(Last Updated On: )
آئے دن ٹوٹتے رہتے ہیں کئی خواب مرے
یہ تو اچھا ہے کہ مضبوط ہیں اعصاب مرے
کیا کروں کیا نہ کروں مخمصے کھاتے ہیں مجھے
خواہشیں میری زیادہ ہیں کم اسباب مرے
کیا اکائی تھی مری قصۂ پارینہ ہوئی
ہائے کشمیر مرا ، گلگت و خنجراب مرے!
تّو تو کہتا تھا کہ میں ہوں تجھے شہ رگ کی طرح
کیا ہوا؟ تو نے بھی چپ سادھ لی پنجاب مرے!
کتنے ہی لوگ کہ بے گھر ہوئے، جانوں سے گئے
کتنے کھلیان ،بہا لے گیا سیلاب، مرے
کس قیامت کی وہ چنگھاڑ تھی آٹھ اکتوبر!
ذہن میں بیٹھ گیا تختۂ سیماب مرے
میں تو اجرت پہ ہوں دھاگہ ملیں آجر کی ہیں
میری قسمت میں نہیں اطلس و کمخواب مرے
ہر کسی کے لیے میں لقمۂ تر تھا کاشر
نوچ کر کھا گئی دنیا پرِ سرخاب مرے