” مجھ کو پاکستان کے ابتدائی دنوں کی وہ لا متناہی بحثیں اب تک یاد ہیں جو نظریہ پاکستان کے بارے میں نجی صحبتوں اور عام جلسوں میں ہوتی رہتی تھیں لیکن ان بحثوں کے دوران میں نے ایک بار بھی کسی کے منھ سے یہ نہیں سنا کہ افلاس (اور جہالت) کا مکمل قلع قمع بھی نئی ریاست کے بنیادی نظریات میں شامل ہے۔” 1
سماجی ادارے ہوں یا عقائد و افکار، ان کا مطالعہ تاریخی پس منظر میں کرنا چاہیے تاکہ اُن عوامل و محرکات کا سراغ مل سکے جو ان حقیقتوں کے ظہور کا سبب بنے۔ اس اندازِ نظر کو فلسفہ تاریخ کی اصطلاح میں ” تاریخی ذہنیت” Historical Mindedness کہتے ہیں۔ یہ وہی اندازِ نظر ہے جس کے تحت علمائے سلف نے آیاتِ قرآنی کی شانِ نزول دریافت کی تھی اور یہ پتہ چلایا تھا کہ یہ آیتیں کب، کس موقعے پر کس مقصد سے نازل ہوئی تھیں۔ مگر تاریخ چونکہ ایک متحرک اور تغیر پذیر حقیقت ہے اور علامہ اقبال کے بقول چونکہ
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
لہذا ہم پر لازم ہے کہ حقیقتوں کا مطالعہ ان کے عالمِ حرکت و تغیر میں کریں نہ کہ عالمِ سکون ثبات میں۔ یعنی طرز معاشرت میں، سماجی اداروں میں، اور عقائد و افکار میں وقتاً فوقتاً جو تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں ان کو نظر میں رکھیں۔
علامہ اقبال نے کائنات کے حرکی اور ارتقائی تصور پر بہت زور دیا ہے۔ ان کے نزدیک تمام موجودات ِع عالم جن میں انسان بھی شامل ہے قانونِ حرکت و تغیر کے تابع ہیں (” ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں”) وہ اپنی مشہور نظم” ساقی نامہ” میں لکھتے ہیں کہ
فریبِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود!
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شانِ وجود
دمادم رواں ہے یم زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
علامہ اقبال نے انھیں خیالات کا اظہار ” ارتقا، زمانہ” اور دوسری متعدد نظموں میں بھی کیا ہے۔ دراصل تغیر اور ارتقا کا تصور علامہ اقبال کی فکر کا نہایت اہم جز ہے۔ چنانچہ انھوں نے ” خطبات مدراس” میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قرآن کی رُو سے۔
” کائنات ترقی پذیر حقیقت ہے کہ نہ مکمل تخلیق جس کو اُس کا خالق مدت گزری ایک بار تخلیق کر کے الگ ہو گیا اور اب وہ (کائنات) خلا میں مادے کا بے جان ڈھیر ہے جس پر وقت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔” 2
اشعری مفکروں کا ذکر کرتے ہوئے (جو ایٹمی فلسفے کا قائل تھے) علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ ” خدا کا تخلیقی عمل مسلسل جاری ہے لہذا ایٹموں کا شمار ممکن نہیں ۔ ہر لحظہ نئے ایٹم وجود میں آتے ہیں اور کائنات مسلسل بڑھتی اور پھیلتی رہتی ہے۔”3 اور کوئی شے ثابت اور قائم نہیں ہے4 علامہ اقبال انسان کے جسمانی ارتقا کے بھی قائل ہیں۔ وہ اتقائے بشر کو قرآن کی رُوح کے عین مطابق سمجھتے ہیں اور ان مسکویہ اور مولانا روم کی سند پیش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں ” ارتقا کے تصور نے بتدریج تشکیل پائی”5 اس ضمن میں وہ الجاحظ، البیرونی اور ابن مسکویہ کی دریافتوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں “تخلیقِ مسلسل کا تصور خالص اسلامی ہے۔” 6
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
علامہ اقبال کے ایک خطبے کا عنوان ہی “اسلامی ڈھانچے میں حرکت کا اصول ” ہے ۔ ان کے خیال میں ” تہذیبی تحریک کے اعتبار سے اسلام کائنات کے پرانے جامد تصور کور د کرتا ہے۔ اسلام کا تصوف کائنات حرکی Dynamic ہے”7 چنانچہ “اسلام کی نظر میں زندگی کی روحانی اساس اپنے کو تغیر اور تبدیلی میں منکشف کرتی ہے”8 مگر ” اسلام کی فطرت میں حرکت کا اصول کیا ہے” 9 یعنی اسلام قانونِ حرکت پر کس طرح عمل کرتا ہے۔ علامہ اقبال جواب دیتے ہیں کہ اجتہاد کے ذریعے۔ اُن کو اسلامی معاشرے سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اس نے اجتہاد کی ضرورت اور افادیت کو فراموش کردیا اور لکیر کا فقیر بن گیا۔ وہ ماضی پرستی اور ماضی کے احیا کے سخت خلاف ہیں۔ ان کی نظر میں ” پرانی تاریخ کا غلط احترام اور ضابطہ سازی اسلام کے داخلی تہپج Impulse کے منافی ہے”۔11 اسی بنا پر وہ ترکوں کی تعریف کرتے ہیں جنہوں نے اجتہاد سے کام لیا اور شخصی خلافت کے ادارے کو ختم کردیا۔
یہ اس شخص کا انداز ِ فکر ہے جس کو ” مفکر پاکستان” اور ” حکیم الامت” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے اربابِ حل و عقد اور علمائے کرام کا اندازِ فکر علامہ اقبال کے اندازِ فکر کی عین ضد ہے۔ یہ حضرات حقائق ہستی کو جامد و ساکت خیال کرتے ہیں اور حرکت و تغیر کے نام سے کانپتے ہیں۔ ان کی نظر میں اسلام پتھر کا کوئی بے جان بت ہے جس پر انقلابِ زمانہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ حالانکہ گزشتہ چودہ سو برس میں کرہ ارض کی شکل ہی کچھ اور ہوگئی ہے۔ خود مسلمانوں کی زندگی میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارے معاشرتی رشتے بدلے ہیں، پیداوار کے طریقے بدلے ہیں، سماجی قدریں بدلی ہیں، رسم و رواج بدلے ہیں، رہن سہن بدلا ہے، خوراک اور پوشاک بدلی ہے، ریاست کا نظام و آئین بدلا ہے، قانون اور ضابطے بدلے ہیں، اخلاق و عادات بدلی ہیں، سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز بدلا ہے، علوم و فنون بدلے ہیں۔ اب ہم تیل کے چراغ کی جگہ بجلی کے بلب جلاتے ہیں، اورنٹ کے بجائے موٹر اور ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں۔ چٹائی پر نہیں بلکی چارپائی پر سوتے ہیں اور صوفوں کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔ فاؤنٹین پین سے لکھتے ہیں۔ ٹیلی فون، گھڑی ، ریڈیو، ٹی وی، ایرکنڈیشنر اور ریفریجریٹر غرضیکہ بے شمار چیزیں استعمال کرتے ہیں جن کا عہدِمصطفویؐ اور خلافتِ راشدہ میں نام و نشان تک نہ تھا لیکن مولوی حضرات ان معاشرتی تبدیلیوں کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھتے بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ معاشرے کی تنظیم اُنہیں خطوط پر ہونی چاہیے جو اسلاف نے اپنی ضرورتوں کے لیے وضع کیے تھے۔
مگر حقیقت کو زمان ومکان کے تناظر سے جدا کر کے دیکھنے سے یہ پتہ چلتا کہ یہ حقیقت ایک خاص وقت میں اور خاص مقام پر کیوں ظاہر ہوئی اور حالاتِ زیست میں تبدیلی کے بعد کیوں معدوم ہو گئی۔ مثلاً غلامی کی رسم پرانے زمانے میں بہت عام تھی چنانچہ ارسطو نے غلامی کی بڑی شدت سے حمایت کی ہے اور عہدِمصطفویؐ میں بھی غلامی کا رواج تھا۔ اور مسلمان بھی غلام رکھتے تھے لیکن اب بین الاقوامی قوانین کے تحت غلامی اور بردہ فروشی دونوں جرم ہیں۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ غلامی چونکہ عہدِمصطفویؐ میں جائز تھی لہذا دورِ حاضر میں بھی غلام کنیزیں رکھنا جائز ہے (مولانا مودودی کا موقف یہی ہے) تو اس کا یہ طرزِ استدلال غیر تاریخی ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ماضی کو حال کی عینک سے دیکھے اور موجودہ دور کی سماجی قدروں کے مطابق ارسطو یا آنحضرت صلعم پر یہ اعتراض کرے کہ ان بزرگوں نے غلامی کو ممنوع کیوں نہیں قرار دیا تو اس کا یہ اعتراض بھی غیر تاریخی ہوگا۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں غلامی کو اس کے تاریخی پس منظر سے الگ کر دیا گیا ہے ۔ غلامی کی رسم کا صحیح شعور ان معاشرتی حالات کے مطالعے ہی سے حاصل ہو سکتا ہے جن کے باعث یہ رسم شروع ہوئی ۔ تب ہی ہم جان سکیں گے کہ غلامی پرانے زمانے میں کیوں ناگزیر تھی اور اب کیوں جرم ہے۔
دوسری مثال غزواتِ نبوی کی ہے جن کو ” ذہنیتِ حاضرہ” رکھنے والے مورخین لوٹ مار سے تعبیر کرتے ہیں دورِ حاضر کے سماجی اور اخلاقی معیار سے غزوات واقعی لوٹ مار نظر آئیں گے مگر غزوات پر تاریخی پسِ منظر میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ غزوہ عربوں کی پرانی ریت تھی اور مخالف قبیلے کے مال و اسباب پر قبضہ کر لینے کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لہذا موجودہ اخلاقی اصولوں کے حوالے سے غزوات کی مذمت کرنا اتنا ہی غلط اور غیر تاریخی عمل ہو گا جتنا دورِ حاضر میں غزوات کی تلقین کرنا۔
یہی وہ غیر تاریخی طرز فکر ہے جس کے تحت بعض حلقے پاکستان میں عہدِمصطفویؐ اور خلافتِ راشدہ کے انداز کی اسلامی ریاست قائم کرنے پر اصرار کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کی حرکی روح کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ انھوں نے اجتہاد کے بجائے تقلید اور معقولات کے بجائے منقولات ہی کو اسلام سمجھ لیا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ریاست کی نوعیت حالاتِ زیست سے متعین ہوتی ہے اور حالاتِ زیست بدل جائیں تو ریاست کا نظام بھی بدل جاتا ہے۔ مدنی ریاست کے احیا کا مطالبہ کرتے وقت ان بزرگوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ جن معروضی حالات میں مدنی ریاست کی تشکیل ہوئی تھی وہ دوبارہ واپس نہیں آسکتے۔ وہ یہ بھی نہیں معلوم کرنا چاہتے کہ وہ کون سے داخلی تضادات تھے جن کے باعث خلافتِ راشدہ 32 سال کی مختصر مدت میں ایک مطلق العنان ملوکیت میں بدل گئی۔ ابھی تک تو خلافت بنی امیّہ اور بنی عباس کی ” اسلامی” حیثیت بھی متعین نہیں ہو سکی ہے۔ جب فتوحات کا ذکر چھڑتا ہے اور اس میں سندھ کی فتح بھی شامل ہے یا عباسی دور میں علوم و فنون کے فروغ کی داستان رقم ہوتی ہے تو ان سلطنتوں کو مشرف بہ اسلام کر لیا جاتا ہے مگر ان کے جبرو استبداد اور غیر شرعی اعمال و افعال پر اعتراض کرو تو جواب ملتا ہے کہ یہ حکومتیں ہمارے لیے قابلِ تقلید نہیں۔
آئیے دیکھیں کہ مدنی ریاست کن حالات میں وجود میں آئی۔
ہر شخص جانتا ہے کہ عہدِ رسالت سے قبل حجاز کے کسی خطے میں کبھی کوئی ریاست قائم نہیں ہوئی۔ حجاز کے چہار جانب چھوٹی بڑی کئی ریاستیں موجود تھیں۔ مثلاً ایران کی ساسانی سلطنت اور بازنطینی سلطنت اور ان کے تابع حیرا اور غسان کی عرب بادشاہتیں اور یمن کی متعدد ریاستیں لہذا اہلِ حجاز ریاستوں کے وجود سے ناواقف نہ تھے۔ تجارتی مال کی خریدو فروخت کے سلسلے میں وہ ان علاقوں کاسفر بھی کرتے رہتے تھے ۔ مگر انھوں نے حجاز میں ریاست قائم کرنے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی۔ مکے میں ایک شخص عثمان بن حویرث نے جو قبیلہ بنی اسد کا دولت مند فرد تھا بازنطینیوں کے اشارے پر بادشاہ بننے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اسی قبیلے کے ایک شخص اسود بن المطلب نے سازش کا راز فاش کردیا۔ یہ واقعہ بعثت سے بیس سال پہلے آنحضرتؐ کے قیام مکہ کے دوران پیش آیا تھا۔12
حجاز میں گنتی کے کُل تین قابلِ ذکر شہر تھے۔ مکہ، طائف اور یثرب (مدینہ) ان میں سب سے اہم مکہ تھا جس کی آبادی دس ہزار کے قریب تھی۔ حرم کعبہ کی وجہ سے مکے کو پورے جزیرہ نما عرب میں امتیازی حیثیت حاصل تھی ۔ حج کے موقعے پر وہاں ہزاروں عرب دُور دراز مقامات سے آتے البتہ کوئی شخص شہر میں ہتھیار سمیت داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ حج کے زمانے میں مکے میں بہت بڑا بازار لگتا تھا اور شاعروں کے درمیان مقابلے بھی ہوتے تھے۔ اپنی جائے وقوع کی وجہ سے مکہ اہم تجارتی مرکز بھی تھا۔ یمن و شام اور عراق و حبشہ جانے والے تجارتی قافلے مکے ہی سے گزرتے تھے۔ اہلِ مکہ ان قافلوں سے قیام اور راہ داری کا محصول وصول کرتے تھے۔ اہلِ مکہ کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ کیونکہ زمین اتنی پتھریلی تھی کہ کھجور کے درخت بھی اگ نہ سکتے تھے نہ کوئی کاشت ہو سکتی تھی۔ یہ لوگ روپے کا لین دین بھی کرتے تھے ( عرب میں بازنطینی سکے رائج تھے) کہتے ہیں کہ مکے کے قریب چاندی کی کانیں تھیں اور قریش کا مالِ تجارت چاندہ ہوتا تھا 13 مگر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ چاندیج کی کانیں اہلِ مکہ کی اجتماعی ملکیت تھیں یا ان پر کسی مخصوص گھرانے کا قبضہ تھا۔
مکے میں اکثریت مشرکینِ قریش کی تھی لیکن عیسائی، مجوسی اور دین حنیف(وحدانیت پرست) کے پیرو بھی مختصر تعداد میں آباد تھے۔ (حضرت خدیجہٖ رضی اللہ عنہا کا گھرانہ حنیفی تھا) البتہ یہودی کوئی نہ تھا۔ قریش کا مخصوص خدا اگرچہ اللہ تھا 14 لیکن اہلِ مکہ عزیٰ (سارۂ صبح۔ زہرہ ) اور ہبل (روح یا ہوا) کی پرستش بھی کرتے تھے۔ کعبے میں ہبل کا بت سب سے ممتاز جگہ پر نصب تھا۔
مکے میں نظم و نسق کے لیے کوئی مرکزی ادارہ نہ تھا بلکہ ہر قبیلہ اپنی جگہ ایک خود مختار وحدت تھا۔ البتہ شہر کے اجتماعی مسائل طے کرنے کے لیے ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم ضرور تھی جس کو ” ملاء” کہتے تھے۔ یہ مجلسِ شوریٰ سردارانِ قبیلہ اور عمائینِ شہر پر مشتمل ہوتی تھی اور اس میں فیصلے اتفاقِ رائے سے ہوتے تھے۔ کسی قبیلے کو دوسرے پر نہ فوقیت تھی نہ کوئی کسی کا مطیع تھا۔ کعبے کے انتظام کی خاطر مندرجہ ذیل مناصب مختلف قبیلوں میں منقسم تھے
منصب تفصیل خاندان
حجابتہ کعبے کی کلید برداری اور تولیت بنی طلحہ
رفادۃ حجاج کی خبری گیری بنی نوفل
سقایہ حجاج کو پانی پلانا بنی ہاشم
مشورہ ملاء کا اجلاس طلب کرنا بنی اسد
دیات خوں بہا کا فیصلہ بنی یتم
عقاب سالارِ فوج(جنگ کے موقعے پر) بنی امیہ
قبہ خیمہ و خرگاہ کا انتظام بنی مخزوم
سفارت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنی عدی
اموال کعبے کے اثاثے کی نگرانی بنی سہم
مگر قبائلی انفرادیت کے باوصف قبیلوں کے اندر روایتی مساوات ختم ہوتی جا رہی تھی اور امیر اور غریب گھرانوں کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا تھا۔ ابو سفیان بن حرب بنی امیہ، ولید بن مغیرہ (بنی مخزوم) عاص بن وائل (بنی سہم ) ابو جہل (بنی مخزوم) اور عتبہ بن ربعیہ (ابوسفیان کا سسر) کا شمار امرائے شہر میں ہوتا تھا۔
مکے کے ابتدائی باشندے بنی جرہم تھے۔ ان پر خزاعہ نے غلبہ پایا اور کعبے کے متولی بن گئے۔ 440ء میں قبیلہ قریش کے ایک شخص قصّئی نے خزاعہ سے اختیارات چھین لیے۔ ابن اصحاق کی روایت کے مطابق قصّئی نے کعبے کے متولی حلیل خزاعی کی بیٹی سے شادی کی تھی اور حلیل کی وفات پر کعبے کا متولی بنا تھا۔ “کعبے کی کنجیاں اس کی تحویل میں رہتی تھیں اور ملاء کی صدارت کرنا، حاجیوں کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا اور جنگ کے موقعے پر لشکر کا علم بردار مقرر کرنا اس کا حق تھا” 15 مکے میں قریش کے علاوہ دوسرے قبیلے بھی بسے ہوئے تھے لیکن اکثریت قریش کی تھی اور ان کا اثر رسوخ بھی دوسروں سے زیادہ تھا۔ قریش کے لفظی معنی” تیغا مچھلی” کے ہیں۔ ” قریش” اس قوم کا غالباً ٹوٹم تھا جو یمن سے حجاز میں آکر آباد ہو گئی تھی۔
قصّئی کے مرنے پر اس کے بیٹوں کی اولاد میں جھگڑا ہونے لگا۔ عبد مناف کو بنی اسد، بنی زُہرہ، بنی یتم اور بنی حارث کی حمایت حاصل تھی جب کہ بنی عبدالدار کو بنی مخزوم، بنی سہم، بنی جماح اور بنی عدی کی۔ بالآخر بنی عبدِ مناف کو حاجیوں کو پانی پلانے (سقادہ) اور محصول وصول کرنے (رفادہ) کا کام سپرد ہوا اور بنی عبدالدار کو “ملاء” طلب کرنے، کعبے کی کلید برداری اور علم بردار کے تعین کا۔ آنحضرت صلعم کی ولادت تک اسی تقسیمِ کار پر عمل ہوتا رہا لیکن عبد مناف کی وفات پراس کے دو بیٹوں ہاشم اور عبدالشمس کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی اور ہاشم کی وفات پر عبدالشمس کے بیٹے اُمیّہ کو بالادستی حاصل ہو گئی۔ بنی ہاشم اور بنی اُمیّہ کی تاریخی عداوت کی بنیاد یہی کشمکش تھی۔
مدینے کے طبعی اور معاشرتی حالات مکے سے مختلف تھے۔ مدینہ نہایت شاداب نخلستان کے درمیان واقع تھا۔ ” دراصل مدینہ کوئی باقاعدہ شہر نہ تھا بلکہ چھوٹے چھوٹے قریوں (پُروں) کھیتوں اور کوٹوں کا جمگھٹا تھا جو تقریباً بیس مربع میل میں پھیلا ہوا تھا اور پہاڑیوں، چٹانوں اور ناقابلِ کاشت زمینوں سے گھرا تھا”16 نخلستانوں کا یہ سلسلہ فدک، خیبر اور تبوک تک جاتا تھا۔ مدینے کے لوگ زراعت پیشہ تھا مگر ریاست کا وہاں بھی نام و نشان نہ تھا۔
مدینے کی آبادی بہت ملی جلی تھی۔ تین قبیلے یہودیوں کے تھے۔ قینقاع جو سنار اور ساہو کار تھے، اور بنی نضیر اور بنی قریظہ جو مدینے کی زرخیز زمینوں کے مالک تھے۔ مدینے کا سب سے دولت مند گروہ یہودیوں کا تھا۔ اَوس اور خزرج کو مدینے میں انھیں نے بسایا تھا۔ تھوڑی سی آبادی ان عربوں کی بھی تھی جو یہودیوں سے پہلے یہاں آباد تھے۔ اکثریت بنی اَوس اور بنی خزرج کی تھی مگر رفتہ رفتہ وہ بہت سے ضمنی قبیلوں میں بٹ گئے تھے اور ان میں بڑی پھوٹ تھی۔
” ہر ممتاز قبیلہ اپنی جگہ ایک چھوٹی سی ریاست، ایک آزاد وحدت تھا۔ اس علاقے کے اندر جہاں قبیلہ بسا ہوا تھا بڑی حد تک امن رہتا کیوں کہ اپنے ہم قبیلہ کا خون بہانا ناقابلِ معافی جرم تھا۔ البتہ اپنے قبیلے سے یا حلیف قبیلے کے حدود سے باہر تحفظ مفقود تھا۔ جنگِ بعاث (اَوس اور حزرج کے درمیان 617ء) کے بعد ” ٹھنڈی جنگ” کے زمانے میں تو جان ہر وقت خطرے میں رہتی تھی۔ا یک قبیلے کی سرحد کو پار کر کے دوسرے قبیلے کی سرحد میں قدم رکھنا خطرے سے خالی نہ تھا”۔ 17
مدنی قبیلے، یہودی ہوں یا غیر یہودی کسی کی بالا دستی قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جان و مال کے تحفظ کی واحد ضمانت بدلے کا خوف تھا یعنی یہ اندیشہ کہ اگر کسی کو مارا یا نقصان پہنچایا تو پورے خاندان بلکہ قبیلے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
جنگِ بعاث (617ء) سے اوس اور خزرج دونوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ جنگ چوں کہ فتح و شکست کے بغیر عارضی صلح پر ختم ہوئی تھی لہذا مدینے کا معاشرہ باہمی نفاق اور غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے سخت بحران میں مبتلا تھا۔ وہاں فریقین کو اپنے نخلستانوں کو اچانک حملے سے بچانے کے لیے ہر دم چوکس رہنا پڑتا تھا۔ اَوس اور خزرج دونوں لڑتے لڑتے تھک گئے تھے اور کسی ایسے پر امن اور باعزت حل کے خواہاں تھے جس سے کسی کی سبکی نہ ہو۔
یہ تھے وہ معروضی حالات جن میں آنحضرتؐ نے اہلِ مکہ کو اسلام کی دعوت دی اور اللہ کی وحدانیت کی اساس پر اُمتِ واحدہ کا انقلابی فلسفہ پیش کیا جو رنگ و نسل ، قوم و وطن اور قبیلے خاندان کی تفریقوں سے بلند عالمگیر انسانی برادری کا نظریہ تھا مگر اُمت کا یہ تصور سردارانِ قریش کے لیے قابلِ قبول نہ تھا۔ تجارت اور حج ان کی آمدنی کے دو زرائع تھے جن سے نزاع کےبجائے یک جہتی پیدا ہوتی تھی۔ اپنے چھوٹے موٹے اختلافات کا تصفیہ وہ ملاء کی مجلسِ شوریٰ میں کر لیتے تھے۔ اہلِ مدینہ کی مانند خونی رشتوں کی عصبیت ان کے لیے عذابِ جان نہیں بنی تھی اور نہ روز روز کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے ان کا معاشرہ بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار تھا بلکہ ایک مستحکم معاشرہ تھا جس کو اپنی طاقت پر پورا اعتماد تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرتؐ کی بارہ سال کی مسلسل سعی و تبلیغ کے با وصف مکے میں بہ مشکل ڈیڑھ دو سو افراد نے اسلام قبول کیا۔ حالاں کہ اہلِ مکہ آپؐ کی ایمان داری، صدق گوئی اور غیر جانب داری کا بار بار امتحان کر چکے تھے۔
لیکن آنحضرتؐ کی روحانی قیادت اور اُمتِ واحدہ کا وہی تصور جس کے باعث اہل مکہ آپ کے دشمن ہو گئے تھے اہلِ مدینہ کے لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھا۔ ” جو چیز مکے میں آنحضرتؐ کی مخالفت کا سبب تھی یعنی نبوت اور اس کے سیاسی مضمرات وہی چیز اہلِ مدینہ کے لیے امن و آشتی کی امید تھی” 18 اَوس اور خزرج کے نمائندوں کا العقبہ میں 622ء میں یک جا ہو کر اسلام قبول کرنا، رسولؐ کی قیادت کو تسلیم کرنا اور آنحضرتؐ کو مدینہ منتقل ہونے کی دعوت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں قبیلے خونی رشتوں کے تقدس سے تنگ آچکے تھے۔
آنحضرتؐ کا دستور تھا کہ مکے میں حج یا دوسرے تیوہاروں کے موقعے پر جب قافلے باہر سے آتے تو آپؐ ان سے ملاقات کرتے اور اسلام کا پیغام ان کو سناتے چنانچہ جنگِ بعاث سے پہلے بنی اوس کی ایک جمعیت جب قریش سے خزرج کے خلاف مدد کی درخواست کرنے مکے آئی تو آپؐ ان سے ملے اور ان کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں تم کو اس سے بہتر چیز پیش کرسکتا ہوں جس کے لیے تم یہاں آئے ہو اور وہ ہے اسلام جو تم امن و آشتی کی خوش خبری سناتا ہے اور اللہ کی عبودیت کی طرف بلاتا ہے۔ آپؐ نے ان کو چند آیاتِ قرآنی بھی پڑھ کر سنائیں ” تب ایاث جو جوان تھا کہنے لگا کہ خدا کی قسم لوگو! یہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم یہاں آئے ہو ” مگر اس کو ڈانٹ کر چپ کردیا گیا۔19
جنگِ بعاث کے بعد 10 نبوی/620ء میں آنحضرتؐ کی ملاقات العقبہ کے معام پر بنی خزرج کے چھ افراد سے ہوئی جو مدینے میں وحدانیت پر ست یہودیوں کے حلیف تھے اور جب انھوں نے رسولؐ کی گفتگو سنی تو وہ مسلمان ہو گئے اور کہنے لگے کہ کسی قوم میں اتنی پھوٹ نہیں اور نہ اتنی عداوت اور دشمنی ہے جتنی ہم آپس میں ہے۔ شاید خدا آپ ہی کے وسیلے سے ہم کو متحد کردے۔ پس آؤ اور ان کے (اہلِ مدینہ) پاس چلیں اور آپ کے مذہب کی دعوت ان کو دیں۔ اگر خدا نے ان کو متحد کردیا تو آپ سے زیادہ کوئی طاقت ور نہ ہوگا۔20 ان کی تعداد چھ تھی۔
دوسرے سال مدینے سے بارہ افراد مکے آئے۔ ان میں نو کا تعلق بنی خزرج سے تھا اور تین کا بنی اوس سے۔ انھوں نے اسلام قبول کرلیا اور آنحضرتؐ نے مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ کردیا تاکہ وہ نو مسلموں کو قرآن پڑھ کر سنائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ وہ نماز میں امامت بھی کرتے تھے کیوں کہ اوس اور خزرج یہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ ان کا کوئی حریف امامت کرے21 مصعب کو مدینے بھیجنے کا مقصد وہاں کے صحیح حالات معلوم کرنا بھی تھا۔ ان کوششوں سے بنی اوس منات کے علاوہ تمام دوسرے خاندانوں کے متعدد افراد مسلمان ہو گئے لیکن مکے کے برعکس مدینے میں کسی نے ان مسلمانوں کو اذیت نہیں پہنچائی۔
آنحضرتؐ کی حجاجِ مدینہ سے تیسری ملاقات جون622ء میں ہوئی اس ملاقات میں مختلف قبیلوں کے 73 مرد اور 2 عورتیں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ انھوں نے آنحضرتؐ کے ہاتھ پر بیعت کی جو ” بیعت الحرب” کے نام سے مشہور ہے اور عہد کیا کہ ہر اچھے برے وقت میں ہم آپ کی حفاظت کریں گے اور آپ کے لیے لڑیں گے۔22 انھوں نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی دعوت بھی دی۔ چنانچہ مہاجرین چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں مکے سے مدینہ روانہ ہونے لگے اور بالآخر 16 جولائی 622ء (12 نبوی) کو آنحضرتؐ نے بھی ہجرت فرمائی اور ستمبر میں واردِ مدینہ ہو کر ابو ایوب انصاری کے گھر اترے جو آنحضرتؐ کے دادا عبدالمطلب کے رشتہ دار تھے۔
یہ امر غور طلب ہے کہ اہلِ مدینہ کی بہت بڑی تعداد غالباًاکثریت نے ازخود پیش قدمی کر کے ہنسی خوشی اسلام قبول کیا جب کہ اہلِ مکہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔
مدینے میں آنحضرتؐ کی پذیرائی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اہلِ مدینہ آپ کو اپنا قریبی عزیز خیال کرتے تھے مگر ایسا عزیز جو ان کی زمینوں اور نخلستانوں میں حصہ کا نہ خواہش مند تھا نہ مستحق 23 البتہ جس کے بارے میں اوس اور خزرج دونوں کو کامل یقین تھا کہ وہ کسی کی پاسداری نہیں کرے گا بلکہ غیر جانبدار رہے گا اور جو فیصلہ بھی کرے گا حق و انصاف کے مطابق ہوگا۔ یاد رہے کہ مدنی معاشرے پر مادری نظام کا اثر ہنوز باقی تھا۔ وہاں مادری رشتوں کو بڑی قدر اور محبت کی نگاہ سےدیکھا جاتا تھا اور عورتوں کو مکی عورتوں سے زیادہ آزادی حاصل تھی۔
مدینے میں آنحضرتؐ کے پیشِ نظر تین چار اہم مسائل تھ، (1) ۔ مہاجروں کی آباد کار، (2) امتِ واحد کے تصور کو زیادہ سے زیادہ سے موثر اور مقبول عام بنانا تا کہ مدنی قبیلوں کی خانہ جنگیاں ختم ہوں، امن و صلح کی قوتیں فروغ پائیں اور اسلامی اتحاد و اخوت کی جڑیں مضبوط ہوں، (3)۔ قریشِ مکہ کی تجارتی بالا دستی کا خاتمہ جو اسلام کی ترویج و اشاعت میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، (4)۔ مدینے کے قرب و جوار کے بدوی قبیلوں سے امن و صلح کے معاہدے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آنحضرتؐ نے ان مسائل کو بڑی خوبی اور خوش اسلوبی سے حل کیا۔
عہدِ مصطفویؐ میں اسلامی سیاست دو مدارج سے گزری۔ اوّل میثاقِ مدینہ سے فتحِ خیبر تک دوئم فتحِ خیبر سے فتحِ مکہ تک۔ میثاقِ مدینہ بری اہم تاریخی دستاویز ہے۔ ابن اصحاق نے ” سیرۃ رسول اللہ” میں میثاق کا پورا متن نقل کیا ہے مگر وہ یہ نہیں بتاتا کہ دستاویز اس کو کہاں سے ملی اور نہ یہ کہ دستاویز پر کب اور کہاں دستخط ہوئے۔ مغربی مورخین کی رائے ہے کہ میثاق کئی دستاویزوں کا مجموعہ ہے جو مختلف اوقات میں لکھی گئی تھیں۔ پروفیسر مانٹگو مری واٹ کا خیال ہے کہ دستاویز کی ابتدائی دفعات مکے میں بعیت الحرب کے موقعے پر تحریر کی گئیں کیوں کہ ان دفعات کا تعلق مدینے کے عرب قبیلوں کے مابین امن قائم رکھنے سے ہے۔ یہودیوں سے متعلق دفعات اسی زمانے یا اوائلِ ہجرت کی ہیں۔ ابنِ اصحاق نے میثاق کو ہجرت کے واقعات کے فوراً بعد نقل کیا ہے۔ اس سے بھی گمان ہوتا ہے کہ میثاق کا بڑا حصہ اوائلِ ہجرت میں لکھا گیا البتہ بعد میں اس دستاویز میں وقتاً فوقتاً اضافے اور ترمیمیں ہوتی رہیں۔
یہ معاہدہ چوں کہ مسلمانوں کے درمیان ہوا لہذا اس کی پہلی شرط خدا کی وحدانیت اور رسول صلعم کی نبوت کا اقرار تھی۔ ” یہ محمد رسول اللہؐ کی تحریر ہے ماننے والوں اور قریش ااور یثرب کے مسلمانوں کے درمیان اور جو ان کے پیرو اور ان کے حلیف ہیں اور ان سے مل کر جہاد کرتے ہیں۔ وہ ایک واحد اُمت ہیں دوسروں سے جدا۔”
اس میثاق کی رُو سے مدینے کے یہودی بھی امت میں شامل تھے حالاں کہ وہ اس معاہدے میں شریک نہ تھے۔ “بنو عوف کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ اُمت ہیں۔ یہودیوں کا دین ان کے لیے اور مسلمانوں کا دین ان کے لیے ” یہودی چونکہ وحدانیت پرست تھے لہذا آنحضرتؐ کو یہودیوں کو، جو مدنی معاشرہ کا اہم جز تھے امت کا رکن قرار دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوئی۔
معاہدے کی نہایت اہم دفعہ وہ ہے جس میں مدینے کو دارالامن کا مرتبہ دیا گیا ہے۔ ” یثرب کی وادی اس دستاویز کے لوگوں کے لیے مقدس ہے۔ جو شخص گھر سے باہر نکلتا ہے اور جو شخص سکون سے بیٹھتا ہے مدینے میں محفوظ ہے سوائے اس شخص کے جو خطا کار ہو یا غداری کرے۔ یہ دستاویز خطا کار یا غدار کو پناہ نہیں دیتی؟” دراصل اس معاہدے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ اہلِ مدینہ اپنے قبائلی جھگڑوں کو ختم کر کے دین، امتِ واحدہ کے رشتے میں منسلک ہو کر شہر میں پرا من زندگی گزاریں اور مت کے دشمنوں (قریش) کے خلاف متحد ہو جائیں۔ ” قریش اور ان کے حلیفوں کو پناہ دی جائے اور یثرب پر اچانک حملہ ہو تو سب ایک دوسرے کی مدد کریں۔ ”
باہمی اختلاف کے بارے میں طے پایا کہ ” اگر تم میں کسی چیز کی بابت اختلاف ہو تو خدا اور محمدؐ سے رجوع کرو۔” مزید وضاحت یوں کی گئی کہ ” جب کبھی اس دستاویز کے لوگوں کے مابین کوئی فساد اٹھ کھڑا ہو یا ایسا جھگڑا پیدا ہو جس سےتباہی کا اندیشہ ہو تو اس کو اللہ اور محمد رسول اللہ سے رجوع کیا جائے۔”
امن و عافیت کی بنیادوں کو مزید مستحکم کرنے کی غرض سے یہ شرط رکھی گئی کہ ” امت کا کوئی فرد محمد رسول اللہ کی اجازت کے بغیر جنگ میں شریک نہیں ہوگا۔”
ہر چند کہ اس دستاویز کی رُو سے اہلِ مدینہ آنحضرتؐ کی اطاعت کے پابند نہیں ہوئے اور نہ سرادارنِ قبیلہ کے حقوق و اختیارات پر کوئی اثر پڑا لیکن یہ معاہدہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ معاہدہ کرنے والوں نے آنحضرتؐ کی روحانی پیشوائی کو قبول کر لیا تھا اور ان کے حق میں اپنے دو اہم حقوق سے بھی دست بردار ہو گئے تھے۔ اب وہ رسولؐ کی اجازت کے بغیر کسی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے اور وہ اپنے، آپس کے جھگڑوں کے تصفیے کے لیے آنحضرتؐ سے رجوع کریں گے۔ ان شرطوں کی محرک اوس اور خزرج کی دیرینہ عداوت تھی۔ جب وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کی تاب نہی لا سکتے تھے تو وہ ایک دوسرے کے حکم یا فیصلے کو کیسے تسلیم کرتے۔میثاقِ مدینہ آنحضرتؐ کی سیاسی قیادت کی جانب پہلا قدم تھا۔
میثاقِ مدینہ کے بعد جنگِ بدر (2 ہجری) ایک فیصلہ کن موڑ ہے جہاں پہنچ کر مدنی ریاست کی تخم ریزی کے لیے زمین ہموار ہوتی ہے۔ مالِ غنیمت کل کا کل جہاجرین میں تقسیم کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کو اب انصار کی اعانت کی ضرورت نہیں رہتی۔ چند ہی ہفتوں کے اندر بنو قینو قاع کو مدینے سے نکال دیا جاتا ہے۔ وہ مدینے کے سب سے بڑے بازار پر قابض تھے۔ ان کی شہر بدری کے بعد تجارت پیشہ مہاجروں کو مزید سہولتیں حاصل ہو جاتی ہیں اور انصار بھی جوبن قینو قاع کے مقروض تھے قرضوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ ایک سال بعد بنو نضیر کے اخراج اور پھر بنو قریظہ کے قتلِ عام کے بعد یہودیوں کے کھیت اور نخلستان آنحضرتؐ کی تحویل میں آجاتے ہیں (بطورفے) آنحضرتؐ ان زمینوں کو مہاجرین اور چند حاجت مند انصار میں تقسیم کردیتے ہیں۔ اب مدینہ خالص مسلمانوں کا شہر ہے۔ اب مالِ غنیمت کے علاوہ دشمنوں کی زمینیں بھی آنحضرتؐ کی مرضی سے تقسیم ہوتی ہیں۔ اب آپؐ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے اہلِ مدینہ کے مذہبی پیشوا ہی نہیں بلکہ شہر کے حاکمِ اعلیٰ بھی ہیں۔ زمین پر ریاست کا بیج پڑ چکا ہے اور انکھولے پھوٹنے لگے ہیں۔ اسی سال قرآن کی رُو سے وراثت کا قانون نافذ ہوتا ہے۔ مدینے کے قرب و جوار کے صحرا نشینوں سے امن و امداد باہمی کے معاہدے کیے جاتے ہیں اور آنحضرتؐ کے سفیر ایران، مصر، قسطنطنیہ، یمن اور غسان کو اسلام قبول کرنے کا پیغام لے کر روانہ ہوتے ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ خطوط اللہ کے رسول محمدؐ کی جانب سے ہیں۔ ان خطوں میں نہ تو کسی ملک کی طرزِ حکومت پر اعتراض کیا گیا تھا اور نہ کسی مخصوص طرزِ حکومت قائم کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
اور تب خیبر فتح ہوتا ہے جو شمال میں یہودیوں کی بستی تھی۔ علامہ شبلی نعمانی کے بقول ” یہ پہلا غزوہ ہے جس میں غیر مسلم رعایا بنائے گئے اور طرزِ حکومت کی بنیاد قائم ہوئی اور اسلام کی ملکی اور سیاسی حالت کا نیا دور شروع ہوا”۔ 24 خیبر میں چوں کہ مسلمان آباد نہ تھے اور نہ مجاہدین وہاں جا کر بسنے پر راضی تھے لہذا آنحضرتؐ نے وہاں نخلستانوں اور زمینوں کو بٹائی پر یہودیوں ہی کے حوالے کردیا۔ بعد میں فدک ، وادی القریٰ اور تیمہ وغیرہ میں بھی اس طریق پر عمل کیا گیا۔ مورخین کا خیال ہے کہ ان زمینوں کا کچھ حصہ فے قرار پایا یعنی مسلمانوں کی اجتماعی اور مشترکہ ملکیت اور کچھ حصہ افراد کی ذاتی ملکیت ” پیداوار کے تیار ہونے کے وقت آنحضرتؐ کسی صحابی کو نصف پیداوار وصول کرنے کے لیے بھیج دیتے تھے”۔ 24
9 ہجری کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ” اب ملک میں امن و امان کا دور شروع ہوا۔ اب حصولِ زر کے مواقع حاصل تھے اس بنا پر زکوٰۃ کا حکم اس سال نازل ہوا اور تحصیل زکوٰۃ کے لیے عمال قبائل پر مقرر ہوئے۔ سود بھی اسی سال حرام ہوا26 اور یمن، حضرموت، تیمہ، نجران، مکہ، عمان اور بحرین میں والی مقرر ہوئے۔ گویا فتحِ مکہ کے بعد مدنی ریاست کی تشکیل مکمل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ اس نوزائیدہ ریاست کے پاس رعایا سے الگ اور بالا نہ کوئی فوج تھی نہ پولیس، نہ بڑے بڑے انتظامی دفاتر، نہ کثیر التعداد اربابِ مناصب ، نہ وزرا شوریٰ، نہ امرائے ریاست، نہ الگ الگ حکام و قضاۃ27 مگر ریاست کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔ یہ ریاست نوعیت کے اعتبار سے شہری ریاست تھی۔ یعنی عرب کا تقریباً تین چوتھائی علاقہ اگر چہ اس ریاست کے تابع تھا لیکن سیاسی اختیارات، حقوق اور مراعات کا مرکز شہرِ مدینہ تھا۔ طرزِ حکومت کے لحاظ سے یہ ریاست تھیو کریسی تھی یعنی ریاست کا حاکمِ اعلیٰ خدا کا رسول تھا جو تعلیماتِ قرآنی کی روشنی میں احکام صادر کرتا تھا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کا مقصد ریاست قائم کرنا تھا۔ کیا خدا کسی مخصوص ریاستی نظام کو درست اور بقیہ کونا درست سمجھتا تھا اور کیا آنحضرت صلعم دنیا میں تھیو کریسی قائم کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے؟ تاریخ ان سوالوں کا جواب نفی میں دیتی ہے اور عقل اس نفی کی تائید کرتی ہے۔ خدا کو اس سے کوئی سروکار نہیں ک کسی ریاست کا نظام شاہانہ ہے۔ آمرانہ ہے ، جمہوری ہے یا اشتراکی کی۔ اگر خدا کی مرضی یہ ہوتی کہ فلاں نظام ریاست رواج پائے تو وہ انسان کوابتدا ہی میں اپنی مرضی سے آگاہ کردیتا ہے اور پچھلے پانچ چھ ہزار برس سے تھیو کریسی، ملوکیت، آمریت، جمہوریت اور اشتراکیت کے جو تجربے ہو رہے ہیں ان کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ قرآن میں بادشاہتوں کے تذکرے ہیں مگر ریاست جیسے اہم مسئلے پر قرآن بالکل خاموش ہے۔ حضرتِ ابراہیم نمرود کی مطلق العنان بادشاہت پر معترض نہیں ہوتے بلکہ اس کے دعویٰ خدائی سے انکار کرتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ فرعون کی ملازمت کو برا نہیں سمجھتے، حضرت موسیٰؑ فرعون کی طرزِ حکومت کی مخالفت نہیں کرتے البتہ اس کے دعوائے ربوبیت کو رد کرتے ہوئے خدائے واحد کی ربوبیت کا اعلان کرتے ہیں۔ حضرتِ سلیمانؑ تو نبی بھی ہیں اور بادشاہ بھی۔ پس معلوم ہوا کہ خدا نے انسان کو اس بات کی مکمل آزادی دے دی ہے کہ وہ جس طرز کی ریاست یا حکومت چاہے قائم کرے۔ آنحضرتؐ نے مختلف فرماں رواؤں کو جو خطوط لکھے ان میں بھی فقط اسلام کی دعوت دی گئی۔ طرز حکومت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ بعثتِ نبویؐ کا مقصد بیان کرتے ہوئے مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ:
“آنحضرت ؐ کی اصل بعثت کا مقصد دعوتِ مذہب، اصلاحِ اخلاق اور تزکیئہ نفوس تھا۔ اس کے علاوہ تمام فرائض محض ضمنی تھے۔ اس بنا پر انتظاماتِ ملکی آپؐ نے اسی حد تک قائم کئے جہاں تک ملکی بد امنی کے باعث دعوتِ توحید کے لیے عوائق پیش آتے تھے”۔28
سر زمینِ حجاز میں ریاست کا ظہور وہاں کے سیاسی اور معاشرتی حالات میں تبدیلیوں کا منطقی نتیجہ تھا۔ مدنی ریاست رفتہ رفتہ انھیں تاریخی عوامل کے بروئے کار آنے سے وجود میں آئی جن کے باعث بعض اوقات چھوٹی بستیاں شہروں میں اور شہر شہری ریاستوں میں تبدیل ہو گئے۔ یہ تبدیلیاں کسی فردِ واحد کی خواہشوں یا کوششوں کی مرہونِ منت نہ تھیں بلکہ معاشرتی حالات ان کا سبب تھے۔ آنحضرتؐ کبھی نہ ریاست قائم کرنے کے آرزو مند ہوئے، نہ انھوں نے ریاست قائم کرنے کا منصوبہ بنایا اور نہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدو جہد کی البتہ مدینے کے حالات ہجرتِ نبوی کے بعد ایسی صورت اختیار کرتے چلے گئے کہ ریاست کا قیام ناگزیر ہوگیا۔
پروفیسر قمر الدین خان بڑے عالم و فاضل بزرگ ہیں۔ انھوں نے روزنامہ ڈان کراچی 14اگست 1980ء کی اشاعتِ خاص میں ایک طویل مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا۔ “اسلام کا مقصد ریاست قائم کرنا نہیں تھا اور نہ قرآن مسلمانوں کو اسلامی ریاست قائم کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ ذیل میں ہم پروفیسر صاحب کے مضمون کا خلاصہ انھیں کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں تاکہ اسلامی ریاست کی اصل حقیقت واضح ہو جائے۔
1۔فلسفہ سیاست کا بنیادی تصور ریاست ہے۔ دوسرے تمام سیاسی خیالات براہِ راست یا بالواسطہ اسی سے منسلک ہیں لیکن قرآن میں ریاست کا کوئی تفصیلی یا اجمالی نظریہ موجود نہیں ہے۔
2۔ قرآن نے دراصل کسی اصولِ ریاست کی تشریح نہیں کی ہے۔ قرآن میں کسی جگہ نہ دستورِ اساس کا مطلب اور تصور ملتا ہے نہ اقتدارِ اعلیٰ کا تصور، نہ حق رائے دہی کا اصول ، نہ انسانی حقوق کاتفصیلی تصّور اور نہ ریاستی اداروں اور تنظیموں کے ضابطے۔ قرآن شریف ان تمام موضوعات پر خاموش ہے کیوں کہ تاریخی ارتقا کے ساتھ ان کے معنی و مفہوم بدلتے رہتے ہیں مزید برآں قرآن کا مقصد ریاست قائم کرنا نہیں بلکہ معاشرے کی تخلیق ہے۔
3۔ ریاست اور آئینِ ریاست کی تعریف کی عدم موجودگی (قرآن میں) مسلمانوں کے لیے بڑی وجہ خیر ہے کیوں کہ اس کے باعث اسلام کے لیے زمانے کی ترقی کے ساتھ قدم ملا کر چلنا اور نئے حالات اور نئے ماحول کے ساتھ مطابقت کرنا ممکن ہے۔
4۔ قرآن میں اختیار اور اقتدار کا ذکر مختلف تناظر میں بار بار آیا ہے لیکن نہ تو ریاست کی کہیں تعریف کی گئی ہے نہ مثالی ریاست کی۔
5۔ سنت بھی اس موضوع پر قرآن ہی کی مانند خاموش ہے۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر خدا کے فوری جانشینوں نے سیاسی تنظیم کے مختلف اصول کیوں اختیار کیے۔
6۔ قرونِ اولیٰ میں قرآنی ریاست کے بارے میں کبھی قیاس آرائی نہیں کی گئی۔ نظریہ سازی در حقیقت عباسیوں کے ابتدائی دور میں شروع ہوئی اور خلافت کاتمام و کمال تصور، غیر معتبر احادیث اور بعد کے تاریخی واقعات کی بنیاد پر قائم ہوا اور بعد میں خلافت کا جو نظریہ وضع ہوا اس کا کوئی تعلق قرآن سے نہ تھا۔ وہ سیاسی مصلحت اور مذہبی ضرورت کی پیداوار تھا ( یہ تمام نظریات دَورِ ملوکیت میں ایجاد ہوئے)۔
7۔ قرآن کی غلط ترجمانی اسلامی تاریخ کی بالتکر روایت ہے۔ چنانچہ دورِ حاضر مین بھی بعض علمائے دین قرآن کی اَکّا دُکّا آیتوں کو ان کے اصلی سیاق و سباق سے الگ کر لیتے ہیں اور ان سے اُن خیالوں اور ارادوں کی تائید کا کام لیتے ہیں جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
8۔ اِن دنوں احیائے دین کے بجائے سارازور اسلامی ریاست قائم کرنے پر دیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست کا قیام پہلے ضروری ہے تاکہ دین کا احیا ہو سکے۔ یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ ریاست کو دین کے برابر گردانا جائے ( جماعتِ اسلامی کا نعرہ ” پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ”) لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ خود خدا نے جس کا م کو مناسب نہ جانا اس پر اتنی محنت کیوں صرف کی جا رہی ہے۔ خدا کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ ریاست کے اصول اور ڈھانچے کا ذکر تفصیل سے بیان کردیتا اور مسلمانوں کوبے شمار خونی نزاعوں اور مستقل پریشانیوں سے بچا لیتا لیکن اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ کے لیے کسی مخصوص سیاسی سانچے کا پابند کر دینا حکمتِ خدا وندی کے خلاف تھا۔ مزید برآں اسلام کا مقصد ریاست قائم کرنا نہ تھا بلکہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا تھا جس کی قدروں کی تشریح کر دی گئی ہے۔
9۔ریاست معاشرے کے مناصب میں سے ایک منصب ہے اور چوں کہ معاشرہ وقت کے ساتھ بدلتا اور ارتقائی مدارج طے کرتا رہتا ہے لہذا ریاست کی فطرت اور ہیئت بھی اس کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ یہ تھی اصل وجہ جس کی بنا پر قرآن نے ریاست کے اصول منضبط نہیں کیے اور مسلمانوں کو اس بات کی پوری آزادی دے دی کہ وقت اور زمانے کی مناسبت سے جس معاشرے کے لیے جس قسم کا سیاسی ڈھانچہ چاہیں وضع کرلیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے علمائے دین مثلاً امام شافعی، امام ابو یوسف، امام محمد، امام غزالی اور ابن تیمہ وغیرہ نے موروثی سلطانوں کی ملازمت کی اور غیر اسلامی ریاست کی خدمت کرنے پر احتجاج نہیں کیا۔ اس کے برعکس ان میں سے اکثر ریاستوں کے بڑے سر گرم حامی تھے کیوں کہ اس وقت کے حالات میں کوئی بہتر صورت ممکن نہ تھی۔
10۔ کہا جاتا ہے کہ پیغمبروں کا خاص مقصد زمین پر قوانینِ الوہی کے مطابق سیاسی اقتدار قائم کرنا تھا۔ اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو بیش تر انبیا اپنے مشن میں ناکام رہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ قرآن میں جن نبیوں کا ذکر موجود ہے ان میں سے کسی کو بھی یہ ہدایت نہیں کی گئی کہ تمھارا منصب و فریضہ دنیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا ہے۔ وہ لوگوں کو فقط کائنات کے خالق اور رب کی عبادت کی دعوت دیتے اور نیک کام کرنے اور بدی سے بچنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ آنحضرتؐ اور اہلِ مکہ میں نزاع کا اصل سبب یہ نہ تھا کہ آنحضرتؐ وہاں پر کوئی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے بلکہ انھوں نے اہلِ مکہ کے عقیدہ بت پرستی کو رد کیا تھا۔ قرآن نے آنحضرتؐ کے مشن کو بار بار وضاحت سے بیان کر دیا ہے:
11۔کہا جاتا ہے کہ ریاست میں حاکمیت کا مستحق صرف خدا ہے نہ کہ ریاست کے باشندے مگرظاہر ہے کہ خدا خود زمین پر آکر فیصلے نہیں کرے گا بلکہ فیصلے انسان ہی کریں گے البتہ دعویٰ یہ کریں گے کہ یہ فیصلے مقدس ہیں کیوں کہ خدا کے نام پر کیے گئے ہیں مگر اسلامی تاریخ میں بدترین قسم کا استبداد اسی طور پر نافذ ہوا ہے۔
خلاصہ
1۔ قرآن اور احادیث میں مسلمانوں کو ریاست قائم کرنےکی ہدایت کہیں درج نہیں ہے۔
2۔ قرآن اور سنت میں آئین، قانون یا سیاسی نظریے کا کوئی اصول موجود نہیں ہے۔
3۔ رسولِ مقبولؐ نے سیاسی حکومت ضرور قائم کی مگر ہو تاریخی صورتِ حال کا نتیجہ تھی، ان کے پیغمبرانہ مشن کا بنیادی مقصد نہ تھی۔
4۔ اسلامی سیاسی نظریے قرآن اور سنت پر مبنی نہیں ہیں بلکہ صحابہ ؑکرام کی آراء اور خلفائے راشدین کے عمل سے ماخوذہیں اور تاریخی حالات کا نتیجہ ہیں لہذا ان کو کوئی مذہبی سند حاصل نہیں۔
5۔ ریاست معاشرے کے مناصب میں سے ایک ہے اور ہمیشہ ضروری نہیں ہے (ہجرت سے قبل مکے میں کوئی ریاست نہ تھی مگر مسلمان موجود تھے) لہذا اسلامی معاشرہ ریاست کے بغیر کام کر سکتا ہے۔ ہندوستان ، سری لنکا، سویت یونین، برما، تھائی لینڈ، فلپائن اور متعدد افریقی ملکوں میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتیں موجود ہیں۔
6۔ یہ دعویٰ کہ اسلام مذہب اور سیاست کا آہنگ ہے جدید تصور ہے اسلام کی تاریخ میں جس کا سراغ نہیں ملتا۔ اسلامی تاریخ میں ” اسلامی ریاست” کی اصطلاح 20 ویں صدی سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئی۔
ہماری نام نہاد اسلامی جماعتیں قرآن و حدیث سے اپنے مطلب کے ریاستی نظریے ہی اخذ نہیں کرتیں بلکہ قرآن کی بعض آیتوں کو سیاق و سباق سے الگ کر کے ان سے حاکمِ وقت کی اطاعت کا جواز بھی ثابت کرتی ہیں۔ آیاتِ قرآنی کا یہ بیجا استعمال بنی اُمیّہ اور بنی عباس کے دورِ ملوکیت میں شروع ہوا اور ہنوز جاری ہے۔ چنانچہ فقہائے اسلام اپنی اطاعت گزار فہم و فراست کے ایسے ایسے نادر شاہ کار چھوڑ گئے ہیں کہ مسلمانوں نے اگر ان کی ہدایتوں پر عمل کیا ہوتا تو ترکی، مصر، ایران اور عراق وغیرہ میں ملوکیت آج بھی مسلط ہوتی۔ پاکستان وجود میں نہ آتا اور الجزائر، لیبیا، شام، ہندوستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا بدستور مغربی سامراج کے قبضے میں ہوتے۔
نظام الملک طوسی تو خیر سلجوقیوں کا وزیر تھا لہذا اس کی تصنیف ” سیاست نامہ” پر حرف زنی فضول ہے لیکن امام غزالی (1057ء 1111ء) کا سا عالمِ دین جب آیاتِ قرآنی کے ساتھ یہی ناانصافی کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔ ” نصیحت الملوک” ان کی آخری تصانیف میں شمار ہوتی ہے۔ کتاب کے حصہ دوم میں امام صاحب مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
” تم کو جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم میں سے دو طبقے منتخب کیے اور ان کو بقیہ بندوں پر فوقیت عطا کی۔ اول انبیا، دوئم سلاطین، اپنے بندوں کو معبود کی طرف رجوع کرنے کی غرض سے انبیا بھیجے اور بندوں کی حفاظت کے لیے سلاطین بھیجے۔۔۔ سلطان زمین پر خدا کا سایہ ہے لہذا یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ سلطانی اور فرایزدی سلطانوں کو خدا نے مرحمت کی ہے لہذا ان کی اطاعت کرنی چاہیے، ان سے محبت کرنی چاہیے اوران کا حکم ماننا چاہیے۔ سلاطین سے جھگڑا کرنا درست نہیں اور ان سے نفرت کرنا غلط ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اطیعو اللہ واطیعو الرسول و اولیٰ لامر منکم۔29
حالاں کہ سورۂ النسا کی اس آیت کا حاکمِ وقت کی اطاعت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ابو الحسن علی ابن علی ابن احمد الواحدی (وفات 428ھ /1075ء) اپنی مشہور تصنیف “اسباب النزول” 30 میں اس آیت کی شانِ نزول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
” عبداللہ ابنِ عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت عبداللہ ابنِ حدیفہ کے باب میں نازل ہوئی۔ پیغمبر ؐ نے ان کو ایک مہم پر بھیجا تھا۔ابنِ عباس یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام نے خالد بن ولید کو ایک عرب قبیلے سے لڑنے بھیجا۔ عمار بن یاسر ان کے ہمراہ تھے۔ عمار نے ایک عرب کو پناہ دی دی جو اُسی وقت مسلمان ہوا تھا۔ خالد نے اس کو گرفتار کر لیا اور اس کی جائیداد ضبط کر لی۔ عمار کو معلوم ہوا تو انھوں نے خالد سے کہا کہ یہ شخص مسلمان ہو گیا ہے اور میں نے اس کو پناہ دی ہے لہذا اس کو رہا کردو۔ خالد نے عمار کو ڈانٹا اور کہا کہ تم لشکر کے سالار نہیں لہذا تم کو پناہ دینے کا حق نہیں۔ مہم سے واپس آکر دونوں نے یہ رُوداد آنحضرتؐ کو سنائی۔ تو آنحضرتؐ نے عمار بن یاسر کے حق میں فیصلہ دیا اور نو مسلم کو پناہ دینے کو درست قرار دیا لیکن یہ حکم بھی صادر فرمایا کہ سالارِ لشکر کی اجازت کے بغیر کسی کو پناہ نہ دی جائے۔
یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی”
فوجی مہم کے دوران سالارِ لشکر کے احکام کی اطاعت نہایت ضروری ہوتی ہے۔ چنانچہ آج بھی افسر کی حکم عدولی فوجی قوانین کے تحت نہایت سنگین جرم خیال کی جاتی ہے لیکن اس آیت کو تاریخی پس منظر سے جدا کر کے کسی سیاسی کلیے کی بنیاد بنانا بڑی اخلاقی بد دیانتی ہے۔ یہاں ہم کو جنرل ایوب خان کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ 1969ء میں جن دنوں ان کے خلاف عوامی تحریک عروج پر تھی ایک روز میں ڈرگ روڈ سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گورا قبرستان کے چوراہے کے ایک کونے میں ساٹھ ستر فٹ کا سبز رنگ کا ایک لمبا چوڑا سائن بورڈ لگا ہے۔ اس پر ” اطیعو اللہ و اطیعو الرسول و اولیٰ لامر منکم” کی آیت معہ اردو ترجمہ نہایت جلی حروف میں لکھی ہوئی ہے۔ آگے بڑھا تو ایسے ہی بورڈ ہر چوراہے پر نظر آئے جو راتوں رات نصب کیے گئے تھے۔ البتہ چند روز بعد جب ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا تو یہ بورڈ چپکے سے اتار لیے گئے۔
امام غزالی نے ” اطیعوالامر” کا جو مفہوم پیش کیا وہ اس لحاظ سے لائقِ در گزر ہے کہ گیارھویں صدی عیسوی میں ملوکیت کے علاوہ کسی دوسری طرزِ حکومت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن مولانا ابو الاعلیٰ مودودی بیسوی صدی کی آٹھویں دہائی میں کہ عوامی جمہوریت کا دور ہے جب اس آیت کی تشریح فرماتے ہوئے یہ فقیہانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ:
” یہ آیت اسلام کے پورے مذہبی، تمدنی او سیاسی نظام کی بنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اولین دفعہ ہے۔” 31
تو عقل تسلیم نہیں کرتی کہ جس شخص نے قرآن کا ترجمہ معہ تفسیر کیا ہو وہ اس آیت کی شانِ نزول سے واقف نہ ہو اور جس آیت کا کوئی تعلق اسلام کے مذہبی، تمدنی اور سیاسی نظام سے نہیں اس کو وہ اسلامی ریاست کے دستور کی اولین دفعہ قرار دے۔ فریب خودردہ اور فریب کارذہنیت کی اس سے بری مثال مشکل سے ملے گی۔
عباسیوں کے دور ملوکیت میں تو ایسی حدیثیں بھی گڑھ لی گئیں جن سے حاکمِ وقت کی اطاعت مذہباً واجب قرار پائے۔ چنانچہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے امام بخاری کی کتاب الاحکام کے حوالے سے اس حدیث کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیاہے۔ فرماتے ہیں کہ ” حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اسمعو او اطیعو اولواستعمل علیکم عبد حبشی” سنو اور اطاعت کرو اگر چہ تمھارا سردار ایک حبشی ہی کیوں نہ بنا دیا جائے۔” 32
پاکستان میں اِن دنوں ایک ، مجلسِ مشاورت، مرکزی سطح پر قائم ہے۔ اس کی کارروائیوں کی خوب پبلسٹی ہو رہی ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے گویا اس مجلسِ شوریٰ کا قیام احکام قرآنی کے عین مطابق ہے حالاں کہ مجلسِ شوریٰ کو پاکستان کے باشندوں نے منتخب نہیں کیا ہے بلکہ ایک شخصِ واحد نے نامزد کیا ہے۔ حکومت اس کے فیصلوں اور ” مشوروں ” کی پابند بھی نہیں اور نہ اس کے رو برو جوا ب دہ ہے۔
قرآن شریف میں آپس میں مشورہ کرنےسے متعلق فقط دو نہایت مختصر آیتیں ملتی ہیں۔ پہلی آیت میں آنحضرتؐ کو ہدایت کی گئی ہے کہ ” وشاور ہم فی لامر فازاعزمت فتو کل علی اللہ (اور ان سے معاملات میں مشورہ کرو پھر جب تم عزم کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ سو رہ آل عمران 159) طبری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” علمانے الامر کی دو تفسیریں کی ہیں۔ بعضوں کا خیال ہے کہ الامر سے مراد جنگ کی حکمتِ عملی ہے اور بعضوں کا خیال ہے کہ الامر سے مراد دینی مسائل ہیں” 33 اس آیت کا تعلق جنگ احد کے واقعات سے ہے لہذا اول الذکر تشریح مناسب معلوم ہوتی ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا اور وہ شکست سے بال بال بچے تھے۔ وہاں جو سانحے پیش آئے ان کا مسلمانوں کی نفسیات پر بہت گہرا اثر پڑا تھا چنانچہ آلِ عمران کی مسلسل چالیس آیتوں (120۔159) میں جنگ ِ احد کے واقعات اور ان سے پیدا ہونے والی صورتِ حالات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور خدا نے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی ہے اور ان کی تسکینِ قلب کی ہے اور آخر میں آنحضرتؐ کو ہدایت کی ہے کہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کرو۔
دوسری آیت کی نوعیت عمومی ہے۔ پوری آیت یہ ہے۔
ولاذین الستجابو الربھم وااقامو الصلوٰۃ وامرھم شوریٰ بینھم و مما رزقنھم ینفقون
جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ( سورہ الشوریٰ۔37)
ظاہر ہے کہ ان دونوں آیتوں کا کوئی تعلق جمہوریج نظام یا ملکی سیاست سے نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مشیر اور منتخب شدہ رکن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکومت مشیروں کے مشورے کو جی چاہے مانے جی چاہے نہ مانے لیکن مجلسِ قانون ساز کے منتخب شدہ ارکان اگر کوئی فیصلہ کثرتِ رائے سے کریں تو اس کی تعمیل حکومت کا فرض ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر ان آیتوں کی جو تفسیر کی جارہی ہے وہ سراسر غلط ہے۔
مدینے میں اسلامی ریاست قائم ہونے کی وجہ سے اشاعتِ اسلام کی سہولتیں بڑھیں اور مسلمانوں کے اثر و اقتدار اور دولت اور دولت آفرینی کے ذرائع میں حیرت انگیز اضافہ ہوا مگر اُمت واحدہ کو تقویت نہیں ملی کیوں کہ اُمتِ مسلمہ کا تصور اجتماعیت کا متقاضی تھا جب کہ مدنی ریاست کا میلان انفرادیت کی جانب تھا اور اقتصادی ڈھانچہ ذاتی ملکیت کو فروغ دینے کی اجازت دیتا تھا۔ آنحضرتؐ کی آنکھ بند ہوتے ہی امت اور ریاست کے تضادات کھل کر سامنے آگئے۔ حصولِ اقتدار کی کشمکش ، قبائلی گروہ بندیاں اور طبقاتی امتیازات جن پر رسولؐ کی عظیم شخصیت پوری طرح حاوی تھی منظرِ عام پر آگئے۔ ابھی آنحضرتؐ کی لاشِ مبارک دفن بھی نہیں ہوئی تھی کہ اکابر انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو کر سعد بن عبادہ کو ریاست کا سربراہ چن لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ حضرت عمر کو اس اجتماع کی خبر ملی تو وہ حضرت ابو بکرنے رسول اللہ ؐ کا یہ قول پیش کیا کہ ” الائمہ من القریش ” (امام قریش میں سے ہوں گے) تو اس روایت کو انھوں نے قبول کیااور سچ سمجھا اور اب تک وہ خود تنہا جو کار روائی کررہے تھے اس سے رُک گئے اور کہنے لگے کہ ہم میں سے ایک امیر ہو اور تم میں سے ایک امیر ہو، پھر جب حضرت ابو بکرنے فرمایا کہ ہم امیر بنیں اور تم وزیر بنو تو انصار نے ان کی اس بات کو منظور کرلیا۔34
خلافتِ راشدہ کے عہد میں فتوحات میں روز افزوں توسیع کے ساتھ امت کے جسدِ واحدہ میں پھوٹ اور نزاع کا زہریلا مادہ بھی بڑھتا گیا۔ یمنی مسلمانوں کا زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر بڑے پیمانے پر قتل، ارتداد کا فتنہ، چار میں سے تین خلفا کی مسلمانوں کی بغاوتیں، حضرت عائشہ رضی اللہ اور حضرت علی رضی اللہ کی نزاع اور پھر حضرت علی رضی اللہ اور امیر معاویہ رضی اللہ کے درمیان باقاعدہ جنگ اور خوارج کا ظہور وہ المناک واقعات ہیں جن سے اُمت اور ریاست کا تضاد واضح ہو جاتا ہے۔
مدنی ریاست دراصل عبوری ریاست تھی جو قبائلی جمہوریت اور ملوکیت کی درمیانی کڑی تھی۔ وہ نہ جمہوریت تھی نہ ملوکیت بلکہ چند سری حکومت تھی۔ ایک طرف قبائلی روایتیں تھیں۔ دوسری طرف نوزائیدہ ریاست تھی جس نے قبائلی حدوں کو توڑ دیا تھا کیوں کہ یہ بندشیں ریاست کے نظم و نسق میں حارج تھیں البتہ چاروں خلفا کا چار مختلف طریقوں سے انتخاب قبائلی جمہوریت اور ریاست کے تقاضوں کے مابین مفاہمت کی مخلصانہ کوشش تھی جو کامیاب نہ ہو سکی 35 اور جب ریاست کا تو سیعی دور شروع ہوا اور شہری ریاست ایک وسیع و عریض سلطنت میں تبدیل ہو گئی تو قبائلی جمہوریت کے بچے کھچے اثرات بھی زائل ہو گئے۔ فتح ایران کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ کے سامنے مالِ غنیمت کا انبار لگا تو آپ زارو قطار رونے لگے۔ لوگوں نے پوچھا امیر المومنین خوشی کے اس مبارک موقع پر آپ رو کیوں رہے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ نے جوا ب دیا کہ اس انبار میں، میں اسلام کی تباہی دیکھ رہا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ ریاست کی توسیعی سرگرمیوں کے انجام سے بخوبی آگاہ تھے لیکن معاشرتی ارتقا کے عمل کو وہ روک نہیں سکتے تھے چنانچہ وہی ہوا جس کا ان کو اندیشہ تھا۔ خلافتِ راشدہ بنی امیہ کی مطلق العنان ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔
اس سوال کے جواب میں کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں جمہوریت نے کیوں فروغ نہ پایا۔ علامہ اقبال ؒ لکھتے ہیں کہ:
” قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی زندگیوں زیادہ تر فتوحات کی زندگی تھی۔ان کی تمام قوت و ہمت، تمام رحجان و میلان ملک و سلطنت کی تقویم و توسیع کے لیے وقف تھا۔ دنیا میں اس روش کا ہمیشہ یہی نتیجہ ہوا کہ حکومت اور ریاست کی باگ ہمیشہ چند افراد کے ہاتھ میں رہی ہے جن کا اقتدار گو نادانستہ طور پر تاہم عملاً مطلق العنان بادشاہ کے اقتدار کے مترادف ہو جاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جمہوریت قدرتاً شہنشاہیت کے دوش بدوش چلنے اور کام کرنے کو تیار نہیں۔” 36
علامہ اقبال نے توسیع پسندی کے جن نتائج کی جانب اشارہ کیا وہ بے شک صحیح ہیں لیکن ہم کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ ساتویں صدی عیسوی دنیا کے کسی گوشےے میں بھی کوئی جمہوری ریاست نہ موجود تھی اور نہ ممکن۔ افریقا اور ایشیا میں بے شمار ایسے قبائل تھے جن کا طرزِ معاشرت جمہوری تھا مگر وہ ریاستیں نہ تھیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بعثِ رسولؐ سے ہزار برس پیش تر یونان کی متعدد شہری ریاستوں کا طرزِ حکموت جمہوری تھا 37 اور ان کا جمہوری نظام اپنی خامیوں کے با وصف چار پانچ سو سال تک کامیابی سے چلتا رہا۔ مگر قرونِ اولیٰ کے عربوں پر جن کو ریاستی نظام ہی کا کوئی تجربہ نہ تھا اور نہ وہ غالباً یونانی جمہوریت کی تاریخ سے واقف تھے یہ اعتراض کرنا ک انھوں نے جمہوری ریاست کیوں نہ قائم کی اسی ” ذہنیت حاضرہ” کی علامت ہے جس کا ہم ابتدا میں ذکر کر چکے ہیں۔
جمہوریت میں اقتدارِ اعلیٰ کا سر چشمہ ریاست کے باشندے ہوتے ہیں اور ریاست کے تینوں عناصر ترکیبی۔ مقنّہ، انتظامیہ اور عدلیہ ان کے چنے ہوئے نمائندوں کی مرضی و منشا کے مطابق اپنے فرائضِ منصبی سر انجام دیتے ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں ان اصولوں پر عمل کرنا ممکن ہی نہ تھا لہذا بحث فضول ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں جمہوریت نے فروغ کیوں نہیں پایا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی پوچھے کہ قرونِ وسطیٰ میں ریڈیو اور ٹیلی فون او رہوائی جہاز کیوں رائج نہیں ہوئے۔
خلافتِ راشدہ اور عہدِ بنی امیہ میں کسی نے بھی ریاست کی نوعیت پر غور نہیں کیا اور نہ اسلامی ریاست کے اصول وضع ہوئے۔ ریاست کے نظریاتی مسائل پہلی بار بنی عباس کے دور بحث آئے مگر جن فقہا 38 نے اسلامی ریاست کے قاعدے اور ضابطے تدوین کیے وہ سب کے سب دورَ ملوکیت کے پر وردہ تھے اور ملوکیت کو بد یہی اور ابدی حقیقت سمجھتے تھے۔ ان کی ساری کوشش یہ تھی کہ کس طرح ملوکانہ طرزِ حکومت کا ڈانڈا اسلامی تعلیمات سے ملا دیا جائے اور عامتہ الناس کو یہ باور کرو ادیا جائے کہ حکومت اسلامی شریعت کے عین مطابق ہے۔
فقہائے اسلام ریاست کا کوئی مسئلہ پیش نہیں کرتے اور نہ اقتدارِ اعلیٰ کے مسئلے سے بحث کرتے ہیں حالانکہ ریاست کا کلیدی مسئلہ یہی ہے کہ ریاست میں اقتدار کا مالک کون ہے اور اقتدار کا اس کو کیا استحقاق ہے۔ فقہا ہم کو یہ تو بتاتے ہیں کہ سربراہِ مملکت کے اوصاف کیا ہوں اور احکامِ شریعت کو نافذ کرنے کی خاطر ہو کیا کرے اور کیا نہ کرے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ سربراہِ مملکت اقتدار کا مالک کیسے بنے۔ آیا اس کا انتخاب ہو یا جو شخص بھی طاقت کے بل پر یا قانونِ ِ وراثت کی بنیاد پر مملکت کا حاکم ِ اعلیٰ بن جائے ( بنی اُمیّہ اور بنی عباس کے عہد میں انھیں دونوں طریقوں پر عمل ہوا) ہمارا فرض اس کی اطاعت کرنا ہے۔ ابن جمع (1241۔ 1333ء) ” قہر الصاحبِ الشوک ” کو جائز سمجھتا ہے39 یعنی جس کی لاٹھی اسی کی بھینس۔
اس موضوع پر الماوردی خلیفہ القادر (991ء۔1031ء) کے عہد میں بغداد کا قاضی تھا۔ یہ زمانہ خلافتِ عباسیہ کے انحطاط کا تھا اور ضمام اختیار پر بودیہہ امرا کا قبضہ تھا۔ ماوردی کی رائے میں خلافت، امت مسلمہ اور خلیفہ کے درمیان ایک معاہدہ آزاد فریقین کے درمیان ان کی مرضی خوشی سے ہوتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاہدے کی یہ بنیادی شرط خلافت کے کسی دور میں بھی پوری نہیں ہوئی۔ کہا جا تاہے کہ بیعت ہی اُمت کی مرضی کا ثبوت تھی مگر بیعت میں خلیفہ پہلے اقتدار پر قابض ہوتا تھا تب لوگوں سے بیعت لیتا تھا اور جو شخص بیعت سے انکار کرتا تھا اس کا حشر برا ہوتا تھا۔ ( اس کے برعکس موجودہ دور کے جمہوری انتخابات میں صدارت یا وزارت کا امیدوار پہلے ووٹروں کی اکثریت کی منظوری حاصل کرتا ہے تب صدر یا وزیر بنتا ہے)
ماوردی خلیفہ کی موزونیت کی متعدد شرطیں بیان کرتا ہے مثلاً وہ شریعت سے واقف ہو، تندرست ہو، مرد ہو، بالغ ہو، قریش ہو لیکن امت کی مرضی کا کہیں ذکر نہیں کرتا۔ اس فرو گذاشت کا ذمہ دار ماوردی نہیں بلکہ قرونِ وسطیٰ کا معاشرہ تھا۔ فیوڈلزم کے دور میں دنیا کے کسی ملک میں عوام کو اقتدار اعلیٰ کا مالک نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ جمہوری تصور کہ اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ ملک کے باشندے ہیں۔ دور جدید کی پیداوار ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں رعایا کی مرضی معلوم کرنے کا بھی کوئی طریقہ نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا تھا کہ امرائے دربار یا دارالحکومت کے علما و عمائدین کسی موزوں شخص کو ریاست کا سربراہ مقرر کردیں۔ البتہ قرونِ وسطیٰ کے معروضی حالات اور دورِ حاضر کے معروضی حالات کے فرق کو نظر انداز کر کے پرانے زمانے کے طرزِ انتخاب کو بطور آئیڈیل پیش کرنا یا اس کا موازنہ جدید طرز کے جمہوری انتخاب سے کرنا صریحاً غلط ہے۔
ماوردی کو اپنے عہد کی معروضی دشواریوں کا احساس تھا لہذا وہ خلیفہ کے لیے ” اھل العقد و الحل ” کی منظوری کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اربابِ حل و عقد سے اس کی مراد علما ہیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ عالم دین کی پہچان کا کوئی پیمانہ نہ تھا۔ ان کی کوئی مرکزی تنظیم نہ تھی نہ وہ ایک مقام پر رہتے تھے لہذا وی علما ” اھل العقد و الحل ” تصور کئے جاتے تھے جو اربابِ اختیار کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ پھر بھی ماوردی کا سیاسی شعور میاں طفیل محمد صدر جماعت اسلامی سے بہتر ہے۔ موصوف جب موجودہ دور کے لیے ” اربابِ حل و عقد” کے ذریعے صدر مملکت کے انتخا ب کی تجویز پیش کرتے ہیں تو اپنا اور اپنی تاریخ د انی دونوں کا مذاق اڑواتے ہیں۔
امام غزالی بھی ماوردی کی طرح خلیفہ کے لیے بالغ ہونے، صاحب عقل و ہوش ہونے، آزاد ہونے، مرد ہونے، قریش ہونے، صاحبِ کفایہ ہونے، صاحب علم و ورع ہونے کی شرطیں مقرر کرتے ہیں لیکن ارشارۃً بھی یہ نہیں کہتے کہ اس کو رعایا کا منتخب شدہ نمائندہ ہونا چاہیے۔ ماوردی ” حاکمیت ” کو ” عہد” سے تعبیر کرتا ہے لہذا اس کی گنجائش رکھتا ہے کہ اگر حاکم وقت معاہدے کی شرطیں پوری نہ کرے تو رعایا اس کو بر طرف کر سکتی ہے۔ امام غزالی غیر مشروط اطاعت پر اصرار کرتے ہیں اور رعایا کو کسی حالت میں بھی حاکم وقت کی مخالفت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
” رعایا کا فرض ہے کہ اپنے سلطان کی عزت کرے اور اگر خدا کے حکم کی تعمیل منظور ہے جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں تو کبھی کسی طور پر بھی سلطان کے خلاف بغاوت نہ کرے۔”40
ان کی تھیو کریسی میں ظل اللہ اور صاحبِ امر سے گلو خلاصی کی تمام راہیں بند ہیں۔
امام غزالی بھی ماوردی کی مانند سربراہِ مملکت کے لیے اربابِ حل و عقد کی منظوری ضروری سمجھتے تھے لیکن امام الحر مین جو ینی نے تکلف کا یہ پردہ بھی ہٹا دیا اور فرمایا کہ فقط ایک صالح شخص کی منظوری کافی ہے41 گویاں میں طفیل محمد یا پروفیسر عبدالغفور اگر منظوری دے دیں تو کوئی شخص بھی پاکستان کا صدر ہو سکتا ہے۔
2
ریاست کی ظاہری شکل جمہوری ہو یا آمرانہ اُس کا حقیقی منصب برسرِ اقتدار طبقے کے مفاد کا تحفظ ہے۔ اس فریضے کو نہ اسلامی ریاست نظر انداز کر سکتی ہے اور نہ غیر اسلامی ریاست۔ پاکستانی سیاست کے گزشتہ 35 سال ریاست کے اس طبقاتی کردار کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔
پاکستان کی تحریک قرار داد پاکستان کے بعد ہر چند کہ عوامی تحریک بن گئی تھی اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کی بھاری اکثریت کا اعتماد حاصل تھا لیکن آزادی وطن کی خاطر برطانوی سامراج کے خلاف راست اقدام لیگی سیاست کا مسلک نہ تھا۔ مسلم لیگ کی نظر میں تحریکِ پاکستان کے اصل مخالف انگریز نہ تھے بلکہ کانگریس تھی جس کو لیگی قیادت ہندوؤں کی نمائندہ جماعت خیال کرتی تھی۔ لیگی قیادت کا واحد نعرہ مسلمانانِ ہند کو ہندو اکثریت کے غلبے اور استحصال سے نجات دلانا اور ایک ایسی ریاست قائم کرنا تھا جس میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہو مگر تحریک ِ پاکستان کے دوران لیگی قیادت سنجیدگی سے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ پاکستان بن جانے کے بعد نئی ریاست کی نوعیت کیا ہوگی ۔ اُس کا سیاسی ڈھانچہ کن اصولوں کے مطابق بنے گا اور ریاست کا اقتصادی یا سماجی نظام کیا ہو گا۔ حالاں کہ مسلم لیگی کی حریف جماعت کانگریس نے انھیں مقاصد کے پیش نظر 1935ء میں صوبائی الیکشنوں سے بھی پہلے ایک نیشنل پلاننگ کمیشن قائم کر دیا تھا جس کے سر براہ پروفیسر کے ٹی شاہ تھے۔ دوسری طرف سوشلسٹ نظریات کے حامی بھی آزاد ہندوستان کے ریاستی ڈھانچے کے متعلق زور و شور سے اپنے اپنے خیالات کی تبلیغ کررہے تھے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کے نئے مجموعے بالِ جبریل اور ضربِ کلیم شائع ہو چکے تھے جن میں اقبال نے جمہوریت اور اشتراکیت کی تائید میں اپنے خیالات بڑی وضاحت سے بیان کردیے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کے اقتصادی مسائل کی جانب سے مسلم لیگ کی غفلت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے مسٹر جناح کو لکھا تھا:
” لیگ کو بالآخر یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا وہ بدستور ہندوستانی مسلمانوں کے اونچے طبقوں کی نمائندگی کرتی رہے گی یا مسلم عوام کی جنھوں نے اب تکک جائز طور پر لیگ میں کوئی دل چسپی نہیں لی ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جو سیاسی تنظیم عام مسلمانوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کا وعدہ نہیں کرتی ہمارے عوام کو اپنی طرف کھینچ نہیں سکتی۔” 42
لیکن لیگی قیادت کا طبقاتی کردار، اس کی دیرینہ روایت اور اُس کی سوچ کا انداز ریاست کی نوعیت پر غورو فکر کی اجازت نہ دیتا تھا ۔ مسلم لیگ نوابوں، راجاؤں، خان بہادروں، سرداروں اور سروں کے بوجھ تلے اتنی دبی ہوئی تھی کہ خود قائدِ اعظم بھی نئی ریاست کے نقوش کی وضاحت کرنے ہچکاتے تھے کہ مبادا یہ با اثر گروہ ناراض ہو جائے اور لیگ میں پھوٹ پڑجائے لہذا ان سے جب کوئی نئی ریاست کے بارے میں سوال کرتا تھا تو وہ کہہ دیتے تھے کہ پاکستان کی نئی ریاست تھیو کریسی نہیں ہوگی یا یہ کہ ” ملکی پروگرام ار پالیسیوں کا وقت بھی آئے گا لیکن پہلے حکومت تو ملے۔ ابھی تو اس قوم کے پاس نہ کوئی علاقہ ہے نہ حکومت۔”
غرضیکہ لیگی قیادت نے مسلمانوں کی سیاسی تعلیم کی طرف ذرہ برابر توجہ نہ دی بلکہ ان کو سارا وقت جذباتی نعروں کا نشہ پلاتی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم عوام ریاست کی تشکیلِ نو کے بارے میں بالکل اندھیرے میں رہے بلکہ دانستہ طور پر اندھیرے میں رکھے گئے لہذا پروفیسر گونر مرڈیل کا یہ خیال کہ ” مسلم لیگی رہنماؤں کے ذہن میں نئی ریاست کی نوعیت کا کوئی واضح تصور نہ تھا درست نہیں”43 قائداعظم جیسا کہ ان کی بعد کر تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کے حق میں تھے مگر لیگی قیادت کے فیوڈل عنصر کو جمہوریت سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ جمہوریت اُس کی معاشرتی زندگی کے اخلاقی اصولوں میں شامل نہ تھی نہ جمہوریت سے اس کے طبقاتی مفاد کی توسیع ہوتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لیگی لیڈروں نے پاکستان کی تحریک مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح و ترقی کی غرض سے نہیں شروع کی تھی بلکہ نئی ریاست میں حکومت کرنے کی ہوس ان کو قائد اعظم کے قریب لے گئی تھی۔ یہی وجہ یہ کہ لیگی قیادت نے ریاست کی سماجی اور اقتصادی ترقی کا کوئی پروگرام جان بوجھ کر وضع نہیں کیا۔ مسلم عوام کو فقط طفل تسلیوں سے بہلاتی رہی۔
پاکستان کی نئی ریاست میں نظم و نسق 1935ء کے قانونِ ہند کے تحت شروع ہوا۔ اس قانون کی تشکیل میں کسی مسلمان سیاست داں کا ہاتھ نہ تھا بلکہ اس کو برطانوی حکومت نے اپنے مفاد کے پیش نظر وضع کیا تھا لہذا اس قانون کی رُو سے اقتدارِ اعلیٰ کے مالک پاکستان کے باشندے نہ تھے بلکہ گورنر جنرل تھا۔ تمام اختیارات کا مرکز و منبع اسی کی ذات تھی جو کسی کے رو برو جواب دہ نہ تھی۔ دوئمش اس قانون کے دائرے میں رہ کر ریاست کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے میں کسی بنیادی تبدیلی کی گنجائش نہ تھی بلکہ مروجہ ڈھانچے کو بر قرار رکھنے کی ضمانت دی گئی تھی۔ تیسرے اس قانون کے مطابق انتظامیہ کو قریب قریب مکمل طور پر افسر شاہی کے تابع کر دیا گیا تھا اور انگریزوں کا تربیت یافتہ یہ وہ طبقہ تھا جو جمہور اور جمہوریت دونوں کو بڑی نفرت و حقارت سے دیکھتا تھا۔ اس قانون میں دفاع کے نام پر فوج کو ایک خود مختار، مطلق العنان اور بر گزیدہ ادارے کی حیثیت دے دی گئی تھی گویا فوج قوم کے تابع نہ تھی بلکہ اس کی حیثیت فاتحِ لشکر کی تھی۔
یہ آمرانہ قانون پاکستان کے حکمران طبقے کے مفاد کے عین مطابق تھا چنانچہ وہ کسی نہ کسی بہانے نو سال تک اس غیر جمہوری قانون کے ذریعے ملک پر حکومت کرتے رہے۔ اسی آئین ِ بےآئین کی آڑ لے کر بعض صوبائی وزراتیں بر طرف کی گئیں۔ ملک کے ایک حصے میں پہلی بار مارشل لا لگایا گیا (1953ء) اور بالآخر گورنر جنرل غلام محمد نے مرکزی حکومت اور قومی اسمبلی دونوں کو توڑ دیا۔
آئین ساز اسمبلی نے بڑی بحث و تحمیص کے بعد جو قرار داد منظور کی اس سے بھی نئی ریاست کی نوعیت واضح نہیں ہوئی۔ نئی ریاست کا نام ” اسلامک ری پبلک آف پاکستان” تجویز پایا۔ ریاست کی حاکمیت ملک کے باشندوں کے بجائے خدا کو سونپ دی گئی اور عہد کیا گیا کہ نیا آئین قرآن اور سنت کی روشنی میں وضع ہوگا۔
لیکن پاکستان دنیا سے الگ تھلگ کوئی جزیرہ نہ تھا جس پر بین الاقوامی حالات اور خیالات کا اثر نہ پڑتا ہو۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے گوشے گوشے سے سوشلزم کی صدائیں آرہی تھیں۔ مشرقی یورپ میں سوشلسٹ ریاستیں قائم ہو چکی تھیں۔ چین میں کمیونسٹوں نے ماؤزے تنگ کی قیادت میں چیانگ کائی شیک کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ انڈو نیشیا میں جو سب سے بڑا اسلامی ملک ہے صدر سیکار نو ریاست کو سوشلسٹ خطوط پر تشکیل دے رہے تھے۔ برما نے اپنے سوشلسٹ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ ہندوستان کے نئے آئین میں سو شلسٹ اُصولوں کو نمایاں حیثیت دی گئی تھی اور وزیراعظم نہرو سوشلزم کی حمایت کررہے تھے۔ خود برطانیہ میں جس کے ساتھ دولتِ مشترکہ کے ناتے ہمارا گہرا رشتہ تھا لیبر پارٹی کی حکومت تھی جس کا نصب العین سوشلزم ہے۔ ان حالات میں لیگی قیادت کے لیے سوشلزم سے صرف نظر کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ نواب زادہ لیاقت علی خان نے جو وزیراعظم ہونے کے علاوہ ملک کی سب سے با اثر شخصیت تھے ” اسلامی سوشلزم ” کا نعرہ بلند کیا اور پاکستان کی اسلامی ریاست کی تشکیل و تعمیر کے لیے سو شلسٹ اصولوں کو اپنانے کا خیال ظاہر کیا۔ اگست 1949ء میں لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ:
” ہمارے لیے فقط ایک “ازم ” ہے اور وہ ہے اسلامی سوشلزم ، جس کا لب لباب یہ ہے کہ ہر شخص کو اس ملک میں روٹی کپڑا، مکان، تعلیم اور طبی سہولتوں کے حصول کا مساوی حق ہے۔ وہ ملک جو اپنے باشندوں کو یہ چیزیں فراہم نہیں کرتے کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ وہ اقتصادی پرو گرام جو اب سے 1350 برس پہلے (عہدِ نبویؐ میں) مرتب ہوا تھا ہمارے لیے آج بھی سب سے اعلیٰ ہے۔ ”
نواب زادہ لیاقت علی خان نے اپنے امریکا کے سفر کے دوران بھی اسلامی سوشلزم کا تذکرہ کئی بار کیا لیکن اسلامی سوشلزم کا خواب شرمندہ معنی ہی رہا۔ اُن کو دشمنوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا اور ہر شخص جانتا ہے کہ لیاقت علی خان مرحوم کو راستے سے ہٹانے والے افراد کون تھے اور کس طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
لیاقت علی خان مرحوم کی وفات کے بعد درباری سازشیں ہمارے ملک کا معمول بن گئیں اور عنانِ اختیار مکمل طور پر افسر شاہی کے ہاتھ میں آگئی۔ نیا آئین نافذ ہوا مگر وہ قانون ہند کی شراب تھی جو نئی بوتل میں انڈیل دی گئی تھی۔ جنرل اسکندر مرزا جن کا تحریکِ پاکستان سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا صدر مقرر ہوئے اور ” کنٹرولڈ ڈیما کریسی” کے حق میں گہرا افشانی فرمانے لگے حالاں کہ انہوں نے نئے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا مگر نئے آئین کے تحت ابھی عام انتخابات بھی نہ ہوئے تھے کہ جنرل اسکندر مرزا کی ” کنٹرولڈ ڈیما کریسی” جنرل ایوب خان کے مارشل لا اور فوجی ڈکٹیٹر شپ کی شکل میں ملک پر مسلط ہو گئی۔
جنرل ایوب خان کو اپنے پیش رو جنرل کی تقلید منظور نہ تھی لہذا انہوں نے “کنٹرولڈ جمہوریت” کہ جگہ ” بینادی جمہوریت” کی اصطلاح وضع کی اور دعویٰ کیا کہ اسلامی ریاست کی روح یہی بنیادی جمہوریت ہے۔
” میرا خیال ہے کہ مغرب کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے ہم کو Consensus of opinion کے تصور کے تحت اپنے نمائندہ اداروں کو چلانا چاہیے۔ اگر ہم ایسا کر سکے اور نہ کر سکنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ہماری تمام تاریخ اور مذہبی روایت اسی پر مبنی ہے تو ہم پارٹی سسٹم کی لعنت سے نجات پا جائیں گے” 44
مگر جنرل موصوف نے یہ نہ بتایا کہ لوگوں کی رائے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہوگا اور جن ” نمائندہ” اداروں کا انہوں نے ذکر کیا وہ عوام کے انتخاب کے بغیر ” نمائندہ” کہلانے کے مستحق کیوں کر ہوں گے۔ اسلامی تاریخ اور اسلامی روایات کا درس دیتے ہوئے جنرل ایو ب خان نے فلسفہ سیاسیات کے چند نئے کلیے بھی وضع کیے مثلاً انہوں نے کہا کہ جمہوریت فقط سرد ملکوں کے لیے موزوں ہے گر م ملکوں کے لیے نہیں۔ یعنی ان کے بقول جمہوریت کا نازک پودا مری، ایبٹ آباد اور نتھیا گلی میں تو بار آور ہو سکتا ہے لیکن لاہور، ملتان اور کراچی کی گرمی کی تاب نہیں لا سکتا۔
جنرل ایوب خان کا دور ” عشرہ ترقی” ختم ہوا تو 1949ء میں جنرل یحییٰ خان برسرِاقتدار آئے اور ملک میں پہلی بار 23 سال بعد ایک فرد ایک ووٹ کے اصول کے تحت عام انتخابات منعقد ہوئے۔ الیکشن میں عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی مگر مغربی پاکستان کے بعض طاقت ور عناصر جن کو جنرل یحیٰ خان کی فوج اور افسر شاہی کی حمایت بھی حاصل تھی عنانِ اختیار مشرقی پاکستان کے نمائندوں کے حوالے کرنے پر ہر گز تیار نہ تھے۔ نیتجہ یہ ہوا کہ پاکستان کا اکثریتی صوبہ پاکستان سے جدا ہو گیا اور ملک میں مارشل لا دوبارہ نافذ کردیا گیا۔
لیکن جمہوریت اتنی سخت جان ہے کہ افسانوی پر ندققنس کی مانند چتا میں جل کر پھر جی اٹھتی ہے چنانچہ 1973ء میں ایک نیا آئین پارلیمانی جمہوریت کی بنیادوں پر قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور ہوا لیکن اس آئین کا بھی وہی حشر ہوا جو 1956ء کے آئین کا ہوا تھا ع
زبادہ تابہ قدح ریختم بہار گذشت
ہم دائرے کے جس نقطے سے چلے تھے وہیں واپس پہنچ گئے اور یہ سبق پڑھنے میں مصروف ہیں کہ اسلام کیا ہے، اسلامی نظام کس کو کہتے ہیں۔ ان کاموں سے اگر فرصت ملی تو اسلامی ریاست پر بھی غور کر لیں گے۔ جلدی کیا ہے ریاست جس انداز سے چل رہی ہے اُسی کو اسلامی ریاست قرار دینے میں کیا چیز مانع ہے۔
حوالہ جات و حواشی
1۔ ڈاکٹر عبدالسلام، خطبہ صدارت، 13 ویں کل پاکستان سائنس کانفرنس، ڈھاکہ، 11 جنوری 1961ء
2۔Reconstruction of Religious thought in Islam, Lahore
3۔ ایضاً۔ ص 67
4۔ ایضاً۔ ص 70
5۔ ایضاً۔ ص 133
6۔ ایضاً۔ ص 138
7۔ ایضاً۔ ص 164
8۔ ایضاً۔ ص 147
9۔ ایضاً۔ ص 148
10۔ ایضاً۔ ص 151
ایضاً۔
12۔Wattt, Mohammad at Mecca, Oxford, 1965, p. 15 W. Montgonery
13۔ علامہ شبلی نعمانی، سیرۃ النبیؐ، جلد اول۔ کراچی
14۔ Philip Hitti, History of the Arabs. London,1958,p.101
15۔ ابن اصحاق، سیرۃ رسول اللہ ، (انگریزی)، کراچی، 1967ء ص 48،53
16۔ Montgomery Watt, Mohammad Mecca, p. 141
17۔ Montgomery Watt, Mohammad at Medina, Oxfor, 1692, p. 173
18۔ ایضاً
19۔ ابن اصحاق (انگریزی)، ص 197
20۔ ایضاً ۔ ص 198
21۔ ایضاً۔ ص۔ 199
22۔ ایضاً۔ ص۔208
23۔ آنحضرتؐ کی بنی خزرج سے چار پشتوں کی قرابت تھی۔ آپ کے پردادا ہاشم کی شادی سلمیٰ بنتِ عمر (بنی بخار) سے ہوئی تھی۔ ” سلمیٰ کا مرتبہ اپنے قبیلے میں بہت اونچا تھا او ر وہ شادی اس شرط پر کرتی تھیں کہ اپنے معاملات کی دیکھ بھال وہ خود کریں گی اور شوہر پسند نہ آیا تو اس کو چھوڑ دیں گی”۔ (ابنِ اصحاق ص 58) ہاشم سے پہلے وہ ایک شادی کر چکی تھیں۔ وہ اپنے بیٹے عبدالمطلب کو لے کر مدینے ہی میں رہیں اور ہاشم کے انتقال کے بعد جب ان کے بھائی اپنے بھتیجے کو لینے آئے تو ماں نے پہلے تو صاف انکار کردیا پھر بڑی مشکل سے راضی ہوئیں۔ اس وقت عبدالمطلب کی عمر آٹھ سال تھی۔ عبدالمطلب کی وفات کے بعد بھی بنی ہاشم کے تعلقات مدینے سے منقطع نہیں ہوئے چنانچہ آنحضرتؐ کے والد عبداللہ کا انتقال مدینے ہی میں ہوا اور جب آپؐ چھ سال کے تھے تو حضرت آمنہ آپ ؐ کو لے کر رشتہ داروں سے ملنے مدینے گئیں۔ وہاں ایک ماہ قیام کیا اور وفات پائی لہذا مدینہ آنحضرتؐ کے والدین کا مرقد بھی تھا۔
24۔ سیرۃ النبیؐ، ص 480۔500
25۔ علامہ سید سلیمان ندوی ( مرتب) سیرۃ النبیؐ ، جلد دوم، ص 82
26۔ سیرۃ النبیؐ، ص 572
27۔ سیرۃ النبیؐ، جلد دوم، ص 59
28۔ ایضا۔
29۔ امام غزالی، نصیحت الملوک، لندن 1964ء ص 44
30۔ مطبوعہ ہندیہ، قاہرہ، 1375ء ص 117۔118
31۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی ، اسلامی ریاست ، لاہور، 1974ء، ص 185
32۔ ایضاً، ص 142
33۔ تفسیر، جلد 5 قاہرہ، دارلمعارف، ص 343۔ 346
34۔امام ماوردی، الاحکام السلطانیہ، لاہور، تاریخ ندارد، ص 605
35۔ خلافتِ راشدہ کو آئیڈیل ریاست سمجھنا اور خلفائے راشدین کے طرزِ انتخاب کو دورِ حاضر کے جمہوری طرز انتخاب سے مقابلہ کرنا تاریخی ارتقا سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں مدینے میں طرز ِ حکومت کے جو تجربے کیے گئے وہ اس وقت کے معاشرتی حالات کے مطابق تھے مگر موجودہ دور کے معاشرتی حالات ان حالات سے بالکل مختلف ہیں لہذا خلافتِ راشدہ کے تجربوں کو دہرایا نہیں جا سکتا اور نہ وہ فی زمانہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔
36۔ مقالاتِ اقبال، ص 111
37۔ ایتھنز کی شہری ریاست میں سولن (640۔558 ق۔ م) نے جمہوری آئین وضع کیا تھا۔ ایتھنی ریاست کے دورِ عروج میں کل آبادی تین لاکھ پندرہ ہزار تھی۔ اس میں سے 43 ہزار شہریوں کو حق رائے دہی حاصل تھا۔ اقتدارِ اعلیٰ کی نمائندہ ایک اسمبلی تھی جس کا سال بہ سال انتخاب ہوتا تھا اور جس کا اجلاس سال میں چار بار ضرور ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ 500 نمائندوں کی ایک کونسل بھی ہوتی تھی۔ اس کا انتخاب بھی ہر سال ہوتا تھا اور کوئی شخص دوبارہ منتخب نہیں ہو سکتا تھا۔ قانون سازی اورنظم و نسق کی نگراں یہی کونسل تھی جو روز مرہ کے انتظامات کے لیے نو افراد کی کابینہ منتخب کرتی تھی۔ سپہ سالارِ افواج اور عدالت کے جج بھی ہر سال چنے جاتے تھے۔
38۔ ان کے نام یہ ہیں (1) کتاب الخراج ازامام ابو یوسف (797ء) پہلا حصہ (2) کتاب التاج (3) کتاب السلطان از ابن قطیبہ (828۔889ء) (4) الآراء مدینتہ الفاضلہ از فارابی (950ء)(5) عقد الفرید از عبدالربیہ (940ء) (6) المحاسن و المساوی از ابن بہیقی (7) احکام السلطانیہ از قاضی ماوردی ۔ (8) ادب الفرس و العرب از ابنِ مسکویہ (1030ء)۔ (9) قابوس نامہ از کیکاؤس ابنِ سکندر (1082ء)۔ (10) سیاست نامہ از نظام الملک (1018۔1092ء) (11) نصیحت الملوک از امام غزالی (1057۔ 1111ء)
39۔ منقول از
E.I.J. Rosenthal, political thought in Medieval Islam, Cambridge, 1962, p 45
40۔ نصیحت الملوک، ص 104
41۔ کتاب ارشاد، بحوالہ روز نتھال، ص 237
42۔ 28 مئی 1937ء
43۔Gunar Myrdal Asian Drama, London, 1968, vol 1, p. 248
44۔ پاک جمہوریت، 28 اکتوبر 1960۔