ادبی تحقیق
لسانیاتی تحقیق کے علاوہ مسعود حسین خاں نے شعر و ادب سے بھی دل چسپی لی اور اسلوبیاتی تنقید کے میدان میں بھی کا رہائے نمایاں انجام دیے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ادبی تحقیق اور تدوینِ متن کے بھی جوہر دکھائے۔ ان کی ادبی تحقیق کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں، تاہم انھوں نے پریم چند (1880-1936)کے ناولوں کے اردو ترجموں بالخصوص ’گودان‘ کے اردو ترجمے کے بارے میں جو حقائق پیش کیے اور جو نتیجہ اخذ کیا اس نے لوگوں کو چونکا دیا، اور پوری اردو دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔
پریم چند سے متعلق مسعود حسین خاں کی تحقیقات کا سلسلہ 1970سے شروع ہوتا ہے جب انھوں نے انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ میں ’میرا صفحہ‘ کے کالم کے تحت یکے بعد دیگرے تین مضامین بہ عنوان ’’گؤدان(1) (‘‘، ’’گؤ دان(2)‘‘، اور ’’گؤدان(3)‘‘ شائع کیے۔ (1)علاوہ ازیں انھوں نے اپنے تین دیگر مضامین میں بھی پریم چند پر اپنی تحقیقات سے متعلق بحث اٹھائی ہے اور اپنا موقف پیش کیا ہے۔ یہ مضامین ہیں : (1’’گؤدان: تصنیف یا ترجمہ‘‘ (سہ ماہی ’فکر و نظر‘علی گڑھ، جلد 11، شمارہ 2، بابت 1971)، (2’’گودان تا گؤدان‘‘ (ہفت روزہ ’ہماری زبان‘۔مشترکہ شمارہ، بابت یکم و 8مئی 1981)، اور (3 ’’رنگ بھومی تا چوگانِ ہستی‘‘(ہفت روزہ ’ہماری زبان‘، بابت 22ستمبر1981)۔
مسعود حسین خاں نے پریم چند پر اپنی تحقیق کے سلسلے میں یہ انکشاف کیا کہ پریم چند نے ناول ’گؤدان‘ اردو میں نہیں لکھا، بلکہ یہ سب سے پہلے ’گودان‘ کے نام سے ہندی میں لکھا گیا، پھر اقبال ورما سحر ہتگامی (18861942)نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ اپنے مضمون ’’گؤدان(1)‘‘مطبوعہ ہفت روزہ ’ہماری زبان‘، بابت 15دسمبر 1970میں لکھتے ہیں :
’’گؤدان‘‘ بہ اتفاقِ رائے اردو کا بہترین ناول تسلیم کیا جاتا رہا ہے لیکن کیا اردو ’گؤدان‘ پریم چند کے قلم سے نکلی ہوئی تصنیف ہے یا یہ ترجمہ ہے جو انھوں نے اپنے دیرینہ دوست اقبال ورما سحرؔ ہتگامی کی مدد سے کیا ہے؟ اگر اس ترجمے میں سحر کا ہاتھ زیادہ ہے اور سوانحی شہادتوں کے مطابق پریم چند نے صرف نظرِ ثانی کی ہے تو اردو ’گؤدان‘ کو پریم چند کی تصنیف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس کی حیثیت صرف ہندی ’گودان‘ کے ترجمے کی ہے، اور کسی دوسری زبان کے ترجمے کو اردو کی اصل تصنیف شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ’گؤدان‘ اردو تصنیف نہیں اور نتیجۃً اردو کا بہترین ناول بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ‘‘(2)
مسعود حسین خاں نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے داخلی شواہد بھی فراہم کیے ہیں۔ انھوں نے ’گؤدان‘ کا اس کے ہندی متن ’گودان‘ سے مقابلہ کیا اور ان دونوں میں زبان و اسلوب اور روز مرہ کے فرق کی وجہ سے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ اس کا ہندی متن ہی اصل متن ہے اور اردو متن اس کا ترجمہ ہے، اور ترجمے کو کسی زبان کے ادب کی تاریخ میں وہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی جو طبع زاد تخلیق کو حاصل ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’گؤدان ) (2‘‘ میں جو ’ہماری زبان‘ کی 8مئی 1971کی اشاعت میں شائع ہوا، ذیل کی عبارت درج کی:
’’چوں کہ کسی زبان کے ناول کا ترجمہ جس زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے اس کی تاریخِ ادب کا جز و قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے ہم پریم چند کی اردو ’گؤدان‘ کو ان کی تصنیف نہیں کہہ سکتے۔ یہ بہرحال ترجمہ ہے اور اس لیے اسے اردو کا ناول یا بہترین ناول قرار دینا حقائق سے انحراف کرنا ہے۔ ‘‘(3)
مسعود حسین خاں نے سہ ماہی ’فکر و نظر‘ (علی گڑھ) میں شائع شدہ اپنے متذکرہ مضمون میں بھی دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ دیا:
’’’گؤدان‘ کا اردو ناول نگاری کی تاریخ میں کوئی مقام نہیں۔ ‘‘
ان کے اس انکشاف اور تحقیقی نتیجے سے اردو دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اس کے ردِ عمل میں طرح طرح کے بیانات سامنے آئے۔ مانک ٹالا(19242013) نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مسعود حسین خاں ’’پریم چند کو بہ طورِ اردو ادیب Disownکرنے کے دَرپے ہیں۔ ‘‘(4)گیان چند جین (19232007)نے لکھا کہ ’’ان مضامین میں مسعود صاحب نے انہدامی دستے (Demolition Squad)کا رول سر انجام دیا ہے۔ ‘‘(5)بعض دوسرے اہلِ علم، مثلاً ویریندر پرشاد سکسینہ، غافل انصاری، جعفر رضا، صفدر آہ اور قمر رئیس وغیرہ نے بھی اس بحث میں حصہ لیا، لیکن وہ مسعود حسین خاں کے اس نقطۂ نظر سے اتفاق نہ کر سکے کہ ’گؤدان‘ یا پریم چند کے بعض دوسرے ناول جو بہ قول ان کے ہندی سے ترجمہ ہوئے ہیں، اور جن پر پریم چند نے نظرِ ثانی بھی کی ہے، انھیں اردو ادب کی تاریخ میں کوئی مقام نہ دیا جائے۔ لیکن مسعود حسین خاں اپنے موقف پر قائم رہے۔
جو لوگ ’گؤدان‘ کو اردو ناول قرار دیتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ’گؤدان کا اردو مسودہ پریم چند کی زندگی ہی میں تیار ہو چکا تھا اور وہ (پریم چند) اس کی اشاعت کے لیے کسی ناشر کی تلاش میں تھے۔ اس کی تصدیق ان کے (پریم چند کے) اس خط سے ہوتی ہے جو انھوں نے 1936میں اختر رائے پوری کو لکھا تھا۔ خط کا متن یہ ہے:
’’میرا اپنا ناول ’گودان‘ (ہندی) ابھی حال میں نکلا ہے …اب ’گؤدان‘ کے لیے بھی ایک پبلشر تیار کر رہا ہوں۔ ‘‘(6)
اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ’گؤدان‘ (اردو) کا مسودہ مکمل صورت میں پریم چند کی تحویل میں تھا اور اشاعت کا منتظر تھا۔ ’گؤدان‘ کے پریم چند کی تحویل میں ہونے کی تصدیق پریم چند کے بیٹے اور ہندی کے اسکالر امرت رائے (19211996)کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جو انھوں نے بھوپال میں نومبر 1979میں پریم چند پر منعقد ایک سمینار میں دیا تھا۔ ان کا (امرت رائے کا)کہنا تھا کہ ’’میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ صرف اس قدر یاد پڑتا ہے کہ پریم چند کی میز پر ایک کاپی میں لال روشنائی سے اردو میں ’گؤدان‘ لکھا ہوا دیکھا تھا۔ ‘‘(7) ہندی کے معروف اسکالر کمل کشور گوینکا جو پریم چند پر اپنے تحقیقی کاموں کے لیے بہ خوبی جانے جاتے ہیں، ایک جگہ یہ لکھتے ہیں :
’’پریم چند نے مول اپنیاس اردو میں لکھے اور بعد میں سویم ان کا انوواد کیا۔ ‘‘ (8)
(= پریم چند نے اصل نا ول اردو میں لکھے اور بعد میں خود ان کا ترجمہ کیا۔ )
’گؤدان‘ کو اردو ناول تسلیم کرنے والوں نے امرت رائے اور گوینکا کے ان بیانات کی روشنی میں یہ موقف اختیار کیا کہ پریم چند نے اپنے بیشتر ناولوں کی طرح ’گودان‘(ہندی )بھی پہلے اردو ہی میں لکھا، کیوں کہ اردو لکھنے میں انھیں زیادہ مہارت حاصل تھی اور یہی زبان ان کے لیے فطری زبان کا درجہ رکھتی تھی، جسے وہ بچپن ہی سے لکھتے پڑھتے آئے تھے، لیکن اشاعت میں سہولت اور مالی منفعت کی وجہ سے وہ اپنے (اردو میں لکھے ہوئے) ناولوں کو ہندی کے قالب میں ڈھالنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ چنانچہ ’گؤدان‘ کے سا تھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ یہ پہلے اردو میں لکھا گیا، اور پریم چند نے جب اسے ’گودان‘ کے نام سے ہندی میں منتقل کیا تو اصل اردو مسودے میں کچھ کاٹ چھانٹ اور ترمیم و اضافہ بھی کیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ’گودان‘ (ہندی) تیار ہوا جو جلد (ان کی زندگی ہی میں )چھپ بھی گیا۔ ان کے انتقال (1936)کے بعد ہندی متن کو سحر ہتگامی نے اردو میں تبدیل کیا۔ سحر ہتگامی نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے پریم چند کے کئی ناول (بہ شمولِ ’گؤدان‘)اردو میں ترجمہ کیے۔
پریم چند کے ناولوں سے متعلق مسعود حسین خاں کی تحقیقات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ پریم چند کے ایک دوسرے ناول ’چوگانِ ہستی‘ کے بارے میں بھی انھوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ مکمل طور پر سحر ہتگامی کا ترجمہ کیا ہوا ہے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سحر ہتگامی نے یہ ترجمہ پریم چند کی زندگی میں کیا جس کے لیے پریم چند نے انھیں مبلغ دو سو روپے معاوضے کے طور پر دیے۔ خود سحر ہتگامی نے بھی اپنے خود نوشت حالات میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ’چوگانِ ہستی‘ ان کا ترجمہ کیا ہوا ہے۔ رسالہ ’زمانہ‘ (کانپور) کی ستمبر 1937کی اشاعت میں شائع شدہ ایک اعلان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سحر ہتگامی نے پریم چند کی حیات میں ’چوگانِ ہستی‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا۔
لیکن ’چوگانِ ہستی‘ کے بارے میں ایسے دلائل و شواہد بھی موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ناول بھی اصلاً اردو ہی میں لکھا گیا۔ اس کی سب سے بڑی شہادت خود پریم چند کی تحریر ہے۔ پریم چند نے ’چوگانِ ہستی‘ (طبعِ دوم) کے دیباچے میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ ناول پہلے اردو ہی میں لکھا گیا، اور اس کا ہندی ایڈیشن ’رنگ بھومی‘ بعد میں تیار کیا گیا جس میں کافی ترمیم و اضافہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں گیان چند جین نے مسعود حسین خاں پر اپنے مضمون(9)میں مانک ٹالا کے حوالے سے امرت رائے کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں وہ (امرت رائے) کہتے ہیں کہ ’’رنگ بھوم کی چھپائی شروع ہو گئی ہے، لکھی پہلے اردو میں گئی، چھپی پہلے ہندی میں۔ ‘‘گیان چند جین نے مانک ٹالا کے حوالے سے کمل کشور گوینکا کی بھی ایک تحریر کا حوالہ دیا ہے جس میں ’چوگانِ ہستی‘ کے بارے میں گوینکا کہتے ہیں کہ ’’اس ناول کی رچنا اردو میں ہوئی اور پریم چند نے بعد میں اس کا ہندی کرن کیا۔ ‘‘ جعفر رضا کو بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ ’رنگ بھومی‘ پریم چند کے اردو ناول ’چوگانِ ہستی‘ کا ہندی ترجمہ ہے۔
’چوگانِ ہستی‘ سے متعلق بھی وہی بات سچ ہے جو ’گؤدان‘ کے با رے میں کہی گئی ہے، یعنی پریم چند نے اصلاً اردو ناول ’چوگانِ ہستی‘ لکھا، لیکن جب اس کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی تو اس کے مسودے میں انھوں نے تھوڑی ترمیم و اضافہ کر کے اسے ہندی نا ول ’رنگ بھومی‘ کی شکل د ے دی۔ بعد ازاں ’رنگ بھومی‘ کو اردو میں ترجمہ کرنے کا کام سحر ہتگامی نے انجام دیا۔ پریم چند نے انھیں معاوضے کے طور پر دو سو روپے دیے۔ مسعود حسین خاں اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ’چوگانِ ہستی‘ اصلاً اردو ہی میں لکھا گیا۔
مسعود حسین خاں کا تیسرا نشانہ پریم چند کا اردو ناول ’گوشۂ عافیت‘ ہے۔ اس کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہے کہ یہ اصلاً ہندی میں ’پریم آشرم‘ کے نام سے لکھا گیا جس کا بعد میں سحر ہتگامی نے ’گوشۂ عافیت‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا۔ سحر ہتگامی نے اپنے خود نوشت حالات میں ’گوشۂ عافیت‘ کا بھی ترجمہ کرنے کی بات کہی ہے۔ ’گوشۂ عافیت‘ کے بارے میں بھی معاملہ یہی ہے کہ یہ ناول پہلے لکھا اردو میں گیا، پھر اس کا ہندی متن تیار ہوا اور وہ چھپ گیا، اس کے بعد سحر ہتگامی نے اسے اردو میں منتقل کیا۔ پریم چند کے دوسرے ناولوں، مثلاً ’میدانِ عمل‘(’کرم بھومی‘)، ’سیواسدن‘، ’نرملا‘ وغیرہ کے بارے میں بھی محققین کی یہی رائے ہے کہ یہ اصلاً اردو ہی میں لکھے گئے، اور بعد میں انھیں ہندی روپ دیا گیا۔
مسعود حسین خاں نے پریم چند پر اپنی تحقیقات کے سلسلے میں بعض حقائق کو نظر انداز کر دیا ہے، مثلاً یہ کہ سحر ہتگامی نے پریم چند کے جن ناولوں کے ترجمے ہندی سے اردو میں کیے ہیں وہ پہلے اردو ہی میں لکھے گئے تھے، لیکن پریم چند نے ان کا ’ہندی کرن‘ کر کے انھیں پہلے ہندی میں چھپوا دیا تھا۔ ہندی میں چھپوانے سے قبل انھوں نے ان ناولوں میں کچھ ترمیمات اور اضافے بھی کیے تھے۔ جیسے جیسے ان کے ناول ہندی میں چھپتے گئے، سحر ہتگامی ان کے ترجمے اردو میں کرتے گئے۔ اردو میں مترجمہ بعض ناولوں پر پریم چند نے نظرِ ثانی بھی کی، اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مسعود حسین خاں کے تحقیقی نتائج درست معلوم ہوتے ہیں، یعنی یہ کہ پریم چند کے کئی اردو ناول ان کے ہندی ناولوں کے ترجمے ہیں، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پریم چند نے اپنے ناول اصلاً اردو میں نہیں لکھے تھے۔ اصلاً اردو میں لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ انھیں اردو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا اور اردو ہی ان کی پہلی زبان تھی۔ جس سہولتِ اظہار اور روانی کے ساتھ وہ اردو لکھ لیتے تھے، ہندی نہیں لکھ سکتے تھے۔ ہندی میں پہلے چھپوانے کی وجہ یہ تھی کہ ہندی کے پبلشر انھیں بہ آسانی مل جاتے تھے اور وہ انھیں معاوضہ بھی نہایت معقول دیتے تھے۔
تدوینِ متن
مسعود حسین خاں نے پریم چند پر اپنی تحقیق کے علاوہ ادبی تحقیق کے ضمن میں کوئی اور قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا، لیکن انھوں نے جو تدوینی کام کیے ہیں ان میں تحقیق کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ انھوں نے اپنے ایڈٹ کیے ہوئے قدیم متون پر جو سیر حاصل مقدمات لکھے ہیں، ان سے ان کی تحقیقی لگن اور گہری چھان بین کا بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مسعود حسین خاں نے اپنے علمی سفر کے دوران میں ایک نثری داستان اور چار مثنویاں مدون کی ہیں جن میں سے دو دکنی مثنویاں ہیں اور دو مثنویوں کا تعلق شمالی ہند سے ہے۔
(الف) نثری داستان
مسعود حسین خاں نے حیدرآباد کے دورانِ قیام میں ایک نثری داستان ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ اپنے سیر حاصل مقدمے کے ساتھ ایڈٹ کر کے پہلی بار 1966میں شائع کی۔ یہ شمالی ہند کی اردو کی قدیم ترین طبع زاد نثری داستان ہے۔ اس کے مصنف کا نام عیسوی خاں بہادر ہے جس نے سنہ 1732اور 1759کے درمیان یہ داستان لکھی۔ اس دا ستان کا واحد نسخہ آغا حیدرحسن (حیدرآباد، دکن) کے ذاتی کتب خانے کی ملکیت تھا جہاں سے مسعود حسین خاں نے اس کا عکس حاصل کیا اور اس پر سیر حاصل مقدمہ لکھا۔ ان کا خیال ہے کہ عیسوی خاں نے اپنے عہد کی ’’بول چال کی زبان‘‘ میں یہ داستان لکھی ہے، نیز ’’اردو کے قدیم ادب میں اس سے زیادہ سہل اور سا دہ عبارت نظم و نثر میں آج تک نہیں لکھی گئی۔ ‘‘(10)
(ب) مثنویاں
مسعود حسین خاں نے حیدرآباد میں اپنے قیام کے زمانے میں سب سے پہلے اردو کی دو مثنویاں ’پرت نا مہ‘ اور ’بکٹ کہانی‘ ایڈٹ کر کے 1965میں مجلہ’ قدیم اردو‘ (حیدرآباد) کی جلدِ اول میں شائع کیں۔ ’پرت نامہ‘ ایک دکنی مثنوی ہے جس کا مصنف قطب الدین قادری فیروز بیدری ہے جسے دبستانِ گول کنڈہ کا ’’مسلّم الثبوت استاد‘‘ تسلیم کیا گیا ہے، مسعود حسین خاں نے اس مثنوی کا سنہِ تصنیف 1564سے قبل کا زمانہ مانا ہے۔ یہ مثنوی حضرت عبدالقادر جیلانی اور فیروز بیدری کے پیر شیخ ابراہیم مخدوم جی (م۔ (1564 کی مدح میں لکھی گئی ہے۔ جس زمانے میں یہ مثنوی لکھی گئی اس وقت ’’مخدوم جی‘‘ حیات تھے۔
’پرت نا مہ‘ کی ترتیب و تہذیب کے بعد مسعود حسین خاں نے ایک دوسری مثنوی ’بکٹ کہانی‘ ایڈٹ کی جسے ’’بارہ ماسہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسے ’’شمالی ہند میں اردو شاعری کا پہلا مستند نمونہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ سنہ 1625سے پہلے کی تصنیف ہے، کیوں کہ اس کے مصنف محمد افضل افضلؔ کا انتقال 1625عیسوی میں ہوا۔ ’بکٹ کہانی‘ کی ترتیب و تہذیب کا پورا کام مسعود حسین خاں نے خود انجام دیا، بڑی تحقیق اور چھان بین کے بعد اس پر سیر حاصل مقدمہ لکھا اور نہایت دقتِ نظر کے ساتھ اختلافِ نسخ تیار کیے۔ چوں کہ ’بکٹ کہانی‘ کے چند نسخے نورالحسن ہاشمی (لکھنؤ یونیورسٹی) کو بھی دست یاب ہوئے تھے اور انھوں نے وہ نسخے لکھنؤ میں ایک ملاقات کے دوران میں مسعود حسین خاں کے سپر د کر دیے تھے، اس لیے انھوں نے نورالحسن ہاشمی کو بھی اس کام میں شریک کر لیا اور مرتب کی حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ ان کا نام بھی لکھ دیا۔ ’بکٹ کہانی‘ پہلی بار 1965میں حیدرآباد سے شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن جس پر مسعود حسین خاں نے نظرِ ثانی کی اور’ ’مقدمہ (طبعِ دوم)‘‘لکھا، راقم السطور کے ’’پیش لفظ‘‘ کے سا تھ 2002میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع ہوا۔ اس دوران میں اترپردیش اردو اکادمی (لکھنؤ) نے بھی اسے کئی با ر چھاپا۔
’ابراہیم نامہ‘ ایک دوسری دکنی مثنوی ہے جسے مسعود حسین خاں نے ایڈٹ کیا۔ اس کی اشاعت مجلہ ’قدیم اردو‘ کی جلدِ سوم کے طور پر 1969میں عمل میں آئی جب وہ حیدرآباد چھوڑ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات سے منسلک ہو گئے تھے۔ اس مثنوی کا مصنف عبدل دہلوی ابراہیم عادل شاہ ثانی (1580-1626)کا درباری شاعر تھا۔ مسعود حسین خاں نے’ ابراہیم نامہ‘ کو ’’دبستانِ بیجا پور کا پہلا ادبی نقش‘‘ قرار دیا ہے، اور اس کا سنہِ تصنیف 1611/12تسلیم کیا ہے۔ یہ ایک قسم کا ’شاہ نامہ‘ ہے جس میں بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت کے چھٹے حکم راں ابراہیم عادل شاہ ثانی کی مدح سرائی کی گئی ہے۔ ’ابراہیم نامہ‘ مسعود حسین خاں نے بڑی دیدہ ریزی اور دقتِ نظر کے ساتھ مدون کیا ہے اور 67صفحات پر مشتمل اس کا تحقیقی مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں اس مثنوی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
چوتھی اور آخری مثنوی جو مسعود حسین خاں نے مدون کی وہ روشن علی کی ’عاشور نامہ‘ ہے۔ یہ مجلہ ’قدیم اردو‘ کی جلدِ چہارم کے طور پر 1972میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع ہوئی۔ اس کا واحد نسخہ (مخطوطہ) رضا لائبریری، رام پور (یوپی) کا مخزونہ ہے۔ سید سفارش حسین رضوی نے اس کی مائکرو فلم وہیں سے حاصل کی اور پہلے اپنی کتاب ’اردو مرثیہ‘(1965)میں اور بعد میں رسالہ’ اُردو ادب‘ کے 1971کے شمارے میں اس کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ اس کے بعد اس مخطوطے کی مائکرو فلم اور اس کی ایک نقل انھوں نے مسعود حسین خاں کے سپرد کر دی۔ اس مثنوی کا سنہِ تصنیف 1688ہے اور اس کے اشعار کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد ہے۔ مسعود حسین خاں نے ’عاشور نا مہ‘ کے مقدمے میں اس کی زبان، نیز دیگر لسانی اور ادبی خصوصیات سے تفصیل سے بحث کی ہے۔
٭٭
حواشی
1 یہ تینوں مضامین مسعود حسین خاں کے مجموعۂ مضامین ’اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ : شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1973) میں شامل ہیں۔
2 مسعود حسین خاں، ’ اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ، ص 182۔
3 ایضاً، ص 196۔
4 بہ حوالہ گیان چند جین، ’’ڈاکٹر مسعود حسین خاں : بہ حیثیتِ ادبی محقق‘‘، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: تعلیمی مرکز، 1989)، ص156۔
5 ایضاً، ص143۔
6 بہ حوالہ ایضاً، ص 146۔
7 بہ حوالہ مسعود حسین خاں، ’’گودان تا گؤدان‘‘، مشمولہ ’مقالاتِ مسعود‘ (نئی دہلی: ترقیِ اردو بیورو، 1989)، ص204۔
8 یہ بیان گیان چند جین نے مانک ٹالا کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ دیکھیے گیان چند جین کا محولۂ بالا مضمون، مشمولہ ’نذرِمسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ، ص147۔
9 دیکھیے گیان چند جین، محولۂ بالا مضمون، ص51۔
10 دیکھیے مسعود حسین خاں (مرتب)، ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ (حیدرآباد، 1966)، ’’پیش نامہ‘‘۔