نسرین نے حبیب خان کے خوب کان بھڑے اور نتیجہ یہی نکلا کہ بس اب اُس کا سادگی سے نکاح ہو گا اور رُخصت کیا جاۓ گا
لاریب رات بھڑ روتی اور جاگتی رہی تھی۔۔۔لیکین اُس نے اپنا معاملہ کسی پر نھی بلکہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔۔۔
نسرین بیگم نے ملازمہ کو آواز دی
اور وہ بھاگی بھاگی آئ
اُس دن جو دو رشتے والی عورتیں آئیں تھی اُن کا کوئ اتا پتا ہے تو فوراً لاؤ۔۔۔اور ملازمہ بھاگی بھاگی دوبارہ گئی اور ایک کارڈ لے آئ
بی بی جی یہ کارڈ وہ اُس دن دے گئ تھی۔۔۔
ملازمہ نے نسرین کی طرف کارڈ کرتے ہوۓ کہا۔۔
نسرین نے پکرا اور فوراً نمبر ملانے لگی۔۔۔
***************
مُعیز کا فون مسلسل بج رہا تھا
مُعیز نے گاڑی کے میوسک کی آواز کم کی اور فون اُٹھایا
جی ۔۔۔مُعیز بات کر رہا ہوں
کیا واقع آنٹی لیکین یہ کیسے ہوا
چلیں اب آپ امی کو بتا دیں پلیز جلدی سے۔۔۔
مُعیز بہت خوشی سے بولا اور پھر فون کاٹ دیا اور میوزک پھر سے تیز کر دیا
سانو اِک پل چین نہ آوے سجنا تیرے بنا
ہاۓ ۔۔۔۔مُعیز بولا اور گانے کے ساتھ ساتھ گانا گُنگنانے لگا۔۔
مُعیز کی امی بھی خوش تھی آخر اکلوتا بیٹا اور وہ بھی اتنا اچھا رشتہ جو تھا۔۔۔
کم عمر ، پیاری اور پڑھی لکھی ہے لڑکی ۔۔ہر طرح کے طور طریقے جانتی ہے۔۔رشتے والی عورتوں نے وہی گُن گاۓ جو مُعیزنے کہے۔۔۔اور مُعیز کی امی خوش
نسرین نے گھر میں بھی رات کو جاۓ کا انتظام کر لیا تھا
وہ مہمانوں کے آنے سے پہلے لاریب کے کمرے میں گئ۔۔۔
تولاریب لیٹی ہوئ تھی۔۔اندھیرا ہی اندھیرا تھا
اوہ بی بی ماتم بند کرو یہ اور اُٹھو جلدی
لاریب نے بازو آنکھوں سے ہٹایا
اور اُٹھ کر بیٹھی
بی بی لاریب اُٹھو اور تیار ہو
رشتہ آرہا ہے تمہارا جیسا بھی ہو جو بھی ہو تمہے کوئ اطراض نھی ہونا چاہیے
سمجھی وہ بول کر پلٹی تو لاریب بولی ارے آنٹی آپ تو میری عاشقا ہو نا ۔۔۔ میں کیسے آپ کی بات ٹالو ۔۔۔نسرین پلٹی ۔۔۔
تم۔۔تم کیسے۔۔وہ اتنا ہی بولی تھی کہ لاریب دوبارہ بولی
جو آپکے وفادار وہ ہم سے بھی بے وفائی نھی کرتے
۔۔۔اور اُٹھ کر باتھروم میں چلی گئ۔۔۔
سنک میں منہ گراۓ بہتے پانی کے ساتھ آنسو بہا کر دل ہلکا کرتی رہی۔۔۔۔
***********
کل کسی حال میں بھی اُس کی زمانت نہ ہو بلکہ سزا ہو پہلی پیشی میں ہی۔۔۔خلیل فون پر بولا تھا۔۔
جی جی خلیل صاحب اُس پر بھت سے کیس ہیں اُس کی زمانت ناممکن ہے جبکہ سزا ممکن
وکیل بولا۔۔
ہمممم چلو ٹھیک ہے پھر کل صبح۱۱ بجے ملتے ہیں۔۔۔
خلیل نے کہہ کر فون رکھ دیا
آریانہ نماز سے فارق ہو کر چھت پر آئی تو اُس کی نظر رحیم پر پڑی۔۔نور جہاں نے ایک”چونکی”(زمین پر تکھ کر بیٹھنےوالی لوہے یا لکڑی کی سیٹ کو کہا جاتا ہے)
خود بنائ تھی۔۔
رنگ برنگے دھاگوں سی سجی ہوئی تھی۔۔۔اور اُس نے کبھی اُسپر کسی کو بیٹھنے نھی دیا تھا۔۔۔
وہ ڈھیلی اتنی تھی کہ کوئی بھی بیٹھتا تو گِر جاتی۔۔۔
رحیم اُس چونکی پر نظریں جماۓ تھے۔۔۔۔
آریانہ کی آنکھیں بھڑ آئی تھی۔۔۔
کس قدر اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے یہ جب کوئی آسمان پر چمکے اور آپ کو نظر نہ آۓ
جب آپ اُس کی شکل کسی صورت نھی دیکھ سکتے
جب اُس کی آواز کو کان ترس جاتے ہوں
جب اُس کی چیزوں کو میل لگ جاۓ لیکین آنچ نہ آۓ
آنچ آۓ بھی تو سامنے کے وجود پر۔۔ دل روتا ہے
دل کو جیسے کوئ مُٹھی میں دبوچتا ہے۔۔۔
آریانہ دوبارہ نور جہاں کے کمرے میں آگئ وہ اکثر اُس کے کمرے میں ہی ہوتی تھی لیکین نماز اب وہ نور کے کمرے میں پڑھتی تھی۔۔
اُس کی چیزیں روز صاف کرواتی
روز خود اُس کے کپڑے دیکھتی
اور دھلوانے والے دھلواتی اور استری کرواتی تھی
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔
دل کو کسی حال میں سکون نھی تھا۔۔۔اولاد کی کمی کو پورا کرنے والی بہن تھی
کبھی شکواہ نھی کیا تھا رب سے کہ اولاد کیوں نھی ہے۔۔۔اور اب سہ بھی چلی گئ تو بھی آنسو میں اپنا شکواہ بہا دیا لیکین اُس رب کے سامنے شکواہ کرنے کی ہمت نہ کی۔۔۔
بس زُبان پر تھا تو یہی جو تیری رضا وہی میری رضا۔۔۔۔
************************************
لاریب نے بھی اپنے آپ کو کمزور نھی پڑنے دیاتھا
تیار ہوئ ہلا سااور کالا سوٹ پہنا وہ کُچھ کہنا چاہتی تھی شائد لیکین نھی کہہ پائ تھی نہ کہہ سکتی تھی تو کالے جوڑے کا انتخاب کیا
حبیب صاحب مُعیز کے ساتھ بیٹھے تھے اور نسرین اُسکی امی کہ ساتھ
چاۓ کے ساتھ مُختلف لزومات تھے
اور لطف اُٹھانے والے بھی تھے
نسرین اور حبیب نے انس کا کُچھ نھی بتایا تھا۔۔۔
لاریب اندر داخل ہوئ اور سلام لی
مُعیز نے ایک نظر دیکھا مسکرایا اور پھر نہ دیکھا
اُس کا درد سمجھ سکا تھا وہ؟ اُس کی آنکھیں پڑھ سکا تھا وہ؟
نھی اُسے کوئ نھی جان سکا تھا کبھی بھی نہ کوئ جان سکے گا
لاریب مُعیز کو دیکھ کر حیران رہ گئ تھی
وہ اُس کی امی سے ملی اور پاس بیٹھ گئ۔۔
بھئ ہمیں تو آپ کی بیٹی بھت اچھی لگی اور ہم اِس کا انتخاب بھی کر چُکے ہیں اب آپ لوگ بتائیں
مُعیز کی امی نے لاریب کو پیار کرتے ہوۓ کہا
لاریب تو مُعیز کے سکتے میں گُم تھی اُس نے جو کبھی نھی سوچا تھا وہ کیوں ہو رہا تھا اُس کے ساتھ
اُسنے تو اپنی زندگی کب کی ختم کر دی تھی
کیوں اب دوبارہ زندگی سامنے آرہی تھی۔۔۔
لاریب سوچ کر رہ گئ
حبیب خان اور نسرین نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہاں کا اشارہ دیا اور نسرین بولی آپ کا بیٹا بھی ہمیں پسند ہے
تو بس پھر ٹھیک ہے میں انگھوٹی پہنا دیتی ہوں
اور اپنے بیگ سے انگھوٹی نکال کر لاریب کی اُنگلی میں ڈال دی۔۔۔۔
لاریب بس دیکھتی رہ گئ۔۔۔مُعیز کو بھی حبیب خان نے کاندھے پر پیار دیا اور منہ میٹھا نسرین نے کروایا
مُعیز کی امی نہایت سادہ عورت تھی
وہ زیادہ اُلجھنوں میں پڑنا ہی نھی چاہتی تھی نہ اُن کا کوئ لمبا خاندان تھا
شوہر کے انتقال کے بعد وہ اکیلی ہی رہتی اور نہ کسی سے بول چال تھی۔۔۔
خاندان والے سمجھتے ہی غلط تھے ۔۔
تو بس اب چٹ منگنی تو ہو گئ تھی پٹ بیاہ ہونا تھا۔۔۔اُس ملازمہ کو نسرین نے فوراً فارق کر دیا تھا
اور وہ بیچاری شکر کرتی نکل گئ۔۔۔۔وہ خود جاسوسی کرتے کرتے تھک چُکی تھی
********************************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...