مظہر امام ہمہ جہت ادبی شخصیت کے مالک ہیں۔شاعری کے میدان میں خوب صورت غزلیں اور نظمیں کہنے کے باوجود جب ان کے ”بیاں“ کو کچھ اور ”وسعت“ کی طلب ہوئی تو آزاد غزل کی بنیاد رکھ دی ۔ نقاد نہ ہوتے ہوئے ادبی مسائل اور موضوعات پرلکھنے کو آئے تو’ ’پیشہ ور“ نقادوں سے کہیں بہتر تنقید کے کھرے نمونے پیش کر دیئے۔ بعض اہم شخصیات اور دوستوں کی یادوں کو کریدنے بیٹھے تو ”اکثر یاد آتے ہیں“ کی صورت میں یادوں کی بارات سجا لائے۔
1960ءکے لگ بھگ اردو افسانہ جدیدیت کے نام پر بے معنویت کا شکار ہونا شروع ہو ا اور لگ بھگ اسی عرصہ سے مظہر امام کی یاد نگاری کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ میر اخیال ہے کہ ان کی یہ تحریریں غیر ارادی طور پر جدید افسانے کی بے معنویت کا ردِ عمل بنتی گئی ہیں۔جدید افسانہ اپنے ماضی، اپنی زمین اور بامعنی کرداروں سمیت کہانی سے تہی ہوتا جار ہا تھا۔ادھر مظہر امام ان مضامین میں اپنے ماضی کو اپنی دھرتی کی خاک سے کرید رہے تھے اور زندگی کے جیتے جاگتے کردار اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ان یادوں میں سے ابھر کر اپنے اپنے لمحوں کی کہانیاں سنا رہے تھے۔
”اکثریاد آتے ہیں“ میں آٹھ شخصیات کے تعلق سے مظہر امام نے اپنی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ جگر مراد آبادی ،مولانا ملیح آبادی، اشک امر تسری، جمیل مظہری، پرویز شاہدی، کرشن چندر ، اختر قادری اور خلیل الرحمن اعظمی۔۔ ان آٹھ ہستیوں کو مظہر امام نے کیسا دیکھا، کیسا سنا اور کیسا پایا، ۔۔یوں یہ قصہ چہاردرویش نہیں بلکہ قصہ ہشت درویش بن جاتا ہے۔ ہر شخصیت کو جیسا دیکھا، جیسا سنا اور جیسا پایا، جہاں تک قلم اور تہذیب نے اجازت دی انہوںنے بیان کر دیا۔یوں ڈھیر ساری باتیں اور احوال بیان ہونے سے رہ گئے۔ انہوںنے بعض جگہوں پر اس کا بر ملا اقرار کر کے ناگفتنی کو ناگفتنی ہی رہنے دیا ہے۔ تاہم اپنے ممدوحین کو نہ توا نہوں نے فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ شیطان ظاہر کیا ہے بلکہ ان دونوں کے بین بین جہاں انسانی اعمال، انسانوں سے سرزد ہوتے ہیں ،ویسے ہی ملے جلے اعمال ان کے ممدوحین سے سرزد ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔پہلے چند ایسی مثالیں دیکھیں جن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ابھی کیا کیا باتیں بیان ہونے سے رہ گئی ہوں گی:
”رشید احمد صدیقی کا بیان ہے کہ انہوںنے جگر کو نشہ کے عالم میں کبھی کوئی غیر مہذب حرکت کرتے یا ہوش و حواس کھوتے نہیں دیکھا۔جوش کا بیان اس کے برعکس ہے۔ انہوںنے مجاز کو جگر کی وہ کیفیت یاد دلا کر ڈرایا تھا جب وہ مدہوشی کے عالم میں دوسروں کی گردن میں اپنے پاﺅں کا ہارڈالا کرتے تھے۔“
”ہم سب کرشن چندر کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ صبح سے بخار میں مبتلا ہیں۔ وہ ایک امریکی رسالے سے دل بہلا رہے تھے جس میں نیم برہنہ (بلکہ نیم برہنہ سے کچھ زیادہ) تصویریں تھیں۔اس کا نام Folliesتھا(کلکتہ سے رخصت ہوتے وقت انہوںنے وہ رسالہ مجھے بخش دیا تھا ، جو ان کی یاد گار کے طور پراب بھی میرے پاس محفوظ ہے)“
”میںنے گزشتہ صفحات میں ایک فلرٹ خاتون کا ذکر کیا ہے جن کے یہاں تقریباً ہر شام پرویزصاحب حاضری دیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ بڑے خوش خوش اسکول آئے۔چہرہ کھلا پڑتا تھا۔ آتے ہی مجھے خوشخبری سنائی ۔ کل شام میں ”کامیاب“ ہو گیا ۔ پھر ہنستے ہوئے اور لطف لیتے ہوئے بولے”مرحلۂ شوق طے ہونے کے بعد انہوںنے کہا!”You Swine“
مظہر امام کی یادوں کے آیئنے میں بعض اہم ادبی مسائل اور معاملات کے حوالے سے متعدد ایسی تلخ حقیقتیں بھی دکھائی دیتی ہیں جو بظاہر ادب کے عام قاری کی نظروں سے اوجھل تھیں۔مارچ ۱۹۵۳ء میں دہلی میں کل ہندانجمن ترقی پسند مصنفین کی چھٹی کانفرنس ہوئی۔ اس موقع کی ایک اہم خبر خاصی چونکانے والی ہے۔
”اس کانفرنس میں گوپال متل شریک تو نہیں ہوئے لیکن وہ آس پاس گھومتے پھرتے یا لان میں بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے ۔ یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ وہ امریکی امداد سے ترقی پسندوں کے خلاف ایک رسالہ نکالنے جارہے ہیں۔ میں نے یہی بات ان سے دریافت کی ۔ ان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ظاہر ہوئے۔کہنے لگے کہ جو بھی ترقی پسندوں کی آمریت کے خلاف کچھ بولتا یا لکھتا ہے اسے امریکی ایجنٹ قرار دے دیا جاتاہے۔ دوسرے مہینے ”تحریک“ کا پہلا شمارہ منظر عام پر آگیا۔“
ستمبر ۱۹۵۷ء میں کرشن چندر کلکتہ آئے۔ وہاں کے ادیبوں کی ایک تقریب میں مظہر امام نے ان سے ترقی پسند مصنفین کی انجمن کی تنظیمی بے حسی کے بارے میں سوال کیا تو کرشن چندر نے جو ۱۹۵۳ء سے انجمن کے جنرل سیکرٹری چلے آرہے تھے۔ بڑی صاف گوئی سے کہا:
”انجمن اپنا رول پورا کر چکی ہے اور موجودہ حالات میں اس کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں مارکسزم کے نظریہ کی بنیاد پر ایک انجمن بنانا چاہئے جو ملک کو سوشلزم کی منزل تک لے جانے میں ممد ہو۔“
میں نے پھر سوال کیا:”اگر ایسا ہے تو انجمن کی موت کا اعلان کیوں نہیں کر دیا جاتا؟“کرشن چندر نے مسکراتے ہوئے معصوم قطعیت کے ساتھ جواب دیا۔:”موت کے باضابطہ اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی۔موت آپ اپنا اعلان ہوتی ہے۔“
تب کرشن چندر کے اس بیان کی روشنی میںکلام حیدری نے ایک مضمون میں ان سے دریافت کیا کہ اگر اب وہ مار کسزم کے نظریہ کی بنیاد پر نئی تنظیم چاہتے ہیں تو وہ کیسی ہو گی؟یہ مضمون ”نئے حالات اور ہم “ کے عنوان سے ماہنامہ ”سہیل “ گیا شمارہ اکتوبر ۱۹۵۷ء میں شائع ہوا۔ بھارت اور پاکستان کے ترقی پسندوں نے اگر اس وقت اس آواز پر توجہ دی ہوتی تو تخلیقی سطح پر اس خواری کا شکار نہ ہوتے جواَب ان کا نصیب ہے۔ آمرانہ انداز ترک کر کے خود احتسابی کی راہیں نکالی جاتیں تو سویت یونین کی شکست و ریخت بھی اس تحریک کو کمزور نہ کر سکتی لیکن اس وقت کیا رد عمل سامنے آیا؟شہزاد منظر نے اگلے مہینے کے ”سہیل“ میں جوابی مضمون چھپوایا ”انجمن ترقی پسند مصنفین “ کے عنوان سے چھپنے والے اس مضمون میں کلام حیدری کو سرزنش کی گئی کہ ”خواہ مخواہ کرشن چندر کی قطعی ذاتی رائے کو ایک ذریعہ بنا کر ادبی سنسنی اور تہلکہ مچانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔“تلخ حقائق کا بروقت سامنا کرنے کی بجائے ان سے آنکھیںچرانے والے ادیبوں کا عبرتناک انجام آج ساری ادبی دنیا کے سامنے ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کی علمی و ادبی اور مذہبی حیثیت کا ان کے بیشتر مخالفین بھی احترام کرتے ہیں۔ مظہر امام نہ صرف انہیں ایک محترم ہستی سمجھتے ہیں بلکہ ان کی بڑائی کے بھی معترف ہیں لیکن انہوں نے ان کے تعلق سے بعض سنسنی خیز انکشاف بھی کئے ہیں۔”الہلال“ کے دور ثانی میں ”انسانیت موت کے دروازے پر“ کے عنوان سے جو مضامین چھپے تھے وہ مولانا ملیح آبادی کے تحریر کردہ تھے۔ ان مضامین کے ساتھ چونکہ مصنف کا نام نہیں چھپتا تھا اس لئے انہیں مولانا ابو الکلام آزاد کے مضامین سمجھ کر ان کے نام سے مضامین کا مجموعہ چھپوادیا گیا۔ مولانا ملیح آبادی کی کتاب ”شہید کربلا“ کو صرف نام بدل کر ”شہید اعظم“ کر دیا گیا اور مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی میں اسی طرح شائع ہوئیں اور حیرت ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کسی قسم کی تردید یا وضاحت نہیں کی۔
اس بارے میں مظہر امام لکھتے ہیں:
”انہوںنے اس کی تردید نہیں کی اور غلط فہمی کو پھیلنے کا موقع دیا۔ اب اسے ان کی انا پر محمول کیا جائے، یا ان کی شان استغنا یا وضع خاص پرکہ وہ خود سے متعلق کسی مسئلے کی تردید کرنا یا اس کے بارے میں بیان دینا نا پسند کرتے تھے۔یہ شبہ کیا جا سکتا ہے کہ مولانا آزاد دوسرے کے کام کا کریڈٹ بھی خود لینا چاہتے تھے لیکن یہ بات اس لئے درست نہیں معلوم ہوتی کہ بحیثیت ادیب مولانا آزاد کی بڑائی ”تذکرہ“، ”ترجمان القرآن“ اور ”غبار خاطر“ سے ہے نہ کہ ”انسانیت موت کے دروازے پر “ اورشہید اعظم“ سے۔“
سنجیدہ اور کسی قدر تلخی لئے ہوئے ان ادبی معاملات سے ہٹ کر مظہر امام کی کتاب سے دو دلچسپ اقتباس پڑھیں اور کتاب کے مواد میں موضوعات کے تنوع کا اندازہ کریں:
”ساحر لدھیانوی جنہیں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا بمبئی سے آئے تھے ۔ ہم لوگ پاس کے ایک چائے خانے میں بیٹھے ۔ ذکرفلمی دنیا کا آیا تو وہ اس زمانے کی بعض بڑی ہیروئنوںکا مذاق اڑانے لگے کہ ان سے ٹافی کے علاوہ او رکسی موضوع پر بات نہیں کی جا سکتی۔پھر پرکاش پنڈت سے مخاطب ہو کر کہنے لگے:بھئی مجاز کو انجکشن و کشن دلوا کر اس کی شادی کرادو۔“(آج میں سوچتا ہوں کہ ساحر نے خود انجکشن و کشن لے کر شادی کیوں نہ کی)۔کانفرنس میں نیا مینی فیسٹو پیش ہونا تھا۔ساحر کہنے لگے، بھئی بحث ہو گی۔ڈرافٹ مینی فیسٹوپڑھ کر تیاری کرنی چاہیے۔ساحر نے بحث میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ حصہ کیا لیتے، وہ بحث کے دوران موجود ہی نہیں تھے۔ (شاید انہیں بھی اب ’ٹافی‘ کے علاوہ کسی موضوع سے دلچسپی نہیں تھی)“
”اپریل ۵۸ءمیں میری شادی ہوئی تو میں نے کرشن چندر کو اس کی اطلاع دی ۔ ان کا خط آیا۔’آپ نے شادی کر ڈالی؟ خدا آپ کو خوش رکھے اور شادی کی ہر آفت سے محفوظ رکھے۔ عورتوں کے متعلق میرا اب یہ عقیدہ ہے کہ دور سے بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں۔ ‘کرشن چندر کی دعا کا وہی حشر ہوا جو اس طرح کی دعاﺅں کا ہوتا ہے۔میرا خیال ہے کہ انہیں عورتیں دور سے ہی نہیں ، نزدیک سے بھی اچھی معلوم ہوتی تھیں۔ اس کی تصدیق جلد ہی ہو گئی۔“
”اکثر یاد آتے ہیں“کے مضامین کو شاید خاکہ نگاری کی کسی لگی بندھی تعریف کے دائرے میں لانا مشکل ہو۔ اس کے باوجود ان مضامین میں خاکہ نگاری کے بیشتر اوصاف موجود ہیں۔ مظہر امام نے اپنے آٹھ ممدوحین کی صورت میں باری باری آٹھ آئینوں میں اپنے آپ کو دیکھا ہے۔ ہر آئینے میں ان کی شخصیت اپنے گزرے ہوئے کسی زمانے کو ساتھ لئے جلوہ گر ہے پھر اسی زمانے کی خاک سے ان کے ممدوح ابھرتے ہیں اور مظہر امام کے ساتھ بِتائی ہوئی اپنی زندگی پھر سے جیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس زندگی کی روانی کسی ادبی صنف کی گرفت میں نہیں آتی کیونکہ اس میں افسانے سے زیادہ حسن اور سچائی ہے۔ سفر نامے سے بڑھ کر مسافت ہے اور خاکوں سے زائد شخصیتیں ہیں۔اگر مظہر امام کی شخصیت کے نمایاں ترین وصف کے حوالے سے بات کی جائے تو کہا جا سکتاہے کہ ”اکثر یا دآتے ہیں“ کے مضامین ”آزاد خاکے “ہیں مجھے امید ہے کہ ان کی اس کتاب کے باعث خاکہ نگاری کی حدود میں وسعت آئے گی۔
(مطبوعہ رابطہ ، نئی دہلی۔شمارہ جنوری تا جون ۱۹۹۹ء)