(تنہا برگد کا دکھ)
اردو افسانہ 1960ءکے بعد سے اب تک کئی نازک مرحلوں سے گزر چکا ہے۔ جدید افسانے میں استعاراتی اور علامتی سطح سے بڑھ کر تجریدی سطح تک نئے نئے تجربے کئے گئے ۔ بے معنویت کا ایک سیلاب آیا ۔ افسانے میں افسانویت اور کہانی پن کے مسئلے پید ا ہوئے۔ مسئلے ابھی ختم تو نہیں ہوئے لیکن جدید افسانہ نگاروں کی ایک کھیپ ایسی سامنے آ چکی ہے جس کے افسانے بذات خود سارے اعتراضات کے جواب اور سارے سوالوں کے جواب فراہم کر رہے ہیں ۔یہ صوت حال ح خوش کن ہے اردو افسانے کے لئے بھی اور افسانہ نگاروں کے لئے بھی۔
عذرا اصغر نے اس زمانے میں افسانے لکھنے شروع کئے جب بیانیہ افسانے کے خلاف جدید افسانے کا ردِ عمل شروع ہو چکا تھا تاہم اس وقت خود جدید افسانہ نگار مطعون قرار پا رہے تھے اور اس انداز کو اپنا نا اجتہاد بلکہ بغاوت تھا اردو افسانے میں اس وقت تک قرة العین حیدر ،عصمت چغتائی ، واجدہ تبسم اور جیلانی بانو جیسی افسانہ نگار خواتین اپنا مقام بنا چکی تھیں ۔ قرة العین حیدر کے ہاں فکری گہرائی اور فلسفیانہ انداز غالب رجحان تھا ۔ عصمت اور واجدہ باغیا نہ اندز میں سامنے آئی تھیں،جب کہ جیلانی بانو کے افسانوں میں گھریلو زندگی اور عورت کے مسائل کو زیادہ اہمیت دی گئی، عذرا اصغرنے قرة العین حیدر کی فکری روایت سے استفادہ تو کیا لیکن اسے للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھا ۔ عصمت او ر واجدہ کا جار حانہ انداز بھی کئی افسانوں میں سر اٹھاتا ہے لیکن عذرا اصغر کا اپنا ”عورت“والا کردار اسے جلد ہی دبا دیتا ہے۔ جیلانی بانو کی طرح عذا اصغر نے گھریلو زندگی اور عورت کے مسائل کو زیادہ اہمیت دی ہے۔
جس طرح خواتین افسانہ نگاروں کی تین الگ الگ روایات عذرا اصغر کے سامنے تھیں اسی طرح افسانہ نگاری کی تین تحریکوں کی روایات بھی عذرا اصغر کے سامنے تھیں ۔ (۱) ترقی پسند تحریک کی روایت جس میں نچلے طبقے کے مسائل کو اہمیت دی جاتی۔(۲)منٹو جیسی حقیقت پسندی کی روایت جس میں سامنے کے حقائق کو من و عن بیان کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔___ (۳) جدید افسانے کی روایت (جو ابھی بن رہی تھی) جس میں سامنے کی اشیاءکے عقب میں موجود حقیقت کو جاننے اور دریافت کرنے کا تجسس تھا۔ عذرااصغر نے ان تینوں روایات کے مثبت اثرات قبول کئے مگر خود کو کسی ایک تحریک کی روایت سے وابستہ نہیں کہا۔
”پت جھڑ کا آخری پتا“ سے ” تنہا برگد کا دکھ“ تک عذرااصغر نے اپنی افسانہ نگاری کا ایک دائرہ مکمل کر لیا ہے۔”پت جھڑ کا آخری پتا“ میں جو انسانی کردار بے یقینی کے گرداب میں گھِرے ہوئے تھے۔ ”بیسویں صدی کی لڑکی“ میں وہ کردار جیسے گرداب سے نکل آنے کے لئے جدو جہد کرتے نظر آتے ہیں اورافسانہ ” تنہا برگد کا دکھ “ میں تو ایسے لگتا ہے جیسے انسان گرداب سے نکل آیا ہے اور اس نے اپنے رستے کا تعین بھی کر لیا ہے۔ رستے کا تعین ہو جائے تو منزل کی امید ضرور پیدا ہو جاتی ہے ۔یہ الگ بات کہ سمتوں کا تعین کرنے والے بھی اصل منزل تک پہنچنے کی بجائے نئی دنیاﺅں میں جا پہنچتے ہیں۔ ”پت جھڑ کا آخری پتا“ میں انسان کی المناک صورت حال پر دکھ کا احساس ملتا ہے۔”بیسویں صدی کی لڑکی“میں یہ احساس ہمدردی میں ڈھل جاتا ہے جبکہ”تنہا برگد کا دکھ“میںہمدردی کی بجائے کچھ کر گزرنے کا احساس زیادہ نمایاں ہے ۔ یہ تینوں مجموعوں کے بارے میں میرا مجموعی تاثر ہے ۔جہاں تک الگ الگ افسانوں کا تعلق ہے ہر افسانہ زندگی کی ایک الگ جہت اور الگ قاش کو پیش کرتا ہے۔ یوں ان افسانوں میں موضوعاتی لحاظ سے رنگارنگی پیدا ہو گئی ہے۔ آئیے عذرا اصغر کے تازہ مجموعہ ”تنہا برگد کا دکھ“ کے افسانوں کے ان مختلف رنگوں کو ایک نظر دیکھتے چلیں:
”چندر کلا“ کا مرکزی کردار“ میں ”کوئی بیوقوف مرد ہے یا پھر صدیقہ سچ سچ پاکباز تھی۔ ”آدرش کی موت“جھوٹی بڑائی اور عظمت کی ٹوٹ پھوٹ کا المیہ پیش کرتا ہے۔
”یاد کے بے نشاں جزیرے سے “ خیالیہ انداز کا جدید افسانہ ہے۔
”فاحشہ “ میں گل زرینہ کا کردار،بڑا خوب صورت کردار بن گیا ہے۔ ایسا کردار جس سے محبت اورہمدردی بھی محسوس ہوتی ہے اورجس پر غصہ بھی آتا ہے۔
”یگ بیت گیا“ محبت کے معاملے میں ایک انقلابی ورکر کی خود غرضی کی کہانی ہے۔
”سڑک پوچھتی ہے“ بھائی کی موت کا نوحہ ہے۔دکھ کی یلغار افسانے کی بنت پر حاوی ہو گئی ہے۔
”محبت کا عفریت“ جسم اور روح کی محبت کے فرق کو اجاگر کرتا ہے۔
”تنہا برگد کا دکھ“میں گوتم بدھ کا دکھ کا گیان ”قندمکرر“کا ذائقہ عطا کرتا ہے۔
”پہلا پتھر“ عورت کی مظلومیت کا اعلامیہ ہے۔ حالانکہ اب مرد کی مظلومیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔”آنچ دیتے جذبے“،”ایک مکمل ادھوری کہانی“،”اندھا کنواں“،اور ”کھرسا میں جل تھل“محبت کی ایسی کہانیاں ہیںجو خواتین کے رسالوں میں چھپتی رہتی ہیں۔ادبی افسانہ نگار عذرا اصغر کو ایسی کہانیوں لکھنے پر یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ آخر کو وہ عورت ہیں اور عورت کے اندر چھپی ہوئی لڑکی کبھی نہیں مرتی۔
”دن اور رات کا البم“ میں ایک طرف ذہانت اور دولت کا موازنہ ملتا ہے تو دوسری طرف اس نچلے طبقے کی دلچسپ کہانی ملتی ہے جو ایک دم دولت مند ہو گیا ہے۔
”ملحد“ میں مذہبی خوش عقیدگی پر گہرا طنز ملتا ہے۔
”ہیڈ کوارٹر“صاف دل اور مظلوم صادق کی کہانی ہے ۔ایسا شخص جو ظالم وقت کے تھپیڑوں کی زد میں ہے۔
”باب المندب“گھریلو دباؤ کی شکار ایک مظلوم لڑکی کی کہانی ہے جسے آخر میں پتہ چلتا ہے کہ اس کے سارے عزیز اس کی بہتری چاہتے ہیں۔
”ابدیت کی تلاش“حسن کی تعریف میں نئے لفظ کی جستجو کا سفر بیان کرتا ہے۔
”وسیلہ“کسی مزار کی مجاوری کے ذریعے امیر بننے کا نسخہ بتاتا ہے۔
”سیندھ“بڑی دلچسپ اور نفسیاتی کہانی ہے۔شاعر کے دوست کا غم بے معنی ہے۔کشور کو دوسری شادی کرنے کا حق حاصل تھا۔شاعر کے دوست کو در اصل شاعر کے مقابلے میں اپنی شکست کا احساس ہو رہا ہے اور اسے چھپانے کے لیے وہ کشور کے پہلے شوہر اور اپنے مرحوم دوست کی دوستی کا سہارا لے رہا ہے۔
”خود رو“ ویت نام کی جنگ کے دوران پیدا ہونے والا ایک اخلاقی اور انسانی مسئلہ پیش کرتا ہے۔وہ معصوم بچے جنہیں اپنے کا علم تک نہیں۔
”اندھیرے ،سائے اور روشنی“ کے آغاز میں یوں لگتا ہے جیسے ”موت کا منظر۔عرف مرنے کے بعد کیا ہوگا“جیسا انداز اختیار کیا گیا ہے،مگر جلد ہی کہانی کا رُخ بدل جاتا ہے۔مرنے والے کی موت کے بعد اس کے عزیزوں،دوستوںاورپیاروں کی کیفیات،جذبات اور تعصبات کو اچھے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
”ندی کے اس پار“ ایک پاگل عورت کے ساتھ مردوں کی ہوس کی ہولناک کہانی ہے۔
”پہچان کی جستجو“ خود کلامی کی صورت میں اپنی تلاش کا سفر ہے۔
”کلّ شیٔ ترجعون“ عورتوں کے رویوںاور جھگڑوں کی ایک کہانی ہے۔
”شہزادی“ شوہر کیمحبت سے محروم اور شوہر سے انتقام لینے والی شہزادی کی دلچسپ کہانی جو احمد کو اپنا داماد بنانا چاہتی ہے مگر وہ بے وقوف اسی کا عاشق بن جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے۔”شہزادی“ کے برعکس ”تتلی صفت لڑکی“ ایسی لڑکی کہانی ہے جو ادیبوں کو اپنی محبت کے چکر میں پھنسائے رکھتی ہے اور آخر میں ایک ادیب کے بیٹے سے شادی کر لیتی ہے۔
”ایک ضد کی خاطر“افسانہ آج سے تقریباََ پانچ سال پہلے کی ایک مشہورخبر کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔عورت کو کھلونا سمجھنے والے ایسے مرد کی کہانی جو اپنی ضدی محبوبہ کی موت کے بعد اس کی لاش کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب کرتا ہے۔
”رابطہ“ایک ایسے شادی شدہ مرد کی کہانی پیش کرتا ہے جو خوبصورت اور وفادارفوزیہ کے ہوتے ہوئے نازنین کے چکر میں آنا چاہتا ہے،لیکن پھر اس کی بیوی فوزیہ اسے بہتر طور پر سنبھال لیتی ہے۔
”سکیسر“ماسی کا ایک مثالی کردار پیش کرتا ہے اور ماسی کے ساتھ اس کی بہو کا مکروہ کردار بھی ابھرتا ہے جو حقائق کو مسخ کرنے والا ایک منفی کردار ہے۔
”نئی بستی“نئے آباد ہوتے اور پھیلتے ہوئے شہر کی کہانی بیان کرتا ہے۔دولت کی فراوانی سے غریبوں کی یادیں بھی ان سے خرید لی جاتی ہیں لیکن بابا بشیرا اپنی یادوں کو بیچنے اور چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا
بعض کتابوں کے بارے میں اتنے اچھے مضامین لکھے جاتے ہیں کہ ان مضامین کو پڑھنے کے بعد کتابوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیںرہتی۔لیکن میں نے دانستہ طور پر دو کوششیں کی ہیں۔ایک یہ کہ مضمون اچھا نہ ہونے پائے اور دوسری یہ کہ کہانیوں کے بارے میں میری رائے آپ کو اصل کہانیاں پڑھنے پر اکسائے۔دوسری کوشش کے ضمن میں عذرا اصغر کے افسانوں سے چند اقتباسات بھی پیش کیے دیتا ہوں۔
”میں تو بس ایک ایسا آدمی ہوں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی بہت سی بد اخلاقیوں کا مرتکب ہوتا رہتا ہے کہ بعض بد اخلاقیاں اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہیں ،اتنی دل آویز ہوتی ہیں کہ ان سے اجتناب برتنا کفر لگتا ہے۔“(چندر کلا)
”میں تو ایک بے بس ہوں جس کے جینے اور مرنے کے۔۔۔خوشی اور غم کے۔۔۔سب اختیارات اس کے پاس ہیں جو اونچے پربتوں سے پرے رہتا ہے اور میری شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔(یاد کے بے نشاں جزیرے سے)
”وہ ہر ایک کو بھائی کہہ کر مخاطب کرتی مگر اس کا انداز اس کے لفظوں کی نفی کرتا۔’میں نے جو کچھ کہا ہے دل سے نہیں کہا۔احمق !دھوکہ نہ کھا جانامیرے لفظوں سے‘۔“(یگ بیت گیا)
”انہوں نے وہ سب کہا جو انہوں نے نہیں دیکھا تھا اور وہ۔۔۔وہ سب بھول گئے جو وہ دیکھتے رہے تھے۔“(پہلا پتھر)
”مجھے کیا پتہ تھا کہ چاندنی جیسے ٹھنڈے،فرحت بخش ،نرم و ملائم حسن کے پیچھے آگ اگلنے والا آتش فشاں بھی ہوتا ہے۔اس آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے میں میرا سکون بہہ گیا۔“
(ایک مکمل۔ادھوری کہانی)
”تمام راحتیں،ساری آسودگیاں جانے کہاں گم ہو گئی تھیں۔گردشِ دوراں نے کھاتے پیتے لوگوں کے ہاتھوں میں کشکول پکڑادیا تھا اور بچے سقے حکمران بن بیٹھے تھے۔“(ملحد)
”اس کا ذہن تخریبی نہیں تھا لیکن تخریب خود بخود اس سے سرزد ہوجاتی تھی“(ہیڈکوارٹر)
”وہ خاندان کی بڑھوتری کا ایک پرزہ ٹھہری تھی کہ اس گھرانے کی بقاءکا کام اس سے لیا جا رہا تھا۔وہ محبت کی اہل نہ تھی اور نہ پیار کی حق دار۔باس وہ تو ایک مشین تھی آئندہ نسل بنانے کی“۔
(کھرسا میں جل تھل)
”جذبہ سچا ہو تو پرانے لفظ پرانے نہیںرہتے،نئے بن جاتے ہیں“
(ابدیت کی تلاش)
”یہ ان مہذب اور ترقی یافتہ قوموں کا ایک برا المیہ ہے جو ترقی کے نام پر اپنے سے چھوٹے ملکوں کو زندہ رہنے کے گر سکھاتے ہیں اور پھر ان کی زندگی سلب کر لیتے ہیں۔ان کو اناج مہیّا کرتے ہیں اور منہ تک گیا لقمہ اچک لیتے ہیں۔زندگی کی حفاظت کے لیے اسلحہ دیتے ہیں اور اسی اسلحہ سے ان کی زندگی چھین لیتے ہیں۔انہیں آزادی کا مفہوم تو بتاتے ہیں مگر زندہ رہنے کا حق اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں“۔
(خود رو)
”اس خطے میں ہر عورت اپنی پہچان کھو چکی ہے اور اس پر۔۔اس کے وجود پر اس کے باپ،دادا،بھائی اور شوہر کے نام کی مہر ثبت ہے۔“(پہچان کی جستجو)
”فوزیہ کہتی:وہ بھائی جان کہتے ہوئے’جان‘ پر زیادہ زور دیتی ہے“(رابطہ)
”وہ بے بس آدمی ہے۔اس کی ہر چیز پر اس کی بھابی کا قبضہ ہے۔وہی اس کی مختار کُل ہے۔وہی میری تنہا کاٹی سہاگ رات کی ذمہ دار ہے اور وہی میری زندگی کی ویرانی کا سبب ہے۔طارق رحمن تو ایک مشین ہے بچے پیدا کرانے کی۔جو بھابی سے بچ رہے وہ اس نے میری جھولی میں ڈال دئیے “
(شہزادی)
عذرا اصغر کے افسانوں سے چند اقتباسات کی خوبصورت جادوگری آپ نے دیکھی۔ان اقتباسات سے بھی میرے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ عذرا اصغر نے ترقی پسند،ھقیقت پسند اور جدیدیت کی تحریکوں سے مثبت اثرات قبول کئے۔ان تینوں کے اثرات کی جھلکیاں ان اقتباسات میں بھی موجود ہیں ،تاہم ان کے امتزاج سے ان کا اپنا تشخص ابھرا ہے۔اردو فکشن سے عذرا اصغر کی وابستگی اور دوستی بے حد گہری ہے،اس دوستی کے حوالے سے میں عذرا اصغر کو اِنہیں کے ایک افسانے کا اقتباس سنانا چاہتا ہوں:
”دوستی کی کوئی منزل نہیں ہے۔دوستی کا سفر تو سدا جاری رہتا ہے۔منزل سے بے نیاز۔۔کسی جگہ ٹھہرنے سے بے بہرہ۔۔۔دوستی کسی منزل پر پہنچ جائے تو اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔“
مجھے امید ہے کہ عذرا اصغر اردوافسانے سے اپنی دوستی کے سفر کو کسی منزل پر رُکنے نہیں دیں گی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہ مضمون ۱۹۹۲ء میں لکھا گیا ،ایبٹ آباد میں عذرا اصغر کے اعزاز میں ہونے والی تقریب میں پڑھا گیا اور ماہنامہ تخلیق لاہور کی کسی قریبی اشاعت میں شائع ہوا۔معیّن حوالہ دستیاب نہیں ہوا)