(Last Updated On: )
بہ شکلِ دل ہی تمہیں دل کی جستجو کیا ہے
اسی جگہ پہ یہ دیکھیں لہو لہو کیا ہے
خدا کی ذات پہ یہ بحث و گفتگو کیا ہے
سمجھ لے اپنی حقیقت کو پہلے تُو کیا ہے
گہر بنا ہے چمکتا ہوا یہ خونِ صدف
نہیں تو قطرۂ نیساں کی آبرو کیا ہے
ہزار عالمِ رنگیں ہیں دل کی دنیا میں
مری نگاہ میں دنیائے رنگ و بو کیا ہے
جو دسترس میں ہو پی جاؤں میں تو خُم کا خُم
کہ مجھ کو بادۂ یک ساغر و سبو کیا ہے
تمام نظم ہو زیر و زبر، ہو امن تباہ
ہر اک یہی جو کہے دوسرے کو تُو کیا ہے
پتہ چلے کہ مقابل وہ کس کے آیا ہے
نظرؔ کے سامنے آئے سہی عدو کیا ہے
٭٭٭