شبیر ناقِدؔکی سوانح حیات
حالاتِ زندگی:
اصل نام غلام شبیر اور ادبی نام شبیر ناقِدؔہے۔ شبیر ناقِدؔیکم فروری 1974ء کو جنوبی پنجاب کے مردم خیز خطے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف کے گائوں ہیرو شرقی میں پیدا ہوئے۔ شبیر ناقِدؔکے والد کا نام اللہ وسایا ہے جو 2007ء میں انتقال فرما گئے۔ شبیر ناقِدؔکے والد بھی شعری مزاج رکھتے تھے اور بہت سے صوفیاء کرام کا عارفانہ کلام انہیں ازبر تھا۔ شبیر ناقِدؔکی والدہ ادبی ذوق نہیں رکھتی تھیں لیکن دانش و بصیرت سے مالامال تھیں۔ شبیر ناقِدؔکے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں جن میں سے یہ سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کے نام بالترتیب یہ ہیں:
1۔ نصیر احمد
2۔ بشیر احمد
3۔ فاطمہ بی بی
4۔ سکینہ بی بی
5۔ حلیمہ بی بی
(الف) ازدواجی زندگی:
دسمبر 1997ء میں شبیر ناقِدؔکی شادی صفیہ عنبرین سے ہوئی۔ یہ ان کی پہلی شادی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے بارے شبیر ناقِدؔکا کہنا ہے کہ:
’’دسمبر 1997ء میں صفیہ عنبرین سے عقد اول کیا۔ مزاجی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ رفاقت صرف پانچ سال کے عرصہ تک محیط رہی۔ ان سے ایک بیٹی بھی پیداہوئی تھی جو بعد از پیدائش وفات پا گئی تھی۔‘‘
(مقالہ نگار کے نام شبیر ناقِدؔکا خط، 2014ء، ص 2)
21 اکتوبر 2003ء میں ممتاز النسا سے دوسری شادی کی۔
(ب) اولاد:
شبیر ناقِدؔکی پہلی بیوی سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو پیدائش کے بعد وفات پا گئی۔ دوسری بیوی سے اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے سے نوازا جس کا نام محمد کاوش ہے جو اگست 2006ء میں پیدا ہوا۔ اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کے بعد دو بیٹوں کی پیدائش ہوئی جو پیدائش کے بعد وفات پا گئے۔ اس کے بعد بچوں کی پیدائش کا سلسلہ موقوف ہو گیا۔
(ج) تعلیم:
عہدِ طفولیت میں ہی شبیر ناقِدؔفطری طور پر پڑھنے لکھنے کی طرف زیادہ توجہ دیتے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم و ادب کا ذوق مشیت سے ودیعت ہوا۔ عام بچوں کی طرح شبیر ناقِدؔکھیل کود کے مشاغل میں دلچسپی انتہائی کم لیتے تھے۔
لیل و نہار کا بیشتر حصہ حصولِ علم میں صرف ہوا۔ شبیر ناقِدؔنے 1992ء میں گورنمنٹ ہائی سکول ہیرو شرقی تحصیل تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1994ء میں گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تونسہ شریف سے ڈی کام پاس کیا۔ 2001ء میں پرائیویٹ طور پر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بی اے کیا اور 2003ء میں جامعہ ھذا سے ایم اے (اردو) کیا اور 2007ء کو مذکورہ جامعہ سے نجی طور پر پنجابی ادبیات میں پوسٹ گریجویٹ کیا۔
(د) ملازمت:
جولائی 1999ء میں شبیر ناقِدؔنے پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی، آرٹلری سنٹر اٹک سے عسکری تربیت حاصل کی اور10 جولائی 2017ءکو حوالدار کے رینک پر ریٹائرمنٹ لی۔
(2) ادبی سفر کا آغاز:
شبیر ناقِدؔنے شاعری کا آغاز تو طالب علی کے زمانے سے ہی کر دیا تھا یعنی جب وہ نویں جماعت میں تھے۔ ان کے ادبی سفر کے آغاز کے بار میں شاعر علی شاعرؔ کہتے ہیں:
’’شاعری کا باضابطہ آغاز تو نویں جماعت سے ہی ہو گیا تھا اولاً انگریزی، اردو، سرائیکی اور پنجابی زبان میں طبع آزمائی کی۔‘‘
(شاعر علی شاعر، 2014ء، ص 281)
ان کی اہم نظموں میں ’’Beauty”، ’’ٹیپو سلطان‘‘ اور ’’حریت‘‘ شامل ہیں۔ شبیر ناقِدؔنے شاعری کا باضابطہ آغاز 1996ء میں کیا اور ساتھ ہی نثر نگاری بھی شروع کر دی۔ اس کے بارے میں شبیر ناقِدؔخود کہتے ہیں:
’’میرے ادبی سفر کا آغاز 1996ء میں شاعری سے باضابطہ طور پر ہوا لیکن فوراً بعد ہی نثر نگاری بھی شروع کر دی۔ نظم و نثر میں ابوالبیان ظہور احمد فاؔتح سے اکتسابِ فیض کیا۔‘‘
(مقالہ نگار کے نام شبیر ناقِدؔکا خط، 2014ء، ص : 3)
شبیر ناقِدؔنے ابو البیان ظہور احمد فاؔتح سے بھی فیض حاصل کیا۔ اس سلسلے میں شاعر علی شاعرؔ لکھتے ہیں:
’’شبیر ناقِدؔکا شمار پروفیسر ظہور احمد فاؔتح کے ان تلامذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے آموزگارِ ادب سے سب سے زیادہ اکتسابِ فیض کیا ہے۔ اس لیے انہیں ممتاز و منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کی بسیار گوئی بھی اپنے استاد سے کچھ نہ کچھ مماثلت رکھتی ہے۔ ان کی پُر گوئی کا یہ عالم ہے کہ ان کے ابھی تک سترہ مجموعہ ہائے کلام زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں لیکن ان کے غیر مطبوعہ کلام سے ایک درج شعری مجموعے بآسانی ترتیب پا سکتے ہیں۔ زبان و ادب کی خدمت کو احساسِ سود و زیاں سے بالاتر ہو کر روح کی ریاضت گردانتے ہیں۔ اس لیے بلا امتیاز شام و سحر گلشنِ شعر و ادب کی آبیاری میں منہمک رہتے ہیں۔ ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کے معمولات ادبی خدمات سے عبارت ہیں۔ ادبی اعتبار سے ملک گیر رابطوں کے حامل ہیں۔ اگر کوئی تلمیذِ ادب راہنمائی کا خواستگار ہو تو بصد خلوص اس کی حاجت کشائی کرتے ہیں۔ ان کے شب و روز ان کی ادب سے وابستگی کے جنون کی حد تک غماز ہیں۔ گویا شبیر ناقِدؔراہِ ادب کے ان تھک راہی ہیں جو خلوص اور ریاضت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
(شاعر علی شاعرؔ، 2014ء، ص 281-282)
ملک بھر کے متعدد اخبارات و جرائد میں شبیر ناقِدؔکی بے شمار نثری و شعری تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ ان میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ ، ’’جنگ‘‘، ’’خبریں‘‘ اور ’’اوصاف‘‘ میں ان کی نثری اور شعری تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ادبی جرائد میں سہ ماہی ’’ادب معلی‘‘ لاہور، سہ ماہی ’’عالمی رنگِ ادب‘‘ کراچی، سہ ماہی ’’ارتقاء‘‘ حیدر آباد، سہ ماہی ’’لوحِ ادب‘‘ کراچی، سہ ماہی ’’غنیمت‘‘ کراچی، سہ ماہی ’’حرف‘‘ کوئٹہ، سہ ماہی ’’نوازش‘‘ لاہور، ماہنامہ ’’ارژنگ‘‘ لاہور، سہ ماہی ’’شاعری‘‘ کراچی، سہ ماہی ’’شعر و سخن‘‘ مانسہرہ سہ ماہی ’’عطا‘‘ ڈیرہ اسماعیل خان، سہ ماہی ’’زرنگار‘‘ فیصل آباد، سہ ماہی ’’فراست‘‘ بہاولپور، ماہنامہ ’’الہام‘‘ بہاولپور، ماہنامہ ’’سوجھلا ٹائمز‘‘ میانوالی، ماہنامہ ’’شاداب‘‘ لاہور، سہ ماہی ’’بدلوں‘‘ چارسدہ اور ماہنامہ ’’ادبیات‘‘ اسلام آباد وغیرہ میں شبیر ناقِدؔکا منظوم و منثور کلام شائع ہوتا رہا ہے۔
شبیر ناقِدؔکی تصانیف
شعری تصانیف
1۔ صلیبِ شعور:
دسمبر 2007ء میں ان کا اولیں شعری مجموعہ ’’صلیبِ شعور‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل تھا۔ اس کتاب میں اردو ادب کی طویل طرین غزل جسے ’’غزلنامہ‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ لفظ ’’غزل نامہ‘‘ بھی ان کی ذاتی اختراع ہے۔
بقول ظہور احمد فاؔتح:
’’شبیر ناقِدؔکو اگر فطری شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ تھوڑے سے وقت میں جس ریاض اور ہونہاری سے ان کا ہنر ارتقاء پذیر ہوا ہے، وہ یقیناً باعثِ طمانیت ہے ۔ اگر چہ جواں فکر اور جواں شوق ہونے کے ناتے ان کی شاعری زیادہ تر جوانوں کے روایتی موضوع یعنی محبت کے گرد گھومنی چاہیے تھی لیکن یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ انہوں نے زیادہ تر دیگر موضوعات کو بھی ساتھ ہی ساتھ بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا ہے۔ غمِ دوراں، رنجِ ذات، امیدِ فردا، جرم و سزا، مطالعہءِ کائنات، جوابی رویے، سیاسیات، حقیقت پسندی، خیر خواہی اور خود شناسی جیسے اوصاف شامل ہیں جن کے باعث شبیر ناقِدؔکا شعری کینوس بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہر ذوق رکھنے والا قاری ان کی کشیدِ جاں سے حظ اٹھا سکتا ہے۔ ان کے فنی و فطری تجربے ہر گاہ اپنی مخصوص بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں صرف موضوعاتی تنوع نہیں پایا جاتا بلکہ ان کی کاوشیں اصنافِ شعر کے ہر شعبے میں اپنی پختگی کا لوہا منواتی نظر آتی ہیں۔‘‘
(ظہور احمد فاؔتح، 2014ء، ص : 11-12)
2۔ من دی مسجد:
’’من دی مسجد‘‘ شاعر شبیر ناقِدؔکا پہلا سرائیکی مجموعہ ہے۔ یہ کتاب مارچ 2010ء میں فاؔتح پبلی کیشنز کالج روڈ تونسہ شریف سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب 174 صفحات پر مشتمل ہے۔ اپنے اس شعری مجموعے کا نام شبیر ناقِدؔنے اپنے ایک شعر سے اخذ کیا ہے:
میکوں کھا گئے ایہو ارمان یارو
میڈے من دی مسجد ہے ویران یارو
(شبیر ناقد، 2010، ص: 102)
من دی مسجد کے نام سے جو تقدس موجود ہے، وہ ہمیں آپ کے اس شعری مجموعے میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ’’من دی مسجد‘‘ کا انتساب آپ نے اپنے فرزند محمد کاوش کے نام کیا ہے۔ آپ نے اپنے اس مجموعہءِ کلام میں سرائیکی غزلوں، نظموں، قطعات، گیتوں، دوہڑوں اور سرائیکو کو شامل کیا ہے۔ سرائیکو کا نمونہ ملاحظہ ہو:
نت سوچاں سچویندی ونجے
اکوں روز رویندی ونجے
یاد تہاڈی
(پروفیسر یوسف چوہان، 2010ء، ص: 107)
آپ کا کلام ایک پراثر اور ایک خاص لب و لہجہ لیے ہوئے ہے جو دھیرے دھیرے دل میں اتر جاتا ہے۔ آپ کے کلام میں سماجی کرب کا گہرا احساس ملتا ہے۔
3۔ آہنگِ خاطر:
’’آہنگِ خاطر‘‘ شبیر ناقِدؔکا شعری مجموعہ ہے جو فروری 2010ء میں فاؔتح پبلی کیشنز تونسہ شریف سے شائع ہوا۔ یہ کتاب نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ اس کے شروع میں ایک حمد باری تعالیٰ اور ایک نعت رسول مقبولؐ بھی لکھی گئی ہے۔ آہنگِ خاطر میں 87 نظمیں اور 81 غزلیات موجود ہیں۔ یہ کتاب شبیر ناقِدؔکے فن کا عظیم شاہکار ہے۔ شاعری کے حوالے سے آہنگِ خاطر بہت اہم کتاب ہے۔
شبیر ناقِدؔکا رومانوی اور جمالیاتی رویہ ’’آہنگِ خاطر‘‘ پر چھایا ہوا ہے۔ اس کے مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بعض نظمیں وقتی صورتِ حال کو دیکھنے کے بعد وجود میں آئیں اور غزلوں پر بھی شبیر ناقِدؔنے بہت محنت و ریاضت کی ہے۔ ظہور احمد فاؔتح ’’آئینہ بندی‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’شبیر ناقِدؔکے کلام میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس میں ہر صنف کے نمونے نظر آئیں گے۔ غزل کے علاوہ گیت اور نظم کی سب ہیئتی اقسام مثلاً مثنوی، ثلاثی، قطعہ ،بند مخمس، مسدس، مثمن اور مستزاد شامل ہیں۔ انہوں نے خاصی متاثر کن آزاد نظمیں بھی لکھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فراوانی سے غزلیں اور نظمیں لکھنے کی وجہ سے ان کی آزاد نظموں میں بھی چلتے چلتے قافیہ و ردیف کا اہتمام پایا جاتا ہے۔ صنفی تنوع کے ساتھ ساتھ وسیع موضوعاتی تنوع بھی شبیر ناقِدؔکے ہاں مشاہدے میں آتا ہے۔ جس میں حمد، نعت، منقبت اور مرثیے کے رنگ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ معاشرتی نظمیں بھی اپنی بہار کے رنگ دکھاتی نظر آتی ہیں اور کہیں ہلکا پھلکا مزاح بھی تبسم کی موجیں بکھیرتا نظر آتا ہے۔‘‘
(ظہور احمد فاؔتح، 2010ء، ص: 17)
’’آہنگِ خاطر‘‘ ایک کہنہ مشق شاعر کے قلب و خرد کی آواز ہے جو کبھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتا۔ اس کتاب کا انتساب منظوم اور والدہ محترمہ کے نام ہے جو ایک خوب صورت نظم کا درجہ رکھتا ہے جس کے مطالعے کے بعد قاری پر ماں کے رشتے کی اہمیت اور افادیت واضح ہو جاتی ہے۔ کتاب کا آغاز حسبِ روایت حمد ونعت اور سلام امام عالی مقام سے ہوتا ہے۔ مقبول ذکی مقبولؔ لکھتے ہیں:
’’شبیر ناقِدؔکی شاعری رنگوں کی حسین قوس و قزح ہے جس میں تصوف، رومان، مزاحمتی شاعری اور علامتی شاعری کے رنگ زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کی شاعری خود میں بے پناہ دولتِ تاثر رکھتی ہے اور دلوں پر اثر کرنے کی عمیق صلاحیت سے متصف ہے۔ جدید تخیل کے ساتھ ساتھ رفعتوں کی حامل بھی ہے۔ ان کے فنی اوصاف و جواہر فکر و فن اور ادب سے پورا پورا انصاف کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کی خصوصیات واضح طور پر مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔‘‘
(مقبول ذکی مقبولؔ، 2014ء ص: 274)
4۔ جادئہ فکر:
’’جادئہ فکر‘‘ شبیر ناقِدؔکا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ یہ مئی 2014ء میں طلوعِ اشک پبلیکیشنز سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا آغاز بھی حمد باری تعالیٰ اور نعت سرکارِ دو عالمؐ سے ہوتا ہے۔ یہ کتاب بھی نظمیات و غزلیات پر مشتمل ہے۔ ’’جادئہ فکر‘‘ شاعرِ باشعور شبیر ناقِدؔکی مسلسل چوتھی شعری کاوش ہے۔
شبیر ناقِدؔایک فطری شاعر محسوس ہوتے ہیں جس میں تصنع و تفاخر کا نام و نشان تک نہیں۔ وہ تسلسل کے ساتھ لکھنے کے قائل ہیں۔ ایک برجستگی و بے ساختگی ان کے ہاں محسوس ہوتی ہے۔
ظہور احمد فاؔتح لکھتے ہیں:
’’ہمارے خیال میں ان کا یہ شعری مجموعہ ایک دلچسپ بیاض ہے جس میں ہر طرح کے مضامین رنگارنگی دکھاتے نظر آتے ہیں۔ وہ شوکتِ الفاظ کے قائل نہیں لیکن چلتے چلتے برجستہ انداز میں خوبصورت صنائع پیش کر جاتے ہیں۔ ہمیں ان کی باقاعدہ نگاری بہت پسند ہے اگرچہ کیفیات کے تحت ہونے والی شاعری ایک سمندر کا سماں رکھتی ہے۔‘‘
(ظہور احمد فاؔتح، 2014ء، ص: 13-14)
علاوہ ازیں ان کی شعری تصانیف درج ذیل ہیں۔
5۔ دل سے دور نہیں ہو تم
6۔صبحِ کاوش
7۔ کتابِ وفا
8۔ روح دی روہی
9۔ گنجِ آگہی
10۔ جہانِ عقل و جنوں
11۔ زادِ سخن
12۔ حسنِ خیال
13۔ رتجگوں کا سفر
14۔ طرزِ بیاں
15۔ نقدِ فکر و نظر
16۔ عکاسِ احساس
17۔ ضیافتِ اطفال
نثری تصنیفات
1۔ ابو البیان ظہور احمد فاؔتح کا کیفِ غزل:
شبیر ناقِدؔکی یہ کتاب جون 2013ء میں فاؔتح پبلی کیشنز تونسہ سے شائع ہوئی۔ یہ ان کی نثری اور تنقیدی نوعیت کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں شبیر ناقِدؔنے اپنے استاد گرامی ظہور احمد فاؔتح کی شخصیت اور ان کے دس شعری مجموعوں کی مشمولہ غزلیات کا انتہائی منطقی اور استدلالی انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے جس سے ان کے نقدِ فن کا جوہر کھل کر سامنے آیا ہے اور تخلیقیت کی سطح بھی اجاگر ہوئی ہے۔ اس کتاب میں کل 12 مضامین ہیں۔ پہلا مضمون ابو البیان ظہور احمد فاؔتح کے سوانحی و فنی تعارف پر مشتمل ہے۔ باقی کے عنوانات کچھ یوں ہیں (ابو البیان ظہور احمد فاؔتح) شاعرِ رجائیت، شاعرِ حزن و ملال، شاعرِ رومان، شاعرِ عرفان و آگہی، ایک انسان دوست شاعر، اسلوبیاتی جائزہ ، کلامِ فاؔتح اور داخلی کیفیات، ظہور احمد فاؔتح اور عصری رویے، ظہور احمد فاؔتح کی طربیہ شاعری کے تناظر میں،سرخیل تعلیات، ظہور احمد فاؔتح کی فنی دقیقہ سنجیاں، کثیر الجہات شاعر شبیر ناقِدؔنے اپنی اس کتاب میں ابو البیان ظہور احمد فاؔتح کی شاعری کے جمالیاتی پہلو رجائیت اور رومانیت کو اپنے مضامین کا موضوع بنایا ہے۔ اس کے علاوہ شبیر ناقِدؔنے ان کی شاعری کا اسلوبیاتی جائزہ بھی لیا ہے۔ یہ کتاب ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے اپنے استاد ِگرامی کی شاعری پر لکھ کر پورا پورا حق ادا کیا ہے۔
2۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ اول):
شبیر ناقِدؔکی یہ کتاب جون 2013ء میں رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں مختلف شاعرات کی ادبی کاوشوں پر شبیر ناقِدؔنے 26 مضامین لکھے ہیں اور نمونہءِ کلام بھی شامل کیا ہے۔ شبیر ناقِدؔنے عصری ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کتاب نسائی حوالے سے لکھی۔ یہ کتاب طبقہءِ نسواں کے جذبات و خیالات کی عکاس ہے۔ یہ کتاب لکھ کر شبیر ناقِدؔنے بہت عظیم کام سرانجام دیا ہے۔ یہ کتاب نسائی ادب میں ایک تاریخی حوالہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
ابو البیان ظہور احمد فاؔتح کہتے ہیں کہ:
’’شبیر ناقِدؔکی نگارشات کا یہ مجموعہ عالمِ تنقید میں ایک نیا قدم ہے۔ ایک تازہ پیش رفت ہے اور ایک جدید سلسلہ شذرات ہے جو خود میں بے پناہ جواہرِ درخشاں لیے ہوئے ہے جو بہت سی نادرہ کار ادبی شخصیات کے حوالے ناقدانہ آراء کا مخزنِ گراں بہا ہے۔ نہ صرف خوبصورت اشعار کا گلدستہ ہے بلکہ حسین و جمیل شخصیات کا عکسِ دلکش بھی ہے۔‘‘
(ظہور احمد فاؔتح، 2014ء۔ ص:8)
شبیر ناقِدؔنے ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کے حصہ اول میں مختلف شاعرات اور ان کے کلام کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے جن کی فہرست یہ ہے۔
فہمیدہ ریاض کی نظم اور غیر روایتی تخیلات، بسمل ؔصابری روایت و جدت کا سنگم، پروین شاؔکر احساسِ محبت کے آئینے میں ، ڈاکٹر نزہتؔ عباسی کا شعری کینوسی، حجابؔ عباسی کا شعری شعور، شبہؔ طراز تکلمِ جدید کی شاعرہ، بشریٰ فرحؔ لطیف جذبوں کی شاعرہ، حمیراؔ راحت تحیرِ عشق کی شاعرہ، ڈاکٹر نجمہ شاہینؔ کھوسہ عشق و الفت کی شاعرہ، جہاں آراء تبسمؔ پر آشوب کیفیات کی شاعرہ، آسناتھ کنولؔ نسائی احساسات کی شاعرہ، ایم زیڈ کنولؔ، یاسمینؔ یاس، میمونہ ؔغزل، حناؔء گل، ثمینہ گلؔ، فرزانہ جاناںؔ، آمنہ ؔعالم، شبنم ؔاعوان، نیرؔ رانی شفق ، زیبؔ النسا زیبی، ماریہؔ روشنی، حمید ہ سحرؔ کے کلام پر تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔
3۔ شاعراتِ ارض پاک (حصہ دوم):
جون 2013ء میں شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ دوم) شائع ہوا۔ شبیر ناقِدؔکی کتاب کی دوسری کڑی کے طور پر منظر عام پر آئی۔ یہ کتاب بھی تنقیدی مضامین و منتخب کلام پر مشتمل ہے۔ اس میں کل 37 مضامین شاعرات پر لکھے گئے ہیں۔ شبیر ناقِدؔنے اپنی کتاب میں بڑی خوبصورتی سے شاعرات کے ادبی کاموں کی تعریف کی ہے اور ان کا کلام پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شبیر ناقِدؔنے شاعرات کے سوانحی کوائف بھی درج کیے ہیں۔
شاعراتِ ارضِ پاک کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارا نسائی ادب بھی کس قدر زرخیز اور پر مغز ہے۔ ہر قسم کی شعری لطافتیں اس نسائی ادب میں موجود ہیں۔ اس کتاب میں دورِ حاضر کی بیشتر شاعرات کا ذکر موجود ہے۔
4۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ سوم):
شبیر ناقِدؔکی کتاب ’’شاعراتِ ارض پاک‘‘ حصہ سوم نومبر 2013ء میں رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں کل 34 مضامین ہیں۔ یہ شاعراتِ ارض پاک کی تیسری کڑی ہے۔ کتب کی ساری کڑیاں یہ بات واضح کرتی ہیں کہ اسے مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے شبیر ناقِدؔنے اس سلسلے کو آگے بڑھایا ہے۔
طبقہءِ نسواں نے اپنے اپنے کلام سے اردو ادب کو بہت تقویت بخشی ہے۔ اس میں موجودہ تنقیدی مضامین شبیر ناقِدؔکی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہیں۔ اس کتاب میں شبیر ناقِدؔنے بسمل صابری ، تزئین آرا، حمیرا راحت، ریحانہ روحی، شبہ طراز، ڈاکٹر فاطمہ حسن وغیرہ جیسی دورِ حاضر کی مشہور شاعرات کے بارے میں لکھا ہے اور ان کا منتخب کلام بھی پیش کیا ہے۔
5۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ چہارم):
’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کا حصہ چہارم شبیر ناقِدؔکی ان تھک کوششوں کے بعد جولائی 2014ء میں رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہوا۔ اس کتاب کی چوتھی کڑی اس کی مقبولیت کا واضح ثبوت ہے۔ شبیر ناقِدؔنے فنِ تنقید میں نام کمایا اور طبقہ نسواں کے ساتھ اس کتاب کے ذریعے بھرپور انصاف کیا ۔ ظہور احمد فاؔتح لکھتے ہیں:
’’شبیر ناقِدؔایسے نقاد ہیں جن کا مشرب خالصتاً تعمیری نوعیت کا ہے جن کا مطمحِ نظر عروسِ ادب کی تزئین و آرائش ہے۔ وہ گلشنِ شعرکی شادابی کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا قلم اگر کہیں تیزی پر بھی مائل ہوتا ہے تو اس کا مقام ڈاکٹر کے نشتر کا سا ہوتا ہے جو سراسر باعثِ خیر سمجھا جاتا ہے۔‘‘
(ظہور احمد فاؔتح، 2014ء، ص: 8)
اس کتاب کو علمی و ادبی حلقوں میں نگاہِ استحسان سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کو بہت قلیل عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان مضامین پر تحقیق و تنقید دونوں عنصر غالب ہیں۔ یہ شاعراتِ ارضِ پاک کی تمام کڑیاں شبیر ناقِدؔکی ناقدانہ صلاحیتوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔
6۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ پنجم):
یہ کتاب ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کی پانچویں کڑی ہے اور مئی 2015ء میں شائع ہوئی۔ اس میں بھی مصنف شبیر ناقِدؔنے 36 مضامین لکھے ہیں۔ شاعراتِ ارض ِ پاک کی تمام کڑیوں کو نسائی حوالے سے بہت سراہا گیا ہے۔ شبیر ناقِدؔنے اپنی اس کتاب میں بھی مختلف شاعرات پر مضامین لکھے ہیں۔ انہوں نے ادا جعفری کی جدت آمیز شاعری کو اپنا موضوع بنایا۔ علاوہ ازیں تسنیم کوثرؔ کو بطور زمانہ شناس شاعرہ کے بیان کیا ہے۔ شبیر ناقِدؔنے اپنے مضامین میں شاعرات کی کوششوں کو سراہا ہے اور ان کو بیان کیا ہے۔ ان مضامین میں رضیہ فصیح احمد اور عصری آشوب، زہرا نگار منفرد فکر اپچ کی شاعرہ، شاہین زیدی اور عمومی احساسِ محبت، فاخرہ بتول کی فکری عمومیت جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ نے معاشرے میں تنگ نظری کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے شاعرات میں حوصلہ پیدا ہوا ہے اور انہوں نے ادب میں بے پناہ اضافہ کیا۔ یہ شبیر ناقِدؔکا نسائی ادب کے حوالے سے ایک جرات مندانہ قدم ہے۔ ابوالبیان ظہور احمد فاؔتح کہتے ہیں:
’’شبیر ناقِدؔباعثِ تحسین ہیں کہ ان کی جگائی ہوئی یہ جوت اس قدر موثر اور دل کش ثابت ہوئی ہے کہ اس کی پذیرائی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ان کے بے لاگ تبصرے ، نقدِ فن کا عمدہ انداز، داد و تحسین کا بھرپور مظاہرہ، حوصلہ افزا کلمات کا برمحل استعمال اور معتدل انحرافات ایسے عناصر ہیں جن کے باعث ان کا خوانِ تنقید خوانِ یغما سے کم نہیں۔‘‘
(ظہور احمد فاؔتح، 2015ء ، ص: 6)
7۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ ششم):
شبیر ناقِدؔکی کتاب ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کی چھٹی کڑی ہے جو مئی 2015ءمیں منظرِ عام پر آئی ہے۔ اس میں بھی شبیر ناقِدؔنے شاعرات کی شعری خصوصیات کو اپنے مضامین میں منتخب کلام کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس میں بسملؔ صابری روایت و جدت کا سنگم، پروین شاکرؔ احساسِ محبت کے آئینے میں، رخشندہؔ نوید محبت کے موسموں کی شاعرہ، شبنم شکیلؔ کے عمرانی رویے، طلعت اشارتؔ کے شعری ادراکات، کشورؔ ناہید کے شعری رجحانات ، وغیرہ جیسے عنوانات شامل ہیں۔ اس کتاب میں کل 25 مضامین شامل ہیں۔
شبیر ناقِدؔکی یہ کتاب شعر و سخن کے حوالے سے اہم مقام رکھتی ہے۔ آپ ایک مشہور و معروف شاعر ہیں۔ جو فنِ تنقید اور انتقادی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ عصری تقاضوں کو بھی سمجھتے ہیں اور فنی تلامزوں سے بھی خوب آشنائی رکھتے ہیں۔
علاوہ ازیں شبیر ناقد کی نثری تصانیف حسبِ ذیل ہیں۔
8۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ ہفتم
9۔ شاعراتِ ارضِ پاک جامع ایڈیشن حصہ اول
10۔ ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ کا منشور نظم تحقیق و تنقید
11۔ نقدِ فن تحقیق و تنقید
12۔ میزانِ تنقید تنقیدی مضامین
13۔ تنقیدات تنقیدی مضامین
14۔ سفر نامہ نگاری کے انتقادی امکانات تنقیدی مضامین
15۔ شاعراتِ ارضِ پاک (جامع ایڈیشن) حصہ دوم
16۔ تلمیحاتِ فضا اعظمیؔ نقد و نظر
17۔ فضا اعظمیؔ کی شاعری (تلمیحات کے آئینے میں) تنقید