سب لوگ ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف تھے منتشا بھی مسکرا رہی تھی کیونکہ اسے یقین تھا آج سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔اچانک سلمان صاحب کے فون کی گھنٹی بنتی ہے اور سب اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ فون کے اوپر معید کالنگ آرہا تھا۔ لو برخودار ابھی کال کررہا ہے۔ (سلمان صاحب نے مسکرا کر سر کو جھٹکا دیا اور فون کان سے لگالیا). دوسری طرف کوئی انجان شخص ان سے دریافت کررہا تھا کہ جس شخص کے فون سے ہم آپکو کال کررہے ہیں وہ آپ کے کیا لگتے ہیں؟ سلمان صاحب کا دل ایک دم تھم کے رہ گیا۔باقی سب لوگ بھی ان کے چہرے کی پریشانی دیکھ کر انکی طرف متوجہ ہوئے پورے ہال میں خاموشی چھا چکی تھی اور فون کی دوسری طرف سے بولنے والے شخص کی آواز بالکل صاف سب لوگوں کی سماعت سے ٹکرا رہی تھی ۔ جی میں معید کا والد بات کررہا ہوں آپ کون ہیں اور معید کا فون آپ کے پاس کیا کررہا ہے؟ (سلمان نے ڈھلتے دل کے ساتھ پوچھا). او جی انہاں دا بہت شدید ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اسی اناں نوں سول اسپتال لے کے جارہے آں تسی وی جلدی پہنچ جاؤ حالت بہت خراب ہے۔ (دوسری طرف یقیناً کوئی پنجابی شخص تھا جس کو اردو بولنی نہیں آتی تھی ). دنیا تک چکی تھی خاموشی چیخ رہی تھی۔سلمان اور ان کے دو بیٹے فوراً گاڑی کی طرف بھاگے بی اماں بھی ان کے پیچھے چل پڑیں وہ دوڑ رہی تھیں اور اللہ سے دعائیں مانگ رہیں تھیں کہ میرے بچے کی حفاظت کر۔ صوفے پر بیٹھی منتشا ابھی تک وہی تھی ایسے جیسے کوئی انسان نہیں برف کا کوئی مجسمہ ہو۔ فون کی دوسری طرف سے بولنے والے شخص کی آوازابھی تک اسکے کانوں میں گونج رہی تھی۔ اسے لگا پوری دنیا تک گئی ہے اور ہر طرف قیامت برپا ہے اور کوئی اس کے سر پر ہتھوڑے مار رہا ہے اور اس کے جسم کا قیمہ کررہا ہے دل کو نوچ رہا ہے اور روح کو جلا رہا ہے ہر طرف بربادی ہی بربادی ہو رہی ہے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا۔ پھر کسی نے اسے جھنجھوڑا کہ منتشا بیٹا اٹھو ہم ہسپتال جارہے ہیں۔تمہارے ابو گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں تمہارا ۔ عرفہ منتشا کو لینے آئی تھی یقیناً انہیں بھی کسی طرح پتا چل چکا تھا۔ منتشا نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور پھر جیسے اسے ہوش آیا اٹھی اور جلدی سے باہر چلی گئی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
ڈاکٹر صاحب میرا بچہ کہاں ہے کیا ہوا ہے اسے۔ مجھے اس سے ملنے دیں ۔ بی اماں ڈاکٹر صاحب کے آپریشن تھیٹر سے باہر آنے پہ انہیں دہائیاں دے رہیں تھیں۔ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا چوٹیں بہت زیادہ ہیں اور جسم جھلس چکا ہے پوری طرح آپ سب دعا کریں اللہ کوئی معجزہ کردے۔ (ڈاکٹر اتنا کہہ کہ دوبارہ اندر چلا گیا). سلمان آپریشن تھیٹر کے باہر لگی کرسی پر لحیم ہوکر گرگیا۔ اورنگزیب اسے تسلیاں دے رہا تھا۔ عارفہ معید کے چھوٹے بھائی هایم کو تسلی دے رہی تھی جو بہت رو رہا تھا۔ دور کھڑی منتشا نے جب ڈاکٹر کی بات سنی تو اسے اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا معجزہ؟ کیا کوئی معجزہ ہے جو ہو جائے؟ اللہ۔۔۔۔۔۔منتشا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے پھر وہ اٹھی اور ریسپشن پہ بیٹھی نرس کے پاس جا کہ کھڑی ہوگئی سب نے اسے ایک نظر دیکھا ۔ کیا مجھے جائے نماز مل سکتا ہے؟ منتشا نرس سے مخاطب ہوئی۔ جی ہاں یہ لیجیے نرس نے فوراً اپنے پیچھے الماری میں رکھا جائے نماز منتشا کو نکال کر دیا اور سامنے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں چلی جائیں۔ منتشا جائے نماز کے کر اسی کمرے میں چلی آئی۔ کمرے میں واش روم بھی تھا منتشا نے وضو کیا اور جائے نماز بچھائے کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ۔ اپنے سبز رنگ کے دوپٹے سے حجاب کیے ہوئے وہ کسی حور کی مانند لگ رہی تھی۔۔اے اللہ میں بہت گناہگار ہوں میرے گناہ اتنے ہیں کہ کہ آپ سے کچھ بھی مانگنے کے قابل نہیں ہوں ۔ لیکن آپ ہی ہیں جو میرے ان گناہوں کو بخش سکتے ہیں آپ کے علاوہ کون ہے جس سے میں فریاد کرسکوں اے اس انسان کو بچا لیجیے اے اللہ اس انسان نے بہت دکھ دیکھے ہیں اے اللہ اس دنیا میں اس انسان کو بچا لیجیے اسے واپس ٹھیک کر دیجیے اے اللہ میری بےبسی پہ ترس کھائیں میری لاچارگی پہ رحم کیجیے اے اللہ کوئی معجزہ کر دیجیے آپ ہر چیز پر قادر ہیں آپ کے ایک کن پہ تو پوری دنیا کی تخلیق ہے خدارا میری دعا قبول کیجیے۔ اپنے پیارے حبیب کے صدقے معید کی جان بچا لیجیے میں آپ کے معجزے کی طلبگار ہوں۔ وہ ایک لمحہ کو رکی اور پھر بلک پڑی پھر اس کے لبوں سے بےتحاشہ نکلا اے اللہ مجھے میرا معید سلمان لٹا دیجیے مجھے میرا معید سلمان صحیح سلامت چاہیے۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
ہر طرف گہرا اندھیرا تھا اور وہ کچھ لوگوں میں کے گھیرے میں لیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ کیا ہوگیا تھا اسکے ساتھ آخر یہ کیسا ظلم تھا کس قصور کی سزا تھی جسے وہ بھگت رہا تھا۔ بے بس بالکل بے بس اذیت کا وہ رنگ کے جس کو سینا جس کو برداشت کرنا آگ کے سمندر میں مزے سے سونے جیسا ہے۔ وہ کتنے قرب میں تھا وہ کتنی اذیت میں تھا۔ آہ یہ دنیا ۔کتنی ظالم ہے کتنی سفاق ہے۔ وہ زندہ تھا۔ اپنے ارد گرد ہونے والی ہر چیز کو محسوس کر سکتا تھا۔ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا وہ جینا چاہتا تھا۔ وہ اپنی ماں کے اس خواب کو پورا کرنا چاہتا تھا جو اس نے منتشا کی پیدائش پہ دیکھا تھا۔ اسے اپنی بہو بنانے کو خواب اور آج تک وہ اسی خواب کی تکمیل ہونے کے انتظار میں تھا لیکن یہ کیا ظلم ہوگیا اسکے ساتھ؟ کتنی حسرتیں تھیں کتنے ارمان تھےاس کے۔ کیا وہ اندر ہی اندر آج دم توڑ دیں گے؟
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
وہ ابھی تک جائے نماز پہ بیٹھی بلک رہی تھی۔ پھر اسے احساس ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ کوئی مسلسل اسے دیکھ رہا ہے۔ لیکن کون؟ اس نے آنکھیں کھولی اور چاروں طرف دیکھا کوئی بھی تو نہیں تھا کمرے کا دروازہ بھی بند تھا۔ اسے ایک دھچکا لگا وہ کمرے سے باہر کی طرف بھاگی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی اور آپریشن تھیٹر کی طرف چلی گئی۔ سب لوگ وہی تھے رکعیہ جاذب اور سکندر بھی آچکے تھے۔ عارفہ نے فون کرکے انہیں ساری صورتحال بتادی تھی۔ وہ کچھ محسوس کررہی تھی کوئی اسے بلا رہا تھا اپنے پاس لیکن کون تھا یہ؟ کہاں تھا؟ کیا معید سلمان تھا؟ یا کوئی فرشتہ یا پھر۔۔۔یا پھر جاذب سکندر؟؟ اور پھر جیسے اس پر آسمانی بجلی آگری ہو جس نے اسے ایک ایسی جگہ لا کھڑا کیا جدھر اندھیرے کے سوا کچھ نا تھا لیکن ایک جگہ پہ نور تھا ایسا نور جو اسکی آنکھوں کو چندھیا رہا تھا ۔کوئی تھا جو جائے نماز پہ بیٹھا سجدہ گزیں تھا وہ بھی بلک رہا تھا تو رہا تھا اور اپنے رب سے کچھ مانگ رہا تھا۔منتشا آگے بڑھی تو اس کے کانوں میں وہ آواز پڑنے لگی۔ اے اللہ میں نے آج تک آپ سے کچھ نہیں مانگا آپ نے بنا مانگے ہی سب کچھ دے دیا مجھے ۔لیکن اس معاملے میں میرا کوئی بس نہیں میں بےبس ہوچکا ہوں میں اپنے سارے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں ۔میری پستی کی کوئی حد نہیں ۔ منتشا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کون شخص ہے جو اس طرح گڑگڑا رہا تھا اور کیا چیز مانگنا چاہتا تھا اللہ سے؟ وہ مزید بولا اللہ آپ میرے دل کا حال تو جانتے ہیں میں نے آج تک ایسا گناہ نہیں کیا جو ناقابل معافی نا ہو میں نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ میں نے کسی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ لیکن پھر بھی میں ان گناہوں سے دستبردار ہوتا ہوں جو میں نے کیے جن کا میں مرتکب ہوا مجھے منتشا اورنگزیب دے دیں۔ مجھے منتشا اورنگزیب دے دیں۔ منتشا وہی رکی کی رکی رہ گئی یہ کون شخص تھا؟ جو اس طرح اسے مانگ رہا تھا۔۔؟ یہ معید سلمان تھا ؟ نہیں یہ وہ نہیں تھا ۔ پھر کون تھا وہ زیرلب بڑبڑائی جاذب سکندر۔۔۔۔۔
وہ منہ میں بڑبڑائی جاذب سکندر؟ ہاں یہ جاذب سکندر ہی تو تھا۔ منتشا کا سر چکرانے لگا تو یہ جاذب سکندر کی دعائیں تھیں جو آج تک مجھے اور معید کو دور رکھے ہوئے تھیں۔ اور کیا آج ہونے والے ایکسیڈنٹ کی وجہ بھی۔۔۔۔۔ نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کیا جاذب سکندر کی دعائیں اتنی پراثر ہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ پلٹی۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی جاذب سکندر کبھی نہیں ۔۔
منتشا بیٹا اٹھو۔ عارفہ نے منتشا کو ہلاتے ہوئے کہا جو جائے نماز پہ ہی گری ہوئی تھی شاید دعا کرتے کرتے ہو بے ہوش ہو گئی تھی ۔ منتشا نے آنکھیں کھولیں اور فوراً اٹھ کے بیٹھ گئی۔اس کے ذہن میں ابھی تک وہی چل رہا تھا وہ دعا میں گڑگڑاتا ہوا جاذب سکندر۔۔کیا یہ کوئی خواب تھا یا کوئی اشارہ؟ پھر اسے کچھ یاد آیا اور وہ فوراً اپنی ماں سے متوجہ ہوئی ۔۔۔۔امی معید۔۔۔۔۔۔
بیٹا ابھی آپریشن تھیٹر ہی میں ہے ابھی تک کچھ پتا نہیں۔۔عافہ فوراً بولی۔۔منتشا اٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی عارفہ بھی اسکے پیچھے چلی گئی۔جاذب میرے ساتھ آؤ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔(منتشا نے آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھے جاذب سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا). اچھا چلو۔ وہ آٹھ کھڑا ہوا ۔ منتشا باہر پارکنگ ایریا کی طرف چل پڑی۔ اور کافی چلنے کے بعد وہ رکی اور واپس مڑ کر جاذب سے مخاطب ہوئی۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے جاذب خدا کے لیے میرے سوالوں کے جواب سچ سچ دینا۔۔۔اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور دکھ بھی تھا۔۔۔جاذب کو اس کی آنکھوں میں دہشت محسوس ہوئ۔ ہاں ٹھیک ہے پوچھو۔ منتشا نے کچھ لمحے اس کو دیکھا پھر بنا کچھ کہے اندر چلی گئی۔وہ نہیں جانتی تھی وہ اشارہ تھا یا خیال؟ یا پھر محض ایک خواب ؟؟ اور وہ آج تک خود کو معید سلمان کے سامنے گرا نہیں پائی تھی۔ جس شخص سے وہ اتنا پیار کرتی تھی پھر جاذب سکندر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔اور پھر کوئی بات کنفرم بھی تو نہیں تھی۔۔۔اندر آکر وہ ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔ اذیت اس کے انگ انگ میں بھری پڑی تھی۔۔ اور وہ اللہ سے معید کو مانگ رہی تھی اس کی صحت تندرستی۔۔۔آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آیا۔۔سب کے دل تھم گئے اور ہوا کو بھی زوال آگیا۔۔ہر طرف خاموشی چھا گئی ہر کسی کی آنکھیں ڈاکٹر پہ تھیں۔ پھر ہمت کرکے اورنگزیب آگے بڑھا اور ڈاکٹر سے پوچھا ڈاکٹر صاحب اب کیسا ہے ہمارا بچہ؟ چونکہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں چوٹیں بہت زیادہ ہیں پھر بھی ہم نے پٹیاں کردی ہیں دماغ پر بہت گہری چوٹ آئی ہے اگلے چوبیس گھنٹے بہت اہم ہیں ہوش بھی آ سکتی ہے اور قومی میں بھی جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر رکا اور پھر اورنگزیب کی طرف دیکھ کر بولا ہم آپ کو کسی بھی جھوٹے دلاسے میں نہیں رکھ سکتے مریضوں کی ڈیتھ بھی ہو سکتی ہے اور دوسری صوتحال کی بجائے اس کے چانسسز زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر کے ان لفظوں نے تو جیسے قیامت برپا کردی بی اماں اونچی اونچی رونے لگیں سلمان صاحب بھی۔۔۔۔منتشا کی آنکھیں بالکل سرد تھیں کچھ بھی نہیں تھا ان میں۔۔۔وہ اٹھی اور چپ چاپ باہر چلی گئی۔ عارفہ نے جاذب کو اس کے پیچھے بھیجا۔۔۔وہ باہر آکر ایک بینچ پر چپ کرکے بیٹھ گئی۔ اس کے دل میں بہت کچھ تھا بے بسی لاچارگی اذیت ۔۔جاذب بھی آکر اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔۔منتشا اپنے دھیان میں بیٹھی رہی۔۔دونوں بالکل خاموش بیٹھے تھے پھر اس خاموشی کو جاذب نے توڑا۔۔وہ ٹھیک ہو جائے گا تم پریشان مت ہو۔۔یہ ڈاکٹرز تو ایسے ہی بولتے ہیں۔۔۔وہ کچھ نا بولی اسی طرح بیٹھی رہی چپ چاپ۔۔اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی نا تھا۔۔۔یا شاید بہت کچھ تھا پر الفاظ نہیں تھے۔۔کافی دیر دونوں چپ کر کے بیٹھے رہے۔۔۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اللہ کسی ایک کے لیے اپنے دوسرے بندے کو نقصان پہنچائے؟؟ (منتشا نے جاذب کو مخاطب کر کر سوال کیا). نہیں میرے خیال میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ جاذب نے جواب دیا۔۔۔تو کیا تم چاہتے تھے معید کے ساتھ ایسا ہو؟؟ (منتشا نے سامنے زمیں میں پڑے پتھروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔تم پاگل ہوگئی ہو کیا؟ میں ایسا کیوں چاہوں گا اور میرا اس بیچارے نے کیا بگاڑا ہے؟ لگتا ہے تم نے معید کے ایکسیڈنٹ کو زیادہ ہی سیریزکے کیا ہے۔ وہ غصے میں آچکا تھا اٹھا اور اندر جانے لگا ۔۔۔لیکن پھر اس کے ایک سوال پر رکا۔۔ تم مجھے کیوں چاہتے ہو ۔وہ پتھروں کو دیکھتے ہوئے بولی تھی ۔۔وہ پلٹا اور اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔کجا ہوگیا ہے تمہیں یہ کیا فضول باتیں کررہی ہو۔۔(وہ بولا تھا اور اسکی آواز میں گھبراہٹ تھی).
جو میں نے پوچھا اس کا سچ سچ جواب دو ورنہ تمہیں پچھتانا بھی پڑ سکتا ہے۔۔(وہ غصے سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی جیسے اگلے ہی لمحے اسے قتل کرنے والی ہے). وہ مسکرایا یقیناً منتشا کی اس بات سے وہ محضوض ہوا تھا۔ تو تمہیں لگتا ہے میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔ اور اب اگر میں نے اس بات کو تسلیم نا کیا تو مجھے پچھتانا پڑتا سکتا ہے۔۔۔
میڈم یہی کوئی کمرہ دیکھ کے داخل ہوجاؤ اور علاج کرواؤ بیماری ابھی زیادہ بڑھی نہیں ہوگی۔ اتنا کہہ کہ وہ پلٹا اور چلنے لگا اچانک سے کوئی چیز اتنی زور سے اس کی کمر پہ لگی کہ وہ جھکا اور سیدھا ہو کہ ابھی مڑا ہی تھا دوسرا پتھر اس کے سر پہ آلگا۔ اس کے سر سے خون نکلنے لگا لگا اس نے دیکھا کہ منتشا نے وہی پتھر جن کا تعاقب کب سے کر رہی تھی وہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے ۔ وہ چلایا تم سچ میں پاگل ہوگئی ہو۔ اس کی آنکھیں غصے سے لال تھی منتشا نے ایک اور پتھر اس کی ٹانگ پہ دے مارا اور ساتھ ہی ایک اور پتھر اٹھا کر اس کی دوسری ٹانگ پہ دے مارا وہ نیچے بیٹھ چکا تھا اور درد سے بلبلا رہا تھا۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔منتشا یہ منظر چپ چاپ دیکھتی رہی پھر جیسے اسے ہوش آیا تو اس کی طرف بھاگی تمہارا تو خون نکل رہا ہے۔ وہ پریشان ہوتی تیز تیز بولی۔ نہیں یہ خون نہیں جام شیریں ہے تم پیچھے ہٹو۔ وہ غصے میں چنگھاڑا تھا ۔ ایسے کیسے تمہارا خون بہہ رہا ہے چلو تمہیں ایمرجنسی میں لے کر چلوں۔ اس بار وہ خاموش رہا اور وہ اسے سہارا دے کر ایمرجنسی کے گئی۔ نرس نے فوراً اس کی بینڈیج کی اور نو پین کی گولی دی جسے وہ پانی سے نگل کیا۔۔کیسے ہوا ہے یہ ؟ نرس نے جاذب سے گلاس لیتے ہوئے کہا۔ جاذب نے منتشا کی طرف دیکھا جو پہلے ہی نرس کی بات پر اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ میں۔۔۔۔۔وہ بولنے ہی لگا کہ وہ جلدی سے اسکی بات کاٹ کر بولی۔۔وہ ان کو مرگی کے دورے پڑتے رہتے ہیں ابھی بھی باہر بیٹھے اچانک سے پڑ گیا تو انہوں نے اپنا سر پھاڑ لیا۔ وہ بات پوری کرکے دوبارہ اس کی طرف دیکھنے لگی جو کہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔اور سوچ رہا تھا واہ رے جاذب یہ لڑکی ہر بار تمہیں ذلیل کرکے اینڈ پہ سارا قصور بھی تجھ پہ ڈال دیتی ہے۔ اور اس بار مرگی کے دورے تیرے نصیب میں ٹھہرے۔۔۔نرس مسکرائی اور اپنی نشست پہ بیٹھ گئی۔۔اب آپ کچھ دیر یہی ریسٹ کریں پھر چلے جائیے گا۔۔۔نرس نے تائید کرتے ہوئے کہا اور جاذب نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
وہ جاذب کو وہی چھوڑ کر باقی سب کے ساتھ چلی گئی تھی۔۔پتہ نہیں کیوں اسے ایک اطمینان حاصل ہو چکا تھا۔ وہ پرسکون تھی۔ بی اماں کے کندھے پہ سر رکھ کر آنکھیں بند کرکے اللہ کا ذکر کرنے لگی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺟﺎﺫﺏ ﮐﻮ ﺁﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﮧ ﭘﭩﯽ ﺑﻨﺪﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻧﺮﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﺎﻧﺪﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺭﮐﻌﯿﮧ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ۔ ﺟﺎﺫﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ؟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻤﺎ ﻭﮦ ﺭﻭﮈ ﭘﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﺎﺅﮞ ﭘﮭﺴﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﭘﺘﮭﺮ ﭘﮧ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻮﭦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮔﮩﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﺑﮯ ﻓﮑﺮ ﺭﮨﮯ۔ ﺟﺎﺫﺏ ﻧﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﺍﭼﮭﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﭘﺮ ﺍﺏ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﮐﺮﻭ۔ ﺷﺎﺋﯿﺪ ﺁﺝ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺑﮩﺖ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﻮ ﺳﮑﻮﻥ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﮨﺸﺖ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﭙﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ****
ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﺑﺞ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺩﯼ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺮﻭﺝ ﭘﺮ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺳﺮﺩﯼ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮔﺮﻣﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻧﺮﺱ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺑﮩﺖ ﺳﺮﯾﺲ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﯽ۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﻮﻥ ﮨﯿﮟ؟ ( ﻧﺮﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ) ۔ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔ ( ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻓﻮﺭﺍً ﺍُﭨﮫ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ) ۔ ﺁﭖ ﭼﻠﯿﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺮﯾﺾ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﻼ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﻮﺭﮮ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺭﻣﮏ ﺍُﺑﮭﺮﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﯿﺪ ﮐﻮ ﮨﻮﺵ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ؟ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﻓﻮﺭﺍً ﺍُﭨﮭﮯ ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮨﻮﺵ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﻧﺮﺱ ﻧﮯ ﻣُﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻢ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺑﯽ ﺍﻣﺎﮞ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﭼﻼﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺻﺮﻑ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮨﯽ ﺁﺋﮯ۔ ﻧﺮﺱ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ۔ ****
ﻭﮦ ﻭﯾﻨﭩﯽ ﻟﯿﭩﺮ ﭘﮧ ﭘﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﭘﻮﺭﮮ ﺳﺮ ﭘﮧ ﭘﭩﯿﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﻨﮧ ﺟﮭﻠﺴﺎ ﮨﻮﺍ۔ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻣﻌﯿﺪ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﺎ ﺩﻝ ﭘﺴﯿﺞ ﮔﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﮨﻤﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﯽ۔ ﻣﻌﯿﺪ۔۔ ﻭﮦ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻠﮑﺎ ﺳﺎ ﻣُﺴﮑﺮﺍﯾﺎ۔ ﺟﮭﻠﺴﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻣُﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﭘﺮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ۔ﭘﮭﺮ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮯ ﺳُﻮﺩ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻧﮯ ﻧﺮﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﻧﺮﺱ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﺑﻼﻧﮯ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ۔ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﯾﺸﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﻼﺏ ﺍُﺑﮭﺮ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ۔ﻣﻌﯿﺪ ﺗﻢ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺗﻢ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ ﭘﻠﯿﺰ ﺗﻢ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﻠﮯ ﺷﮑﻮﮮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺩﻭﮞ ﮔﯽ۔ﭘﺮ ﭘﻠﯿﺰ ﺗﻢ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﻭﮦ ﺗﺮﭖ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﯿﺪ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺭﺩﻋﻤﻞ ﭼﻮﻧﮏ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﯿﺪﮬﮯ ﻣﻨﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ۔ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺁﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯﻣﻌﯿﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﭨﺎﺭﭺ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﻮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﻮﻻ ﺷﺎﺋﯿﺪ ﺁﮒ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮔﻠﮧ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﮭﺒﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﮨﻢ ﭨﺮﯾﭩﻤﻨﭧ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﺟﺎﻧﺎ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮨﯽ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﺗﮯ ﭨﺎﺋﻢ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳُﻦ ﮐﺮ ﺭﻭ ﭘﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﮭﺖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﯿﺪ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﺑﭻ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎ ﺩﯼ ﺟﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺑﯽ ﺍﻣﺎﮞ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺭﻭ ﭘﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭﻧﮕﺰﯾﺐ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻧﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺟﺎﺫﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮔﮩﺮﯼ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻧﮯ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮧ ﮐﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻣﻌﯿﺪ ﮐﻮ ﻭﺍﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﺷﻔﭧ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮧ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﻣﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔
****
ﺍﻣﯽ ۔۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻧﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﭼﻮﻧﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣُﺴﮑﺮﺍﺋﯽ ﺍُﭨﮫ ﮔﺌﯽ ﺗﻢ۔ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﻧﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ ﺟﯽ ﺍُﭨﮫ ﮔﺌﯽ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮈﺍﺋﻨﮓ ﭨﯿﺒﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮍﯼ ﭼﺌﯿﺮ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ۔ﺍﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﺏ ﺁﭖ ﺟﻠﺪ ﺍﺯ ﺟﻠﺪ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﯿﺪ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ۔ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺭﮎ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﻠﭩﯽ۔ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﺗﻢ؟ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺮﺍﻧﮕﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﮩﻮﻧﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺩﯼ ﮨﻮ۔ ﮐﯿﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ؟ ﺟﺲ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﭘﮑﯽ ﮐﯽ ﺟﺎ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻧﮯ ﺟﻮﺷﯿﻠﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ۔ﻭﮦ ﺳﺐ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﭘﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ۔ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ۔ﺍﻥ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﻄﻠﺐ؟ ﺷﺎﺩﯼ ﺗﻮ ﮨﻮﻧﯽ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺏ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﮯ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ؟ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺘﺠﺎ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﭼﮭﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﺟﺎﺅ ﻓﺮﯾﺶ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺗﻢ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺑﺎ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻟﻮﮞ ﭘﮭﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ۔
∆∆∆∆∆∆∆
ﺁﺳﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﮈﺍﺋﯿﻨﮓ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺟﺎﺅ ﺁﺳﯿﮧ ﺗﻢ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﻮ ﺑﻼ ﻻﺅ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ۔ ( ﻋﺎﺭﻓﮧ ﻧﮯ ﭘﻠﯿﭩﯿﮟ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﮧ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ) ۔ ﺁﺳﯿﮧ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﻮ ﺑﻼﻧﮯ۔ ****
ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺳﭙﭩﻞ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﻠﻨﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭼﻠﻮ۔ ( ﺍﻭﺭﻧﮕﺰﯾﺐ ﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﻮﻧﭽﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ) ۔ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﻮﮞ ﮔﯽ۔ ( ﻋﺎﺭﻓﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ) ۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﻮ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﮔﮭﺮ ﭘﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﯽ۔ ( ﺍﻭﺭﻧﮕﺰﯾﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ) ۔ ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔ ( ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻣُﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ ) ۔ ****
ﺟﺎﺫﺏ ﺑﯿﭩﺎ ﺭﯾﺴﭧ ﮐﺮ ﻟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺮ ﭘﮧ ﺁﮔﮯ ﮨﯽ ﭼﻮﭦ ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ( ﺭﮐﻌﯿﮧ ﻧﮯ ﺟﺎﺫﺏ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ) ۔ ﺍﻭﮨﻮ ﻣﻤﺎ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﯽ ﭼﻮﭦ ﮨﮯ ﺁﭖ ﺑﮯ ﻓﮑﺮ ﺭﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻣﺠﮭﮯ۔ ( ﺟﺎﺫﺏ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ) ۔ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ۔ ﺭﮐﻌﯿﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ۔ ****
ﺑﯽ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﮯ ﻣﻌﯿﺪ ﺍﺏ؟ ( ﺭﮐﻌﯿﮧ ﻧﮯ ﺑﯽ ﺍﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ) ۔ ﻭﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﺫﮐﺮ ﺑﮩﺘﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ۔ ( ﺑﯽ ﺍﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ) ۔ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﻣﻌﯿﺪ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﮯ ﺁﺋﯽ۔ ( ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻧﮯ ﺍﻭﺭﻧﮕﺰﯾﺐ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍُﭨﮫ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ) ۔ ﺍﭼﮭﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻣﻞ ﻟﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔ ( ﻋﺎﺭﻓﮧ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺑﺎً ﮐﮩﺎ ) ۔ ****
ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎ ﻣﻌﯿﺪ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﮯ ﭘﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﺎ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﭘﺮﺍَ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﺍُﺳﮯ ﭘﮑﺎﮌﺍ۔ ﻣﻌﯿﺪ؟ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺝ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﻣُﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﻧﮧ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻭﮦ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﺮ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﮮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﺍُﺑﮭﺮﮮ ﺗﮭﮯ۔ ﺁﻧﺴﻮ ﻣﻌﯿﺪ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ۔ ﻭﮦ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﭘﭩﮯ ﮐﮯ ﭘﻠﻮ ﺳﮯ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﭘﻮﻧﭽﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ۔ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻭﮦ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍُﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺍﺫﯾﺖ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﻣﻌﯿﺪ ﺧﺪﺍﺭﺍ ﮨﻤﺖ ﻣﺖ ﮨﺎﺭﻭ ﺟﺲ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺨﺸﯽ ﮨﮯ۔ ﺍُﺳﯽ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺑﮭﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﺗﻢ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﭘﮧ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﻣﻌﯿﺪ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﺍﺫﯾﺖ ﮐﮯ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﺩﻻﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔ ﺗﻢ ﺑﺲ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﮧ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻭ۔ﺗﻢ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﻧﺌﮯ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮨﺎﮞ ﻣﻌﯿﺪ ﮨﻢ ﻧﺌﮯ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﺮﯼ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﺑﮭﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮐﮫ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍُﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺍﺳﻠﯿﮯ ﭼﮭﭙﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﻭ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻭ ﺟﺴﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺟﺎﻥ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﺭﻭﺡ ﺳﮯ ﺭﻭﺡ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺟﺎﻥ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﮞ ﺑﺲ ﺗﻢ ﺍﺏ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻣُﺴﮑﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺫﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﭼﺮﺍ ﮔﺌﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﻠﮯ ﮨﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻧﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﺍﻭﺭﻧﮕﺰﯾﺐ ﺗﻢ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ؟ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﻌﯿﺪ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻭﮦ ﻣُﺴﻠﺴﻞ ﺍُﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﻨﺎ ﺁﻧﮑﮫ ﺟﮭﭙﮑﮯ ﺍﻭﺭ۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺎ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﮯ۔۔۔ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﯾﮧ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﻭﮦ ﭼﻼﺋﯽ ﻣﻌﯿﺪ ﺍُﭨﮭﻮ ﻣﻌﯿﺪ ﻣﻌﯿﺪ۔۔ ﻧﺮﺱ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﮔﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﺎ ﮐﮧ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﺑﻼ ﻻﺋﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺑﮭﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺁﮔﺌﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﭼﯿﮏ ﮐﯿﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﯽ ﻧﺒﺾ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﺩﻝ ﭘﮧ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﻮﻻ ﯾﮧ ﻓﻮﺕ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﻗﮩﺮﺍﻡ ﻣﭻ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﺁﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮔﺮﺩ ﺳﮯ ﻟﭩﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﻧﻈﺮ ﻧﮧ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﭽﮫ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺑﺮﭘﺎ ﺗﮭﯽ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺁﮦ ﻭ ﭘﮑﺎﺭ ﺗﮭﯽ ﻣﺎﺗﻢ ﺗﮭﺎ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮯﻭﻓﺎﺋﯽ ﭘﮧ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﮐﺲ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﻣﻨﺘﺸﺎ ﺍﻭﻧﮕﺰﯾﺐ ﮐﺎ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﻧﮯ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﺁﻧﺎ ﮐﮧ ﺳﺮ ﭘﮧ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺟﯿﺘﯽ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﮧ ﻭﮦ ﺑﭽﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻭﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﺎ ﮐﻮ ﻣﺎﺕ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮭﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍُﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻨﺲ ﺟﺎﺋﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻏﻢ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﺍ ﮐﻮﻥ ﻟﮕﺎﺋﮯ؟ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺍﺫﯾﺖ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﻭﮦ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺖ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﻭﮨﯽ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻡ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﻦ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﭼﺎﮦ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻞ ﻧﮧ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﭼﺎﮦ ﮐﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﭩﺎ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺡ ﮨﯽ ﺗﻮ ﺑﭽﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺯﻧﺪﮦ ﻻﺵ ﺑﻦ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﺎ ﺑﺖ ﺑﻦ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮭﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍُﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﮬﭽﮑﺎ ﻟﮕﺎ ﺟﺐ ﺳﻮﯾﭙﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﻣﻌﯿﺪ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﺍُﭨﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ۔ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭼﯿﺨﮯ ﻭﮦ ﭼﻼﺋﮯ۔ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﮨﺮ ﻟﮯ ﺁﺋﯽ ﻭﮦ ﺑﮯﺟﺎﻥ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ۔ ﺑﯽ ﺍﻣﺎﮞ ﺑﯿﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ، ﻗﺎﺳﻢ، ﺣﺎﯾﻢ، ﺍﻭﺭﻧﮕﺰﯾﺐ ﺳﺐ ﺑﻠﮏ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﺑﮭﯽ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺩﻻﺳﺎ ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻣﻌﯿﺪ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺳﺐ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭ ﭘﮩﻨﭻ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺟﺎﺫﺏ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺳﺮ ﭘﮧ ﭘﭩﯽ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﭽﮫ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﺧﻮﻝ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﺭﮐﻌﯿﮧ ﺧﺎﻟﮧ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﺗﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺭﮎ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﺎﮔﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﭼﯿﺨﯽ ﭘﮭﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﮔﺮﮔﺮﺍﺋﯽ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﯾﮟ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻏﻢ ﭘﺮ ﺍﺷﮏ ﺑﺎﺭ ﺗﮭﯿﮟ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻢ؟ ﮐﯿﺎ ﺻﺮﻑ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭼﭗ ﺭﮨﺘﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﯽ ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﻮ ﺭﮨﺘﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻮﮞ ﺍﺫﯾﺖ ﮐﮯ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺘﺎ ﻣﺮﺗﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﺗﮯ ﻭﮦ ﺍُﻧﭽﯽ ﺍُﻧﭽﯽ ﺑﻠﮏ ﺑﻠﮏ ﮐﮯ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔