ناول کا فن زندگی کی پیشکشی کا فن ہے۔ ناول ادب کی ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں زندگی کی بے کراں وسعتوں کو ناول نگار اس انداز میں سمیٹتا ہے کہ اس کے مختلف پہلو سامنے آ جاتے ہیں، وارث علوی ناول کے فن اور ناول نگار کے منصب کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
’’ناول کا آرٹ شاعری سے کہیں زیادہ جمہوری آرٹ ہے ناول میں پورا انسانی سماج اپنی تمام Grossness کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ناول نگار کیلئے ضروری ہے کہ وہ بدصورت اور خوبصورت، نیک اور بد، خوش اخلاق اور بد اخلاق، مخلص اور کینہ پرور، بے رحم اور رحم دل، صاف ستھرے اور گندے، غریب اور امیر سب لوگوں کی زندگی اور ان کے رہن سہن اور طور طریقوں سے واقف ہو، ناول نگار تو گھر کا بھیدی ہوتا ہے۔ جو لنکا ڈھاتا ہے کن سوئیاں لیتا ہے اسے آرٹ میں Transform کر دیتا ہے۔ ناول نگار بنیادی طور پر Humanist ہوتا ہے ‘‘۔ ۱۷۵؎
اردو میں پریم چند کے ساتھ ناول نگاری عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ پریم چند نے اردو ناولوں کو اس موڑ پر لا کھڑا کر دیا تھا جہاں سے اس کی ترقی کی راہیں دور دور تک جا سکتی تھیں، پریم چند کے بعد ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو ناول نگاری کے میدان میں کئی انقلابی تبدیلیاں آئیں، انسانی زندگی کے گوناگوں مسائل حقیقت نگاری کے ساتھ پیش ہونے لگے، ناول کے موضوعات میں جدت کے ساتھ مغربی ناول کے اثرات کو بھی قبول کیا گیا۔ پریم چند، کرشن چندر، منٹو اور عصمت کے ساتھ ساتھ اردو کے مشہور ناول نگاروں کی فہرست میں ایک اہم نام عزیز احمد بھی ہے۔
عزیز احمد کی ناول نگاری کا دور 1931ء سے 1966ء تک ہے۔ اس درمیان انہوں نے آٹھ ناول اور چند ناولٹ لکھے۔ پچھلے صفحات میں انفرادی طور پر عزیز احمد کے ناولوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس باب میں اُن کے ناولوں کی فنی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ ناول کے فن کے پس منظر میں پیش کیا جا رہا ہے۔
موضوعات:۔ عزیز احمد نے ایک ایسے وقت ناول نگاری شروع کی تھی جب سماج میں پرانی قدروں کی شکست و ریخت جاری تھی اور ان کی جگہ نئی قدریں مقبول ہو رہی تھیں ترقی پسندی اور مغرب پرستی کا رواج عام ہو رہا تھا- عزیز احمد نے اپنے زمانہ طالب علمی میں انگریزی کے مشہور ادیبوں ڈی ایچ لارنس، اور فارسٹر کا گہرائی سے مطالبہ کیا تھا اور اسی مطالعہ کے تاثر کے طور پر انہوں نے اپنے ابتدائی دو ناول ’’ہوس اور مرمر اور خون‘‘ تحریر کئے جن میں سستی جذباتیت کے ساتھ سطحیت پائی گئی ہے۔ عریانیت اور مشرقی اقدار سے بیزارگی دکھائی گئی ہے، ان ناولوں میں پایا گیا، جنسی پہلو آگے چل کر عزیز احمد کے محبوب پہلو بن جاتا ہے، ’’گریز‘‘ ’’آگ‘‘ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ ’’شبنم‘‘ اور ’’برے لوگ‘‘ سبھی ناولوں میں عزیز احمد کسی نہ کسی طرح اس موضوع کو پیش کر ہی دیتے ہیں ۔ ناول ’’گریز‘‘ میں عزیز احمد نے عریانیت کو آرٹ کے طور پر پیش کیا ہے۔ نعیم حسن کا مغربی لڑکیوں سے تعلق قائم کرنا اردو ناولوں کیلئے ایک نیا تجربہ ہے۔ عزیز احمد کے عہد میں جنس کا بیباکی سے اظہار معیوب سمجھا جا تا تھا، چنانچہ اس عہد کے نقادوں نے ان کی جنس نگاری پر کھل کر نکتہ چینی کی لیکن جدید اردو تنقید میں عزیز احمد کی عریانیت اور جنس نگاری کو ایک آرٹ کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے۔ اسلم آزاد کے بموجب :۔
’’عزیز احمد چونکہ جنسی اور ذہنی طور پر مریض نہیں ، اس لئے ان کے یہاں عریانی تو ہے لیکن فحش نگاری نہیں، ان پر فحش بیانی کا الزام لگا کر ان کے ناولوں کی اہمیت سے انکار کرنا اپنی تنگ نظری اور حجت پسندی کا ثبوت پیش کرنا ہے ‘‘۔ ۱۷۶؎
عزیز احمد کے دیگر موضوعات میں معاشرہ کے متوسط اور طبقہ اعلیٰ کے افراد کی زندگی کی کشمکش کا بیان شامل ہیں۔ ’’آگ‘‘ میں کشمیری عوام کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ اور ’’شبنم‘‘ میں حیدرآبادی معاشرہ کے طبقہ امراء اور متوسط طبقہ کی زندگی کی کشمکش جن میں ازدواجی زندگی کے مسائل، نوجوان لڑکیوں کے غیر یقینی مستقبل محبت میں ناکامی وغیرہ کو پیش کیا ہے۔ ’’برے لوگ‘‘ میں تقسیم ہند کے اثرات کو فنکاری سے پیش کیا ہے۔ ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ میں عزیز احمد نے برطانیہ میں مقیم تارکین وطن کے مسائل کو پیش کیا ہے۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ عزیز احمد نے اپنے ناولوں کے موضوعات اپنے اطراف کے سماج و معاشرہ سے لئے ہیں اس لئے ان میں حقیقی زندگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ عزیز احمد پر یہ اعتراض رہا ہے کہ انہوں نے زندگی کے بعض اہم مسائل سے پردہ پوشی کی ہے۔ احتشام حسین لکھتے ہیں :۔
’’اُن کی سب سے بڑی بھول یہ ہے کہ وہ جنسی زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے زندگی کے دوسرے بڑے بڑے مسئلوں کی طرف سے آنکھ بند کر لیتے ہیں ‘‘۔
یہ اعتراض کچھ حد تک واجبی سہی لیکن عزیز احمد نے اپنے لئے ایک مخصوص موضوع کا انتخاب کیا تھا اور اس موضوع پر انہوں نے اپنی مہارت اور فنکاری کا ثبوت پیش کیا ہے۔
پلاٹ:۔ ناول میں واقعات کو ایک مربوط کڑی میں جوڑنے کا نام پلاٹ ہے۔ گتھا ہوا مربوط پلاٹ کسی ناول کی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ عزیز احمد کے بیشتر ناولوں میں پلاٹ مربوط پایا گیا ہے۔ اور ان میں واقعات ربط و تسلسل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ عزیز احمد کرداروں کی نفسیاتی تحلیل، تجزیہ اور جذبات کے اظہار کے وقت بھی ناول کے مرکزی خیال سے بھٹکتے نہیں، ناولوں میں پیش کردہ ضمنی کردار پلاٹ کو پھیلانے میں مدد دیتے ہیں، چنانچہ ’’گریز‘‘ اور ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں کرداروں کی ایک طویل فہرست کے باوجود ناول کی مرکزی اہمیت اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ ’’شبنم‘‘ میں شبنم اور ارشد کے خطوط کی ایک طویل فہرست کے علاوہ دانش کے خطوط ناول کے پلاٹ میں جھول کاسبب بنتے ہیں۔ جس سے ناول کمزور پڑ جاتا ہے۔ ڈاکٹرسلیمان اطہر جاوید کو عزیز احمد کے ناولوں میں پلاٹ بہت کم دکھائی دیتے ہیں وہ کہتے ہیں :
’’اُن کے ناولوں کو (Deplot) ناول کہا جا سکتا ہے وہ پلاٹ پر بنیادی توجہ نہیں دیتے، وہ اپنے طور پر ناول کے تانے بانے بنتے، واقعات کو ترتیب دیتے ہیں اور ابواب کو تحریر کرتے جاتے ہیں ‘‘۔ ۱۷۷؎
یہ بات کچھ حد تک صحیح نہیں ہے۔ عزیز احمد کے ناول چونکہ نفسیاتی ہوتے ہیں۔ اس لئے ان میں واقعات کی کمی ہوتی ہے۔ اور نفسیاتی کشمکش زیادہ، بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ عزیز احمد سوچے سمجھے بغیر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں لیکن بنیادی طور پر عزیز احمد کے ناولوں میں پلاٹ پایا جاتا ہے جو کسی ناول میں واضح نہیں ہوتا۔
کردار نگاری:۔ عزیز احمد کی ناول نگاری کا سب سے اہم وصف ان کی اعلی پائے کی کردار نگاری ہے۔ عزیز احمد نے اپنے ناولوں کیلئے حقیقی زندگی کے کردار لئے ہیں، اور ان کی زندگی کی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ انیس قیوم فیاض لکھتی ہیں :۔
’’عزیز احمد اپنی بے پناہ حقیقت نگاری کی وجہہ سے اپنے فن میں آفاقیت یا عمدیت پیدا کرتے ہیں ، وہ اپنے کرداروں کو زندہ اور متحرک پیش کرنے میں بہت زیادہ قدرت رکھتے ہیں وہ افراد ہی کو نہیں بلکہ ان کے احساسات اور جذبات کو بھی اس درجہ یقین آفرینی اور حقیقی انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ہر انسان کو اس آئینہ میں اپنی صورت نظر آتی ہے ‘‘۔ ۱۷۸؎
عزیز احمد کے ناولوں میں زیادہ تر مرد کرداروں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ’’ہوس‘‘ میں نسیم، ’’گریز‘‘ میں نعیم اور ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں سلطان حسین سبھی کو عزیز احمد نے مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے یہ کردار بعض مخصوص صفات کے حامل ہوتے ہیں یہ تمام کردار نوجوان تعلیم یافتہ اور شہری زندگی والے ہیں لیکن یہ سب یا تو جنسی طور پر مریضانہ ذہنیت کے حامل ہیں یا محبت کے غیر فطری رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں، ایک سے زیادہ لڑکیوں سے تعلقات رکھنا، انہیں اپنے فریب محبت میں گرفتار کرنا پھر انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دینا ان کا مشغلہ ہے، یہ سبھی کردار شادی کو گراں سمجھتے ہیں اور اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کیلئے غلط راہوں پر چل پڑتے ہیں اور انجام کار عبرتناک سزا پاتے ہیں یا یاس و امید کی کیفیت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ گریز میں نعیم ہندوستان اور یورپ کے کئی شہروں میں محبت رچانے کے بعد جب پھر ہندوستان واپس آتا ہے تو اس کی پہلی محبت بلقیس کسی اور کی ہو جاتی ہے اور وہ شادی کی آس لئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔
عزیز احمد کے ناولوں میں نسوانی کرداروں کا تعلق بھی نوجوان طبقہ سے ہے ان میں سے ’’شبنم‘‘ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اس کے علاوہ ’’ہوس‘‘ کی زلیخا، مرمر اور خون میں عذرا، ’’گریز‘‘ کی بلقیس، برے لوگ کی شمع اور نسرین ایسی نوجوان لڑکیاں ہیں جو فریب محبت میں گرفتار ہو کر اپنی عصمت و عفت گنوا بیٹھتی ہیں، یہ تمام نسوانی کردار مرد کے استحصال کا نشانہ بنتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں نور جہاں اپنے شوہر کی بے وفائی کا شکار ہوتی ہے ان تمام کرداروں کا تعلق معاشرہ کے ایسے متوسط طبقہ سے ہے جس کے پاس تعلیم تو ہے لیکن اخلاقی اقدار کی کمی سے ’’آگ‘‘ میں زون اور فضلی کے کردار نچلے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو طبقہ بالا کے افراد کے استحصال کا شکار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ عزیز احمد کے ناولوں میں کردار یا تو طبقہ امراء سے تعلق رکھتے ہیں یا متوسط طبقہ سے یہ تمام کردار شہری زندگی کی گہما گہمی میں کھوئے نظر آتے ہیں۔ عزیز احمد نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا تھا ان میں نچلے طبقہ کے یا مزور طبقہ کے کرداروں کو اہمیت حاصل نہیں پھر بھی انہوں نے ’’آگ‘‘ اور ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں مزدوروں کی محنت کش زندگی کو پیش کیا ہے۔ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ کا ایک منظر پیش ہے۔
’’اور وڈروں کے علاوہ اور کئی طرح کے مزدور تھے۔ دھیڑ، پاردہی، لمباڑے، لمباڑنیاں، تبتی اور کشمیری قسم کا لباس، بیشمار چوڑیاں لمبے لمبے لہنگوں پر بے شمار کانچ کے تکڑے یا پتھر ٹانکے اپنے خدوخال میں ادب بھی جا بجا منگول آثار دکھاتی ہوئی، اپنے کام میں مصروف تھیں، اور مستریوں اور داروغوں کے کام آ رہی تھیں ‘‘۔ ۱۷۹؎
عزیز احمد کے ناولوں میں معمر کردار یا تو والدین کی شکل میں ہیں یا اساتذہ یا دوست احباب کی شکل میں جو ناول کے پیش کردہ ماحول کا صرف ایک حصہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ عزیز احمد نے موضوعات کی طرح اپنے ناولوں کے کردار بھی حقیقی زندگی سے لئے ہیں اور یہ کردار ناول نگار کی قید سے آزاد ہو کر فطری طور پر ارتقاء پاتے ہوئے انجام کو پہنچتے ہیں ، اسلم آزاد کے بموجب:۔
’’ان کے کردار عورت اور شراب کے رسیا تو ہوتے ہیں لیکن اپنے کرداروں کی نفسیات سے کماحقہ، واقف ہونے کے باعث ان کی داخلی زندگی کے مد و جزر کی تصویر کشی میں بھی ورک کرتے ہیں ‘‘۔ ۱۸۰؎
جذبات نگاری:۔ عزیز احمد کے ناولوں میں جذبات نگاری کے اعلیٰ نمونے پائے جاتے ہیں۔ کوئی ناول نگار سچے اور حقیقی جذبات کا اظہار اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک وہ خود کرداروں کے خوشی یا غم میں ڈوب نہ جائے۔ عزیز احمد نے خوشی اور غم، دونوں طرح کے جذبات کی پیشکشی میں فنکاری کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے خاص طور سے مظلوم عورتوں کے دکھ بھرے جذبات کو اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں سلطان حسین اپنی بیوی نورجہاں کو تھپڑ مارتا ہے تو وہ جذبات سے مغلوب ہو جاتی ے۔ آ سکے جذبات ملاحظہ ہوں۔
’’جب تم مجھے آوارہ، بدمعاش، رنڈی سمجھتے ہوتو پھر مجھے اپنے گھر لے جاکر کیا کرو گے اور جب تم سے کہہ چکی ہوں، تمہاری سزا یہی ہے کہ تم کو سچ مچ کوئی آوارہ بدمعاش بیوی ملتی میں کیا کروں مجبور ہوں، میں آوارگی اس لئے نہیں کرتی کہ مجھے تمہاری تو بالکل نہیں بلکہ اپنے ماں باپ کی عزت کا خیال ہے، لوگ یہ نہ کہیں کہ سنجر بیگ کی بیٹی ایسی ہے، نہیں تو میں تم کو سزا دیتی‘‘۔ ۱۸۱؎
اسی طرح ’’برے لوگ‘‘ میں تقسیم ہند کے فسادات سے متاثرہ نسرین کے غمزدہ جذبات کی پیشکشی میں بھی عزیز احمد نے حزنیہ انداز اختیار کیا ہے۔ ’’شبنم‘‘ میں ارشد علی خان اور شبنم کے مابین خطوط میں عزیز احمد نے دو عاشقوں کے دلی جذبات کی داستان پیش کی ہے۔ انہیں کرداروں کی نفسیات کا پورا اندازہ ہوتا ہے اور کرداروں کی نفسیات کی مناسبت سے جذبات پیش کرتے ہیں۔
واقعہ نگاری:۔ عزیز احمد کے بیشتر ناول نفسیاتی یا معاشرتی پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے ان ناولوں میں واقعات یا قصہ اہم نہیں ہوتا، ’’ہوس‘‘ ’’مرمر اور خون‘‘ ’’گریز‘‘ ’’شبنم‘‘ ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ ان تمام ناولوں میں عزیز احمد نے اپنے معاشرہ کے نوجوانوں کے کرداروں کی ذہنی کشمکش اور نفسیاتی الجھنوں کو پیش کیا ہے۔ ’’آگ‘‘ میں بظاہر تین نسلوں کی کہانی ہے لیکن اس کے پس منظر میں کشمیر کی زندگی وہاں کی تہذیب و معاشرت کی پیشکشی اہمیت کی حامل ہے۔ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں طبقہ امراء کے دو کرداروں سلطان حسین اور نور جہاں کی ازدواجی زندگی واقعہ کے انداز میں پیش ہے لیکن اس ناول میں بھی قصہ سے زیادہ حیدرآبادی معاشرہ کی زوال پذیری دکھانا اہم ہے۔ واقعہ نگاری کے لحاظ سے ان کا ایک ناول ’’برے لوگ‘‘ اس لئے اہم ہے کہ اس ناول کے آخر میں مرد اور نسوانی کردار عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے بعد الگ نہیں ہو جاتے بلکہ شادی کیلئے رضامندی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ بات تعجب خیز اس لئے ہے کہ عزیز احمد کے پچھلے ناولوں میں مرد کردار ناول کے انجام پر بھٹکتے دکھائی دیتے ہیں۔ عزیز احمد نے جس معاشرہ کی زندگی پیش کرنے کیلئے ناول لکھے ان میں کچھ ایسے ہی واقعات پیش ہوئے تھے، معاشرتی ناول جیسے ’’آگ‘‘ میں قصہ پن مفقود ہونے کی وجہہ سے ناول میں دلچسپی کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے بہرحال عزیز احمد اپنے نفسیاتی اور معاشرتی ناولوں میں جو بھی واقعات بیان کرتے ہیں وہ اپنے موضوع سے میل کھاتے ہیں۔
مکالمہ نگاری:۔ عزیز احمد کے ناولوں میں مکالمے بہت کم پائے جاتے ہیں حالانکہ مکالموں کے ذریعہ کردار کی تعمیر میں آسانی ہوتی ہے لیکن یہ کام عزیز احمد نے ان کی نفسیات کی پیشکشی کے ذریعہ کیا ہے۔ مکالموں سے زیادہ کرداروں کی خود کلامی اور ان کے داخلی جذبات کو اہمیت دی ہے، لیکن جہاں جہاں مکالمے پیش کئے ہیں وہاں انہوں نے کرداروں کی مناسبت سے مکالمے لکھے ہیں۔ حیدرآباد کے نچلے طبقہ کے لوگوں کی گفتگو میں دکنی انداز شامل ہے۔ تو کشمیر کے لوگوں میں وہاں کا مقامی رنگ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے عمیق مشاہدے سے کام لیا ہے اگر کرداروں کی مناسبت سے مکالمے نہ لکھے جائیں تو وہ کردار مصنوعی دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم آزاد اس سلسلہ میں لکھتے ہیں :۔
’’ان ناولوں کے مکالموں میں کوئی جملہ بھی فاضل یا غیر ضروری استعمال نہیں کیا گیا۔ الفاظ کے استعمال میں کفایت اور جامعیت ہے، جملے بے باک تو ہوتے ہیں مگر جچے تلے، ان کے ذریعہ کردار کی ذہنی کیفیتوں تک پہنچنا بہت سہل ہو جاتا ہے۔ مکالموں کے ذریعہ وہ تنقید بھی کرتے جاتے ہیں اور اپنے نقطہ نظر کی محتاط انداز میں وضاحت بھی‘‘۔ ۱۸۲؎
زمان و مکان:۔ عزیز احمد کے ناول اپنے فن پر کھرے اس لئے بھی اترتے ہیں کہ ان میں ناول نگاری کی بیشتر فنی خصوصیات اعلیٰ پیمانہ پر پائی جاتی ہیں۔ ان خصوصیات میں سے ایک زمان و مکان میں اتحاد پیش کرنا ہے۔ انہوں نے اپنے ناولوں کا بیشتر مواد اپنے اطراف کی زندگی اور ان مقامات سے لیا ہے جہاں انہوں نے سفر کیا تھا۔ عزیز احمد کے ابتدائی ناولوں ’’ہوس‘‘ مرمر اور خون میں اپنے آبائی وطن عثمان آباد اور حیدرآباد کی جھلک ملتی ہے۔ جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں حیدرآباد کے طبقہ امراء اور شبنم میں متوسط طبقہ کے لوگوں کی زندگی پیش کی ہے۔ ’’گریز‘‘ میں یوروپ کی زندگی کو اس لئے پیش کیا ہے کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کیلئے یورپ میں کچھ عرصہ قیام کیا تھا چنانچہ لندن، پیرس، روم، ملان اوردوسرے بڑے یورپی شہروں وہاں کے بازاروں، کلبوں، درسگاہوں کے حقیقی نقشے پیش کئے ہیں ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ میں لندن کی تیز رفتار زندگی پیش کی ہے۔
عزیز احمد اپنی ملازمت کے دوران کچھ عرصہ کشمیر میں مقیم تھے، چنانچہ ’’آگ‘‘ میں انہوں نے کشمیر کی زندگی وہاں کی جھیلوں، شکاروں، ہاؤس بوٹوں سے متعلق جزئیات کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ عزیز احمد ان مقامات کے مناظر اور وہاں کے لوگوں کی زندگی کی پیشکشی کے ساتھ ساتھ اس وقت کی ملکی و غیرملکی تاریخ سیاسی و سماجی عوامل اہم واقعات کا ذکر بھی کرتے جاتے ہیں، اور اپنے ناول میں پیش کردہ مقامات کو اس وقت کے عہد سے مطابقت عطاء کرتے ہیں۔
’’آگ‘‘ میں 1910ء سے 1945ء کے درمیانی حالات پیش کئے ہیں اس عرصہ میں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تحریک، ہندوستان چھوڑ دو تحریک، جلیان والا باغ کے واقعہ کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے سلسلہ میں کانگریس اور مسلم لیگ کے اختلافات کا ذکر کرتے ہیں وہیں پر جنگ عظیم کے اثرات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ’’گریز‘‘ میں طالب علموں کی زبانی اپنے وقت کے سیاسی حالات دراصل عزیز احمد اپنی علمی قابلیت کی بناء پیش کرتے ہیں۔ ’’شبنم‘‘ میں انہوں نے ریاست حیدرآباد کا ہند یونین میں انضمام اور مسلمانوں کی پاکستان ہجرت کے اہم تاریخی واقعہ کو پیش کیا ہے۔ عزیز احمد کے اس تاریخی شعور کے سبب ان کے ناول ایک طرح سے تاریخی دستاویز بن جاتے ہیں۔
معاشرہ نگاری:۔ عزیز احمد نے ناولوں میں اپنے عہد کی معاشرت کی جیتی جاگتی تصویریں ملتی ہیں، لوگوں کا رہن سہن، لباس، رسوم و عقائد، شادی بیاہ، علمی و ابی محفلوں کی نشست وبرخاست ان سب باتوں کے نمونے عزیز احمد کے ناولوں میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر حیدرآبادی معاشرے کی تصویر کشی میں انہوں نے فنکاری دکھائی ہے، عزیز احمد، جامعہ عثمانیہ میں زمانہ طالب علمی سے پروفیسری تک طویل عرصہ حیدرآباد میں قیام کیا تھا اسی دوران کچھ عرصہ کیلئے وہ نواب حیدرآباد کی پوتی در شہوار کے سکریٹری بھی رہے تھے اس طرح انہیں حیدرآباد کے متوسط طبقہ اور طبقہ بالا دونوں کو قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا تھا۔ چنانچہ اس طبقہ کی معاشرت کی تصویر کشی میں انہوں نے حقیقت نگاری سے کام لیا ہے آگ میں کشمیری معاشرہ کے تہذیب و تمدن وہاں کے شادی بیاہ کے رسومات کا اس انداز سے جائزہ لیا ہے کہ ناول پڑھنے کے بعد کشمیری تہذیب و تمدن سے واقفیت حاصل ہو جاتی ہے معاشرتی پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے عزیز احمد جزئیات نگاری سے کام لیتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید کے بموجب:
’’بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ عزیز احمد نے ناول نہیں لکھا ہے اپنے عہد کی معاشرت اور تہذیب کو صفحہ قرطاس پر رقم کر دیا ہے۔ حیدرآباد کی معاشرت کی ایسی بے لاگ، حقیقی اور روشن تصویریں اردو ناولوں میں اور کم ہی ملتی ہیں، شادی بیاہ کی تقاریب ہوں یا احباب کی عام محفلیں، جاگیردارانہ ماحول ہویا متوسط طبقہ کے حال چال، مزدوروں اور نچلے طبقات کی گزر بسر ہو یا کوئی اور پہلو۔ ۔ ۔ ۔ کسی بھی دور، سطح یا طبقہ کی تہذیب و معاشرت کو بیان کرتے ہوئے وہ ممکنہ تفصیل سے کام لیتے ہیں۔ گویا وہ ناول نگاری نہیں معاشرت نگاری میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں ‘‘۔ ۱۸۳؎
منظر نگاری:۔ عزیز احمد کے ناولوں میں منظر نگاری کے نمونے خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ مرمر اور خوں میں صبح شام کے مناظر، تالاب کی خوبصورتی کو دلچسپ تشبیہوں کے ساتھ پیش کئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیری جھیلوں میں گندگی، وہاں کے غریب عوام کی پستی سے متعلق مناظر بھی پیش ہیں۔ ’’آگ‘‘ میں ایک خوبصورت منظر عزیز احمد یوں پیش کرتے ہیں :
’’سامنے تخت سلیمان پر سرمئی دھند کی رنگ کا بادل اپنے لطیف رومانی لمس کے ساتھ ساتھ دائیں طرف ہٹ رہا تھا۔ پیچھے کی پہاڑی سلسلہ کی چوٹیاں گہرے سرمئے رنگ کے بادلوں میں چھپ گئی تھیں، جن میں ایک شگاف سے مہا ویر کی سفید برفانی مانگ نظر آ رہی تھی، دوسری طرف سورج کی ہلکی سنہری شعاعیں بڑی ندی اور دلگداز شفقت سے پیر پنجال کے سربفلک برف پر چمک رہی تھیں اور اس طرف دور دور تک کوئی بادل نہیں تھا‘‘۔ ۱۸۴؎
اسلوب:۔ عزیز احمد نے اپنے ناولوں میں بیانیہ اسلوب اختیار کیا ہے وہ واقعات، جذبات اور نفسیاتی کیفیتوں کو ان کے حقیقی رنگ میں بیان کرتے جاتے ہیں، حیدرآباد سے تعلق ہونے کے باوجود ان کی زبان میں دکنی کا اثر زیادہ نہیں، چند ایک کرداروں کی زبان دکنی بول چال پیش کی ہے، ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید ان کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
’’ان کے ہاں نہ زباں و بیان میں جھول نہیں ملے گا۔ بجز اظہار کی بات بھی نہیں کہی جا سکتی وہ الفاظ کے انتخاب میں بیحد محتاط ہوتے ہیں ان کا انداز تحریر رواں ہے ‘‘۔ ۱۸۵؎
عزیز احمد نے اپنے ناولوں میں مواد کی پیشکشی کیلئے خطوط، ڈائری، اشعار، واحد متکلم اور دوسرے طریقوں کو اپنایا ہے ’’گریز‘‘ میں ڈائری اور خطوط کی ٹیکنک ملتی ہے۔ ’’شبنم‘‘ میں خطوط کی بہتات ہے۔ اس کے ساتھ غزل، نظم اور دوسرے شعراء کے منتخب اشعار کے ذریعہ مواد کو پیش کیا ہے۔ عزیز احمد اپنے ناولوں میں جگہ جگہ اپنے فلسفیانہ خیالات پیش کرتے ہوئے اسلوب کو اثر انگیز بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عزیز احمد کے فلسفیانہ خیالات ایک طرح سے ان کے مخصوص نظریات ہیں جن کا پرچار انہوں نے اپنے ناولوں میں جا بجا کیا ہے۔ ان خیالات میں عزیز احمد نے اپنی علمی قابلیت اور زندگی کے تجربوں کو سمودیا ہے۔
’’ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ کذب و افتراء دروغ و مصلحت کی تاریک نقابوں میں اس قدر چھپی ہوتی ہے کہ سچائی ہر ہر قدم پر تلاش میں ناکام ہو کر ٹھوکریں کھاتی اور گرتی جاتی ہے ‘‘۔ ۱۸۶؎
’’مگر اب مجھے یقین آیا ہے کہ خدا کی چکی آہستہ پستی ہے مگر بہت باریک پستی ہے ‘‘۔ ۱۸۷؎
اس طرح کی بہت سی سبق آموز باتیں، تجربات زندگی عزیز احمد کے اسلوب میں جان ڈال دیتے ہیں۔ عزیز احمد نے اپنی ناول نگاری میں جگہ جگہ تحلیل نفسی کے اصول برتے ہیں۔ اور بعض جگہ انہوں نے شعور کی رو کی ٹیکنک استعمال کی ہے۔ عزیز احمد نے سگمنڈ فرائڈ کے فلسفہ نفسیات اور فلسفہ جنس سے متاثر ہو کر کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کیا ہے۔ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں سریندر کی خود کلامی کے ذریعہ ماضی کی باتوں کو یاد کرنا، شعور کی روکی ٹیکنک کی بہترین مثال ہے۔ عزیز احمد کو ناول نگاری کے فن پر عبور حاصل تھا۔ اور بہت سے ناقدین فن نے ان کی ٹیکنک کی داد دی ہے۔ احسن فاروقی لکھتے ہیں :۔
’’عزیز احمد کا ٹیکنک پر قابو داد کے قابل ہے۔ ان کے مطالعے اور علم نے اس معاملے میں ان کی پوری مدد کی اور اردو ناول کا ٹیکنکی معیار انہوں نے بہت بلند کیا۔ اس معاملے میں وہ عصمت اور کرشن چندر دونوں سے آگے ہیں ‘‘۔ ۱۸۸؎
عزیز احمد کے ناولوں سے آگے آنے والے ناول نگاروں کو نئی راہیں ملیں اور اردو ناول میں نئے نئے تجربے ممکن ہوسکے۔
نظریہ حیات:۔ عزیز احمد کے ناولوں میں عام طور سے نوجوان طبقے کو اپنے عہد کے آئینے میں پیش کیا گیا۔ یہ وہ عہد تھا۔ جس وقت مغرب سے آئی ہر نئی بات کو آنکھوں پر بٹھایا جا رہا تھا۔ چنانچہ ناول میں بھی، پرانے فرسودہ موضوعات کی جگہ ایسے موضوعات کو جگہ دی گئی جن میں نوجوانوں کے جذبات، ان کی نفسیاتی کشمکش کی عکاسی ہوتی ہے۔ جنس کے موضوع کو بے باکی سے پیش کیا گیا۔ عزیز احمد نے بھی اپنے ناولوں کے موضوعات میں تبدیلی لاتے ہوئے جدت طرازی کی۔ اور چند مخصوص نظریہ ہائے حیات کو پیش کیا۔ ان کے ناولوں میں زندگی کے معنی عیش و عشرت دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے تقریباً سبھی نوجوان کردار شراب اور عورت کے رسیا، عیش پرست واقع ہوئے ہیں۔ عزیز احمد نے اپنے ناولوں میں مشرق کی اعلیٰ قدروں سے بیزارگی دکھائی ہے۔ ’’ہوس‘‘ میں وہ پردے کو لڑکیوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ مرد کردار معاشرے کے بنیادی و فطری تقاضوں سے جی چراتے دکھائی دیتے ہیں۔ عزیز احمد کے ناولوں کو پڑھنے کے بعد نوجوان قاری کے بھٹکنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ شراب نوشی اور دوسری سماجی برائیوں کی طرف ترغیب ہوتی ہے۔ ان چند موضوعاتی خامیوں اور معاشرتی نقطہ نظر سے منفی انداز فکر کے باوجود فنی حیثیت سے عزیز احمد کے ناول اردو ناول نگاری میں ایک اہم جوڑ کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہاں سے اردو ناول نگاری نئی روایات کے ساتھ کشاں کشاں آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔
عزیز احمد نے اپنی زندگی کے آخری بیس برسوں میں اردو میں کوئی اور ناول نہیں لکھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو انگریزی ادب اور اسلامیات کیلئے وقف کر دیا تھا۔ انگریزی میں ان کی بہت سی شاہکار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے بعض ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ اگر عزیز احمد ناول نگاری جاری رکھتے تو ان کے اور شاہکار ناول منظر عام پر آ سکتے تھے۔ بہرحال عزیز احمد نے اردو میں جتنے بھی ناول لکھے وہ اردو ناول کی تاریخ میں ہمیشہ اپنی بے باکی اور جدت طرازی اور موضوعات میں ندرت کی وجہہ سے جانے جائیں گے۔ اور جب بھی اردو ادب یا اردو ناول کی تاریخ مرتب ہو گی اس میں عزیز احمد کا نام نمایاں ہو گا۔