(Last Updated On: )
اسنے ادھر ادھر دیکھا اسے وہ جہاز والا لڑکا نظر آیا وہ فون پر بات کر رہا تھا۔۔وہ اسکی طرف بڑھی کہ اسے ایک عورت نظر آئی۔۔حلیے سے وہ پاکستانی لگتی تھی۔۔اسکے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر اسے حوصلہ ہوا۔۔
السلام علیکم
اس نے سلام کیا۔جوابا سر ہلا دیا گیا۔۔
آنٹی کیا آپ ایک منٹ کے لیے اپنا موبائل دے سکتی ہیں؟؟
کیوں؟
۔۔بے رخی سے جواب ملا
وہ میں اپنے گھر اطلاع کرنا چاہتی تھی۔۔
اسنے جھجکتے ہوئے کہا۔۔
میری سم نہیں چل رہی۔۔
پھاڑ کھانے والے انداز میں جواب ملا۔۔ وہ کڑھتی ہوئی واپس اپنی جگہ پر آگئی۔۔اسے پریشانی ہو رہی تھی۔۔ اسکے پاس باکو کی کرنسی بھی نہیں تھی ورنہ فون بوتھ سے کال کر لیتی۔۔
کیا آپ اپنے گھر کال کرنا چاہیں گی۔؟
ڈیوڈ نے اسکے پاس آکر کہا۔۔وہ اسکو اس عورت سے موبائل مانگتا دیکھ چکا تھا۔۔عام حالات میں وہ کبھی نہ لیتی لیکن اس وقت اسے واقعی ضرورت تھی۔۔
یہ لیں کال کر لیں۔۔
اسکو شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر ڈیوڈ نے فون آگے بڑھایا۔۔
تھینک یو۔۔
اسنے تشکر سے اسے دیکھتے ہوئے موبائل پکڑ لیا۔۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں ہمیں کتنی دیر رکنا ہے یہاں۔۔؟؟
ڈیوڈ خوشی سے جھوم اٹھا وہ کب سے اس انتظارمیں تھا کہ وہ لڑکی اس سے کوئی بات کر لے۔۔
جی۔ہمارا جہاز کافی ڈیمج ہوا ہے۔۔ اسلئے کمپنی کسی دوسری فلائٹ کا انتظام کرےگی۔۔
اس میں کتنا ٹائم لگے گا۔۔؟؟
شاید اڑتالیس گھنٹے۔۔۔
کیا۔؟؟
وہ مارے گھبراہٹ کے کھڑی ہوگئی۔۔اسکی پریشانی میں اضافہ ہوگیا تھا۔۔
مطلب کہ 2 دن۔۔
جی میں نے پتہ کیا ہے تھوڑی دیر میں ہمیں ہوٹل بھیج دیا جائے گا۔۔
ڈیوڈ نے تفصیل بتائی۔۔
تو خرچ وغیرہ۔۔
وہ کمپنی برداشت کرےگی۔۔
وہ دھم سے بیٹھ گئی۔۔ دو دن انجان ملک میں تنہا رہنے کا خیال ہی سوہان روح تھا۔۔ وہ اسکے پاس ہی بیٹھ گیا۔۔
آپ فون کرلیں۔
۔ ڈیوڈ نے کہا تو وہ خالی نظروں سے اسے تکے گئی۔۔
میڈم۔۔
یہ۔۔یس۔۔
۔وہ چونکی۔۔
فون نہیں کرینگی آپ۔؟
ڈیوڈ نے نے کہا تو وہ نمبر ملانے لگی۔۔ اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔ڈیوڈ کو وہ بلکل معصوم سی لگی۔۔ کسی بچی کی طرح ڈری ہوئی۔۔ وہ اب فون پر بات کر رہی تھی۔۔ اردو بولنے کی وجہ سے ڈیوڈ کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔ لیکن پتہ لگ رہا تھا کہ وہ اپنی صورتحال بیان کر رہی تھی۔۔ وہ اسکی طرف دیکھتا رہا۔۔ نقاب کے باوجود اس میں عجیب سی کشش تھی۔۔
دادو کو کال کر کے اسنے ساری بات بتائی تو اسے سکون ہوا۔۔ دادو نے کافی حوصلہ دیا تھا۔۔اسنے فوں بند کر کے اس لڑکے کی طرف بڑھا یا۔۔ ڈیوڈ نے مسکرا کر لے لیا۔۔
میں ڈیوڈ ہوں۔۔
ڈیوڈ نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔۔ ڈیوڈ نے پریشانی سے ہاتھ پیچھے کر لیا۔۔اسے اس لڑکی کی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔
میں اشک۔۔۔۔ اشک قمر
وہ جواب دے کر رخ موڑ گئی۔۔
اشک۔۔ سننے میں اچھا لگتا ہے۔۔
ڈیوڈ نے کہا تو وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔۔
اور داؤد بھی۔۔
وہ آہستگی سے بولی۔۔
داؤد نہیں ڈیوڈ۔۔ میرا نام ڈیوڈ ہے۔۔
ڈیوڈ نے تصیح کرنی چاہی۔۔ اسے لگا وہ مسکرائی ہے۔
۔ڈیوڈ اصل میں داؤد سے ہی بنا ہے۔۔ اور میں پیغمبروں کے نام نہیں بگاڑتی۔۔
اشک نے رسان سے کہا۔۔
داؤد ۔۔ پیغمبر۔۔
وہ نا سمجھی سے بولا۔
فلائٹ کےپسنجرز کو ہوٹل لے جانے والی بسیں آچکی ہیں۔۔
انہوں نے کسی کو کہتے سنا۔۔ وہ بات ادھوری چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ ac9038#
وہ دونوں آگے پیچھے بس میں داخل ہوئے۔۔ہوٹل پہنچ کر کچھ ضروری کاروائی کے بعد انہیں کمروں میں بھیج دیا گیا۔۔انہیں ایک ہی منزل پر کمرے دیے گئے تھے۔۔کمرے میں آکر اس نے دروازہ اچھی طرح لاک کیا اور نہانے چلی گئی۔۔۔ وہ نہا کر آئی تو کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔۔ اسکی کئی نمازیں رہ گئیں تھی ۔۔ جائےنماز نہ ہونے کی وجہ سے اسے چادر بچھاکر نماز پڑھنی پڑی۔۔
نماز پڑھ کر اسے سکون ہوا۔۔ اسکے حواس بحال ہوئے ورنہ موت کے اتنے قریب سے گزرنے کے بعد اس پر مسلسل کپکپی طاری تھی۔۔نماز پڑھ کر اسنے کھڑکیاں کھول کر دیکھا ۔۔ وہ حیات ریجنسی میں کھڑی تھی۔۔ سامنے کیسپئن سی(بحیرۃ قزین) ہلکورے لے رہا تھا۔۔باکو کے باشندے اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے۔۔اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اسے کبھی اسطرح اکیلے کسی شہر میں رہنا پڑے گا۔۔ وہ تھوڑا خوش ہوگئی۔۔ اسے ایڈونچرپسند تھے۔۔
وہ کافی دیر کھڑکی کھول کر کھڑی رہی۔۔پھر تھک کر بیڈ پر آلیٹی ۔۔آج کا دن خوف اور تھکاوٹ سے بھر پور تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاوڈ۔۔داؤڈ۔۔اشک۔۔
ڈیوڈ نے اشک کے لہجے میں اپنا نام بولنے کی کوشش کی۔۔اسے وہ نام اچھا لگا تھا۔۔اور وہ بے چہرہ لڑکی بھی۔۔ڈری ڈری سی۔۔ وہ مسلم تھی لیکن اتنی بھی ڈراؤنی نہیں تھی۔۔اس میں کشش تھی۔۔اس سے وحشت نہیں ہوتی تھی۔۔
اور اسکی آنکھیں۔۔ سیاہ رات جیسی۔۔پانیوں سے بھری ہوئی۔۔میک اپ اور مصنوعی پلکوں سے پاک۔۔ بہت خوبصورت تھیں۔عجیب بات تھی کہ اتنے ہنگامے میں بھی اسکا چہرہ نظر نہیں آیا تھا۔۔وہ اسکے بارے میں سوچتا سوچتا نہجانے کب سوگیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشک کی آنکھ صبح انٹرکام کی بیل سے کھلی۔۔ ہوٹل والے ناشتے کے لیے بلا رہے تھے۔۔اس نے اٹھ کر دیکھا تو باکو کا دن چڑھ چکا تھا۔۔ اسے افسوس ہوا اسکی فجر کی نماز رہ گئی تھی۔۔ وہ نماز قضا کر کے نیچے اتری تو نروس ہوگئی۔۔عبائے والی وہ وہاں اکیلی تھی۔۔ خود کو مضبوط کرتے ہوئے وہ کاؤنٹر پر آگئی۔۔وہ ٹرے لیکر مڑی تو تقریبا ساری میزیں بھر چکی تھیں۔اسکو سمجھ نہیں آرہی تھی کہاں بیٹھے۔۔وہ آگے بڑھی تو اسے ڈیوڈ نظر آیا۔۔ اسکے ساتھ کوئی بیٹھا تھا جو اٹھ کر جا ہی رہا تھا۔۔ اسکے سامنے والی ٹیبل پر لڑکیوں کا گروپ بیٹھا تھا ان کے ساتھ ایک کرسی خالی تھی۔۔
آئیں اشک۔۔
وہ اسے دیکھ کے کھل اٹھا۔۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی طرف بڑھ گئی۔۔
میں سمجھا آپ نہیں آئیںگی۔۔
وہ خوشی سے بولا۔۔اشک نے حیرت سے دیکھا۔۔ وہ کیوں اس سے اتنا فری ہورہا تھا۔۔
اب کیسا محسوس کر رہی ہیں آپ۔۔؟؟
وہ چاہتا تھا وہ اس سے بات کرے۔۔ وہ اسکے پاس خاموش نہیں بیٹھنا چاہتا تھا۔۔
اچھا۔۔
وہ مختصر جواب دیکر کھانے میں مگن ہوگئی۔۔وہ اسے دیکھنے لگا۔۔ وہ آرام سے ناشتہ کر رہی تھی۔۔ وہ حیرانی سے اسے تکتا رہا۔۔ اشک نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔ اسے الجھن ہو رہی تھی۔۔
۔ اوہ سوری۔
وہ اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر گڑبڑا گیا۔۔
وہ میں دیکھ رہا تھا کہ آپ کھا کیسے رہی ہیں۔۔؟؟
کیوں؟؟
اشک نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
وہ مجھے سمجھ نہیں آرہا آپکا منہ کہاں ہے اور نوالہ جا کہاں رہا ہے۔۔
ڈیوڈ نے پریشانی سے کہا۔۔اشک کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔
ہاہاہاہا۔۔ آپ واقعی یہ سوچ رہے۔۔؟؟
ڈیوڈ نے ہونقوں کی طرح سر ہلا دیا۔۔
میرا منہ اس نقا ب کے پیچھے ہے اور نوالہ بھی اسی میں جا رہا۔۔
وہ ھنستے ہوئے بولی۔۔
آپ یہ کیوں پہنتی ہیں۔۔؟؟
کیونکہ یہ میرے اللہ کا حکم ہے۔۔
کس کا حکم۔۔؟؟
اللہ کا۔۔۔
اللہ۔۔!!
ڈیوڈ نے دہرایا۔۔ اسے وہ مختلف سا لگا۔۔
کیوں حکم ہے۔۔؟؟
محبت کرنے والے کیوں نہیں پوچھتے بس اطاعت کرتے ہیں۔۔
لیکن اسکی کوئی لاجک ہونی چاہئیے۔۔
وہ مطمئن نہیں ہواتھا۔
وہ آپ دیکھ رہے۔۔
اشک نے لاؤنج سے باھر نظر آنے والی ریت کی طرف اشارہ کیا۔۔ڈیوڈ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
اگر یہ بریڈ اسمیں گر جائے اور ساتھ میں یہ بھی۔۔
اشک نے پلاسٹک ریپ کی ہوئی بریڈ کی طرف اشارہ کیا۔۔
توآپ کونسی اٹھا کر کھایئنگے۔۔؟؟؎
آف کورس ریپ والی۔۔
ڈیوڈ نے قطعیت سے کہا۔۔
تو بس یہ بھی ریپر ہے دنیا کی گندگی سے بچنے ک لیے۔۔
وہ آخری لقمہ کھا چکی تھی۔۔ ڈیوڈ گہری نظروں سے ریپ والی بریڈ کو دیکھ رہا تھا۔
اوکے میں چلتی ہوں
وہ ٹشو سے ہاتھ صآف کرتے ہوئے بولی۔۔
آپ کافی نہیں پیتی؟؟
وہ چونک کر بولا
نہیں میں چائے پیتی ہوں۔۔
تو وہ پی کر جائیےگا میں لاتا ہوں۔۔
وہ اٹھتا ہوا بولا۔۔وہ اسے کچھ دیر اور روکنا چاہتا تھا۔۔
نہیں میں خود۔۔
اشک نے کہنا چاہا۔۔لیکن وہ اٹھ کر چلا گیاتھا۔۔ آخر یہ لڑکا اتنی مہربانیاں کیوں کر رہا مجھ پر
کاش یہ مسلمان ہوجائے۔۔ اتنا اچھا بندہ جھنم میں جائے گا بغیر ہدایت کی وجہ سے۔۔ اسنے کاؤنٹر پر کھڑے ڈیوڈ کی پشت کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔۔
وہ چائے لیکر آیا تو وہ بحیرہ کیسپئن دیکھنے میں مگن تھی۔۔
سمنددر پسند ہے آپکو۔۔؟؟
وہ اسکی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے بولا۔۔
ہاں بہت۔۔
اشک نے چائے کا گھونٹ بھرا
آپ چلیں گی وہاں میرے ساتھ۔۔؟؟
اسنے فورا آفر کی۔۔
نہیں میں نہیں جا سکتی۔۔
اشک نے قطعیت سے کہا۔۔
پلیز اشک۔۔
نہیں سوری۔۔
اوکے جیسے آپکی مرضی۔۔
وہ مایوس ہوا ۔۔اشک خاموشی سے چائے پینے لگی۔۔
ویسے آپ ترکی کیوں جا رہی ہیں۔۔؟؟
وہ اسکے پاس خاموش نہیں بیٹھنا چاہتا تھا۔۔
میں اپنے ڈیڈ کے پاس جا رہی ہوں۔۔
آپ ترکش ہیں؟
نہیں مام ترکش تھیں۔۔ڈیڈ پاکستانی۔۔
وہ چائے ختم کرچکی تھی۔۔
آپکا نام کس نے رکھا؟؟
وہ اٹھی تو وہ اسکے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔۔
مام نے۔۔
کیا مطلب ہے اسکا۔؟؟۔
اسکے دو مطلب ہیں
وہ لفٹ میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔۔ وہ بھی ساتھ ہی داخل ہو گیا۔۔
اور وہ کیا۔۔؟؟
پاکستانی مطلب ہے آنسو اور ترکش مطلب ہے روشنی۔۔
واؤ دونوں ہی بہت خوبصورت ہیں۔۔
لفٹ رک گئی تو وہ دونوں باہر نکل آئے۔۔اشک کا کمرہ پہلے آگیا تو اسنے سکون کا سانس لیا۔۔
اوکے میرا روم آگیا ہے۔۔
اسنے کارڈ لاک میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔
اوکے اپنا خیال رکھئے گ۔
اسے پچھتاوا ہو رہا تھا کہ ہوٹل والوں نے اتنے قریب کمرے کیوں بنائے ہوئے تھے۔۔وہ اندر چلی گئی تووہ بھی اپنے کمرے میں آگیا۔۔اسکی باتیں بلکل نئی تھی اسکے لیے۔۔اسے اسکے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔
کاش تھوڑا وقت اور مل جاتا اسکے ساتھ۔۔
اسنے حسرت سے سوچا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں آگئی۔۔ اسکو ڈیوڈ کے رویے کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔وہ پتہ نہیں کیوں اس سے اتنا فری ہو رہا تھا۔۔ویسے وہ اچھا تھا ڈیسنٹ سا۔۔
اسنے اپنا عبایا دھو کر پھیلا دیا۔۔ دوپہر تک وہ کمرے میں بند بند بوریت سے پاگل ہونے والی ہوگئی تھی۔۔
بھلا میں اسکی بات مان ہی لیتی۔۔دو دن میں تو میں پاگل ہوجاؤنگی یہاں۔۔
اس نے یا سیت سے سوچا۔
وہ ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو دروازے پر دستک ہوئی۔۔وہ خوفزدہ ہوگئی۔۔ اسنے ڈرتے ڈرتے ہول سے دیکھا ۔ ڈیوڈ کھڑا تھا۔۔اسنے دروازہ کھول دیا۔۔اسنے چادر سے خود کو ڈھکا ہوا تھا۔۔
وہ میں بیچ پر جا رہا تھا۔۔۔ ہوٹل سے اور لوگ بھی جا رہے ہیں۔۔ آپ چلنا چاہیں گی پلیزز۔۔
وہ ایک اور کوشش کرنے آیا تھا۔۔گاڈ یہ مان جائے۔۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگتا ہوا جواب کا انتظار کر رہا تھا۔۔اشک سوچ میں پڑگئی۔۔
دیکھیں آپ کو یہ موقع زندگی میں شاید دوبارہ نا لے۔۔ پلیز آجائیں۔۔
وہ اسے شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر بولا۔۔
اچھا میں آتی ہوں۔۔ 2 منٹ۔۔
ڈیوڈ کا دل کیا خوشی سے اچھل پڑے۔۔
ٹیک یور ٹائم۔۔ میں نیچے لاؤنج میں انتظار کر لیتا ہوں۔۔
وہ مڑتے ہوئے بولا۔۔
کیا کروں جاؤں یا نہ جاؤں ۔۔
وہ ابھی بھی کشمکش میں مبتلا تھی۔۔۔
چلو چلی جاتی ہوں اور لوگ بھی تو جا رہے ہیں۔۔
اسنے سائڈ ٹیبل سے پھل کاٹنے والی چھری اٹھا کر پرس میں ڈال لی اور دعائیں پڑھ کر اپنے آپ پرپھونکتی ہوئی نیچے آگئی۔۔ڈیوڈ اسی کے انتظار میں تھا وہ کھل اٹھا۔ہوٹل سے بیچ تک کا سفر انہوں نے کیب میں کیا۔۔ باکو میں کیب عام تھی۔۔وہ لوگ ساحل پر پہنچے تو ھوا میں خنکی ہونے کی وجہ سے ساحل سن باتھ لینے والوں سے پاک تھا۔۔
بحیرہ کیسپئن پر سکون تھا۔۔اسکا نیلگوں شفاف پانی دھوپ میں چمک رہا تھا۔۔ سطح پر کئ بڑے بڑے جہاز کھڑے نظر آرہے تھے۔۔ ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے ساحل پر کم ہی لوگ تھے۔۔
وااااؤ۔۔
اشک نے مبہوت ہوکر کہا۔۔ وہ بچوں کی طرح پانی کی طرف بھاگی۔۔ڈیوڈ اسکا انداز دیکھ کر ھنس پڑا۔۔ دادہ ہوتیں تو ضرور کہتیں کہ یہ لڑکی کبھی بڑی نہیں ہوگی۔۔اسنے جوتے اتار دیے وہ پانی میں پاؤں مار رہی تھی۔۔
تمہیں دیکھ کر لگتا نہیں کہ اتنی چلنگ ہو سکتی ہو۔
وہ گھٹنوں تک پانی میں کھڑا ہو کر بولا۔۔
کیوں؟؟
اشک نے جھک کر سیپ ڈھونڈتے ہوئے پوچھا۔۔
مطلب۔۔۔ جیسا تمہارا گیٹ اپ ہے۔۔
اسنے جھجکتے ہوئے کہا۔۔ اسے ڈر تھا وہ برا نہ مان جائے۔۔
یہ سب انسان کو انجوائے کرنے سے نہیں روکتا۔۔
اسنے اپنے نقاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔
لیکن اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے۔۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بول پڑا۔۔
تمہیں کس نے کہا۔۔؟؟
وہ سیپیاں جمع کر کے پتھروں کیطرف جاتے ہوئے بولی۔۔
سب کہتے ہیں
وہ بھی اسکے پیچھے چل دیا۔۔ بات سنجیدگی کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔
میڈیا کی دکھائی جانے والی ہر بات کو سچ نہیں ماننا چاہئے۔۔ ہر مذہب کے کچھ اصول ہوتے ہیں جنکو اسکے ماننے والے فالو کرتے ہیں اس سے اس مذہب کو شدت پسند نہیں کہا جا سکتا۔۔
وہ پتھر پر بیٹھ گئی۔۔ وہ موتیوں والی سیپیاں نہیں تھین۔۔ بلکہ گھونگھے کی طرح گول لپٹی ہوئی تھیں۔۔
لیکن آزادی ہر انسان کا حق ہے۔۔وہ جیسے مرضی زندگی گزارے ۔۔اسے اس بات کا حق ملنا چاہیے۔۔۔
وہ اسکے ساتھ پڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بحث کر رہا تھا۔۔
ہاں نا۔۔ ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔۔ ہم نے یہ طریقہ چنا تو ہم پر تنقید کیوں؟؟
ہمیں بھی اختیا رملنا چاہئے کہ ہم جیسی مرضی زندگی گزاریں۔۔
وہ سیپ صاف کرتے ہوئے سنجید گی سے بولی۔۔ ڈیوڈ لاجواب ہوا تھا۔۔ اور متا ثر بھی۔۔وہ دونوں اب خاموشی سے سمندر دیکھ رہے تھے۔۔
مجھے نماز پڑھنی ہے۔۔
اشک نے ڈھلتے سورج کو دیکھ کر کہا۔۔
کیا پڑھنی ہے؟؟
نماز۔۔ مطلب پرے کرنی ہے گاڈ سے۔۔
اشک نے کھڑے ھوتے ہوئے کہا۔۔اسکا پرس اسکی گود سے نیچے گرگیا۔۔ وہ جھک کر اٹھا نے لگی۔۔
کہاں کروگی پرے۔۔؟
ڈیوڈ نے پوچھا۔۔
پتہ نہیں پہلے وضو تو کرلوں۔۔
وہ پانی کی طرف بڑھ گئی۔
اب وہ کیا ہے؟؟
اسے اشک کے ساتھ ہر بات نئی پتہ چل رہی تھی۔۔
دیکھ لینا۔۔
وہ چلومیں پانی بھر رہی تھی۔۔ وہ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا۔۔ اسنے منہ دھویا بازو دھوئے۔۔ ڈیوڈ کے بغور دیکھنے ک با وجود اسے سجھ نہیں آیا آخر اسنے منہ اور بازو ظاہر کیے بغیر کیسے دھو لیے تھے۔۔ ایسا لگتا تھا وہ اکثر ایسا کرتی رہتی ہے۔۔وہ اب پاؤں دھو رہی تھی۔۔
تم کیسے کرلیتی ہو یہ سب۔۔
بہت آسانی سے۔۔۔موبائل ملے گا تمہا را۔۔
ہاں یہ لو۔۔؟
ڈٰیوڈ نے موبائل نکال کر دے دیا۔۔
پاسورڈ؟؟؟
اشک۔۔
اشک جواب میں ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔۔
3098
وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔ اشک خاموشی سے قبلہ سرچ کرنے لگی۔
یہ لو تھینکس۔۔
وہ موبائل واپس کر کے چلدی۔۔ اسکا رخ درختوں کی طرف تھا۔۔
تم وہاں کروگی پرے۔۔؟؟
ہا ں وہ جگہ زرا سائڈ پر ہے۔۔
وہ جاتےہوئے بولی۔۔وہ اسے دیکھتا رہا۔۔ اسکی سنگت کتنی خوشگوار اور خوبصورت تھی۔۔وہ اپنے اندر ایک جہان لیے ہوئے تھی۔ڈیوڈ کا دل چاہا وہ اسے کھوجتا رہے اور زندگی بتا دے۔۔
یہ بات نہیں تھی کہ وہ کبھی لڑکیوں سے ملا نہیں تھا ۔۔اسکی پرسنیلٹی پر لڑکیاں فدا تھیں۔۔وہ کئی لڑکیوں سے مل چکا تھا وقت گزار چکا تھا۔اسکی گرل فرینڈ موجود تھی جس سے وہ شادی کرنے والا تھا۔ لیکن اشک کے ساتھ وہ الگ محسوس کر رہا تھا۔۔۔ جیسے وہ اپنی مرضی سے کسی سحر میں مبتلا ہوگیا ہو اور اس سے نکلنا نہ چاہتا ہو۔
وہ نماز پڑھ رہی تھی۔خوش قسمتی سے اسے درختوں کے نیچے چادر بچھی ہوئی مل گئی تھی۔۔وہ پورا دھیا ں لگا کر نماز پڑھ رہی تھی۔۔ وہ کئی نظروں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔۔وہ جانتی تھی اسکی توجہ زرا سی بھی ادھر ادھر ہوئی تو نماز قائم نہیں رکھ سکے گی۔۔
ڈیوڈ محویت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔وہ صحیح نظر نہیں آرہی تھی وہ آڑ میں تھی لیکن پھر بھی وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ سلام پھیر کر اسنے دعا مانگنی شروع کردی۔۔اسکے وجود کا سکون ڈیوڈ کو اپنے اندر اترتے ہوئے محسوس ہوا تھا۔۔۔