کيپٹن فياض آفس سے ُاٹهُاٹه ہی رہا تها کہ فون کی گهنٹی بجی اور دوسری طرف سے انسپکٹر شاہد کی آواز آئی۔
“مم ۔ ۔ ۔ ميں ۔ ۔ ۔ شش ۔ ۔ ۔ شاہد ہوں جناب۔ ايک بہت اہم بات ہے۔ ۔ ۔ گستاخی ضرور ہے۔ ۔ ۔ ليکن آپ خود ہی
“يہاں آجائيں تو بہتر ہے۔ اگر ميں يہاں سے ہٹا تو سارا کهيل بگڑ جائے گا۔
“کہاں آجاوں؟” “ايلمرز ہاوز کے عقبی پارک ميں مشرق کی جانب جو مالتی کی کنجی ہے ُاسُاس ميں۔”
“کيا مطلب ؟ تم کہاں ہو؟ اور کہاں سے نہيں ہٹنا چاہيے؟ فون کہاں سے کر رہے ہو؟”
“يہ نہ پوچهيے، ميں اس وقت ايک ٹيلی فون کے کهمبے پر بيٹها ہوں۔” کيا بک رہے ہو؟” فياض غرايا۔”
حضور والا، ميں پہلے ہی معافی مانگ چکا ہوں۔ ميں بڑی مصيبت ارر ۔ ۔ ۔ مطلب يہ ہے کہ ميں اس کنج ميں “چهپا پوا تها اور سوچ رہا تها کہ آپ کو اس کی اطلاع کيسے دوں کہ اچانک قريب کے ايک ٹيلی فون کے کهمبے پر نظر پڑی جس پر ايک مکينک چڑها ہوا تار کی مرمت کر رہا تهآ اس کے پاس ميں نے انسٹرومنٹ بهی ديکها جس کے ذريعہ شايد وہ ہيڈ آفس سے گفتگو کر رہا تها ۔ ۔ ۔ ميں نے سوچا کہ منہ مانگی مراد ملی ہے بس يہيں سے اسی انسٹرومنٹ پر آپ سے رابطہ قائم کيا جائے ۔ ۔ ۔ بمشکل تمام ميں اس مکينک کی ہمدردياں
“حاصل کر سکا اور اس نے مجهے انسٹرومنٹ استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
“تم مجهے وہاں کيوں بلا رہے ہو؟”
وہ ايک حيرت انگيز سچويشن ہے جناب عالی، ميری سمجه ميں تو خاک بهی نہيں آيا۔ وہ پاگل لڑکی ہلدا يہاں “ايک درخت کے تنے سے بندهی ہوئی ہے اور ايک آدمی تهوڑی تهوڑی دير بعد اس کے منہ پر پانی پهينکتا ہے اور وہ چيخ چيخ کر ُاسےُاسے گالياں دينے لگتی ہے۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ۔ ديکهيے ۔ ۔ ۔ اب مجهے اتر جانا چاہيے۔ ميرے خدا
“ميں کيا کروں۔ تنہا آئيے گا جناب۔
اور پهر يک بيک سلسلہ منقطع ہو گيا۔ فياض نے بهی ريسيور رکه ديا۔
اس کی کنپٹی کی رگيں ُابهرُابهر آئی تهيں اور پهر آنکهيں ايسی ہونے لگيں تهيں جيسے سوچ ميں ڈوبا رہنا ہی ان کا مستقل انداز ہو۔
وہ آفس سے باہر آيا ۔ ۔ ۔ شيڈ سے کار نکالی اور ايلمرز ہاوز کی طرف روانہ ہو گيا۔ شاہد اس کا ماتحت تها اور اس کے سارے ہی ماتحت اس سے بہت زيادہ خائف رہتے تهے ۔ پوری طرح بات کرنا بهی ان کے ليے دشوار ہو جاتا تها۔ مگر شاہد کی گفتگو بڑی بے تکلفانہ تهی۔ اسی سے فياض نے اندازہ کر ليا تها کہ وہ ذہنی الجهاو کا شکار ہو جانے کی بنا پر الفاظ کے انتخاب کا سليقہ کهو بيٹهآ ہے۔ ہلدا کے متعلق اس نے جو کچه بهی بتايا تها يقينا حيرت انگيز تها۔
ايلمرز ہاوز شہر سے باہر ايک بہت بڑی عمارت تهی ۔ اس سے ملحق ايک شاندار باغ تها اور عقبی پارک تو
گويا اچهی خآصی پولو گراونڈ تهی ليکن اس کے بعض حصوں ميں درخت بهی تهے اور خود رو جهآڑياں بهی۔ يہ عمارت غير ملکی تجارتی ادارے کی ملکيت تهی۔
فياض نے کار عمارت سے کافی فاصلے پر چهوڑی اور پيدل ہی عقبی پارک کی طرف روانہ ہو گيا۔ سورج غروب ہو رہا تها اور ويرانہ صدہا پرندوں کے شور سے گونجا ہوا تهآ۔ وہ مشرق کی جانب مڑ گيا۔ مالتی کی گنجان جهاڑيوں کا سلسلہ دور ہی سے نظر آ رہا تهآ۔ کچه دير بعد وہ جهاڑيوں ميں داخل ہوا۔ جهاڑيوں کے درميان کءی ُاونچےُاونچے ُاونچےُاونچے درخت بهی تهے ۔
کهٹاک۔ ۔ ۔ ” دفعتا فياض کے سر پر کوئی وزنی چيز گری اور وہ ارے کہہ کر پلٹا ہی تها کہ اس کی آنکهوں “ميں مزيد تارے ناچ گئے۔ کيونکہ دوسری چوٹ پہلی چوٹ سے بهی زيادہ حواس باختہ کر دينے والی تهی۔ وہ کسی بے جان لاش کی طرح زمين پر ڈهير ہو گيا۔
پهر اسے نہيں معلوم ہوسکا کہ وہ کتنی دير تک بےہوش رہا تها اور اس پر کيا گذری تهی۔
ہوش ميں آنے کے بعد بهی اسے يقين نہيں تها کہ وہ ہوش ميں ہے۔ اس کے چاروں طرف تاريکی ہی تاريکی
تهی۔ اس نے سر پر ہاته پهيرا جو تکليف کی وجہ سے پهوڑا بنا ہوا تها ۔ پهر آہستہ آہستہ ايک طرف کهسکنے لگا تاکہ جهاڑيوں سے نکل کر کهلے ميں آجائے تاريکی کی وجہ سے اس کا دم گهنٹنے لگا تها۔
ليکن پهر يک بيک وہ رک گيا۔ کيونکہ کوئی ٹهوس چيز اس کی راہ ميں حائل ہو گئی تهی۔ اس نے بے خيالی ميں اسے ہاتهوں سے دهکيلنے کی کوشش کی اور پهر اچهل کر کهڑا ہو گيا۔ ۔ ۔ کيونکہ وہ تو ديوار تهی۔
فياض بوکهلائے ہوئے انداز ميں ديوار ٹٹولتا ہوا کمرے ميں دوڑنے لگا۔ ۔ ۔ اس کی سمجه ميں نہيں آ رہا تها کہ وہ کسی سازش کا شکار ہو گيا ہے۔ مگر فون پر اس نے شاہد کی آواز پہچان لی تهی۔ تو کيا شاہد بهی اس کے خلاف کسی سازش ميں شريک ہو سکتا ہے ؟
وہ سر پکڑ کر بيٹه گيا۔ سر کی تکليف نا قابل برداشت ہوتی جارہی تهی۔
اچانک کمرہ روشن ہو گيا۔ ساته ہی فياض بهی اچهل پڑا۔ اور اب وہ بڑی تيزی سے اپنی جيبيں ٹٹول رہا تها مگر ريوالور اسے نہ مل سکا۔
دروازہ کهلا اور ايک آدمی کمرے ميں داخل ہوا۔ اس کے ہاته ميں ريوالور تها اور ريوالور کا رخ فياض ہی کی طرف تها۔
چلو۔ ۔ ۔ ” اس نے دروازے کی طرف اشارہ کيا۔”
تم کون ہو اور مجهے يہاں کيوں لائے ہو؟” اس نے گرج کر پوچها۔”
ميں کچه نہيں جانتا۔” وہ آدمی بهی غرايا۔ “تم سے جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل کرو ورنہ کتے کی موت مار “
“ڈالے جاو گے۔
تم جانتے ہو، ميں کون ہوں؟” فياض غصے سے پاگل ہو رہا تها۔”
“مجهے ضرورت ہی کيا ہے کہ جانوں۔ چلو ورنہ ميں بے دريغ فائر کر دوں گا۔”
فياض اسے چند لمحے گهورتا رہا۔ پهر آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑها۔ سر کی تکليف کی وجہ سے وہ بڑی نقاہت محسوس کر رہا تها ورنہ شايد وہ اس آدمی سے لپٹ جانے کی کوشش ضرور کرتا۔
ريوالور والا آدمی اسے ايک بڑے کمرے ميں لايا ۔ ۔ ۔ اور پهر فياض کی آنکهيں کهلی کی کهلی رہ گئيں۔ انسپکٹر شاہد ايک صوفے پر بندها پوا پڑا تهآ۔
اس نے فياض کو ديکهتے ہی چيخ کر کہا، “کپتان صاحب، ميں بالکل مجبور تها۔ انهوں نے ميری گردن پر رکه
“کر مجه سے فون کروايا تها۔
مگر تم يہاں پہنچے کيسے؟” فياض نے ماحول سے لاپرواہی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچها۔”
پچهلی رات ميں فلم ديکه کر گهر واپس جا رہا تها۔ اچانک ان لوگوں نے ايک ويران گلی ميں گهير ليا اور “
“زبردستی يہاں لے آئے۔
فياض نے چاروں طرف ُاچٹتیُاچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔ يہاں دو متنفس اور بهی تهے ، ايک انگريز مرد اور ايک يوريشين لڑکی جو اندهی معلوم ہوتی تهی۔
فياض انگريز کو گهورنے لگا۔ يہ ايک طويل القامت اور قوی الجثہ آدمی تها۔ چہرے پر بهوری فرنچ کٹ داڑهی تهی اور اس کی آنکهيں سبز تهيں ۔
فياض کو اس طرح گهورتے ديکه کر وہ مسکرايا اور ريوالور والے کو کچه اشارہ کيا۔ چلو بائيں جانب” ريوالور والا فياض سے بولا۔”
فياض چپ چاپ بائيں جانب والے دروازے کی طرف مڑ گيا۔ وہ اپنے پيچهے دو آدميوں کے قدموں کی آوازيں سن رہا تها۔
ُرکُرک جاو” ريوالور والے نے کہا۔”
وہ دوسرے کمرے ميں پہنچ چکے تهے۔ فياض رک گيا۔
اپنے محکمے کے ڈائريکٹر جنرل کو رنگ کرو” اس سے کہا گيا۔”
کيوں؟ کيا انہيں بهی يہاں لانے کا ارادہ ہے؟” فياض نے تلخ لہجے ميں پوچها ۔” “نہيں ۔ ۔ ۔ جو کچه کہا جا رہا ہے کرو”
“جب تک مقصد نہ معلوم ہو جائے ميں رنگ نہيں کروں گا۔”
اس سے کہو کہ تم مجرموں کی راہ پر لگ گئے ہو اور تم نے انهيں پهانسنے کے ليے ايک جال بچهايا ہے۔ “لہذا کل اگر شہر کے کسی حصے ميں شاہد کی برہنہ لاش پائی جائے تو اسے اس وقت تک نہ اٹهوايا جائے جب تک کہ تم اس کے ليے اطلاع نہ دے دو۔ اور اس سے يہ بهی کہو کہ کوئی لاش کے قريب نہ جائے کم از کم لاش سے دو گز کے گهيرے ميں پرندہ بهی پر نہ مار سکے۔ اگر لاش کسی سڑک پر پائی جائے تو ٹريفک کے رکنے کی پرواہ کيے بغير اس کے گرد گهيرا ڈال ديا جائے مگر يہ گهيرا لاش سے کم از کم دو سو گز کے
“فاصلے پر ہو۔ جب يہ اطلاع دے دوں تو لاش اٹهوا کر مردہ خانے بهجوا دی جائے۔
“اوہ ۔ ۔ ۔ تو تم شاہد کو مارڈالنا چاہتے ہو؟” ہاں” بڑی لاپرواہی سے کہا گيا۔”
“آخر کيوں؟”
سوال نہ کرو ہماری بات سنو۔ جب تم ڈائريکٹر جنرل سے يہ سب کچه کہو گےتو وہ يقينی طور پر لاش کے “متعلق سوال کرے گا۔ اس کے ليے تم کہہ دينا کہ وہ ايک لاوارث مردہ ہے تم نے وہ لاش خيراتی ہسپتال سے
“حاصل کی ہے اور اس کے چہرے پر انسپکٹر شاہد کا ميک اپ کر ديا ہے۔ آخر تم لوگ کيا چاہتے ہو؟” فياض پهر بگڑ گيا۔”
فی الحال اتنا ہی چاہتے ہيں جتنا تم سے کہا جا رہا ہے۔” انگريز بولا۔” “يہ ناممکن ہے۔ ميں فون نہيں کروں گا۔”
“تب پهر ہو سکتا ہے کہ کل ايک کی بجائے دو لاشيں ديکهی جائيں۔” فياض ہونٹوں ہی ہونٹوں ميں کچه بڑبڑا رہا تها۔
“تمہيں اسی طرح فون کرنا ہے جيسے شاہد نے تمہيں کيا تها۔”
“کيا تم اسے مار ڈالو گے؟”
” ہاں ۔ ۔ ۔”
“آخر کيوں ۔ ۔ ۔ تم ايسا کر رہے ہو؟”
“انسانيت کی فلاح کے ليے۔”
“کيا بکواس ہے؟”
تم ديکه ہی لو گے۔ اور يہ بهی ديکه چکے ہو کہ تم کتنے بے بس ہو۔ ميں وعدہ کرتا ہوں کہ تم بالکل محفوظ “
“رہو گے۔
فياض برابر انکار کرتا رہا۔ ليکن پهر اچانک ان کا رويہ سخت ہو گيا۔ چار آدميوں نے اسے بےبس کر کے بڑی اذيتيں ديں، اور پهر مجبورا اسے وہ سب کچه فون پر ہی کہنا پڑا جو انهوں نے کہا تها۔ رحمان صاحب نے اس سلسلے ميں مزيد استفسار کرنا چاہا ليکن فياض کو مجبور کيا گيا کہ وہ اس سے زيادہ نہ کہے جو کچه اسے پہلے سے سمجها ديا گيا ہے۔
پهر اسے اس کمرے ميں لايا گيا جہاں شاہد بندها ہوا پڑا تها۔ اندهی لڑکی بهی موجود تهی۔ شاہد چيخ رہا تها۔
“”ارے ميں بيمار نہيں ہوں۔ پهر مجهے انجکشن کيوں ديا گيا ہے۔ چهوڑو مجهے چهوڑو۔
“ہاں چهوڑ ديں گے۔ ۔ ۔” انگريز بولا۔ “ابهی ايک انجکشن اور ديا جائے گا ورنہ تم صبح تک مر جاو گے۔”
“چهوڑ دو ، مجهے چهوڑ دو۔”
وی چيختا رہا۔ ليکن انگريز کے اشارے پر ايک بهری ہوئی سرنج لائی گئی اور شاہد کے بائيں بازو ميں کوئی سياہ رنگ کا سيال مادہ انجيکٹ کر ديا گيا۔
فياض دم بخود کهڑآ ديکهتا رہا۔ ريوالور کی نال اب بهی اس کی گردن سے لگی ہوئی تهی اور اسے اس کا احساس بهی تها کہ يہ لوگ اسے بڑی بے رحمی سے قتل بهی کر سکتے ہيں۔
“کپتان صاحب،” شاہد حلق پهاڑ کر چيخا۔ “خدا کے ليے مجهے بچائيے۔”
دفعتا انگريز ہاته اٹها کر بولا۔ “تم لوگوں نے خود ہی اپنے ليے مصيبت کهڑی کی ہے۔ اور ميں تم لوگوں سے کينہ رکهتا ہوں کيونکہ تمہاری وجہ سے ميری ايک بہترين ساتهی پاگل ہو گئی ہے اگر تم اس کے پيچهے نہ
“لگتے تو مجهے اس کا دماغ نہ ماوف کرنا پڑتا۔ مجهے بے حد افسوس ہے کہ وہ ہميشہ کے ليے پاگل ہو گئی۔ فياض کچه نہ بولا۔ اس کی سمجه ميں نہيں آ رہا تها کہ کيا کہے اور کيا کرت۔
اچانک انگريز غرايا۔ “اندهی لڑکی رقص شروع کرو۔ ۔ ۔ اگر تم نے اس مريض کے دل کا نشانہ نہ ليا تو ميں
“تمہيں کبهی معاف نہين کروں گا۔
لڑکی کے ہونٹوں پر ايک بڑی بهيانک قسم کی مسکراہٹ نظر آئی۔ شاہد بهی اسی کی طرف ديکهنے لگا تها ۔
اچانک ايک آدمی نے لڑکی کے ہاته ميں چمچماتا ہوا خنجر پکڑا ديا۔ پهر ايک جانب رکهے ہوئے گراموفون پر رقص کی موسيقی کا ريکارڈ گردش کرنے لگا۔
موسيقی کی لہريں ديوار سے ٹکرا کر جهنکاريں پيدا کرنے لگيں اور اندهی لڑکی نے ايک طوفانی رقص
شروع کر ديا۔ تيز قسم کی روشنی ميں چمکتا ہوا خنجر خلاء ميں تيرتا پهر رہا تها اور اندهی لڑکی حيرت انگيز رفتار سے ناچ رہی تهی۔
دفعتا انگريز چيخنے لگا، “يہ موت کا کهيل ہے کيپٹن فياض۔ ۔ ۔ اندهی رقاصہ کا کمال ديکهو، حيرت انگيز۔ ۔ ۔
حيرت انگيز۔ ۔ ۔ يہ شاہد کے دل کا نشانہ لے گی اور خنجر دستے تک اس کے سينے ميں پيوست ہو جائے گا۔ ۔ ۔
“ہاہا
“ناچو۔ ۔ ۔ اندهی رقاصہ۔ ۔ ۔ ناچو۔ ۔ ۔ کيپٹن فياض تمہارا کمال ديکهنا چاہتا ہے۔”
نہيں۔ ۔ ۔ نہيں۔ ۔ ۔” شاہد ديوانوں کی طرح چيخا۔ وہ ُبریُبری طرح ہانپ رہا تها اور آنکهيں حلقوں سے ُابلیُابلی پڑ رہی ” تهيں۔
لڑکی نے ناچتے ناچتے ايک خالی صوفے پر کچهاک سے خنجر مارا۔ ۔ ۔ اور پهر سيدهی ہو کر ناچنے لگی۔
جب بهی وہ ناچتی ہوئی شاہد کے صوفے کے قريب سے گزرتی فياض آنکهيں بند کر ليتا۔۔۔ اس نے کئی بار اس آدمی کو دهوکا دينے کی کوشش کی مگر وہ گردن سے ريوالور لگائے ہوئے تها ، کاميابی نہ ہوئی کيونکہ وہ بهی غافل نہيں تها۔
دفعتا اس نے چيخ کر کہا۔ “شاہد تم خاموش ہی رہنا۔۔۔ ورنہ يہ تمہاری آواز پر آئے گی۔” شاہد کچه نہ بولا۔ اس کی آنکهوں ميں خوف اور بے بسی کے علاوہ اور کسی قسم کے آثار نہيں نظر آ رہے تهے۔ وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پهيرتا اور ديوانوں کی طرح ادهر ادهر گردن جهٹکنے لگتا۔
لڑکی ناچ رہی تهی اچانک فياض کے حلق سے چيخ نکلی۔ اس بار اس نے شاہد پر وار کيا تها، ساته ہی شاہد کی چيخ بهی بلند ہوئی۔
مگر خنجر شاہد کے جسم پر پڑنے کی بجائے شانے کے قريب رکهے صوفے پر پيوست ہو گيا۔
لڑکی تمہارا نشانہ خطا کر رہا ہے۔۔۔” انگريز نے غصيلے لہجے ميں کہا اور لڑکی کے چہرے پر غصے کے ” آثار نظر آنے لگے۔ خنجر کهينچ کر اس نے پهر ناچنا شروع کر ديا۔
ريکارڈ ختم ہونے پر صرف ايک پل کے ليے سکوت طاری ہوگيا تها۔ ليکن ساونڈ باکس پهر ريکارڈ کے سرے تک کهينچ کر رکه ديا گيا۔۔۔ اور لڑکی کا رقص جاری رہا۔
“خدا کے ليے۔۔۔ اس پر رحم کرو۔” فياض چيخا۔ “اسے کيوں قتل کر رہے ہو۔۔۔ تم ديوانے ہو۔۔۔ پاگل ہو۔”
ميں اس صدی کا سب سے بڑا اور عقل مند ترين آدمی ہوں کيپٹن۔” انگريز چيخ کر بولا۔ موسيقی کی تيز آواز ” کی بناء پر ايک دوسرے تک اپنی آوازيں پہنچانے کے ليے انہيں حلق پهاڑنا پڑتا تها۔ شاہد پهر چيخا۔۔۔ اور فياض کا سر چکرا گيا۔ لڑکی اس پر ُجهکیُجهکی ہوئی تهی اور اس کا ہاته۔۔۔ “لڑکی، انگريز دهاڑا۔۔۔ اب ميں تمہيں قتل کر دوں گا۔۔۔ تيسرا وار خطا نہ کرے۔۔۔ چلو۔۔۔” لڑکی نے صوفے سے خنجر کهينچا اور ناچنے لگی۔
اب شاہد اس طرح گڑگڑا رہا تها جيسے وليوں اور پيروں سے مدد مانگ رہا ہو۔
وہ ناچ رہی تهی اس کے ہاته ميں خنجر چمک رہا تها۔ تيسرا وار۔۔۔ اسے يقينی طور پر موت کے منہ ميں لے جائے گا۔ کيپٹن فياض سوچ رہا تها۔
تم کيا کر رہے ہو سور کے بچے؟” وہ ہذيانی انداز ميں چيخا۔”
اسے لے جاو يہاں سے دفع کرو۔” انگريز نے گرج کر کہا اور فياض کو داہنی جانب والے دروازے ميں “
دهکيل ديا گيا۔ وہ فرش پر گر کر کسی چوٹ کهائے ہوئے مينڈک کی طرح کانپنے لگا۔ اس کی کنپٹياں سنسنا رہی تهيں اور ايسا معلوم ہو رہا تها جيسے وہ بے ہوش ہو جائے گا۔