(Last Updated On: )
با خدا دل کے عوض ارض و سما رکھتے ہیں
کیسے کافر ہیں محبت کا خدا رکھتے ہیں
کھڑکیاں ہجر کی خاموش کہاں کھلتی ہیں
دل کے در بند سبھی پھر بھی صدا رکھتے ہیں
ایک قطرہ نہیں یہ آب رواں ہے یارو
اشک ہر اک میں کوئی سیلِ بلا رکھتے ہیں
ایک پل ہی مرے کوچے میں کوئی ٹھہرا تھا
اب کے طوفان مرے گھر کا پتا رکھتے ہیں
جب بھی اترے مرے گلشن میں گلوں کے موسم
ہجر کی دھوپ میں وحشت کی گھٹا رکھتے ہیں
یہ ستم رک نہیں سکتا تو ستم اور کرو
دل سے مجبور بھی جینے کی ادا رکھتے ہیں
عکسِ جاناں ہی ملا دل کے فلک پر عامؔر
لغزشِ پا وہی نقشِ کفِ پا رکھتے ہیں