ایک فریق کی حمایت کرتے اور بعض دوسرے فریق کی۔ اسی طرح رگ وید کے بقول جب آریا قوموں نے وادیِ سندھ پر حملہ کیا تو اِندر دیوتا نے اشوروں اور پانٹریوں کو ہرانے میں آریوں کی سپہ سالاری کی۔ افسوس ہے کہ کوہِ اولمپس کے دیوی دیوتا یورپ میں عیسائیت کے رواج پاتے ہی یکسر غائب ہوگئے حالاں کہ تیسری چوتھی صدی قبل مسیح میں ان کا وجود “حقائق ثابتہ” میں شمار ہوتا تھا یہاں تک کہ سقراط کو دیوتاؤں کے انکار کے جرم میں زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا اور اس کے ہم عصر فلسفی انکسا غورث اور ڈرامہ نویس یوری پڈتیرایتھنز سے جلا وطن کردیے گئے تھے۔ مصر ، لبنان و فلسطین، عرب اور ایران، ہندوستان اور چین اور غرض یہ کہ پرانی دنیا کے تمام دیوی دیوتا جو ہزاروں سال تک اپنے عقیدت مندوں کو اپنے وجود کا ثبوت فراہم کرتے رہے آج فقط دیو مالائی داستانوں میں زندہ ہیں۔
مولانا کوثر نیازی نے برسبیلِ تذکرہ جنوں اور انسانی عورتوں کے درمیان “نکاح” اور ” طلاق” کی بات بھی کی ہے۔ معلوم نہیں کہ اس شادی خانہ آبادی سے جو اولاد پیدا ہوتی تھی یا اب بھی ہوتی ہے اس کا شمار جنوں میں ہوگا یا انسانوں میں۔بہرحال مافوق الفطرت اشخاص کا زمین پر رہنے والی عورتوں سے جذباتی لگاؤ بھی دیو مالائی دَور ہی کا قصہ ہے۔ کوہِ اولمپس کے دیوتاؤں کی عاشق مزاجی تو مشہور ہے۔ کسی خوش جمال لڑکی کو باغ میں ٹہلتے یا چشمے کے کنارے نہاتے دیکھا تو جھٹ اس سے جنسی رشتہ قائم کرلیا۔ چنانچہ یونان کے کتنے ہی ہیرو زیوس یا اپالو کی اولا دکہے جاتے تھے۔ اسی طرح مہابھارت کی رانی کنتی کا پہلا بیٹاکرن سورج دیوتا کے نطفے سے تھا بلکہ بلکہ راجپوتانہ کے راجے مہاراجے ابھی کل تک سورج بنسی اور چندر بنسی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ پھر جنوں نے کیا قصور کیا ہے جو ہماری بہو بیٹیوں پر فریفتہ نہ ہوں۔
پرانی قوموں کے عقائد و اوہام کے تذکرے سے ہمارا مقصد یہ تھا کہ مافوق الفطرت قوتوں بالخصوص جنوں کے وجود کا تاریخی اور معاشرتی پس منظر واضح ہو جائے۔ جنوں کا وجود بھی دراصل سی شجرِ تخیل کی ایک شاخ ہے جو عہد قدیم میں خوب پھلا پھولا لیکن انسان جوں جوں قدرت اور قوانین قدرت سے آگاہ ہوتا گیا ، جوں جوں سائنسی علوم اور تجربات و مشاہدات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا دیوی دیوتاؤں، جنوں پر یوں کا دائرہ عمل و اختیار بھی تنگ ہوتا گیا۔
مولانا کوثر نیازی کا یہ ارشاد بالکل درست ہے کہ ” نامعلوم جہانوں اوراجنبی مخلوقوں تک علمی رسائی حاصل کرنے کی کوشش بجائے خود وقت کا کوئی برا مصرف نہیں۔ ” چنانچہ معلوم سے نا معلوم تک پہنچنے کی تگ و دو سائنس دانوں کا صدیوں سے مستقل مشغلہ رہا ہے۔ ہم مولانا کو بھی بلا پس و پیش اپنے عہد کا سائنس دان محقق مان لیتے اگرانھوں نے منقولات پر تکیہ کرنے کے بجائے سائنسی طرز فکرو عمل اختیار کی ہوتی اور عقلی دلائل اور سائنسی تجربوں سے جنوں کے وجود کو ثابت کیا ہوتا مگرانھوں نے توائمہ، علماء، فقہا اور صوفیا کے علاوہ مغربی مصنفین کے اقوال کا ایک پورا دفتر پیش کردیا اور تب ہم کو جنوں کے بے شمار عادات و خصائل کا علم ہوا۔ مثلاً یہ کہ وہ ہوا میں اڑتے ہیں اور ہزاروں میل کا سفر پلک جھپکتے طے کرلیتے ہیں وہ آگ سے بنے ہیں۔ ان میں بعض مسلمان ہیں اور بعض غیر مسلمان، وہ ہماری عورتوں سے شادی کرتے ہیں اورپھر ان کو طلاق بھی دیتے ہیں۔ وہ ہم سے چمٹ جاتے ہیں اور ہم کو ستاتے ہیں (البتہ ان کے اس طرز عمل کی غرض و غایت کیا ہوتی ہے۔ یہ نہیں معلوم) مگرافسوس ہے کہ ان “حقائقِ ثابتہ” کی تائید میں بے شمار کتابی کتابی شہادتیں پیش کرنے کے باوجود مولانا نے کوئی ایک عقلی دلیل بھی جنات کے وجود کے حق میں نہ دی۔
حقیقت یہ ہے ک ہ جنوں کے وجود کا تعلق عقائد سے ہے نہ کہ عقل سے۔ برطانوی فلسفی جان لاک کے بقول عقیدہ وہ شے ہے جس کو اس کی سچائی ثابت ہونے سے پیش ترہی تسلیم کرلیا جائے۔ عقیدے کی پرورش ماں کی گود میں نشوونما گھریلو روایات اور معاشرتی ماحول میں ہوتی ہے۔ اسلامی روایتوں کے ماحول میں پرورش پانے والا بچہ عموماً اسلامی عقائد کا پابند ہوتا ہے، ہندو ماحول کا بچہ ہندو اور یہودی ماحول کا بچہ یہودی ہوتا ہے۔ تعلیم پاکر بھی ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ علم سے اپنے عقیدوں کا جواز پیدا کریں یا علم اور عقیدے کو ہم آہنگ کرلیں۔ عقائد کی چھاپ ہمارے جذبات و احساسات پر اتنی گہری ہوتی ہے کہ ذرا سی ٹھیس لگ جائے تو ہم مشتعل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ان عقیدوں کو منقولات سے بڑا سہارا ملتا ہے۔
لیکن جب ہم عقیدے کی دنیا سے عقل کی دنیا میں آتے ہیں تو “کیا”، “کیوں” اور “کیسے” کے بے شمار سوالات ہم کو ستانے لگتے ہیں بقول غالبؔ
شکنِ زُلفِ عنبرین کیون ہے
نِگہ چشم سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابرکیا چیز ہے ، ہوا کیا ہے؟
عقیدے کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ کیوں کہ عقیدہ نام ہے تسلیم و رضا کا، اقرار و تقلید کا، روایتوں کے احترام کا۔ اس میں “کیوں”، “کیسے” کی گنجائش نہیں۔ وہ ہم کو ” مان لینے” کی تلقین کرتا ہے اور بحث ، شک اور انکار سے منع کرتا ہے کیوں کہ یہ رحجان اس کے حق میں مفید نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس عقل کا مدار شعور اگہی پر ہے۔ شعور و آگہی کی اساس عملی تجربے اور مشاہدے ہوتے ہیں۔ انھیں کی مدد سے انسانی عقل نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ نئی نئی دریافتیں اور ایجادیں کی ہیں، وہ چیزیں بنائی ہیں جو کائنات میں موجود نہ تھیں بلکہ قدرتی اشیا ہی سے ایک نہایت عظیم الشان مصنوعی دنیا تعمیر کرلی ہے۔
مولانا کوثر نیازی کا طرزِ استدلال ” منقولاتی” ہے۔ سائنسی یا عقلی نہیں، یعنی کسے شے کا وجود ثابت کرنے کے لیےوہ علما، فقہا، صوفیا کی شہادتوں پر بھروسہ کرتےہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
“جنوں کا وجود، انسانوں کو ان کا تکلیف پہنچانا اور بزرگانِ دین کا ان کو مسخر کرلینا علماء اور فقہا ہی میں نہیں صوفیا کے طبقے میں بھی مسلم رہا ہے اور اس میں ایسی ایسی شخصیات کے نام شامل ہیں جن کی صداقت اور تقدس کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ ”
گویا کسی شے کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے بہت سے معتبر اور مقدس علماء ، فقہا اور صوفیا وغیرہ کی تائیدی شہادتیں کافی ہوتی ہیں۔ تو کیا ہم مان لیں کہ زمین ساکت و قائم ہے اور چاند سورج سیارے سب زمین کر گرد گھومتے ہیں اس لیے کہ کپلر اور گلیلو کی دریافت سے پیش تر مسلمان، ہندو، عیسائی، یہودی، بودھ، پارسی غرض یہ کہ تمام دنیا کے “بزرگان دین علما، فقہا، صوفیا” حتیٰ کہ قرآن حکیم کے مفسرین متفقہ طور پر یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ چاند، سورج، ستارے، سیارے سب زمین کے گرد طواف کرتے ہیں اور کائنات کا مرکز زمین ہے۔
مولانا کوثر نیازی ارسطو کے مقام اور مرتبے سے ضرور واقف ہوں گے۔ وہی ارسطو جس کو دنیائے اسلام ” معلم اول” کے لقب سے یاد کرتی تھی۔ یہ عظیم فلسفی اور سائنس دان ڈیڑھ ہزار برس تک مغربی دنیا کے خیالات و عقائد پر حکمرانی کرتا رہا۔ خود کلیسائے روم کی نظروں میں ارسطو کے مفروضات اور نظریات کا رتبہ انجیل مقدس سے کم نہ تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ ارسطو کے دعوؤں پر شک کرسکے۔ چنانچہ کپلر نے(جو خود پادری تھا) علم ریاضی کی مدد سے اور گلیو نے اپنی دُور بین کے شواہد سے جب یہ ثابت کردیا کہ ارسطو اور بطلیموس کے مفروضات غلط ہیں اور نظامِ شمسی کا مرکز سورج ہے نہ کہ زمین تو ایوانِ کلیسا میں تہلکہ مچ گیا۔ گلیلو کو روم کی مذہبی عدالت میں طلب کیا گیا اور حکم ہوا کہ اس کفر سے توبہ کرو ورنہ آگ میں جلنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گلیلو بے چارے نے موت کے ڈر سے توبہ کرلی مگرچپکے سے کہا کہ میں مانوں یہ نہ مانوں زمین تو برابر گھومتی رہے گی۔
سائنسی طرزِ استدلال ” منقولاتی” نہیں بلکہ تجرباتی ہوتا ہے۔ سائنس کسی شے کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے نیوٹن اورآئن سٹائن ، ڈارون اور پرلیٹلے کی شہادتوں کا سہارا نہیں لیتی بلکہ تجربوں سے ثابت کرتی ہے اور تجربے بھی وہ جس میں ساری دنیا کو شریک کیا جا سکے اور ہر شخص ان کی سچائی کو اپنے ذاتی تجربے سے پرکھ سکے۔ مثلاً یہ دعویٰ کہ پانی دو گیسوں (ہائیڈروجن اور آکسیجن) سے مل کر بنا ہے ایک ایسے تجربے کی بنا پر ہے جو اسکول کا لڑکا بھی کرسکتا ہے اوراگر کوئی شخص انکار کرے تو ہم اس سے کہہ سکتے ہیں کہ بھائی تم ایک بوتل میں ہائیڈروجن لو اور دوسری میں آکسیجن، پھر دونوں گیسوں کو ملا دو پانی بن جائے گا۔ اسی طرح اگرکوئی شخص ہوا کے وجود سے انکار کرے تو معمولی سے عملی تجربے سے نہ صرف ہوا کا وجود ثابت ہو سکتا ہے بلکہ یہ بھی کہ ہوا میں وزن ہوتا ہے اور وہ جگہ گھیرتی ہے۔ چنانچہ بچوں کی چوتھی جماعت میں بھی یونان کے ڈھائی ہزار برس پرانے نیچری فلسفی ایمپوڈا کلیز کے مشہور تجربے کا ذکر موجود ہے۔ مثلاً ایک خالی غبارے کو وزن کرلو پھراس میں ہوا بھر کر وزن کرو۔ ہوا سے بھرا ہوا غبارہ خالی غبارے سے زیادہ وزنی ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ ہوا میں وزن ہوتا ہے۔ اب ایک خالی بوتل لیں اور اس کو اُلٹا کرکے پانی سے بھری بالٹی میں سیدھا ڈبوئیں۔ پانی کا ایک قطرہ بھی بوتل میں نہ جائے گا کیوں کہ بوتل میں ہوا موجود ہے۔ اب آپ بوتل کو تھوڑا سا ٹیڑھا کردیں۔ پانی میں بلبلے اٹھنے لگیں گے اور تھوڑی دیر میں بوتل پانی سے بھر جائے گی کیوں کہ بوتل کے ٹیڑھے ہونے کی وجہ سے ہوا کو باہر نکلنے اور پانی کو بوتل میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ پس ثابت ہوا کہ ہوا جگہ گھیرتی ہے۔ ہم نے جان بوجھ کر موجودات کی دو ایسی مثالیں چنی ہیں جو نظر نہیں آتیں (پانی کا ہواؤں سے بننا اور ہوا میں وزن کا ہونا)
وجہ یہ ہے کہ ہم کو مولانا کے اس ارشاد سے بحث کرنا ہے کہ کسی شے کا نظر نہ آنا اس کے عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا۔ مولانا کے دس کالم کے مضمون میں جو منقولاتی شہادتوں سے پر ہے یہ ایک واحد عقلی دلیل ہے اور ہم کو اس سے پورا پورا اتفاق ہے۔ مثلاً ہم کو خوشبو نظر نہیں آتی، برقی توانائی نظر نہیں آتی، کشش زمین نظر نہیں آتی، حرارت نظر نہیں آتی، زمین گھومتی نظر نہیں آتی بلکہ سورج چاند گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر بھی ہم ان حقیقتوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم ان کے وجود کا عملی تجربوں سے مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پانی اور ہوا کے ضمن میں کیا لیکن مولانا کا کہنا ہے کہ کسی شے کا نظر نہ آتا عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا البتہ وجود کی دلیل بن سکتا ہے۔ اس دلیل میں جو منطقی مغالطہ پوشیدہ ہے مولانا نے شاید اس پر غور نہیں فرمایا۔ حالاں کہ جس طرح کسی شے کا نظر نہ آنا عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا اسی طرح وجود کی دلیل بھی نہیں بن سکتا۔ وجود کے صرف وجود سے ثابت کیا جا سکتا ہے عدم وجود سے ہر گزنہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ” آفتاب آمد دلیل آفتاب۔” حقیقت یہ ہے کہ کسی شے کے وجود کا انحصار ہم کو نظر آے یا نظر نہ آنے پر ہے ہی نہیں۔ نظر آنا تو ایک طرف رہا، قدرتی اشیا کے وجود کا انسان کے وجود سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ وہ تو انسان کے وجود سے لاکھوں برس پہلے بھی موجود تھیں۔
مگر مولانا نے اس منطقی مغالطے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک اور منطقی مغالطے میں الجھ گئے۔ فرماتے ہیں کہ ” کتنے حقائق تھے جو پچھلی صدی کے لوگوں پر منکشف نہ ہوئے تھے آج ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ کیا پچھلی صدی کے لوگوں کا محض اس بنا پر انھیں رد کردینا کہ وہ انھیں نظر نہیں آئے ان کے عدم وجود کی دلیل بن سکتا ہے؟” اس دلیل میں مولانا نے اشیا کے موجود ہونے کو ان کے منکشف یا دریافت ہونے سے گڈ مڈ کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انیسویں صدی کا انسان ہو یا بیسویں صدی کا کسی حقیقت کے منکشف یا دریافت ہونے سے پیش تر اس کے وجود کو یقینی طورپر کس طرح تسلیم کرے گا۔ بے شمار جراثیم ایسے ہیں جو ہم کو نظر نہیں آتے تھے مگر وہ موجود تھے البتہ جب سائنس دانوں نے خوردبین کے ذریعے ان کے وجود کو دریافت کرلیا تو ہر شخص کو ان کا وجود تسلیم کرنا پڑا لیکن ان کی دریافت سے پہلے انسان زیادہ سے زیادہ قیاس آرائی کرسکتا تھا۔ وہ یہ دعویٰ کیسے کرتا کہ جراثیم موجود ہیں اور دعویٰ کرتا تو ثابت کیسے کرتا۔ قدرت کے خزانے میں اب بھی بے شمار ایسی چیزیں ہوں گی جن کا ہم کو علم نہیں لیکن کوئی شخص اگریہ دعویٰ کرے کہ زمین کے اندر شترمرغ کے انڈوں کے برابر موتی پوشیدہ ہیں تو ان موتیوں کے وجود کا بارِ ثبوت اس کی گردن پر ہوگا۔ وہ یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتا کہ تم کو کیا معلوم زمین کے اندر ابھی کیا کیا پوشیدہ ہے۔ میں اس سے الٹ کر یہ سوال بھی کرسکتا ہوں کہ مجھ کو تو واقعی نہیں معلوم مگرتم کو کیسے معلوم ہوا۔ اس کے علاوہ میں کسی ماہرِ ارضیات سے پوچھ سکتا ہوں کہ موتی کن مادی اشیا سے بنتا ہے، کیا زمین کے اندر یہ اشیا موجود ہیں اورکیا زمین کہ تہوں کے درجہ حرارت میں موتیوں کی تشکیل ممکن ہے۔ اگرجواب نفی میں ملا تو میں شتر مرغ کے انڈوں کے برابر موتی کے زمین میں موجود ہونے سے انکار کردوں گا۔
لیکن جنوں کے سلسلے میں وجود اور عدم وجود کی بحث فضول ہے کیوں کہ مولانا جنات کے وجود کو یقینی طورپر تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جنوں کے وجود کو ثابت تو نہ کرسکے البتہ انھوں نے کتابوں کے حوالے سے جنوں کے بعض خصائل ضرور بیان کردیے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگروہ اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے یا کتابوں کے حوالے سے ہم کو یہ بھی بتا دیتے کہ جنوں کی خوراک اور پوشاک کیا ہے۔ وہ رہتے بستے کہاں ہیں، زمین پر، ہوا میں یا آسمان پر۔ انسانوں کی طرح کیا ان کی بھی گھریلوزندگی ہوتی ہے اور یہ کہ سیدھے سادے بے قصور انسانوں کو ستانے کے علاوہ ان کے اور مشاغل کیا ہیں۔ یہ سوالات میں نے طنز و استہزا کے طورپر نہیں کیے ہیں بلکہ مخلوقات اگرجان دار اور باشعور ہیں تو ان کے بارے میں اس قسم کے سوالات کا اٹھنا قدرتی امر ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جن ہر چند کہ آگ سے بنے ہیں پھر بھی ہم کو نظر نہیں آتے حالاں کہ آگ اپنی مختلف شکلوں میں ہم کو نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ چنگاری بھی جو پتھروں کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا بے محل نہ ہوگا کہ آگ بذاتِ خود کوئی شے نہیں ہے، پانی، لوہے، چاندی سونے، لکڑی یا کوئلے پتھر کی طرح بلکہ مادی اشیا کے مابین کیمیاوی عمل کی ایک کیفیت ہے۔ ان کا درجہ حرارت ہے۔ وہ لکڑی، کوئلہ، مٹی کے تیل، پیٹرول اور دوسرے آتش گیر مادوں کے کیمیاوی عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ اپنا الگ وجود نہیں رکھتی بلکہ کسی نہ کسی مادی شے کے وجود کی محتاج ہوتی ہے۔ تو کیا جن حضرات بھی مادی اشیا کے کیمیاوی عمل کا نتیجہ ہیں؟۔
مولانا نے مجھ کو مغرب زدہ تصور کرکے کئی مغربی مصنفوں سے جن میں سویت روس کے مصنف بھی شامل ہیں، استناد کیا ہے۔ مولانا کا مطالعہ بے شک بہت وسیع ہے اور ان کا ذوق کتب بینی بھی لائق ستائش ہے لیکن کیا ان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ نہ ہر چھپی ہوئی تحریر معتبر اور مستند، خواہ وہ مغرب کی ہو یا مشرق کی۔ ہم کو ہر صورت میں اپنی قوتِ عقلیہ سے ضرور کام لینا چاہیے۔مولانا سے یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ ہوگی کہ خواجگی ہر دور میں نئے نئے مسکرات بناتی رہتی ہے اور یہ کہ کھلونوں سے بچوں ہی کو بہلایا نہیں جاتا۔ سامراجی نظام گزشتہ نصف صدی سے جس اقتصادی، سیاسی، فکری اور اخلاقی بحران میں مبتلا ہے وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ عام لوگوں کو گمراہ کرنے، ان کی توجہ زندگی کے روزمرہ کے مسائل سے ہٹانے ، ان کی قوتِ فکر و عمل کو مفلوج کرنے کے وہ کون سے حربے ہیں جو مغربی بازی گر استعمال نہیں کررہے ہیں۔ کبھی “ایک دنیا” اور “ایک عالمی حکومت” کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے وہ بھی ایسے وقت میں جب ایشیا اور افریقہ کے محکوم ملک آزادی اور خود مختاری کی جدو جہد میں مصروف تھے۔ دلیل یہ دی جاتی تھی کہ دنیا اب بہت سکڑ گئی ہے، ریاست کے پرانے نظریے اب فرسودہ ہو چکے ہیں اور دنیا کے مسائل اب آپس میں اتنے گتھ گئے ہیں کہ ان کو حل کرنے کے لیے ایک ” عالمی حکومت” کا قیام لازمی ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ” عالمی حکومت” کی سربراہی کا اہل امریکہ کے سوا دوسرا کون ہے۔ پھر پروفیسر ٹوائن بی کی فلسفہ تاریخ کی دُھوم مچتی ہے، سارتر صاحب کے فلسفہ وجودیت کو جو وجودیت کی نفی کرتا ہے بانس پر چڑھایا جاتا ہے کہ بالآخر مارکسی فلسفے کا توڑ مل ہی گیا۔ ” مہمل اور بے مقصد” ادب کا بازار گرم ہوتا ہے۔ سر آلیور لاج اور سر آرتھر کوئن ڈائل روحانی کلب قائم کرتے ہیں جہاں روحوں سے بات چیت ہوتی ہے۔ سائنسی ایجادات کی مدد سے بھوتوں، آسیبوں ، ڈراکو لاؤں اور دوسری مافوق الفطرت مخلوقوں پر فلمیں بنتی ہیں، ” مرکر زندہ ہونے والوں” کی آپ بیتیاں چھپتی ہیں، جنوں کی داستانیں شائع ہوتی ہیں، ہپی ازم کا نیا مسلک رائج ہوتا ہے، حشیش کا کاروبار چمکتا ہے اور اس کی اتنی قسمیں بنتی ہیں کہ ” ساحرالموط” ہوتا تو شرما جاتا۔ لندن، پیرس اور نیو یارک کی سڑکیں ” ہری اوم”، “ہری اوم” کے بھجنوں سے گونجنے لگتی ہیں اور یوگا کے ماہر مہارشیوں کی چاندی ہو جاتی ہے اور ہم خوش ہیں کہ دیکھا مادہ پرست افرنگیوں کو آخر کار روحانیت کا قائل کرلیا۔ کتنے سیدھے ہیں ہم لوگ! میں مولانا سے پوچھتا ہوں کہ ان کے نزدیک مغرب کی ابلہ فریبییاں کیا، زمانے کے اتفاقات ہیں یا ان کے پیچھے کوئی سوچی سمجھی حکمتِ عملی بھی کارفرما ہے؟
آخر میں مولانا سے میری مودبانہ درخواست ہے کہ حیات بعد الموت کے تذکرے اور جنون کی داستانیں اپنی جگہ لیکن کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ آٹھ کروڑ زندہ پاکستانیوں کے زندہ مسائل و مصاحب سے بحث کی جائے۔ ان کی قوتِ فکر و عمل کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے، ان کے علم و شعور میں اضافے کی تدبیریں اختیار کی جائیں اوراُن توہمات کاطلسم توڑا جائے جن میں ہم صدیوں سے گرفتار ہیں۔