وہ کالے رنگ کے اس بڑے سے گیٹ سے جیسے ہی اندر داخل یوئی اس کا سر اس کے کشادہ سینے سے ٹکرایا۔
آؤچ!وہ اپنا سر تھام کر رہ گئی اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ناجانے اس کی آنکھوں میں ایسا کیا تھا جو وہ اس کی آنکھیں نہیں ملاپاتی تھی اس کو اپنا دل زور زور سے دھڑکتا محسوس ہوا۔
ویلکم بیک!مس نعمان!کیسی ہیں اب آپ؟اس نے اپنے ایک پروقار لہجے میں بولا۔
فائن سر۔وہ نظریں جھکا کر مختصر سا بولی۔
اس کے “سر” کہنے پر اس کے چہرے ہر ایک مسکراہٹ ابھری۔
ابھی وہ کوئی جواب دیتا پیچھے سے کوئی آگیا۔
تو باہر کب آیا۔شافع پوچھتا ہوا بولا ایک دم اس کی نظر سامنے کھڑی ماہنور ہر پڑی تو ایک ہ دم ساکت ہوگیا۔
ماہنور بھی اسے پہچان چکی تھہ مگر اس نے شو نہیں کروایا۔
اوکے مس نعمان ۔تابش بولا وہ نہیں چاہتا تھا ماہنور یوں شافع کے سامنے رہے۔
ایکسیوزمی!ماہنور اتنا کہہ کر وہاں سے اندر کی جانب بڑھ گئی۔
شافع کی نظریں اسکا پیچھا کررہی تھیں۔
یہ کون ہے؟اس نے ہوچھا۔
نتھنگ ون اسپیشل۔تم چلو۔عام سے لہجے میں کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا ۔شافع بھی چلا گیا ۔
مگر وہ وہیں کھڑی رہی تابش کے ان سلفاظوں سے اس کے اندر چھن کر کے کچھ ٹوٹا۔
*********************
وہ صبح سے کمرے میں بند تھا نہ کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
“وہ وہ مشعل!!ہاسپیٹل لے کر گئی تھی”
“نہیں میں نے آہکو بہت دفعہ فون ملایا مگر آپکا فون بند تھا اور مشعل کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی اس وجہ سے مجھے جانا پڑا۔”
ذہن میں یہ جملے گردش کررہے۔آنکھ تھی کہ آبشار کی مانند پانی بہا رہی تھی۔
“اللہ بس ایک دفعہ مل جائے میں اپنی ہر گناہ کو معافی مانگ لونگا۔یااللہ بس ایک بار ایک بار بھی ملادے۔حبیب رسول محمدمصطفیٰﷺ کے واسطے یااللہ اس نام کے صدقے ملادے جس نام کے صدقے تو نے حوا اور آدم کو ملایا تھا”وہ رو رہا تھا گڑگڑارہا تھا۔
اور صرف ملاقات کی خواہش کررہا تھا۔
**********************
مام آپ بالکل ٹھیک تھیں بھئی آپکی تھوڑی غلطی ہے اس میں ڈیڈ بس ایویں۔ بھئی تھپرکیوں مارا۔مرال اپنی ماں نے ہاتھ بیٹھی انکی حمایت کررہی تھی جو غصے سے آگ بگولہ ہورہی تھیں
***********\\\\\\**********
بچوں آپکی ٹیچر کہاں ہے۔ابھی وہ گھر داخل ہوا تو سامنے کھیلتے کودتے بھانجو کو دیکھ کر پوچھا۔
وہ تو چلی گئیں۔ایک بولا۔
ہیں!چلی گئی لیکن ابھی انکا ٹائم تو ابھی نہیں ہوا۔
جی مگر انکی طبیعت خراب ہوگئی تو مما نے گھر بھیج دیا انکو۔
مگرچاچو وہ اتنا زیادہ ہوم ورک دے گئیں۔دوسرا بھانجا منہ کے زاویے بگاڑ مر بولا۔
وہ ہنس پڑا مگر دل ماہنور کی طرف ہی متوجہ تھا۔
******************************
امی!میں تو ڈر ہی گئی تھی جب آپ ایسےناراض ہوئیں تھی تو۔وہ انکی گود میں سر رکھے لیٹی تھی ۔
ارے میں ناراض نہیں تھی وہ لڑکامجھےبھی پسند تھا مگر نامحرم کی محبت گناہ ہے اسی لیے اسےرشتہ لانے جو کہا اور تو اور دیکھو وہ کل رشتہ لارہا ہے۔
بیٹا میری ایک بات یاد رکھنا اپنے شوہرکو زیادہ سےزیادہ وقت دینا ہممم۔وہ اسکا سر چوم کر بولیں
جی امی۔وہ بھی مسکرائی۔۔۔
کل کیا ہونے والا تھا۔۔کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔۔
***”””””****************
وی جب سے گھر آئی تھی کمرے میں بند تھی اماں سے اس نےطبیعت خراب کا بہانہ کرلیا تھا۔
“میں نے اس سے محبت کی تھی میرا دل پہلی بار کسی کے لیے یوں دھڑکا تھا پہلی دفعہ اوراور۔۔۔۔۔اس کے لیے میں نتھنگ اسپیشل ہوں۔
اس نےاس کے سامنے ذلیل کیا اس شخص کے سامنے جس سے میں اس قدر نفرت کرتی ہوں۔
ماہنور غلطی تمہاری ہی تھی جو تم نے اس پر یقین کر لیا ۔
جس کا دوست ایسا اس سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔وہ طنزیہ مسکرائی۔
مایوس نہ ہو ماہنور اللہ نے بہترین ہی سوچا ہوگا تمہارا وہ اپنے بندے کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دے گا۔”
وہ اٹھی وضو کیا اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوئی۔
“بے شک یاد الہی میں سجدوں قلب ہے”
*********₨**##********
دادو میں سوچ رہا ہوں منع کردوں جیسے گھر کے حالات ہیں۔زہرام اقتتدار صاحب سے بولا۔
ارے نہیں۔شاید موڈ اچھا ہوجائے ان دونوں کا ایسے۔ جو فضا سوگواریت کی پھیلی ہوئی ہے کم ہوگی۔ کوئی ضرورت نہیں منع کرنے کی۔اقتتدار صاحب ڈپٹے۔
اس وقت وہ دونوں ان کے کمرے میں موجود تھے۔
اچھا یہ بتائیں جائے گا کون کون؟؟اس نے پوچھا۔
دائمہ،مصطفی،فرحان تمہارے والدین اور میں۔انھوں نے جواب دیا۔
جی بہتر۔زہرام بولا۔
***************************
السلام علیکم !اس نے جیسے ہی فون اٹھایا دوسری جانب سے تابش کی آواز سن کر ماہنور چونک گئی۔
وعلیکم السلام !اس نے جواب دیا۔
مس نعمان آر یو فائن؟آپ رورہی تھیں۔اس نے پریشانی سے پوچھا۔
نہیں!اس نے سرد لہجے میں بولا۔
“مجھے آپ سے ملنا ہے” کچھ منٹ کے توقف سے تابش بولا لہجے میں سنجیدگی تھی۔
جی؟؟ماہنور نے قدرے حیرانگی سے پوچھا۔
“میں آدھے گھنٹے بعد آپکی گلی کے باہر موجود ہونگا۔
اس نے اپنا فیصلہ سنا کر تابش نے فون بند کردیا۔
وہ بس خالی فون جو تکتی رہ گئی
کیا بات کرنی ہوگی؟؟؟
********************
اففففف کیوں میں سوچ رہا ہوں اس کے بارے میں۔وہ جھنجلا گیا۔وہ جب سے آیا تھا اسکا دماغ گھوم پھر کے ہھر ماہنور کی طرف چلا جاتا تھا۔
مجھےاس سے معافی مانگ لینی چاہیے تھی واقعی اس دن غلطی میری تھی میری وجہ سے اسکی آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔شاید اسی لیے میں اسے سوچ رہا ہوں۔شافع نے خود کو دلاسہ دیا ۔
ہممم شاید اسی لیے میں کل ہی جاؤں گا اور اس سے معافی مانگ لونگا۔” اس نے سوچا اور پکا ارادہ کیا۔
اور نام بھی پوچھ آؤنگا۔دل نے پھر شرارت کی اور دماغ اس شرارت پر مسکرایا۔
افففف پھر سے نہیں۔وہ تنگ آکر بستر پر لیٹ گیا۔
***********************
اس وقت وہ دونوں تابش کی گاڑی میں موجود تھے۔
“مس نعمان آپ میرے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟؟اس نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے ہوچھا۔
جی؟کیا مطلب ہے آپکا۔وہ نظریں جھکائے انگلیاں مڑورتے ہوئے بول رہی تھی۔
آپ مجھے آز آ لائف پارٹنر کیسا دیکھتی ہیں۔۔۔اس نے بات گھماۂے بغیر اس سے پوچھا۔
اس کے اس طرح پوچھنے پر اس کا دل دھڑکنا بھول گیا دماغ ماؤف ہونے لگا۔
پل بھر کے لیے اس نے نظریں اٹھا کر دیکھیں لیکن اگلے ہی پل جھکالی۔
ناجانے اسکی آنکھوں میں ایسا کیا تھا جو وہ اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھ پاتی تھی۔
مس نعمان!میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے۔اب کہ وہ گاڑی روک چکا تھا۔ اور اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔
مج مجھے نہیں پتا۔اس بے باہر کی طرف دیکھرے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے ایک ہفتے بعد میری موم آرہی ہیں وہ آپکی والدہ سے خود جواب لے لیں گی ۔
وہ حیرانگی سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
جو گاڑی چلا رہا تھا ۔
کیا دعائیں ایسے قبول ہوتی ہیں کیا یہ کوئی خواب ہے؟؟
حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کُھلاچاہتا ہے
ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اُس کی
اور یہ دل کہ اُسے حد سے سوا چاہتا ہے
اک حجابِ تہہِ اقرار ہے مانع ورنہ
گُل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے
ریت ہی ریت ہے اِس دل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے
یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہو گی
اور کچھ روز کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے
رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن
رات کے ہاتھ میں اب کوئی دیا چاہتا ہے
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تیری بزم سے اب کوئی اُٹھا چاہتا ہے
واقعی میرا نصیب لکھنے والے نے بہت خوبصورت لکھا۔
اس نے آنکھیں بند کر کے سوچا۔
***”””””””””””\\\\\********
کوئی ایسی جگہ نہیں حہاں تمہیں نہیں ڈھونڈا میں نے۔۔۔
کنزہ میری جان تم کہاں چلی گئی ہو۔کیوں ستا رہی ہو آؤ بات کرو مجھ سے کہاں ہو تم لوٹ آؤ میرے بچے۔آج ایک ہفتہ ہونے کو ہے مگر وہ کہیں بھی نہیں ملی انکو۔
اللہ مجھےمعاف کردے مہرے اللہ ۔ملک فرحان رو رہے۔
“اب پچھتاوا کیوں جب وقت بھی گزگیا اور طلب بھی باقی نہ رہی”
********”””*********
مانو مجھے بہت ٹینشن ہورہی ہے ۔مشعل انگلیاں مڑورتے ہوئے بولی۔
کیوں بھئی۔وہ کباب فرائی کررہی تھی اور ساتھ اسکو جواب دے رہی تھی۔
بس معہوم نہیں یہ بتاؤ میں ٹھیک تو لگ رہی ہوں نہ؟اس نے ماہنور سے ہوچھا۔
ماہنور نے اسکی طرف دیکھا پیچ کلر کے شارٹ فراک اور پلازو پہنے سر پر پستہ رنگ کا دوپٹہ سیٹ کیے ہوئے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
فیشل کروانے کی وجہ سے اسکی اسکن چمک اٹھی تھی اور تیکھے نین نقوش واضح ہورہے تھے جن سے اسکی گھبراہٹ صاف پتہ چل رہی تھی۔
میری جان بہت خوبصورت لگ رہی زہرام بھائی ایسے ہی دل تھوڑی تم پر ہارے ہیں تمہاری سادگی ہی تو ان کو بھائی ہے۔ماہنور اسکا گال کھینچتے ہوئے بولی۔
اتنےمیں باہر بیل بجی۔
لگتا آگئے تم کمرے میں جا کر لپ اسٹک شیڈ تھوڑا ڈارک کرو میں دروازہ کھولتی۔یہ کہہ کر ماہنور دروازہ کھولنے چلی جاتی ہے۔
*****************
اندرون لاہور کی تنگ گلیوں میں واقع یہ پرانا اور خستہ حال مکان جس کے باہر یہ لوگ کھڑے تھے۔
زہرام وہ واقعی یہی رہتی ہے۔مصطفی صاحب نے ایک اچھنبے پن سے پوچھا۔
جی !اس نے جواب دیا۔
پلیز آپ لوگ ان کے سامنے ایسی بات کیجیئے گا وہ بہت اچھے لوگ ہیں ان کے دل بھی بہت خوبصورت ہے اور آنٹی کو دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔وہ انکو بتاتے ہوئے بول رہا تھا۔
مصطفی خاموش ہوگئے ۔
اتنے میں دروازہ کھلا۔
السلام علیکم !ماہنور نے سلام کر کے استقبال کیا اور اندر آنے کا راستہ دیا۔
ملک اقتتدار اور ملک فرحان نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا۔
مصطفی صاحب نے اندر داخل ہو کر پورے گھر کا جائزہ لیا۔
چھوٹا سا گھر جس کے دیواروں پر سیم نے قبصہ کیا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا عرصے سے اس گھر میں پینٹ نہیں ہوا ایک طرف لگی پھولوں کی چھوٹی سی کیاری بنائی گئی تھی جس سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ گھر کے مالکان کا پھولوں سے کس قدر لگاؤ ہے۔ مصطفی اسے دیکھ کر متاثر ہوا۔
اس طرف آئیں ۔ماہنور دائیں طرف بنے ایک کمرے میں آنے کی دعوت دے رہی تھی جو کچھ اونچا تھا۔
جیسے ہی وہ لوگ کمرے میں داخل کوئے تو حیران رہ گئے ۔
کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا صوفے پر ہاتھ سے بُنے ہوئے استر انکی خوبصورتی بڑھا رہے تھے۔
ماہنور ان کو بٹھا کر کنزہ بیگم کو بلانے چلی گئی۔
دیکھا چاچو!زیرام بولا۔
واقعی قابل تعریف ہیں یہاں کے رہنے والے لوگ۔وہ ستائشی انداز میں بولے۔
ابھی وہ سب باتیں کر رہے تھے کہ دائمہ بیگم کی نظر ماہنور کے ہمراہ آتی کنزہ پر پڑی۔
“کنزہ” وہبے ساختہ بولیں۔
انکے کہنے پر سب متوجہ ہوگئے اور نظروں کا رخ دروازے کینجانب کیا جہاں سے وہ داخل ہورہی تھی۔
دوسری طرف اندر آتی کنزہ بیگم کا حال بھی مختلف نہ تھا۔
ملک فرحان اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے تھے وہ بے یقینی سے اسے یکھ رہے تھے۔
مصطفی ابھی تک شاکڈ حالت میں تھا کہ یہ گھر واقعی کنزہ کا تھا جہاں وہ اتنے عرصے سے رہ رپی تھی۔
“شاید کنزہ کے وجہ سے ہی اس گھر کو خوبصورتی ملی تھی”
بیٹا۔ملک فرجان آگے بڑھے اسے اپنے سینے کے ساتھ لگانے کے لیے۔
مگر کنزہ نے ہاتھ سے روک دیا۔
کون ہیں آپ؟کیا جانتے ہیں ہم ایک دوسرے کو۔ان کے لہجے میں بیگانگی تھی جو ملک فرجان کو بہت تکلیف دے رہی تھی۔
بیٹا ایسا مت کرو باپ ہوں میں تمہارا میں۔وہ بےبسی سے بولے۔
جناب شاید آپ بھول چکے ہیں کہ آپکی بیٹی بہت سال پہلے مرگئی اگر یاد نہیں تو گواہ آپکے ساتھ ہے۔کنزہ کا اشارہ دائمہ کی طرف تھا۔
انکی بات کر جہاں ملک فرجان شرمندہ ہوئے وہیں دائمہ بھی شرمندگی کے باعث سر جھکا گئی۔
مصطفی آگے بڑھے اور اس کو دیکھنے لگے۔وہ جو چھوٹی چھوٹی سی بات پر خوفزدہ ہوجاتی تھی آج کیسے نڈر بن کر کھڑی تھی۔
“کنزہ”وہ بولے۔
پلیز!میرا نام مت لیجیئے آپ ۔وہ مصطفی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی۔
میں نے تمہیں بہت ڈھونڈ ڈھونڈا۔۔۔وہ اسے بتاتے ہوئے بولے۔
اوہ!سچیی۔ہاہاہا۔کوئی طعنہ یا کوئی الزام باقی رہ گیا تھا وہ طنزیہ ہنس کر بولیں۔
مجھے معاف کردو پلیز۔۔۔مصطفی قدموں میں گر کر بولا
کیا چیز ہیں آپ لوگ۔ پہلے خود الزام لگا کر کے اتنے سال سکون کی زندگی گزار کر جب ایک ہفتے پہلے پتا چلا کہ جس پر ہم نے اتنے الزام لگائے وہ بےقصور تھی اور جس کے ساتھ زندگی اتنی عیش وعشرت کے ساتھ گزاری وہ مجرم تھی اور کچھ ہی دن آپ لوگوں نے شرمندہ کیا ہولیا اب معافی مانگے اور سب ٹھیک لیکن میرے اتنے سال کی اذیت کا ازالہ کیا آپ لوگوں کی یہ معافی کردے گی ؟نہیں ۔۔کبھی معاف نہیں کرونگی مہں آپ لوگوں ۔
اور آپ آپ تو باپ تھے نہ میرے پھر بھی مجھ پر یقین نہیں کیا کسی غیر ہر اعتبار کیا ۔۔۔۔وہ ملک فرحان نے شکوہ کرتے کویے بول رہی تھی اور۔۔۔
آپ تو شوہر تھے نہ نہیں بلکہ میں تو محبت تھی نہ پھر کیوں نہیں کیا اعتبار کیا اتنا کمزور تھا ہمارا رشتہ ایک چھوٹی سی بات ہر ختم کردیا گیا۔۔وہ ملک مصطفی سے شکوہ کرتے ہوئے بولے۔
آپ لوگ عزت سے آئیں ہیں اور عزت سے ہی طلیں جائیں یہاں آپ کو کچھ نہیں ملے گا یہ کہہ کر وپ باہر کی طرف پلٹی مگر رک کر دوبارہ مڑی ۔۔
دعا کرونگی میں کہ اب ہمارا سامنا اس جہاں میں تب ہو جب لب بولنے کے قابل نہ یو۔آنکھوں میں بصارت باقی نہ ہو اور کانوں میں سماعت نہ رہے۔
اور آپ سے میں نہ ملن کی دعا اس جہاں میں کرتی یوں نہ اس جہاں کے ملن کی جہاں اس جہاں کے بچھڑے ملن کی دعا کرتے۔
الفاظ تھے کہ سیسہ جو ان کے کانوں میں ڈال دیا گیا۔
کیا یہ وہی کنزہ تھی جو رحم دل تھی۔نہیں کنزہ تو بےرحم ہے وہ کنزہ تو مرچکی قتل کردیا گیا اس کنزہ کا۔۔۔۔۔
**********”***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...