(Last Updated On: )
اُردو افسانہ نےابتداء سے ہی معاشرے کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ وہ تمام واقعات جو کسی بھی معاشرے میں رونما ہو سکتے تھے افسانے میں در آئے ۔ شروع میں سجاد حیدر یلدرم نے رومانوی موضوعات پیش کیے۔ اپنے زاویۂ نگاہ کو اپنے افسانوں میں پیش کیا اور یوں افسانے کی ابتدا ہوئی ۔ٹھیک اسی دور میں جب سجاد حیدر یلدرم افسانے لکھ رہے تھے ہمارے سامنے پریم چند کی صورت میں ایک ایسا افسانہ نگار نمودار ہوتا ہے جو سماج کی تمام تر برائیوں کو پیش کرنے پر قدرت رکھتا ہے ۔ انہوں نے زیادہ تر غریب کسانوں ،سرمایہ دار اور جاگیرداروں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ غریبوں کی بے بسی اور امیروں کی ظلم و ستم کو اپنے افسانوں میں اس انداز سے پیش کرنے کی طرح ڈالی کہ اُن کے افسانے پڑھتے ہوئے دیہاتوں کے بود و باش اور ہریالے کھیتوں کی مہک محسوس ہوتی ہے۔اس کے بعد رومانوی افسانہ نگاروں میں مجنون گورکھپوری، حجاب امتیاز علی اور میرزا ادیب کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ان کے افسانے رومانیت کی ایک لہر بن کر ادب پر چھا گئے ۔ یہ وہ دور تھا جب ترقی پسند تحریک شروع ہونے والی تھی اور انگارے کی اشاعت نے ادبی دنیا میں ایک ہلچل مچا رکھای تھی۔ اسی طرح ترقی پسند افسانہ نگاروں میں سب سے پہلے احمد علی، رشیدہ جہاں ، محمود الظفر اور سجاد ظہیر کے نام آتے ہیں جن کے افسانے ‘‘انگارے’’ میں چھپ کر سامنے آئے لیکن ‘‘انگارے’’ کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔
ترقی پسند افسانہ اُس وقت بامِ عروج پر پہنچا جب کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، اوپندر ناتھ اشک، اختر انصاری، دیوندر ستیارتھی، اختر اورینوی، احمد ندیم قاسمی اور بلونت سنگھ جیسے شخصیات کے افسانے سامنے آئے۔ ان حضرات نے اُردو افسانہ نگاری میں غریبوں، مفلسوں، بیواؤں، یتیموں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں حتیٰ کہ ظلم کی جتنی بھی داستانیں تھیں رقم کرلی۔ اس دور کو ترقی پسند افسانے کا عہدِ زرین بھی کہا جاتا ہے۔ کرش چندر ، بیدی اور عصمت کے افسانے اس گھسے پٹے سماج کی عکاسی کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں اپنی دھاگ بٹھا چکے تھے۔ عصمت چغتائی کو تو افسانہ ‘‘لحاف’’ پر کورٹ کچہری کے چکر بھی کاٹنے پڑے تھے۔ لیکن نہ انہوں نے حوصلہ ہارا اور نہ اُن کی قلم رُکی۔ احمد ندیم قاسمی نے فسادات کو اپنا موضوع بنایا۔ تقسیم کے بعد ہجرت کرنے والوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ۔ عورتیں بیوہ ہو گئیں، بچے یتیم ہو گئے ، بڑے بڑوں کی پگڑیاں اُچھالی گئیں۔ ان تمام واقعات کو احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد افسانہ نگاری کا جودور آتا ہے اُن میں منٹو ، غلام عباس، عزیز احمد، ممتاز مفتی، محمد حسن عسکری، شیر محمد اختر، امجد الطاف، شفیق الرحمن اور قدرت اللہ شہاب کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ ان افسانہ نگاروں میں سب سے اہم افسانہ نگار منٹو ہے منٹو نے فسادات سے متاثرہ افراد کی کہانیوں کو سمیٹا اور اُن پر قلم اُٹھا کر معاشرے کی بد مزاجیوں کو بے نقاب کرانے کی کوشش کی۔ منٹو ایک ایسا افسانہ نگار کی صورت میں نمودار ہوا جن کے قلم کی بے باکی کی وجہ سے اُن پر کیسز بھی ہوئے جس کی وجہ سے اُنہیں خاصی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کے موضوعات میں تقسیم کا حوالہ سب سے زیادہ مضبوط ہے۔اس حوالے سے ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کھول دو اہم افسانے ہیں۔ بطورِ خاص ٹوبہ ٹیک سنگھ ان کا ایسا افسانہ ہے جو تقسیم سے متاثرہ افراد کی ذہنی اذیت کی وضاحت کرتی ہے۔
آزادی کے بعد کے افسانہ نگاروں میں قرۃ العین حیدر، اشفاق احمد، انتظار حسین، رام لعل، اے حمید، شوکت صدیقی اور احسن فاروقی اہم نام ہیں۔ اس آزادی میں ہندو مسلم فسادات رونما ہوئےجن سےہزاروں لوگ بے گھر ہو گئےاور لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ خون کی یہ ہولی دیکھ کر دیگر مکتبۂ فکر کے لوگوں کےساتھ ساتھ افسانہ نگاروں نے بھی قلم اُٹھایا ۔ ان کے افسانے کے موضوعات معاشرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے کردار اسی معاشرے سے متعلق تھے جن میں وہ رہ رہے تھے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے دور کی عکاسی اپنے افسانوں کے ذریعے سے کی۔اور جب حقائق کو آشکارہ کرنے پر پابندی لگ گئی تو علامتی افسانہ معرض وجود میں آیا۔ علامتی افسانہ نگاروں میں انور سجاد، خالدہ حسین، رشید امجد، مرزا حامد بیگ، بلراج کومل اور عرش صدیقی کے نام قابل ذکر ہیں۔
اُردو افسانے میں مرد افسانہ نگاروں نے جتنا نام کمایا اور ہر قسم کے موضوعات کی پردہ فاشی کی اُتنا ہی خواتین افسانہ نگاروں نے بھی اپنی حیثیت منوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان خواتین افسانہ نگاروں میں سب سے پہلا نام عصمت چغتائی کا ہے جن کا سرسری ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آزادی کے بعد جو خواتین افسانہ نگار سامنے آتی ہیں اُن میں قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، ممتاز شیریں، جمیلہ ہاشمی، بانو قدسیہ، الطاف فاطمہ، جیلانی بانو، رضیہ فصیح احمد، فرخندہ لودھی، سائرہ ہاشمی، سیدہ حنا، رشیدہ رضویہ، واجدہ تبسم، عذرا اصغر، خالدہ حسین اور زاہدہ حنا کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان افسانہ نگاروں میں زیادہ تر نے عورتوں کے مسائل پر قلم اُٹھایا۔ گھر کے ماحول میں پرورش پانے والی عورتوں کے مسائل کو تو صرف عورت ہی صحیح طرح سے سمجھ سکتی ہیں اس لیے انہوں نے اس سے پورا فائدہ اُٹھایا اور اپنے افسانوں میں ایسے کردار پیش کیے جو ہمارے سماج کی تمام تر برائیوں اور اچھائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خواتین افسانہ نگاروں نے نہ صرف موضوعاتی لحاظ سے بلکہ فنی حوالے سے بھی اپنے افسانوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
اکیسویں صدی کے خواتین افسانہ نگاروں میں ایک نام زیب النساء زیبی ؔ کا بھی ہے جنہوں نے اپنے افسانوں میں مختلف موضوعات پیش کیے ہیں۔ ان کی کلیات ‘‘ عکسِ زندگی’’ ۲۰۱۴ء میں منظر عام پر آئی جس میں میں کل سات مجموعے ہیں۔ ان کے مجموعوں میں ‘‘ڈبل ہیروئن’’، ‘‘ادھوری عورت’’، ‘‘وہ پھول تھی یا بھول’’، ‘‘جھوٹی کہیں کی’’ ، ‘‘پیاری آپی’’، ‘‘شہ رگ پہ خنجر’’ اور ‘‘دیس پر دیس ہوا’’ شامل ہیں۔ ان کلیات میں ناولٹ بھی شامل ہیں لیکن افسانوں کی تعداد زیادہ ہے۔
موضوعاتی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ان کے افسانوں میں ہر طرح کے موضوعات ایک دوسرے کے ساتھ پیوست نظر آتے ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر غریب گھرانوں کی لڑکیوں کی داستانیں رقم کی ہیں۔ یہ وہ لڑکیاں ہیں جو شادی کے انتظار میں اپنی جوانی گنوا بیٹھتی ہیں اور کہیں کہیں پر اس انتظار میں کبھی کوئی ایسا قدم اُٹھا لیتی ہے جو نہ صرف اُن کی زندگی کو بلکہ اُن کے خاندان کو بھی شرم سے زمین میں گاڑھ دیتی ہے۔ اس قسم کے افسانوں میں انہوں نے ہمارے معاشرے کے اس رُخ کو بے نقاب کیا ہے کہ جب لڑکے والے جہیز کے لیے ایک لمبی لسٹ تیار کرکے لڑکی والے کو دے دیتے ہیں اور اُنہیں در در کی ٹوکریں کھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ جہیز جیسی لعنت ہمارے معاشرے کو دھیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اور اسی نفرت نے ہزاروں جوان لڑکیوں کو اپنے ہی گھر میں بڑھاپے تک پہنچا دیا ہے۔ زیب النساء زیبی نے بھی اسی موضوع کو زیر غور لا کر اپنے افسانوں میں مختلف کرداروں کی بے بسی اور لاچاری کا نوحہ لکھا ہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانوں میں دنیا کے روپ نرالے، افلاس کے سائے، مخمل میں ٹاٹ کا پیونداورخانہ بدوش اہم افسانے ہیں۔ ان افسانوں میں نہ صرف جہیز بلکہ اُن غریب لڑکیوں کی داستان بھی بیان کی گئی ہے جو امیر گھرانے میں بیاہ دی جاتی ہے اور پھر تمام عمر غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا جاتا ہے اور ان کے مسائل کو سمجھنے کے بجائے اُنہیں طرح طرح کے معاشرتی زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے جس سے اُنہیں رسم و رواج کی پابندیوں تلے دب کر زندگی گزارنی پڑتی ہے۔زیب النساء زیبی نے ایک طرح سے عورتوں کے لیے ہی افسانہ لکھا اُن کے افسانوں کے زیادہ تر کردار خواتین ہی ہیں جو معاشرے میں پروان چڑھتی ہوئی برائیوں کی زد میں آجاتی ہیں۔
اس کے علاوہ ان کے موضوعات میں جو سب سے بڑا حوالہ ہے وہ جنس کا ہے۔ جنس جو انسان کی ضروریاتِ زندگی میں سب سے اہم ضرورت ہے اور اسی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر زیب النساء زیبی نے اپنے افسانوں میں جنسی حوالے تراشے ہیں۔ جنسی حوالے سے ان کے افسانے عصمت کی طرح بے باک تو نہیں ہیں لیکن کہیں کہیں پر ایسے افسانے دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں بعض کردار زندگی کے عیش و آرام ڈھونڈنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ان افسانوں میں ایسی خواتین جگہ جگہ پر دیکھی جا سکتی ہیں جو جنسی لذت سے آشنا ہو کر تمام عمر گناہ کی دلدل میں گزار لیتی ہیں۔ ان میں بعض ایسے افسانے بھی ہیں جن میں جنسی ارتکاب کے بعد احساسِ گناہ لیے ہوئے کردار نظر آتے ہیں ۔ محبت کے جھوٹے وعدے اور ان وعدوں کے پس منظر میں جنسی پیاس بجھانے کی ہوس رکھنے والے بعض مرد عورتوں کے گھر اُجاڑ دیتے ہیں ، اُن کے جذبات کے ساتھ کھیل کر اُنہیں ایسا زخم دے جاتے ہیں جو ساری زندگی ایک داغ کی طرح عیاں ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ داغ ‘‘احساس کے زخم’’، ‘‘سازش’’، ‘‘پتھر کا بت’’،‘‘رفعت’’، ‘‘انقلاب انقلاب’’،‘‘بیوٹی کوئین’’، ‘‘مرد بچہ’’، ‘‘گرداب’’، ‘‘قدرت کا انتقام’’اور ‘‘پھول بنے انگارے’’ جیسے افسانوں کے کرداروں کے وجود پر مجبوری و بے بسی کی داستان بن کر ابھرتے ہیں۔ ان افسانوں میں ‘‘پتھر کابت’’ میں یورپ کے کلچر کی عکاسی کی گئی ہے کہ مرد و عورت اپنی جنسی پیاس کہیں بھی بجھا سکتے ہیں اس کے لیے شادی کرنا کوئی شرط نہیں جس طرح کہ اس افسانے میں ایک شادی شدہ مرد پارک کے جھاڑیوں میں ایک عورت کے ساتھ بغلگیر ہوتا ہوا نوراں کو دکھائی دیتا ہے۔ جو اس کا داماد ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ‘‘ڈبل ہیروئین’’ میں ایک پیشہ ور عورت کی داستان بیان کی گئی ہے کہ دولت کی لالچ میں اپنی پوری زندگی برباد کر دیتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ افسانہ‘‘قدرت کا انتقام’’ میں ناجائز جنسی تعلقات کی وجہ سے پشت در پشت گناہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔افسانہ ‘‘رفعت’’ میں بھی ایک ایسی عورت کی کہانی لکھی گئی ہے جو دولت کے حصول کے لیے اپنا جسم تک بیچ دیتی ہے۔ طرح طرح کے لوگوں سے ملنا اور اُن کو اُکسا کر پیسہ بٹورنا اس افسانے کے کردار کا خاصا ہے۔ ان جیسے لوگ ہمارے معاشرے پر ایک بدنما داغ بن جاتے ہیں اور جوانی کے گزرنے کے بعد اُن کی زندگی کی چمک دمک ختم ہوتے ہی تنہائی اور مایوسی کی نذر ہو جاتی ہے۔ افسانہ ‘‘انقلاب انقلاب’’ میں ایک بہن ایک مجبور بھائی کے ہاتھوں رات کے اندھیرے میں جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتی ہے اور صبح خود کشی کر لیتی ہے۔ ایسی ہزاروں داستانیں ہمارے معاشرے میں آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ زیب النساء زیبی نے بھی ان واقعات کو اپنے اندر محسوس کیا تبھی تو ان کے افسانوں میں ان واقعات کے ساتھ ساتھ ان کے احساسات کی ترجمانی کرتی ہوئی ان عورتوں کے درد لکھتی رہی ہیں۔ ان کے افسانے اُن تمام خواتین کی زندگی کی داستان ہیں جو رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جوانی باپ کے گھر گزار لیتی ہیں۔ جنسی درندگی کی شکار خواتین اپنی بے بسی کا نوحہ زیب النساء زیبی کے افسانوں میں دیکھ سکتی ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے ایسی لڑکیوں کی داستان بھی رقم کی ہے جو اپنے عمر سے بڑے مردوں کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہیں اور اُن کی پوری زندگی ایک بھیانک رات کی طرح ڈر ، خوف اور احساس کمتری کی نذر کر دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ‘‘بیوٹی کوئین’’ ان کا اہم افسانہ ہے ۔ جس میں ‘‘نیناں ’’ کا رشتہ اپنی ماں کے اس منگیتر سے کرایا جاتا ہے جس کے ساتھ ان کی ماں کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔ اس حالت میں ‘‘نیناں ’’ کی زندگی کے شب و روز بے بسی میں گزرتے ہیں۔ اس افسانے میں معاشرے کی اس تلخ حقیقت کو آشکارا کیا گیا ہے کہ دولت کی حرص یا کسی اور مطلب کے لیے اپنی بیٹیوں کو اُس کے باپ کی عمر کے مرد کے ساتھ بیاہنا کہاں کا انصاف ہے۔ آئے روز ہمارے معاشرے میں اس قسم کے واقعات دیکھے جا سکتے ہیں اور زیب النساء زیبی نے اپنے تجربے، مشاہدے اور عمیق مطالعے سے ان تمام حقائق کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔
اس کے علاوہ ‘‘پونم کی رات’’ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں پونم کو اُکسا کر ماں کی صحت کا لالچ دے کر اور‘‘پونم کی رات’’ کا انتظار کروا کر اُسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ اُس لڑکیوں کی کہانی ہے جو لوگوں کے جال میں پھنس کر اپنی عزت گنوا بیٹھتی ہیں۔ دھوکہ اور فریب دے کر عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنا بعض لوگوں کی عادت بن چکی ہوتی ہے اور یہی عادت ‘‘پونم ’’ کو زندگی سے دور موت کے دروازے پر لا کھڑا کر دیتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں کا جو سب سے بڑا موضوع ہے وہ غربت میں پلے طبقے لوگوں کی کہانی ہے۔ یہ کہانی کار نہ صرف اُن غریبوں کا دکھ بانٹتی ہیں بلکہ اُن کا دکھ پوری دنیا کو دکھانے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ غربت کی چکی میں پھسے ہوئے طبقے کے مسائل کو بیان کرکے اُن لوگوں پر طنز کے تیر بھی برساتی ہیں جو ان غریبوں کا خون چوس کر بڑے غرور سے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے افسانوں میں ‘‘سچائی’’، ‘‘دنیا کے روپ نرالے’’، ‘‘راز’’، ‘‘افلاس کے سائے’’، ‘‘کرپشن کا سیلاب’’، ‘‘طلاق یافتہ فارنر’’، ‘‘انقلاب انقلاب’’، ‘‘دیر ہے اندھیر نہیں’’اور‘‘تپتا سایہ’’ غربت و افلاس کے مارے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ ان افسانوں میں غریبوں کے ساتھ کیے گئے ناروا سلوک کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کےساتھ ساتھ اُن سرمایہ داروں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے جو لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے اُنہیں ذلت و پستی کے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے علاوہ حکومت کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ وہ اپنے عوام کی خوشحالی اور اُن کی غربت کو ختم کرنے کے لیے سامان مہیا کریں۔ لوگوں کو روزگار دیں تاکہ وہ غلط راہوں پر چلنے کے بجائے اپنی زندگی کو عزت کے ساتھ گزاریں۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے زیب النساء زیبی نے ان افسانوں میں حکومت پر بھی طنز کے تیر برسائے ہیں۔ سرکاری اداروں میں تعینات افسران چوری ، لوٹ مار اورکرپشن کرکے عوام کے منہ سے اُن کا نوالہ چھینتے ہیں۔ ‘‘کرپشن کا سیلاب’’ میں خودکشی کرنے والے افراد اور بھوک سے بلک بلک کر مرنے والے بچوں کی تصویرں جگہ جگہ پر دکھائی دیتے ہیں اور اس پر افسران ایکشن لینے کے بجائے انسپکٹر کو دھمکی دیتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سرکاری افسران کی چوری اور کرپشن ہی کی وجہ سے امدادی سامان غریبوں تک بر وقت نہ پہنچنے کے باعث بھوک سے نڈھال ہو کر یا تو خودکشی کر گئے یا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگئے۔ زیب النساء زیبی کے افسانوں میں جگہ جگہ پر طنزکے نشتر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو امیر لوگوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا افسانہ‘‘ دنیا کے روپ نرالے’’ میں جہیز کے لیے سامان اکٹھا کرنے والی لڑکی مختلف فلاحی اداروں اور بڑے بڑے امیر لوگوں کے سامنے جھولی پھیلاتی ہیں تو اُن کو ہرجگہ سے دھتکار ہی ملتی ہے کہیں پر کوئی بھی ان کی مدد نہیں کرتا۔ اس افسانے میں زیب النساء زیبی نے ایسے کئی کردار تراشے ہیں جو مدد کرنے کے بجائے اپنی امیری کی دھاگ بٹھانےکی کوشش کرتے ہیں۔
زیب النساء زیبی نے اُن تمام موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے جو ہرگلی اور ہر شہر میں آئے روز رونما ہوتے ہیں۔ اُن تمام واقعات کو زیر غور لایا گیا ہے جو زندگیوں کے چراغ گل کر جاتے ہیں اور بے شمار لوگوں کو آنسوؤں کے سیلاب بہانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ان کے موضوعات چاہے جنس ہو، غریبی ہو ، بے بسی ہو، سرمایہ دارانہ نظام کے پروردہ لوگ ہوں ، رہزنی ہو، خوشی ہو یا غم ہو بڑے قرینے سے پیش کیے گئے ہیں۔ ہر موضوع ایک دوسرے کے ساتھ ایسا جڑا ہوا ہے کہ افسانہ پڑھنے کے بعد سارے راز افشاں ہو جاتے ہیں۔ غربت ایک ایسی موضوع ہے جس سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں کئی لوگ یا تو غلط راستوں پر چل کر دوسروں کا خون کر جاتے ہیں یا خود ہی یا تو قانون کی گرفت میں آکر یا کسی کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ صحیح سمت اور صحیح راستہ متعین کرکے محنت کرنے والے لوگ بہت کم ہی معاشرے میں ملتے ہیں اور ایسے لوگ خود بھی عزت سے رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی عزت دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ ‘‘مزدور’’ نہایت اہم ہے جس میں فیضی بے بس مزدوروں کو مالک کے چنگل سے چڑانے کی کوشش کرتی ہے۔ اُن کا باپ تو مر گیا لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ دوسرے مزدور بھی خراب مشین کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں۔ اس لیے اُن کی کوششیں رنگ لاتی ہیں اور اُنہیں انصاف مل جاتا ہے۔
فکری حوالے سے زیب النساء زیبی کے افسانوں میں معاشرتی برائیوں پر ہر طرح کے سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔ اُن کے افسانوں کے موضوعات ہمارے ہی معاشرے سے اخذ شدہ ہیں۔ معاشرے میں پھیلی برائیوں نے عوام کے ذہنوں کو جھنجوڑ کر دکھ دیا ہے۔ انہی برائیوں کی وجہ سے اسی ماحول میں پرورش پانے والے ہر فرد کی زندگی کو اجیرن بن گئی ہے۔ زیب النساء زیبی نے معاشرے کے اُتار چڑھاؤ، تہذیبی اقدار، روایات، رسوم و رواج کے تحت ایسے افسانے تخلیق کیے ہیں جس میں نہ صرف ہر طرح کے مسائل پر بات ہوئی ہے بلکہ اُن مسائل کے حل کے لیے کہیں کہیں پر تجاویز بھی ملتے ہیں یوں ان کے افسانے موضوعاتی حوالے سے پورے معاشرے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زیب النساء زیبی اپنے دور کی بہترین افسانہ نگاروں کی فہرست میں شامل ہونے کا حق رکھتی ہے۔
فنی حوالے سے زیب النساء زیبی کے افسانوں کو پڑھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ انہوں نے تمام تر فنی لوازمات کو اپنے افسانوں میں بروئے کار لاتے ہوئے افسانہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار اد اکیا ہے۔ سب سے پہلے اگر ان کے افسانوں میں پلاٹ کا تذکرہ کیا جائے تو تمام افسانوں میں کہانیاں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے جڑے ہوئے ہیں جیسے تسبیح کے دانے ۔ انہوں نے کہانی لکھتے وقت کرداروں کے واقعات کو بیان کرنے میں بڑی مہارت سے کام لیا ہے ان کی اس مہارت کی وجہ سے افسانہ کا پلاٹ کہیں پر بھی ڈھیلا نہیں پڑتا کہ قاری افسانے کی مرکزی کہانی سے ہٹ کر کہیں اور کھو جائے۔ پلاٹ جو کہانی کی بنیاد ہوتا ہے اور ہر واقعے اور ہر کہانی کے لیے کوئی نہ کوئی پلاٹ ضرور ہوتا ہے جس پر پوری کہانی اپنی عمارت بنا ڈالتی ہے۔ اسی طرح زیب النساء زیبی نے بھی اپنی افسانوں کے لیے پلاٹ چنے ہیں اور پھر اُسی پلاٹ پر کہانی رقم کرتی چلی گئیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں کہیں پر بھی ایسا نہیں کیا کہ کسی کہانی کو بیان کرتے کرتے دوسری کہانی شروع کر دی اور مرکزی کہانی کو نظر انداز کیا گیا۔بلکہ کہانی اپنی ابتداء سے لے کر آخر تک کردار اور واقعات کے ساتھ ایسی جڑی ہوئی ہے کہ پلاٹ کی کمزوری کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ان کے افسانے پلاٹ کے لحاظ سے مکمل افسانے گردانے جا سکتے ہیں۔
پلاٹ کے ساتھ ساتھ زیب النساء زیبی نے جو کردار تراشے ہیں وہ بہت ہی جاندار اور اعلیٰ کردار ہیں۔ یہ کردار اپنے دور کے حقیقی کرداروں کی صورت میں پیش کیے گئے ہیں۔ جن میں غریب اور بے بس کردار، ظالم کردار، ہمدرد کردار، دکھ جھیلنے والے، دکھ بانٹنے والے، دکھ دینے والے اور بعض ایسے کردار بھی ہمارے سامنے آتے ہیں جو کہانی میں فقط نام کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں لیکن ایسے کردار بہت کم ہیں۔ مرکزی کرداروں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو انہوں نے اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ کرداروں کو سماجی، معاشرتی اور نفسیاتی حوالے سے مکمل پیش کیے ہیں۔ ہر کردار کوان کے ماحول کے ساتھ جڑا ہوا دکھایا گیا ہے اور اُس ماحول پر اس کا اثر کس قدر زیادہ ہے یا کم ہے یہ ان کے افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ان کے اہم کرداروں میں نازش، اکبر احمد، شاد، شہناز، شیرازی، شہلا، زرتاب، ندا یمنیٰ، رفعت، زہرہ، شہزا، افشاں، اعظم، لالہ اکرام، آفتاب، درخشاں، ڈاکٹر رشید، سردار شاہ، نوراں، انسپکٹر شان ملک،شہنیلہ، رخسانہ، محمد فقیر شاہ، سلمیٰ فقیر شاہ کی بہن،شہلا احمد، نیناں، نورین، پونم، نسرین، نورین باجی،عابد صاحب، ثریا، ندا اُفق اور فیضی شامل ہیں۔ یہ ان کے افسانوں میں مرکزی کرداروں کی صورت میں ابھرتے ہیں جو سماجی برائیوں سے یا تو نبردآزما ہوتے ہیں او ریا ان برائیوں کی وجہ بنتے ہیں۔ انہوں نے معصوم کردار بھی تراشے ہیں جنہیں پڑھ کر قاری کے دل میں ان کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھرتے ہیں اور بعض ایسے کردار بھی پیش کیے ہیں جو معاشرے میں ظلم کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ زیب النساء زیبی نے اپنی کرداری نگاری کا کمال وہاں پر دکھایا ہے جہاں انہوں نے جنسی لذت سے آشنا کرداروں کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے ان کرداروں کو پیش کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ کیسے یہ کردار جنسی ارتکاب کی طرف راغب ہوئے اور پھر اس دلدل میں پھنستے چلے گئے ۔دولت اور شہرت کے دلدادہ کردار بھی ان کے ہاں ملتے ہیں ۔ لیکن ان کے ہاں جو سب سے جاندار کردار ہیں وہ معاشرے میں پروان چڑھنے والے جہیز جیسی لعنت کے بھینٹ چڑھے ہوئے کردار ہیں جو در در کی ٹوکریں کھا کر جہیز کا سامان پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کرداروں کے ساتھ قاری کی ہمدردیاں تب بڑھنے لگتی ہیں جب ہر طرف سے دھتکار ان کا مقدر بن جاتی ہیں ۔ زیب النساء زیبی افسانہ لکھتے ہوئے اس میں کرداروں کی قدر و قیمت کو نظر انداز نہیں کرتی اور کردار تراشتے ہوئے ایسے کردار نگاری کرتی ہیں کہ افسانے کا ہر فرد ہمارے معاشرے کا ستایا ہوا فرد دکھائی دیتا ہے۔ کردار نگاری کے حوالے سے ان کے افسانے آج کے دور کی عکاس افسانے ہیں۔ اور ہر کردار کا نوحہ حقیقی زندگی کے پسماندہ افراد کا نوحہ ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے اپنے افسانوں میں مکالموں سے جو کام لیا ہے وہ بھی بڑا جاندار ہے۔ ان کے مکالمے سلیس اور سادہ زبان میں ہے ۔ اور جو سب سے خاص بات زیب النساء زیبی کے افسانوں میں ہے وہ عورتوں کے مکالمے ہیں۔ چونکہ وہ خود ایک عورت ہے اس لیے عورتوں کے نفسیات کو پوری طرح سمجھتی ہیں۔ تبھی تو وہ اتنے جاندار اور خوبصورت مکالمے اپنے کرداروں سے کہلوا لیتی ہیں۔ ان کے بعض افسانے تو ایسے ہیں جو شروع سے اخیر تک مکالمے ہی مکالمے ہیں ۔ ان افسانوں میں انہوں نے مکالماتی تکنیک سے کام لیا ہے۔ اس تکنیک پر انہیں خاصا عبور ہے اس لیے تو انہوں نے ‘‘نو ویکنسی’’ اور ‘‘ ایک بہن اور نیٹ’’ جیسے افسانے تحریر کیے۔ ان افسانوں میں دو کردار ہوتے ہیں جو آپس میں برقی مکالمے کرتے ہوئے پیش کیے گئے ہیں۔ اور ان مکالموں ہی کی وجہ سے ان کرداروں کے تمام تر نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان کے افسانوں میں بچوں کے مکالمے، عورتوں کے مکالمے، مردوں کے مکالمے، ڈاکٹر اور مریضوں کے مکالمے، پولیس کے مکالمے یہاں تک کہ سیاستدانوں اور بڑے بڑے افسروں کے مکالمے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مکالموں میں انہوں نے ایک خاص کمال یہ کیا ہے کہ ہر کردار کی عمر اور حیثیت کے مطابق ان سے مکالمے کہلوائے ہیں۔ زرتاب سے اور شہلا سے ایسے مکالمے کہلوائے ہیں جو معاشرے میں مدد مانگنے والے مجبور کرداروں کے ہاں ملتے ہیں اور ہارون صاحب، رحمان صاحب اور نقوی صاحب کے مکالمے اس ذہنیت کے پروردہ لوگوں کی عکاسی کرتے ہیں جو مدد بھی نمائش کے لیے کرتے ہیں۔مکالموں کے حوالے سے ان کے افسانے ہر طرح سے مکمل اور جامع ہیں۔ ان کے مکالمے شستہ ہیں، اسلوب نہایت سادہ اور دلکش ہے۔ مکالموں کا انداز انوکھا ہے اور اس میں زیب النساء کے تجربے ، مشاہدے اور عمیق مطالعے کا بڑا ہاتھ ہے۔
افسانے کو جو چیز سب سے زیادہ دلکش اور قابل توجہ بناتی ہے وہ تجسس اور جستجو ہے۔ تجسس افسانے کی جان ہوتی ہے اور کسی بھی قاری کو اپنی طرف اس کرنے کے لیے افسانے میں تجسس سے کام لیا جاتا ہے۔ زیب النساء زیبی کا ہر افسانہ تجسس سے بھرا ہوا ہے۔افسانہ شروع کرنے کے بعد قاری اس کے منظر میں ایسا کھو جاتا ہے کہ وہ پورا افسانے پڑھتے ہی دم لیتا ہے۔ افسانے کے واقعات ، کردار اور ان کرداروں کے مابین گفتگو کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ ہر لمحہ تجسس بن جاتا ہے ۔یہ تجسس ان کے افسانوں میں عنوان سے شروع ہو کر واقعات اور پھر کرداروں کے حالات اور ان حالات کاا اُن پہ اثر تک قائم رہتا ہے اور افسانے کے اختتام تک برقرار رہتا ہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانے احساس کا زخم، سچائی، دنیا کے روپ نرالے، قتل، افلاس کے سائے، لاٹری، تشکر کے آنسو، ادھوری عورت، انقلاب انقلاب، وہ پھول تھی یا بھول، بیوٹی کوئین، پونم کی رات، دیر ہے اندھیر نہیں، انتظار، فیصلہ، غلطی، جھوٹی کہیں کی، تپتا سایہ اور سپنوں کی رات اہم افسانے ہیں جن کے واقعات اور کردار دونوں تجسس سے بھرے ہیں۔ بطورِ مجموعی زیب النساء زیبیؔ کے افسانوں میں ہر لمحہ تجسس بھرا ہوا ہے اور اسی تجسس ہی کی بدولت ان کے افسانے دورِ حاضر کے اچھے افسانوں میں اپنا مقام حاصل کر چکی ہیں۔
زیب النساء زیبی کے افسانوں میں اسلوب پر بات کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اُن کا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے جہاں پر خالص اُردو بولی جاتی ہے اور اس لحاظ سے وہ اہل زبان بھی ہے۔ جس کا سب سے بڑا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ وہ جو بھی بات کرتی ہے وہ نہایت ہی آسانی سے سلیس اور رواں الفاظ میں کہہ سکتی ہیں۔ تبھی تو ان کے افسانوں میں زبان مٹھاس سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ انہوں نے الفاظ سے مرقعے بنائے اور پھر ان مرقعوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ الفاظ سے منظر تراشے اور پھر ان مناظر میں الفاظ ہی سے رنگ بھرے ہیں۔ وہ جس منظر کو بھی پیش کرنا چاہتی ہے آسانی سے پیش کرتی ہیں ۔ کبھی کبھی رمز و ایمائیت سے بھی کام لیتی ہیں اور کبھی اپنی بات تشبیہات اور استعارات میں کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسلوبیاتی حوالے سے انہوں نے اپنے افسانوں میں خاصی محنت کی ہے ۔ متن کے علاوہ ان کے مکالموں میں بھی ان کا اسلوب بڑا جاندار ہے۔ اکثر جگہوں پر سادہ اور آسان الفاظ میں اپنی بات کہہ ڈالتی ہے اور وہ الفاظ قاری کے ذہن میں ایسے گھر کر جاتے ہیں کہ افسانہ مدتوں تک یاد رہتا ہے اور ان افسانوں کا ہر جملہ ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔ ان کی زبان سادہ ہے لیکن اس قدر سپاٹ بھی نہیں کہ افسانے کا رنگ پھیکا پڑ جائے بلکہ اتنی شیریں ہے کہ افسانہ پڑھتے ہوئے قاری اس ماحول میں قدم رکھ دیتا ہے جس ماحول کا ذکر افسانے کا موضوع ہے۔
زیب النساء زیبی کے افسانے فنی اور فکری دونوں حوالوں سے اس دور کے اہم افسانے ہیں انہوں نے معاشرے کے تمام حالات کا بغور جائزہ لیا اور اپنے مشاہدے کے زور پر کرداروں پر پیش کرتے ہوئے جاندار مکالمے کہلوائے اور زبان کی شائستگی سے اپنے موضوعات کوچار چاند لگا دئیے ہیں۔ زیب النساء زیبی اس دور کے افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے جن کے افسانوں میں آنے والے محققین کے لیے تحقیق کے نئے نئے موضوعات ملیں گے۔ فنِ افسانہ نگاری میں دورِ حاضر کے بڑے افسانہ نگاروں میں زیب النساء زیبی نے اپنا نام بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے اورانہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اعلیٰ پائے کی افسانہ نگار کہلائیں۔