(Last Updated On: )
۱.۱ خاندانی پس منظر:
زیب النساء کے باپ دادا مغلیہ خاندان سے تھے۔ ان کے جدِ امجد جواہر بیگ جلال الدین اکبر کی فوج کے ایک دستے کے سپہ سالار تھے۔ زیب النساء زیبی کے دادا کا نام نیاز علی بیگ تھا۔ ان کی رہائش چاندنی چوک دہلی کوچہ رحمان فراش خانہ دہلی میں تھی۔ زیبی کے دادا کی تین اولادیں تھیں ایک بیٹی گل جنت اور دو بیٹے کبریا اور اقبال بیگ ۔ زیب النساء زیبی کے والد اقبال بیگ قیام پاکستان کے بعد اپنے والد کے ہمراہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ ان کی ہجرت کے حوالے سے زیب النساء زیبی کی بہن مہر النسا مہر کچھ یوں بیان کرتی ہیں:
‘‘ جب میرے والد ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تو اس وقت میرے تایا کبریا کا اُس غدر میں ہی قتل ہو گیا یعنی ہندو مسلم فسادات میں۔’’ (۱)
زیب النساء زیبی کے دادا نیاز علی بیگ انتہائی خدا ترس انسان تھے۔ ان کی انڈیا میں بہت جائیدادیں تھیں لیکن جب ہجرت کرکے پاکستان آئے تو انہوں نے اس جائیداد کا کسی طرح کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ زیب النساء زیبی کے دادا کو علم سے بہت لگاؤ تھا وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو علم حاصل کرنے کی تلقین کرتے۔ انہیں خود بھی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اور ان کے گھر میں کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ بھی موجود تھا۔
زیب النساء زیبی کا تعلق ایک اعلیٰ اور نامور گھرانے سے تھا۔ اُن کے دادا انجینئر تھے ان کو شکار پور سندھ سکھر بیراج جیسےبڑے پراجیکٹ ملے۔ وہی ان کا نام پشاور کی تاج بلڈنگ کے معماروں میں بھی آتا ہے۔ جہان تک زیب النساء زیبی کے والد کی بات ہے تو ان کے والد اقبال بیگ فوج میں انجینئر تھے اور بعد میں فوج کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کی بھی ایک خاص وجہ تھی۔ زیب النساء زیبی کے مطابق:
‘‘میرے والد فوج میں انجینئر تھے اس وقت ریڈیو کا دور تھا اور سبھاش چندر گھوش کی تقریر سننے پر بھی پابندی لگی ہوئی تھی۔ ایسے میں چار لوگوں کو تقریر سنتے ہوئے پکڑا گیا جن میں میرے والد بھی شامل تھے۔ اس وقت کا جرنیل ‘‘شاہ نواز’’ تھا ۔ تو ان چاروں کا کورٹ مارشل کا حکم جاری ہوا۔ تین کا تو کورٹ مارشل ہو گیا مگر میرے والد کے کورٹ مارشل سے پہلے ان کے وکیل ‘‘شیفر جمریز’’ نے درخواست پیش کی کہ یہ تقریر نہیں سن رہے تھے بلکہ یہ چونکہ مکینکل انجینئر ہیں تو اس سلسلے میں کسی کام سے وہاں موجود تھے۔ اس طرح سے میرے والد بچ گئے۔’’ (۲)
اس واقعہ کے بعد ان کے والد نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کرکے آئے اور کراچی میں مقیم ہو گئے۔ زیب النساء زیبی کے چار بھائی اور تین بہنیں ہیں جن میں سب سے بڑے گلزار بیگ ہیں ان کی پیدائش ہجرت کے وقت مہاجر کیمپ میں ہوئی۔ان کی پیدائش کے حوالے سے زیب النساء زیبی کچھ یوں بیان کرتی ہیں:
‘‘ ہجرت کے وقت مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا ۔ جب میرے والدین ہجرت کرکے پاکستان آئے تو کچھ عرصہ مہاجر کیمپ میں بھی رہے وہاں پر میرے بڑے بھائی گلزار بیگ کی پیدائش ہوئی۔’’ (۳)
بہنوں میں ان کی بڑی بہن مہر النسا مہر ہیں اور ان کے شوہر علی حسین جمالی ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رائٹر، ایڈیٹر اور کالم نویس بھی ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی محسن پرویز کے ایف سی کے ریٹائرڈ افسر ہیں ان سے چھوٹے بھائی شاہین بیگ کا ذاتی کاروبار ہے۔ چھوٹی بہن وقار النساء بینک آفیسر ہیں۔ ان سے چھوٹی بہن شمس النساء ہیں اور سب سے چھوٹے بھائی نوید بیگ ہیں۔ جہاں تک زیب النساء زیبی کے ننیال کا تذکرہ کیا جائے تو ان کی نانی کا نام ‘‘علی وامن’’ نانا بشیر الدین اور زیبی کی والدہ کا نام زہرہ خاتون تھا۔ زیبی کے نو ماموں تھے اور ایک خالہ ، آٹھ ماموں ان کے غدر میں گم ہو گئے اس حوالے سے زیب النساء زیبی کے بڑے بھائی کے مطابق:
‘‘ہماری والدہ بتایا کرتی تھی کہ میرے آٹھ بھائی غدر میں گم ہو گئے کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ کہاں گئے قتل ہو گئے یا پھر وہی رہ گئے مطلب کہ کچھ بھی معلومات نہ مل سکی۔’’ (۴)
۲.۱ ولادت:
زیب النساء زیبی ۳ جولائی ۱۹۵۸ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ زیب النساء کے مطابق:
‘‘ میری جائے پیدائش کراچی ہے اور میں ۳ جولائی ۱۹۵۸ء میں پیدا ہوئی۔’’ (۵)
زیب النساء زیبی کی تاریخ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے ان کی میٹرک کی سند اور ریٹائرمنٹ کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ان کی سن پیدائش ۱۹۵۴ء بنتی ہے لیکن ان کے شناختی کارڈ میں سال پیدائش ۱۹۵۸ء درج ہے۔ اس تضاد کے حوالے سے وہ لکھتی ہیں:
‘‘ جب میں میٹرک کا امتحان دینا چاہتی تھی تو اس وقت میری عمر تقریباً تیرہ (۱۳) برس تھی اور امتحانات میں کم عمری کی وجہ سے مجھے محکمہ تعلیم کی طرف سے اجازت نہیں مل رہی تھی۔ تو اس صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میرے والد محترم نے میٹرک کے فارم میں میری عمر ۱۹۵۸ء کی بجائے ۱۹۵۴ء لکھوا دی۔’’ (۶)
اس بیان کی روشنی میں ان کی اصل تاریخ پیدائش ۳ جولائی ۱۹۸۵ء ہی ہے۔
۳.۱ تعلیم:
زیب النساء زیبی نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ اور ۱۹۷۱ء میں گورنمنٹ گرلز سیکنڈری سکول نشتر روڈ کراچی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ تعلیم کے میدان میں دوسرے بہن بھائیوں کی نسبت قدرے کمزور تھیں۔ ذہین تو تھیں شاید کم عمری کی وجہ سے لاپرواہ رہی ہوں گی مگر ان کے والد نے ان کے ساتھ بہت محنت کی۔ یوں تعلیم میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی ۔ اس ضمن میں وہ خود رقم طراز ہیں:
‘‘پڑھائی میں بہن بھائیوں کی نسبت میرا شوق کم تھا مگر میں بہت ذہین تھی ۔ بس جس چیز کا ارادہ کرتی اس کو پورا بھی کرتی اور سب سے بڑی بات میرے والد کا بہت زیادہ ساتھ تھا میرے ساتھ اور یہ میری سب سے بڑی خوش قسمتی تھی۔’’ (۷)
میٹرک کے بعد انہوں نے ۱۹۷۴ء میں اردو سائنس کالج یونیورسٹی روڈ سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ ایف۔ اے کے امتحان کے بعد ان کی شادی ہو گئی۔ ایسے میں عموماً تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے لیکن ان کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں سسرال ایسا ملا جو کہ علم کا گہوارہ تھا۔ شوہر محمد اقبال اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ان کے سسر مقرب حسین دہلوی مزاح نگار بھی تھے اور ۱۹۴۷ء سے پہلے رسالہ ‘‘مشہور’’ کے ایڈیٹر بھی تھے۔
زیب النساء زیبی نے شادی کے بعد ملازمت شروع کردی اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ہوئے ۱۹۷۷ء میں کراچی یونیورسٹی سے پرائیویٹ گریجویشن کی اور پھر اس کے بعد ۱۹۷۹ء میں کراچی یونیورسٹی سے سیاسیات میں پرائیویٹ ایم۔ اے کیا اور ایم۔ اے سیاسیات کے بعد ۱۹۸۲ء میں جرنلزم میں کراچی یونیورسٹی سے پرائیویٹ ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اور بھی بہت سے چھوٹے بڑے کورس کیے مثلاً مونٹیسوری ڈپلومہ وغیرہ۔
۴.۱ ازدواجی زندگی:
زیب النساء زیبی کی شادی ۱۸ نومبر ۱۹۷۸ء کو محمد اقبال سے ہوئی۔ شادی کے بارے میں اُن کے شوہر کہتے ہیں:
‘‘جس وقت زیبی میرے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اس وقت ان کی عمر بیس سال تھی۔’’ (۸)
زیب النساء زیبی اپنی شادی کے متعلق کچھ یوں بیان کرتی ہیں کہ:
‘‘ میری شادی اقبال سے ۱۸ نومبر ۱۹۷۸ء کو ہوئی۔ ہم ایک ہی دفتر میں کام کرتے تھے ہماری شادی گھر والوں کی پسند سے ہوئی۔ اقبال کو میرے گھر والے جانتے تھے اور میرے گھر والوں کو اقبال پسند تھے اس طرح ہماری شادی ہوئی۔’’ (۹)
محمد اقبال زیب النساء زیبی کے بارے میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
‘‘ بحیثیت انسان زیبی کی شخصیت انتہائی متاثر کن ہے۔ ان کی گفتگو، لہجہ، خلوص، نیک نیتی اور سادگی انسان کو بہت جلد اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔ زیبی سے جب میری شادی ہوئی تو وہ انٹر سائنس کی طالبہ تھیں اور بحیثیت ٹرانسلیٹر ملازمت کر رہی تھی۔’’ (۱۰)
زیب النساء زیبی کی ازدواجی زندگی انتہائی کامیاب اور پر سکون رہی۔ اپنے شریک حیات کے ساتھ ان کی کمال کی ذہنی ہم آہنگی رہی اس حقیقت کو محمد اقبال نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
‘‘زیبی نے میرے ساتھ زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ دُکھ ، مصائب، تکالیف، مشکلات، معاشرتی مسائل، تنگ و ترشی لیکن انہوں نے مجھے کبھی یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ میرے ساتھ رہ کر انہیں کسی چیز کی کمی ہے۔’’ (۱۱)
زیب النساء زیبی کے شوہر بھی سابق سرکاری افسر حکومت سندھ رہ چکے ہیں۔
۵.۱ اولاد:
زیب النساء زیبی کی دو بیٹیاں ہیں، بڑی بیٹی عنبرین افشاں پروگرامر اور گرافک ڈیزائنر ہیں اور بیکن اکیڈمی کراچی میں اولیول /اے لیول کی کمپیوٹر انسٹرکٹر رہ چکی ہیں ۔ اس کے علاوہ بیسٹ فرانس سکول گلشن اقبال کراچی میں پرنسپل بھی رہ چکی ہیں۔
زیب النساءزیبی کی چھوٹی بیٹی سحرین در خشاں اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا میں مقیم ہیں وہ پروگرام نیٹ ورکنگ انجینئر ہیں۔ سر سید یونیورسٹی کراچی اور ایجیسن کالج گلشن اقبال کراچی میں کمپیوٹر انسٹرکٹر رہ چکی ہیں۔ کینیڈا منتقل ہونے کے بعد بھی مزید تعلیم جاری رکھی اور انہوں نے وہاں کچھ ڈپلومے کیے۔ Early child education کے ڈپلومہ کے بعد Status Egency کا بھی کورس کیا۔
زیب النساء زیبی کی دونوں بیٹیاں اپنی کامیابی کا سبب اپنے والدین کو بتاتی ہیں اور خصوصاً اپنی والدہ کو اپنی کامیابی کا ضامن ٹھہراتی ہیں۔ ان کے مطابق ان کی والدہ سرکاری ملازمت کے علاوہ وہ سوشل ورکر بھی تھیں تاہم ان مصروفیات کے باوجود انہوں نے ایک بیوی اور ماں کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھائیں۔ انہوں نے اپنی مصروف زندگی میں سے اپنے گھر کو مناسب وقت دیا۔ اولاد کی اچھی تربیت کی ۔ سحرین درخشاں ہمایون اپنی والدہ کے بارے میں لکھتی ہیں۔
‘‘ ہماری تعلیم و تربیت اور بلند کرداری سب ان ہی کی وجہ سے ہے جتنے انعامات، پوزیشن ، کامیابیاں اور اعزازات ہیں ان سب کے پیچھے والدین کی تربیت ہے۔ میری والدہ ملازمت اور دیگر مصروفیات کے باوجود ہم کو اتنا وقت دیتی تھیں کہ شاید گھر میں رہنے والی کوئی ماں بھی اپنے بچوں کو اتنا وقت نہ دے پاتی ہے۔ انہوں نے ہمیں زندگی کے ہر اونچ نیچ، اچھائی برائی اور نیکی و بدی کی تمیز سکھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔’’(۱۲)
یوں دیکھا جائے تو زیب النساء زیبی ایک ایسی ماں کے روپ میں نظر آتی ہیں جنہوں نے اپنی ملازمت اور سماجی و ادبی زندگی کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اپنی گھریلو زندگی کو بھرپور وقت دیا اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیا۔
۶.۱ ملازمت:
زیب النساء زیبی نے ۱۹۷۵ء میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا انہوں نے بطور ٹرانسلیٹر خدمات ادا کیں۔ پھر وہ تقریباً ۱۸ سال تک افسر اطلاعات رہیں۔ اور ۲۰۰۳ء میں اپنے پیشے سے دستبردار ہو گئیں۔ زیب النساء زیبی جس طرح سے ادب کے میدان میں ادب سے مخلص رہیں اسی طرح سے بطورِ سرکاری افسر بھی انہوں نے بہت ایمانداری سے کام کیا۔ زیب النساء زیبی نہ صرف کالم نویس، شاعرہ، ادیبہ، صحافی اور گھریلو خاتون تھیں بلکہ وہ سرکاری ملازم بھی تھیں۔ ان کے بارے میں بہت سے لوگوں کے دماغوں میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان میں بیک وقت اتنی خوبیوں کی بنا پر ان کو کس نام سے بلایا جائے۔ تو ان کی ان خداداد صلاحیتوں کے حوالے سے ان کی ایک ساتھی افسر مہ ناز حسن زیدی (ڈائریکٹر محکمہ اطلاعات حکومت سندھ) کچھ یوں فرماتی ہیں:
‘‘سمجھ میں نہیں آتا زیبی ہے کیا؟ وہ شاعرہ، افسانہ نگار، ناولسٹ، محقق، مبصرہ، مقررہ، کالم نویس، صحافی، استاد، سرکاری افسر او رگھریلو خاتون ہیں۔ آخر ان کو کس کردار میں سب سے بلند اور مکمل سمجھا جائے۔’’ (۱۳)
زیب النساء زیبی کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں ہیں وہ بے پناہ صلاحیتوں کی حامل خاتون ہیں۔ اگر اعزازی مصروفیات کی بات کی جائے تو زیب النساء زیبی ماسٹر لیول کی کلاسز ، فری لانس جرنلسٹ، انگلش لینگویج ٹیچر اور پروپرائیٹر زیبی اینڈ عائز پبلی کیشنز سے وابستہ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ای سی سی، اے نیٹ لنک، کوچنگ انسٹی ٹیوٹ سے سی ایس ایس، پی سی ایس کی رہنمائی کی کلاسز بھی لیتی رہی ہیں۔
۷.۱ تخلیقی سرگرمیاں:
زیب النساء زیبی کے تخلیقی سفر کی بات کی جائے تو انہوں نے جماعت ششم سے شاعری کا آغاز کیا۔ آٹھویں جماعت میں انہوں نے ‘‘پگلی’’کے عنوان سے ایک افسانہ تخلیق کیا اور اس افسانے کو اسٹیج پر پیش کیا۔ زیب النساء زیبی نے اس افسانے کو لکھنے کے ساتھ ایکٹ بھی کیا ۔ ان کے مطابق:
‘‘ اس افسانے کو میں نے لکھا اور اس میں ایک پاگل لڑکی کا کردار بھی میں نے خود ادا کیا ۔ جب اس افسانے کو اسٹیج کیا تتو میری سب ٹیچرز جذبات پر قابو نہ پا سکی اور اشک بار ہو گئی۔ میری پرنسپل نے اسٹیج پر آکر مجھے گلے سے لگا لیا۔ اور مہمان خصوصی کی طرف سے بھی مجھے انعام سے نوازا گیا۔ اور یہ انعام مجھے اس افسانے کو لکھنے کے ساتھ ساتھ ایکٹ کرنے کی وجہ سے ملا کیونکہ میں ابھی اتنی جذباتی ہو گئی تھی کہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی۔’’(۱۴)
زیب النساء زیبی بتاتی ہیں کہ یہ میرا پہلا افسانہ تھا اس پر مجھے داد بھی ملی تھی۔ زیب النساء زیبی کی ادبی زندگی کو پروان چڑھانے میں ان کے والد کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ یہی صورت شادی کے بعد ان کے شوہر کی رہی ۔ خود ان کے بقول:
‘‘میرے والد صاحب نے میرا بہت ساتھ دیا جہاں کہیں بھی مشاعروں وغیرہ کے پروگرام ہوا کرتے تو مجھے ساتھ لے جاتے اور اللہ کا ایسا فضل ہے کہ شادی کے بعد میرے شوہر نے بھی میرا بہت ساتھ دیا اور میرے حوصلوں کو کبھی پست نہیں پڑنے دیا۔’’ (۱۵)
کسی بھی ادیب اور شاعر اور خاص طور ایک خاتون کے لیے حوصلہ افزائی اور سرپرستی کس قدر ضروری ہوتی ہے اور بالخصوص اگر وہ اہل خانہ کی طرف سے میسر آئے تو ایک خاتون لکھاری کے اندر کس قدر اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ زیب النساء زیبی نے نہ صرف نثر بلکہ شاعری میں بھی بہت پذیرائی حاصل کی۔ ڈاکٹر جمال نقوی رقم طراز ہیں:
‘‘ ادبی ذوق اور قلم کاری قدرت کی عطا ہے۔ اس عطا کو زیبی نے اپنی محنت ، لگن اور ذوق سے بڑھایا ہے۔’’ (۱۶)
۸.۱ اندرون و بیرون ممالک میں ایوارڈز:
زیب النساء زیبی ایک کمال کی شخصیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے زندگی کے ہر میدان میں بہت محنت اور لگن سے کام کیا۔ ادب کے میدان میں زیب النساء زیبی ایک اہم مقام کی حامل خاتون ہیں۔ زیب النساء زیبی ادبی دنیا میں ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ انہوں نے اردو کے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور بہت خوب کام کیا۔ شاعری، نثر، کالم نگاری، تحقیق و تنقید یعنی ہر کام کو بخوبی انجام دیا ۔ ان سب خوبیوں کو دیکھتےہوئے عصمت چغتائی کچھ یوں بیان کرتی ہیں:
‘‘ زیب النساء زیبی سے مل کرمیں یہ کہہ سکتی ہوں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیائے ادب کو ایسے ذہین انسانوں پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ زیبی اپنی تحریروں کو زندگی کی جن سچائیوں سے ہم آہنگ کرنے کی جہد میں مصروف ہیں اس کے لیے میری انہیں نصیحت ہے کہ ہمیشہ بہادر بنو، خود دار رہو اور ظلم کی ہر دیوار کو ڈھا دو تب ہی اعلیٰ و ارفع ادب تخلیق پا سکے گا۔’’ (۱۷)
زیب النساء زیبی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے ان کو ایوارڈز اور انعامات سے نوازا گیا اور یہ ایوارڈز صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک سے بھی ملے۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
۱۔ کراچی یونیورسٹی گریجویٹ فورم کینیڈا، کانواں ایکسی لینسی ایوارڈ ۲۰۱۱ء
۲۔ دی ایمبیشن اپری سی ایشین ایوارڈ کینیڈا ۲۰۱۱ء
۳۔ ینگ رائٹر ایوارڈ
۴۔ شکیل بدایونی ایوارڈ
۵۔ فدا حسین میموریل ایوارڈ
۶۔ میاں منظور احمد ایوارڈ
۷۔ الرحمن ایوارڈ
۸۔ نقیبی کاروانِ ادب ایوارڈ
یہ تمام ایوارڈ ان کو خالص ادبی سرگرمیوں سے منسلک ہونے اور اعلیٰ پائے کی تخلیقات پر ملے ہیں۔ ان کے ہاں فکر و فن ہر دو حوالوں سے بھرپور فن پارے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی زندگی ہی میں اس کا صلہ ملا ہے۔
۹.۱ ادبی و فلاحی اداروں سے وابستگی:
زیب النساء زیبی نہ صرف شاعرہ، افسانہ نگار اور صحافی ہیں بلکہ ایک سماجی کارکن بھی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے شہر کی بیشتر سماجی، فلاحی اور ثقافتی اداروں سے وابستہ رہیں ہیں جن میں سے چند ذیل میں درج ہیں۔
۱۔ سٹوڈنٹس ویلفیئر آرگنائزیشن خالق دینا میں نائب صدر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔
۲۔ خالق دینا ہال لائبریری کی پبلسٹی سیکرٹری رہیں۔
۳۔ پولی ٹیکنگ کالج برائے خواتین کی پیرنٹس ٹیچر ایسوسی ایشن فنانس سیکرٹری۔
۴۔ پاک یوتھ آرگنائزیشن اور نائسو جیسی تنظیموں سے وابستگی
۵۔ ممبر میڈیا ویمن پبلشر اینڈ جرنلزم آرگنائزیشن
۶۔ ممبر اردو سندھی ادبی فاؤنڈیشن
۷۔ ممبر اکادمی ادبیات پاکستان
۸۔ ممبر انجمن جمہوریت پسند خواتین
۹۔ جوائنٹ سیکرٹری قرطاسِ ادب کراچی
۱۰۔ ممبر آرٹس کونسل
۱۱۔ ممبر پاکستان ادبی فورم
۱۲۔ جوائنٹ سیکرٹری اردو لٹریری ایسوسی ایشن
۱۳۔ کونسل ممبر انجمن ترقی پسند مصنفین
۱۰.۱ زیب النساء زیبی کی شخصیت کے اہم پہلو:
زیب النساء زیبی کی شخصیت کی نمایاں پہلو یہ ہیں جو کسی بھی شٰخصیت کو آئیڈیل بننے میں مدددیتی ہیں۔ اللہ پاک نے زیبی کو وسیع ذخیرۂ علم کے ساتھ ساتھ بھرپور خوبیوں سے بھی نوازا ہے جو کہ ان کی شخصیت کو مکمل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔زیبی کی شخصیت اپنی خوبیوں کی بنا پر نہ صرف ادب کے میدان میں بلکہ زندگی کے تقریباً ہر میدان میں انہوں نے خود کو منوایا۔ زیبی با اخلاق، خوش مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ بہت رحم دل ، ملنسار بھی ثابت ہوئیں۔ اُن کی شخصیت میں زندہ دلی نظر آتی ہے ۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے جذبوں اور حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیا۔ زیب النساء زیبی نے جس بھی کام کو کیا شوق اور لگن سے کیا۔ ان کے بقول:
‘‘ میں نے آج تک جس بھی کام کو کیا بہت شوق اور لگن سے کیا اور ہمیشہ اسی شوق اور لگن کی وجہ سے کامیابیوں سے سرخرو ہوتی رہیں۔’’(۱۸)
شروع شروع میں زیبی کو لکھنے کا بہت شوق تھا اور پھر آہستہ آہستہ ان کا جنون بن گیا۔ لغت میں بھی آپ نے ایک نئے لفظ کا اضافہ کیا ہے۔ اور شاعری میں بھی آپ نے بہت سی نئی اصناف کو متعارف کروایا ہے۔ زیب النساء زیبی بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے آنکھ کھولی تو اپنے گھر میں کتابوں کا وسیع ذخیرہ پایا۔ اور اس سے آپ نے کافی استفادہ کیا۔
۱۱.۱ ذہانت و فطانت:
زیب النساء زیبی کی شخصیت میں سب سے خاص خوبی ان کی اعلیٰ ذہانت ہے۔ زیبی نے اپنی اعلیٰ ذہانت کی وجہ سے زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے نہ صرف ادب میں بلکہ ملازمت اور فلاحی اداروں کے کام میں بھی بہت نام پیدا کیا۔ زیبی کو لکھنے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ انہوں نے جماعت ششم سے لکھنا شروع کیا۔ یوں وہ ایک قابل طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین لکھاری کی صورت میں بھی نمودار ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملازمت کے دوران جن کامیابیوں کی بلندیوں کو چھوا سب ان کی ذہانت کی بدولت ہوا۔ یہ ان کی ذہانت ہی ہے کہ جس کی بدولت وہ بیک وقت کئی علمی میدانوں میں اپنے نام کا سکہ منوا چکی ہیں۔ وہ بیک وقت شاعرہ، افسانہ نگار، ناول نگار، محقق اور بہترین مقررہ ثابت ہوئیں۔ یہ ان کی ذہانت ہی ہے کہ انہوں نے زندگی کے ہر شعبے کو باریک بینی سے اپنی تحاریر میں پیش کرنے کی کوشش کی۔
۱۲.۱ فلاحی و اصلاحی کام:
زیب النساء زیبی کی بہت سی خوبیوں میں ان کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایک ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی رہی ہیں۔ زیبی شہر کے بیشتر فلاحی، ثقافتی اور سماجی اداروں سے وابستہ رہیں۔ جن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی سینئر جوائنٹ سیکرٹری خاتون کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ ممبر پاکستان ادبی فورم ، ممبر آرٹس کونسل ، اکیڈمی ادبیات پاکستان کی ممبر، پاک یوتھ آرگنائزیشن اور ناسو جیسی تنظیموں سے ان کی وابستگی رہی ۔ اس کے علاوہ میڈیا ویمن پبلشرز اینڈ جرنلزم آرگنائزیشن کی ممبر اور انجمن جمہوریت پسند خواتین کی رکن بھی رہی ہیں۔
زیب النساء زیبی نے بہت سے فلاحی کام کیے اوران میں زیادہ تر خواتین کے مسائل کو توجہ دی۔ بہت سی لڑکیوں کی شادیاں کروائیں بعض کے گھریلو مسائل حل کیے۔ زیب النساء زیبی نے فلاحی اداروں کے ذریعے تعلیم کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کی محنت ولگن کو دیکھتے ہوئے نسیم احمد شاہ ررقم طراز ہیں:
‘‘ زیب النساء زیبی نے جو بھی کام کیا بہت محنت، لگن اور دل سے کیا۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب ہم نے بچوں کی تعلیم کے لیے فلاحی کام کیا تو اس وقت بچوں کی کتابوں، یونیفارم اور دوسری ضرورت کی چیزوں کے لیے زیبی نے گھ گھر جا کر چندہ اکٹھا کیا اور اس میں کسی قسم کی کوئی عار محسوس نہ کی۔ بلکہ ایسے لگن سے اس کام کو کیا گویا کہ اپنے بچوں کے لیے چندہ اکٹھا کر رہی ہوں۔’’(۱۹)
۱۳.۱ زیب النساء زیبی بحیثیت استاد:
زیب النساء زیبی درس و تدریس سے بھی وابستہ رہیں۔ زیبی نے اپنے تعلیمی ادارے میں ماسٹر لیول تک کلاسز لیں۔ زیب النساء زیبی نے بہت سے طلبہ و طالبات کو سی ایس ایس اور پی سی ایس کی تیاری بھی کروائی۔ انہوں نے بہت سی طالبات کو مونٹیسوری کورسز بھی کروائے اور ان کی رہنمائی کی۔ بلا شبہ وہ زندگی کے جس بھی پیشے سےوابستہ رہیں بہت لگن اور خلوص سے کام کیا۔ مہ ناز رحمن زیب النساء زیبی کے بارے میں کچھ یوں بیان کرتی ہیں:
‘‘زیبی کو تمام شعبوں میں درس و تدریس کا شعبہ بہت پسند تھا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے نہایت خلوص اور محبت سے اپنے طالب علموں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی آبیاری بھی کی ہے۔’’(۲۰)
بحیثیت استاد انہوں نے اپنے طالب علموں کی شخصیت کو نکھارنے میں اعلیٰ کردار ادا کیا ہے۔ان کی ایک طالبہ رفعت ان کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں:
‘‘مونٹیسوری ٹریننگ کے دوران زیبی صاحبہ نے ہماری خوب رہنمائی کی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ بہت تھکی ہوئی ہوتی تھیں اور پھر بھی ہم ان سے کچھ پوچھتے تو یہ ہماری رہنمائی اتنی خندہ پیشانی سے کرتیں کہ ہمیں مسرت ہوتی۔ میں نے ان تین ماہ کی ٹریننگ میں ان کو کبھی بھی غصے کی کیفیت میں نہیں دیکھا۔’’(۲۱)
۱۴.۱ خوش اخلاقی و خوش مزاجی:
زیب النساء زیبی کی شخصیت کی ایک خوبی ان کی خوش مزاجی ہے۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ انہوں نے جہاں پر بھی قدم رکھا لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ وہ ہر کسی سے محبت سے پیش آتی ہے ان کا لہجہ نرم اور شائستہ ہے۔ کبھی کبھی وہ اپنے مزاج میں شوخی بھی پیدا کرلیتی ہیں اوریہ شوخی ان کی شخصیت میں اور بھی نکھار پیدا کردیتی ہے۔ جوانی سے لے کر عمر کے اس حصے تک ان کے شخصیت کا جو سب سے اہم اور نمایاں پہلو ہے وہ ان کی خوش مزاجی اور خوش گفتاری ہے۔
زیب النساء زیبی اپنے گھریلو معاملات خود بہ احسن و خوبی انجام دیتی ہیں اور ہر قسم کے مشکلات کا سامنا بخوشی کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ اپنے شوہر سے انہیں بڑی محبت ہے۔ اس بات کی حقیت اُن کے شوہر کے اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے:
‘‘زیب النساء زیبی نہ صرف میری بیوی ہے بلکہ وہ میری سب سے اچھی دوست بھی ہیں۔ گھر کے مسائل ہوں یا دفتر کی الجھنیں زیب النساء زیبی نے ہمیشہ بڑی ہی خوش اخلاقی سے ان تمام مسائل کا سامنا کیا اور زندگی کے ہر موڑ پر مسکراتے ہوئے میرا ساتھ دیا۔’’ (۲۲)
زیب النساء زیبی اپنی اخلاق کی بدولت اپنے خاندان میں سب کی چہیتی اور اپنے ہم عصر لکھاریوں اور دوستوں میں قابل احترام ہیں۔ ان کے مزاج میں تلخی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمیشہ مسکراتی ہیں اور مسکراتی ہوئی دوسروں کو مخاطب کرتی ہی۔ زیبی کی خوش مزاجی ہی کی وجہ سے اُن کے احباب کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ جہاں کہیں موجود ہوتی ہیں وہاں مسکراہٹیں بکھیر دیتی ہیں۔ محسن اعظم محسن ملیح آبادی لکھتے ہیں:
‘‘وہ مزاج کی غنی اور بے حد استغنا ہیں۔ ان کے مزاج میں نفاست ہے چہرے پر ملکوتی معصومیت ہے، اخلاقی وضعداری، مجلسی رکھ رکھاؤ خوب جانتی ہیں وہ جاذبِ نظر پر وقار شخصیت کی مالک ہیں۔ لہجہ شائستہ، برجستہ، میٹھا متاثر کن اور دوستانہ اور گفتگو سے مزین رہتا ہے۔’’(۲۳)
۱۵.۱ خوش لباسی:
زیب النساء زیبی لباس کے انتخاب میں بہت احتیاط کرتی ہیں۔ ان کی دوستوں کاکہنا ہے کہ وہ لباس کا انتخاب ہمیشہ پروگرام اور محفل کے مطابق کرتی ہیں اور لباس میں رنگوں کا انتخاب موسم کے مطابق کرتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر ناہید اختر:
‘‘ آج تک ہم نے زیبی کو کبھی بھی لباس کے انتخاب میں سستی سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ گرمی میں لائٹ کلر اور سردیوں میں گہرے رنگ کے ملبوسات میں ہوتی ہیں۔’’(۲۴)
زیب النساء زیبی کے لباس میں نفاست ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتی ہے اور ان کی یہ خوبی ان کی شخصیت کو مزید نکھار دیتی ہے۔
۱۶.۱ مہمان نوازی:
زیب النساء زیبی بہت ہی فراخ دل اور مہمان نواز خاتون ہیں۔ وہ ہر طرح کے مہمانوں کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کرتی ہیں اور انہیں عزت و اکرام سے نوازتی ہیں۔ مہمان نوازی ویسے بھی ہمارے معاشرے کا خاصا ہے اور زیب النساء زیبی اپنی روایات سے ہمہ وقت جڑی رہتی ہیں۔ وہ مہمانوں کی قدردان ہیں۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت تصور کرتی ہیں۔
ان کی مہمان نوازی کے حوالے سے ان کے دوست احباب ، رشتے دار اور ہمسایوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت مہمان نواز خاتون ہیں اگر ان سے ملنے کے لیے کوئی آئے تو ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتی ہیں۔بقول محمد اقبال شیخ:
‘‘ جب بھی ہمارے گھر کوئی مہمان آتا ہےتو زیبی بہت خوش ہوتی ہیں ایک تو اس وجہ سے کہ مہمان خدا کی رحمت ہے اور دوسری وجہ کہ اللہ نے اس کے رزق کا وسیلہ مجھے بنایا۔’’ (۲۵)
۱۷.۱ میانہ روی و اعتدال پسندی:
زیبی کی شخصیت کا اہم پہلو ان کی اعتدال پسندی اور میانہ روی ہے۔ یہ میانہ روی ان کے مزاج میں ایسی رچ بس گئی ہیں کہ وہ ہر شعبے کے ساتھ منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور بچوں کو بھی بھرپور وقت دیتی ہیں۔ یہ اعتدال ان کے بود و باش ، ان کے مزاج حتیٰ کہ ان کے پورے لائف سٹائل میں شامل ہے۔
۱۸.۱ تصنیفی سرمایہ:
زیب النساء زیبی نے ادبی دنیا میں قدم رکھا تو مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ انہوں نے شاعری، افسانہ نگاری اور تحقیق و تنقید کے حوالے سے کام کیا۔ ہر صنف کے حوالے سے انہوں نے دلجمعی اور لگن سے کام لیتے ہوئے اپنی تخلیقات پیش کیں۔ بقول رئیس امروہوی:
‘‘ زیب النساء زیبی کی تحریریں پڑھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس لڑکی کو قدرت نے فیاضی کے ساتھ فہم و ادراک و مشاہدات کی قوت عطا کی ہے۔’’ (۲۶)
زیب النساء زیبی کی اس محنت، لگن اور کاوش کو دیکھتے ہوئے پروفیسر سحر انصاری یوں رقم طراز ہیں:
‘‘ زیبی کے اندر اظہار کا ایک طوفان چھپا ہوا ہے کیوں کہ وہ نثر میں اتنا کچھ لکھنے کے باوجود شاعری کی طرف بھی مائل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ زیب النساء کو زندگی میں ادب ہی زیب دیتا ہے۔’’ (۲۷)
زیب النساء زیبی کا تصنیفی سرمایہ نہایت وسیع ہے اور ان کے زیادہ تر مجموعے کلیات کی صورت میں منظر عام پر آئے ہیں۔ مجموعوں کی فہرست زیادہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنی کتابوں کو کلیات کی صورت میں شائع کیا۔ اس لیے ان کے الگ الگ مجموعے مارکیٹ میں میسر نہیں ہیں۔ اُن کلیات میں شامل مجموعوں میں کہیں بھی سن اشاعت نہیں لکھا گیا اور نہ اشاعت والے کسی شہر (جگہ) کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کی کلیات ‘‘عکسِ زندگی’’ میں جو فہرست درج ہے وہ محسن عظیم محسن ملیح آبادی کی ‘‘زیب النساء زیبی شخصیت اور فن’’ میں بھی وہی ترتیب رکھی گئی ہے۔ ان کی کلیات کی فہرست ترتیب وار ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
۱.۱۸.۱ سخن تمام:
‘‘سخن تمام’’ زیب النساء زیبی کی پہلی کلیات ہے۔ یہ دنیا کی پہلی کلیات ہے جس میں ستر سے زیادہ شعری اصناف شامل ہیں۔ اس کلیات میں نظموں کے ۲۳ مجموعے شامل ہیں۔ جو ذیل میں درج ہیں:
۱۔ ہتھیلی پر گلاب ۲۔ اب تم آجاؤ ۳۔ تم سے دور تو نہیں ۴۔ یاد کے موسم
۵۔ سحر درخشاں ۶۔ تیرا انتظار ہے ۷۔ عنبر و افشاں ۸۔ آتی رت کا پھول
۹۔ مجھے کچھ کہناہے ۱۰۔ کبھی تو ملیں گے ۱۱۔ تنہا تنہا چاند ۱۲۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
۱۳۔ یہ کہانی اور ہے ۱۴۔ ایسے ویسے ۱۵۔ چاند تارے آسماں ۱۶۔ پھول کلیاں خوشبو
۱۷۔ کہکشاں در کہکشاں ۱۸۔ بھیگی بھیگی پلکیں ۱۹۔ حرف حرف زندگی ۲۰۔ تم سے ہے زندگی
۲۱۔ یہ آنکھیں تمہیں ڈھونڈتی ہیں ۲۲۔ ہے آرزو تمہاری ۲۳۔ اک تنِ خاکی
‘‘سخن تمام’’ کے عنوان سے ترتیب دینے والے کلیات کو ۲۰۱۳ء میں شائع کیا گیا۔ زیبی کے اس کلیات کے مطالعہ سے ان کی ادبی خدمات کا معترف ہونا پڑتا ہے۔ انہوں نے یہاں مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ اُن کی نظموں کے حوالے سے واحد بیگ چغتائی کچھ یوں لکھتے ہیں:
‘‘ زیب النساء زیبی نے بڑی معرکۃ الآرا نظمیں لکھی ہیں ان کی نظموں میں طنز کا جو لطیف پہلو ملتا ہے وہ صرف محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ لہجہ کی بے اختیاری، تحریر کی روانی و سلاست، تازگی و رعنائی، بے خوفی اور حوصلہ انہیں اپنے شعرا میں ممتاز کرتا ہے۔’’ (۲۸)
۲.۱۸.۱ کارِ دوام:
‘‘کارِ دوام’’ زیب النساء زیبی کی دوسری کلیات ہے اس کلیات میں ۲۱ مجموعۂ کلام شامل ہیں اس کلیات کا سنِ اشاعت ۲۰۱۴ء ہے۔اس کلیات میں غزلوں کے مجموعے شامل ہیں۔ یوں انہوں نے نظم کے ساتھ ساتھ غزل پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ اس کلیات میں شامل مجموعوں کی فہرست درج ذیل ہے:
۱۔ تیری یاد آتی ہے ۲۔ کوئی راہ تکتا ہے ۳۔ دل میں ہیں آپ ۴۔ تم بن اداس ہیں
۵۔ تم میرے ہو ۶۔ بے وفا ہم نہیں ۷۔ کوئے محبوب سے ہجرت
۸۔ ہوں تیرے دھیان میں ۹۔ پوچھو تو حالِ دل ۱۰۔ ذرا شام سے پہلے ۱۱۔جرم بینائی کی سزا
۱۲۔ تحفے میں بھیج دی آنکھیں ۱۳۔ عشق تو جادو ٹونا ہے ۱۴۔ بہاریں مسکراتی ہیں
۱۵۔ کرتی ہے رقص خوشیاں ۱۶۔ کوئی آپ سا کہاں ۱۷۔ یہ عشق سمندر ہے ۱۸۔امید وفا اور آپ
۱۹۔ ہے مجبوریاں محبت کی ۲۰۔ تمہارے ساتھ رہنا ہے ۲۱۔ کیا ملا دل دکھانے میں
۳.۱۸.۱ عکسِ زندگی:
یہ کلیات زیب النساء زیبی کی افسانوی ادب میں ایک نمایاں کاوش ہے۔ اس کلیات میں ان کے افسانوی مجموعے ، ناولٹ اور ناول شائع ہو چکے ہیں۔اس کلیات میں سات افسانوی مجموعے، سات ناولٹ اور ایک ناول‘‘ آدھی گواہی’’ شامل ہے۔ جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
۱.۳.۱۸.۱ عکسِ زندگی میں شامل افسانوی مجموعے:
۱۔ شہ رگ پہ خنجر ۲۔ پیاری آپی ۳۔ ڈبل ہیروئن ۴۔ ادھوری عورت
۵۔ دیس پر دیس ہوا ۶۔ جھوٹی کہیں کی ۷۔ وہ پھول تھی یا بھول
‘‘شہ رگ پہ خنجر’’ الگ سے ۲۰۰۸ء میں چھپا ۔ اس کے بعد مجموعہ ‘‘پیاری آپی’’ ۲۰۰۹ء میں جبکہ وہ ‘‘پھول تھی یا بھول’’ ۲۰۱۰ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آیا۔ اس کے بعد ان کے ساتھ ساتھ دوسرے افسانوی مجموعوں ، ناولٹ اور ناول کو بھی یکجا کرکے ایک کلیات کی صورت میں شائع کیا گیا۔
۲.۳.۱۸.۱ عکسِ زندگی میں شامل ناولٹ:
۱۔ جہنم کے فرشتے ۲۔ سیر عدم کی آرزو ۳۔ طوفان اور سوکھے پتے ۴۔ دلدل
۵۔ خاموش جنازے ۶۔ شہزادے کا انتظار ۷۔ کالی زبان
۳.۳.۱۸.۱ عکسِ زندگی میں شامل ناول:
۱۔ آدھی گواہی
اردو ادب میں زیب النساء زیبی نے کئی حوالوں سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے شاعری میں کئی اصناف ایجاد کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے غزل میں بھی طبع آزمائی کی۔ اور نثر میں انہوں نے افسانے، ناولٹ اورناول تحریر کیے جو ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حوالہ جات
۱۔ انٹرویو، مہر النساء مہر، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۲۔ انٹر ویو زیب النساء زیبی، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۳۔ انٹر ویو زیب النساء زیبی، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۴۔ تحر انٹر ویو زیب النساء زیبی، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۵۔ انٹر ویو زیب النساء زیبی، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۶۔ انٹر ویو زیب النساء زیبی، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۷۔ انٹر ویو زیب النساء زیبی، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۸۔ راقمہ کا محمد اقبال شیخ سے انٹر ویو، بمقام ایف ۱۰، اسلام آباد، ۱۱ ستمبر ۲۰۱۷ء
۹۔ انٹر ویو زیب النساء زیبی، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۱۰۔ راقمہ کا محمد اقبال شیخ سے انٹرویو بمقام ایف ۱۰، اسلام آباد، ۱۱ ستمبر ۲۰۱۷ء
۱۱۔ محمد اقبال، زیب ،النساء زیبی :فن اور شخصیت، زیبی اینڈ عائز پبلی کیشنز کراچی، اگست ۲۰۱۴ء، ص ۴۲۰
۱۲۔ سحرین درخشاں، زیب النساء زیبی: فن اور شخصیت، زیبی اینڈ عائز پبلی کیشنز، کراچی، اگست ۲۰۱۴ء، ص ۴۴۸
۱۳۔ مہ ناز حسن زیدی، زیب النساء زیبی: فن اور شخصیت، زیبی اینڈ عائز پبلی کیشنز ، کراچی، اگست ۲۰۱۴ء، ص ۴۱۴
۱۴۔ انٹر ویو، زیب النساء زیبی، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۱۵۔ انٹر ویو زیب النساء زیبی، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۹ ستمبر ۲۰۱۷ء
۱۶۔ جمال نقوی، ڈاکٹر، زیب النساء زیبی: فن اور شخصیت، زیبی اینڈ عائز پبلی کیشنز، کراچی، اگست ۲۰۱۴ء، ص ۳۶۳
۱۷۔ عصمت چغتائی، زیب النساء زیبی: فن اور شخصیت، زیبی اینڈ عائز پبلی کیشنز، کراچی، اگست ۲۰۱۴ء، ص ۶۹۰
۱۸۔ تحریری سوالنامہ، زیب النساء زیبی، بذریعہ ای میل، ۲۴ اکتوبر ، ۲۰۱۷ء
۱۹۔ تحریری سوالنامہ، نسیم احمد شاہ، بذریعہ ای میل، ۳ نومبر ۲۰۱۷ء
۲۰۔ مہ ناز رحمان،مضمون مشمولہ خیال جلد ۷، شمارہ اپریل تا ستمبر ۲۰۰۸ء، ص ۱۳۷
۲۱۔ راقمہ کا محمد اقبال شیخ سے انٹر ویو، ایف ۱۰، اسلام آباد ، ۱۱ ستمبر ۲۰۱۷ء
۲۲۔ محمد اقبال شیخ، زیب النساء زیبی: فن اور شخصیت، زیبی اینڈ عائز پبلی کیشنز، کراچی، اگست ۲۰۱۴ء، ص ۴۲۰
۲۳۔ محسن اعظم محسن ملیح آبادی، زیب النساء زیبی شخصیت اور فن، زیبی اینڈ عائز پبلی کیشنز، کراچی، ص ۲۳۱
۲۴۔ انٹرویو، ناہید اختر، ڈاکٹر، الحمرا لاہور، ۱۳، اپریل ۲۰۱۷ء
۲۵۔ انٹرویو، محمد اقبال شیخ، ایف ۱۰، اسلام آباد، ۱۱ستمبر ۲۰۱۷ء
۲۶۔ رئیس امروہوی، مشمولہ اسالیب، شمارہ ۱۰، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۹ء سرگودھا، پاکستان، ص ۳۴
۲۷۔ پروفیسر سحر انصاری، مشمولہ اسالیب، شمارہ ۱۰، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۹ء، سرگودھا، پاکستان، ص ۳۴
۲۸۔ واحد بیگ چغتائی، مشمولہ ماہنامہ خط رنگ، مئی ۲۰۱۰ء، جلد ۲، شمارہ ۳ لاہور پاکستان، ص ۲۶