مختصر اہم تحریریں …
عظمتِ ذِکر مصطفیﷺ … ایک خطاب
(حیدرآباد مسلم ویلفیر ایسوسی ایشن کویت کی تقریب میں)
(محمدﷺ … منبعِ نور و مشام)
کمالِ مدح درود و سلام، ذکر اُنؐ کا
بیاں میں منبعِ نور و مشام، ذکر اُنؐ کا
اُنھیں کا نام تو ہے، فکر و علم و فن کی کلید
تمام سمتوں میں بس، صبح و شام، ذکر اُنؐ کا
اُنھیں کے فیض سے ہے، اہلِ حق کو جرأتِ شوق
کہ ارتقاء کا ہے حرفِ دوام، ذکر اُنؐ کا
اُنھیں کے رُشد و ہدایت سے، راہِ راست کھلی
ہے رہ نماؤں میں عالی مقام، ذکر اُنؐ کا
وہی ہیں سیدِ کونینؐ، شافعِ محشرؐ
ہے مشکلات کا حل صبح و شام، ذکر اُنؐ کا
وہ تاج دارِ رُسلؐ، خوب خوبیوں والے
مرے نبیؐ مرے سرکارؐ رحمتوں والے
٭٭
سید المرسلین امام الانبیاء تاجدارِ دوجہاں سرکارِ کائنات خاتم النبین حضرت محمد ابنِ عبد اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ صفات کا ذکر ہر فرد بشر کے لیے چشمۂ ہدایت اور چراغِ راہ ہے۔
حیدرآباد مسلم ایسوسی ایشن کی بلا شبہ خوش نصیبی اور نیک بختی ہے کہ انھوں نے ذکر رسول اور سیرت طیبہ کی محفل آراستہ کی ہے۔ خدا اس انجمن کے تمام متعلقین اور سارے عالم اسلام پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور نبی کریم کے رشد و ہدایت سے ہم سب کی آنکھوں میں روشنی بھر دے، دلوں میں بصیرت کے چشمے جاری کر دے، آمین۔
مجھے اپنی زندگی کے وہ تمام واقعات میلاد اور ذکر رسول کی محفلیں یاد آ رہی ہیں جن میں ایک سے ایک قابل، عالم اور فاضل شخصیات نے اپنی بساط، فکر اور دانش سے حتی المقدور مختلف گوشوں اور عنوانات سے عہدہ بر آ ہونے کا فریضہ ادا کیا اُس محفل میں عالم دین، شجر داعی اسلام جناب اسحاق زاہد کا بیان ان کی علمی گفتگو اسی سلسلہ حبِ رسولؐ کی ایک کڑی ہے۔
حیدرآباد میں سیرت کی محفلوں کا رواج رہا ہے۔ یہ جلسے بے حد ذوق و شوق سے آراستہ ہوتے ہیں۔ لڑکپن میں جب میں مجلس تعمیر ملت کے آراستہ کردہ جلسہ رحمت اللعالمین کے جلسوں میں شریک ہوتا تو اس دوران ایک سے ایک عالم دین اور مسلم رہنما کا خطاب سنتا تو عجیب سا جذبۂ روحانی جسم اور روح میں موجزن ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ جب خلیل اللہ حسینی مرحوم (اللہ ان پر رحمتوں کی بارش کرے) علامہ اقبالؔ کے اشعار پڑھتے۔ خصوصاً:
وہ دانائے سبل، ختم رسل، مولائے کل جس نے
غبارِ کوہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
تو حاضرین جی اُٹھتے، ان میں تازہ حرارت بھر جاتی اور محفل درودِ پاک سے معطر ہو جاتی۔ اللھُم صلی علی محمد و علی آل محمد۔
سیرت نبویؐ انتہائی پاکیزہ اور بلند پایہ موضوع ہے۔ اس سے ہم مسلمانوں کو یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ دین کن مراحل سے گزرا ہے۔ نبیؐ اور اصحاب نبیؐ پر کیا بیتی۔ اللہ تعالیٰ نے سرکارؐ کو کیوں یہ عزت بخشی اور آپؐ کے ذریعہ وحی کا احسانِ عظیم سارے بنی نوع انسان پر کیا۔ اس دعوتِ جلیلہ کے لیے حضورؐ نے کس طرح حالات کا مقابلہ کیا۔ انصاف کا نظام قائم اور شرک کا قلع قمع کیا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بلا شبہ مجموعۂ خوبی تھے۔ ساری کائنات میں روزِ ازل تا ابد ساری مخلوقات جن اور انس میں اعلیٰ مرتبے پر فائز، سب میں سب سے عظیم، ممتاز، صادق اور بے مثال تھے۔ آپؐ سا نہ کوئی ہوا ہے نہ ہو گا۔ آپؐ پر ہم، ہماری جان و مال، ماں باپ اور سارے لواحقین قربان۔
حضورؐ کی مدحت میں صائبؔ نے کیا خوب کہا ہے:
حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری
انچہ خوباں ہمہ تن تو چہ کہ تنہا داری
واہ، واہ۔ کوئی شک نہیں کہ تمام انبیأ میں چند مخصوص خوبیاں فرداً فرداً تھیں لیکن حضورؐ میں سب ہی خوبیوں کا مظہر تھا کہ وہ اللہ کے نائب اور محسنِ انسانیت تھے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے اس لیے نبی بنایا ہے کہ میں پاکیزہ اخلاق اور نیک اعمال کی تکمیل کروں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قرآن مجید اُنؐ کا خلق ہے۔
حضورؐ کو قرآن مجید میں اللہ نے کس عظمت والے ناموں سے معنون کیا اور رحمت اللعالمین کے خطاب سے بھی نوازا۔ وہ ضلالت کے بعد ہدایت دینے والے اور جہالت کے اندھیروں کو اُجالوں سے روشناس کرنے والے تھے۔ اُنؐ کی اُمت جو اُنؐ کے اُسوۂ اُنؐ کے ارشادات اور ہدایت پر عمل پیرا ہے، بہترین اُمت ہے، جس کا کام لوگوں کو اچھے کاموں کی ہدایت اور بُرے کاموں سے روکنا ہے۔
٭ سرکارِ دو جہاں ختمی المرتبتؐ کی زندگی اور سیرت کے سب عناصر درس بھی دیتے ہیں۔
٭ طفلی میں حلیمہ سعدیہ کے گھر کے واقعات۔
٭ تجارت کے معاملات میں اُنؐ کا صادق اور امین پر تو اور وطیرہ۔
٭ دعوتِ دین کے لیے جد و جہد اور حکمت عملی، اذیت اور مخالفتوں سے برسر پیکار ہونا۔
٭ شعب ابی طالب کی تلخ زندگی۔
٭ معراج کے واقعہ سے شرف عروج حاصل کرنا۔
٭ غزوات اور جنگوں میں دُشمنوں کو ہزیمت دینا وہ بھی کم تر اسباب اور لشکر ہوتے ہوئے، مالِ غنیمت اور قیدیوں کی انصاف پسندانہ تقسیم اور رہائی۔ مکی اور مدنی زندگی کی معرکۃ الآرا میثاقِ مدینہ اور عدل گستری۔ سلطنت الٰہیہ کا قیام، دستور اور انتظامیہ، قاصدوں اور وفود سے دعوت اسلام کی نشر و اشاعت، حکمرانوں سے خط و کتابت۔
٭٭
آپ جس رنگ میں دیکھیں، جس کردار میں دیکھیں، سرکارِ دو عالمؐ افضل ترین ملیں گے۔ اُستاد کی طرح، راہبر کی طرح، رعایا کی طرح، آقا کی طرح، غلاموں اور اسیروں کے سرپرست کی طرح، شوہر کی طرح، بیٹے کی طرح، باپ، رشتہ دار، دوست، یار غار، ہمدرد، شناس، مددگار، کمانڈر، سپاہی، منصف، وعدہ وفا کرنے والے، درد و مرض کا مداوا بتانے والے، مستقبل کی راہ دکھانے والے، جس روپ میں بھی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوہ اور عمل کو دیکھیں گے، آپ اُنؐ کی عظمت کے دل سے معترف ہو جائیں گے۔ سیماب کی زبان میں:
وہ بے اہمال اسرار حقیقت کھولنے والا
خدا کے لفظ انسانی زباں میں بولنے والا
غالب نے کیا خوب کہا ہے:
حق جلوہ گر زِطرزِ بیانِ محمدؐ است
آرے کلام حق، بزبان محمدؐ است!
حضرت محمد مصطفیؐ کے صبر و علم کی ایک مثال واقعہ طائف ہے، جہاں طائف کے بدبختوں نے حضورؐ کو پتھر مار مار کر زخمی اور بے ہوش کر دیا تھا۔ حضورؐ نے تب بھی ان ظالموں پر آفت نازل کرنے روکا، فرشتے کو اس کی اجازت نہیں دی اس اُمید اور تمنا میں کہ ان ہی بدنصیبوں کی اولاد ایک دن ایمان لائے گی اور اُمتِ مسلمہ کا جزو بنے گی۔ اُنؐ کی دور اندیش نگاہ نے اس خوش آئند مستقبل کو دیکھ لیا تھا۔
اُنؐ کے ظاہر وہ باطن بالکل آئینہ کی طرح یکساں تھے۔ وہ علم کے جویا تھے، اہلِ علم کو وقار بخشے اور اُنؐ کی وقعت کو نکھارتے تھے، وہ بہ ذاتِ خود سرچشمۂ علم و عرفان تھے۔
اُنؐ کے رہنمایانہ فیصلوں، حکمت عملی، سوجھ بوجھ اور انصاف کی دلیلیں، غزوات، بیعت رضواں، میثاقِ مدینہ، فتحِ مکہ کے واقعات میں ملیں گے۔ اُنؐ کا طرزِ کلام راست، حق گوئی، غیر ژولیدہ زبان، فصاحت اور بلاغت کو توازن کے ساتھ استعمال، مثالوں اور تشابیہ سے مزین، خوش کلامی اور مہذب لب و لہجہ سے آراستہ تھا۔ اُنؐ کی خطابت نپی تلی، بے حد متوازن اور پُر مغز ہوتی جو جذبۂ دینی، شوقِ بندگی اور خرافات سے بیزار صالح فکر کی نمائندہ ہوتی۔
ہم خود ہی سوچیں، عام زندگی میں شرک اور عقائدِ فاسدہ سے آزردہ ہو کر کون غار میں بیٹھ کو غور و فکر کر سکتا ہے، سرکارؐ کی غارِ حرا میں بار بار جا کر تنہائی میں یہ درد مند سوچ ہم سب کے لیے نادر قابلِ توجہ مثال ہے۔
حضرت آسی غازی پوری نے کیا خوب کہا ہے: ’’ محالِ خرد ہے مثالِ محمدﷺ‘‘
سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے کسی میں یہ تاب و تواں یہ قوتِ گویائی یہ الفاظ کا خزینہ نہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کا ذکر و بیاں کامل طور پر کر سکیں۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے
٭٭٭