ایوب خاور
بہت سُوکھے ہوئے دن ہیں
بہت سُوکھے ہوئے دن ہیں
مرے کانٹوں بھرے حلقوم جیسے دن
بگولے جن کے پیروں کے سلاسل اور خزاں کی
کرم خوردہ
زرد،میلی دھوپ کا کمبل ہے جن کے مضمحل شانوں پہ
گردن کی نکلتی ہڈیوں میں جیسے کوئی طوق سے
پہنے ہوئے قیدی، بہت رُوکھے ،
بہت سُوکھے ہوئے دن ہیں
بہت روٹھے ہوئے دن ہیں
برہنہ پا
یہ ننگے سر کھڑے، میری طرح یہ چاک داماں ،
خاک زادے
یہ ہتھیلی کی طرح ادھڑے ہوئے، پیروں کے
تلووں کی طرح چٹخے ہوئے ،سینے کی محرابوں کی
صورت خم بہ خم دھونکے ہوئے دن ہیں
یہ دن جن کی رگوں میں سبز خوشبو کی جگہ
صحراؤں کی سی پیاس چلتی ہے
لبوں کی پپٹریوں میں ریت اُڑتی ہے
اور آنکھوں کے کھنڈر جھانکو تو جیسے ان میں خوابوں
اور سرابوں کے کبوتر، پر کٹے اندھے کبوتر ہیں جو
اپنی پھڑ پھڑاہٹ میں مقید ہیں
یہ دن
میری طرح جن کے سبک سینوں میں
سورج اس طرح گاڑے گئے ہیں گویا اب ان کے
مقدر میں نہ کوئی شام آئے گی
نہ دیوار شبِ وعدہ کہ جس
کے سائے میں بیٹھے ہوئے لمحوں نے
اپنی اوک میں کچھ چاند
بھر رکھّے ہیں جانِ جاں! مگر کس کے لیے……سوچو!
ذرا سوچو!
ذرا سوچو……
کہ اِن کی چاندنی اب میرے جیسے
چاک داماں، خاک زادوں کے
بھلا کس کام آئے گی!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں،تم اورمیرے بجھے ہوئے دن
وقت کی شاخ سے
زرد پتّوں کے مانند ٹوٹے ہوئے
جتنے دنتیرے بن
میری آنکھوں کے برزخ میں آکر گرے جانِ جاں!
پوچھتے ہیں بتا!
کون سے پھول تھے، جن کی کلیوں کو مَس کرکے
اپنی دوپہروں کا جادو جگاتے ہوئے
اپنی شاموں کی پیشانیوں پر ستارے بناتے ہوئے
کس افق زار میں ڈوبناتھاہمیں
وہ افق،آسماں اور وہ کارِ جہاںہے کہاں!
ہم تو یوں تیری پلکوں پہ آکر گرے تھے کہ بس
پھر وہیں جم گئے
اب مہہ و سال کی جمع تفریق میں کس طرح آئیں گے
ہم نہ صرفے گئے اور نہ برتے گئے
اور حساب و کتابِ عمل میں کہیں کچھ نہیں
تیری آنکھوں کے برزخ میں
بے نام وبے مایہ کب سے پڑے، اپنے ہونے
نہ ہونے کی تصویر ہیں
پابہ زنجیر ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خزاں کو کیا ہوا ہے
خزاں کو کیا ہوا ہے
یہ مرے دل کی رگوں میں سے نکل کر
شہر کی گلیوں، محلّوں ،شاہراہوں اور سڑکوں پر
بھلا کیوں دندناتی پھر رہی ہے!
میں نے تو اس کو بہت مشکل سے
اپنی دھڑکنوں کی چپ میں کس کر باندھ رکھا تھا
اور اب یوں ہے کہ میری آرزوئیں
اور سارے خواب، پتّوں کی طرح
سوکھی ہَوا کے ہاتھ میں
لاوارثی کی گردمیں لپٹے، بگولہ وار اُڑتے پھر رہے ہیں
کوئی کھڑکی، کوئی دروازہ، دریچہ، کھل نہیں سکتا
مقفّل ہے
یہ شہر اندر سے باہر سے مقفّل ہے
خزاں کو کیا ہوا ہے……!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مون سونی رقص کے کچھ منظر
ہوا پائل بہ پا اتری ہے شاخوں میں
درختوں کی گھنی شاخوں میں
جن کے چھوٹے چھوٹے بازوؤں کو چلچلاتی
دھوپ کے ٹکڑوں نے گہری خامشی اور
حبس کی گرہوں میں کَس کر باندھ رکھا تھا
ہرے پتے جو سر نیوڑھائے اپنے ڈنٹھلوں پر
ایک دُوجے کی سلگتی گود میں سردے کے
بیٹھے تھے، ہَوا کے پاؤں میں جھن جھن
جھنکتی پائلوں کی سرگمیں سُن کر اچانک
کھل کھلا اُٹھے
شکستہ ٹہنیوں نے ایک انگڑائی سی لی
پتوں نے پھر تالی بجا کر داد دی
یک دم ہَوا کی ایڑیاں اُٹھیں تو کیا
دیکھا کہ شاخوں، ڈنٹھلوں اور دھوپ
کھائے سبز پتوں نے کتھک کی چال چلتے
مون سونی رقص کا آغاز کر ڈالا
[کچھ دیر بعد]
ہَوا کے بھاؤ تاؤ دیکھ کر بادل ٹھٹھکتے ہیں
اور اُس کے انگبیں آنچل کی لہروں پر ذرا
جھکتے ہیں، اس کو داد دیتے ہیں، ہَوا ایڑی
کے بل پر گھوم جاتی ہے
درختوں کے سبھی ہمسائے اس کے رقص میں
ہم تال بنتے ہیں اور ان جیسے کئی بچے سب اپنے اپنے گھر کے آنگنوں میں رقص کرتے ہیں
ہَوا جب سم دکھاتی ہے تو پتے کھل کھلاتے
اور بوندوں کی سبک پائل کی جھن جھن پر
ادا سے لوٹ جاتے ہیں،درختوں میں ہوا
کے رقص پرسب رقص کرتے ہیں
[اورکچھ دیر بعد]
یہ رقصِ مون سونی تیز ہوتا ہے
ذرا دیکھیں کہ بادل کس تلاطم سے گمگ کے ساتھ
مشکیزہ بکف نیچے اُترتا اور تہائی پر تہائی
مارتا ہے اور ہَوا سم سے نکل کر ماتروں
کی گنتیوں اور ایڑیوں کی سپتکوں میں ایک
ایسی چال سے لے دیکھتی ہے جس میں کھو
کر گرد، مٹی، پانی پانی ہوتے جاتے ہیں
]مزید کچھ دیر بعد]
درختوں اور ہَوا کے مون سونی رقص میں
بارش کی ممتا، کھیت، کھلیانوں ، پہاڑوں، وادیوں آبادیوں کے اونچے نیچے سارے دیوار و در و بام، آنگنوں اورآنگنوں میں کھلنے والے پھول، کلیاں اور سب سے بڑھ کے جانِ جاں! تمھارے ہجرسے لیپے ہوئے اِس دل کا چہرہ دھو رہی ہے
کیا ہَوا بھی رو رہی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم لکھتی ہے تجھے
میں نہیں
یہ نظم لکھتی ہے تجھے
اپنی سطروں میں ترے ہاتھوں کی شمعوں کی نزاکت
صبحِ حرفِ خواب کے رنگوں سے لکھتی ہے
تری ان سبز آنکھوں کے انوکھے زاویوں کو ،جھوٹ سچ کو،جھوٹ سچ اور مصلحت کو اور حسنِ مصلحت کے راز لکھتی ہے
جانِ جاں یہ میرے لہجے میں
ترے سُرتال لکھتی ہے
مرے دن کی اُداسی ،راستہ تکنے کی عجلت
اورمری آنکھیں جو تیری چمپئی خوشبو کی گرہوں میں بندھی رہتی ہیں
ان کا حال لکھتی ہے
نظم میری ہے مگر دھڑکن کے وقفوں میں
ترے قدموں کی آہٹ اور ترے سب خال وخد
نقطوں،کشوں اور دائروں کے باب میں
لکھتی ہے کاغذ کی سفیدی پر
ترے ماتھے کی روشن صبحیں
شامیں درج کرتی ہے
کبھی ترے گھنے بالوں سے مضموں باندھتی ہے
اور کبھی تری سلگتی سانس سے مصرع بناتی ہے
کبھی تیرے لہو کی آنچ سے عنواں چراتی ہے
ترے چشم و لب و رُخ کے کنارے
تجھ سے ملنے کے کئی رَستے سجھاتی ہے
کچھ اس انداز سے تجھ کو
مری خاطر
مری یہ نظم لکھتی ہے