وہ چھت پر چلا آیا ۔ اگرچہ ذہن پر یقین تھا کہ اس وقت شفق کی چھت پر موجودگی ناممکنات میں سے ہےمگر دل تھا کہ امید لگائے بیٹھا تھا۔غیر ارادتاً اس نے درمیانی دیوار کے اس پار جھانک کر دیکھا۔آج کوئی ہیولا اسکا منتظر نہیں تھا۔اضطراب و یاسیت کا گراف ایکدم سے بڑھا ۔ وہ بے اختیار چھت کے چکر کاٹنے لگا۔
“ہاں اب کیوں آئے گی وہ ؟ایک دم سے مل جانے والی غیر متوقع خوشی نےگذشتہ ساری باتیں بھلا دی ہونگی اسے۔ چار چار بھائیوں کی محبت سنبھالی نہیں جا رہی ہوگی اس سے۔اب تو اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوگا چھت پر آنے کا۔وہ تو آنسو بہانے کی غرض سے چھت پر آیا کرتی تھی۔ جب آنسو ہی ختم ہوگئے تو چھت پر آنے کا جواز ہی کیا بنتا ہے۔ اسے تو نامحرم مردوں سے اللہ واسطہ کا بیر تھا۔ ویسے بھی خود پر جبر کرتے ہوئے اپنی آزادی کی خواہش میں وہ مجھ سے مخاطب ہوتی ہوگی۔ اب تو بہت خوش ہوگی وہ، مجھ سے نجات جو مل گئی اسے۔اب اسے مجھ سے کیا سروکار۔ ایک بار پھر میں شفق کے لیے محض حریم آفندی کا بھائی بن کر رہ جاؤں گا۔جسے وہ جانتی تک نہیں تھی، جس سے اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔اس کی زندگی سے حیدر آفندی کا باب ختم ہوا۔”
وہ تہہ در تہہ بدگمانی کے سمندر میں اترنے لگا۔
سوچوں کے گرداب میں الجھا وہ آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا تبھی قدموں کی آہٹ پر وہ مڑا۔ اپنے مقابل حریم کو کھڑا پاکر اسے ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی تھی۔جلد یا بدیر حریم کو اس کے اندر سرایت کر چکے اضطراب و بے سکونی کا احساس ہو ہی جانا تھا۔وہ اسکی جڑواں بہن تھی۔اس کی بہترین دوست اس کی راز دار۔ ایک دوسرے کے لیے وہ دونوں کھلی کتاب کی طرح تھے۔
“کیا ہوا بھائی آپ چھت پر کیوں چلے آئے؟ نیند نہیں آرہی؟”
درمیانی دیوار کی قدرے کشادہ سطح پر براجمان ہوتی ہوئی وہ بولی۔
“ہاں یہی سمجھ لو۔کھلی ہوا میں سانس لینے کا دل کر رہا تھا۔”
وہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا۔
“مجھے معلوم ہوا ہے ۔ میری غیر حاضری میں آپ نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے شفق کی دلجوئی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔”
وہ ستائشی لہجے میں بولی۔
“کبھی اپنی تعریف بھی کرتی ہے وہ یا بس دوسروں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کی شوقین ہے تمھاری دوست ۔ مجھے یقین ہے اب بھی اپنی زندگی میں رونما ہوئی معجزاتی تبدیلی کا کریڈیٹ وہ تمہی کو دے رہی ہوگی۔آئندہ جب کبھی وہ دوسروں کی تعریف میں رطب اللسان دکھائی دے ،اس وقت تم بھی کہہ دیا کرنا، خان شفق ساحرہ ہے۔مقابل کو اپنے سحر میں جکڑ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے تمہاری دوست۔تم یقین نہیں کروں گی ،اس سے پہلی ملاقات کے بعد سے دن میں جانے کتنی دفعہ اس کی آواز میرے کانوں میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔وہ لڑکی جسے میں نے دیکھا تک نہیں ہے۔ میرے اعصاب پر سوار رہنے لگی ہے۔ہرملاقات کے دوران گھنٹوں ہمارے درمیان باتیں ہوتیں، لیکن کبھی میں اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔جب بھی ذہن پر زور ڈال کر اسکی شبیہہ دیکھنے کی سعی کرتا ہوں تو ذہن کی پلیٹ پر سنہرے بالوں والی لمبی چوٹی اور اسکا نیم رخ روشن ہوتا ہے جو اس روز خان حویلی میں میری نگاہوں کی گرفت میں آیا تھا۔جانے کیوں میرا دل افسوس کرتا ہے کہ اے کاش ! میں اس روز اپنے عقب میں محض چند انچ کے فاصلے پر کھڑی لڑکی کا چہرہ دیکھ لیتا، تو آج وہ لڑکی میرے لیے ایک معمہ بن کر نہ رہ جاتی۔”
اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
“میری ذہنی و جذباتی کیفیات تم سے کب چھپی رہی ہیں۔جلد یا بدیر میں ازخود تمہیں میری الجھن بھری کیفیت سے آگاہ کردیتا ۔لہٰذا کل کرے سو آج کر کے مصداق میں ابھی تمہیں حقیقت سے باخبر کردوں یہی میرے حق میں بہتر ہے۔”
وہ سابقہ لہجے میں بولا۔
“آپ کی بات صد فی صد درست ہے ۔ مجھ سے آپ کی ذہنی و جذباتی کیفیات چھپی نہیں رہ سکتیں۔لہذا میں اپنے ذاتی تجزیے کی روشنی میں آپ سے چند سوال کروں گی جن کے جواب آپ کو ہاں یا ناں میں دینے ہونگے۔ یوں سمجھ لیں ایک کھیل کھیلیں گے ۔یاد رہے جواب ایک لفظی ہونا درکار ہے۔ مفصل جواب دینے کی اجازت نہیں ہے۔یقین جانیے اس سوالنامے کو حل کر نے کے بعد اپنی ذہنی و جذباتی کشمکش کے بوجھ سے آپ آزاد ہو جائیں گے۔یہ آپ کی بہن کا وعدہ ہے۔ جو آپ کو آپ سے بہتر جانتی ہے۔”
وہ پرجوش ہو کر بولی۔
“ٹھیک ہے تو پھر شروع کرتے ہیں۔”
اسے انکار کا موقع دیئے بغیر وہ شروع ہوگئی۔
“کیا آپ شفق کی کمپنی انجوائے کرتے ہیں؟”
جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ اس کے پہلے ہی سوال پر وہ بے طرح گڑبڑا گیا۔
“ہاں”۔۔۔۔۔
اپنی جھجک کو چھپا نے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے، قدرے تحمل سے شرط کے مطابق یک لفظی جواب دیا تھا۔
“شفق سے ملاقات کے چند منٹ بعد ہی وہ آپ کے نزدیک محض میری دوست نہیں رہی تھی۔آپ خان شفق سے باتیں کیا کرتے تھے حریم آفندی کی دوست سے نہیں ؟ ہاں یا ناں؟”
دوسرا سوال سن کر وہ بری طرح جزبز ہوا۔
“یہ کیسا سوال ہے حریم؟ تمہارا سوال ہی غلط ہے۔۔۔۔۔۔”
“آپ کو تفصیل دینے کی اجازت نہیں ہے بھائی۔ ہاں یا ناں میں جواب دیں۔”
وہ کسی سخت گیر استاد کے لہجے میں بولی۔
“ہاں”۔
ہار مان کر جواب دیا۔
” شفق کی رہائی کے ڈرامہ کا آغاز میری بدولت ہوا تھا ۔اس کھیل کا اختتام بھی میں نے کیا۔ باوجود اس کے آپ خوش نہیں تھے۔آپ کو ایک احساس جرم ستارہا تھا ،جیسے آپ نے شفق سے وعدہ خلافی کی ہو۔ ہاں یا نہیں؟”
اس کے تیسرے سوال پر وہ گویا اچھل پڑا۔
“ایسا قطعاً نہیں ہے حریم ۔میں تمہارے ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ تھا اور خوش بھی۔۔۔۔۔ ہاں بس ۔۔۔۔۔۔”
”
آپ کو تفصیلی جواب دینے کی اجازت نہیں ہے بھائی۔”
ایک دفعہ پھر ٹوکا۔
“ہاں”۔
بادل ناخواستہ مثبت جواب دیا۔
“فی الوقت آپ شفق سے ملنے کی خواہش میں چھت پر آئے تھے؟”
“نہیں”۔
بنا رکے برجستہ جواب دیا ۔
یہ اور بات تھی اس نے سفید جھوٹ بولا تھا۔ اپنی بہن کے سامنے اس اعتراف کی حد تک صاف گوئی کی جرات نہیں تھی اس میں۔ فطری جھجھک آڑے آگئی ۔ وہ پل میں اسکا بڑا بھائی بن گیا۔
“اس جواب کو کھیل سے خارج کیا جاتا ہے۔ کیونکہ حریم جانتی ہے اس کے بھائی نے سفید جھوٹ بولا ہے۔”
حریم نے کمال اطمینان سے کہا۔
حریم کی بات سنکر جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو ومتذبذب سا سیڑھیوں کی طرف بڑھا ۔اسکی بہن ان رازوں کو افشاں کرنے پرمصر تھی، جنہیں اب تک خود سے بھی پوشیدہ رکھا تھا اس نے۔
“آخری سوال بھائی، کیا آپ شفق سے محبت کرتے ہیں ؟”
حریم کے الفاظ سن کر زینوں کی سمت بڑھتے اس کے قدم ساکت رہ گئے۔اپنی بہن کی صاف گوئی نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیئے۔
وہ بے ساختہ رخ موڑنے پر مجبور ہو گیا۔
“یہ کس نتیجے پر پہنچ رہی ہو تم حریم۔ تم سراسر غلط فہمی میں مبتلا ہو۔یہ حقیقت ہے کہ شفق کے حوالے سے میرے ذہن میں بار بار آ رہے خیالات مجھےپریشان کررہے ہیں۔ایکدم سے اس ڈرامہ کے ختم ہو جانے سے ایک خالی پن کا احساس مجھے اپنے حصار میں لے رہا ہے۔ لیکن اس سب سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں شفق کی محبت میں مبتلا ہوں۔بعض اوقات ہم کسی عارضی صورتحال کے عادی بن جاتے ہیں۔ ہماری جذباتیت کی بدولت نہایت ہی کم عرصہ میں ہم اس شخص کے ساتھ جذباتی وابستگی قائم کر لیتے ہیں جس کا ساتھ عارضی ہوتا ہے۔ذہن باخبر ہوتا ہے کہ یہ وقت ، یہ باتیں جلد ہی ختم ہونے والی ہیں۔تاہم دل اس وقتی اور عارضی صورتحال کا ہمیں عادی بنا دیتا ہے۔یوں سمجھ لو مجھے اس عارضی صورتحال کی، اس ڈرامہ کی عادت ہوگئی ہے ۔ اچانک سے کسی عادت کو ترک کرنے کا ارادہ باندھ لیا جائے تو خالی پن کا احساس ہونا فطری ہے اور میں بھی اسی فیز سے گزر رہا ہوں۔شاید مجھے اپنے نام کے ساتھ خان شفق کا نام سننے کی عادت ہو گئی ہے۔یہ خیال ہی مجھے تکلیف پہنچا رہا ہے کہ چند دنوں کے بعد دوست واحباب حقیقت سے باخبر ہوجائیں گے اور میرے نام کے ساتھ شفق کا نام لینا چھوڑ دیں گے۔ عین ممکن ہے جلد ہی شفق کا نام باضابطہ طور پر کسی اور کے ساتھ جڑ جائے۔”
فضا میں کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں جمائے وہ کھوئے ہوئے لہجے میں گویا ہوا۔
“آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں بھائی ۔ اس عارضی صورتحال کے عادی بن گئے ہیں آپ۔ اور آپ کی اسی عادت کو محبت کہتے ہیں۔شفق کا نام کسی اور کے نام کے ساتھ جڑ جانے کے تصور سے آپ کو ہورہی تکلیف کو محبت کہتے ہیں۔شفق کے لئے آپ کے دل میں بیدار ہوئے جذبات قطعاً عارضی نہیں ہیں بھائی۔ یہ جذبات ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گے۔ایک دفعہ آپ کے دل میں خان شفق کے لئے جذبات پیدا ہو جائیں تو تاحیات ان جذبات میں تبدیلی نہیں آتی ۔ایک بار آپ اپنے دل میں شفق کو مقام دے دیں ، اس کے بعد وہ مقام خاص بن جاتا ہے۔کسی اور کو وہ مقام دینے سے آپ قاصر ہوتے ہیں۔آپ ٹھیک ہی کہتے ہیں بھائی۔ خان شفق ساحرہ ہے اور میرے ساتھ ساتھ اب آپ بھی اس کے سحر میں گرفتار ہوچکے ہیں۔”
وہ اس کے سینے سے لگی باآواز بلند پرجوش لہجے میں بولی۔
“حریم۔۔۔۔۔ حریم ۔۔۔۔۔
میری بات سنو”
اسے خود سے الگ کرتےہوئے حیدر نے بعد سنبھالنے کی سعی کی۔
“حیدر آفندی کو خان شفق سے محبت ہوگئی ہے ۔اب شفق کو حریم آفندی کی بھابھی بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاہوں۔۔۔۔۔۔۔و۔۔۔و۔۔۔و۔۔۔۔”
آسمان کی طرف سر اٹھائے وہ باآواز بلند نعرے لگا رہی تھی۔رات کے سناٹے کو چیرتی اس کی آواز دور تک گئی تھی۔کچھ ہی دوری پہ اپنی اپنی چھتوں پر چہل قدمی کرتے منچلوں نے اس کی آواز سن کر سیٹیاں بجا کر داد دی تھی۔
سیٹیوں کی آواز سنتے ہی زبان دانتوں تلے دبائے وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی زینوں کی سمت بھاگی تھی ۔ حیدر اپنی بہن کے اس شدید اور پرجوش ردعمل کو دیکھ مسکرا اٹھا۔ غالباً وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔ اسے اس لڑکی سے محبت ہو گئی تھی جسے اس نے دیکھا تک نہیں تھا۔
*****
یہ دیکھو حریم شایان بھائی میرے لئے سمارٹ فون لے کر آئے ہیں ۔کیسا لگا تمہیں؟”
سنہرے رنگ کا مہنگا ترین اسمارٹ فون شفق نے حریم کی طرف بڑھایا ۔ خلاف معمول وہ دونوں بھری دوپہر میں چھت پر موجود تھیں۔
“واؤ ! شفق یہ فون تو میرے فون سے بھی مہنگا ہے ۔ رنگ بھی کس قدر خوبصورت ہے۔”
حریم داد دیئے بنا نہ رہ سکی۔
“اتنا ہی نہیں ، آج ناشتہ کے بعد عرفان بھائی نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر پورے 10000 روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیے ۔ کہہ رہے تھے حریم کے ساتھ جاکر اپنی پسند کے کپڑے خریدلینا۔”
شفق چہکی۔
اللّٰہ ! شفق تمہاری تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور سر کڑھائی میں۔ خیر آج پہلی دفعہ تم میرے ساتھ شاپنگ کے لئے جارہی ہو۔ آج تمہیں اندازہ ہوگا کہ شاپنگ کے معاملے میں حریم آفندی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ جدید فیشن کے مہنگے ترین ملبوسات کی ایسی شاپنگ کرواؤں گی تمہیں کہ تمہاری بھابھیاں جل کر کوئلہ ہو جائیں گے۔تم فوراً تیار ہو جاؤ، ہم دونوں ابھی چلیں گے شاپنگ کرنے۔”
حریم باآواز بلند اعلان کرتی ہوئی سیڑھیوں کی سمت بھاگی ۔
شفق اس کے حکم کی تعمیل میں زینوں کی طرف بڑھی تھی۔
“وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی کار کے نزدیک چلی آئی۔حریم کو وہاں نہ پا کر اس نے متلاشی نظر اطراف میں دوڑائیں ،دفعتاً حیدر نے کار کی عقبی نشست کا دروازہ اسکے لئے کھولا تھا۔اچانک اپنے پیچھے سے اس کے وارد ہوجانے پر وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔
“جلدی اندر بیٹھو شفق ۔ اگر تم جانے میں تاخیر کرو گی تو لوٹنے میں دیری ہوگی ۔نتیجتاً تمہاری نماز قضا ہو جائیگی بعد میں تم مجھ ہی کو کوسو گی۔”
حریم نے جلدی کا شور مچایا۔حریم کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی شفق کی منتظر تھی۔کار کے سیاہ شیشہ بند ہونے کی وجہ سے وہ حریم کو دیکھ نہیں سکی تھی۔وہ خاموشی کے ساتھ عقبی نشست پر براجمان ہوگئی۔
کار کے اندر عجیب سی خاموشی کا راج تھا ۔ حیدر کی نگاہ بار بار بھٹک کر بیک ویو میرر کی طرف اٹھ رہی تھی۔حالانکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ شفق سر تا پیر سیاہ عبایہ میں ملبوس تھی۔ حتیٰ کہ اس کی آنکھیں بھی جالی دار پردے سے ڈھکی ہوئی تھیں۔لہذا اس کی آنکھوں کے راستہ ہی سہی وہ شفق کے دل کا حال جاننے سے قاصر تھا۔ایک ہی کار میں حیدر کے ساتھ محوسفر شفق بری طرح نروس ہورہی تھی۔چھت پر گھنٹوں بلاجھجک جس شخص سے باتیں کیا کرتی تھی ، اپنے مقابل اسے مجسم پاکر اسکے اوسان خطا ہونے لگے ۔قوت گویائی جیسے سلب ہوکر رہ گئی تھی۔کار کے اندر کی صورتحال خوامخواہ ہی آکورڈ سی محسوس ہو رہی تھی جسکی اہم وجہ تھی حریم کی خاموشی۔ خلاف توقع اور خلاف عادت وہ اپنی ہمہ وقت چلتی زبان پر تالے لگائے، پورے انہماک کے ساتھ باری باری کبھی حیدر تو کبھی شفق کی حرکات و سکنات کا جائزہ لینے مصروف تھی۔
چند میلوں کا سفر گویا صدیوں کے بعد اختتام کو پہنچا تھا۔مال کے سامنے کار کے روکتے ہی حیدر اور شفق نے بیک وقت ٹھنڈی سانس لی تھی۔
تم دونوں شاپنگ کرلو، میں کیفے میں ویٹ کر لیتا ہوں۔”خوبصورت” ملبوسات سے سجی ایک شاپ کے نزدیک رک کر حیدر حریم سے مخاطب ہوا۔
اسے اندازہ تھا ، اس کی ہمراہی میں شاپنگ کرنا تو درکنار شفق ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پائے گی۔ اس کی موجودگی میں وہ کس قدر uncomfortable
محسوس کررہی تھی اس کا نمونہ وہ کار میں دیکھ چکا تھا ۔ پورے راستے وہ اس طرح خاموش بیٹھی تھی گویا ایک بھی لفظ لبوں سے ادا کرنے پر قیامت آجائے گی۔چھت پر وہ باآسانی اس سے گھنٹوں باتیں کرتی تھی۔ اس وقت ان دونوں کے درمیان ایک عدد دیوار جو حائل تھی۔ فی الوقت ان دونوں کے درمیان کسی بھی قسم کی آڑ کوئی پردہ حائل نہیں تھا اور نامحرم مردوں کے حوالے سے اسکی فطری جھجھک اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ظاہر ہے اس کا ردعملObvious
تھا۔ وہ اس کے لیے ایک نامحرم مرد ہی تو تھا۔اس سے زیادہ حیثیت نہیں تھی اس کی خان شفق کے نظر میں۔سیاہ عبایہ میں ملبوس اس کے وجود پر ایک شا کی نگاہ ڈال کر حیدر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنی راہ ہولیا۔
وہ قدم بہ قدم اس سے دور ہوتا جا رہا تھا ۔تاحد نگاہ وہ اس شخص کی پشت کو یک ٹک دیکھے گئی اور پھر وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔یک لخت اس کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں۔دل ایک دم سے مضطرب ہوا تھا۔ فضاء اچانک بوجھل سی محسوس ہونے لگی۔
“اوہو ، اپنی آنکھوں کے سامنے سے یہ پردہ تو ہٹا لو ۔ یہاں کوئی نہیں دیکھ رہا تمہیں۔شاپنگ کرنے آئی ہو، کھلی آنکھوں سے ڈریسیس تو پسند کر لو۔ دو پردوں سےڈھکی ہوئی آنکھوں سے ڈریسز کا رنگ اور ڈیزائن کیا خاک نظر آنا ہے۔”اس کے چہرے کو ڈھکے نقاب کے دو کپڑوں کی تہوں میں سے اوپری جالی دار کپڑے کو اٹھاکر شفق کے سر پر ڈالتے ہوئے حریم گویا ہوئی۔
اب شفق کی بھوری آنکھیں واضح ہوئی تھیں۔ آنسوؤں سے لبالب بھری اس کی آنکھیں دیکھ حریم ٹھٹھک گئی۔
“حریم کیا تم میرے سوالوں کے جواب دو گی ؟ کیا تم بتا سکتی ہو فی الوقت تمہارے بھائی کو خود سے دور جاتا دیکھ مجھے تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟میری رہائی کے لیے تشکیل دیے گئے ڈرامہ کا انجام ہماری توقع سے زیادہ خوشگوار واقع ہوا ،باوجود اس کے میرا دل پر سکون کیوں نہیں ہے؟کیوں یہ خواہش میرے دل میں گھر کرگئی ہے کہ کاش اس ڈرامہ کا انجام اس طرح نہ ہوتا۔عارضی طور پر ہی سہی میرا نام تمھارے بھائی کے نام کے ساتھ منسوب ہوجاتا۔ کچھ وقت کے لیے ہی سہی مجھے تمھارے بھائی کا ساتھ نصیب ہوتا۔ کاش یہ نکاح ہوجاتا، فرضی ہی سہی ۔گذشتہ کئی سالوں سے میرا دل محبت سے خالی تھا۔میرے دل کی زمین بالکل بنجر تھی۔پھر ایک دن اس دل کے ایک گوشہ میں تمہاری محبت کا پھول کھلا۔اور آج سے دو روز قبل میرے دل کی بنجر زمین پر میرے بھائیوں کی محبتوں کی بارش ہوگئی۔سارا کچھ گویاجل تھل ہوگیا باوجوداسکے میرے دل کے ایک گوشہ میں صحراؤں کی سی ویرانی کیوں ہے؟وہ حصہ سوکھا کیونکر رہ گیا۔محبتوں کی یہ پھوار, نعمتوں کی یہ بارش اس گوشہ کی آبپاشی کیوں نہیں کر سکی۔میرے کمرے میں چند محبت کے پیاموں کی موجودگی تمہارے بھائی کے منصوبے کا پہلا قدم تھی۔تمھارے بھائی نے میرے کمرے میں کچھ خطوط ثبوت کے طور پر رکھے تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کے اور میرے درمیان محبت کا تعلق ثابت ہو جائے ۔ فرضی محبت کو ثابت کرنے کے لیے لکھے گئے جھوٹے پیغامات۔ان خطوط میں رقم الفاظوں میں صداقت نہیں تھی ۔ان رنگین کاغذ کے ٹکڑوں سے جذبات کی مہک نہیں آتی تھی۔ان خطوط کی کئی سطور سے چند الفاظ حذف تھے۔کئی جملے بے ربط تھے۔ ان خطوں کو پڑھ کر با آسانی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ وہ کس قدر بے توجہی سے لکھے گئے ہیں۔باوجود اس کے میں بارہا ان خطوط کو کیوں پڑھتی ہوں؟جب تمہارا بھائی خان حویلی آکر میرے بھائیوں کے مقابل کھڑا ہوگیا تھا, اس وقت میں بخوبی واقف تھی کہ وہ یہ سب اپنی بہن کے لئے کر رہا ہے۔ اسے مجھ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود کیوں میں خود کو محفوظ محسوس کر رہی تھی؟ کیوں میرا دل سکون و طمانیت کا احساس سے بھر گیا تھا ؟کیوں مجھے اپنا آپ معتبر محسوس ہو رہا تھا؟تمہارے بھائی کا خیال آتے ہی ناقابل فہم جذبات میرے دل میں سر اٹھانے لگتے ہیں۔اپنی زندگی کے اٹھارہ بہاروں میں پہلے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا مجھے۔ ایک دم سے اتنی ساری خوشیاں اتنی ساری نعمتیں میرے دامن میں آ گریں اسکے باوجود میں خوش نہیں ہوں ۔مطمئن نہیں ہوں ۔تمہیں نہیں لگتا میں کفران نعمت کی مرتکب ہوئی ہوں۔دن کے ہر پہر میں ایک نامحرم کو سوچتی ہوں ،تمہارا کیا خیال ہے میں گناہ کر رہی ہوں؟”
حریم کی کلائی کو اپنے ہاتھ سے تھامیں وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔اسکی نگا ہیں اب بھی اسی مقام پر مرکوز تھیں جہاں وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔حریم اپنی ہتھیلی پر اس کے ہاتھ کی لرزش محسوس کر سکتی تھی۔ اس کا ارتکاز ٹوٹا جب حریم نے اسے دونوں بازؤں سے تھام کر گول گھما دیا۔
“واہ شفق! مطالعہ کے شغف نے تمہارے الفاظوں میں اس قدر وزن پیدا کر دیا ہے, تمہارے جملوں کو اس قدر خوبصورت بنا دیا ہے کہ خدا کی قسم اگر بھائی یہ اعتراف سن لیتے تو اپنی قسمت پر نازاں ہوتے۔ ہاں تمہاری دوست حریم آفندی تمہارے ہر سوال کا جواب دے گی۔ حریم آفندی کے ذاتی تجزیہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو تمہارے ہر سوال کا جواب ایک ہی ہے۔اور وہ یہ ہے کہ تمہیں حیدر آفندی سے محبت ہو گئی ہے۔خان شفق کو حیدرآفندی سے محبت ہو گئی ہے۔ تم کفران نعمت کا ارتکاب قطعاً نہیں کر رہی میری جان۔تمہارے دل کا ایک گوشہ سیراب نہ ہوسکاکیونکہ اسے بھائیوں کی نہیں ،محبوب کی محبت کی ضرورت ہے۔تمہاری سوچوں کا محور میرا بھائی اسی لئے بن گیا ہے کیونکہ تم بھی اس کے سحر میں گرفتار ہو چکی ہو۔تم دونوں ساحر ہو۔تم دونوں ہی نے ایک دوسرے کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیا ہے۔آگ دونوں طرف برابر لگی ہے۔ لیکن تم فکر نہ کرو ،تم کسی نامحرم کو سوچے جارہی ہو اس گناہ کے بوجھ سے بہت جلد تمھاری دوست حریم آفندی تمہیں آزاد کر دے گی۔کیونکہ عنقریب وہ حیدر آفندی کو تمہارے محبوب سے پرموٹ کرکے تمھارے شوہر کے عہدے پر فائز کرنے والی ہے۔”
وہ با آواز بلند بناسانس لیے بولے جا رہی تھی۔اطراف سے گزرتے چند افراد نے مڑ کر عبایہ میں ملبوس ان دو لڑکیوں کی طرف دیکھا تھا۔ جن میں سے ایک با آواز بلند چہک رہی تھی۔
شفق نے گھبرا کر نان اسٹاپ بولتی حریم کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔اسے اپنی واحد عزیز ترین دوست سے اس قدر صاف گوئی کی توقع نہیں تھی۔ من ہی من وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب جذبات کی رو میں بہہ کر اس نے غیر ارادتاً اپنا دل اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔اس کے طویل سوال نامہ کا اس قدر مختصر اور جامع جواب حریم نے اس انداز میں دیا تھا کہ اس سمیت پاس سے گزرتے ہر فرد نے سنا تھا۔اس پر تو گویا گڑھوں پانی پڑگیا۔
“یہ کیا کر رہی ہو تم حریم؟ سب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔”
اس نے دبی آواز میں حریم کو تنبیہہ کی۔
“تو دیکھ لینے دو سب کو۔ سن لینے دو سب کو ۔آج میں بہت خوش ہوں۔میرا جی کررہا ہے راہ چلتے ہر فرد کو یہ خوشخبری سنا دوں کہ میری دوست کو میرے بھائی سے محبت ہو گئی ہے۔میرے بھائی کو میری دوست سے محبت ہو گئی ہے۔وہ دو افراد ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہو گئے ہیں جن کی محبت میں گزشتہ کئی سالوں سے میں مبتلا ہوں۔”
شفق کی تادیبی نظروں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ مزید پھیلی۔
“چلو اندر چلو ہمیں خریداری کرنی ہے۔”
شفق اسکا بازو پکڑ کر شاپ میں داخل ہوئی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ منظر نامے سے غائب ہو جائے۔ حریم خوشی کے مارے پاگل ہوئی جا رہی تھی جبکہ اس کے ذہن کی سوئی اس ایک جملے پر اٹک رہ گئی تھی۔ “میرے بھائی کو میری دوست سے محبت ہوگئی ہے۔”
اسکا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔
*****
دونوں فریقین کی ایک دوسرے کے تیئں جذبات سے آگاہی کے بعد حریم ‘مشن شادی ‘کو پایا تکمیل تک پہنچانے کی تگ ودو میں لگ گئی۔وہ باری باری کبھی اپنے والد کو تو کبھی اپنی والدہ کو رضامند کرنے کی سعی کرتی کہ وہ حیدر کا رشتہ لے کر شفق کے گھر جائیں۔ مگر یہ کام اتنا آسان نہ تھا۔ہر دفعہ اس کی والدہ یہ کہہ کر اپنا دامن صاف بچا لیتی کہ
“مان لیا شفق کے بھائیوں کو ان کی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے۔ چاروں خان زادے راہ راست پر آچکے ہیں اور اب اپنی بہن کو وہی محبت اور حقوق دینے لگے ہیں جس کی وہ حقدار ہےلیکن ان باتوں سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ان دو حویلیوں کے مکینوں کے درمیان گذشتہ نسلوں سے چلی آرہی رقابت اور نفرت کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں اور اپنی اکلوتی بہن کا ہاتھ پرانے حریف کے فرزند بالخصوص دوسری برادری سے تعلق رکھنے والے لڑکے کے ہاتھ میں وہ سونپ دیں گے۔ہمیں ہماری عزت پیاری ہے۔ خود اپنے پیروں سے چلکر اپنی تذلیل کروانے ہم ان کے در پر قطعاً نہیں جائیں گے۔اور تو اور تمہیں یہ کیا ہو گیا ہے؟تم نے سوچ بھی کیسے لیا میں تم سے پہلے حیدر کا رشتہ کردونگی۔ابھی تو میں تمہاری بات پکی کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائی ہوں۔جب کبھی تمہاری شادی کی بات اٹھاتی ہوں ،تمہاری جدائی کے خیال سے تمہارے باپ اور بھائی کو ہول اٹھنے لگ جاتے ہیں۔باپ بیٹے کی ایموشنل بلاک میلینگ سے عاجز آکر جب میں گھر جمائی کی تجویز پیش کرتی ہوں تو پھر بپھر اٹھتے ہیں کہ ہم کسی بے غیرت لڑکے سے ہماری حریم کی شادی کیسے کر سکتے ہیں۔آج تک تمھارے جتنے بھی رشتے آئے، جانے تمہارے باپ اور بھائی نے کون کون سی شرائط ان کے سامنے رکھیں کہ وہ سبھی بھاگ کھڑے ہوئے۔”
حیدر کے رشتے سے بات حریم کے رشتے تک پہنچ جاتی اور اس کی والدہ کے پرانے زخم ہرے ہو جاتے نتیجتاً شادی کی بات اپنی موت آپ مر جاتی۔
“مام دو روز کے بعد بھائی کی واپسی ہے وہ انگلینڈ چلے گئے اور ان کی عدم موجودگی میں اگرشفق کے بھائیوں نے اسکی بات کہیں اور پکی کر دی تو ۔۔۔۔۔۔”
وہ ایک آخری کوشش کرتی۔
تو۔۔ آمنہ بیگم بے نیازی کا مظاہرہ کرتیں۔
شفق اور بھائی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ ” وہ ملتجی لہجہ اپناتی۔
” شفق ان کی بہن ہے۔ ان کا پورا حق بنتا ہے ،جہاں مرضی ہو اسکا رشتہ لے کر جائیں ۔ جہاں جی چاہے اس کی بات پکی کریں ۔ اگر حیدر شفق میں دلچسپی رکھتا ہے تو اسے بذات خود اپنے والدین سے بات کرنی چاہیے ، تم اس پیچیدہ اور نہایت ہی سنگین مسئلہ میں نہ ہی پڑو تو بہتر ہے۔”
آمنہ بیگم مزید قطعیت سے کہتیں۔
اور حریم کو خاموشی اختیار کرنا پڑتی۔ اس کی والدہ بھی حق بجانب تھیں۔اپنی شادی کی بات حیدر کو خود اپنے والدین کے سامنے رکھنا چاہیے تھی اور اس کے لئے حریم نے اسےرضامند کرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر حیدر اس رشتے سے جڑی قباحتیں اور پیچیدگیوں سے واقفیت رکھتا تھا۔وہ حریم کی طرح جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ صحیح وقت کا انتظار کر رہا تھا۔
حریم اور حیدر اس بات سے بے خبر تھے کہ ابھی ان کی زندگی میں ایک اور معجزہ رونما ہونا باقی تھا۔
وہ ایک عام سی دوپہر تھی جب آفندی حویلی کے دروازے پر دستک ہوئی۔دروازہ کھولنے کے بعد چوکھٹ پر ایستادہ ہستیوں کو دیکھ آفندی صاحب کے چودہ طبق روشن ہو گئے ۔
ہمہ وقت رعونت اور تکبر کا لبادہ اوڑھے ہوئے چہروں پر آج خلافِ معمول مسکراہٹ کا ڈیرہ تھا۔ چاروں خان زادے ان کے دہلیز پر کھڑے مسکرا رہے تھے۔حیرت کے سمندر میں غوطہ زن آفندی صاحب ان کے ہمراہ لاؤنج میں تشریف لائے تھے۔جب آمنہ بیگم کا تعارف ان کے گھر تشریف لائیں مہمانوں سے کروایا گیا تو ان کی حالت بھی اپنے شوہر کی حالت سے مختلف نہ تھی۔ وہ متذبذب سی مہمانوں کی آؤ بھگت میں لگ گئیں۔
چند لمحے معافی تلافی کا دور چلا اس کے بعد خان زادوں نے اصل مدعا بیان کیا۔
“دیکھیں آفندی صاحب ،اب تک تو آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم یہاں محض ہمارے گذشتہ رویوں کے لیے معذرت طلب کرنے نہیں آئے ۔ہم جانتے ہیں ہم لوگ فی الوقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ آپ سے اس قسم کا مطالبہ کر سکے اور ہم اس کے لائق بھی نہیں ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ہمارے پاس۔ گزشتہ اٹھارہ سالوں سے ہماری بہن کی حق تلفی کرتے آئے ہیں ہم۔ اس کے ساتھ وہ سلوک کرتے آئے ہیں جو شاید سوتیلے بھائی بھی اپنی بہن کے ساتھ نہیں کرتے ہوں گے۔مگر خدا کا شکر ہے دیر سے ہی سہی ہمیں ہماری غلطیوں کا احساس ہوگیا اور یہ معجزہ آپ کے بچوں کی بدولت وقوع پذیر ہوا ہے۔آپ کے دونوں بچوں کی محبت اور خلوص نے ہمارے پتھر دلوں کو موم کردیا۔ہماری بہن کے ماضی کی تاریکی کا سبب ہم بنے رہے ہیں ۔ہماری خواہش ہے کہ ہماری اکلوتی بہن کے روشن مستقبل کی وجہ بھی ہم بنیں۔ہم اس کا مستقبل مستحکم ، پرمسرت اور روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اس کی شادی ایسے لڑکے سے کرانا چاہتے ہیں جو ہر لحاظ سے اس کے قابل ہو۔ اور جب ایسے لڑکے کا خیال ہمارے ذہن میں آتا ہے تو آپکے بیٹے کی شبیہہ ذہن کے ایک دریچے میں روشن ہوتی ہے۔ہمارا نہیں خیال ہمارے دوست و احباب میں سے کسی کا بھی بیٹا آپ کے بیٹے سے زیادہ قابل ہوگا۔ آپ کے بیٹے سے بہتر شوہر نہیں ڈھونڈ سکتے ہم ہماری بہن کے لیے۔لہذا ہم آپ سے گذارش کرتے ہیں کہ خدارا ہماری گزشتہ تمام خطاؤں کو فراموش کر ہماری بہن کو اپنی بیٹی بنالیں۔ ہماری بہن نیک دامن ، معصوم اور فرشتہ صفت لڑکی ہے۔خدا کا شکر ہے ، وہ کسی لحاظ سے اپنے بھائیوں جیسی نہیں ہے ۔ہمیں اندازہ ہےکہ ان دونوں خاندانوں کے بچوں کی پرورش میں خاصا فرق ہے۔آپ کا بیٹا بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر رہا ہے ۔آپ کے دونوں بچوں نے آزاد زندگی گزاری ہے ۔یقین جانیے ہم ہر ممکن کوشش کرینگے گے کہ شفق اس خاندان کی بہو بننے کے قابل ہو جائے۔ ہم اسے اعلیٰ تعلیم دلوائیں گے ۔ ان دو خاندانوں کے ماحول کا تفاوت اس کی آئندہ زندگی پر اثر انداز نہیں ہوگا۔”
حریم جو خان زادوں کی اچانک آمد کا سن کر لاؤنج کے ستون کے پیچھے چھپ کر ہمہ تن گوش تھی۔خان زادوں کی اچانک آمد کی وجہ جان کر اسے لگا گویا وہ ایک دم سے ہلکی ہو گئی اور اب وہ ہوا میں اڑتی چلی جارہی ہے۔
آسمان کی بلندیوں میں۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ اونچا۔۔۔۔ اور اونچا۔۔۔۔۔
پرندوں سے بھی اوپر۔۔۔۔۔
بادلوں کے درمیان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ وہ بھاگتی ہوئی حیدر کے کمرے میں پہنچی۔
دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا تھا۔ حیدر پانی کا گلاس منہ سے لگائے دروازے کی طرف متوجہ ہوا۔
“بھائی ، عرفان بھائی شفق کا رشتہ لے کر آئے ہیں”۔
پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بنا تمہید کے اس نے حیدر کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ حلق کے راستے پیٹ میں اترتا پانی راستے میں اٹک گیا۔اسے زبردست اچھو لگا تھا۔وہ بری طرح کھانسنا شروع ہو گیا۔
“یہ تو ہونا ہی تھا ۔یہ خبر ہی اتنی دھماکہ خیز تھی۔ مجھے تو لگ رہا تھا میرا ہارٹ فیل ہو جائے گا پھر آپکی تو محض سانس اٹکی ہے۔”
اس کی پشت کو سہلاتے ہوئے حریم گویا ہوئی۔
حیدر نے جزبز سا ہو کر اپنی بہن کے چہرے کو دیکھا وہ مسکرا رہی تھی۔ وہ خوش تھی اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ خوش ہے یا انتہا سے زیادہ خوش۔ خوشی کی آخری حد کیا ہوتی ہے۔ ایک دم سے نہایت ہی غیر متوقع نعمت آپ کی جھولی میں آگرے تو خوشی سے جھوم اٹھنے کے بجائے کیا ہارٹ فیل ہونے کا احساس ہوتا ہے؟
سانس اٹک جاتی ہے؟
وہ متحیر تھا۔
آفندی صاحب نے دل و جان سے اپنے بیٹے کے لیے شفق کے رشتے کو قبول کیا تھا۔ دو روز کے بعد حیدر کی واپسی تھی چنانچہ اگلے ہی روز قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں شفق اور حیدر کا نکاح ہونا طے پایا تھا۔ سب کچھ بہت جلدی جلدی ہو رہا تھا۔حیدر کی واپسی سے قبل خان زادے اپنی بہن کو حیدر کے ساتھ مقدس رشتے میں باندھنے کے خواہاں تھے۔آفندی صاحب نے ان کے سامنے منگنی کی تجویز پیش کی تھی مگر خان زادے منگنی جیسی رسومات کو وقت کا ضیاء تصور کرتے تھے۔منگنی کے بجائے سیدھے نکاح پر اصرار سنکر جب آفندی صاحب نے اعتراض جتایا کہ نکاح کے لحاظ سے ابھی ان کے بیٹے کی عمر کم ہے تو شفق کے بھائیوں نے یہ کہہ کر انہیں رضا مند کرلیا کہ فی الوقت نکاح کی رسم ادا کی جائیگی۔ رخصتی تب ہوگی جب حیدر اپنی تعلیم مکمل کر لے گا۔حیدر ، شفق اور حریم کے لئے یہ صورت حال کسی خوبصورت خواب جیسی تھی۔
*****
خان حویلی اور آفندی حویلی کی چھت پر شام کے سائے اتر رہے تھے۔حسب معمول شفق اور حریم چھت پر موجود تھیں۔ حریم نے حیدر کے حوالے سے شفق کو چھیڑ چھیڑ کر اس کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔
“حریم میرا خیال ہے تمھاری چھت کی بغل والی چھت پر کوئی آیا ہے۔”
وہ دونوں محو گفتگو تھی دفعتاً شفق نے آفندی حویلی کے بغل میں واقع حویلی کی چھت کی طرف اشارہ کیا۔حریم نے شفق کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا۔
وہ ایک دراز قد مرد تھا۔ سنہری رنگت شام کی دھوپ میں چمک رہی تھی۔بھورے بچ بال پیشانی پر گرے تھے ۔سفید شرٹ پر بلیو جینس میں ملبوس وہ ان ہی کی سمت دیکھ رہا تھا۔
“یہ تو بیگم نوراں کی حویلی ہے ۔گزشتہ ماہ سے اس کی مرمت کا کام چل رہا تھا۔اب تو یہ حویلی کم ولا زیادہ معلوم ہونے لگی ہے۔اچھی بھلی ویران پڑی تھی حویلی، جانے کس کو فروخت کر دی نوراں بیگم نے ۔اگر اسی طرح ہمارے نئے ہمسائے چھت کی سیر کی غرض سے سر شام یہاں ٹہلتے دکھائی دینے لگے تو ہم دونوں کے لئے چھت پر آنا ہی مشکل ہوجائیگا۔ذرا دیکھو تو کتنے آرام سے ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔تم نیچے جاؤ شفق ،میں ابھی اسے ہمسائیگی کے فرائض یاد دلا کر آتی ہوں۔”
شفق اسے منع کرتی رہ گئی مگر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی چھت کی منڈیر کے نزدیک چلی آئی۔دونوں چھتوں کے درمیان بمشکل چند انچ کا فاصلہ تھا۔
“اے مسٹر ! آپ کے استحقاق بھرے انداز سے واضح ہے کہ آپ اس حویلی کے نئے مالک ہیں۔ indirectly ، ہمارے نئے نویلے ہمسائے ہیں۔آپکی حویلی خان حویلی اور آفندی حویلی کے بالکل بغل میں واقع ہے، لہذا ہمسائیگی کے کچھ اصولوں سے آپ واقفیت حاصل کر لیں تو بہتر ہوگا۔اور ان اصولوں میں سرفہرست ہے کہ شام کے وقت آپ اپنی چھت پر نہیں آسکتے۔کیوں کہ اس وقت آپ کے پڑوس کی چھتوں پر لڑکیاں کوالیٹی ٹائم اسپینڈ کر رہی ہوتی ہیں۔ چونکہ پہلی دفعہ آپکو اپنے ہمسایوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے تو ظاہر ہے اب سے پانچ منٹ قبل آپ اس نہایت ہی اہم رول سے ناواقف ہونگے لیکن پھر بھی میرا خیال ہے ہمسائے کی چھتوں پر دو لڑکیوں کو موجود پاکر اپنی گستاخ اور بےباک نگاہوں کو قابو میں رکھتے ہوئے فوراً سے پیشتر نیچے چلے جانا ہی شرافت کا تقاضا ہے۔”
وہ سرپر دوپٹہ جماتے ہوئے درشت لہجے میں بولی۔مگر مقابل پر توجیسے اس کی خفگی کا کوئی خاص اثر ہی نہیں ہوا تھا۔وہ ٹکٹکی باندھے حریم کے چہرے کو تک رہا تھا۔اس کی بات کے اختتام پر وہ مسکرا دیا۔
حریم اس کے ردعمل پر اول تو بری طرح سٹپٹاگئی مگر جوں ہی مقابل کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تو وہ وقت میں کہیں پیچھے بہت پیچھے چلی گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...