(Last Updated On: )
کشمیر میں اردو شعر و ادب کی زمین ہم وار کرنے میں چار بڑی ادبی زبانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ زبانیں کشمیری، فارسی، عربی اور اردو ہیں۔ ان کے علاوہ مقامی زبانوں کا سرمایۂ ادب بھی آزاد کشمیر میں شاعری کے فروغ کے لیے معاون ثابت ہوا۔ ان مقامی زبانوں میں گوجری اور ڈوگری دو ایسی زبانیں ہیں جو کہ ادبی حوالے سے خاصی اثرانگیز مانی جاتی ہیں۔کوہستان جموں کا ایک مقبول عوامی شاعر داس علی تھا ( جس کا پوتا ڈاکٹر عمادالدین سوزؔ آزاد کشمیر کی اردو غزل کی روایت کا ایک اہم شاعر ہے)۔ داس علی کی زبان خالص پنجابی یا ڈوگری نہ تھی بل کہ دونوں زبانوںکا امتزاج تھا۔ ان شعرانے کشمیر میں اردو غزل کی راہیں ہم وار کرنے میں بہت مدد فراہم کی۔ جیسا کہ ڈاکٹر افتخارؔ مغل لکھتے ہیں:
’’لازم ہے کہ ڈوگری /پنجابی زبان کے ان عوامی شعرا نے بھی کشمیر میں اردو شاعری کے راستے ہم وار کرنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہوگا۔‘‘(۱)
کشمیر میں ڈوگرہ آمریت کے آغاز سے بہت بعد تک بھی ریاست میں دفتری زبان فارسی ہی رہی ہے۔ لیکن یہ بات بھی مسلّم ہے کہ جموں و کشمیر میں اردو زبان کے آغاز و نفوذ کا دور بھی یہی ڈوگری دورِ آمریت تھا۔ اس ضمن میں مشہور کشمیری مؤرخ خواجہ غلام احمد پنڈت رقم طراز ہیں:
’’حتیٰ کہ ڈوگرہ عہد میں جب اس (اردو) کا یہاں آغاز ہوا اس نے ہر سطح پر اپنا سکہ منوا لیا اور دفتری زبان کی حیثیت سے فارسی کی جگہ لے لی۔ حتیٰ کہ عدالتی اور درسی زبان کا درجہ بھی پایا۔‘‘(۲)
۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی چو ں کہ برصغیر میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے خاص اہمیت کی حامل رہی ۔ چناں چہ کشمیر میں بھی جنگِ آزادی اردو کی ترویج کا ایک مؤثر سبب بن گئی۔ کیوں کہ انگریزوں نے جنگِ آزادی کو کچلنے کے لیے جموں کشمیر کے آمر حکمرانوں سے فوجی امداد طلب کی۔ گلاب سنگھ اگرچہ ۱۸۵۷ء میںحکومتی کاموں سے اپنے بیٹے رن بیر سنگھ کے حق میں دست بردار ہو چکا تھا، تاہم اس نے انگریزوں کا حقِ نمک ادا کرنے کے لیے ڈوگرہ فوجوں کو بھیجا۔ جنگِ آزادی کے اختتام کے بعد ڈوگرہ فوجی دہلی میں کچھ مدت مقیم رہے۔ یہ فوجی دستے جب واپس ریاست آئے تو اپنے ساتھ اردو کے بے شمار الفاظ بھی لائے۔ جن سے بھی اردو زبان کو ریاست میں فروغ حاصل ہوا۔فوجی درباروں نے ریاست میں اردو زبان کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے اعلا تعلیم یافتہ لوگ جب ملازمتوں کے سلسلے میں ریاست میں آئے تو یہاں ادبی و شعری مجالس بھی منعقد کرواتے جن سے بھی اردو زبان کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ریاست جموں و کشمیر میں اردو زبان و ادب کی ترویج و پذیرائی کی ایک وجہ برصغیر کے معروف اردو شعرا کی مختلف مقاصد کے تحت ریاست میں آمدورفت بھی ہے۔ چناں چہ فانی بدایونی، علامہ اقبال، فیض احمد فیض، ڈاکٹر مولوی عبدالحق، پنڈت برج نرائن چکبست، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی، مولانا ظفرعلی خان، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، پروفیسر علم الدین سالک اور متعدد ادبا اور شعرا کشمیر میں آتے جاتے رہتے۔ چکبست، اقبال اور کیفی کو کشمیر سے اس لیے بھی زیادہ محبت تھی کہ یہ سرزمین ان کے آبا کا وطن تھی۔ فانی، ظفرعلی خان، خلیفہ عبدالحکیم وغیرہ سیروسیاحت کے ضمن میں کشمیر آتے رہتے تھے۔ فیض مشہور کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کے احباب میں تھے۔ فیض کا نکاح بھی کشمیر ہی میں ہوا اور شیخ عبداللہ نے خود پڑھوایا۔ الغرض کشمیر کے بے پناہ حسن اور سیاحتی اہمیت کے پیش نظر ادیب اور شعرا کشاںکشاں وادی میں آتے رہے اور یہاں ایک ادبی فضا قائم رہی۔ان سب معاملات نے مل کر جہاں اردو زبان و ادب کو ترقی دی، بہ قول خواجا غلام احمد پنڈت:
’’کشمیر میں کشمیری، فارسی اور سنسکرت زبانیں خاص طو رپر بڑی مقبول رہی ہیں اور ان کی طویل تاریخ ہے۔ لیکن یہ حیرت انگیز بات ہے کہ جتنی ترقی اردو نے باقی علاقوں میں کی اس سے کہیں زیادہ ریاست جموں و کشمیر میں کی۔‘‘(۳)
اس ادبی شعری فضا نے باقاعدہ محافلِ شعروسخن کا روپ دھار لیا اور ۱۹۲۴ء میں سالانہ مشاعرے کی طرح ڈالی گئی۔ یہ مشاعرہ رچھپال سنگھ شیدا کی زیرِصدارت پڑھا گیا۔ کیفی دہلوی نے اس مشاعرے کی نظامت سنبھالی۔ دیگر شعرا میں عندلیب شادانی، سیماب اکبر آبادی، ساغر نظامی اور جمال صابری وغیرہ شامل تھے۔ کشمیر میں شعروادب کی داغ بیل تو پڑ ہی چکی تھی۔ اب اس کو مزید فروغ روز بہ روز ملتا چلا گیا اور تقسیم کے بعد آزاد کشمیر الگ ہوا۔ لیکن یہاں ادبی سرگرمیاں کم نہ ہوئیں اور تاحال آزاد کشمیر میں اردو شعروادب زندہ ہے جس نے کئی اہم شعرا پیدا کیے جن میں آزرؔ عسکری(۱۹۱۱-۱۹۸۳ء)، الطافؔ قریشی (۱۹۳۷-۱۹۸۳ء)، انجم خیالی (پ۱۹۳۷)، صابر آفاقی (۱۹۳۳-۲۰۱۱ء)، مرزا طالب گورگانی (۱۸۹۳-۱۹۴۴ء)، شیخ عبدالعزیز علاقی (۱۹۰۱-۱۹۸۱ء)، عبدالغنی غنی (۱۹۲۷-۱۹۹۴ء)، مخلص وجدانیؔؔ (پ۱۹۴۸ء)، منور قریشی (۱۹۴۶-۱۹۸۵ء)، محمد خان نشتر (۱۹۲۳-۱۹۸۵ء)، افتخارؔ مغل (۱۹۶۱-۲۰۱۱ء) وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ آزاد کشمیر کے معروف شعرامیں سیدہ آمنہؔ بہار (پ ۱۹۶۲ء)، پروفیسر اعجازنعمانی (پ۱۹۶۹ء)، فرزانہ فرحؔ (پ۱۹۷۴)، ایم یامین (پ۱۹۶۱)، احمد عطاءؔ اللہ (پ ۱۹۶۵ء)، سید شہبازؔؔ گردیزی (پ ۱۹۷۶)، لطیف آفاقی (پ ۱۹۷۹)، ایازؔ عباسی، فاروق صابرؔ، لیاقت شعلان،شوزیب کاشر، جاوید سحر،احمد وقار، عبدالبصیر تاجور، محمد عثمان ، کاشف رفیق (پ ۱۹۷۹ء)، ماجد محمود ماجد (پ ۱۹۸۰ء)،آصف اسحاق(پ۱۹۸۰ء) اور واحدؔ اعجاز ہمدانی شامل ہیں۔ یہ تمام شعرا آزاد کشمیر میں ادبی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں اور فروغ شعروادب کے لیے کوشاں ہیں۔ان شعرا نے ادبی تنظیموں اور محافل کے ذریعے آزاد کشمیر میں شعروادب کو فروغ دیا۔
آزاد کشمیر کے قیام کے بعد دو بڑے ادبی مراکز قائم ہوئے جن میں ایک میرپور اور دوسرا مظفرآباد ٹھہرا۔ چناں چہ قیام آزاد کشمیر کے بعد دو سال کے عرصے میں مظفرآباد کے اندر پہلی ادبی تنظیم ’’بزمِ ادب‘‘ کے نام سے قائم ہوئی۔ محمد یوسف علیگ اس تنظیم کے صدر منتخب ہوئے۔ اس بزم کے تحت اردو مشاعروں کا انعقاد کیا جاتا جب کہ تنقیدی مقالات پڑھنا بھی اس تنظیم کے زیراہتمام تھا۔ مظفرآباد کے مقامی شعرا باقاعدگی سے ان سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ یہ بزم ۱۹۵۴ء تک اپنا کام کرتی رہی۔۱۹۵۳ء میں ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ عبدالغنی غنی، ڈاکٹر صابر آفاقی اور خواجا محمد عثمان ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘ کی ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش تھے۔ حلقے کی نشستوں میں مشاعروں کے علاوہ افسانے اور تنقیدی مقالات بھی پڑھے جاتے تھے۔ حلقے کے زیرِاہتمام مظفرآباد میں کئی بڑے بڑے اور یادگار مشاعرے بھی منعقد ہوئے جن میں ملک کے نا م وَر شعرا بھی مدعو تھے۔آزاد کشمیر (خصوصاً مظفرآباد) میں شعروادب کے فروغ میں آزاد کشمیر کے سرکاری افسران کا بھی بڑا عمل دخل شامل رہا ہے۔ ان افسروں میں کالج کے اَساتذہ کے علاوہ سیکرٹریٹ کے افسروں مثلاً حبیب کیفوی، احمد شمیم، عبدالرشید ملک، خواجا غلام احمد پنڈت، علامہ یعقوب ہاشمی، جواد جعفری، ڈاکٹر افتخارؔ مغل، اکرم سہیلؔ ، جاوید الحسن جاویدؔاور احمد عطاءؔ اللہ وغیرہ کے نام زیادہ اہم ہیں۔ یہ لوگ ادب سے گہری دل چسپی رکھنے والے لوگ ہیں جن کی اسی دل چسپی کی وجہ سے مظفرآباد میں ادبی سرگرمیاں وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہیں اور ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ ان سرگرمیوں میں پندرہ روزہ اجلاس رکھنے کے علاوہ کتب کی رونمائی کی تقاریب اور تنقید ی نشستیں وغیرہ شامل ہیں۔ ان سرگرمیوں سے خاطر خواہ فوائد آزاد کشمیر کے ادب کو حاصل ہوتے ہیں۔ جب کہ نئے لکھنے والوں کو بھی ایک پلیٹ فارم میسر آتا ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا کھل کر مکمل طور پر اظہار کر سکتے ہیں۔آزادکشمیر میں قائم مختلف ادبی تنظیمیں یہاں فروغ شعروادب میں نہایت مفید خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ صرف مظفرآباد میں کئی ایسی تنظیمیں فعال ہیں جن کا مقصدصرف شاعری کا فروغ ہے۔ ان تنظیموں میں ’’کشمیر لٹریری سوسائٹی‘‘ کا نام ایک معتبر نام ہے جس کے صدر احمد عطاءؔ اللہ جب کہ سیکرٹری جنرل پروفیسر اعجاز نعمانی ہیں۔ اس کے علاوہ فرزانہ ؔفرحؔ کی نگرانی میں ایک اور فعال تنظیم ’’ادب زار‘‘ کے نام سے مظفرآباد میں فروغ ادب کے لیے کوشاں ہے جس کے سرپرست اعلا مخلص وجدانیؔؔ ہیں۔دیگر میں ’’بزم ِآزر‘‘، ’’طرح نو‘‘، ’’گوجری ادبی بورڈ‘‘، ’’بزم شعرا‘‘، ’’ادب جزیرہ‘‘، ’’ادب اجالا‘‘، ’’بزم سوزِ کشمیر‘‘ وغیرہ ایسی تنظیمیں ہیں جنھوں نے علاقے میں ادبی اور شعری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
آزاد کشمیر کی شعری روایت کے فروغ کے لیے مختلف رسائل اور جرائد نے بھی اپنے حصے کا کردار نبھایا اور یہاں شاعری کے لیے راہیں ہم وار کیں۔ ان رسائل میں پندرہ روزہ ’’آزاد کشمیر‘‘ مظفرآباد، ماہ نامہ ’’عزیمت‘‘ مظفرآباد، ہفت روزہ ’’مشیر‘‘مظفرآباد (ایڈیٹر:آزرعسکری/ابراہیم گل)، ہفت روزہ ’’شعور‘‘ مظفرآباد، سلسلہ نمبر ’’ادبیات کاشر‘‘ میرپور (ایڈیٹر:مظہرجاویدحسن)، سلسلہ نمبر ’’وجدان‘‘ مظفرآباد (ایڈیٹر:سرفرازخواجا)، سہ ماہی ’’تخلیق‘‘ میرپور (ایڈیٹر:محمدعارف خان / افتخارمغل) ،ماہ نامہ ’’عروج‘‘ مظفرآباد (ایڈیٹر:افتخارمغل) ، اہم نام ہیں۔
آزاد کشمیر کے شعرا میں کئی نام ایسے بھی ہیں جن کا حوالہ ملک سے باہر بھی ہے۔ جب کہ اکثر نام صاحب کتاب شعرا کے ہیں۔ ان شعرا کے ہاں ایک خاص قسم کی شعری چاشنی ہے۔ موضوعات اور فن کے اعتبار سے بھی کہیں کوئی کمی نہیں ملتی۔ موضوعات میں روایتی موضوعات کے ساتھ ساتھ کئی ایسے موضوع بھی ہیں جو کہ خاص اس خطے کے حوالے سے ہیں جیسے چنار، کشمیر، جذبۂ آزادی وغیرہ۔ان شعرا میں:
ڈاکٹر صابر آفاقی: ایسا نام ہے جو کئی زبانوں میں اشعار کہتے تھے جن میں گوجری، اردو، فارسی وغیرہ اہم ہیں۔ آپ کے کئی مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ آپ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ مظفر آباد میں ادبی فضا قائم کرنے میں صابر آفاقی کی محنت سے انکار ممکن نہیں۔ آپ نے اپنے نئے شعری تجربات سے نہ صرف مظفرآباد بل کہ پورے ملک کی ادبی فضا پر ایک خاص تاثر قائم کیا۔ ڈاکٹر افتخارؔ مغل کے مطابق:
’’صابر آفاقی نے جہاں زبان و بیان کے نئے شعری موضوعات کے کئی دیگر تجربات کیے ہیں۔ اُسلوب کا ایک نیا تجربہ بھی کیا ہے جس میں غزل اور گیت ہر دو اصناف کی جمالیاتی اور ہیئتی قدروں کو ہم آہنگ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس کاوش میں صابر آفاقی نے ہیئت اور اوزان غزل کے برتے ہیں لیکن ماحول فضا، لفظیات اور غنائیت گیت کی ہے۔‘‘(۴)
صابر آفاقی کے ان تجربات کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
موجۂ نبض چلے ہے تھم تھم
گِن گِن کر ہم کاٹیں دم دم
٭٭٭
اپنی گزارش واضح واضح
ان کے اشارے مبہم مبہم
٭٭٭
عشق ہے رسوا نگری نگری
حسن کے چرچے عالم عالم
٭٭٭
کیا کہیے یہ روگ ہے کیسا!
اشکِ رواں ہے چھم چھم چھم چھم
٭٭٭
تیشہ جیبھ ہے فن کاروں کی ، تیشہ اکثر بولے
صورت صورت بات کرے اور پیکر پیکر بولے
دل کی گرمی لفظوں کو دوں ، جذبوں کو گویائی
شاید سِل میں دِل ہو پیدا ، شاید پتھر بولے
صابر آفاقی کے ہاں یہ گیت نما غزلیں بھی آپ کا ایک اچھوتا تجربہ ہے۔ اس میں شاعر کی تخلیقی صلاحیتیں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ صابر آفاقی کے فن کے اعتراف میں ڈاکٹر وزیر آغا رقم طراز ہیں:
’’صابر آفاقی ان محدودے چند شعرا میں ہیں جو نئے زمانے کی آواز سے اپنی آواز کو ملا لیتے ہیں مگر ان کی روح اس نغمے کے زیر و بم کو فراموش نہیں کرتی جو ازلی و ابدی ہے اور جس کے بغیر فن کے سارے سوتے خشک ہو جاتے ہیں۔‘‘(۵)
مشتاق شادؔ:آزاد کشمیر کے ادبی منظر نامے کے ایک نمائندہ شاعر مشتاق احمد شاد ہیںؔ جو ادبی دنیا میں مشتاق شادؔ کے نام سے مشہور ہوئے۔آپ کی ولادت یکم /جنوری/ ۱۹۴۲ء کو آزاد کشمیر کے شہر میرپور میں ہوئی۔ ۶ برس کے تھے کہ والدہ ماجدہ دارِ فانی سے کوچ کر گئیں بعد ازاں ان کے والد صاحب لاہور منتقل ہو گئے جہاں مشتاق شاد، دیال سنگھ کالج، لاہور میں زیرِ تعلیم رہے۔ آپ نے ایم اردو کے علاوہ ایم ۔او۔ایل کی ڈگری بھی حاصل کی ۔آپ اردو، پہاڑی، گوجری، ہندی، سنسکرت، پنجابی اور انگریزی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ ۔ مشتاق شادؔ، ۲۴ /مئی /۱۹۹۹ء میں میرپور کشمیر میں وفات پائی اور وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔
ہر کشمیری شاعر کے کلام میں کشمیر کا درد و غم ، دکھ اور کشمیر کے حسن کے تذکرے ملتے ہیں بے شک یہ ایک فطری عمل ہے مگر مشتاق شاد کے ہاں کشمیر کا جو دکھ ، درد اور کرب ملتا ہے وہ بے مثل ہے۔ مشتاق شاد ؔکے علمی و ادبی قد کاٹھ کا اندازہ ان کے شعری مجموعوں کا مطالعہ کرنے سے ہو جاتا ہے۔ان کے شعری مجموعوں پر اردو کے قد آور شعرا اور ادیبوں نے آرا دی ہیں ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ (غزلیات) ’’ریگ رنگ‘‘ ماورا پبلی کیشنز لاہور نے ۱۹۹۲ء میں شائع کیا ۔ آپ کا دوسرا مجموعہ ’’نِمبل‘‘ کے نام سے الحمد پبلی کیشنز ، لاہور نے ۱۹۹۶ء میں شائع کیا۔ اس مجموعۂ کلام میں کشمیر کے متعلق نظمیں ہیں۔ ’’اس مجموعے میں جونظمیں شامل ہیں وہ شادؔ کی اپنے وطن کے لیے بے پناہ محبت اور دیس کی مٹی کی خوش بو مین گندھی ہوئی ہیں۔اس نظموں میں شاعر کی وطن پرستی سر چڑھ کے بولتی ہے ۔ اس مجموعے میں موجود تمام نظموں میں مشتاق شادؔ نے کشمیر کے درد و کرب کو بڑی حساسیت سے قلم بند کیا ہے۔ نمبل کی تمام نظمیں بڑی جوشیلی ہیں اور مجال کے کوئی شعر بھرتی کا ہوتو ہو ، ہر شعر ایک تحریک ہے اور آزادی ٔ کشمیر میں روح پھونکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ۔ مشتاق شادؔ کی زبان پر دسترس ، استعارات کا برمحل استعمال اور ان نظموں کی بے مثالی نہیں تو اور کیا جو ڈاکٹر وزیر آغاجیسا نقاد ’’نمبل‘‘ کو ظلم کے خلاف جہاد کا کھلا استعارہ قرار دیتے ہیں۔
مشتاق شاد ؔکا کلام اور مضامین پاکستان کے نمائندہ ادبی رسالوں میں چھپتے رہے۔ تاہم ابھی تک آپ کے کلام میں بے شمار غزلیات، نظمیں، پہاڑی اور لوک گیت زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوئے ۔ ان کا ضخیم کام اسی طرح پڑا ہوا ہے جو قابل ِاشاعت ہے جس کو آنے والی نسلوں اور اردو ادب کے طَلَبہ کے لیے طبع کیا جانا ناگزیر ہے۔ مشتاق شادؔ کے چند اشعار بہ طور نمونہ پیش خدمت ہیں۔
مرے آقا، مرے کشمیر پر اپنی نظر کر دیں
یہاں اتری ہوئی ظلمت کی ہر شب کو سحر کر دیں
٭٭٭
آغاز ہے کشمیر تو انجام ہے کشمیر
کشمیر کا بیٹا ہوں، مرا نام ہے کشمیر
٭٭٭
دشمن کو میں اس خاک کا ذرہ بھی نہ دوں گا
میرے لیے اس خاک کا ذرہ بھی وطن ہے
٭٭٭
خدا مری مفلسی کی عزت بنائے رکھے
فقیر ہوں اور بادشاہوں میں آ گیا ہوں
٭٭٭
لفظ جب تک وضو نہیں کرتے
ہم تری گفتگو نہیں کرتے
ڈاکٹر افتخارؔ مغل :بھی اردو شاعری میں ایک اہم نام ہے۔ آپ کا مجموعہ ’’لہو لہو کشمیر‘‘ آپ کی حب الوطنی کا واضح ثبوت ہے۔ جب کہ آپ کا دوسرا شعری مجموعہ ’’انکشاف‘‘ بھی ادبی حلقوں میں داد تحسین حاصل کر چکا ہے۔ افتخارؔ مغل کے ہاں بھی توانا لب و لہجہ نظر آتا ہے۔ آپ نے نظم اور غزل دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی۔ افتخارؔ مغل محبتوں کا شاعر تھا۔ محبت کے مضامین اس کے شعروں میں جابہ جا نظر آتے ہیں:
خدا ! صلہ دے دعا کا محبتوں کے خدا
خدا ! کسی نے کسی کے لیے دعا کی تھی
٭٭٭
میں محبت ہوں ، محبت کا اثر ہوں اے دوست
یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ میں زائل ہو جائوں
اس طرح ایک جگہ محبت کو یوں بیان کرتے ہیں:
چلو ہم ڈھے گئے ، لیکن ، محبت!
ترا پرچم تو اونچا رہ گیا ہے
شوکت اقبال مصور ،افتخارؔ مغل کو دوستوں کا افتخارؔ کِہ کر یاد کرتے ہیں۔ افتخارؔ مغل بلا کے خوددار شاعر تھے۔ آپ کے ہاں اس حوالے سے ایک شعر آپ کے جذبات و احساسات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے
یہ دیکھ کر مِری حیرت کی انتہا نہ رہی
کہ میں نے ہاتھ بھی پھیلا دیا ، مرا بھی نہیں
اپنے خاص اُسلوب میں بات کہنے کا جو مَلَکہ افتخارؔ مغل کو حاصل تھا وہ منفرد ہے۔ افتخارؔ مغل کے ہاں میر تقی میر ؔسے عقیدت اور محبت کا وفور دیدنی ہے۔ میرؔ کا مرکزی موضوع محبت ہے اور افتخارؔ مغل کی غزل بھی اسی موضوع سے عبارت ہے۔ افتخارؔ مغل نے میرؔ کے ساتھ ساتھ غالبؔ، فیضؔ، اقبال ؔاور فرازؔ کے رنگ کو بھی اپنایا لیکن اس سب کے باوجود اپنی تخلیقی انفرادیت کو زائل نہ ہونے دیا اور اپنا منفرد اسلوب برقرار رکھا۔
افتخارؔ مغل کی کشمیر سے محبت فطری ہے۔ آپ کشمیر پر نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جاری بھارتی جارحیت اور ظلم و ستم کو دیکھ کر خون کے آنسو بہاتے ہیں۔ آپ کے اشعار میں جو عزم اور کرب کی ایک فضا نظر آتی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افتخارؔ مغل ایک جیتا جاگتا شاعر ہے۔ افتخارؔ مغل کے ہاں تغزل بھی پوری شان سے موجود ہے۔الغرض افتخارؔ مغل کسی نہ کسی پیرائے میں زندگی کے صاف نظر آنے والے مناظر اور حقائق کے برعکس زندگی کے ان مخفی پہلوئوں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں جو عام نظر سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔
الطافؔ قریشی:بھی آزاد کشمیر کے ادبی منظرنامے کے ایک معروف شاعر ہیں۔ آپ کا تعلق بھی مظفرآباد سے ہے۔ الطافؔ ؔقریشی فکری اعتبار سے ایک صوفی، تنہائی پسند اور خوفِ مرگ کی تشویش کا شکار انسان اور مجذوبانہ نقطۂ نظر کے حامل شاعر تھے۔ الطافؔ قریشی کے مجموعے ’’داتا زہر پِلا‘‘ اور ’’ثنا‘‘ میں آپ کا فکری رجحان واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ غزل کے میدان میں مرحوم منیرؔنیازی کے لہجے کے زیادہ قریب نظر آتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ منیرنیازی اور الطافؔ قریشی آپس میں قریبی دوست تھے۔ منیرؔنیازی، الطافؔ قریشی کے حوالے سے ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں:
’’جب الطافؔ قریشی کے رویے کے بارے میں سوچتا ہوں تو جیسے ایک کھلے میدان میں کہیں دور دراز ایک خوب صورت جوت جلتی ہوئی رفاقت کا احساس دیتی معلوم ہوتی ہے۔‘‘(۶)
الطافؔ قریشی کی شاعری میں بھی روایتی رنگ نظر آتا ہے۔ آپ کے کلام کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں:
تجھ کو بھی پوجنا پتھر کے خدائوں کی طرح
خود خداوند کو بھی دل میں بسائے رکھنا
٭٭٭
زندگی موت کے دریچے سے
جھانکتی ہے ، مجھے بلاتی ہے
٭٭٭
مر گیا وہ جو مر گیا بھائی
موت سے کس نے زندگی پائی
٭٭٭
اپنی فطرت سے آشنا ہوں میں
اپنے ہی ڈر سے کانپتا ہوں میں
مخلصؔ وجدانی ڈاکٹر صابر آفاقی ؔکے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ مکمل طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ تاہم آپ کے ہاں چند پابند نظمیں بھی ملتی ہیں۔ گھر کے ادبی ماحول کے علاوہ بھی مخلص وجدانیؔؔ نے مکمل طور پر ادبی زندگی گزاری۔ مخلص وجدانیؔؔ نہایت کم گو شاعر ہیں۔ آپ کا مجموعہ ’’صلیبوں کا شہر‘‘ کے نام سے منظرِعام پر آ چکا ہے۔مخلص وجدانیؔؔ غزل کی خارجی ہیئت پر محنت کرنے والے شاعر ہیں۔ آپ کا شعری اثاثہ ثابت کرتا ہے کہ آپ نے اپنی ادبی زندگی میں ہر سال تقریباً ایک غزل کہی ہے۔ آپ کی اس قدر محنت کے باوجود آپ کا کوئی خاص اُسلوب سامنے نہیں آیا البتہ آپ کے لہجے میں انفرادیت ضرور ہے جو مقامی استعارات اور علامات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
منصور بھی کیسا انساں تھا ، سولی پر چڑھ کے کہتا تھا
سر دینا اس کو آساں ہے جو اپنی بات نہیں دیتا
٭٭٭
ہمیں چلنا پڑا ہے عمر بھر اپنے ہی سائے میں
کہیں سایہ نہ تھا کوئی زمینِ بے درختی پر
٭٭٭
تیری برسات کے بادل گزر جاتے ہیں بن برسے
تمنا کی زمینوں کو اگر ہو تر بنانا ہوں
٭٭٭
آئو سب مل کر فصیلِ شہر کو اونچا کریں
ہے سلامت شہر تو محفوظ اپنا گھر بھی ہے
جاوید الحسن جاوید: بھی آزاد کشمیر کے ادبی منظر نامے کے اہم شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔یکم جنوری ۱۹۶۹ء کو آزاد کشمیر کے شہر پلندری میں ان کی ولادت ہوئی۔ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔ شاعری میں ابتدا ً پروفیسر عبدالعلیم ؔصدیقی سے اصلاح لی بعدازاں راول پنڈی میں پروفیسر یوسف ؔحسن کو اپنا کلام دکھایا۔ اصغر مال کالج راول پنڈی سے انگریزی ادبیات میں ایم ۔اے کی سند حاصل کرنے کے بعد آزادکشمیر کے ضلع عباس پور میں بہ طور انگریزی لیکچرر تعینات ہوئے اسی زمانے میں پہلا مجموعہ کلام “محبت پھول کی مانند”منظر عام پر آیا۔۱۹۹۹ء میں سول سروسز میں سیشن افسر تعینات ہوئے اس عرصے میں دوسرا مجموعہ کلام “پون”کشمیر کلچراکیڈمی نے شائع کیا جاوید الحسن جاویدؔ ابتدا میں جاوید الحسن نشترؔ کے نام سے لکھتے رہے تاہم جلدی ہی نشتر کی بہ جائے جاویدؔ تخلص کرلیا ۔ تیسرا مجموعہ “گل و گل زار کا موسم”کے نام سے شائع ہوا جب کہ ’’ابھی نظمیں ادھوری ہیں ‘‘ آپ کا چوتھا منظوم مجموعہ ہے۔۲۰۲۱ء میں ایک نعتیہ مجموعہ ’’مہجورِ مدینہ‘‘ بھی روہی بکس ،فیصل آباد سے شائع ہو چکا ہے۔
جاوید الحسن جاوید ؔکے پاس روایتی موضوعات کے ساتھ ساتھ حقیقت نگاری بھی ملتی ہے۔ انھوں نے جس کو دیکھا اسے ویساہی بیان کردیا ۔ کئی حوالوں سے آ پ آزادکشمیر کی شاعری میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ وطن سے محبت، کشمیر کا نوحہ اور عشق و محبت آپ کی شاعری کا خاص موضوع ہیں۔ حالاتِ حاضر ہ پر بھی آپ نے قلم کا خوب استعمال کیاہے۔
پھر سے تعمیر وطن ہے سب حوداث کا جواب
تانہ کوئی ہم نفس حیراں رہے گریاں رہے
٭٭٭
تا قیامت اب نہ کوئی حادثہ گزرے یہاں
تا قیامت ہر بشر شاداں رہے خنداں رہے
جاوید الحسن جاویدؔ نے عام فہم اور سادہ الفاظ میں جان دار شاعری کی ہے اُن کے ہاں دلی کیفیات اور جذبات کی بہت عمدہ عکاسی ملتی ہے۔
جیتا ہوں ،میں اچھا ہوں یونہی بول دیا ہے
سچ یہ ہے محبت نے مجھے رول دیا ہے
٭٭٭
پوچھا تھا کسی نے یونہی احوال ہمارا
ہم سادہ مزاجوں نے تو دِل کھول دیا ہے
آخری شخص ہوں مٹتی ہوئی تہذیب کا میں
میں جو تعظیم سے آبا کی طرف دیکھتا ہوں
ڈاکٹرسیدہ آمنہؔ بہار بھی آزاد کشمیر کی اہم شاعرہ ہیں۔ آپ کا مجموعہ ’’چناروں کی آگ‘‘ کے نام سے زیور ِطباعت سے آراستہ ہو چکا ہے۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ آزاد کشمیر کی پہلی صاحبِ کتاب شاعرہ ہیں۔ آپ کی شاعری میںسیاسی، سماجی اور نفسیاتی مسائل اہم موضوعات نظر آتے ہیں۔ آپ کے ہاں کشمیر اور محبت کے موضوعات ملتے ہیں۔آمنہؔ بہار کے اسلوب کے حوالے سے ڈاکٹر افتخارؔ مغل لکھتے ہیں:
’’محبت کے مضامین کی حد تک روناؔ نے اپنا ایک اُسلوب بنا لیا ہے اور اس اُسلوب کی بنا پر وہ آزاد کشمیر کی نوجوان نسل بالخصوص نوعمر خواتین اور لڑکیوں کی نہایت پسندیدہ شاعرہ ہیں۔‘‘(۷)
سیدہ آمنہؔ بہار تخلیقی جوہر کے حوالے سے ایک ثروت مند شاعرہ ہیں۔ احساس و جمال کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو انھیں ایک خوش خیال اور جمال دوست شاعرہ کہا جا سکتا ہے۔ آپ کی فکر میں جو حسن ہے وہ ہمیشہ خوب صورت اور خوب صورتی سے متعلق مضامین ہی متوجہ کرتا رہتا ہے۔ اپنی اسی خوبی کی بدولت آمنہؔ بہار تلخ سے تلخ بات کو بھی حسن کی ڈور میں نفاست سے پرو لیتی ہیں کہ اس پر تلخی کا گماں نہیں ہوتا۔ آپ کے کلام سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:
گلمرگ و پہلگام کے وہ دل کش سے نظارے
ڈل اور ولر کے وہ چمکتے ہوئے دھارے
٭٭٭
ہم غبارِ کارواں کو آنکھ کا کاجل کریں
اور جگر کے خون سے رنگ شفق تازہ کریں ؎
ہوا کی آنکھ میں اک شبنمیں تبسم ہے
مدھر سروں میں چلی ہے بڑے سبھائو کے ساتھ
٭٭٭
میں زخم خوردہ ہوں دنیا کی بے ثباتی کی
حیات پاک کو تیریؐ ہی معتبر دیکھوں
ڈاکٹر کاشف رفیق :آزاد کشمیر کے ادبی منظرنامے میں ایک نام ڈاکٹر کاشفؔ رفیق کا بھی ہے۔ کاشف رفیق ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں لیکن آپ کے ادبی ذوق نے آپ کو باقاعدہ شاعر بنا دیا۔ کاشف رفیق کا پہلا مجموعہ ’’اداس رات کا چاند‘‘ جب کہ دوسرا ’’کبھی آباد تھا یہاں اک شہر‘‘ منظرِعام پر آ چکا ہے۔ آپ کو ادبی ذوق اپنے نانا عبدالحفیظ سالب ؔکی طرف سے وراثت میں ملا۔ کاشف رفیق کی شاعری عشق، محبت،ہجرووصال جیسے روایتی مضامین سے عبارت ہے۔ آپ کے ہاں ایک خاص اسلوب نظر آتا ہے۔ کاشف رفیق جدت کے شاعر ہیں۔ آپ کے بھائی سلمان رفیق بھی صاحب کتاب شعراکی صف میں شامل ہیں۔ غزل کے علاوہ کاشف رفیق نے نظم میں بھی طبع آزمائی کی لیکن آپ کی وجۂ شہرت غزل ہی ٹھہری ۔کاشف رفیق کی شاعری میں جہاں زندگی کے بارے میں آپ کی وسعت نظری کا ثبوت ملتا ہے وہاں جذبہ محبت میں بھی آپ کی تخلیقی ہنرکاری نظر آتی ہے۔ احساس کی سطح پر شعری جمالیات آپ کے اسلوب کا خاصا ہے۔ آپ کے کلام سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
طلب گار تیرے بہت ہوں گے لیکن
کسی کو مِرے جیسی چاہت نہیں ہے
٭٭٭
اگر خود کو کبھی پہچاننا چاہو
مِرے لفظوں میں خود کو دیکھ سکتے ہو
٭٭٭
روز ملتے ہیں راستے میں ہم
بس ہیں اتنے سے رابطے میں ہم
٭٭٭
اپنی تنہائی کا ملال نہ کر
اس نے تجھ کو بچایا فتنوں سے
سید شہبازؔؔ گردیزی: کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع باغ سے ہے۔۲۳ نومبر ۱۹۷۶ء کو ٹنڈو میر محمد ضلع حیدرآباد(سندھ ) میں سید ضمیر حسین گردیزی ،مرحوم کے گھر میں جنم ہوا۔ آپ شاعری میں پروفیسر شفیق ؔراجا اور ڈاکٹر افتخارؔ مغل کے شاگرد ہیں۔ آپ آزاد کشمیر کے معروف نوجوان شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔آپ کے ہاں وارداتِ قلبی کی فضا نظر آتی ہے۔ شہبازؔؔ گردیزی بھی دیگر شعرا کی طرح محبت کے جذبوں سے لبریز ہیں جب کہ حب الوطنی بھی آپ کا خاص موضوع ہے۔ آپ کے دو مجموعے ’’حقیقتوں کے عذاب‘‘۲۰۰۱ء میں اور ’’خواب کون دیکھے گا‘‘ ۲۰۰۹ء میں طلوع ادب پبلی کیشنز ،باغ کے زیر اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ اب ڈوبنا طے ہے شہبازؔ
اس کے مہتاب سے عارض میں بھنور پڑتا ہے
٭٭٭
میرے اندر کا صحرا جاگتا ہے
میں جب کوئی سمندر دیکھتا ہوں
٭٭٭
اس ایک بات پہ اٹکی ہوئی ہے سانس مری
میں مر گیا تو مرے خواب کون دیکھے گا
٭٭٭
تیری آنکھوں میں یہ جو خواب سا ہے
اسے میں نے کہیں دیکھا ہوا ہے
ٹھیک ہے میں اس کوشش میں ناکام رہا
لیکن میں نے خوش رہنے کی کوشش کی ہے
٭٭٭
اندر سے ہر چہرہ اجلا ہوتا ہے
باہر سے بس گرد ہٹانی پڑتی ہے
٭٭٭
مجھ پہ تعمیر جو فسانہ ہے
اس کی بنیاد اک حقیقت ہے
واحدؔ اعجاز میر:مظفرآباد آزاد کشمیر کے ادبی منظرنامے کے ایک اہم نوجوان شاعر واحدؔ اعجاز ہمدانی بھی ہیں۔ آپ کا مجموعہ ’’راستہ مت بدل‘‘ منظرعام پر آ چکا ہے۔ واحدؔ اعجاز ہمدانی لوک داستان کے کسی کردار کی طرح محبت میں گندھا ہوا شخص ہے۔ واحدؔ مستعار تجربات سے عاری نظر آتے ہیں۔ آپ کا اوڑھنا بچھونا محبت ہی ہے۔ آپ اپنے اوپر گزری ہوئی کیفیات کو الفاظ کا روپ دے کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ واحدؔ اعجاز ہمدانی کے اشعار کی ندرت اور تازگی نے آپ کو کم عمری میں ہی ثروت مند بنا دیا ہے۔ آپ بھی کشمیر کے باسی ہونے کے ناتے کشمیر کے رہنے والوں کے دکھ درد سے بہ خوبی آگاہ ہیں۔ واحدؔ ایک درد مند دل رکھنے والی شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ آپ کے ہاں انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔
واحدؔ اعجاز ہمدانی کی پرورش چوں کہ مظاہر فطرت کی شاہ کار زمین مظفرآباد میں ہی ہوئی۔ اس لیے آپ کے کلام میں دریائوں کی روانی، جھیلوںکا سکوت اور آبشاروں اور جھرنوں کی نغمگی نظر آتی ہے۔ آپ روایت کے پاس دار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی انا اور خودداری پر بھی قائم دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کے اشعار میں آپ کے جذبات کھل کر عیاں ہوئے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
سر گرے میرا تو لے جائے قبیلہ تجھ کو
اتنی آسانی سے میں تجھ کو نہیں ہاروں گا
٭٭٭
یہ جو ہم لوگ ہیں احساس میں جلتے ہوئے لوگ
ہم زمیں زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے
٭٭٭
گھمنڈ ٹوٹنے لگتا ہے رات کا واحدؔ
جو کوئی جگنو ذرا سا چمکنے لگتا ہے
٭٭٭
رِند و پرہیز گار زندہ باد
جس پہ جو آشکار زندہ باد
زکریا شاذؔ: آزاد کشمیر کے اہم غزل گو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ شاذؔاپنی غزل کے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر یکساں توجہ دیتے ہیں اور شعر کے جسم اور روح کو یکساں طور پر اجالنے اور چمکانے پر یقین رکھتے ہیں۔ شاذؔ کی غزل کلاسیکی روایت کے گہرے مطالعے کا پتا دیتی ہے۔ آپ کی غزل میں تصوریت کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔ اور زبان و بیان کے معاملے میں انتہائی محتاط اور محنت عیاں ہوتی ہے۔ زکریا شاذؔ کی بندشیں بہت چست ہیں جب کہ زبان میں مہارت اور صناعی کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کے مضامین زیادہ تر داخل سے برآمد ہو کر خارج میں وارد ہوتے نظر آتے ہیں اور آپ کی داخلی کیفیات میں بھی محبت کا مضمون نمایاں ہے۔ محبت کے مضمون کو شاذؔ نے بڑی کام یابی اور سماجی شعور کے ساتھ نبھایا ہے۔ آپ کی محبت معاشرے کی سماجی جبریت کے سارے پہلوئوں کو لیے ہوئے اور اپنی مٹی کی خوش بو سے پھوٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں مضامین اور کیفیات کی یکسانیت فنی معیار اور ابلاغ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی لیکن موضوعاتی پھیلائو کو قدرے محدود کر دیتی ہے جس کی بنا پر فکری یکسانیت کے سلسلے میں حبس کا احساس ہوتا ہے۔ تاہم محبت کے موضوعات کو قرینے سے نبھانے میں زکریا شاذ نہایت کام یاب رہے ہیں۔
اے زیست! ادھر دیکھ ! کہ ہم نے تری خاطر
وہ دن بھی گزارے کہ گزرنے کے نہیں تھے
٭٭٭
؎یہ دن ہے کوئی بھوت تعاقب میں ہمارے
اور آگے وہی رات کا ڈر رکھا ہوا ہے
٭٭٭
اس کا خیال دل میں گھڑی دو گھڑی رہے
پھر اس کے بعد میز پر چائے پڑی رہے
ایازؔ عباسی آزاد کشمیر کے شعری ادب میں ایک اور صاحب کتاب شاعر ہیں۔ ایاز عباسی کا تعلُق آزاد کشمیر کے ضلع باغ کی تحصیل دھیر کوٹ سے ہے تاہم ملازمت کے سلسلے میں طویل مدت سے مظفرآباد میں رہائش پذیر ہیں۔ آپ کا مجموعہ ’’ظہور‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ایازؔ عباسی بھی کم گو شاعر ہیں۔ آپ کی شاعری میں حبِ رسولؐ بھی ملتی ہے اور حبِ وطن بھی۔ آپ اپنے جذبات کو غزل اور نظم میں بہت نفاست سے بیان کرتے ہیں۔ ایازؔ عباسی کے ہاں تلخی ٔ ایام بھی ہے اور کربِ محبت بھی آپ کا اہم موضوع ہے۔ آپ کبھی چلچلاتی دھوپ میں سفر کرتے ہیں تو کہیں گھنی چھائوں میں بیٹھ کر اپنی یادوں کے نگر میں چلے جاتے ہیں۔ ایازؔ عباسی کے قلم اور زبان سے ارزاں لفظ نکلتے دکھائی نہیں دیتے۔ آپ کے لیے مصطفی ؐکی محبت ہی وہ شے ہے جو کہ زمانے کے ظلم و ستم اور اذیتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
اس زمانے نے تو بس مار ہی ڈالا ہوتا
مصطفیٰؐ نے نہ اگر ہم کو سنبھالا ہوتا
٭٭٭
ایک اُمّی ہے دانائے رازِ حیات
سرنگوں اس کے آگے خرد مند ہیں
٭٭٭
کٹی ہیں بیسیوں راتیں وہ اپنی آنکھوں میں
جو ایک ایک گھڑی کا کہیں حساب کیا
٭٭٭
عمر تیری بھی ماہ وسال میں ہے
بادشاہا! تو کس خیال میں ہے
٭٭٭
منقبت ہدیہ کروں حضور کے گھرانے کے لیے
لفظ منت کریں تحریر میں آنے کے لیے
ڈاکٹرماجد محمود ماجدؔ: بھی آزاد کشمیر کے ادبی منظرنامے کے ایک اہم نوجوان شاعرہیں۔آپ کا تعُلق آزاد کشمیر کی ضلع سدھنوتی سے ہے۔ زوالوجی کے شعبے میں ڈاکٹریٹ پیر مہر علی شاہ ایگری کلچر یونی ورسٹی راول پنڈی سے مکمل کی۔بعد ازاں جامعہ پونچھ راولا کوٹ میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے۔ ڈاکٹر ماجد کا شعری شعور بہت پختہ ہے۔مشتاق یوسفی ہوں یا مرزا غالب ؔ ، فیض ہوں یا میر ؔ تقی تمام بڑے فن کاروں سے آپ کی عقیدت ہے۔اساتذہ کے کلام پر گہری نظر ہے۔آپ کا پہلا شعری مجموعہ اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔ ماجد محمود ماجدؔ، پروفیسر عبدالعلیم صدیقی کے شاگردوں میں سے ہیں۔ نظم و غزل دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن اصل میدان غزل ہے۔ غزل میں زیادہ تر روایتی موضوعات پر ہی روایت کی پاس داری کی۔ ماجدؔ کے ہاں داخلی اور خارجی کیفیات کا یکساں بیان ہے جب کہ محبوب موضوعات میں پیار و محبت اور ہجرووصال کے علاوہ دنیاوی ناانصافیاں و ناہم واریاں ہیں۔ ماجد محمود ماجدؔ کے کلام کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
غمِ انساں کا مداوا نہ ہوا
لاکھ ذروں کے جگر چاک ہوئے
٭٭٭
تشنۂ دید ہی نگاہ رہی
عمر بھر حسرتِ گناہ رہی
٭٭٭
مِرے دل کے بت کدے میں کئی ایسے بھی صنم تھے
جنھیں توڑتے ہوئے خود میں ہزار بار ٹوٹا
٭٭٭
ہوس ہوتی تو پوری کر بھی لیتے
محبت تھی ادھوری رہ گئی ہے
٭٭٭
وائے محرومی ٔ قسمت کہ ملاقات کے دن
میں قسم توڑ کے آیا تھا،وہ توبہ کر کے
٭٭٭
جاوید سحر: آزاد کشمیر کے نئے لکھنے والوں میں ایک نام جاوید سحرؔ کا بھی ہے۔جاوید کی ولادت بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور میں ہوئی۔ ۲۶/جون/۱۹۸۰ء کو جنم لینے والے نومولود کا نام جاوید اقبال تجویز کیا گیا۔ جاوید ابھی سات برس کا تھا اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کرنا پڑی۔ گھر بار سب کچھ چھوڑ کر آزاد کشمیر آ گئے جہاں چودھری غلام عباس کے نام سے آباد شہر عباس پور میں سکونت اختیار کی۔ جاوید سحر کا مرزبوم تو سوپور ہے تاہم پہچان عباس پور کے حوالے سے قائم ہوئی۔ جاوید سحر نے ایم اے اردو تک تعلیم حاصل کی۔ یہ تعلیم بس اپنے شوق کی تکمیل کی خاطر حاصل کی ورنہ اس نے کسی بھی طرح کی سرکاری ملاذمت اختیار نہ کی۔ حالاں کہ وہ اس تعلیم پر اچھی سے اچھی ملازمت حاصل کر سکتا تھا۔ جاوید سحر کی ماں بولی گوجری ہے اور وہ اپنی مادری زبان سے پیار بھی بہت کرتا ہے۔ یہی وجہ بنی کہ ریڈیو پاکستان میں دو سال تک شعبۂ گوجری میں اسکرپٹ رائٹر اور بہ طور گوجری نیوز کاسٹر خدمات سر انجام دیں۔ چار سال تک ایک خبر رساں ایجنسی کے پی آئی کے لیے اپنی خدمات سرانجام دیں۔جاوید اقبال نے ۱۹۹۵ء میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔ اپنے لیے تخلص ”سحر” پسند کیا۔ اس نے اردو کے ساتھ ساتھ گوجری کو بھی ذریعۂ اظہار بنایا ہوا ہے۔ ہجرت کے کرب کے علاوہ سحر کے کلام میں عشق کے رنگ اور باغیانہ عناصر نمایاں طور پر ملتے ہیں۔ جاوید سحر آج کل ذاتی کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ عباس پور شہر میں کتابوں کا کاروبار ان کی کتاب دوستی کا ثبوت ہے۔ گوجری شاعری کا ایک انتخاب حال ہی میں ”نیلا تہاری” کے نام سے منصہ شہود پر آ چکا ہے جسے معروف شاعر و پبلشر ارشد ملک نے اہتمام کے ساتھ رومیل پبلی کیشنز سے شائع کیا۔ گوجری میں بابائے گوجری مخلص وجدانی اور اردو میں ادب کے افتخار افتخار مغل سے متاثر ہیں۔ ایک وسیع حلقۂ احباب دوستوں کا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جاوید کا سحر بہت جلد کارگر ثابت ہو جاتا ہے۔ ان کے دوستوں کی ایک طویل فہرست ہے جو پاکستان اور کشمیر کے طول وعرض میں ہر جگہ موجود ہیں۔ جاوید سحر کی میٹھی زبان کا ہر کوئی اسیر ہے۔ اس کی گفت گو میں چاشنی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس کی شاعری کا ہر وہ شخص معترف ہے جس نے اس کے شعر سنے۔ یہ تخصیص کرنا کہ وہ اچھا انسان ہے یا اچھا تخلیق کار مشکل امر ہے۔جاوید کی شاعری میں ہجرت کا کرب وطن کی محبت اور عشق کے موضوعات بہ کثرت ملتے ہیں۔ اس کی شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
ہم تم سے الحاق کریں اب ،یا پھر خود مختاری ہو
اس کے لیے لازم ہے صاحب پہلے رائے شماری ہو
٭٭٭
ہم بھی یہ سب کِہ سکتے ہیں،ہم بھی بات بڑھا سکتے ہیں
اس سے پہلے کہ ایسا ہو،آپ یہاں سے جا سکتے ہیں
٭٭٭
ہمارے ہاتھ کی ریکھا میں صرف ہجرت ہے
ہمارے ساتھ سفر پر اگر گئے،تو گئے
آ صف اسحاقؔ:آزاد کشمیر کے ضلع سدھنوتی سے تعلق رکھنے والے اس شاعر کا شمارپروفیسر عبدالعلیم صدیقی صاحب کے ہونہار شاگردوں میںہوتا ہے۔۰۴/ دسمبر/۱۹۸۰ء کوپلندری شہر میں آنکھ کھو لنے والے آصف اسحاق نظم و غزل ہر دو میدانوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ بزمِ فکر وسخن پلندری کے بہت متحرک رکن ہیں۔ .ادبی ذوق بچپن سے ہی پایا.یہی وجہ تہی کہ ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد ایم اے اردو کیا اور اس وقت علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے ایم فل اردو کے لیے’’آزاد کشمیر کے منتخب نظم نگار شعرا کا فنی جائزہ‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ رہے ہے.ایک مقامی اسکول میں جونیئر مدرس کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا بعد ازاںمحنت کے بل بوتے پر آزاد کشمیر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سے اردو لیکچرار کہلائے اور بوائز انٹر کالج ،بلوچ سدھنوتی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔. مزاجاً بہت ہی ملنسار اور خوش اخلاق آصف اسحاق کی غزل میں بہی عجب دل کشی ہے میٹھا لہجہ اس کے کلام کا خاصا ہے جس پر طرہ اس کی لفاظی ہوتی ہے سہل ممتنع اس کے کلام کی شناخت ہے.پلندری میں ” بزم فکر وسخن”کے زیر اہتمام باقاعدگی سے ادبی نشست کروانے کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر ادبی تقریبات میں شرکت بہی ادب سے محبت کا واضح ثبوت ہے آصفؔ اسحاق کی شخصیت ایک الگ مقالے کا تقاضا کرتی ہے ۔آصف ؔکے .ایک شعر کو ظفر اقبال نے اپنے ایک کالم میں پسندیدگی کا خلعت بخشااور اس بات کا اعتراف کیا کہ اچھا شعر کوئی بھی کِہ سکتا ہے یقیناً یہ بات درست ہے آصف ؔاسحاق شعری پرداخت پر بہت توجہ دیتے ہیں۔ ان کے کلام میں حسنِ بیان کی تمام تر رعنائیاں موجود ہیں۔ آصفؔ اسحاق کے چند اشعار بہ طور حوالہ پیشِ خدمت ہیں:
اب دکھائی نہیں دیتا کہ کہاں رکھا تھا
لوٹ آنے کے لیے ایک نشاں رکھا تھا
٭٭٭
اک عجب چیز تھی حائل کہ تری شکل مجھے
بارہا شوق سے دیکھا بھی پر ازبر نہ ہوئی
مجھ کو بے مہریٔ دنیا کا گلہ کچھ بھی نہیں
کچھ نہ دنیا کو دیا ہو تو لیا کیا جائے
٭٭٭
تو ٹھیک کہتا ہے ناصح ،مگر یہ پیار کا جرم
بھلے نہ تم نے کیا ہو ،بڑے بڑوں نے کیا
٭٭٭
جمیل اختر جمیل: ۲۰ اپریل ۱۹۶۹ء کو آزاد کشمیر کے ضلع سدھنوتی کے گاؤں گلہ پانیالی کے ایک اعوان گھرانے میں پیدائش ہوئی۔پروفیسر عبدالعلیم صدیقی مرحوم کی سرپرستی میں شعر و ادب کی طرف راغب ہوئی اور باقاعدہ اصلاع لی۔ محمد جمیل اختر سے جمیل اختر جمیل ہونے میں ڈاکٹر ماجد محمود،ضیا الرحمان ضیا،سہراب کاوش اور آصف اسحاق کا ساتھ میسر رہا۔جمیل اختر جمیل لکھنے کے ساتھ ساتھ ترنم کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔بزم ِ فکر و سخن کے باقاعدہ رکن جمیل اختر جمیل شاعری میں بالخصوص رباعی اور غزل میں شہرت رکھتے ہیں۔آپ نے پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے فلسفے کی تعلیم حاصل کی اور۲۰۰۹ء میںپیشہ پیغمبری تدریس سے جُڑ گئے۔ جمیل اختر جمیل کا ایک شعر بہت مشہور ہوا جو آپ کی غزل کا مقطع ہے۔
منتظر ہیں جمیلؔ برسوں سے
آنے والوں کو کیا ہوا جانے
اس کے علاوہ آپ کی شاعری سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
افسانہٗ ہستی ہے فقط غم کی کہانی
قصہ یہ گل تر کا ہے شبنم کی زبانی
نم چشمِ تمنا تو جلے آگ سی دل میں
پانی میں یہاں آگ ہے اور آگ میں پانی
٭٭٭
سہتا ہے ستم لاکھ تو کرتا ہے گلہ
مفلس کہ ہر اک بات میں ہوتا ہے گلہ
شکوے کے سوا اور کرے بات ہی کیا
کم زور کا ہتھیار جو ٹھہرا ہے گِلہ
ذوالفقار علی اسدؔ: آزاد کشمیر کی شعری تاریخ میں ایک اہم شاعر ذوالفقار علی اسد ہیں۔ ۲۰،مئی ۱۹۶۴ء کو آزاد کشمیر کے ضلع میرپور میں جنم لینے والے ذوالفقار علی اسد غزل گو کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ چھوٹی بحر میں سہل ممتنع اشعار کہنا ان کا خاصا ہے۔ آپ کو آزاد کشمیر کی غزل میں ایک توانا اور نئی آواز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آپ نے غزل میں ایسے بہترین اشعار اضافہ کیا جو اس سے قبل نہ تھے۔ مثلاً یہ انوکھا خیال بھی آپ ہی کا ہے جو اب ایک ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکا ہے:
رات مے خوار ہم فقیروں سے
دم کرانے شراب لے آئے
میرپور میں ادبی فضا کو فروغ دینے میں ذوالفقار علی اسد کا کردار ناقابلِ فراموش ہے ۔نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو یا محقیقن کو کتاب کی فراہمی میں مشکل آپ کی محبتیں کبھی کم نہیں ہوتیں۔ تا حال مجموعے کی اشاعت نہیں ہو پائی تاہم امید ہے کہ مستقبل قریب میں آپ کا شعری مجموعہ آپ کے مداحین کے ہاتھوں میں ہو گا۔ آخر پر آپ کی غزل سے چند اشعار دیکھیں:
مردِ ناداں حیاتِ انساں کی
قدر و قیمت کہاں سمجھتا ہے
٭٭٭
آسماں سے گرا ستارا ہوں
میں زمیں کو بھی کب گوارا ہوں
٭٭٭
مرے سورج اگر تم لوٹ آؤ
تو آ جائے مرا سایہ پلٹ کر
٭٭٭
کم نہیں کچھ بھی ضرورت سے یہی کافی ہے
سانس لیتا ہوں سہولت سے یہی کافی ہے
٭٭٭