اب انشاء باقاعدہ آنسو بہارہی تھی ۔۔۔ فکر اور پریشانی سے انشاء کا برا حال ہورہا تھا ۔۔۔
دل میں برے برے خیال آنے لگے تھے ۔۔۔ رات کا ایک بج رہا تھا ۔۔۔ عیان کی کوئی خبر نہ تھی ۔۔۔ موبائل اب تک بند جارہا تھا ۔۔۔
“یا اللہ عیان کی حفاظت کرنا ۔۔۔ انشاء نے روتے ہوۓ دعا کی جانے کیوں اب دل کو خدشہ سا تھا کچھ غلط نہ ہوا ہو عیان کے ساتھ ۔۔۔ خودبخود دعا کے لیۓ ہاتھ اٹھ گۓ تھے انشاء کے۔۔۔
چند پل گزرے ہی ہونگے بامشکل دروازہ پر رنگ بیل ہوئی وہ جلدی سے اٹھی صوفے سے اور لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر نکلی ۔۔۔ عیان کو پٹیوں میں جکڑے دیکھ کر انشاء کا حال برا ہوا ۔۔۔ اس نے بغیر کچھ خیال کے سیدھا عیان کے گلے لگ کر رونا شروع ہوگئی ۔۔۔ بغیر دھیان دیۓ کے وہ خود کسی کے سہارے کھڑا ہے ۔۔۔ جو صحیع سلامت بازو تھا اس سے اس کی پینٹھ تھپتھپائی عیان نے ۔۔۔
“ریلکس ہوجاؤ انشاء ۔۔۔ عیان نے ہلکی آواز میں کہا ۔۔
وہ پہلے کب سنتی تھی جو اب سنتی زور و شور سے روۓ جارہی تھی ۔۔۔
عمر کو بےساختہ ہنسی آئی وہ مکمل اس کے گلے لگ گئی ۔۔
“بھابھی الریڈی اپ کا شوہر ہمارے رحم وکرم پر ہے ۔۔۔ بجاۓ اسے سہارے دینے کہ اپ بھی ۔۔۔
عمر نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔۔۔
عمر کی آواز پر وہ ہوش میں آئی اور اپنی پوزیشن کا احساس کیا تو شرمندہ سی عیان سے الگ ہوئی ۔۔۔
“میں ڈرگئی تھی عمر بھائی ۔۔۔ وہ ناک کو رگڑتی منمنائی ۔۔۔
عیان تو ہنس بھی نہ سکا کیونکہ اس کے چہرے پر درد کے آثار تھے ۔۔۔ اب انشاء نے غور سے دیکھا اس کے ایک بازو پر بینڈج تھی شاید گہرا زخم تھا اور ایک ٹانگ پر پلستر تھا ۔۔۔
عمر ایک طرف تو دوسرے طرف فرقان (عیان کا دوست ) نے تھاما ہوا تھا ۔۔۔ بہت اکورڈ فیل ہوا انشاء کو ۔۔ ٹانگ کی چوٹ کی وجہ سہارا لینے پر مجبور تھا ۔۔۔
سارا میک اپ اس کا خراب ہوچکا تھا ۔۔۔ اپنا دوپٹہ درست کرتی وہ ان کے ساتھ چلنے لگی ۔۔۔
“میرا خیال ہے نیچے کا کمرہ سہی رہے گا ۔۔۔ عمر نے کہا جس کی تائید فرقان نے بھی کی ۔۔
“نہیں مجھے خود کے کمرے تک لے چلو مجھے کہیں اور آرام نہیں آۓ گا ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“میں نیچے کا کمرہ کھلوا دیتی ہوں وہیں سہی رہے گا ۔ انشاء نے دھیمے لہجے میں کہا ۔۔۔ گیسٹ روم کا دروازہ کھولنے لگی ۔۔
“پلیز یار تھوڑا مشکل سہی ناممکن نہیں ، اگر ہوسکے مجھے میرے کمرے تک لے چلو ۔۔۔ عیان نے عمر سے کہا ۔۔۔
رحیم بھی پریشان سا کھڑا تھا اس سے بھی اپنے صاحب کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی ۔۔۔
“عیان اتنا کہے رہا ہے تو لے چلتے ہیں ۔۔۔ فرقان نے کہا ۔۔
“چلو ۔۔۔ تم بھی آؤ ۔۔۔ عمر نے رحیم سے کہا ۔۔
پھر ان لوگوں نے مل کر اسے بیڈ روم تک لے گۓ ۔۔
@@@@@@
مشکل سے سہی وہ اسے کمرے تک لانے میں کامیاب ہوۓ ۔۔۔اسے بیڈ سے ٹیک دے کر لٹایا۔۔۔
عمر نے کچھ دوائیاں انشاء کی طرف بڑھائیں اور کہا ۔۔۔
“ڈاکٹر نے ایک دن رہنے کا کہا پر عیان مانا ہی نہیں ڈسچارج کروالیا خود کو ۔۔۔ پر اپ پلیز اسے ایک ہفتہ بیڈ ریسٹ کروایۓ گا ۔۔۔ کم سے کم موو ہو یہ ، سمجھ رہیں ہیں نا آپ ۔۔
“جی بلکل سمجھ گئی ہوں ۔۔۔ انشاء غور سے اس کی ہدایت سن رہی تھی ۔۔۔
“پرسوں سے فزیو تھراپسٹ اجاۓ گا ۔۔۔ عمر نے کہا ۔۔۔
“جی ٹھیک ۔۔۔ اپ کا شکریہ اتنا کچھ کیا اپ نے ۔۔
انشاء نے کہا تشکر سے ۔۔۔
“شکریہ کی ضرورت نہیں بھابھی ، کچھ ہلکہ پھلکہ کھلا کے دوائی دی جیۓ گا ۔۔
” عمر بھائی آپ لوگ رک جائیں تھوڑی دیر میں چاۓ لاتی ہوں ۔۔۔
انشاء کو احساس ہوا ان دونوں کا بھی جنہوں نے اپنے دوست کے لیۓ اتنا کچھ کیا ۔۔۔
“نہیں بھابھی پھر کبھی ابھی ہم چلتے ہیں ۔۔۔ اپ اپنا اور عیان کا خیال رکھیں ۔۔۔ ہم کل آئیں گے ۔۔۔ اللہ حافظ ۔۔۔
عمر نے کہا ۔۔۔
فرقان سائیڈ پر ہی کھڑا رہا کیونکہ اس کی اتنی فریکنیس نہ تھی عیان کی فیملی سے ۔۔۔ نا ہی ان کی فیملی فرینڈ شپ تھی ۔۔۔ اس لیۓ وہ لاتعلق ہی کھڑا تھا ۔۔۔
کچھ دیر بعد عیان سے مل کے ، عمر اور فرقان چلے گۓ ۔۔
@@@@@@
“میں خود پی لوں گا ۔۔۔ تم آرام کرو ۔۔۔ عیان نے انشاء سے کہا جو پندرہ منٹ بعد سوپ لے آئی تھی ۔۔۔
“میں پلا تو رہی ہوں ۔۔ انشاء نے آہستہ سے کہا ۔۔۔
“تمہارے احسان کی ضرورت نہیں ، میں خود کرلوں گا ۔۔۔ عیان نے روڈ لہجے میں کہا ۔۔ ویسے بھی ہاتھ اس کے سہی تھے ایک بازو پر زخم تھا ۔۔۔
“مجھ سے بحث کی اپ کو ضرورت نہیں ۔۔۔ میں خود پلا رہی ہوں بس ۔۔۔ انشاء نے اسی روڈ انداز میں کہا ۔۔۔
نیپکن سیٹ کرکے عیان کے شرٹ پر ، چمچ سے پلانے لگی ۔۔۔
کئیں لمحے خاموشی کے نظر ہوگۓ ۔۔۔ وہ اس کی پیشانی پر فکر دیکھ رہا تھا ۔۔
پھر اس کے ہاتھ منہ بیڈ پر دھلا کر ۔۔۔ ٹاول سے اس کا چہرہ صاف کرنے لگی ۔۔۔
“یہ میں خود کرسکتا ہوں ۔۔۔ انشاء اسے ان سنا کرکے خود کرنے لگی ۔۔۔۔
پھر دوائی دی جسے عیان نے آرام سے کھالیا ۔۔۔
“مجھے لیٹنے میں ہیلپ کردو ۔۔ عیان نے دوائی کھانے کے بعد کہا ۔۔۔
“ابھی نہیں ۔۔ پانچ منٹ رکیں ۔۔۔
انشاء نے نارمل لہجے میں کہا ۔۔۔
” کیا مطلب ۔۔ عیان نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔۔
“ابھی پتہ چل جائے گا ۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی اور پانچ منٹ کے بعد واپس آئی۔۔۔
عیان اس کے انداز پر حیران ہی ہو رہا تھا ۔۔
وہ واپس آئی اس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس جو ڈھکا ہوا تھا ۔۔۔
“یہ کیا ہے ۔۔۔عیان نے پوچھا ۔۔۔
“ہلدی والا دودھ یہ پیئن گے تو جلدی زخم بھریں گے اور درد میں آرام بھی آۓ گا ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
“یہ لے جاؤ مجھے نہیں پینا ۔۔۔ عیان اس کی بات سن کر سخت بدمزہ ہوا ۔۔۔ اسے گھریلو ٹوٹکے بلکل پسند نہ تھے ۔۔۔ اس لیۓ ایسا کہا اس نے ۔۔۔۔
“پلیز پی لیں یہ واقعی اچھا ہے ۔۔۔ انشاء کا انداز سمجھانے والا تھا ۔۔۔
“میں نے کیا کہا ، وہ سنو ، لے جاؤ مجھے نہیں پینا ۔ وہ بھی کہاں کسی کی سننے والا تھا سو چڑ کر کہا تھا ۔۔۔
“اپ کو پینا پڑے گا یہ اپ کے لیۓ ضروری ہے ۔۔۔ اب انشاء کو بھی ضدی ہونا پڑا ۔۔
“میں کچھ کہے رہا ہوں ۔۔ عیان نے تیز لہجے میں کہا ۔۔۔
“فی الحال میں اپ کی سننے کے موڈ میں نہیں ۔۔۔ اپ کو پینا ہی پڑے گا ۔۔۔
“عجیب من مانی ہے ۔۔۔ عیان نے آنکھیں دکھا کر کہا ۔۔
“من مانی تو من مانی ہی سہی ۔۔۔ جلدی پیئن ۔۔۔انشاء نے انکھیں دکھائیں سامنے سے اور گلاس اس کے ہونٹوں سے لگایا ۔۔۔
عیان حیران ہی ہوا اس کے انداز پر ۔۔۔ اس نے گلاس خود پکڑا ہوا تھا ۔۔۔ ” جلدی پیئں انشاء نے پھر کہا ۔۔۔
دکھانے کو تو انکھیں دکھائیں انشاء نے اسے پر اب چور نظروں سے اس کے تاثرات دیکھے ۔۔۔ کہیں غصہ نہ ہو عیان اس پر ۔۔۔
جلدی سے اس کے ہونٹ اور اس کے پاس جو دودھ لگا تھا اس نے انجانے میں اپنے پلو سے صاف کیا ۔۔۔ عیان اس کا اپنا پن دیکھ کر اندر ہی اندر دل میں مطئمن سا ہوا ۔۔۔
وہ اسے لٹانے میں ہیلپ کرنے لگی ۔۔۔ وہ حیران ہی ہورہا تھا اس کے اتنے پرواہ کرنے والے انداز پر ۔۔۔
وہ اس پر کمفرٹ ڈالتی اور کہا ۔۔۔
“اب اپ آرام کریں ۔۔۔ انشاء نے کہا …
انشاء روم کے سامان سمیٹنے لگی اور عیان نے آنکھیں موندیں ۔۔۔
عیان چند منٹ ہی آنکھیں بند کرپایا اور بے چین سا ہوا ۔۔ اس بدلتی کیفیت کو انشاء نے محسوس کیا ۔۔۔
“کیا ہوا کوئی پرابلم ہے ۔۔۔ انشاء نے محسوس کیا تو پوچھ لیا ۔۔۔
“کچھ نہیں ۔۔۔ عیان نے بےچینی سے کہا ۔۔۔
“کیا ہوا ہے مجھے بتائیں ۔۔۔ انشاء نے فکرمندی سے کہا ۔۔۔
“سر میں شدید درد ہورہا ہے ۔۔۔ عیان نے بےبسی سے کہا ۔۔۔ درد کی ٹیسین اٹھنے لگیں تھیں سر میں ۔۔۔
“ہمنننمممم ۔۔
اسی وقت انشاء نے لائٹ آف کی اور زیرو بلب آن کیا ۔۔۔
“تم اپنے کام تو کرلو ۔۔۔ عیان نے اس کا احساس کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“وہ بعد میں کرلوں گی ۔۔۔
انشاء نے جلدی سے کہا اور اس کے پاس بیٹھ کر اس کا سر دبانے لگی ۔۔۔ وہ مسلسل دبا رہی تھی ۔۔۔
عیان حیران تھا اس کا یوں اپنے پاس بیٹھنے پر ۔۔۔ اس کی خوشبو عیان کو بھی معطر کرنے لگی تھی ۔۔۔ وہ غور سے دیکھ رہا تھا اس کا چہرہ جس پر مٹے میک اپ کے اثرات ظاہر تھے اور اچھا جوڑا اس نے زیب کیا ہوا تھا ۔۔۔
“کیا واقعی وہ دعوت پر چلنے کے لیۓ ریڈی ہوئی تھی یا وجہ کچھ اور ہے اس تیاری کی ۔۔۔
عیان نے سوچا ۔۔۔
“کیا ہوا درد کم نہیں ہورہا ۔۔۔ آرام نہیں ارہا ۔۔۔ انشاء نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔
“بس سہی ہے تم آرام کرو ۔۔۔ چھوڑو تھک جاؤ گی ۔۔۔
” آپ میری فکر چھوڑیں اپنا خیال کریں ۔۔۔ انشاء نے ڈپٹ کر کہا ۔۔۔
“کیا لڑکی ہے یہ ، غیر پن دکھانے پر آئی تو بڑی ظالم لگی اور اب اس وقت ایسا لگتا ہے اس سے زیادہ کوئی میری اپنی نہیں ہے ۔۔ یا بہت پریشان کرتی یا بےانتہا حیران کرتی رہتی ہے ۔۔
عیان نے سوچا اور آنکھیں موندلیں ۔۔ اب دوائوں نے اپنا اثر شروع کردیا تھا ۔۔۔ آنکھیں بھاری ہونے لگیں وہ کچھ کہنے کے لیۓ ہونٹ پھڑ پھڑا سکا پر کچھ کہے نہ سکا ۔۔ اسے نیند اگئی ۔۔۔
پر انشاء اس کی فکر میں مسلسل سر دباتی رہی ۔۔۔
@@@@@@@
اگلی صبح عیان کی انکھ کھلی تو انشاء خود کے قریب سوتے پایا ، اس کا ایک ہاتھ عیان کے سر پر اور دوسرا اس کے سینے پر رکھے سورہی تھی ۔۔۔
وہ کبھی اپنی مرضی سے نہیں اس کے پاس سوئی تھی جب بھی یہ نوبت آئی تو بھی اس کی زبردستی سے ، جانے کیوں اسے اچھا لگا انشاء کا اس طرح اپنے نزدیک سونا اور اس کا یوں فکر کرنا ۔۔۔
دل تھا کہ خوشفہم ہونے لگا تھا ۔۔۔
اب عیان اسی کشمکش میں تھا اسے اٹھاؤں یا نہیں ۔۔۔
“انشاء فجر کی نماز چلی جاۓ گی ۔۔۔ پلیز اٹھو ۔۔۔ وہ اس کے بازو پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا ۔۔
اس کے چہرے پر آئی لٹوں کو ہٹایا اس نے ۔۔۔
“انشاء اٹھو ۔۔۔۔ عیان نے دوبارہ کہا ۔۔۔ شاید تھکن کی وجہ سے گہری نیند میں تھی ۔۔۔
عیان بچپن سے نماز کا پابند رہا تھا ۔۔ اس لیۓ اس کی انکھ ہمیشہ کھل جاتی تھی وقت پر ۔۔۔ لندن میں بھی اس کی اسی عادت پر عمر حیران ہوتا تھا ۔۔۔
کیسا الارم لگا ہے تیرے اندر چاہے جتنی گہری نیند نماز کا وقت ہو اور تیری انکھ نہ کھلے ناممکن سی بات ہے ۔۔۔
اور وہ ہنستے ہوئے کہتا تھا ۔۔۔
” یہ تو اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے ۔۔۔ تم نہیں سمجھو گے ۔۔۔
“یہ تو بےشک سچ ہے ۔۔۔ جسے چاہے اللہ سجدے کی توفیق دے ۔۔۔ عمر بھی کہتا ۔۔۔
“انشاء اٹھو یار ۔۔۔ وہ کسمکسا کر اٹھی ۔۔۔۔ اس کے کھلے بالوں کی لٹین عیان کی شرٹ میں پھنسی ۔۔۔ وہ دوبارہ اس کے سینے پر گر پڑی ۔۔۔
انشاء کی کیفیت عجیب ہوئی ۔۔۔ عیان نے اور اس نے مل کر بال نکالے اس کے ۔۔۔۔
چند پل گزرے ۔۔۔
“انشاء میری وضو میں ہیلپ کرو نماز ادا کرسکوں لیٹ کر ہی سہی ۔۔۔۔ عیان نے کہا فکرمندی سے ۔۔۔
“پر اس حالت میں ۔۔۔ وہ حیران ہی ہوئی اس کی بات پر ۔۔
“نماز ہر حالت میں ادا کرنی ہوتی ہے چاہے مرگ بستر پر ہو ، جب تک ہوش میں ہو نماز ادا کرنی فرض ہے کوئی معافی نہیں ۔۔۔ پھر چاہے بیٹھ کر سہی ، لیٹ کر ، ورنہ آنکھ کے اشارے سے بھی نماز ادا کرنی فرض ہے ۔۔۔
وہ حیرت سے اس کی بات سن رہی تھی ۔۔۔
جتنا نزدیک اس کے رہی اس پر حیران پر حیران ہوتی رہی ہے انشاء ۔۔۔ “کیا شخص ہے یہ ۔۔۔ یہ کون سا روپ ہے جو کبھی میں نے دیکھا ہی نہیں اس کا ۔۔۔ انشا نے سوچا ۔۔۔۔
وہ جلدی پانی اور ٹب لائی اسے وضو کروایا تاکہ وہ نماز ادا کرسکے بستر پر سہی ۔۔۔
عیان نے نماز شروع کی تو وہ بھی جلدی فریش ہوکر آئی نماز پڑھنے لگی ۔۔۔
@@@@@@
زینب بی کو جیسے پتا چلا وہ عیان کے پاس آئی ۔۔۔ اس پر قران کی ایات پڑھ کر دم کیا ۔۔۔ صدقے اور خیرات کا کہا انشاء سے ۔۔۔ اسی وقت انشاء نے کیا ۔۔۔
رحیم اور حنیف کی مدد سے واشروم جاسکا ۔۔ انشاء سے اس کی ایسی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی ۔۔۔ اتنا شاندار مرد اور اتنی بےبسی پر ۔۔۔ وہ محسوس کررہی تھی عیان کی تکلیف ۔۔۔ وہ دعا ہی کرسکتی تھی اس کے لیۓ وہی کررہی تھی ۔۔۔ چھپ کے سے اس پر قران کی ایات کا دم کیا ۔۔۔
وہ ناشتہ کرواکر اسے فارغ ہوئی تھی دوائی دی ۔۔۔
“اب اپ آرام کرلیں فجر کے وقت سے اٹھے ہوۓ ہیں ۔۔انشاء نے کہا
۔۔
“سکون نہیں آۓ گا ۔۔۔ عیان نے بےچین ہوکر کہا ۔۔۔
“کیوں کیا ہوا ۔۔۔
“کپڑے چینج کرنے ہیں حنیف اور رحیم آۓ تھے تبھی ان سے کہے دیتا ۔۔۔ تب ذہن میں نہیں آیا ، اب دوبارہ کیسے کہوں ، بار بار اتنی تکلیف کسی کو کیسے دوں ۔۔۔ عیان نے فکر سے کہا ۔۔۔
“کچھ نہیں ہوتا ، میں بلاتی ہوں ان کو ۔۔ وہ جلدی کمرے سے باہر گئی تاکہ ان کو بلا سکے ۔۔۔
نیچے اکر یاد ایا ان کو تو باہر بھیجا ہوا صدقہ اور خیرات کرنے کے لیۓ ۔۔۔ ان کو انے میں لیٹ ہونی تھی ۔
سیڑھیان چڑھتے ہوۓ ملسل عیان کا احساس ہورہا تھا جس کی شرٹ خراب ہورہی تھی ۔۔۔ وہ اس کی نفیس طبیت سے اچھی طرح واقف تھی اب اسے سکون نہیں آنا جب تک چینج نہ کرلے ۔۔۔ ایسا شخص جو سوتے وقت بھی نہا کر خود کو اسپرے کرکے سوتا ہو اسے اس وقت کیسے آرام آۓ گا کل کے حلیۓ میں ۔۔۔
وہ کچھ سوچ کر روم میں آئی ۔ ۔
“کیا ہوا بلایا ان کو ۔ عیان نے اس کے روم میں آتے ہی اس سے پوچھا ۔۔۔
جسے ان سنا کرتے وہ واش روم کی طرف چلی گئی ۔ چھوٹے ٹب میں پانی لائی ساتھ میں دوٹاول اکر سائیڈ پر رکھے ۔۔۔
“تم سے کچھ پوچھا ہے انشاء ۔۔ عیان نے دوبارہ کہا ۔
وہ اس کی شرٹ الماری سے نکال کر بیڈ پر رکھی ۔۔۔
“میں خود ہی اپ کی شرٹ چینج کرواتی ہوں کچھ فریش محسوس کریں گے اپ ۔ اب انشاء نے چپ توڑی اور کہا ۔۔۔۔
“تم تکلف نہ کرو ۔۔۔ وہ آئیں گے تو کروالیں گے ۔۔۔ عیان نے اس کا احساس کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔ کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا صبح سے وہ اس کے کاموں میں لگی ہوئی تھی ۔۔۔
“مجھ سے بحث نہیں ہوتا اپ سے ۔۔۔ مجھے میرا کام کرنے دیں بس ۔۔۔ انشاء نے چڑ کر کہا ۔۔۔
“پر ۔۔۔عیان نے کہا ۔۔
“پلیز عیان ۔۔ اپ اپنی فکر کریں ، میں ٹھیک ہوں سب کرلوں گی ۔۔۔ انشاء نے اسٹریٹ فارورڈ کہا تھا ۔۔۔اور دوبارہ بولی ۔۔
“پلیز شرٹ کے بٹن کھول دیں ۔۔۔
اس کے کہنے ہر عیان کھولنے لگا پر شاید اس کے ایک ہاتھ میں درد تھا جس وجہ سے مشکل ہورہی تھی ۔۔۔ انشاء نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور کہا ۔۔۔
“میں کردیتی ہوں ، اپ رہنے دیں ۔۔
اور خود اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی وہ مکمل اس پر جھکی تھی شرٹ اتار کر وہ اس کے سینے پر گیلے ٹاول سے صاف کرنے لگی ۔۔
بار بار جھکنے کی وجہ سے ڈوپٹا ڈسٹرب کررہا تھا انشاء کو جو کبھی بازو پر اجاتا یا نیچے گرنے لگتا ۔ ۔ تنگ اکر اسے صوفے پر پھینک دیا انشاء نے ۔۔۔
عیان کو یلو ڈریس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔ اتنا دل سے اس کا خیال کرتی وہ عیان کے دل کے تاروں چھیڑ رہی تھی ۔۔۔
عیان کا دل چاہا اسے اپنے سینے لگالے اور اس سے اتی بھینی خوشبو خود میں بسا لے پر انشاء برا نہ مان جاۓ اس لیۓ خود کو روک لیا اس نے ۔۔۔
وہ اسے اب شرٹ پہنا رہی تھی وہ مکمل اس میں گم تھا پر انشاء اپنے کام میں مصروف سی تھی ۔۔۔
عیان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ اتنا کچھ اس کے لیۓ کرسکتی ہے ۔۔
“اب اپ کو آرام اجاۓ گا شاباش سوجائیں ، دن کی نماز کے وقت اٹھا دوں گی ۔۔۔
انشاء نے اپنے بالوں کو جوڑا جو ڈھیلا ہوگیا تھا اسے دوبارہ باندھتے ہوۓ عیان سے کہا ۔۔۔
وہ مکمل گھریلو بیوی کے حلیۓ میں اسے ایسا کہتی بہت اپنی سی لگی ۔۔۔
وہ لائیٹ آف کرتی اس پر کمفرٹ ڈالتی روم سے باہر چلی گئی ۔۔ وہ اسے سوچتا سوگیا ۔۔۔
@@@@@@
شام میں دوست اجاتے عیان کا اچھا وقت گزر جاتا ۔۔۔
فزیوتھراپسٹ اس کی ایکسرسائز کرواتا جس سے وہ کافی بہتر محسوس کر رہا تھا ۔
ایک ہفتے بعد پلستر اتر گیا تھا اب آئل مساج کرنا تھا ۔۔۔ ایکسرے رپوٹ کلیئر تھی ۔۔
ڈاکٹر نے ایک ہفتہ سیڑھیوں کے کیئر کا کہا تھا ۔۔۔ سیڑھیان بار بار چڑھنا اترنا سہی نہیں تھا اس کے لیۓ ۔۔
وہ تو اپنا کیئر کرتا پر انشاء بھی مسلسل اس کاخیال کررہی تھی ۔۔
وہ خود آئل لگا سکتا تھا پر انشاء یہ بھی خود کرتی تھی تو عیان چپ ہوگیا ۔۔۔
پر دل ہی دل میں خوش اور مطئمن تھا ۔۔۔
انشاء کے ہر انداز سے ظاہر ہورہا تھا وہ کتنی حساس ہے اس کے معاملے میں ۔۔
واقعی ہر معاملے میں مصلحت ہوتی ہے اس کے ایکسیڈنٹ نے اسے احساس دلایا انشاء جتنی لاپرواہ دکھتی اتنی ہے نہیں ۔۔۔ عیان کی نظر میں وہ بہترین بیوی تھی ۔۔ عیان اپنے رب کا شکر ادا کررہا تھا ۔۔۔۔
@@@@@@@@
“بہت شکریہ تمہارا انشاء ان دنوں میرا بہت خیال رکھا تم نے ۔۔۔۔ عیان نے دل سے کہا ۔۔۔
وہ اس کی ٹانگ پر آئل سے مالش کررہی تھی اور وہ خود کو یہ سب کہنے سے روک نہیں پارہا تھا ۔۔۔
وہ مسکرائی ایک نظر اسے دیکھ کر اور دوبارہ مصروف ہوگئی مالش میں ۔۔۔
“جو کہے رہا ہوں دل کی گہرائیوں سے کہے رہا ہوں ۔۔۔ سچ میں بہت کیا ہے تم نے میرے لیۓ ۔۔۔
اس نے دوبارہ اس کی تعریف کی اور آخر میں اس سے پوچھ بیٹھا ۔۔ ” تم کچھ نہیں کہوگی ۔۔۔
جانے وہ کیا سننا چاہ رہا تھا ۔۔ شاید کچھ میٹھے الفاظ کوئی گُدگُداتا سا احساس بھرا جملا انشاء سے جو اسکے وجود کو تو مہکاۓ اور دل کو بھی دھڑکا دے ۔۔۔
“میں کیا کہوں ۔۔۔ لمحے بھر کو سوچ کر چپ ہوئی ۔۔۔ آئل کو ڈھکن لگا کر بند کیا ۔۔۔ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتی اس کے پاس سے اٹھی اور کہا ۔۔
” میں آپ سے کیا کہوں ۔۔۔ شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ جو بھی کیا انسانیت کے ناطے کیا میں نے ۔۔
انشاء کا لہجہ نارمل سا تھا ۔۔۔۔
“صرف انسانیت ناطے تم میرا اتنا خیال کررہی تھی ۔۔۔ جانے کیوں وہ دوبارہ اس سے پوچھ بیٹھا ۔۔۔
“جی بلکل ۔۔۔انشاء نے کہا ۔۔۔
“کیا اور کوئی احساس نہیں تمہارے اندر میرے لیۓ ۔۔۔ عیان جے ایک آس سے پوچھا ۔ ۔
“اپ کے لیۓ احساس ہے کیونکہ بابا جان اور اپ نے میرے لیۓ بہت کچھ کیا ہے ، اس لیۓ میرا بھی فرض تھا بےغرض ہوکر اپ کا خیال کروں وہی کیا میں نے ۔۔ انشاء نے نارملی کہا ۔۔۔
انشاء کو بلکل سمجھ نہیں ارہا تھا عیان کو کیا ہوا ہے جو وہ اس طرح سوال کررہا ہے اور اس کے جواب پر مطئمن بھی نہیں ہورہا تھا ۔۔۔
چند لمحے خاموشی کی نظر ہوگۓ ۔۔۔ جب انشاء کو لگا وہ اور کچھ نہیں کہے رہا تو وہ جانے کے لیۓ مڑی ۔۔۔
“سنو ۔۔۔عیان کی آواز نے اسے روکا ۔۔ وہ دوبارہ اس کی طرف مڑی سوالیہ انداز میں دیکھنے لگی “جی کہے کر ۔۔۔
کیا واقعی تم نے سب انسانیت کے ناطے کیا ، اس سب میں ایک بیوی والی فیلنگز نا تھیں ایسا کوئی احساس نہ تھا ۔۔۔
“مجھے نہیں پتا اپ کیا سننا چاہتے ہیں ۔۔۔ میرے جو احساسات ہیں وہ پہلے اپ کو بتا چکی ہوں ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
“مجھے صرف یہ بتاؤ ، کیا یہ سب تم نے بیوی کی حیثیت سے نہیں کیا یہ بیوی کا پیار اور احساس نہ تھا اہنے شوہر کے لیۓ ۔۔۔ وہ جو کبھی کوئی ایسا سوال کسی سے نہیں کرتا تھا اج جانے کیوں اس سے پوچھ رہا تھا جانے کیوں اس کے سچے جذبے اس کیئر کے پیچھے جو ہیں وہ سننا چاہ رہا تھا ۔۔۔ وہ ایسا شخص نہ تھا جو بال کی کھال نکالے ۔۔۔
“بیوی ہممممم ۔۔۔ بیوی کے احساسات کی کب کی ہے اپ نے پرواہ ، اپ نے صرف اپنے غرض کے لیۓ مجھ سے ایک زبردستی تعلق بنا کر مجھے اذیت دی ہے ۔۔۔ جو میں کبھی نہیں بھول سکتی اور نا ہی معاف کرسکتی ہوں ۔۔
انشاء نے بغیر کسی پرواہ کے جو دل میں تھا وہ کہے دیا ۔۔۔ عیان کی ساری خوشفہمیاں ختم ہوگئیں ایک پل میں ۔۔۔ جس چہرے پر اس وقت رونق تھی اور آنکھوں میں چمک تھی وہ منٹوں میں غائب ہوئی ۔۔۔
چند منٹ لگے اسے خود کو کمپوز کرنے میں اور خود کو کمپوز کرتا وہ بیڈ سے اٹھا ۔۔۔ انشاء جلدی اس کے قریب ہوئی سہارا دینے کے لیۓ عیان نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا اس کے قدم تھم گۓ ۔۔۔
“روکو ۔۔۔ مجھے کسی عارضی سہارے کی ضرورت نہیں بلکل ٹھیک ہوں تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ، بہت اچھی انسان ہو تم اور انسانیت بھی بہت ہے تم میں ۔۔۔ جانتا ہوں بیوی ہونے کی حیثیت سے بہت تکلیف ہوئی ہوگی تمہیں میرا خیال کرنے میں کیونکہ تمہاری نظر میں تمہارا مجرم ہوں پر تم نے انسانیت کا تعلق نبھا کر اعلیٰ ظرفی کی بہت اعلیٰ مثال قائم کی ہے ۔۔۔
عیان کا لہجہ سرد سا تھا ۔۔۔ بےلچک انداز اور انکھون میں سردمہری تھی ۔۔۔
“پر عیان اپ ابھی مکمل صحت یاب نہیں ۔۔۔ انشاء نے جلدی سے کہا ۔۔
عیان نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔۔۔
“اپنے دل پر زیادہ جبر کرنے کی ضرورت نہیں ، بہت نبھالیا انسانیت کا تعلق ، خود اذیتی سے نکل آؤ تم ، ریلکس ہوکر لوٹ جاؤ اسی طرف جس طرح کی تم زندگی گزارنا چاہتی ہو ۔۔۔ جو کرچکا ہوں تمہارے ساتھ ہوسکے تو معاف کرنا پر آئندہ کی گیرینٹی دیتا ہوں ایسا ویسا کوئی تعلق نہیں رہے گا ہمارے بیچ ۔۔۔ جس طرح جینا چاہتی ہو ویسے جیو اپنی زندگی ، مکمل آزاد ہو میری طرف سے تم ۔۔۔
عیان تھوڑا لنگڑاتا ہوا اس کے پاس سے گزر گیا ۔۔۔
وہ حیرت سے اسے جاتا دیکھتی رہی اور سمجھ نہیں پارہی تھی وہ اس طرح کیوں ریکٹ کر گیا عیان ۔۔
@@@@@@@@
اگلے دن اس نے آفیس کی تیاری میں ہیلپ کرنا چاہی تو عیان نے سختی سے منع کردیا ۔۔
رات بھی جب وہ اسے مالش کرنے آئی اس کی ٹانگ کی ، اس کے ہاتھ سے شیشی لے لی اس نے ۔۔۔۔
“میں کردیتی ہوں ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
“بہت شکریہ ۔۔۔ اب میں ٹھیک ہوں ۔ عیان نے دوٹوک کہا ۔۔
“پر ۔۔۔انشاء نے کچھ کہنا چاہا ۔۔
“اپنا کام جاکر کرو ، میرے ہاتھ سلامت ہیں ، میں خود کرسکتا ہوں ۔۔۔ عیان کے اس انداز کی وہ کب عادی تھی ہکا بکا ہوکر اسے دیکھ رہی تھی ۔۔
وہ خود مالش کرنے لگا اور وہ اس کے اجنبی رویۓ کو دیکھتی رہ گئی ۔۔۔
اس وقت صبح کے وہ اسے مکمل اگنور کیۓ اس کا نکالا سوٹ سائیڈ کرتا دوسرا نکالنے لگا سوٹ ۔۔۔
انشاء کو ایسا لگا جیسے عیان کے لیۓ تو وہ اس کمرے میں موجود ہی نہیں ہو جیسے ۔۔۔ وہ واشروم چلا گیا ۔۔
پتا نہیں کیوں اس کی آنکھوں میں پانی سا جمع ہونے لگا ۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...