بوہم صحرائے کالاہاری کے کنگ قبیلے کا ایک واقعہ بتاتے ہیں۔
“توی نام کے ایک شخص نے تین لوگوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے خلاف کمیونیٹی اکٹھی ہوئی۔ کھلے عام دن میں لوگوں نے اس پر حملہ کیا اور اسے شدید زخمی کر دیا۔ جب وہ میدان میں پڑا تھا تو مردوں نے اس پر تیر برسائے۔ اور جب وہ مر چکا تھا تو باقی سب نے، جس میں خواتین بھی شامل تھیں، آ کر اس کے جسم میں چاقو کھبوئے۔ یہ علامتی نشانی تھی کہ ہم سب اس کی موت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی غنڈے یا طاقتور کے خلاف ملکر اسے سزا دینا انسانوں کے معاشروں کو پرامن رکھنے کے لئے اہم طریقہ کار رہا ہے اور یہ صرف کسی مجرم تک محدود نہیں۔
طاقت کے ذریعے تسلط اور غلبہ جمانے والوں کے خلاف بغاوت انسانی سرشت اور اس کے اخلاقیات کا بنیادی حصہ ہے۔ اور انسانی تاریخ میں ہونے والے بڑی سیاسی تبدیلی تھی۔
مساوات کی طرف ہونے والی سیاسی تبدیلی اخلاقی میٹرکس کی ڈویلپمنٹ کے لئے ایک لمبی جست تھی۔ اس سے لوگ بڑی آبادیوں میں رہ سکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی رسوم و روایات کا دبیز جال، غیررسمی بندشیں اور کبھی کبھار کی پرتشدد سزا بھی ہے۔
جو افراد اس نئی دنیا میں کامیابی سے رہ سکتے ہیں اور اپنی اچھی شہرت برقرار رکھ سکتے ہیں، ان کا انعام انہیں ملنے والا بھروسہ، تعاون اور دوسروں کی (سیاسی) حمایت ہے۔ اور جو گروپ کے رسوم و رواج کا احترام نہیں کرتے یا پھر بدمعاشی دکھاتے ہیں، ان کو بے دخل کے یا قتل کر کے ان کے جین گروپ سے نکال دئے جاتے ہیں۔ جین اور کلچرل رسوم ساتھ ساتھ ہی آگے بڑھتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا نتیجہ جو عمل ہے، بوہم اس کو “self-domestication” کہتے ہیں۔ جس طرح جانور پالنے والے جارحانہ جانوروں کو مار دیتے ہیں اور مطلوب خاصیت والے جانوروں کی نسل آگے بڑھاتے ہیں، ویسے ہی انسانی نے (غیراراردی طور پر) اپنے ساتھ کیا۔ ہم بہت پرامن نوع ہیں کیونکہ ہم نے خود کو سدھا لیا ہے۔ اور یہ کام ہماری اخلاقیات نے کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادی کی اخلاقی بنیاد تسلط جمانے اور مغلوب کرنے پر ہونے والی ناپسندیدگی ہے۔ اور اس کے اصل ٹرگر میں کسی بھی طرح کا جبر ہے۔ جارحانہ یا کنٹرول کرنے والا رویہ اس کو چھیڑتا ہے اور اخلاقی غصے کا باعث بنتا ہے۔ (جب ایسا ہو کہ کوئی اتھارٹی آپ کو کسی چیز سے روکے اور اس کے روکنے کی وجہ سے آپ وہ جان کر کرنا چاہیں، یہ وہ ردِ عمل ہے)۔
کسی کے تحمکانہ رویے کے خلاف غصہ اس کا شکار ہونے والوں کا اتحاد بنانا ہمارے لئے باہمی تعاون کے بڑے گروہ بنانا ممکن کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادی کی اس اخلاقی بنیادی قدر کا اتھارٹی کی قدر سے اختلاف ہے۔ اور یہ کئی سیاسی اختلافات اور نظریات میں نظر آتا ہے۔ لیکن خلاصہ یہ کہ، ہم اس چیز کو پہچانتے ہیں کہ اتھارٹی کی کچھ اقسام ایک تناظر میں جائز ہیں۔ اور معاشرے میں نظم و ضبط اس کے بغیر نہیں آ سکتا۔ لیکن ہم ایسے لوگوں سے ذرا ہوشیار رہتے ہیں جو لیڈر ہونے کا دعوٰی کریں جب تک کہ وہ ہمارا اعتماد نہ حاصل کر لیں۔ ہم چوکس رہتے ہیں کہ وہ ایسی حدود نہ پار کر لیں جو جبر اور استبداد کے دائرے میں آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادی کی یہ اخلاقی بنیاد ہر جگہ پر انقلابیوں اور آزادی کے لئے لڑنے والوں کی اخلاقی میٹرکس کو سپورٹ کرتی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...