سنا تم نے … ؟ اس نے میرے سامنے چائے کا کپ رکھتے ہوئے پوچھا ’’صبح سے اسکول کا ہر بچہ ننھا سا جھنڈا لئے ننھی منی آواز میں آزادی کی گیت گاتا جا رہا ہے …‘‘
ارمین کے لہجے میں اک معصوم سی مسرت اور اشتیاق ہلکورے لے رہا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ریموٹ اٹھا یا اور T.Vآن کر دیا … ہم دونوں ناشتے کی ٹیبل پر تھے …چائے کا بھاپ اُڑاتا کپ میرے سامنے تھا مگر دل میں اک بے کلی سی تھی۔
اب T.Vپر آزادی کے پروگرام شروع ہو چکے تھے۔ اک مشہور سنگر کی آواز گونج رہی تھی۔
’’اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے ‘‘
اور میں … اپنے خیالات میں گم ہو گیا، میرا دل نہ جانے کیوں دکھا دکھا سا ہے۔ فضا میں آج بھی جب اس گیت کے بول گونجتے ہیں تو ذہن و دل اک نئی کیفیت سے روشناس ہوتے ہیں اک جوش اک جنون، اک ولولہ اور آزادی کا احساس…
لیکن … دل اداس کیوں ہے … ؟مجھے اس کے پس منظر میں کچھ اور کیوں دکھائی دے رہا ہے …؟
گولیوں کی آوازیں بچوں کی چیخ پکار، بم کے دھما کے اور لوگوں کے بکھرتے وجود …بے بسی لاچاری … دکھ … کرب …کیا واقعی اب کوئی گلشن نہیں اجڑے گا…؟
کیا آزادی کے متوالوں نے اپنی جانیں دے کر یہ آزادی اس لئے مانگی تھی کہ آزادی اک خواب بن جائے …اک سنہرا خواب اور اس خواب کی تعبیر اس صورت میں سامنے آئی کہ ایک گھر کے آنگن میں ایک کمزور سی دیوار اٹھا دی گئی… اور اک ماں … یہ کہاں برداشت کر پاتی ہے کہ اس کے بچوں میں دوریاں ہوں …چولھے الگ ہو جائیں …کون ماں برداشت کرتی ہے یہ دکھ…؟
کیا آزادی کی جنگ میں حصّہ لینے والوں …اپنی جانیں نچھاور کرنے والوں کو یہ معلوم تھا کہ دھرتی کو یہ کرب سہنا پڑے گا اور وہ اس طرح خون سے لال ہوتی رہے گی۔ ؟
آزادی کے 69انہتر برس بعد بھی لہو سے تر ہے یہ زمین …کاش آزادی کے نام سینوں پر گولیاں کھانے والے … آئیں اور دیکھیں ملک کے مختلف علاقے۔ وہ دیکھیں دہلی کی تباہی، گجرات پر نظر ڈالیں، بمبئی کا منظر دیکھیں … یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ کشمیر میں روز چند جوان مار دیے جاتے ہیں یہ کہہ کر کہ وہ دہشت گرد تھے۔ سچائی پرکھنے کا کسی کا پاس وقت نہیں۔
دہلی کے بازاروں میں کس طرح موت کا بازار گرم ہوا۔ گجرات کے لوگ آج بھی بے سہارا ہیں … دہلی میں کیسی تباہی آئی کتنے گھر خالی ہو گئے …
ہندوستان آزاد کروانے والے آئیں اور تاج ہوٹل کے اندر حیوانیت کا ننگا ناچ دیکھیں۔
اک بے قصور رپوٹر جو کسی ایک کمرے میں بند تھی آخری وقت تک S.M.Sکرتی رہی…وہ تاج ہوٹل کے ایک کمرے میں بند تھی اور چاروں طرف ہولناک آوازیں بم دھماکے بارود کی بو… اس لڑکی کا آخری میسجیہ تھا کہ ’’بس اب کوئی باتھ روم میں کود کر آیا ہے ‘‘ اور پھر لائن ڈیڈ ہو گئی۔ کیا ہوا ہو گا اس کے بعد۔ ؟
کون سوچ سکتا ہے۔ کچھ لوگ مرنے والوں کی گنتی مذہب اور فرقے کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ انسانیت کی بنیاد پر نہیں۔ مرنے والے کوئی بھی ہوں، ہیں تو انسان ہی۔
ایک مرتبہ حضورﷺ اک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے … ایک میت جار ہی تھی آپ فوراً کھڑے ہو گئے۔ صحابہ نے سوال کیا…یا رسول اللہ یہ تو مسلمان نہیں تھا۔
آپ نے فرمایا … انسان تو ہے۔
پھر ہم کون ہیں انسانوں میں فرق کرنے والے۔
کہاں ہیں دار پر چڑھنے والے آئیں اور ہندوستان کا یہ منظر دیکھیں کیسا کرب ہے کہ جگر کٹا جاتا ہے … کتنے دلوں کے اندر آگ جل رہی ہے اور اس کی تپش سے سارا علاقہ سلگ رہا ہے۔
حملہ سرحد پر نہیں ہوتا ہے گھروں پر ہوتا ہے اسٹیشنوں پر ہوتا ہے بازاروں میں ہوٹلوں میں ہوتا ہے کیا اس دن کے لئے پورے پورے خاندان کے لوگوں نے اپنے آپ کو دار کے حوالے کیا تھا۔
سر حدوں پرسر کٹا نے والے دیکھیں …… گھروں کے اندر چین سے رہنے والوں نے خود اذنِ حیوانیت دیا۔ آؤ ہمارے عوام کے سینے حاضر ہیں۔ چاہے وہ گجرات کا منظر ہو، دہلی کا یا پھر بمبئی کا …… بچوں کی آہیں ان نام نہاد نگراں لیڈران کے شراب کے جام میں ڈوب رہی ہیں جوان اور بیواؤں کی سسکیاں ان کے ناچ رنگ میں دھند لائی ہیں ماؤں کی چیخیں ان گھر کے بھیدیوں کے کانوں تک ہی نہیں پہونچ رہی ہیں کہ کانوں پر ہیڈ فون چڑھے ہیں جس میں تیز موسیقی ہے لطف وانبساط ہے لوگوں کا اعتماد ریزہ ریزہ ہو رہا ہے ……
کہاں تھیں وہ نگراں نگاہیں۔ وہ سیکورٹی جو معصوم عوام کو پریشان کرنے کے لئے ہے، نام کے لئے ہے۔
پوری دنیا کی بات کریں۔ تب بھی دلوں کو قرار کہاں ہے جب نگاہ اٹھتی ہے کشمیر، سربیا، لبنا ن، شام، عراق ہر طرف کے حالات و واقعات سامنے ہیں پوری دنیا میں ظلم و بربریت سفاکی، آبرو ریزی، قتل و غارت گری کے گدھ کیوں منڈلا رہے ہیں ؟ امن و سکون کہاں ہے ؟ انصاف اور طمانیت اور رحم کے پودے کیوں خشک ہو گئے ہیں اور پھر جب یہ سب کچھ ہر خطے سے معدوم ہو گیا۔ امن ہتھیاروں تلے دب کر سسک سسک کر سو گیا، انصاف کے معنی
جانب داری کے لئے جانے لگے مسرت، طمانیت،رخصت ہو چکی تو اس حالت میں کون آزاد ہے ؟ کہاں آزاد ہے ؟
’’کاش …کاش…ریموٹ میرے ہاتھ میں ہوتا‘‘
بے ساختہ یہ جملہ میرے منہ سے نکل گیا……
’’ پھر تم کیا کرتے۔ ۔ ‘‘ارمین ابھی تک چینل سرچ کر رہی تھی۔
’’میں اک ایسا چینل فکس کر دیتا جو کبھی نہ بدل سکتا۔ ‘‘
’’ کون سا چینل ؟‘‘ اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
’’محبت، امن، بھائی چارے اور مسرت کا۔ اک ایسی مسرت کا جو محبت کی خوشبو سے پھوٹتی ہے، اک ایسی مسرت جو دوست کو گلے لگا کر ملتی ہے۔ ایک ایسی مسرت جو کسی ضعیف کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کروانے میں ملتی ہے۔ ‘‘
ارمین نے حیرت سے مجھے دیکھا … اس نے پھر چینل چینج کیا یہاں اک اور نغمہ آ رہا تھا۔
کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...