کيپٹن فياض نے ايک طويل سسکاری لی اور نچلا ہونٹ دانتوں ميں دبا ليا ۔اسے چار آدميوں نے جکڑ رکها تها اور پانچواں اس کے انٹراوينس انجکشن دے رہا تها ۔۔۔ داڑهی والے انگريز کے ہونٹوں پر ايک شيطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تهی ۔ وہ قريب ہی کهڑا تها۔
تمہاری صحت بہت گگِرِر گئی ہے کيپٹن ! اس ليئے مجبور ہوں ، ميں نہيں چاہتا کہ دبلے ہوکر يہاں سے واپس جاؤ
۔
فياض کچه نہ بولا ۔۔۔۔ جيسے ہی سرنج کی سوئی باہر آئی وہ لوگ اسے چهوڑ کر ہٹ گئے ، ليکن وہ بے حس و حرکت کرسی پر پڑا رہا ۔۔۔ وہ سچ مچ کافی نقاہت زدہ نظر آنے لگا تها۔آنکهوں کے ِگردِگرد سياہ حلقے نماياں ہو گئے تهے اور شيو بڑها ہوا تها۔
انجکشن کے بعد جب وہ لوگ اسے چهوڑ کر ہٹ گئے تو اس نے سوچا کہ کيوں نہ اب ان سے ٹکرا ہی جائے حشر جو کچه بهی ہو ۔۔۔۔وہ سيدها ہوکر بيٹه گيا ، ليکن دوسرے ہی لمحہ ميں اسے ايسا محسوس ہوا جيسے اپنے پيروں پر کهڑا بهی نہ ہوسکے گا ، سارا جسم سنسناتا رہا اور پيروں ميں تو بالکل ہی قوت نہيں رہ گئی تهی۔ويسے حواس خمسہ پر يہ کيفيت اثر انداز نہيں ہوئی تهی، وہ سوچ سکتا تها ، اسے غغّصہّصہ بهی آسکتا تها ۔۔۔۔
وہ قہقہے بهی لگا سکتا تها ۔۔۔۔۔ ليکن نہ جانے کيوں وہ اب خود کو پہلے سے بهی زيادہ خوفزدہ محسوس کرنے لگا تها البتہ پہلے اس نے داڑهی والے انگريز کو برا بهلا کہا تها اور اسے چيلنج کيا تها ليکن اب اس ميں اتنی ہمت نہيں رہ گئی تهی کہ وہ اس سے آنکهيں ملا سکتا ۔ تم اس وقت بالکل شير کے بب ّچےّچے معلوم ہو رہے ہو، انگريز نے قہقہہ لگايا۔
ميرا مذاق مت اڑاؤ ۔۔۔۔۔ تمہيں اس کے ليئے پچهتانا پڑے گا۔فياض نے بدقت کہا۔ اٹهاؤ ۔۔۔ اسے ، انگريز غغ ّراياّرايا ۔ فياض نے خود اٹهنے کی کوشش کی ليکن ناکام رہا۔
چار آدميوں نے اسے اٹهايا اور پهر ايک آدمی نے اس کی بغلوں ميں ہاته ديئے ، وہ اسے وہاں سے لے جا رہے تهے۔فياض کی روح لرز گئی يہ تو وہی کمرہ تها جہاں اس نے پچهلی رات اندهی لڑکی کا خوفناک رقص ديکها تها۔
اس نے اس صوفے کی طرف ديکها جس پر پچهلی رات اس نے شاہد کی چيخيں سنی تهيں ، صوفے پر اس وقت بهی وہ رر ّسیّسی نظر آئی جس سے شاہد کو باندها گيا تها۔اندهی لڑکی بهی اس کمرے ميں موجود تهی، فياض کو وہ کمرہ گهومتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔۔۔ اس کا سر چکرا گيا تها۔ اس سے پہلے وہ کبهی اتنا خوفزدہ نہيں ہوا تها۔ جتنا اس وقت ہوگيا تها۔ صوفے پر گگِراِرا کے بانده دو۔ انگريز نے غغ ّراّرا کر کہا۔
“نہيں ۔۔۔۔۔ نہيں ۔۔۔۔۔۔ فياض چيخا ، تم مجهے نہيں مار سکتے ، ہرگز نہيں مار سکتے ۔۔۔۔ نہيں ۔
وہ چيختا ہی رہ گيا ، ليکن اس کے جسم ميں اتنی سکت نہيں رہ گئی تهی کہ وہ ان نے اس کام ميں دشوارياں ہی پيدا کر سکتا۔
اسے کسی بے بس بکری کی طرح صوفے پر گگِراِرا ديا گيا۔ اچانک اسی وقت مارتها اور صادق کمرے ميں داخل ہوئے۔ اوہ ۔۔۔ ڈيڈی ! “ مارتها خوفزدہ آواز ميں بولی۔
يہ کون ہے تيرے ساته ؟؟ انگريز دہاڑا ۔ فياض کو گگِراِرا کر باندهنے والے ان کی طرف متوجہ نہيں ہوئے تهے۔فياض بے ِحسِحس و حرکت پڑا ہوا آنے والوں کو گهور رہا تها۔ اوہ ۔۔۔۔۔ ڈيڈی ۔۔۔۔ يہ ہيں ميرے دوست ۔۔۔۔ مارتها ہکلائی ۔
خاموش رہو ۔ انگريز نے گرج کر کہا ، کتنی بار تم کو منع کيا گيا ہے۔ يہ ۔۔۔۔۔ يہ ۔۔۔۔۔ اچها آدمی ہے ۔
مجهے ديسی کتوں سے نفرت ہے۔
ميں آدمی ہوں مسٹر ۔۔۔۔ ذرا زبان سنبهال کے ، صادق نے غصيلے لہجے ميں کہا۔
پکڑ لو ۔۔۔۔ اسے بهی ۔۔۔، انگريز نے اپنے آدميوں کو للکارا۔صادق نے بڑی پهرتی دکهائی ليکن اندازے کی غلطی کی بناء پر چهلانگ لگاتے وقت اس کا پير ايک کرسی کے پائے سے الجه گيا۔
بس اس کا گرا تها کہ وہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑے ۔ صادق چاروں طرف سے جکڑ ليا گيا۔۔۔مارتها ہنس رہی تهی۔ ارے تم ہنستی ہو ، صادق دانت پيس کر بولا۔
“!پهر کيا کروں ۔۔۔۔! تم تو کہہ رہے تهے کہ مجهے کوہ قاف پر لے جاؤ گے ۔۔۔۔ وہاں مجه سے شادی کرو گے
“!ارے۔۔۔ يہ کتے کا پلا تم سے شادی کی خواہش رکهتا ہے”
ہاں۔۔۔ ڈيڈی۔۔۔ ذرا ديکهو تو۔۔۔ يہ کتے کا پلا!” مارتها اٹهلائی۔”
بس تو پهر يہ بهی ميرے غصے کا شکار ہو جائے گا۔ تم فکر مت کرو۔” انگريز بولا۔ پهر دفعتدفعتًاًا اس نے بلند “آواز ميں کہا۔ “کيپٹن موت کا ناچ شروع ہونے جا رہا ہے۔ اندهی لڑکی کا وار بہت کم خطا کرتا ہے۔ پچهلی رات تو تم آخری وار کا نظارہ کرنے کے لئے رکے ہی نہيں تهے۔ ورنہ اس اندهی آرٹسٹ کے کمال کی داد ديئے “!بغير نہ رہ سکتے۔ خير آج سہی۔آج تو خود تمہيں ہی يہ وار سہنا ہے۔ آج تم اچهی طرح داد دے سکو گے
نہيں نہيں! تم ايسا نہيں کر سکتے۔” فياض خوفزدہ سی آواز ميں چيخا اور پهر اسے اپنی بے بسی پر رونا آ گيا۔ “وہ کمزور دل کا آدمی نہيں تها۔ فوجی زندگی ميں بڑے بڑے معرکے جهيلے تهے! پچهلی جنگ عظيم کے دوران ميں سينکڑوں بار موت کے منہ ميں جانے سے بچا تها! ليکن آج کا خوف۔۔۔ ايسا خوف اسے پہلے کبهی نہيں محسوس ہوا تها۔ اس سے پہلے کبهی خود کو بے بس تصور کرنے کی نوبت نہيں آئی تهی۔۔۔ پهر کيا تها؟ کيا اسی انجکشن کا اثر جو کچه دير پہلے اسے ديا گيا تها۔
ميں ايسے ديسی کتوں کو معاف کرنا پسند نہيں کرتا جو ميری بيٹيوں کے چکر ميں پڑيں!” انگريز کہہ رہا تها۔ “اچانک صادق نے فياض کی طرف ديکه کر مارتها سے کہا۔ “کيا يہ حضرت بهی تمہارے عاشقوں ميں سے ہيں
!”
“بدتميز لڑکے خاموش رہو۔” انگريز دهاڑا۔ “تمہاری موت ہی تمہيں يہاں لائی ہے۔” کيا يہ خوبصورت لڑکی موت ہے!” صادق نے ہونٹوں پر زبان پهير کر کہا۔”
“چپ رہو۔!” وہ پهر گرجا۔ “موت کا ناچ ديکهو۔ يہ اندهی لڑکی بہت اچها ناچتی ہے۔” ميرے پاپا کہتے ہيں کہ محبت اندهی ہوتی ہے۔” صادق بڑبڑايا۔”
مگر يہ لڑکی موت ہے! نفرت ہے!” انگريز نے قہقہہ لگا کر کہا۔ “يہ ناچتے ناچتے ٹهيک اس کے دل کے “مقام پر خنجر پيوست کر دے گی! غور سے ديکهو! اور اس اندهی لڑکی کے کمال کی داد دو! اور کل تمہارا
“بهی يہی حشر ہوگا! تمہيں يہ اندهی محبت تمہارے گهر پہنچا دے گی۔
گرامو فون پر ريکارڈ بجنے لگا اور اندهی لڑکی خنجر چمکاتی ہوئی ناچنے لگی۔
کيپٹن فياض اس طرح چيخنے لگا جيسے اس پر “نہيں نہيں” کا دورہ پڑ گيا ہو! لڑکی ناچتی رہی۔۔۔ اور انگريز چيختا رہا۔۔۔ “کيپٹن فياض۔۔۔ خاموش رہو۔۔۔ فن کی قدر کرنا سيکهو۔ دہقان نہ بنو۔۔۔! اس لڑکی نے بڑی محنت سے يہ کمال حاصل کيا ہے اس کا دل نہ توڑو۔۔۔ لڑکی اگر تيسرے وار ميں خنجر اس کے دل ميں پيوست نہ ہوا تو
“!يہی تمہارے سينے ميں اتار ديا جائے گا۔ تم مجهے اچهی طرح جانتی ہو
لڑکی کچه کہے بغير ناچتی رہی اور فياض ديوانوں کی طرح چيختا رہا اور پهر يک بيک خاموش ہو گيا۔
کهچاک” کی آواز کے ساته خنجر اس کے سر کے قريب صوفے ميں پيوست ہو گيا تها۔ جيسے ہی لڑکی نے ” دوبارہ خنجر کهينچ کر ناچنا شروع کيا وہ پهر چيخنے لگا۔
صادق حيرت سے آنکهيں پهاڑے تماشا ديکه رہا تها۔ مارتها اب وہاں موجود نہيں تهی۔
اچانک صادق نے ايک فلک شگاف قہقہہ لگايا! آواز اتنی بلند تهی کہ تيز ترين موسيقی پر بهی حاوی ہو گئی۔ فياض چيختے چيختے خاموش ہو گيا اور انگريز بهی اسے گهورنے لگا۔ مگر اس کا قہقہہ تها کہ طويل ہی ہوتا جا رہا تها۔ اتنی لمبی سانس کسی کی بهی سمجه ميں نہ آ سکی! قہقہہ کسی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہ ليتا تها۔
خاموش رہو۔۔۔ خاموش رہو۔” انگريز چيخا۔ ليکن قہقہہ نہ رکا۔۔۔ دفعتدفعتًاًا ريکارڈ ختم ہو گيا اور پهر تو سناٹے ميں ” يہ قہقہہ بہت زيادہ بهيانک معلوم ہونے لگا! ريکارڈ دوبارہ نہيں لگايا گيا۔ اندهی لڑکی بهی رک گئی تهی۔خاموش رہو۔۔۔ خاموش رہو۔” انگريز پهر دهاڑا۔۔۔ اور پهر وہ لوگ بهی اسے جهنجهوڑ کر خاموش کرانے “
لگے، جو اسے پکڑے ہوئے تهے۔
دفعتدفعتًاًا صادق تڑپ کر ان کی گرفت سے آزاد ہو گيا! وہ لوگ دراصل اسی قہقہے کے جال ميں پهنس کر غافل ہو گئے تهے۔
صادق کی لات اس آدمی کے سينے پر پڑی، جو سب سے پہلے اس کی طرف جهپٹا تها۔ پهر ايسا معلوم ہونے لگا جيسے وہ ہوا ميں اڑ رہا ہو۔ اس کے پير زمين پر لگتے ہوئے معلوم ہی نہيں ہوتے تهے۔ بس ايسا لگتا تها جيسے وہ صرف ان کے سينوں پر پڑ رہے ہوں! اندهی لڑکی چيخ مار کر ايک جانب لڑهک گئی۔ کيونکہ اس بار کے سپاٹے ميں صادق نے اس کے ہاته سے خنجر چهين ليا تها۔
يک بيک صادق اسی طرح اچهلتا کودتا اور انہيں لاتيں رسيد کرتا ہوا بولا۔ “يہ ديکهو بيٹو۔۔۔ يہ ہے موت کا ناچ۔۔۔
“اگر ہمت ہو تو مجهے ناچنے سے روک دو۔
فياض بری طرح چونکا! کيونکہ اس بار صادق کی آوا ز بدلی ہوئی تهی! ہوسکتا ہے ان لوگوں ميں سے ايک آده کے پاس پستول يا ريوالور بهی رہے ہوں! ليکن انہيں اتنا ہوش نہيں تها کہ وہ ان کے استعمال کے متعلق سوچ سکتے۔
“صفدر۔۔۔! بلا ضرورت دخل نہ دينا!” صادق نے چيخ کر کہا اور کيپٹن فياض حلق پهاڑ کر چيخا “عمران”
ميں انہيں موت کا اصل ناچ دکها رہا ہوں سوپر فياض!” عمران نے اسی طرح اچهل اچهل کر لاتيں چلاتے ” ہوئے کہا۔
اوہ۔۔۔ پکڑو اسے!” يک بيک انگريز دهاڑا۔ پهر عمران نے اس کی جيب سے ريوالور بهی برآمد ہوتے ديکها۔ “ليکن دوسرے ہی لمحے عمران کی لات اس کے منہ پر پڑی اور وہ کراہ کر ڈهير ہو گيا۔ ريوالور اچهل کر دور جا پڑا جسے ايک آدمی نے اٹهانے کی کوشش کی۔ مگر عمران بجلی کی سی سرعت سے اس پر جا پڑا۔ اس بار اس کا خنجر والا ہاته بهی چلا تها۔ اس آدمی نے چيخ مار کر زمين پکڑ لی۔
ڈاکٹر گلبرٹ!” عمران اسی طرح اچهلتا ہوا بولا۔ “تم ميرے کمال کی داد نہيں دے رہے! دہقان نہ بنو بلکہ فن “
“کی قدر کرنا سيکهو! ورنہ ميں اسی طرح ناچتے ناچتے يہيں فنا ہو جاؤں گا۔
ايک بار عمران چوک ہی گيا اور اس کی ٹانگ ڈاکٹر گلبرٹ کے ہاته ميں آ گئی۔ وہ فرش پر ڈهی ہو گيا اور ڈاکٹر گلبرٹ سميت پانچ آدمی اس پر ٹوٹ پڑے۔ مار ڈالو۔۔۔ مار ڈالو۔۔۔!” گلبرٹ غرا رہا تها۔”
عمران ميں بالکل بے بس ہوں۔۔۔ مفلوج کر ديا گيا ہوں!” کيپٹن فياض نے پوری قوت سے چيخ کر کہا۔” پروا نہ کرو!” عمران کا جواب تها۔”
وہ لوگ حقيقتحقيقتًاًا نروس ہو گئے تهے اس لئے عمران پر گرتے وقت نہيں خيال نہيں رہ گيا تها ابهی عمران کے داہنے ہاته ميں خنجر موجود ہے! وہ تو انہيں اس وقت ہوش آيا جب ان کا ايک آدمی دونوں ہاتهوں سے پيٹ دبائے ہوئے بهينسوں کی طرح ڈکرا کر بائيں جانب لڑهک گيا۔ ان کی بوکهلاہٹ کی معراج تو يہ تهی کہ وہ
اپنے ساتهی کا حشر ديکه کر عمران سے خنجر چهيننے کی بجائے اسے چهوڑ کر ہٹ گئے! اور اس کی پہل ڈاکٹر گلبرٹ ہی سے ہوئی تهی! وہ ويسے بهی لڑائی بهڑائی والا آدمی معلوم نہيں ہوتا تها۔
اس بار ان کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی اس نے اس ريوالور پر قبضہ جما ليا جو ڈاکٹر گلبرٹ کی جيب سے برآمد ہوا تها۔
تم سب اپنے ہاته اٹها دو۔” عمران نے پيچهے ہٹ کر ديوار سے لگتے ہوئے کہا۔ اس کا لہجہ بے حد سرد تها ” اور اب اس نے اپنا موت کا ناچ بهی روک ديا تها۔
فياض نے کراہ کر کروٹ لينے کی کوشش کی! ليکن بندش ڈهيلی نہيں تهی! اس لئے اس ميں کاميابی کا سوال نہيں پيدا ہو سکتا تها۔
!کيا تم لوگوں نے سنا نہيں!” عمران نے گرج کر کہا اور انہوں نے اپنے ہاته اوپر اٹها ديئے”