صفدر تين دن سے اس لڑکی کا تعاقب کر رہا تها۔ وہ بارٹل اسٹريٹ کی ايک عمارت کے ايک چهوٹے سے فليٹ ميں رہتی تهی۔ راتيں ہوٹلوں ميں گزارتی تهی اور دن بهر فليٹ ميں پڑی رہتی تهی۔ اس کا نام مارتها اور يہ يوريشئين تهی۔
پچهلے دنوں اس نے گرينڈ ميں ايک شکار پهانسا تها اور اس پر روغن قاز مل رہی تهی۔ يہ ايک وجيہہ نوجوان تها۔ ليکن صفدر کا اندازہ تها کہ عورتوں کے معاملے ميں بالکل اناڑی ہی ہے کيونکہ کل سے آج تک اس نے مارتها پر بڑی رقم خرچ کر دی تهی۔
اس نے مارتها سے کہا تها کہ وہ بہت عرصہ سے کسی سفيد فام لڑکی سے دوستی کا خواہشمند تها۔۔۔ اور پهر يہ تهی بتا ديا تها کہ نہ جانے کيوں اسے انگريز لڑکيوں سے خوف معلوم ہوتا ہے۔ اس پر مارتها بہت ہنسی تهی۔
آج بهی وہ دونوں گرينڈ ميں تهے اور صفدر انہيں بہت قريب سے ديکه رہا تها۔ اس نوجوان نے مارتها کو اپنا نام صادق بتايا تها۔
ميں پچهلی رات سو نہيں سکا۔” وہ مارتها سے کہہ رہا تها۔” کيوں؟” مارتها نے پوچها۔”
“!بس نيند نہيں آئی تهی۔ تمہارے متعلق سوچتا رہا”
“کيا سوچ رہے تهے؟”
“!يہی کہ تم کتنی اچهی ہو!” کاش ہم بہت دنوں تک دوست رہ سکيں”
“تم چاہو گے تو ضرور رہ سکيں گے۔”
يہی تو مصيبت ہے۔۔۔!” صادق نے ٹهنڈی سانس لی۔”
کيا مصيبت ہے۔۔۔؟” وہ بس يونہی رواداری ميں سوالات کرتی جا رہی تهی۔ انداز سے نہيں معلوم ہو رہا تها کہ ” اسے اس موضوع سے ذرہ برابر بهی دلچسپی ہو۔
مصيبت !” صادق نے پهر ٹهنڈی سانس لی “کل اگر کوئی تم سے بهی زيادہ خوبصورت لڑکی مل گئی تو ميرا “دل چاہے گا کہ اس سے دوستی پيدا ہو جائے۔ ميری سمجه ميں نہيں آتا کہ کيا کرو! ويسے ناولوں وغيرہ ميں تو يہ پڑهتا ہوں کہ کسی ايک کو کسی ايک سے محبت ہو جاتی ہے اور پهر وہ ساری زندگی کسی دوسرے کی
شکل بهی نہيں ديکهتا۔ يعنی اسے اپنی محبوبہ سے زيادہ حسين اور کوئی لڑکی ملتی ہی نہيں ہے۔ پهر مجهے !اب تک کوئی ايسی لڑکی کيوں نہيں ملی جس کے آگے اور کوئی پسند ہی نہ آ سکتی
ارے ابهی تمہاری عمر ہی کيا ہے” مارتها مضحکہ ُاڑانےُاڑانے والے انداز ميں ہنسی، “جب جوان ہو جاو گے تو “
“کوئی ايسی لڑکی بهی مل جائے گی۔
“کيا ۔ ۔ ۔ ؟” صادق نے کہا ۔ ” ابهی تک ميں جوان نہيں ہوں”
ابهی تو تمہارے منہ سے دوده کی ُبوُبو آتی ہے۔ ۔ ۔ ليکن ميں تمہاری پرورش کا ذمہ ليتی ہوں، بہت جلد جوان ہو “
“جاو گے۔ ۔ ۔ لڑکے
“اس نے ويٹر کو آواز دی اور جب وہ قريب آ گيا تو بولی ۔ “بےبی کے ليے ٹافياں لاو ويٹر شايد اسے نشے ميں سمجه کر ُمسکراتاُمسکراتا ہوا چلا گيا۔
ارے ۔ ۔ ۔ تم ميرا مضحکہ ُاڑا رہی ہو” صادق نے حيرت اور غصے کے ملے ُجُلے اظہار کے ساته کہا ۔” “نہيں ڈئير ۔ ۔ ۔ يہ مضحکہ نہيں بلکہ تمہاری عزت افزائی ہے۔ اس سے پہلے ميں نے کسی کو بےبی نہيں کہا”
“کيا ميں اتنا چهوٹا ہوں کہ تم مجهے بےبی کہو؟”
“يقينا تم ننهے سے بچے ہو۔ مجهے تم پر بے هد پيار آتا ہے۔ ۔ ۔ اور اب ميں تمہارے ليے لورياں سيکهوں گی۔”
“ديکهو ۔ ۔ ۔ ميرا مذاق نہ ُاڑاوُاڑاو ۔ ۔ ۔ ورنہ ميں خود ُکشیُکشی کر لوں گا۔”
“مارتها ہنسنے لگی اور پهر سنجيدہ ہو کر بولی۔ “ميرا خيال ہے کہ ميں تم سے محبت کرنے لگی ہوں۔
نوجوان کی آنکهيں خوشی سے چمکنے لگيں اور اس کے ہونٹوں ميں اس قسم کی کپکپاہٹ نظر آنے لگی جيسے وہ کچه کہنا چاہتا ہو۔ ليکن نروس ہو جانے کی وجہ سے کہنے کا ڈهنگ نہ ُسوجهُسوجه رہا ہو۔ صفدر کی دلچسپی بڑهتی رہی۔
پچهلی رات ميں نے تمہيں خواب ميں بهی ديکها تها۔” مارتها نے ٹهنڈی سانس لے کر کہا۔” مم ۔ ۔ ۔ ميں نے بهی” صادق ہکلايا۔”
“اوہ ۔ ۔ ۔ تم نے بهی ديکها تها۔”
صادق نے کسی شرميلی لڑکی کی طرح آنکهيں نيچی کر کے سر ہلا ديا۔
تب تو ۔ ۔ ۔ ہم ہميشہ دوست رہيں گے۔ ۔ ۔ کيوں؟” وہ ہنس پڑی اور وہ دونوں دير تک ہنستے رہے۔”
اسی رات صفدر نے جوليانا فٹنر کو اطلاع دی تهی کہ مارتها نے کل جس نوجوان کو پهانسا تها ُاسُاس سے آج
ُاسےُاسے محبت بهی ہو گئی ہے اور وہ دونوں زندگی بهر دوست رہيں گے۔ ميرا خيال تو يہ ہے کہ تم وقت برباد کر رہے ہو۔” جوليا بولی۔” “نہيں ميرا خيال ہے کہ ميں جلد ہی کسی نتيجے پر پہنچوں گا۔” اس کے علاوہ نہيں کہ دونوں عنقريب شادی کر ليں گے۔” جوليانا نے ہنس کر کہا۔” ديکهو ، کيا ہوتا ہے؟” صفدر نے کہا اور سلسلہ منقطع کر ديا۔”