(Last Updated On: )
خاندانی پس منظر:
احمد عطاؔاللہ جن کا اصل نام عطاؔ اللہ عطاؔ ہے۔ جب کہ ادبی حلقوں میں آپ کی شناخت احمد عطاؔ اللہ کے قلمی نام سے ہے آپ کے آبائو اجداد مقبوضہ کشمیر کے علاقے لولاب سے تھے۔ آپ کے دادا مولانا محمد یوسف مشہور عالمِ دین تھے۔ کشمیرکے معروف عالمِ دین مولانا انور شاہ کشمیری آپ کے دادا کے اَستاد، اور قریبی دوستوں میں تھے۔ احمد عطاءؔ اللہ کے دادا ۱۹۴۷ء میں جب لولاب سے ہجرت کر کے وادیٔ نیلم کے راستے مظفر آباد پہنچے تو مظفر آباد میں امبور کے مقام پر سکونت اختیار کی۔ اس حوالے سے احمد عطاءؔ اللہ اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں:
’’میرے دادا مقبوضہ کشمیر کی وادی لولاب سے ۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے مظفرآباد میں آکر امبور کے مقام پر آباد ہوئے ۔ جس وقت میرے دادا نے ہجرت کی اس وقت میرے والدکم سن تھے۔ مظفر آباد سے ۱۹۵۹ء میں والد صاحب لاہور منتقل ہو گئے اور میری پیدائش بھی لاہور میں ہی ہوئی۔‘‘(۱)
آپ کی ننھیال وادی نیلم سے ہے۔ وادی نیلم کے سرداری ،نکرو اور سنڈھاس خاندان میں آپ کی رشتہ داریاں ہیں۔ مسلک کے اعتبار سے احمد عطاءؔ اللہ کا خاندان دیوبندی ہے۔ مذہبی ہونے کی وجہ سے احمد عطاءؔ اللہ کا خاندان شاعری کو کچھ اچھا خیال نہیں کرتا۔ پچاس کی دہائی میں احمد عطاءؔ اللہ کے والد ثنا اللہ بہ سلسلۂ تعلیم اور روزگار لاہور منتقل ہوئے۔ جہاں انھوںنے ہومیو پیتھی فارمیسی کو ذریعۂ معاش بنایا اور تاحال لاہور میں اس پیشے سے وابستہ ہیں۔
پیدائش:
احمد عطاءؔ اللہ کی پیدائش لاہور ہی میں ۱۰ اپریل ۱۹۶۵ء کو ہوئی۔ آپ کی پیدائش کے حوالے سے احمد عطاءؔ اللہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
’’ایک دن میرے تایا جان اور میرے والد دادا کے پاس بیٹھے گفت گوکر رہے تھے تو دادا نے تایا کومخاطب کر کے کہا کہ تمھارے سات بیٹے ہوںگے۔ لیکن وہ ساتوں نافرمان ہوں گے۔ جب کہ میرے والد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر گویا ہوئے ثنا اللہ کا ایک لڑکا ہو گا اور وہ حد سے زیادہ تابع فرماں ہو گا۔‘‘(۲)
آپ کے دادا کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور ایسا ہی ہوا ۔ احمد عطاءؔ اللہ اپنی چار بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں اور سب سے بڑے ہیں۔ احمد عطااللہ لاہور میں پیدا ہوئے اور اپنا بچپن لاہور میں ہی گزارا۔ آپ نے تعلیم بھی لاہور ہی میں مکمل کی ۔ احمد عطاءؔ اللہ نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ سے حاصل کی اور اسی ادارے سے۱۹۸۰ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسلامیہ ہائی اسکول میں ہی آپ نے اپنی ادبی سرگرمیوں آغاز کیا اور خداداد صلاحیتوں کی بدولت بزمِ ادب میں باقاعدگی سے حصہ لیتے رہے۔ جہاں آپ پیروڈی کرنے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ اس حوالے سے آپ بتاتے ہیں۔
’’پرائمری تعلیم کے دوران میں ہی میں نے ادبی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۷ء کے سیاسی جلسوں میں سیاسی حوالے سے کی گئی پیروڈیز پڑھتا رہا۔ ‘‘(۳)
میڑک کی تعلیم کے بعد احمد عطاءؔ اللہ نے کئی سال تعلیم سے کنارہ کشی اختیارکی۔ یہ عرصہ تقریباً تین سال کو محیط ہے۔ اس دوران میں آپ نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا جہاں فلم اسکرپٹ اور ڈائیلاگ لکھنے لگے۔ اس کی وجہ آپ یہ بتاتے ہیں:
’’اسکول کے زمانے میں فلم سٹار رنگیلا کا برادرِ نسبتی میرا ہم جماعت تھا۔ جس کے ساتھ اکثر شاہ نور اسٹوڈیو جانا ہوتا۔ میڑک کے بعد اس طرف دل چسپی ہوئی اور تعلیم کو چھوڑ کر اس طرف آگیا۔ ‘‘(۴)
۱۹۸۳ء تک آپ نے یہ کام جاری رکھا لیکن ابھی علم کی تِشنگی آپ میں باقی تھی۔ اسی پیاس کو بجھانے کے لیے دوبارہ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں انٹرمیڈیٹ کا داخلہ لیا اور ۱۹۸۵ء میں انٹرمیڈیٹ کی ڈگری مکمل کی۔ جس کے بعد آپ کا یہ سفر جاری رہا اور بی۔ اے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے کی غرض سے پہنچے۔ چوں کہ انٹر میڈیٹ میں آپ کے نمبرزبہت کم تھے اور گورنمنٹ کا لج کا میرٹ زیادہ بنتا تھا، اس کے ساتھ ساتھ آپ کی ڈگری میں بھی تین سال کا فرق تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر پرنسپل نے آپ کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن آپ کے اندر کے مقرر نے آپ کو داخلہ دلوانے میں مدد فراہم کی۔ اس واقعے کو احمد عطاءؔ اللہ یوں بتاتے ہیں:
’’جب میں بی۔اے میں داخلے کے لیے گیا تو گورنمنٹ کالج کے پرنسپل نے مجھ سے تین سال کی تاخیر کاسبب پوچھا ۔ جس کے جواب میں ، میں نے بتایا کہ تین سال میں نے آوارہ گردی کی۔ جس پر پرنسپل نے سوال کیا۔ اگر میں تمھیں داخلہ نہ دوں تو؟جس کا جواب میں نے یوں دیا کہ پھر آوارہ گردی کروں گا۔ جس پر مجھے پرنسپل نے مسکرا کر داخلہ دے دیا۔ ‘‘(۵)
گورنمنٹ کالج کا ادبی ماحول احمد عطاءؔ اللہ کو راس آگیا اور یہاں آپ کے اندر کے شاعر نے سر اُٹھایا اور آپ عطاءؔ اللہ عطا، سے احمد عطاءؔ اللہ بن گئے۔ ۱۹۸۷ء میں گریجوایشن کرنے کے بعد آپ نے اسی ادارے سے ایم اے اردو زبان وادب کیا اور ۱۹۸۹ء میں ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں آنے تک احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری صرف اپنے لیے تھی ۔آپ جو لکھتے وہ ضائع کر دیتے لیکن اس ادارے نے آپ کو باقاعدہ شعری ماحول فراہم کرتے ہوئے شاعر بنادیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں آپ کی ملاقات اردو ادب کے نا م وَر لوگوں سے ہوئی۔ جس سے آپ کی خوبیاں نکھر کرسامنے آئیں۔ ان لوگوں میں اہم نام عباس تابشؔ کا ہے جو آپ سے سینئر طالب علم تھے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں سے آپ فیض یاب ہوئے ان میں ڈاکٹر اجمل نیازی، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر سید معین الرحمن،ڈاکٹر صدیق جاوید، محمد آغا یامین، ڈاکٹر خواجا محمد زکریا، حفیظ تائب، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر بدر منیرؔ وغیرہ اہم نام ہیں۔ ان میں عباس تابش ایک ایسا نام ہے جس نے عطاءؔ اللہ عطا کو صحیح معنوں میں شاعر بنایا۔ آپ عباس تابشؔ کے شعری ذوق سے متاثر ہو کر شاعر بنے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں عباس تابش ؔ کا رنگ بالکل بھی نظر نہیں آتا۔ اس بات کو احمد عطاءؔ اللہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’عباس تابشؔ جب ایم ۔اے میں تھے تب میں گریجوایشن کا طالب علم تھا۔ ۱۹۸۵ء کی بات ہے جب ایک دن عباس تابش کچھ دوستوں کے ہم راہ گورنمنٹ کالج میں بیٹھے شعر سنا رہے تھے اور دیگر دوست بھی اپنااپنا کلام سنا رہے تھے۔ جب کہ میں خاموش بیٹھا سن رہا تھا۔ اس دن تک میں نے خود کو کبھی بہ طور شاعر ظاہرنہیں کیا تھا۔ اس دن میں گھر گیا اور شام تک چار غزلیں کِہ ڈالیں۔ یہ غزلیں اگلے دن میں نے عباس تابشؔ کے سامنے اصلاح کے لیے پیش کیں۔ جن کو دیکھ کر تابش نے کہا کہ ان تمام غزلوں کو اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر آپ اجازت دیں تو ان کو احمد ندیم قاسمی کے شمارے ’’فنون‘‘ میں شائع کروا دوں۔ میں نے بہ خوشی اجازت دی اور ’’فنون‘‘ نے بڑے اہتمام کے ساتھ ان غزلوں کو شائع کیا۔ جس کے بعد ظفراؔقبال نے مضمون لکھ ڈالا اور میں بہ طور شاعر ادبی حلقوں میں پہلی بار متعارف ہوا۔ ‘‘(۶)
اس کے علاوہ آپ کے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں آپ کے اَساتذہ نے بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی، پروفیسر اسرار احمد، ڈاکٹر صابر لودھی، اصغر ندیم سید اور ڈاکٹر صدیق جاوید یہ وہ لوگ تھے جو گورنمنٹ کالج میں آپ کی تدریس کرتے رہے۔ اُسی دور میں جب ۱۹۸۵ء میں احمد عطاءؔ اللہ کا نام ادبی حلقوں میں متعارف ہوا تو آپ پاک ٹی ہائوس تک پہنچ گئے۔ جہاں آپ شروع شروع میں عطااللہ عطاؔ اور بعد میں احمدعطا اللہ کے نام سے جانے جانے لگے۔ پاک ٹی ہائوس میں بھی آپ کو اردو ادب کے درخشاں ستاروں کی رفاقت میسر رہی جن میں احمد ندیمؔقاسمی، منیرؔ نیازی، خالدؔ احمد اور ظفرؔاقبال جیسے نام شامل ہیں۔ یہاں سے احمد عطااللہ کی زندگی باقاعدہ شاعر کی سی گزرنے لگی اور آپ کا کلام ملک کے اعلا پایے کے ادبی جرائد میں شائع ہونے لگا۔ اس حوالے سے ہفت روزہ ’’مون کریشنز‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں آپ بتاتے ہیں:
’’۱۹۸۵ء میں جناب احمد ندیم ؔقاسمی کی زیرِ ادارت چھپنے والے رسالے ’’فنون‘ لاہور کے ذریعے ادبی حلقوں میں پہچان ہوئی۔ جس کے بعد مختلف ادبی رسائل ’’تجدید‘‘، ’’ماہ نو‘‘ ،’’ادبِ لطیف‘‘ ، ’’سمبل‘‘، ’’تسطیر ‘‘ وغیرہ میں بھی میرا کلام چھپتا رہا۔ ‘‘(۷)
اس ادبی پہچان کے بعد احمد عطاءؔ اللہ نے ریڈیو پاکستان لاہور سے ۱۹۸۶ء سے۱۹۹۰ء تک کوئز پروگرام بھی کیے جو کہ ادبی نوعیت کے ہوتے تھے۔ جب کہ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سے ’’گفت گو‘‘ کے نام سے ایک ادبی پروگرام کی میزبانی بھی کرتے رہے۔ لیکن اس سلسلے کے فقط’’ ۹‘‘ پروگرامز کرنے کے بعد آپ نے یہ کام اس وجہ چھوڑ دیا کہ آپ دلدار پرویز بھٹی اور طارق عزیز کے ہوتے ہوئے اپنی الگ شناخت نہ بنا پائے۔ آپ کے اندر بلا کی سنجیدگی کے ساتھ ساتھ مزاح کا عنصربھی تھا۔احمد عطاءؔ اللہ ایک ذہین طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیوںمیں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔آپ نے چند مزاحیہ مضامین بھی لکھے جن کی تعداد ’’۸ ‘‘ بتاتے ہیں۔ آپ کے یہ مضامین گورنمنٹ کالج کے مجلے ’’راوی‘‘ میں بہ اہتمام شائع بھی ہوئے۔ لیکن آپ نے مزاح نگاری اس وجہ سے ترک کر دی کہ آپ کے خیال میں :
’’مزاح نگاری کے لیے یوسفیؔ کے اثر سے بچ کر نکلنا نہایت مشکل کام ہے اور میں ایسا نہ کرسکا اس وجہ سے مزاح نگاری ترک کردی۔ ‘‘(۸)
جب آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے تووہاں شعیب ہاشمی سے بھی آپ کی دوستی ہوگئی۔ گورنمنٹ کالج میں ضیا الحق کی شدید مخالفت کے باوجود احمد عطاءؔ اللہ نے جمیلہ ہاشمی اور شعیب ہاشمی کے تعاون سے پہلا فیض احمد فیضؔ مشاعرہ منعقد کروا کر ایک روایت قائم کی۔
رسائل /ادبی تنظیموںسے وابستگی:
گورنمنٹ کالج لاہور میں احمد عطاءؔ اللہ مختلف ادبی تنظیموں کے ساتھ نہ صرف منسلک رہے بل کہ ان تنظیموں کے اعلا عہدوں پر بھی فائز رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں قائم ’’مجلسِ اقبال‘‘ کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے اس کے ساتھ ساتھ ’’مجلس صوفی تبسم ‘‘ کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ’’پنجابی مجلس‘‘ کے جنرل سیکرٹری ’’تقریری کلب‘‘ کے صدر اور ’’سینٹر کلب‘‘ کے ممبر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔ اس کے علاوہ آپ نے کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور کے ادبی مجلے’’راوی‘‘ کی ادارت بھی کی جو کہ آپ کے لیے ایک اعزاز ہے کہ اتنے سینئر لوگوں کی موجودگی میں یہ کام آپ کو سونپا گیا ۔
شادی:
۱۹۹۲ء میں احمد عطاءؔ اللہ شادی کے بندھن میں بندھ گئے اور آپ کی شادی آپ کے والدین کی مرضی سے آپ کی پھوپھی زاد کے ساتھ ہوئی۔ آپ کی بیوی سلیقہ مند گھریلو خاتون ہیں جب کہ آپ کی تین بیٹیاں مختلف جماعتوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
پسندیدہ شاعر:
احمد عطاءؔ اللہ چوں کہ ادب سے گہرا لگائو رکھنے والی شخصیت کے حامل ہیںاس لیے آپ کا مطالعہ بھی نہایت گہرا ہے۔ آپ استاد شعرا کے علاوہ جدید شعراکا کلام بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ اس حوالے سے ہفت روزہ مون کریشنز کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو میں آپ بتاتے ہیں:
’’جہاں تک پڑھنے کا تعلق ہے ہر اچھا کلام پڑھ کر لطف اندوز ہوتا ہوں۔ جب کہ غزل میں ظفر ؔاقبال ، عباس تابشؔ، احمد حسین مجاہد، ؔ قمر رضاؔ شہزاد، افضل گوہرؔ، رانا سعید دوشیؔ، اختر رضا سلیمیؔ کو شوق سے پڑھتا ہوں۔ مظفر آباد کے نوجوان شاعر واحدؔ اعجاز میر مجھے پسند ہیں اور نظم میں علی محمد فرشیؔ، ڈاکٹر جاوید انورؔ اور ایم یامین ؔپسندیدہ شاعروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ ‘‘(۹)
ملازمت:
احمد عطاءؔ اللہ ایم ۔ اے کی ڈگری لینے کے بعد ۲۱ دسمبر ۱۹۹۱ء کو بہ طور اردو لیکچرار گورنمنٹ کالج اٹھمقام (موجودہ ضلعی ہیڈ کوارٹر ،ضلع نیلم)تعینات ہوگئے۔ جہاں سے ۱۹۹۵ء میں انٹر کالج ڈنہ میں تبادلہ ہو گیا۔ ۱۹۹۶ء میں آپ نے اس پیشے کو خیر باد کِہ دیا۔ جس کی وجہ آپ یہ بیان کرتے ہیں:
’’میرا ارادہ تھا کہ آزاد کشمیر کی معدوم ہوتی زبانوں پر تحقیق کر کے مزید تعلیم حاصل کروںگا۔ جس کے بعد مکمل طور پر شعبۂ تعلیم سے وابستگی اختیار کر کے تعلیم کی خدمت کروںگا ۔ لیکن دقیانوسی نظامِ تعلیم کے باعث مجھے یہ ارادہ ترک کرنا پڑااور سول سروسز کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ کیوں کہ مجھے روز ایک نیا چیلنج درکار ہوتا ہے۔ ‘‘(۱۰)
۱۹۹۶ء میں احمد عطاءؔ اللہ نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور سول سروسز میں پہلی تعیناتی بہ طور اسسٹنٹ کمشنر ہوئی۔ جہاں سے اسی عہدے پر باغ، نکیال ، ہٹیاں بالا، وغیرہ میں منتقلی ہوتی رہی۔ اس سروس کے دوران میں آپ کو ہر روز ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اس حوالے سے آپ خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ آپ کو اللہ پاک نے آپ کے مزاج کے مطابق کام دیا۔ ۲۰۰۴ء میں احمد عطاءؔ اللہ بہ طورر ایڈمنسٹر میونسپل کارپوریشن میر پور تعینات ہوگئے۔ اس دوران میں مظفر آباد سری نگر بس سروس کا آغاز ہو اجس کی مینجمنٹ احمد عطاءؔ اللہ کے حصے میں آئی۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مظفر آباد کے عہدے پر ۲۰۰۷ء میں تعینات رہے۔ جس کے بعد ۲۰۰۹ء میں آپ کو ضلع نیلم کا ڈپٹی کمشنر مقرر کر دیا گیا۔ مختلف عہدوں پر تبادلے ہوتے رہے اور ممبر بورڈ آف ریوینو مظفر آباد کے عہدے سے ترقی پا کر آپ ۲۰۱۱ء میں سیکرٹری بورڈ آف ریونیو مقر ر ہو گئے۔ کچھ سال آپ نے اس عہدے پر اپنی خدمات پیش کیں ۔ اس کے بعد کچھ مدت آپ آزاد کشمیر سمال انڈسٹری کے مینجنگ ڈائریکٹر کی کرسی پر براجمان رہے یہاں پر بھی آپ نے اپنی عملی بصیرت سے ادارے کو ترقی کی راہوں پر ڈال دیا۔ بعد ازاں کچھ عرصہ پونچھ ڈویژن کے کمشنر کی حیثیت سے راولا کوٹ میں گزارے۔آپ مظفرآباد میں کمشنر بحالیات کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد اب سیکرٹری کشمیر لبریشن سیل کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔
ایوارڈز:
احمد عطاءؔ اللہ کو آپ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ اس سلسلے کا پہلا ایوارڈ آپ کو گورنمنٹ کالج لاہور میں دیا گیا۔ آپ کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے گورنمنٹ کالج لاہور کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ’’رول آف آنر ‘‘ ۱۹۸۹ء میں آپ کو ملا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے آپ کو کشمیر لٹریری سرکل کے صدر کی حیثیت سے ایوارڈ سے نوازا،جو کہ آپ کے لیے ایک اور اعزاز ہے۔ ۲۰۱۱ء میں ’’پروین شاکرعکسِ خوش بو‘‘ ایوارڈ آپ کی کتاب’’ہمیشہ ‘‘ کے حصے میں آیا۔ احمد عطاءؔ اللہ شاعری کو اپنے لیے بہترین ذریعۂ اظہار سمجھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں:
’’یہ تمام باتیں امانت ہیں جو قدرت مجھ سے کہلوانا چاہتی ہے۔ اگر ان میں انحراف کروں گا تو یہ امانت میں خیانت ہوگی۔ میری یہ شاعری آنے والے کل میں کسی کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گی تو یہ ہی میرے حصے کا کام ہو گا۔‘‘(۱۱)
مشاغل:
احمد عطاءؔ اللہ کا تعلق چوں کہ فنونِ لطیفہ سے ہے اس لیے بھی آپ ایک حساس طبیعت کے مالک انسان ہیں۔ اسکول کے زمانے میں آپ کے مشاغل تقریری مقابلے اور پیروڈیز کرنا تھے۔ لیکن اب آپ کے مشاغل میں انٹیریر ڈیکوریشن اور کتب بینی کے علاوہ مظاہر فطرت سے لگائو ہے۔ آپ نے اپنے گھر میں مختلف اقسام کے پودے لگائے ہوئے ہیں۔ جن کو آپ برابر وقت دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کشمیر لڑیری سرکل مظفر آباد کے صدر بھی ہیں ۔ اس سلسلے میں بھی آپ خاصا مصروف رہتے ہیںاور مختلف حوالوں سے نشستیں منعقد کرواتے رہتے ہیں۔ اپنے مشاغل کے حوالے سے احمد عطاءؔ اللہ بتاتے ہیں ۔
’’تقریری مقابلے اور انٹریر ڈیکوریشن میرے محبوب مشغلے ہیں ۔ اس کے علاوہ کتب بینی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ‘‘(۱۲)
شخصیت:
احمد عطاءؔ اللہ ایک بہادر شخص ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ایک ملنسار، ہم درد اور شفیق انسان ہیں۔ آپ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں لیکن ان میں سے ہر پہلو اپنی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ نادار انسانوں کی خدمت کرنا آپ اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ کہتے ہیں:
’’اگر میری گاڑی بھی کسی کے کام آجاتی ہے تو میں اسے اپنے لیے خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ ‘‘(۱۳)
اس کے ساتھ ساتھ آپ کو غصہ بھی آتا ہے مگر ہر اس بات پر جو غلط ہو۔ عام حالات میں احمد عطاءؔ اللہ ہنس مکھ اور خوش مزاج شخصیت کے مالک ہیں آپ کے دیرینہ دوست احمد حسین مجاہدؔؔ کے مطابق:
’’احمد عطاءؔ اللہ ایک ملنسار ،ہم درد اور نہایت خوش مزاج انسان ہیں۔‘‘(۱۴)
احمد عطاءؔ اللہ دوستوں کی نظر میں:
احمد عطاءؔ اللہ جہاں عام لوگوں کی ہر د ل عزیز شخصیت ہیں۔ وہاں آپ اپنے دوستوں کے لیے بھی باعث فخر ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ کی شخصیت کے حوالے سے جب ان کے دوستوں سے بات کی گئی تو انھوں نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار مختلف الفاظ میں کیا۔ سید شہبازؔؔ گردیزی ،احمد عطاءؔ اللہ کے حوالے سے اپنے خیالات یوں بیان کرتے ہیں:
’’مجھے احمد عطاءؔ اللہ کو ہر دو حوالوں سے قریب سے پرکھنے کے کئی مواقع میسر آئے۔ میں نے ان کی گفت گو بھی سنی اور مشاعرے بھی۔ ان کی گفت گومیں جو رچائو، جو گھلاوٹ اور مٹھاس ملتی ہے۔ یہی رچائو ، گھلاوٹ اور مٹھاس ان کی شاعری کا بھی جوہر ہے۔ وہ بہت سے لوگوں کی طرح دوہری شخصیت کے معیار کے حامل نہیں۔ ان کا فن اور شخصیت ایک ہی ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔ یہ بہت عجیب صلاحیت ہے۔ ان کی کتاب ’’ہمیشہ‘‘ کی تقریب رونمائی میں قمر رضاؔ شہزادؔ نے ایک جملہ کہا تھا کہ ’’کوئی افسر شاعر نہیں ہوتا ہاں کبھی ایسا ہوتا بھی ہے کہ ہمارا کوئی شاعر افسر بن جاتا ہے۔ ‘‘
یہ جملہ آج بھی میرے دِل و دماغ کی سطح سے چپکا ہوا ہے۔
احمد عطاءؔ اللہ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ بیورو کریسی کی کِسی اہم نشست پربھی شاعر ہی دِکھتا ہے۔ پہچان کا یہ حوالہ اسے ہر حوالے سے عزیز ہے۔ رومانوی اورذومعنوی کلمات کے استعمال میں احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری اور نثری گفت گو کو جدا جدا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ شاعرانہ صلاحیتوں اور فکری میلان تک رسائی کے لیے ایک ہی معیار اپنائے ہوئے ہیں۔
احمد عطااللہ خوش مزاج، یارباش، دوست نواز، علم دوست ، نظر باز ، آزادہ روح، فراغ دِل ، غیر محتاط اور غیر کاروباری ذہن رکھنے والا ہزار شیوہ قسم کا انسان ہے۔ وہ ایک کھلنڈرا اور بے وفا عاشق ہے۔ جو اپنی تکمیلِ ذات کے لیے دوسروں کی ذات کو نامکمل چھوڑ دیتا ہے۔ عطاؔ اس بچے کی مانند ہے جو ماں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ننگے پائوں کانٹوں پر چل کر دوری کا جنگل عبور کرتا ہے۔ ماں کی یاد میں روتا، ہجر کے صدمے اٹھاتا ہے لیکن ماں کے قریب آکرپھر واپس پلٹ جاتا ہے تاکہ اسے پانے کی جستجو پھر ابتدا سے شروع کر سکے۔ دھرتی اس کے پائوں نہیں پکڑ سکتی۔ درد ہوا کا ہاتھ تھام کر آگے نکل جاتا ہے۔ قیام اس کا اصول نہیں سفر اس کی منزل ہے۔‘‘(۱۵)
مخلص وجدانیؔؔ ، احمد عطاءؔ اللہ سے اپنی چوبیس (۲۴) برس کو محیط رفاقت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’ تقریباً اسّی (۸۰)کی دہائی کی بات ہے جب مظفر آباد میں کِسی کی زبانی ایک شعر سُنا۔ جس میں جدّت نظر آئی اور وہ شعر میرے دِل و دماغ میں رچ بس گیا۔
ابھی وہ خوش بہت ہے اپنے کاجل کی فصیلوں پر
مگر لہریں وہ اٹھنی ہیں کنارہ بھی نہیں رہنا
اس شعر کے سحر میں ،میں ایسا گرفتار ہوا کہ مجھے اس کے خالق سے ملنے کا اشتیاق بڑھ گیا۔ معلومات لینے پر پتا چلا کہ یہ شاعر لاہور میں زیر تعلیم ہے۔ پھر احمد عطاءؔ اللہ کے اشعارسننے کا موقع ملتا رہا لیکن احمد عطاءؔ اللہ سے ملاقات کی تشنگی ۱۹۹۱ء میں اس وقت ختم ہوئی جب عطاؔ تعلیم مکمل کر کے مظفر آباد ملازمت کے سلسلے میں واپس آیا۔
احمد عطاءؔ اللہ سے مِل کر اس کی شخصیت کے کئی در میرے سامنے وا ہوئے۔ وہ ایک اچھا اور باکمال شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باہمت آدمی بھی ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ جس محفل میں بھی ہوتا ہے وہ محفل کی جان بن جاتا ہے او ر محفل کو زعفران زار بنا دیتا ہے۔ عطاؔ کبھی خود کوبڑا آدمی نہیں سمجھتا۔ یہ اس کے بڑے پن کی علامت ہے کہ وہ ایک بڑے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی عام آدمی سے بھی اسی طرح ملتا ہے جیسا کہ وہ عام آدمی ہو۔ یہ چیز اس کی خاندانی شرافت کی بھی دلیل ہے۔ آزاد کشمیر میں اردو نظم کے حوالے سے ایم یامینؔ اور غزل میں احمد عطاءؔ اللہ سے بڑا کوئی شاعر ہے میں نہیں سمجھتا۔ اور یہ بات میں بلامبالغہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں۔ میں اپنے لیے یہ بات باعث فخر اور باعث اعزاز سمجھتا ہوں کہ میں احمد عطااللہ کے دور میں زندہ ہوں۔ مجھے بارہا احمد عطاءؔ اللہ کے ساتھ سفر کرنے کا موقع میسر آیا۔ اسے بہت قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا لیکن احمد عطاءؔ اللہ کو میں نے کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ وہ ایک زیرک آدمی ہے اور ہر آدمی کی نفسیات کو بہ خوبی سمجھتا ہے۔ عطاءؔ کی گفت گوپُر معنی ہوتی ہے اور اس میں مزاح کا عنصر بھی واضح نظر آتا ہے۔ لطائف خاص طور پر عطاءؔ کی گفت گو کا حصہ نظر آتے ہیں۔ تلخی، جھنجھلاہٹ اور بوکھلاہٹ کہیں بھی احمد عطاءؔ اللہ کے ہاں نظر نہیں آتی۔ مدلل ، بردبار اور متحمل گفت گواحمد عطاءؔ اللہ کا خاصا ہے۔ عطاءؔ رائے بھی بڑے سلیقے سے دیتا ہے اور سامع کو اپنے مخصوص انداز میں مطمئن کرتا ہے۔
’’احمد عطاءؔ اللہ کا شعری اسلوب بھی اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ چوں کہ عطاءؔ کے ہاں ہر بات کھل کر بیان کرنا کوئی مسئلہ نہیں اس لیے عطاءؔ کے اشعار میں بھی اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ ہر شعر ایک پس منظر کا پیش خیمہ محسوس ہوتا ہے اور کہیں بھی قاری پر گراں نہیں گزرتا۔ احمد عطاءؔ اللہ کی غزل پر ظفر اؔقبال کی تعریف ہی اس کے بڑا شاعر ہونے کی سند ہے۔‘‘(۱۶)
احمد عطاءؔ اللہ کی شخصیت کے حوالے سے جب ڈاکٹر فرزانہ ؔفرحؔ سے بات کی گئی تو انھوں اپنے خیالات کچھ یوں رقم کروائے:
’’عطاء ہمارے گھر کے فرد ہیں۔ عطاءؔ میں جو سب سے خوب صورت بات ہے وہ یہ کہ اس شخص میں زندگی ہر وقت ہنستی مسکراتی اور جستجو میں ہوتی ہے آپ کو کبھی مایوس نہیں دیکھا۔ مزاح عطاءؔ کے ہاں باغ میں کھلتے پھولوں کی طرح ہے۔ یہ سوٹ بوٹ پہنے ، خوش پوش ، جینٹل مین ہر تخلیق کار کی طرح معاشرے کی ناہم واریوں اور نا انصافیوں پر ہر روز پھوٹتا ہے مگر خوب صورتی سے کرچیوں پر محل تعمیر کر کے اس میں بیٹھ کر عطاءؔ پھر سے نئے خواب کی فصل بوتا ہے۔ عطاؔ کے ہاں جمالیاتی ، رومانوی اور تخیلاتی عناصر کئی مقامات پر نظر آتے ہیں جو گداز کی کیفیت اور جذبے کی لو دیتے ہیں۔ عطاءؔ کے ہاں دیہات کا پس منظر بہت نمایاں ہے۔ وہ اپنی تہذیب اور فطرت سے جڑا ہوا شخص ہے۔‘‘(۱۷)
احمد عطاءؔ اللہ کے بارے میں پروفیسر اعجاز نعمانی اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں:
’’احمد عطاءؔ اللہ اردو غزل کے اُن منفرد شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ جو اپنی بے جھجک لفظیات کی بدولت الگ آواز اور انداز بیاں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کے موضوعات زمینی حقائق کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی محبت ہوس کے روپ میں جب سامنے آتی ہے تو یہ ایک مشترک اور نا قابل تردید سچ دکھائی دیتی ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ عطاءؔ جو ہیں وہ بھی بلا جھجک نہ صرف کِہ دیتے ہیں بل کہ دو ٹوک تلخ اور کڑوا سچ بیان کرکے اجتماعی صورت حال اختیار کر لیتے ہیں۔ احمد عطاءؔ اللہ تازہ تر شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ جن کے اشعار میں کبھی بوریت محسوس نہیں ہوتی اور یہی چیز احمد عطاءؔ اللہ کی شخصیت میں بھی نظر آتی ہے۔ آپ کی محفل میں کبھی کوئی شخص بوریت محسوس نہیں کرتا بل کہ وہ آپ کی کھٹی میٹھی باتوں سے محظوظ ہوتا ہے۔ ‘‘(۱۸)
سیدہ آمنہؔ بہار رُونا احمد عطاءؔ اللہ کے حوالے سے یوں بات کرتی ہیں:
’’عطاء کی ’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘ کے منظر نامے پر آنے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح کھلی کہ عطاءؔ کی شاعری واقعی بھولنے والی نہیں ہے بل کہ خود بہ خود یاد رہنے والی ہے۔ ’’ہمیشہ ‘‘ جب منظر عام پر آئی تو ہمیشہ کے لیے اپنے خوب صورت رنگ دل و دماغ کے کینوس پر بکھیرتی چلی گئی۔ روشنیاں کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے لیکن عطاءؔ نے اپنے کلام میں بہت سی روشنی مرقسم کی ہے۔ میری دعا ہے کہ خوش رہیں اور روشنیاں لکھتے رہیں۔‘‘(۱۹)
واحدؔ اعجاز میر کا شمار بھی احمد عطاءؔ اللہ کے قریبی احباب میں ہوتا ہے۔ آپ سے جب احمد عطاءؔ اللہ کے بارے میں بات کی گئی تو آپ کچھ یوں گویا ہوئے:
’’بہت کم شاعر ایسے ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ رائے قائم کرنے میں دشواری پیش آتی ہے کہ وہ شاعر زیادہ اچھے ہیں یا انسان۔ ان کے شعر کی face valuزیادہ دل کش ہے یا ان کے اخلاق زیادہ دلوں کو فتح کرنے والے ہیں۔ ان کے مصرعے مترنم بحروں میں ہیں یا وہ خود ایسے نفیس چال چلن کے مالک ہیں جیسا کہ دیکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے۔
شاعر کو اس کی ذات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ ایک خوب صورت انسان کا قبول صورت شعر بھی اچھا لگتا ہے اور ضرر رساں انسان اگر اپنی شاعر ی میں انسانیت کا علم بردار بھی ہو تو اس میں تاثیر نہیں ہوتی ۔ یہ فطرت کے اپنے معاملات اور اپنے فیصلے ہیں ورنہ حقیقی تخلیق کار اور فن کے چورا چکوں میں کون تمیز کر سکتا ہے۔ عطاءؔ پر قدرت کی اور بہت سی عطائوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عمل اور قول سے محبت اور انسانیت کے مبلغ ہیں ۔ وہ اپنے عقیدے کا اظہار صرف لفظوں میں نہیں کرتے بلکہ عملاً کر کے دکھاتے ہیں۔ شاعر اور شاعری سے محبت کرنے والے عطاءؔ سے مل کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور انھیں شاعر اور شاعری دونوں ہی قابل عزت اور قابل محبت محسوس ہوتے ہیں۔ یہ خاص فضل کی بات ہے کہ کوئی فرد اپنے شعبۂ زندگی کا نمائندہ بن جائے ۔ عطاءؔ سے ملنے والے دوست احباب بعض اوقات صرف اپنی شام خوب صورت بنانے کے لیے عطاءؔ سے ملنے چل پڑتے ہیں۔ جس انسان سے مل کر آپ کی شامیں سہانی، راتیں روشن اور دن ٹھنڈے ٹھار ہو جائیں آخر اس پر شاعری کی دیوی بھی محبت کی نظر ڈالتی ہو گی۔ عطاءؔ کے نظریۂ شعر سے اختلاف ممکن ہے لیکن اس کی شخصیت کے سحر کے اثرات سے بچنا محال ہے۔ اپنی شاعری، اپنے تروتازہ اور شفاف مصرعوں سے دھلا دھلایا احمد عطاءؔ اللہ دوستوں کے لیے نعمت ہے۔ جن سے مل کر کئی نا شاعر اور بے ادب بھی شعر سننے اور سنانے لگتے ہیں۔ یہ اعجاز ہر کسی کو عطاءؔ نہیں ہوتا۔ ‘‘(۲۰)
اردو غزل کے عہد حاضر کے معروف شاعر رانا سعید دوشی، احمد عطاءؔ اللہ کے بارے میں اپنی رائے میں کہتے ہیں:
’’مظفر آؓباد ، آزاد کشمیر کی جنت نظیر اور رومانوی فضا میں بسنے والے اس تخلیق کار کے اندر اور باہر کی دونوں دنیائیں بھی وادی کشمیر کی طرح حسین و دل فریب ہیں۔ ہجر وو صال کے گیت گاتے ، مترنم جھرنے، اٹکھیلیاں کرتے یخ دریا ، اپنی سر زمین کے ترانے سناتے شیریں چشمے گویا محبت اور رومان کے سارے ہی استعارے اس کی ذات کے اندر رچے بسے ہیں جو اسے سراپا محبت بنانے کے ساتھ ساتھ سروقامت بھی بناتے ہیں۔احمد عطاءؔ اللہ نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ پنجاب اس کے دل میں بستا ہے اور وہ اسی کے شعری مزاج میں رچا بسا شاعر ہے۔ احمد عطاءؔ اللہ کی شاعری میں وارث شاہ ؒ کا فن ، میاں محمد بخشؒ کا انکسار، بلھے شاہ ؒ کی دھمال، بابا فرید ؒ کی کوک اور شاہ حسین ؒ کی ہوک ایک ترنجن کاسا ماحول بناتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ عطاءؔ توفیق اور برکت والا شاعر ہے اسے شاعری کرنی نہیں پڑتی۔ اگر آپ اس سے مل چکے ہوں تو خود محسوس کرسکتے ہیں کہ اس کا اٹھنا بیٹھا، سونا جاگنا، گھومنا پھرنا یہاں تک کہ رونا اور مسکرانا بھی شاعری خیال ہوتی ہے۔
احمد عطاءؔ اللہ کے دور دور اور نزدیک نزدیک ایسا تخلیق کار کم ازکم مجھے نظر نہیں آتا جس کے ساتھ اس کے اُسلوب کی مثال دی جاسکے۔ اس کی وجہ یقینا یہی ہے کہ وہ اپنی طرز منفرد اُسلوب اور اچھوتے لہجے کا غزل گو ہے۔ جس کی غزل جدید اور جدید تر موضوعات میں اپنی عصری یکسانیت کے باوجود اپنے لغت میں بھی منفرد ہونے کے سبب آج کی غزل کہلوانے کی حق دارہے۔ ‘‘(۲۱)
احمد عطاءؔ اللہ کی بابت قمر رضاؔ شہزادؔ نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا۔
’’جدید اردو غزل کو ہر عہد میں ہر علاقے میں باکمال شعرامیسر آتے ہیں۔ سرزمینِ کشمیر بھی اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ یہاں تخلیق ہونے والی اردو غزل مرکزی شعری دھارے سے جڑی ہوئی ہے۔آج بھی یہاں بہت سے شاعر اپنے الگ اور منفرد اسلوب کے ساتھ ادبی افق پر نمایاں ہیں۔ ان میں ایک اہم شاعر احمد عطاؔاللہ بھی ہیں جنھوں نے اپنے شعری سفر کے آغاز میں ہی اپنی غزل کے نئے پن اور تروتازگی کی بدولت ادبی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ مزید یہ کہ ادبی ماحول نے ان کی فنی صلاحیتوں کوخوب نکھارا۔ احمد عطاءؔ اللہ کی غزل اپنی بے ساختگی ، روانی اور جذبوں کی صداقت کے ساتھ اپنی ایک الگ فضا بنا رہی ہے۔ وہ معمولی سی بات کو اپنے شعر میں لے کر غیر معمولی بنا دیتے ہیں اور یہ کمال کم ہی شعرا کو حاصل ہوتا ہے۔‘‘(۲۲)