آزر کی آنکھ کھٹر پٹر سے کھلی اسنے آنکھیں ملتے ہوئے سامنے دیکھا۔
جہاں فریحہ جلدی جلدی تیار ہونے میں مصروف تھی وہ بہت جلدی میں لگ رہی تھی۔
“کیا ہوا کہیں جارہی ہیں آپ؟”آزر نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“ہ۔۔۔ہ۔۔۔ہاں وہ ن۔۔۔ن۔۔اشتہ بنانا چ۔۔۔چ۔۔۔چاہتی تھی آ۔۔۔آ۔۔۔آپکے لئے”وہ گڑبڑا کر بولی۔
“ت۔۔۔ت۔۔۔تو اتنی ج۔۔۔۔ج۔۔۔جلد بازی ک۔۔۔ک۔۔کیوں کررہی ہیں”وہ بھی مسکراتے ہوئے اسی کے انداز میں بولا۔
“آ۔۔۔آپ میری نکل اتاررہے ہیں؟”اسنے تیکھے چتونوں کے ساتھ پوچھا۔
“ن۔۔۔نہیں۔۔۔تو”وہ پھر سے اسی انداز میں بولا۔
“اک تو میں آپکے لئے زندگی میں پہلی دفعہ کچن میں گھس کر آپکے لئے ناشتہ بنانے کا سوچ رہی ہوں اور آپ میرا مزاق اڑارہے ہیں”اسنے بغیر اٹکے غصے سے کہا۔
“اوہ میں کتنا خوش قسمت ہوں جو آپ کا پہلی دفعہ ٹرائی کیا ہوا ناشتہ کھائیگا ویسے کیا ضرورت ہے بنانے کی گھر میں نوکر ہے وہ بنا لیں گے”وہ خوش ہوتے ہوئے بولا اور اس سے پوچھا۔
“مجھے سیکھنے کا شوق ہو رہا تھا اس لیے “لیکن میں اب نہیں بناونگی “وہ منہ پھلا تے ہوئے بولی۔
“کیوں بھئی کیوں نہیں بناوگی”وہ اٹھکر اسکے پاس آکر بولا۔
“کیوں کہ آپ میرا مزاق اڑارہے ہو”وہ ناراضگی سے بولی۔
اسکی بات پر مسکراتے ہوئے پیار سے اسے دیکھا جو ناراض ناراض سی لگ رہی تھی۔
“اچھا نہیں اڑاتا مزاق تم جاؤ ناشتہ بناؤ میں تب تک فریش ہو جاتا ہوں”اسنے بمشکل خود کو کنٹرول کیا ورنہ اسکا پھلا ہوا منہ دیکھکر اسکا دل کیا کہ اسے پکڑ کر اک کس کر ہی ڈالے۔
“ٹھیک ہے آپ تیار ہوکر نیچے آجائےگا”وہ پھلے ہوئے منہ کیساتھ بولتے ہوئے روم سے باہر چلی گئی۔
وہ بھی مسکراتا ہوا فریش ہونے واشروم چلا گیا۔
***
“فرحان مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے بیٹا ناشتہ کرنے کے بعد میرے کمرے میں آجانا “فہمیدہ نے فرحان کو مخاطب کیا وہ ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔
“جی ٹھیک ہے امی میں آتا ہوں میرا ختم ہونے والا ہے”اسنے انکی طرف دیکھکر جواب دیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ ناشتہ کر کے فہمیدہ بیگم کے روم میں داخل ہوا۔
“جی ماما کیا بات کرنی تھی آپ کو”وہ انکے پاس بیٹھ کر بولا۔
“بات دراصل یہ ہے کہ میں اور تمھارے بابا چاہتے ہیں تمھاری شادی کردی جائے پڑھائی مکمل ہونے کے بعد”انہوں نے اسکی طرف دیکھکر کہا۔
“پر ماما ابھی نہیں کرنا چاہتا میں پہلے پڑھائی کے بعد اپنا فیوچر بنالوں پھر ہی شادی کے بارے میں سوچونگا”اسنے گھبرا کر انہیں منع کرتے ہوئے کہا۔
“ٹھیک ہے اگر تمھاری یہ خواہش ہے تو میں فریدہ کو منع کردونگی کہہ دونگی کہ ابھی میرا بیٹا شادی نہیں کرنا چاہتا”فہمیدہ بیگم نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے سیریس ہوکر کہا۔
“کیا مطلب”اسنے چونک کر پوچھا۔
“میں سارہ کو تمھارے دلہن کے طور پر لانا چاہتی تھی لیکن اگر تم ہی نہیں کرنا چاہتے تو میں منع۔۔۔”وہ اسکے چہرے کے اتارچڑاو دیکھتے ہوئے بولیں۔
“نہیں ماما کیوں منع کرینگی آپ میں نے یہ کہا ہے ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا !
ہم منگنی یا نکاح بھی کرسکتے ہیں”وہ جلدی سے بولا۔
اسکی جلدبازی دیکھکر فہمیدہ بیگم مسکرانے لگیں تھیں۔
“سب سمجھتی ہوں میں اس دن کچن میں تم دونوں کو دیکھ لیا تھا میں نے”فہمیدہ بیگم کی بات سن کر اسنے جھٹ سے انکی طرف دیکھا۔
“وہ ماما میں تو بس۔۔۔”وہ گڑبڑاکر بولا۔
“ہم تو پہلے ہی چاہتے تھے سارہ ہماری بہو بنے اچھی عادت کی ہے لیکن تم بھی ہمیں کہہ سکتے تھے”فہمیدہ بیگم نے اسکے کان کھینچتے ہوئے بولیں۔
“ماما میں صحیح وقت کے انتظار میں تھا بس ابھی میری پڑھائی بھی ختم نہیں ہوئی تو کس منہ سے آپ لوگوں سے بات کرتا”وہ جھجھکتے ہوئے بتانے لگا۔
“ہاں تمھاری بات بھی ٹھیک ہے چلو پریشان نہ ہو میں فریدہ سے بات کرونگی وہ کیا کہتی ہے دیکھتے ہیں”فہمیدہ بیگم نے اسکی بات پر متفق ہوتے ہوئے کہا۔
“جی ٹھیک ہے آپ بات کرلیجیۓگا انسے”وہ مسکرا کر بولا۔
تم مجھے وہاں چھوڑ آؤ میں گھر بیٹھے بیٹھے بور ہوگئی ہوں اسی بہانے تمھارے بارے میں بھی بات کرلونگی”فہمیدہ بیگم نے اپنی چادر اٹھاتے ہوئے کہا۔
“ٹھیک ہے آپ باہر آجائیں میں تب تک بائک نکالتا ہوں”وہ بولتے ہوئے بائک نکالنے باہر چلا گیا۔
***
کچن سے کھٹر پٹر کی آواز آرہی تھی۔
وہ خاموشی سے آکر گھنٹے میں بیٹھ گیا اور ناشتے کا انتظار کرنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد وہ ناشتہ لے کر آئی اور اس کے سامنے رکھا۔
“تم نے یہ پہلی دفعہ بنایا ہے ؟”آزر نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کیونکہ ناشتہ بہت اچھے طریقے سے بنایا تھااور سلیقے سے سجایا تھا۔
“جی پہلی دفعہ ہی بنائیں ہیں “وہ خوشی سے مسکراتے ہوئے بولی۔
“لگ تو نہیں رہا ایسا لگ رہا ہے تم نے بہت پریکٹس کی ہے بالکل پرفیکٹ گول پراٹھا بنا ہے اور چائی۔۔۔”وہ حیران ہوتے ہوے تعریف کرتے ہوئے اس نے چائے کی پیالی اپنے منہ پر لگائی اور پی کر دیکھا۔
“چائی بھی بالکل پرفیکٹ بنی ہیں امیزنگ “وہ مسکراتے ہوئے چائے کا سپ لیتے ہوئے بولا۔
“وہ دراصل میں جب روٹی بیل رہی تھی نہ مجھ سے روٹی الٹی سیدھی ہو رہی تھی گول نہیں بن رہی تھی پھر میں نے گول ڈھکن لے کر روٹی کے اوپر رکھا اور چھری سے کٹ کیا پھر گول بن گئی “وہ مسکراتے ہوئے خوشی سے بتانے لگی۔
“واہ کافی ٹیلینٹیڈ ہو آپ تو اچھا جگاڑ کر لیا ہے آپ نے تو “وہ ناشتہ کرتے ہوئے مسکراکر اس کی تعریف کرنے لگا۔
“شکریہ “وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
“فریحہ رکو ادھر آؤ”وہ جو واپس کچن کی طرف جانے لگی اس کی آواز پر رک گئ اور مڑ کر دیکھا۔
“یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہوا ہے “وہ ناشتے کی ٹیبل سے اٹھتے ہوئے اس کے پاس آیا اور پریشان ہوتے ہوے اسکا ہاتھ پکڑ کر پوچھا۔
جہاں جلنے کے نشان تھے۔
“و۔۔۔وہ۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔ب۔۔۔بس پراٹھا بنا رہی تھی تو ت۔۔۔تھوڑا تیل میرے ہاتھ میں گر گیا “وہ جھجھک کراپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے بولی۔
“پاگل ہو کیا جب چوٹ لگ گئی تھی نہیں بنانا تھا یہ ناشتہ !”آزر نے ایک دم سے غصے سے واپس اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
اس کا غصہ دیکھ کر وہ ڈر گئی اور اس کی آنکھیں پانی سے لبابب بھڑنے لگیں۔
“ادھر آؤ تم بیٹھو میں دوائی لگا دیتا ہوں”آزر نے اسے کرسی میں بٹھایا اور دوائی لینے کے لئے کچن میں چلا گیا۔
واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس تھا۔
“آ۔۔۔آزرمیں ٹھیک ہوں”وہ بھیگے ہوئے لہجے میں بولی۔
اس کی بات پر آزر نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور اس کے آنسو دیکھ کر چونک گیا۔
“سوری یار میں نے غصے میں تمہیں کچھ زیادہ ہی ڈانٹ دیا”وہ پیشمان ہوکر بولا۔
“کوئی بات نہیں “وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
“میں دوائی لگا دیتا ہوں “وہ کہتے ہوئے اسے دوائی لگانے لگا اور وہ خاموشی سے آذر کو دیکھنے لگی تھی اس کی تھوڑی سی چوٹ پر وہ کتنا پریشان ہو گیا تھا۔
“آپ جائیں ناشتہ کریں ٹھنڈا ہو رہا ہے “دوائی لگا لینے کے بعد وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
“تم کہاں جا رہی ہو آؤ تم بھی ناشتہ کرو “اس نے دوبارہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
“میں اپنے لئے ناشتہ بنا ہے جا رہی ہوں”وہ آہستہ سے بولی۔
“کوئی ضرورت نہیں ہے ناشتہ بنانے کی! بانو بنا دیگی”اس نے ناراضگی سے اسے کہا اور اپنے نوکرانی کا نام لیا۔
“نہیں میں بنا۔۔۔”جب بولنے لگی تو آذر نے اس کے ہونٹوں پہ اپنی انگلی رکھ دی اور گھورتے ہوے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
“بانو۔۔۔بانو جاؤ بی بی جی کے لئے ناشتہ بناؤ”آزر نے بانوکو بلایا اور اسے کہا۔
“جی صاحب ابھی بنا کر لاتی ہوں”بانو بولتےہوےکچن میں چلی گئی۔
“لوکھاؤ “آزر نے اپنے پراٹھے سے نیوالہ توڑتے ہوئے اس کی طرف کیا۔
اس نے جھکتے ہوئے نوالہ اپنے منہ میں ڈالا اور نظر جھکا کر کھانے لگی۔
“یہ لیں بی بی جی آپکا ناشتہ “بانو نےتھوڑی دیر بعد ناشتہ لا کر ٹیبل میں رکھا۔
” ناشتہ کرلو “آزر نے ناشتہ اس کے سامنے کیا۔
وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی۔
“میرا ہوگیا میں چلتا ہوں”وہ بولتے ہوے اٹھا اور بولا۔
“اپکا بیگ ؟”اسنے جلدی سے پوچھا۔
“وہ اوپر ہے میں لے آتاہوں”وہ بولتے ہوے اوپر جانے لگا۔
“رکے میں لیکر آتی ہوں”وہ اس کے پیچھے آ کر بولی۔
“ٹھیک ہے جاؤجلدی سے لے کر آؤ”اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ جلدی اوپرگئی اور اپنے روم میں جا کر آفیس بیگ لے کر نیچے آئی اور آذر کے ہاتھ میں پکڑایا۔
“میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا “وہ مسکراتے ہوئے بولا اور گاڑی میں بیٹھنے لگا فریحہ خاموشی سے اسے جاتا ہوا دیکھنے لگی۔
آزر کو کچھ یاد آنے پر اس نے مڑ کر فریحہ کو دیکھا اور آہستہ سے چلتا ہوا فریحہ کے پاس آیا۔
“جی کچھ چاہیے تھا؟”فریحہ نے اسے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
“ہاں بس یہ۔۔۔”آزر نے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے قریب کیا اور آہستہ سے اس کا چہرہ اٹھاتے ہوئے آپ نے ہونٹوں کے لمس اس کے ہونٹوں سے ملادئے۔
فریحہ کی آنکھیں پھٹنے کو تیار تھیں کچھ سیکنڈ کے بعد آزر نے اس کے ہونٹوں کو چھوڑا اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔
“اتنا تو حق ہے میرا “اس نے اس کی حالت پر مسکراتے ہوئے کہا اور بائی بولتے ہوئے واپس گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی گیراج سے نکالنے لگا۔
فریحہ ابھی تک شاک میں کھڑی تھی اسے آزر کی اس جسارت کی کوئی امید نہ تھی۔
***
“السلام علیکم تائی خالہ آپ ؟ “سارا نے دروازہ کھولا اور انہیں دیکھ کر حیران ہو کر پوچھا۔
“ہاں بیٹا میں میں آئی ہوں گھر میں بور ہو رہی تھی سوچا اپنی بہن سے مل لوں”وہ بولتے ہوئے اندر چلی گئیں۔
“فرحان تم کیوں باہر کھڑے ہو کر اندر آ جاؤ “سارا نے اس کو دیکھ کر کہا۔
“نہیں میں یونیورسٹی جا رہا ہوں شام کو آؤنگا”فرحان نے بولتے ہوئے بائیک اسٹارٹ کی۔
“چلو ٹھیک ہے اللہ حافظ تم جاؤ “سارا نے منہ چڑاتے ہوے دروازہ بند کیا۔
اس کی حرکت پر فرحان نے اپنی ہنسی ضبط کی۔
“آپ بیٹھو میں آپکے لئے پانی لیکر آتی ہوں “سارا انکو بولتے ہوے کچن کی طرف چلی گئی۔
“تم بتاؤ کیسی ہو “فہمیدہ بیگم نے فریدہ بیگم سے پوچھا۔
“آپا میں ٹھیک ہوں آپ بتاؤ کیسے ہیں یہاں کے سے آنا ہوا وہ بھی اچانک صبح صبح”فریدہ بیگم نے ان کا حال دریافت کرتے ہوے پوچھا۔
“بس بہن فریحہ کی شادی ہوگئی ہے گھر سونا سونا سا لگ رہا تھا بشیر صاحب کے کام پر چلے گئے فرحان بھی یونیورسٹی جا رہا تھا تو اسے کہا کہ مجھے یہاں چھوڑدے”انہوں نے تفصیل سے بتایا۔
“چلو اچھا کیا تم نے جب بھی دل اداس ہو تو یہاں آ جایا کرو میں بھی بور ہوجاتی ہوں”فریدہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔
“ہاں اب تو آنا جانا لگا رہے گا”فہمیدہ بیگم نے سارا سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے اسکی طرف دیکھکر کہا۔
“ہاں آپا!جاؤ سارہ جاؤ کھانے کے لئے کچھ لے کر آؤ “فریدہ بیگم نے سارا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
“جی امی ابھی لے کر آتی ہوں “وہ بولتے ہیں واپس کچن کی طرف چلی گئی۔
“فریدا مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے “فہمیدہ بیگم نے آہستہ سے انہیں کہا۔
“جی آپا بولیں کیا بات کرنی ہے “وہ ہمہ تن گوش ہو کر بولیں۔
“میں نے تمہسے اس دن بھی ذکر کیا تھا فریحہ کی مہندی والی رات “انہوں نے فریدا بیگم کو یاد دلاتے ہوئے کہا۔
“کس چیز کا ذکر آپا “فریدہ بیگم نے چونک کر یاد کرنے کی کوشش کی۔
“سارا اور فرحان کے بارے میں “وہ آہستہ سے بولیں۔
“اچھا اچھا وہ۔۔۔”فریدہ بیگم کو یاد آیا۔
“میں نے کہا تھا تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے اور تم نے کہا تھا اس بارے میں ہم پھر کبھی بات کریں گے تو تم نے سوچا اس بارے میں؟”انہوں نے مزید کہا۔
“جی آپا میں نے یہ بات سارا کے ابو سے بھی ذکر کیا وہ تو خوش ہو رہے تھے بول رہے تھے گھر کا بچہ ہے دیکھا بالا ہے “فریدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے تفصیل سے کہا۔
“لیکن فریدا اگر ہم کوئی جاب نہیں کرتا ابھی پڑھ رہا ہے تم لوگوں کو اس کی وجہ سے کوئی مسئلہ تو نہیں؟”فہمیدہ بیگم نے متفکر ہوتے ہوئے کہا۔
“نہیں آپ کا ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ویسے بھی ابھی کونسا شادی کرنا چاہتے ہیں ہم “فریدہ بیگم نے جواب دیا۔
“ہاں ہم بھی ابھی صرف نکاح یا پھر منگنی کرنا چاہتے ہیں شادی پڑھائی کے بعد کرلیں گے”فہمیدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“ہاں آپ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں “فریدا بیگم بھی مسکراتے ہوئے بولی وہ بھی کافی خوش لگ رہی تھیں۔
“یہ لیں تائی خالہ نمکو کھائیں”سارا نے نمکو کی پلیٹ ان کے سامنے کیا۔
“جیتی رہو بیٹا “انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے دعائیں دیں۔
دونوں بہنیں آپس میں باتیں کرنے لگیں اور سارہ گھر کے کام کرنے میں مصروف ہو گئی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...