مبادیاتِ تحقیق
ایساتمام ترمواد جو تحقیق کے بنیادی تصورات اور طریقہ کار پر مبنی ہو اسے مبادیات تحقیق کہتے ہیں اور اس کی بنیادی اصطلاحات کو مبادی اصطلاحات کا نام دیا جاتا ہے جو ذیلی مواد میں ملاحظہ فرمائیں۔
تحقیق کیا ہے؟
تحقیق سے مراد کسی شے کی حقیقت کا اثبات ، حقائق کی بازیافت حقائق کا تعین اور ان سے نتائج کا استخراج حق کی جستجو، تجبریا شک کو دور کرنا، یقین کو حاصل کرنا باربار تلاش وجستجو کرنا تاکہ حقیقت یا حق واضح ہو جائے۔ عہد موجود کی سائنسی ایجادات تحقیق ہی کی مرہون منت اور ثمرات کا نتیجہ ہیں لیکن مواد جمع کرنا ہی اصل تحقیق نہیں بلکہ متعلقہ جمع شدہ مواد سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا تحقیق ہے۔
بلحاظ ادب تحقیق (Research)کو ہمیشہ ایک فن تسلیم کیا گیا ہے اور تحقیق کنندہ کے لیے فنی اصطلاح ’’محقق‘‘ مدتوں سے رائج ہے۔ تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا اصل ’’حق‘‘ ہے جس کے اصلی حروف ’’ح ق ق ‘‘ہیں۔ حق سے تحقیق بنا ہے جس کا مطلب ہے حق کو تلاش کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ۔ حق کے معنی سچ ہیں۔ مادہ حق سے دوسرا لفظ حقیقت بنا ہے جس کے معنی ہیں کہ تحقیق سچ یا حقیقت کی شناخت کا عمل ہے۔
تحقیق کے لیے انگریزی زبان میں جو لفظ مستعمل ہے وہ Researchہے جس کے معنی ہیں تحقیق حقائق یا اصول کی تلاش میں پر معز تفتیش/کھوج ایک تجزیاتی تحقیق /چھان بین تحقیق علمی جب کہ تحقیق کرنے والا محقق Research Worker or Researcherکہلاتا ہے۔ اردو میں محقق کے لیے کھوجی اور تفتیش کنندہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ریسرچ (Research)دو الفاظ ReاورSearchکا مجموعہ ہے ۔Reکا مطلب ہے دوبارہ اور Searchکا مطلب ہے تلاش ، جستجو، کھوج اگر لفظی معنی پر غور کریں تو ریسرچ (Research)کا مطلب ہے ’’دوبارہ تلاش کرنا‘‘ لیکن اصطلاح میں ریسرچ (Research) انتہائی سچائی اور حقائق کی تلاش وجستجو کا نام ہے۔ انسان چونکہ فطرتاً اور طبعاً حقیقت کی جستجو میں سرگرم عمل رہتا ہے۔
وہ ہمیشہ شدہ علم اور معلومات کی تصدیق کا خواہش مند رہنا اس کی فطرت میں شامل ہے گویا تحقیق انسان کے فطری خصائص اور تلازمات کا حصہ ہے لہٰذا مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے تحقیق (Research)کی جاتی ہے۔
فرہنگ آصیفہ میں تحقیق کے معنی کچھ یوں ہیں،
’’تلاش، تجسس، تفتیش، چھان بین، کھوج، سراغ، دریافت، اور جانچ‘‘(۱)
فروز اللغات میں تحقیق کے معنی یہ بتائے گئے ہیں،
۱) ’’اصلیت معلوم کرنا، دریافت
۲) درستگی ، صحت
۳) تفتیش ، جانچ پڑتال
۴) سچائی صداقت، اصلیت
۵) یقین
۶) پایہ ثبوت کو پہنچنا
۷) درست، ٹھیک، سچا‘‘ (۲)
آکسفورڈ ڈکشنری میں تحقیق کے مفاہیم ومطلب کے تراجم کچھ یوں ہیں۔
’’ کسی مخصوص چیز یا شخص سے متعلق گیرائی وگہرائی یا محتاط تلاش کا عمل ۲)۔ کسی حقیقت کے انکشاف کی غرض سے بسیط اور محتاط غوروفکر یا کسی مضمون کے مطالعے کے ذریعے تلاش یا چھان بین یا مسلسل مطالعہ دوسری بار یا بار بار کی تلاش ‘‘ (۳)
Merrian websites online dictionaryمیں تحقیق کے بارے میں یوں لکھا ہے۔
’’Research‘‘
1. Caseful or Oiligent Search
2. Studies Inquiry or Eamination
Especially: Investigation or experimentation at the discovery and interpretation of facts, revision of accepted theories or laws in the light of new facts or application of suchy new or revisied theories or lwas. practical
3. The collecting of information
4۔ ’’About a particular subject‘‘ ڈاکٹر عبدالرازق قریشی اس کا ترجمہ اپنی کتاب ’’مبادیات تحقیق‘‘ میں یوں کرتے ہیں،
۱)۔ محتاط یا سرگرم تلاش، گہری جستجو
۲)۔ انہماک وشغف کے ساتھ جستجو یا چھان بین، بالخصوص یا عموماً محققانہ وناقدانہ اور سیر حاصل عمل تحقیق وتفتیش وجستجو جس کا مقصدنئے حقائق کا انکشاف اور ان کی صحیح ومعتبر تاویل اور پھر نئے حقائق کے انکشاف کی روشنی میں مروجہ ومستعملہ حقائق ونتائج۔ نظریات وقوانین پر نظرثانی کرنا یا نظر ثانی کئے ہوئے نتائج کا عمل اطلاق کرنا۔
۳)۔ نیز کسی شخصیت یا مضمون یا کسی قبیل یا زمرے کی کسی دوسری چیز سے متعلق مخصوص چھان بین‘‘
Cambridge Advanced Bearner’s Dictionaryمیں ریسرچ کے متعلق یوں بیان کیا گیا ہے۔
“Research:
Research is a detailed study of a subject, especially in order to discover new informatrion or reach a new understanding” (5)
’’تحقیق خاص طور پر نئی معلومات کی دریافت کرنے یا نئی فہم تک پہنچنے کے لیے ایک موضوع کا تفصیلی مطالعہ ہے‘‘
قاضی عبدالودود تحقیق کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’تحقیق کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے کوشش کامیاب بھی ہوتی ہے اور ناکام بھی حقیقت موجود ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے پاس اس کے دریافت کرنے کے نامکمل ذرائع ہیں‘‘(۷)
مالک رام تحقیق کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔
’’تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ ’’ح ق ق ‘‘ ہے جس کے معنی کھرے کھوٹے کی چھان بین یا کسی بات کی تصدیق کرنا، دوسرے لفظوں میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے علم وادب میں کھرے کو کھوٹے سے، مغز کو چھلکے سے اور حق کو باطل سے الگ کریںانگریزی لفظ ریسرچ (Research)کے بھی یہی معنی اور مقاصد ہیں۔ ‘‘(۸)
ڈاکٹر گیان چند قاضی عبدالودود کی متعین کردہ تعریف کو ناکافی سمجھتے ہوئے کہتے ہیں،
’’اگر حقیقت افشا ہے تو اس کی اصلی شکل کو دیکھنا تحقیق نہیں، کہنا یہ چاہیے جب کسی امر کی اصل شکل پوشیدہ یا مبہم ہو تو اس کی اصلی شکل کو دریافت کرنے کا عمل تحقیق ہے۔‘‘(۹)
کسی بھی حقیقت کو پوشیدہ یا مبہم بنانے میں انسانی زاویہ نگاہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے ایک چیز میں دو مختلف زاویہ نگاہ رکھنے والے افراد کے لیے مختلف حقیقتیں پنہاں ہوسکتی ہیں یا ایک حقیقت ایک زاویے سے صاف اور واضح جب کہ دوسرے زاویے سے مبہم بھی نظر آسکتی ہے۔
نذیر احمد اس بات کو مزید وسعت دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔
’’حقیقت خواہ کسی بھی قسم کی ہو، اس کے سلسلے میں جو کوشش کی جائے وہ تحقیق کی حد میں شامل ہوگی۔ بسااوقات محقق جس نتیجے پر پہنچتا ہے دراصل حقیقت نہیں ہوتی بلکہ محدود ذرائع و وسائل کو محقق کی بناء پر انہیں حقیقت کا نام دینا پڑتا ہے۔ ‘‘(۱۰)
ڈاکٹر سید عبداللہ اپنے مضمون ’’تحقیق وتنقید ‘‘ میں بیان کرتے ہیں،
’’تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت ‘‘ کا اظہار یا اس کا اثبات ہے ۔ اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض محکمات کی روشنی میں پر کھا جاتا ہے۔‘‘ (۱۱)
تحقیق دراصل حقیقت کی تلاش کا نام ہے حقیقت چونکہ اکثر وبیشتر نظروں سے اوجھل ہوتی ہے اس لیے اس کو واضح کرنے کے لیے تحقیق کرنا پڑتی ہے گویا کسی بھی شے کی حقیقت کی تلاش وجستجو تحقیق کہلاتی ہے۔
ڈاکٹر نجم الاسلام نے تحقیق کے متعلق چند انگریزی محققین کی آراء کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ (۱۲)
۱)۔ رسک (Rusk)تحقیق کیا ہے؟ ’’ایک نقطہ نظر اور تفتیش کا اندازیا ذہین کا ایک طریقہ کار ۔ یہ وہ سوالات اٹھاتی ہے جو ابھی تک نہ اٹھائے گئے ہوں اور ایک خاص متعین طریق کار کے ساتھ ان کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہے ۔ یہ صرف نظریہ سازی نہیں بلکہ ایک کوشش ہے حقائق کے استخراج کی اور جب وہ یکجا کرلیے گئے ہوں تو مجتمع شکل میں ان کا سامنا کرنے کی‘‘
(Rusk, Robert R. Research in Education London, University of London Press, 1932.)
۲)۔ اسمتھ (Smith)’’تحقیق شامل ہے محتاط اور ناقدانہ تلاش وتفتیش اور جانچ پڑتال پرکھ کو جو حقائق یا اصولوں کی تلاش میں کی جائے نیز محنت اور تسلسل کے ساتھ کی ہوئی کھوج کو سچائی کو پالینے کی تلاش میں کی جائے‘‘
)Smith, Henry Lester Education principal and practices bloomingtonin. Educational Publisher 1944)
۳)۔وھٹنے (Whitney)’’تحقیق سوچ وبچار کا ایک منضبط طریق کار ہے جو مخصوص آلات یا طریق عمل سے کام لے کر کسی مسئلے کا ایک مناسب حل نکالتی ہے جو معمولاتی ذریعوں سے حاصل نہ ہو یہ کسی مسئلے سے آغاز کرتی ہے حقائق کو جمع کرتی ہے ناقدانہ طور پر اس کا تجزیہ کرتی ہے اور اصل شہادت کی بنیاد پر فیصلوں تک پہنچتی ہے یہ شامل ہے اصل کام کی بجائے اس کے کہ محض شخصی رائے کا بوجھ ڈالا جائے یہ جاننے اور سمجھنے کی حقیقی خواہش سے پھوٹتی ہے از کہ ثابت کرنے کی خواہش سے ‘‘ ایک اور موقع پر وھٹنے (Whitney)کا تحقیق کے متعلق کہنا یہ ہے کہ ’’تحقیق ایمانداری ، جامعیت اور ذہانت کے ساتھ کی جانے والی کھوج ہے جو حقائق کے لیے اور کسی پیش نظر مسئلے کے حوالے سے ان کے معانی ومفاہیم پر اثرانداز ہونے والے نتائج کے لیے کی جاتی ہے کسی تحقیق کام کے نتائج کو اس مطالعاتی میدان میں مستند قابل ِتوثیق اضافہ ہونا چاہے‘‘
(Whitney, Frederick Lawson, The element of research New York: Pentice Hall, 1950)
۴)۔کرافورڈ (Crwaford)’’تحقیق کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسے مسائل کے مطالعے کا طریقہ ہے جن کے مرحلوں کا استخراج ، جزوی یا کلی طور سے ، حقائق سے کیا جاتا ہو۔‘‘
)Crawford, cc: The technique ow research in education- Los Angeless, University of Southern California 1927)
۵)۔ فشر (Fisher)’’ارباب تحقیق وہ ہنر مند ہیں جو اپنی دلچسپی کے ایک موضوع پر کام کرکے ، تحقیق نتائج تک پہنچنے کے لیے بہترین دستیاب وآلات ووسائل کا انتخاب کرتے ہیں۔‘‘
)Fisher, Ronaled 5: Social physhology an applied, Approach: Nw York, 5 Martins Press, 1982)
۶)۔ پال (Paul)’’تحقیق کیا ہے؟ ایک منظم ومربوط تلاش غیر منکشف حقائق کی ایک انداز کی، جس کے ذریعے لوگ مسائل کی گھتیاں سلجھاتے ہیں اور کوشاں رہتے ہیں کہ انسانی جہت وناواقفیت کی سرحدیں پیچھے دھکیل دیں،
(Paul D leedy practical research, planning design New York Macmillan Publishing Co. Inc 3rd ed. 1985 London, University of London Press)
۷)۔چارٹرس(Charters)
’’تحقیق میں دو خصوصیات لازمی ہیں ایک مسئلہ جو ذریعے سے منتخب کیا گیا ہو دوسرے یہ کہ عالمانہ طریقے اور محتاط طور پر اس کا حال پالیا گیا ہو۔‘‘
(Charters ww. pure research and prctical research journal of education research, xii, No. sep 1925)
۸)۔ گڈ اور سیکٹس (Good & Scates)
’’تحقیق شامل ہے مسئلے کے تعین میں قابل لحاظ حد تک احتیاط کو اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے بہترین طریقوں کے طے کرنے کو اور اس میں ہمیشہ ندرت یا نئے پن کا ایک عنصر ہوتا ہے۔
)Good, Carter v. and Douglas.E. Scates: Methods of research, New York Appleton Century Crofts 1954)
تحقیق کا مترادف انگریزی لفظ ریسرچ (research)لیا جاتا ہے جس سے مراد دوبارہ تلاش کرنا ہے۔ تحقیق کا مادہ ’’ح ق ق ‘‘ ہے حق سے مراد حصہ بھی لیا جاتا ہے انگریزی میں اس کا مترادف (right)ہے ایسا فعل چیز یا نظریہ جو حق (right)پر مبنی ہو پیش کرنا تحقیق کہلائے گا، اس سے مراد حق کی تلاش بھی لی جاتی ہے حق جو معلوم ہے یا نہیں لیکن وہ موجود ہے اگر انگریزی لفظ (research)کو دیکھا جائے تو اس کے معنی بھی دوبارہ کھوج کے ہیں کوئی ایسی شے تلاش کرنا جو موجود ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہے لفظ تحقیق کے لیے فی الوقت research سے بہتر مترادف موجود نہیں ہے۔
ڈاکٹر گیان چند کی متعین کردہ تعریف تحقیق کے عقدے کو بہت حد تک واکر دیتی ہے وہ رقم طراز ہیں،
’’ریسرچ research ایک حقیت پنہاں یا حقیقت مبہم کو افشا کرنے کا منضبط عمل ہے اور اسی تعریف سے تحقیق کا مقصد اولیٰ بھی صاف و شفاف ہو جاتا ہے نامعلوم یا کم معلوم کو جاننا یعنی جو حقائق ہماری نظروں سے اوجھل ہیں انہیں کھوجنا، جو سامنے تو ہیں لیکن دھندلے ہیں ان کی دھند دور کرکے انہیں آئینہ کر دینا ۔‘‘ (۱۳)
گو یا ہم اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کہ تحقیق ایک ایسے طرز فکر کا نا م ہے جو منظم اور سائنسی طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے مخصوص میدانوں میں پیش نظر مسائل کا حل تلاش کرتی ہے یا اٹھائے گئے سوالوں کا جواب پیش کرتی ہے۔
تحقیق کی اہمیت وضرورت
ادبی اصطلاح میں تحقیق ادب کی معتبر وباوقار افہام وتفہیم ہے یعنی تحقیق کی بدولت کسی ’’فن پارے‘‘ کی حیثیت اور اس کے عہد کا تعین اجاگر ہوتا ہے اس کے محاسن ومعائب پرکھے جاتے ہیں۔
تحقیق حق کی تلاش کا دوسرا نام ہے تحقیق ایک موزوں ، متوازن اورمگریہ لائحہ عمل ہے تحقیق ایک فن ِ قدیم ہے تحقیق کی اہمیت ہر شعبہ ءِتعلیم میں پائی جاتی ہے موجودہ دور میں تحقیقی عمل کے بغیر ارتقاء وبقا ممکن نہیں۔ بنی نوع انسان کے مسائل کے ابتداء کے ساتھ تحقیق بھی اپنا سفر طے کرتی گئی جیسے جیسے انسانی مسائل فزوں سے فزوں تر ہوتے گئے جنہوں نے گھمبیر صورت اختیار کر لی اور ویسے ویسے تحقیق بھی اپنا سفر طے کرتی گئی۔
تحقیق عمل کے ذریعے انسان نے اپنے مسائل کو حل کرکے اپنی زندگی کو آسان سے آسان تر اور انسان بہتر سے بہترین کی جستجو میں سرگرداں رہا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسائل کے حل کی ضرورت کے پیش نظر ازمنہ ءِقدیم کا ابن آدم درختوں کے پتوں اور کھال پر لکھتا تھا اور اسے زیب تن کرتا تھا جبکہ آج کا انسان دلکش کاغذ پر لکھ رہا ہے اور دل کش ملبوسات کو جسد خاکی کی زینت بنائے ہوئے ہے یوں نسل انسانی کا ارتقاء ممکنات کا حصہ بنا۔ طباعت واشاعت میں نہ صرف خاطر خواہ ترقی ہوئی بلکہ انقلابات کے سماں پیدا ہوئے۔ قدیم چھاپہ خانوں کی جگہ جدید مشینی پرنٹرز نے طباعت کے کاموں میں سرعت کو فروغ دیا یہ سب تہذیبی واقتصادی ترقی کی بدولت ہی ممکن ہو پایا۔
ڈاکٹر تبسم کا شمیری لکھتے ہیں:
’’تحقیق کا کام حال کو بہتر بنانا، مستقبل کو سنوارنا اور ماضی کی تاریکیوں کو روشنی ودیعت کرنا ہے۔‘‘ (۱۴)
بدوں از تحقیق انسانی ترقی کا عمل ممکن نہیں ہے تحقیق ہر شعبہ ءِحیات میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن ادبی میدان میں اس کی اہمیت سے کسی صورت انکار ممکن نہیں۔ تحقیق ادبی نظریات کی گہرائی اور ماخذ تک رسائی میں مددگار ومعاون ثابت ہوتی ہے اس سے حقائق زیادہ واضح اور مکمل ترین صورت میں سامنے آتے ہیں ادب میں بعض ایسے تصورات جنم لیتے ہیں جو غلط، ادھورے اور نامکمل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرازق قریشی اس حوالے سے گویا ہیں:
’’تحقیق نہ صرف شک کو رفع اورابہام کو دور کرتی ہے بلکہ آدمی کے لیے نئی نئی راہیں کھولتی ہے وہ مسائل کو حل کرتی ہے گتھیوں کو سلجھاتی ہے۔اور خامیوں کو دور کرتی اور خوب سے خوب تر بناتی ہے۔‘‘
تحقیق کی بنیاد مطالعہ اور مشاہدہ پر ہوتی ہے تحقیق کسی خیال اور معلومات کو من وعن قبول نہیں کرتی بلکہ وہ خود انہیں دریافت کرتی ہے۔ تحقیق ادبی میدان میں ادیب، شاعر اور نقاد کے کارناموں پر روشنی ڈالتی ہے ان کے ادبی قدوقامت کا تعین کرتی ہے ادیب اور ادب کی قدروقیمت میں اضافے اور استحکام کا باعث بھی تحقیق بنتی ہے۔
تحقیق کے کردار سے ادبی میدان میں کسی صورت انکار ممکن نہیں ہے مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت واہمیت میں دن دگنی رات چگنی اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔ تحقیق کی اسی ضرورت کے پیش نظر اب تحریکات ، نظریات اور رجحانات پر زیادہ کام کیا جارہاہے یہ ایک لحاظ سے مستحسن اقدام ہے کہ وہ ادبی شخصیات جنہوں نے اپنے فکر وفن سے دنیائے ادب میں نہ صرف اپنی شناخت قائم کی ہے بلکہ اسے نئے ادبی زاویوں اور رویوں نیز انسانیت کو علوئے فکر سے روشناس کرایا جس سے نہ صرف عوام الناس اور قارئین علم وادب ان کی ادبی خدمات اور تصانیف سے واقف ہوں گے بلکہ ادب کے بدلتے ہوئے رجحانات بھی عیاں ہو جائیں گے مزیدبرآں اکتسابِ فیض کے نئے امکانات روشن ہوں گے ۔
دنیائے علوم میں تخلیق وتنقید کی طرح تحقیق کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ روز بروز تحقیق ادب کی ضرورت واہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تحقیق کی ضرورت مذکورہ کے پیش نظر ایک ایسی شخصیت کو تحقیق کے دائرہ میں شامل کیا گیا جن کی فکر ونظر کے بعض اثرات و نقوش ادب میں ان کی موجودگی واہمیت کا حامل بنا دیتے ہیں اسی ضرورت کے پیش نظر میں نے ’’شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری‘‘ ابوالبیان ظہور احمد فاؔتح کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں، کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔
شبیر ناقدؔ تنقید نگار، شاعر ، ادیب ، محقق اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل شخص ہیں۔ ادب میں ان کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔
شبیر ناقدؔ کا نام تنقید کی دنیا میں نیا نہیں ہے تاہم اس سے پہلے ان پر کوئی بھی تحقیقی کام نہیں ہوا۔ میں نے اپنے اس تحقیقی مقالے میں ان کا تعارف بطور تنقید نگار کروایا ہے۔ شبیر ناقدؔ ایک عمدہ شاعر، سکہ بند نقاد اور ادیب ہیں ان تمام اصناف میں ان کی شخصیت ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ انہوں نے خود کو صرف کتابوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اخبارات و جرائد میں بھی لکھتے رہے ہیں ہنوز بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
شبیر ناقدؔـ نے اپنی ذہانت اور بصیرت سے اردو ادب کے میدان کو زرخیرز کیا ہے اور ایک تنقید نگار کی حیثیت سے ہماری زندگی کے مختلف چھوٹے بڑے پہلوئوں کو اپنے موضوعات کا حصہ بنایا ہے ان موضوعات کا دائرہ بہت وسیع وعریض ہے جن میں معاشرتی ، سماجی اور نفسیاتی قریباً ہر نوع کے موضوعات و معاملات کا حصہ ہیں۔
اس مقالے میں شیبر ناقِدؔکی شخصیت کو بطور تنقید نگار کے منفرد اورا ہم پہلوئوں کو سامنے لایا جائے گا ان کی ذہنی فکر اور سوچ کی گہرائی کو واضح کرکے ان کے خیالات تک ان کی حیثیت کو اجاگر کرنے کی سعی وجمیل کی جائے گی۔
شبیر ناقِدؔکسی خاص نقطہ نظر کی اندھا دھند تقلید کے قائل نہیں انہوں نے جس بھی موضوع پر خامہ فرسائی کی وہ ان کی حقیقت پسندی اور غیرجانبداری کا ترجمان ہے مذکورہ خصوصیات کسی بھی نقاد کے اوصاف جمیلہ کا جزولاینفک ہوتی ہیں۔
’’شبیر ناقدـؔ کی تنقیدی نگاری ابوالبیان ظہور احمد فاؔتح کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں‘‘ مقالے میں نہ صرف ادب کے طلباء اور تنقید کے قارئین کو بھی نہ صرف شبیر ناقِدؔکے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی بلکہ اردو ادب میں تحقیق کی اہمیت بھی واضح ہو جائے گا۔
تحقیق کا دائرہ کار
تحقیق کا علم ایک ایسا تجربہ کرنا ہے جس میں زندگی کے متعلق ہر شعبے سے بحث کی جاتی ہے اس سے مراد ہر شعبے میں جستجو اور تجسس کے ساتھ ساتھ نئی راہوں کو متعین اور ہموار کرنا ہے تحقیق کا عمل دخل تو ہر شعبے میں ملتا ہے لیکن جو زمانہ عملی تحقیق سے زیادہ سروکار رکھکتا ہے اس میں ذیل کے شعبوں میں تحقیق کا عمل زیادہ ترنمایاں ہے۔ سائنس ، تاریخ، سماجی سائنسوں کے دوسرے علوم، ادب کی تاریخی یا عملی تحقیق ہوتی ہے ۔ ادب کی تاریخی ، سائنسی ادبیات میں انسانی کرداروں سے سروکار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر گیان چند نے تحقیق کی دو قسموں میں درجہ بندی کی ہے۔
’’تحقیق کی دو قسمیں خالص یا نظریاتی تحقیق اور اطلاقی تحقیق ہیں۔‘‘ (۱۶)
تحقیق کا یہ فرق فطری علوم میں زیادہ نظر آتا ہے طبعیات میں کچھ محقق نظریاتی Theorical تحقیق کار ہوتے ہیں دوسرے عملی تحقیق سے سروکار رکھتے ہیں۔ سائنس کی اطلاقی تحقیق طب، زراعت اور انجینئرنگ کے شعبے میں نمایاں ہے۔
تاریخ کی اطلاقی تحقیق کا عمدہ مظہر آثار قدیمہ کی کھوج کا عمل ہے میدان تحقیق کو ملحوظ خاطر رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحقیق کی دو اہم ترین قسمیں تجزیاتی اور تاریخی تحقیق ہیں۔
ادبی تحقیق سائنس کی خالص تحقیق (Pure Research)کی طرح غیر اطلاقی سمجھی جاتی ہے اس کا طریقہ زیادہ تر تاریخی اور کچھ حصہ تجزیاتی ہوتا ہے۔
تحقیق کے اطلاقی اور تجزیاتی تحقیق وعمل سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہمیں تحقیق کی دو صورتیں نظر آتی ہیں۔
۱)۔ سندی تحقیق (Scrtified Research)
جس کی تکمیل مخصوص وقت میں کرنا ہوتی ہے اس کا ایک نگران متعین ہوتا ہے جس کی راہنمائی کے بغیر محقق آزاد تحقیق کا کام نہیں کرسکتا محقق کو تحقیقی عمل کرنے کے بعد اس کے کام کو ممتحنوں کی نظر ثانی سے گزرنا پڑتا ہے۔
۲)۔غیرسندی تحقیق (Non Aknowledge Research)
جس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی محقق اپنی منشا کے موضوع پر تحقیقی عمل سے گزرتا ہے تکمیل ہونے پر اسے ممتحنوں کے سامنے سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
تحقیق جو خالص حقائق پر مبنی ہوتی ہے خالص تحقیق کہلاتی ہے دوسری تحقیق جو تنقیدی ہوتی ہے ایک مکمل تحقیق ہوتی ہے جس کے کسی پہلو میں تشنگی نہیں پائی جاتی۔
علم وادب کی تحقیق کا ایک میدان سوانحی اور تاریخی تحقیق بھی ہے اسی میں کسی ادیب یا صنف کے اہم تخلیق کاروں کی تصانیف پر تحقیقی بحث کی جاتی ہے اس کا اندازہ زیادہ تر تاریخی تحقیق سے ملتا جلتا ہے تحقیق کا دائرہ کار بہت وسعت کا حامل ہے اگر علم وادب کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس میں کئی چھوٹے بڑے موضوعات شامل ہوسکتے ہیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں:
۱)۔ کوئی ایک ادیب جس کی تحریروں میں انفرادیت اور اچھوتا انداز ملتا ہو۔
۲)۔ کوئی صنف ادب جس کے نئے تجربات وانقلابی زاویے سامنے آئے ہوں۔
۳)۔ رجحان ، تحریک ، دبستان جن میں ایک مکتبہ فکر کا اتحاد نظر آتا ہو اور سب کے ہاں موضوعاتی مماثلت ہو۔
۴)۔ علاقائی گروہی جائزہ جس میں ایک علاقے یا گروہ سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کی تحاریر اور افکار پر تحقیق کی جاتی ہے۔
۵)۔ کوئی انجمن یا ادارہ جس نے کسی نئے زاویے کی طرف راہنمائی کی ہو یا کوئی نئی روایت سامنے لایا ہو جیسے انجمنِ پنجاب وغیرہ۔
۶)۔ ادبی لسانیات یعنی ادبی زبان کی خوبیاں ، خامیاں اور ادب اور لسانیات کو ملانے والے موضوعات بھی تحقیق کے دائرے میں شامل ہیں۔
تحقیق مختلف موضوعات پر کی جاسکتی ہے ہر شعبے میں تحقیق کی مقتضیات مختلف ہوتی ہیں علمی وادبی تحقیق میں سب سے اہم موضوع کسی شاعر وادیب پر تحقیق ہے کسی بھی ادیب پر تحقیق سے پہلے چند باتوں کو مدنظر رکھان ضروری ہے کسی ادیب پر قلم نہ اٹھایا جائے جس کے متعلق ہم آزادی سے تحقیق کرنے کے بعد ہم آزادی سے لکھنے کی جسارت نہ رکھتے ہوں یا اس شخصیت پر پہلے تحقیقی کام نہ ہوا ہو اور ان کی تصانیف میں کسی خاص میدان کی نمائندگی ملتی ہو۔ل
کسی بھی شخص پر تحقیق کرتے وقت اس کے حالات زندگی کو ضرور دیکھا جائے لیکن معاشرتی وتہذیبی وتمدنی رجحانات کو نمایاں مقام دینا ضروری نہیں ہوتا۔ کسی بھی اہل ادب پر تحقیق کرتے ہوئے ان کے عوامل کا جائزہ لینا بھی انتہائی ناگزیر ہے جس سے ادیب کی ذات اور فن تاثر پذیر ہوتا ہے کسی بھی ادب سے وابستہ شخصیت کو زیر تحقیق لاتے ہوئے درج ذیل باتوں کا خصوصی خیال رکھا جاتاہے۔
۱)۔ ادیب کی صحیح سوانح کی تشخیص وتشکیل کرنا۔
۲)۔ ادیب کی حقیقی قلمی تصویر کشی کرنا۔
۳)۔ ادیب کی تصانیف وتخلیقات کی زبانی ومکانی ترتیب۔
۴)۔ تخلیقات کا تنقیدی وتحقیقی جائزہ۔
ادیب پر تحقیق کرتے وقت اس کے حالات زندگی شخصیت اور تصانیف وغیرہ سے خاص طور پر مدد لی جائے گی۔
مقالہ ھذا میں ’’شبیر نقاد کی تنقید نگاری ابولیبان ظہور احمد فاؔتح کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں ‘‘ میں بھی اس کا خاص خیال رکھا گیا ہےکہ اس تحقیق کا مطمع نظر صرف شبیر ناقِدؔکی ادبی شخصیت کو اجاگر کرنا ہے اور ان کی شخصٰت کے ہمہ جہت پہلو کو سامنے لانا بھی میری ترجیحات کا حصہ ہے اور ان کی تصانیف کے گلہائے نمایاں کو قارئیں کے سامنے لانا مقصود ہے۔
تحقیق کا طریقہ کار
کسی بھی معاملے پر تحقیق کرنے کے لیے مواد کے دستیابی ذرائع کی تحقیق کرنا کہ وہ کس حد تک معتبر اور باوثوق ہے ایک محقق کے فرائض منصبی میں شامل ہے تحقیقی مواد کی جانچ پڑتال اور پرکھ کا عمل انتہائی وقت طلب ہوتا ہے علمی وادبی اور لسانی تحقیق کے لیے سب سے بہترین ذریعہ دستاویزی ہوتا ہے تحقیق کار کو اپنے موضوع سے متعلق مواد کی جانکاری ہونی چاہیے۔
مواد کی فراہمی کا سب سے بہترین اور اہم ذریعہ مختلف سرکاری ونجی اداروں کی لائبریاں ، پبلک لائبریریز اور اخبارات وجرائد ہیں۔ دوسرا اہم ذریعہ عوامی رابطے ہیں جو مواد کے حصول اور تحقیق میں بہت موثر ثابت ہوتے ہیں بعض اوقات روایات اور واقعات کی تصدیق صرف عوام کے ذریعے ہوتی ہے ان دونوں قسموں کو Paper Sourceاور People Sourceکہا جاتا ہے۔
اردو ادب کے موجودہ دور میں جتنا مواد دستیاب ہے اسی سے کئی گنا مواد گوشہ گمنامی میں ہے جس کی کھوج لگانے کا طریقہ کار تحقیقی صداقت کی دلیل فراہم کرنا ہے ماخذ کو مواد بھی کہتے ہیں ماخذ سے مراد وہ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مواد سے حاصل شدہ نتائج ہیں جس کے اخذ واستفادے کی بدولت تحقیق کار اپنے موضوع سے متعلق نتائج حاصل کرکے اپنی تحقیق کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے چونکہ مواد ہی تحقیق کار کے غور وفکر کی بنیاد بنتا ہے اس لیے اس کی فراہمی بہت ہی ضروری ہے لہٰذا سب سے پہلے ان تصانیف کو تلاش کرنا ہوگا جو تحقیق کار کے موضوع تحقیق کے متعلق بنیادی حیثیت کی حامل ہوں گی بنیادی مواد کی اہمیت اس لیے مسلمہ ومصدقہ ہے کیونکہ اس سے محقق کو مزید مطلوبہ مواد کے اشاریے ملتے ہیں ۔ جب ایک محقق کے پاس بنیادی مواد موجود ہوگا تو اس پر بسیط تحقیقی عمل کے بعد محقق پر یہ انکشاف ہوگا کہ مزید برآں اسے کس نوعیت کا مواد درکار ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عندلیب شادانی اپنے مقالے میں تحریر کرتے ہیں،
’’ریسرچ (Research)کا دارومدار ماخذات ومراجع پر ہی ہوتا ہے اس لیے ہر نوع کے ماخذات ومصادر کی ایک مفصل ومجمل فہرست تیار کرلینی چاہیے۔‘‘(۱۷)
ادبی مواد متعدد انواع واقسام سے عبارت ہوتا ہے جس کی نوعیات کی اقسام بندی کی جاتی ہے۔
۱)۔ اولین (Primary)اور ثانوی (Secondary)ماخذ
۲)۔ داخلی اور خارجی ماخذ۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اس کی تقسیم کچھ اس طرح کرتے ہیں:
الف۔’’بنیادی ماخذ (Primary Sources)کسی بھی موضوع سے متعلق براہ رست معلومات فراہم کرنے والی کتب، مقاملات،
روزنامچہ ، دستاویزات، مخطوطات اور خطبات وغیرہ مثلاً ایک واقعہ کے عینی شاہد کا بیان ، خواہ تحریر کی شکل میں ہو یا تقرری صورت میں، اس واقع سے متعلق تحقیق کا بنیادی ماخذ کہلائے گا۔ بنیادی ماخذ کو مصادر بھی کہتے ہیں۔‘‘
ب۔ ’’ثانوی ماخذ (Secondary Sources)کسی بھی موضوع سے متعلق بالواسطہ معلومات فراہم کرنے والی کتب، مقالات اور دیگر تحریریں جن میں بنیادی ماخذ سے استفادہ کرکے لکھی جانے والی تحریریں اور تراجم وغیرہ بھی شامل ہیں۔ایسی تحریروں کو مراجع بھی کہا جاتا ہے۔‘‘(۱۸)
ان دونوں اقسام کا اطلاق زیادہ تر کسی شاعر ونقاد وادیب پر تحقیق کرنے کی صورت میں ہوتا ہے اولین مواد نہ ہر تحقیق ادیب کی تصنیفات اور دوسری تحریروں مثلاً مسودوں، ڈائریوں، خطوط، ذاتی لائبریری، اس کے اہل خانہ اور اس سے متعلق لکھنے والی شخصیات وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے ان کے علاوہ تاریخی دستاویزات ، قانونی دستاویزات، طبی ریکارڈ، تعلیمی ریکارڈ اور ملازمت کا ریکارڈوغیرہ بھی اولین ماخذ ہیں ۔ بقیہ مواد ثانوی کہلائے گا۔
سید جمیل احمد رضوی اپنے مقالے میں یوں رقم طراز ہیں،
’’بنیادی ماخذ کے بارے میں یہ وہ دستاویزات ہوتی ہیں ۔ جن میں ان واقعات وغیرہ کا ریکارڈ ہوتا ہے جن کو مصنف نے خود دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا یعنی بنیادی مصادر میں چشم دید شہادت موجود ہوتی ہے جو تاریخی معقولیت اور قدروقیمت بڑھا دیتی ہے۔(ثانوی ماخذ کے بارے میں ) وہ ریکارڈ ہوتے ہیں جنہیں فرد یا افراد یا ادارے مرتب کرتے ہیں جو خود واقعہ میں شریک نہیں ہوتے یا جنہوں نے خود اس واقعے کا مشاہدہ نہیں کیا ہوتا۔‘‘(۱۹)
داخلی اور خارجی مواد یا شہادت کا تعلق کسی متن سے ہوتا ہے ادبی تحریروں کے علاوہ بعض اوقات غیر ادبی تحریروں میں بھی ادیبوں کے بارے میں مفید معلومات میسر آجاتی ہیں۔
ماخذ مواد کو ڈاکٹر گیان چند نے کچھ یوں تقسیم کیا ہے۔
۱۔ کتابیں جن کی دو قسمیں ہیں:’’مطبوعہ‘‘ ، ’’ قلمی یا خطی ‘‘
ان میں ادبی مخطوطات کے علاوہ مسودے، ڈائریان، میونسپل رجسٹر وغیرہ بھی شامل ہیں۔
۲۔ جرائد اور ان کے علاوہ اخبار بھی شامل ہیں۔
۳۔ دوسرے کاغذات جن میں کسی مصنف کے ۔۔۔کاغذات ، خطوط، تاریخی دستاویزات، قانونی دستاویزات بشمول مقدمے کی نقل ، وصیت نامے، بیع نامے، زائچے، درسگاہوں میں داخلے اور امتحان کے فارم ، ملازمت سے متعلق ریکارڈ،انکم ٹیکس ریکارڈ، طبی ریکارڈ، پاسپورٹ ، راشن کارڈ اور گاڑی چلانے کا لائسنس وغیرہ۔
۴۔ بصری مواد یعنی فلم ، ٹیلی ویژن اور فوٹو البم وغیرہ۔
۵۔ مائیکروفلم ، جس کے مواد کو (Micro Graphics)کہا جاتا ہے۔
۶۔ سمعی مواد ، ریکارڈ یعنی کیسٹ (Cassette) ریڈیو کے ادبی پروگرام یعنی تقریریں ، مباحث وغیرہ۔
۷۔ لوحیں، قبروں کے تعویز ، دیواروں پر لوحیں، قبروں کے گنبد اور دروازوں پر نقوش وغیرہ۔
۸۔ ملاقات (انٹرویو)
۹۔ مراسلت کے ذریعے استفسار، سوال نامے‘‘ (۲۰)
اس مقالے میں ’’شبیر ناقِدؔکی تنقید نگاری ابوالبیان ظہور احمد فاؔتح کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں ‘‘ میں ان دونوں ماخذات سے مدد لی گئی ہے۔
بنیادی ماخذات میں شبیر ناقِدؔکی تصانیف سے خصوصی مدد لی گئی ہے جن میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں۔
بنیادی ماخذ:
1۔ صلیب شعور غزلیات و نظمیات
2۔ آہنگ خاطر غزلیات، نظمیات، گیت، قطعات
3۔ من دی مسجد سرائیکی شاعری
4۔ جادہ فکر غزلیات و نظمیات
5۔ ابوالیبان ظہور احمد فاؔتح کا کیفِ غزل تحقیق و تنقید
6۔شاعراتِ ارضِ پاک حصہ اول
7۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ دوم
8۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ سوم
9۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ چہارم
10۔ نقدفن تنقیدی مضامین
11۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ پنجم
12۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ ششم
13۔ صبح کاوش غزلیات و نظمیات
14۔ کتاب وفا مجموعہءِ غزل
15۔ دل سے دور نہیں ہو تم غزلیات و نظمیات
16۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ ہفتم
17۔ شاعراتِ ارضِ پاک جامع ایڈیشن حصہ اول
18۔ ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ کا منشور نظم تحقیق و تنقید
19۔ روح دی روہی سرائیکی شاعری
20۔ گنج آگہی مجموعہءِ غزل
21۔ جہانِ عقل و جنوں غزلیات و نظمیات
22۔زادِ سخن اُردو شاعری
23۔ میزانِ تنقید تنقیدی مضامین
24۔ تنقیدات تنقیدی مضامین
25۔ حسنِ خیال اُردو شاعری
26۔ رتجگوں کا سفر اردو شاعری
27۔ طرزِ بیاں اردو شاعری
28۔ سفر نامہ نگاری کے انتقادی امکانات تنقیدی مضامین
29۔ شاعراتِ ارضِ پاک (جامع ایڈیشن) حصہ دوم
30۔ تلمیحاتِ فضا اعظمیؔ نقد و نظر
31۔ عکاسِ احساس اردو شاعری
32۔ نقدِ فکر و نظر اردو شاعری
33۔ ریاضِ دانش اُردو شاعری
34۔ فضا اعظمیؔ کی شاعری (تلمیحات کے آئینے میں) تنقید
35۔ ضیافتِ اطفال بچوں کیلئے نظمیں
(۲)۔شبیر ناقِدؔسے بنفس نفیس ملاقات کی گئی ان کا انٹرویو لیا گیا۔ جس سے احوال واثار کے مرتب کرنے میں بہت آسانی رہی۔
(۳)۔شبیر ناقِدؔکی خطوط اور اخبارات کو دیئے گئے انٹرویوز سے بھی مدد لی گئی۔
(۴)۔ادب میں تنقید اور دوسرے تنقید نگاروں کی تصانیف سے بھی استفادہ کیا گیا جس کے ماخذات ومراجع حوالہ جات کا حصہ ہیں۔
ثانوی ماخذ:
(۱)۔ شبیر ناقِدؔکی تنقیدی نکاری ابوالبیان ظہور احمد فاؔتح کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں‘‘ مقالے کے لیے بنیادی ماخذات کے ساتھ ساتھ ثانوی ماخذات سے بھی بھر پور استفادہ کی سعی جمیل کی گئی ہے تاکہ تحقیقی اعتبار سے کہیں بھی ممدوح مذکور کے تنقیدی کام کے حوالے سے تشنگی کا احساس نہ رہے۔
(۲)۔شبیر ناقِدؔکے احباب جن میں معاصر شعراء، ادباء، ناقدین اور اہل ذوق قارئین سے رابطہ کیا گیا جن میں معدود چند کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
(۱) ۔ ابوالبیان ظہور احمد فاؔتح ، جنہیں ان کے اموذ گار ادب ہونے کا امتیاز وشرف حاصل ہے ادبی حوالے سے ان کی حیثیت شاعر، ہفت زبان اور استاد الشعراء کی ہے شعری حوالے کے علاوہ وہ ایک منضبط ادیب کے خصائص کے حامل بھی ہے۔
(۲)۔ شاعر علی شاعرؔ جو ایک شاعر وادیب کی حیثیت سے جانے اور پہنچانے جاتے ہیں جن کے ادارے’’رنگِ ادب پبلیکیشن‘‘ کو شبیر ناقِدؔکی بیشتر تنقیدی کتب کو زیورؐ طباعت سے آراستہ و پیراستہ کرنے کا اعزاز وافتخار حاصل ہے۔
(۳)۔ شبیر ناقِدؔکے ہمعصر اہل ادب میں جسارت خیالی (شاعر وادیب)، ناصر ملک (شاعر، افسانہ نویس، ناول نگار) ، سعید الظفر صدیقی (شاعر وادیب) ، صابر ظفر (شاعر وادیب)، ڈاکٹر اختر ہاشمی (شاعر ونقاد) وغیرہ اور دیگر قریبی ادب دوست احباب شامل ہیں جن سے معلومات لی گئیں تاکہ تحقیقی مواد کو ایک اعتباری صورت میسر آئے جو راقم الحرورف (مقالہ نگار) کی اولین ترجیح اور طمانیت قلب وخرد کا سامان ہے۔
(۳)۔شبیر ناقِدؔکے متعلق جو تحریریں یا مقالے لکھے گئے ان سے بھی استفادہ کیا گیا نیز ان کی تخلیقات میں موجود ان کی شخصیت اور فن سے متعلق پرچھائیوں کو ضبط تحریر میں لایا گیا۔
(۴)۔شبیر ناقِدؔکی شخصیت کے جو خاکے لکھئے گئے ان کو بھی شامل تحقیق کیا گیا۔
(۵)۔مختلف نامور ادیبوں اور تنقید نگاروں نے جو شبیر ناقِدؔکے متعلق آراء پیش کی ہیں ان کو بھی اس مقالے کے مشمولات کا حصہ بنایا گیا تاکہ مقالہ ھذا کو ایک مکمل اور جامع تحقیقی حیثیت حاصل ہو۔
(۶)۔ادبی اخبارات ورسائل کے مواد سے بھی معاونت حاصل کی گئی ہے۔
حواشی
۱۔ سید احمد دہلوی، مولوی ، فرہنگ آصیفہ، جلد اول، لاہور، مرکزی اردو بورڈ ص: 595
۲۔ فروزالدین ، مولوی، فروز اللغات اردو جامع، لاہور، فروز سنٹر، ص312
۳۔ A new english dictionary on historical principal
۴۔ www.webstarsonlinedictionary
۵۔Cambridge Advanced Leaener 5 dictionary (Cambridge University Press), p.1061
۶۔ www.encarta.com
۷۔ عبدالودود قاضی ، اصول تحقیق، مسئولہ، تحقیق وتدوین ، جلد اول مرتبہ: محمد ہاشم سید علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،1978ص: 36
۸۔ مالک رام، ’’اردو میں تحقیق‘‘، مسئولہ ، ’’اردو میں اصول تحقیق‘‘، جلد دوم، مرتبہ: ایم سلطانہ بخش، ڈاکٹر ، اسلام آباد مقتدرہ قومی زبان طبع دوم، 2001ء، ص:80
۹۔ گیان چند ڈاکٹر، ’’تحقیق کا فن‘‘، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان طبع دوم، 2002ء ، ص:10
۱۰۔ نذیر احمد ،’’ تاریخی تحقیق کے بعض مسائل‘‘مسئولہ تحقیق وتدوین، جلد اول ، مرتبہ: محمد ہاشم سید ، علی گڑھ شعبہ اردو،مسلم یونیورسٹی ، 1978، ص:52
۱۱۔ عبداللہ ، ڈاکٹر سید، مباحث، لاہور، مجلس ترقی ادب، فروری 1965ء ، ص:365
۱۲۔ نجم الاسلام ، ڈاکٹر ، تحقیق کی چند تعریفات ، مسئولہ تحقیق شناسی مرتبہ: رفاقت علی شاہد، لاہور : القمر انٹرپرائزز 2003ء ، ص:27
۱۳۔ گیان چند ، ڈاکٹر، ’’تحقیق کا فن ‘‘، اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان طبع دوم ، ص:13
۱۴۔ تبسم کاشمیری ، ڈاکٹر، ’’ادبی تحقیق کے اصول‘‘، اسلام آباد ، مقتدرہ قومی زبان 1992ء، ص:20
۱۵۔ ایضاء ،ص:24 ۱۶۔ ایضاء، ص:48
۱۷۔ عبدالودو قاضی، ’’اصول تحقیق‘‘ مسئولہ تحقیق وتدوین ، جلد اول، مرتبہ: محمد ہاشم سید علی گڑھ، مسلم یونیورسٹی، 1978،ص:40 ۱۸۔ ایضاء، ص:59