دوسرے دن عمران کو اطلاع ملی کہ صفدر پهر ہلدا کا تعاقب کر رہا ہے اور شاہد ہلدا کے ساته ہے۔ وہ جوليا کی دوسری کال کا منتظر تها جس سے اسے اطلاع ملتی کہ شاہد اور ہلدا محض سڑک پيمائی کر رہے ہيں يا کہيں بيٹهے بهی ہيں۔
اور يہ بات تو اب پايۂ ثبوت کو پہنچ گئی تهی کہ وہ لڑکی کسی نہ کسی جرم ميں ضرور ملوث ہے ورنہ اسے پچهلی شام سگريٹ کے خالی پيکٹ ميں اس قسم کا پيغام کيوں ملتا۔
اب عمران يہ ديکهنا چاہتا تها کہ اس لڑکی کی ديکه بهال باقاعدہ طور پر کی جاتی ہے يا نہيں۔ ظاہر ہے کہ
پچهلی شام جس شخص نے اسے پوليس کے خطرے سے آگاہ کيا تها وہ شروع ہی سے اسکی ديکه بهال کرتا رہا ہوگا؟
کچه دير بعد اسے جوليا کی طرف سے اطلاع ملی کہ شاہد اور ہلدا ميونسپل گارڈن ميں ہيں اور صفدر انکی نگرانی کر رہا ہے۔
عمران بهی ميونسپل گارڈن کی طرف روانہ ہو گيا، لڑکی کے متعلق اسے جوليا سے رات کو معلوم ہو گيا تها کہ وہ اس ہسپتال ہی کے ايک کمرے ميں رہتی ہے جہاں کام کرتی ہے اور شاہد کی داستان بهی معلوم ہوئی
تهی۔ شاہد کی کہانی کا يہ مطلب تها کہ وہ ابهی تک معاملے کی بات کی طرف نہيں آيا تها بلکہ يہ حرکت صرف جان پہچان پيدا کرنے کے لئے کی گئی تهی۔
عمران کی دانست ميں شاہد کا اقدام غير مناسب نہيں تها۔ ظاہر ہے کہ اب شاہد کے فرشتے بهی ہلدا کی اصليت تک نہ پہنچ سکيں گے۔ ويسے بهی وہ لڑکی اس کو کافی چالاک اور ذرا ذرا سی بات پر نظر رکهنے والی معلوم ہوئی تهی۔
ميونسپل گارڈن پہنچ کر ان دونوں کو تلاش کرنے ميں کوئی دشواری نہيں پيش آئی۔ وہ ايک بنچ پر بيٹهے ہوئے مل گئے۔
عمران نے انکے قريب سے گزرتے وقت محسوس کيا کہ شاہد سچ مچ اوٹ پٹانگ باتيں کر رہا ہے، ہلدا بار بار ہنس رہی تهی۔
اچانک عمران کی نظريں ايک آدمی پر رک گئيں جو ان سے تهوڑے ہی فاصلے پر بيٹها پائپ ميں تمباکو بهر رہا تها۔ يہ وہی آدمی تها جس نے پچهلی شام کيفے کاسينو ميں ہلدا کے قريب سگريٹ کا خالی پيکٹ پهينکا تها۔
يہ تها تو ديسی ہی ليکن وجيہہ اور جامہ زيب آدمی تها۔ چہرے پر معصوميت تهی جس کی بنا پر يہ گمان بهی نہيں کيا جا سکتا تها کہ وہ کسی غلط راستے کا راہرو ہوگا۔
اس نے صفدر کو بهی ديکها جو لان پر اوندها پڑا اخبار پڑه رہا تها۔ کچه دير بعد لڑکی وہاں سے تنہا رخصت ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔جب وہ پهاٹک سے گزر گئی تو عمران نے صفدر کو بهی اٹهتے ديکها۔
شاہد جانوروں کے کٹہرے کی طرف چلا گيا، ليکن وہ آدمی جہاں تها وہيں بيٹها پائپ پيتا رہا۔ گويا اسکا کام يہ تها کہ وہ اسی وقت ہلدا پر نظر رکهے جب تک شاہد اسکے ساته ديکها جائے۔
يہ چيز عمران کے لئے غير متوقع بهی نہيں تهی، اس نے پچهلی شام ہی اندازہ کر ليا تها کہ خود لڑکی کے آدمی بهی اسکی نگرانی کرتے ہيں اور يہی ديکهنے کے لئے وہ اس وقت يہاں آيا تها، مگر يہ چيز اسکے وہم و گمان ميں نہيں تهی کہ اس وقت بهی اسی آدمی سے مڈ بهيڑ ہو گی جس نے سگريٹ کا پيکٹ پهينکا تها۔
اس اتفاق نے اس کے لئے بڑی آسانياں پيدا کر دی تهيں، اگر اس آدمی کے علاوہ کوئی دوسرا اس وقت لڑکی
کی نگرانی پر مامور ہوتا تو شايد عمران کو اس کا علم ہی نہ ہو سکتا کہ لڑکی کی نگرانی ہو رہی ہے کيونکہ وہ آدمی بهی اسی آدمی کی طرح وہيں بيٹها رہ جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔شاہد اپنی راہ لگتا اور ہلدا اپنی راہ؟ يہ آدمی عمران کو ہلدا سے زيادہ اہم معلوم ہو رہا تها۔
کچه دير بعد وہ بهی اٹها اور عمران نے اسکا تعاقب شروع کر ديا ليکن اب ايک نئی دشواری آ پڑی تهی۔ عمران نے سوچا کہ اگر وہ پيدل ہی چلتا رہا تو خود اسکی گاڑی ميونسپل گارڈن کے باہر ہی کهڑی رہ جائے گی مگر باغ کے باہر پہنچتے ہی عمران کی باچهيں کهل گئيں کيونکہ يہ مشکل بهی آسان ہو گئی تهی، وہ آدمی ايک موٹر سائيکل پر بيٹها ہوا اسے اسٹارٹ کر رہا تها۔
بس تهوڑی دير بعد عمران کی کار موٹر سائيکل کے پيچهے لگ گئی، موٹر سائيکل کی رفتار زيادہ تيز نہيں تهی۔ شايد وہ آدمی اس معاملے ميں کافی حد تک محتاط تها۔
ہلدا کے مقابلے ميں اس آدمی کو اہميت دينے کا مقصد يہ تها کہ عمران جلد از جلد اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ سکے کيونکہ وہ اب مطمئن تها۔ يقين کے ساته نہيں کہا جا سکتا تها کہ ان لوگوں کا تعلق انہيں پر اسرا لاشوں سے ہوگا۔ ہو سکتا تها کہ يہ لوگ کسی دوسرے چکر ميں ہوں اور ان سے اتفاقاتفاقًاًا ہی ٹکراؤ ہو گيا ہو۔
ہلدا کے متعلق تو ابهی تک کی رپورٹوں کا ماحصل صرف اتنا ہی تها کہ وہ ايک مشن ہسپتال ميں نرس ہے اور ہسپتال ہی کے ايک کمرے ميں رہتی بهی ہے۔ اس سے زيادہ کچه نہيں معلوم ہو سکا تها کہ اسکے ملنے جلنے والوں سے متعلق بهی معلومات حاصل ہو سکيں ليکن اس ميں ناکامی ہی ہوئی تهی۔ ويسے ايک عمران کو ملا تها مگر اسکا رويہ لڑکی کے ساته ايسا ہی تها کہ دونوں کے تعلقات کی نوعيت پر روشنی نہيں پڑ سکتی تهی۔ وہ تو بس اسکی نگرانی کرتا تها اور اس رويہ کا مطلب يہ تها کہ وہ آدمی بهی کسی کو جواب دہ ہوگا۔ مگر نہيں، عمران نے سوچا، يہ بهی ممکن ہے کہ صرف انہيں دونوں نے کسی قسم کا کهيل شروع کر رکها ہو اور کسی تيسرے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔
موٹر فراٹے بهرتی رہی اور اسکا تعاقب جاری رہا، تهوڑی دير بعد عمران نے اسے ايک تار گهر کے سامنے
رکتے ديکها۔ وہ موٹر سائيکل سے اتر کر اندر چلا گيا۔ عمران بهی گاڑی روک کر اترا، دوسرے ہی لمحے ميں وہ بهی تار گهر کے کمپاؤنڈ ميں تها۔
پهر اس نے اسے کهڑکی سے تار کا فارم ليتے ديکها، وہ کهڑکی ہی پر جلدی جلدی فارم پر کچه لکهنے لگا تها جيسے ہی اس نے فارم لکه کر کاؤنٹر کلرک کو ديا، عمران ٹيلی فون بوته ميں گهس گيا اور پهر اس نے بڑی پهرتی سے جوليا کے نمبر ڈائيل کئے۔ يہاں ايکس ٹو کا لہجہ اختيار کرنے کا موقع نہيں تها اس لئے اس نے اسے عمران ہی کی حيثيت ميں مخاطب کيا۔
اسکی نظر کلائی کی گهڑی پر تهی اور وہ ماؤته پيس ميں کہہ رہا تها۔ “جوليا، کريم پورہ کے تار گهر سے تين بج کر سترہ منٹ پر ايک تار ديا گيا ہے، فورفورًاًا پتہ لگاؤ کہ تار کسے اور کہاں ديا گيا ہے اور تار دينے والے کا
“نام اور پتہ بهی چاہئے۔ ارے ہاں ميں عمران ہوں جلدی کرو۔۔۔۔۔فورکرو۔۔۔۔۔فورًا۔۔۔۔۔؟ًا۔۔۔۔۔؟
اس نے سلسلہ منقطع کر ديا اور بوته ميں رک کر اس آدمی کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ پهر جب اسکی موٹر سائيکل کافی فاصلے پر پہنچ گئی تو عمران نے بوته سے نکل کر تعاقب کا سلسلہ شروع کر ديا اور يہ سلسلہ گرين اسکوائر کی ايک کوٹهی ميں ختم ہوا۔ عمران عمارت پر نظر ڈالتا ہوا آگے نکل گيا، کچه دور جا کر اس نے کار روک دی اور نيچے اتر آيا۔
اب وہ کوٹهی کی طرف پيدل جا رہا تها۔ پهاٹک پر اسے کسی کی نيم پليٹ نہيں نظر آئی، ويسے وہ آس پاس کی شاندار عمارتوں ميں سے تهی۔ عمران نے کوٹهی کے محمح ِلِل وقوع پر تفصيلی نظر ڈالی اور پهر اپنی کار ميں آ بيٹها۔۔۔۔۔۔۔اب وہ واپس جا رہا تها۔
اپنے فليٹ پر پہنچ کر سب سے پہلے اس نے جوليا کو فون کيا، اس بار وہ ايکس ٹو کی حيثيت سے بول رہا تها۔ “کيپٹن خاور سے کہو کہ گرين اسکوائر ميں پيٹرک بار کے سامنے والی کوٹهی کی نگرانی کرے۔۔۔۔۔۔۔اس ميں خصوصيت سے ايسے آدمی پر نظر رکهنی ہے جسکی چال ميں خفيف سی لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔ وہ آدمی اس
“وقت اسی عمارت ميں ہے۔
“بہت بہتر جناب۔”
يہ کام جلد سے جلد شروع ہونا چاہئے، اسے يہ بهی معلوم کرنا ہے کہ اس عمارت ميں کون رہتا ہے اور اس “
“آدمی کا اس سے کيا تعلق ہے جسکی چال ميں ۔۔۔۔۔۔۔ لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔
“بہتر جناب۔”
“عمران نے جس تار کے متعلق تم سے کہا تها اس کے لئے کيا ہوا۔”
“اوہ۔۔۔۔۔۔وہ، جی ہاں، اس سلسلے ميں ليفٹيننٹ صديقی تفتيش کر رہا ہے۔”
“ابهی کوئی اطلاع نہيں ملی۔”
“جی نہيں ۔۔۔۔۔۔”
“جيسے ہی معلوم ہو مجهے مطلع کرنا۔”
“تو عمران کو اطلاع نہ دی جائے۔”
“نہيں۔۔۔۔۔۔تم برابراِہِہ راست مجهے اطلاع دو گی۔”
“بہت بہتر جناب۔”
عمران نے سلسلہ منقطع کر ديا۔
اس نے کپڑے اتارے اور صرف انڈر ويئر اور بنيان ہی ميں رہا، حالانکہ سرديوں کے دن تهے اور يہاں کمرے ميں ٹهنڈک بهی تهی ليکن موج ہی تو ہے، آرام کرسی پر نيم دراز ہو کر اس نے سليمان کو آواز دی اور وہ پہلے ہی سے چائے کی ٹرے سنبهالے ہوئے ادهر ہی آ رہا تها۔ “ابے تو بولتا کيوں نہيں؟”
جب آ ہی رہا تها تو بولنے کی کيا ضرورت تهی۔” سليمان نے کہا۔”
“اچها جی، اگر آتے وقت کوئی تمهاری گردن اڑا ديتا تب بهی تم خاموش ہی رہتے۔”
“نہيں صاحب، لپٹ پڑتا اس سے، خون پی ليتا۔”
“لپٹ پڑتے۔” عمران دہاڑا۔ “ابے تو پهر ان قيمتی برتنوں کا کيا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔نمک حرام کہيں کے۔” نمک حرام نہ کہا کيجئے صاحب۔” سليمان نے برا مان کر کہا۔” کيوں۔۔۔۔۔۔۔۔” عمران نے آنکهيں نکاليں۔”
اگر نمک حرام ہوتا تو دو آنے سير کبهی نہ بکتا بلکہ بوتلوں ميں پچپن روپے فی بوتل کے حساب سے فروخت “
“ہوتا اور لوگ نمکين پکوڑے کها کر ادهر ادهر غل غپاڑے مچاتے پهرتے۔
تيری باتيں سمجهنے کے لئے ارسطو کا دماغ چاہئے، ميری سمجه ميں تو نہيں آتيں۔ ابے تو کهڑا منہ کيا ديکه “
“رہا ہے۔
سليمان نے چائے کی کشتی ميز پر رکه دی اور روہانسی آواز ميں بولا۔ “آج ميں بالکل پهکڑ ہوں اور بلبل ٹاکيز
“ميں زندہ ناچ گانے کا آج آخری پروگرام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ميرے خدا ميں کيا کروں۔ خدا تيرے گناہ معاف کرے سليمان۔” عمران ٹهنڈی سانس ليکر بولا۔”
وہ تو روز کے روز معاف ہوتے رہتے ہيں صاحب، آپ ان کے لئے پريشان نہ ہوں، اب اگر آج ہی آپ صرف “ايک شو کے پيسے دلوا ديں تو واپسی پر خوب توبہ کروں گا۔۔۔۔۔۔سر پيٹوں گا۔۔۔۔۔۔ناک رگڑوں گا اور گڑ گڑاؤں گا، اﷲ رحم کرے گا اور ميرے آج کے گناہ معاف ہو جائيں گے، ہائے کيا آپ نے يہ شعر نہيں سنا۔
“فرفرِدِد عمل سياہ کيے جا رہا ہوں ميں رحمت کو بے پناہ کيے جا رہا ہوں ميں
“سليمان۔”
“جی صاحب۔”
“اب تو ميرے لائق نہيں رہ گيا۔”
“کيوں صاحب۔”
“تيرے لئے پيری مريدی زيادہ مناسب رہے گی، کيوں خواہ مخواہ ميری عاقبت اور اپنی دنيا برباد کر رہا ہے۔” ميں نے بهی سوچا تها۔۔۔۔۔۔۔۔مگر نہيں چلے گی۔” سليمان نے پيالی ميں جائے انڈيل کر شکر ملاتے ہوئے کہا۔” “کيوں نہيں چلے گی۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ابهی ميری شادی نہيں ہوئی اس لئے ڈاڑهی نہيں رکه سکوں گا۔”
“شادی کے بغير مر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔کيا؟”
“اب تو يہی سوچا ہے کہ اگر سال تک شادی نہ ہوئی تو مر ہی جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“سليمان۔”
“جی صاحب۔”
“ميں تجهے ڈس مس کر دوں گا اگر تو نے شادی کی۔”
“شادی نہ ہوئی تو ميں خود ہی اپنے کو ڈس مس کر لوں گا صاحب۔”
جی ہاں، يہ بهی کوئی زندگی ہے کہ نہ کسی سے لڑائی نہ جهگڑا نہ گالی گلوچ نہ جوتم نہ پيزار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ميں تو “
“تنگ آ گيا ہوں ايسی چپ چپاتی زندگی سے۔
عمران کچه کہنے ہی والا تها کہ فون کی گهنٹی بجی۔۔۔۔۔۔۔يہ عمران کا فون تها، ايکس ٹو کا نہيں۔ ابے ديکه تو کون ہے۔” عمران نے ہاته ہلا کر کہا۔”
“سليمان نے کال ريسيو کی اور ماؤته پيس پر ہاته رکه کر عمران سے کہا۔ “کيپٹن فياض صاحب ہيں۔
“اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔” عمران مکا ہلا کر بولا۔ “کہہ دو صاحب مر گئے۔”
صاحب مر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔” سليمان نے ببانگ دہل کہا اور فورفورًاًا ہی سلسلہ منقطع کر ديا۔” “ابے۔۔۔۔۔۔يہ کيا۔۔۔۔۔۔۔کيا؟”
جو کچه آپ نے کہا تها۔” سليمان نے نہايت اطمينان سے جواب ديا۔” غصے ميں کہا تها۔” عمران غصيلی آواز ميں بولا۔”
سليمان پهر فون کی طرف جهپٹا۔۔۔۔۔۔۔۔اور عمران نے ڈانٹ کر پوچها۔ “اب کيا ہے۔”
“کپتان صاحب کو بتا دوں کہ غصے ميں مر گئے تهے۔”
“ابے اس شہر ميں رہنا محال ہو جائے گا۔”
پهر بتايئے نا کيا کروں؟” سليمان اپنی پيشانی پر دو ہتهڑ مار کر بولا۔” بلبل ٹاکيز۔” عمران اسکی آنکهوں ميں ديکهتا ہوا بولا۔”
خدا آپ کو سلامت رکهے صاحب، صرف تين روپے۔۔۔۔۔۔سالوں نے بارہ آنے والی سيٹيں پيچهے پهينکوا دی “
“ہيں۔۔۔۔۔۔۔بهلا بتايئے اتنی دور سے کيا مزا آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔مس بمبولا فلم اسٹار ڈانس کرے گی۔
“ميں يہ کہہ رہا تها کہ اگر تجهے بلبل ٹاکيز کی گيٹ کيپری مل جائے تو کيسی رہے گی۔” ہاں۔۔۔۔۔۔۔بہت اچها ہوتا۔” سليمان مايوسانہ لہجے ميں بولا۔”
“مگر پهر آپ کو رات کا کهانا ايک بجے سے پہلے نہيں مل سکتا۔”
“ابے ميں تجهے ڈس مس کر دينے کے متعلق سوچ رہا ہوں۔”
ذرا کر کے تو ديکهئے۔۔۔۔۔۔۔اپنے ہاته ہی سے اپنی گردن ريت ڈالوں گا۔۔۔۔۔۔۔پهر آپ کو قاتل کا سراغ لگانا پڑے “
“گا۔۔۔۔۔۔۔اس سے کيا فائدہ؟
دفعتدفعتًاًا پرائيوٹ فون کی گهنٹی بجی اور عمران چائے چهوڑ کر اس کمرے ميں چلا آيا جہاں پرائيوٹ يعنی ايکس ٹو کا فون تها۔
دوسری طرف سے جوليا بول رہی تهی۔ “جوليانا سر، وہ تار کسی مسٹر داور نے ديا تها۔۔۔۔۔۔۔تار کا مضمون تها کہ وہی پهر اسکے ساته تها۔ يہ تار مقامی ہی تها۔ سول لائن کے کسی ڈاکٹر گلبرٹ کے لئے تها۔ پتہ ايک سو
“تيرہ اے، سول لائنز۔
تار دينے والے کا پتہ۔” عمران نے پوچها۔”
“گرين اسکوائر کی گيارہويں عمارت۔”
گڈ۔۔۔۔۔۔۔۔” عمران نے ايکس ٹو کے لہجے ميں کہا۔ “اب صديقی سے معلوم کرو کہ گرين اسکوائر کی وہ “
“گيارہويں ہی عمارت تو نہيں ہے جسکی نگرانی کے لئے اسے ہدايت کی گئی ہے۔
جی ہاں۔۔۔۔۔وہی عمارت ہے، صديقی نے ابهی ابهی اپنی رپورٹ دی ہے اور اس شخص کا نام بهی داور ہے “
“جسکی چال ميں ہلکی سی لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔
“بہت خوب۔” عمران نے کہا۔ “تم بہت اچهی جا رہی ہو۔”
بہت بہت شکريہ جناب۔” دوسری طرف سے آواز آئی۔ “صفدر کی رپورٹ بهی سن ليجئے، وہ اس لڑکی کو “
“ہسپتال تک پہنچا کر واپس آ گيا ہے۔ اسکے علاوہ اور کوئی خاص قابل ذکر بات نہيں ہے۔ اچها۔۔۔” عمران نے سلسلہ منقطع کر ديا۔”
وہ اس ڈاکٹر گلبرٹ کے متعلق سوچنے لگا تها جسے تار ديا گيا تها۔
وہ نشست کے کمرے ميں آ کر پهر چائے پينے لگا۔ سليمان کچن ميں جا چکا تها۔ وہ بهی اچها ہی ہوا تها کيونکہ اب عمران تفريح کے موڈ ميں نہيں تها بلکہ کچه دير سنجيدگی سے سوچنے کے لئے وقت چاہتا تها۔
ليکن اسے وقت نہ مل سکا کيونکہ کوئی باہر سے کال بل کا بٹن دبا رہا تها۔ عمران نے جسم پر بے رنگ گاؤن ڈالا اور دروازے کی طرف بڑها۔ وہ جانتا تها کہ آنے والا کيپٹن فياض کے علاوہ کوئی نہيں ہو سکتا، اس نے دروازے کی چٹخنی گرا دی۔
فياض آندهی اور طوفان کی طرح کمرے ميں داخل ہوا۔ اوہ۔۔۔۔۔تو تم موجود ہو۔” اس نے غرا کر کہا۔”
“کيوں۔۔۔۔۔۔ميں نے کہا خيريت ہے نا۔”
“اب تمهارے نوکروں کو بهی يہ مجال ہو گئی ہے کہ ميرا مذاق اڑائيں۔”
کيوں؟ کيا ہوا؟” عمران نے حيرت ظاہر کی پهر يک بيک چہرے پر شرمندگی کے آثار پيدا کر کے بولا۔ “ارے “ہاں۔۔۔۔۔۔ميں اس سور کو عنقريب ڈس مس کرنے والا ہوں، ابهی جب ميں نے يہاں قدم رکها تو وہ شراب کے
“نشے ميں دهت تها اور يہ ديکهو۔
عمران نے لبادے کی ڈوری کهول دی اور صرف انڈر ويئر اور بنيان ميں اس کے سامنے کهڑا رہا۔ کيا مطلب۔” فياض نے تيکهے لہجے ميں کہا۔”
روزانہ صرف کوٹ اتارا کرتا تها، آج کمبخت نے نشے ميں پتلون بهی کهينچ لی۔۔۔۔۔۔اب تم ہی بتاؤ، مگر “
“تمهاری شان ميں کيا گستاخی کی اس گدهے نے۔
“ميں نے فون پر تمهارے متعلق دريافت کيا تها، بولا کہ صاحب مر گئے۔”
حد ہو گئی نمک حرامی اور بد خواہی کی۔” عمران نے غصيلے لہجے ميں کہا۔ “حالانکہ وہ سور اچهی طرح “
“جانتا ہے کہ ميں آج کل بالکل مفلس ہو رہا ہوں، مر گيا تو کفن کہاں سے آئے گا۔ فياض کچه نہ بولا، برا سا منہ بناتے ہوئے بيٹه گيا۔ “چائے سوپر فياض۔”
“نہيں شکريہ، تم ميرے لئے بے حد تکليف دہ ہوتے جا رہے ہو۔”
“اتفاق سے يہی شکايت مجهے بهی تم سے ہے۔”
“کيوں، ميں نے کيا کيا ہے۔”
“آخر کار تمهارے آدميوں نے عقلمندی کا ثبوت دينا شروع کر ديا۔”
“کيا تمهارا اشارہ اس لڑکی ہلدا کے معاملے کی طرف ہے۔”
“يقينقينًاًا”
“تم اسکے بارے ميں کيا جانتے ہو۔”
جب يہ معلوم ہے کہ تمهارا آدمی اس سے ربط و ضبط بڑها چکا ہے تو ميں نے کچه معلوم کرنے کی “
“ضرورت ہی نہيں سمجهی۔
ليکن اسکے باوجود بهی پچهلی شام کيفے کاسينو ميں نظر آئے تهے۔” فياض کا لہجہ طنزيہ تها۔”
“اور يہ واقعی ايک بہت بڑا گناہ تها کيونکہ اتفاق سے انسپکٹر شاہد اور ہلدا بهی وہيں موجود تهے۔”
“ميں يقين نہيں کر سکتا کہ تم وہاں اتفاقاتفاقًاًا گئے تهے۔”
“يقين نہ کرنے سے بهی کوئی فرق نہيں پڑے گا، کيونکہ ميں بہرحال وہاں موجود تها۔”
خير اس سے بحث نہيں ہے، ميں يہ نہيں کہتا کہ تم اس لڑکی کے چکر ميں نہ پڑو۔” فياض مسکرايا۔” “تب تو پهر ميرا خيال ہے کہ تمهارا اندازہ غلط ہی نکلا ہے۔”
“قطعی غلط! مجهے يقين ہے کہ تصوير کی شناخت ميں غلطی ہوئی تهی۔”
“ہاہا۔۔۔! ميں تو جانتا ہی تها! مگر چلو خير اچها ہے۔ شاہد کی شاميں کچه دنوں تک دلچسپی ميں گزريں گی۔” فياض کچه نہ بولا! عمران اپنے لئے چائے کی دوسرے پيالی تيار کر رہا تها۔
ہاں۔۔۔ تو پهر اب کس سمت تمہارے گهوڑے دوڑ رہے ہيں!” عمران نے ہنس کر پوچها۔” “!سمجه ميں نہيں آتا کہ اس سلسلے ميں کيا کيا جائے”
“جس دن سمجه ميں آ گيا تم اپنے جامے سے باہر نظر آؤ گے۔”
“!کيا مطلب”
“!کچه بهی نہيں۔ ويسے ميرا خيال ہے کہ يہ جامے سے باہر ہونا بهی شايد ايک محاورہ ہے”
“!ميں اس وقت محاوروں پر بحث سننے نہيں آيا” پهر تم جو حکم دو!” سوپر فياض۔”
“اس کيس ميں ميری مدد کرو، ورنہ بڑی بدنامی ہو گی۔”
اب بتاؤ! ميں کيا کروں!” عمران نے کچه سوچتے ہوئے کہا۔ “ايک لڑکی ہاته لگی تهی وہ بهی اس طرح نکلی “
“!جا رہی ہے
ابهی تک اس کے متعلق اس سے زيادہ نہيں معلوم ہو سکا کہ وہ اقوام متحدہ کے ادارہ خدمت خلق کی طرف “
“!سے يہاں بهيجی گئی ہے اور امريکن مشن ہسپتال کے ايک کمرے ميں اس کا قيام ہے آه کل کے زمانے ميں اتنی ہی معلومات بہت کافی ہيں۔” عمران نے ٹهنڈی سانس لے کر کہا۔” کيا تم اس سے زيادہ جانتے ہو۔” فياض اسے گهورنے لگا۔” “ہرگز نہيں۔ بهلا ميں اس سے زيادہ کيسے جان سکتا ہوں۔”
“نہيں تمہارے انداز سے تو يہی معلوم ہوتا ہے۔”
ابے تم کون ہو ميرے ناز و انداز ديکهنے والے۔” عمران نے غصيلے لہجہ ميں کہا۔” بہت جلد معلوم ہو جائے گا۔” فياض نے کہا اور سگريٹ سلگانے لگا۔” دفعتا فون کی گهنٹی بجی اور عمران نے آگے بڑه کر ريسيور اٹهايا۔
ہيلو۔۔۔!” عمران نے ماؤته پيس ميں کہا۔ “
ميں ہوں سليمان۔۔۔ صاحب!” دوسرے طرف سے آواز آئی۔ “يہاں پرائيويٹ فون پر آپ کی کال تهی۔ ميں نے “
“ڈس کنکٹ کر کے۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ اب آپ کو اطلاع دے رہا ہوں۔ اچها، اچها۔ ميں آ رہا ہوں۔” عمران نے کہا اور سلسلہ منقطع کر ديا۔”
سليمان نے اس وقت بڑی ذہانت سے کام ليا تها۔ پرائيوٹ فون کی گهنٹی بجی تهی۔ اس نے ريسيور اٹها کر سلسلہ منقطع کر ديا تها اور پهر عمران کے ذاتی فون کے نمبر ڈائيل کئے تهے۔ اس طرح دونوں کمروں کے درميان رابطہ قائم ہو گيا تها۔
پرائيويٹ فون پر جوليا کے علاوہ اور کس کی کال ہوتی۔ کيا تمہيں باہر جانا ہے۔” فياض نے پوچها۔” “نہيں تو۔”
“مگر تم نے ابهی کسی سے وعدہ کيا ہے۔”
آہا۔۔۔!” عمران نے جهينپتے ہوئے انداز ميں قہقہہ لگايا اور پهر بولا۔ “يار فياض يہ نہ جانے کون لڑکی ہے “خواہ مخواہ فون پر بور کيا کرتی ہے۔ کہتی ہے آ جاؤ۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔ آ جاؤ۔ پهر اس کے علاوہ ميں کيا کہوں کہ اچها
“!آ رہا ہوں
شايد ميرے دماغ کی خرابی ہی مجهے اس طرف لائی ہے۔” فياض بڑبڑايا۔”
قطعی قطعی سوپر فياض۔” عمران سر ہلا کر بولا۔ ” ميں کہتا ہوں کہ اگر تم صرف ايک ہی رات اس چهت “
“کے نيچے گزارو تو پاگل کتے بهی تم سے پناہ مانگنے لگيں گے۔ عمران پچهتاؤ گے کسی دن۔ يہ ميری وارننگ ہے۔” فياض اٹهتا ہوا بولا۔”
آخری وارننگ تو نہيں ہے سوپر فياض۔” عمران نے مضحکہ اڑانے والے انداز ميں پوچها۔” ليکن فياض اس کا جواب ديئے بغير باہر نکل گيا۔
عمران نے بہت احتياط سے دروازہ بند کيا اور پهر اس کمرے سے چلا آيا جہاں پرائيويٹ فون تها۔ اس نے جوليا کے نمبر ڈائيل کئے۔ دوسری طرف سے جلد ہی جواب ملا۔
“ميں نے ابهی آپ کو رنگ کيا تها جناب۔” جوليا نے کہا۔ ” صفدر پهر ہسپتال جا پہجچا ہے۔”
“مگر ميں نے منع کر ديا تها۔”
ميں اسے مطلع کرنا بهول گئی تهی جناب۔ معافی چاہتی ہوں۔ مگر اس وقت اس کی طرف سے ملی ہوئی اطلاع “
“اہم بهی ہو سکتی ہے۔
“ارے پوری بات بهی تو بتاؤ نا۔”
لڑکی کسی سے خائف معلوم ہوتی ہے۔ اپنے کمرے ميں بند ہو گئی ہے۔ کئی آدمی اس کا کمرہ کهلوانے کی “
“کوشش کر چکے ہيں ليکن انہيں ناکامی ہوئی ہے۔
“تب پهر کہ کيسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خائف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مر گئی ہو۔”
ميں نے بهی صفدر سے يہی سوال کيا تها۔ ليکن وہ کہتا ہے کہ لڑکی زندہ ہے اور وہ دروازہ کهول کر باہر “
“آنے سے انکار کر رہی ہے۔
“!اور کچه۔۔۔”
دروازہ کهلوانے والوں ميں ايک لڑکی بهی ہے جس کا تعلق ہسپتال سے نہيں ہے اور يہ لڑکی بهی غير ملکی “
“ہی ہے۔ صفدر اس کی قوميت کا اندازہ نہيں کر سکا۔
فکر نہيں۔ ساری دنيا کی عورتيں ايک ہی قوم ہيں۔” عمران نے کہا۔ “ميں نہيں سمجهی جناب۔”
کچه نہيں۔” عمران نے سلسلہ منقطع کر ديا۔”
وہ بحثييت ايکس ٹو ان سے غير ضروری گفتگو نہيں کر سکتا تها۔
وہ پهر اپنی نشست کے کمرے ميں آيا۔ کپڑے پہننے اور باہر جانے کے لئے تيار ہو گيا۔ اندهيرا پهيل چکا تها اور خنکی بهی بڑه گئی تهی۔
وہ اس حصے تک پيدل آيا جہاں کرائے پر گيراج لے رکها تها۔ گيراج ميں داخل ہو کر اس نے دروازہ بند کر ديا۔
پهر کار کی ڈگی سے وہ سوٹ کيس نکالا جس ميں ميک اپ کا سامان رہتا تها۔ تهوڑی دير بعد اس کے چہرے کی بناوٹ ميں خاصی تبديلياں نظر انے لگيں۔ اب وہ کار گيراج سے نکال رہا تها۔ گيراج کے چوکيدار اسے پہچانتے تهے اس لئے اس نے فلٹ ہيٹ کا گوشہ نيچے جهکا ليا تها اور کوٹ کے کالر کهڑے کر لئے تهے۔کار تيزی رفتاری سے امريکن مشن ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئی۔ عمران سوچ رہا تها کہ فياض کے آدميوں سے بہت بڑی حماقت سرزد ہوئی ہے۔ پتہ نہيں اس کا انجام کيا ہو۔ يہ تو کهلی ہوئی بات تهی کہ وہ کسی دوسرے کے لئے ہی کام کر رہی تهی۔۔۔ اور ايسے لوگ جو دوسروں کے لئے کوئی غير قانونی حرکت کرتے ہيں اگر پوليس کی نظروں ميں آ جائيں تو ان کی زبان کهلنے کے خوف سے کام لينے والا ان کی زندگيوں کے خواہاں ہو جاتا ہے۔
عمران نے کار کی رفتار تيز کر دی۔