عزیز نبیل (قطر)
لہجے میں روشنی کا سمندر لئے ہوئے
وہ آدمی تھا نور کا پیکر لئے ہوئے
جذبِ درونِ ذات کی کوشش میں بارہا
خود اپنی سمت لپکا ہوں پتھّر لئے ہوئے
میں بھی رواں ہوں جانبِ تشنہ لبانِ دشت
اپنے جلو میں سات سمندر لئے ہوئے
جب بھی فلک نے پھینکا ہے مجکو زمیں کی سمت
اترا ہوں شہرِ انجم و اختر لئے ہوئے
ہر آدمی غریقِ غمِ روزگار ہے
کاندھوں پہ اپنا اپنا مقدر لئے ہوئے
میں قافلے سے پیچھے بہت دور رہ گیا
آنکھوں میں ایک ڈوبتا منظر لئے ہوئے
عزیز نبیل
زندگی درد اضافی چاہے
مرے جینے کی تلافی چاہے
تری دیوار سے سر پھوڑ لیا
اب کوئی کتنی معافی چاہے
جسم جو ٹوٹ گیا ، ریزہ ہوا
پھر تری وعدہ خلافی چاہے
میں کہ اک کانچ کے ٹکرے جیسا
اور وہ سنگ شگافی چاہے
اور کچھ راس نہیں آتا ہے
دل وہی چشم غلافی چاہے
عزیزنبیل
وحشت کے اس شور کو مجھ میں مرجانے دے تھوڑی دیر
سوکھ گیا ہے سوچ کا دریا بھر جانے د ے تھوڑی دیر
کب تک دشت نوردی یارب؟ کتنے جنگل کاٹوں گا؟
اچھا لوٹ کے آجاوئں گا گھر جانے دے تھوڑی دیر
ٹھنڈی رات اور ماہِ دسمبر ، ٹوٹا پھوٹا میرا گھر
تاریکی میں چھولے آکر ڈرجانے دے تھوڑی دیر
تیری یاد میں تارے گنتے بیت گئی ہے ساری رات
صبح ہوئی ، وہ سورج نکلا مرجانے دے تھوڑی دیر
کوئی نیا اندازِجفا اے کوچہء جاں کے باشندے
تشنہ آنکھین جان بہ لب ہیں بھرجانے دے تھوڑی دیر
اُس کوچے سے جو بھی گذرے پاگل ہوجاتا ہے نبیل
مجکو خبر ہے ساری حقیقت ، پر جانے دے تھوڑی دیر
عزیزنبیل
تمام شہر تھا جلّاد جادوگر کی طرف
میں تک رہا تھا خموشی سے شہر بھر کی طرف
ہماری دشت نوردی کا کچھ حساب ملے
یہ کیا کہ عمر کٹی اور اپنے گھر کی طرف
الجھتے زاویئے سب خطِّ مستقیم ہوئے
سبھی لکیروں کو جانا تھا مستقر کی طرف
اک اضطرابِ مسلسل ہے ہمسفر میرا
رواں ہوں دائرہ در دائرہ بھنور کی طرف
یہی تھا جرم کہ سچ بولنے لگا تھا میں
سو پتھروں کی تھی بوچھار میرے گھر کی طرف
دھواں دھواں ہے بہت روشنی کا ہر لمحہ
سلگ رہا ہے اندھیرا رخِ سحر کی طرف