ایان نے لان لیا اور پیسہ لگا کر بزنس سٹارٹ کر لیا۔
اکاش ملک اس پر بہت ناراض تھے۔
” جب تمارے ڈیڈ کا بزنس ہے تو تم کیوں شروع کر رہے ہو۔“
راٸنہ زچ ہو کر بولیں۔
” گھر میں وہ میری بات بات پر انسلٹ کرتے ہیں، آفس میں بھی ایسا ہی کریں، آٸی کانٹ بٸیر مام۔“
ایان چڑ کے بولا تھا۔
” تم نے ہمیشہ انہیں ناراض کیا ہے۔“
راٸنہ ناراض نظریں اس کے وجییہہ چہرے پر ڈال کر بولیں۔
” وہ اپنی بات منوانا جانتے ہیں بس، کسی کی ماننا سیکھ لیں تو کم ز کم روز تماشہ نا لگے۔“
ایان کھانے کی طرف متوجہ ہوا تھا، اکاش ملک آفس ہی تھے، ایان لنچ کرنے گھر آیا تھا۔
“ وہ تمہارے ڈیڈ ہیں۔“
راٸنہ سختی سے بولیں۔
” آٸی نو، یہ بات نا میں بھول سکتا ہوں، نا وہ بھولنے ہی دیتے ہیں۔“
ایان چمچ پلیٹ میں رکھتا ہوا بولا اورگلاس میں پانی انڈیلنے لگا۔
اتنی عزت افزاٸی کے بعد بھی وہ کھانا نہیں چھوڑتا تھا۔
” اورآج وہ نہیں ہیں تو آپ انکی کمی پوری کر رہیں ہیں۔“
ایان نے انکے سمجھانے پر چوٹ کی۔
” ہم تمہارا بھلا چاہتے ہیں۔“
راٸنہ خفا ہوٸیں تھیں، ٹھوڑی ےلے ہاتھ رکھے خفا خفا چہرہ لیے وہ اسے کھانا کھاتے ہوۓ دیکھ رہیں تھیں۔
” یہ بھلا ہے، دن رات انسلٹ کرتے ہیں، تو برا کیسا ہوگا۔“
ایان تنک کر بولا۔
” وفا کے بارے میں کیا سوچا ہے، یا طلاو دےدو، یا گھر لے آٶ۔“
راٸنہ نے ٹاپک چینج کیا اور دوٹوک لہجے میں کہا۔
ایان کا چمچ چلاتا ہاتھ رکا۔
” جو کل آپ لوگ اسکےساتھ کر کے آۓ ہیں، وہ آنا پسند کرے گی میرے ساتھ۔؟“
ایان نے سوالیہ مگر طنزیا انداز میں سوال کیا۔
راٸنہ چپ ہو گٸیں۔
” وفا بہت بے ضرر سی لڑکی ہے مام، اسکی زندگی پہلے ہی بہت کرٹیکل ہے،آپ لوگوں نے بھی اپنا حصہ ڈال لیا۔“
ایان کا لہجہ قدرے نرم ہو کر سخت ہوا تھا، جسے راٸنہ نے بخوبی نوٹ کیا۔
” تم وفا سے محبت کرتے ہو۔؟“
راٸنہ نے ٹٹولتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
” نہیں، بس احساس کرتا ہوں اسکا۔“
ایان نے نرم لہجے میں کہا۔
” کیوں۔؟ باقی سب کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہو۔“
راٸنہ گہری نظروں سے اسے دیکھ رہیں تھیں۔
” کیونکہ باقی سب اسی قابل ہیں۔“
ایان اپنی ٹیون میں واپس آ گیا تھا، قدرے تیکھے لہجے میں بولا۔
” یہ نا ہو احساس محبت میں بدل جاۓ، اور ایان ملک کو اپنی چواٸس بدلنی پڑ جاۓ“
راٸنہ نرمی سے بولیں
” تو اتنا برا بھی نہیں ہے، میں اس کےساتھ خوش رہ سکتا ہوں۔“
ایان تپا دینے والے انداز میں بولا۔
” تو تمہارا سٹینڈرڈ ، کلاس انکا کیا ہوگا۔“
راٸنہ کا لہجہ طنزیا ہوگا۔
” وفا جیسی سمجھدار لڑکی کے لیے کلاس اورسٹینڈرڈ تیاگ دیے جاٸیں تو سودا برا نہیں ہے۔“
ایان نے ٹشو سے ہاتھ صاف کیے اور سنجیدگی سے بولتا اٹھا۔
” تمہیں وہ سارہ سے بہتر لگ رہی ہے، پر مجھے نہیں۔“
راٸنہ بیگم سلگ کر بولیں۔
” مجھے پرواہ نہیں۔“
ایان لاپرواہی سے بولتا نکل گیا، راٸنہ بیگم جی جان سے جل گٸیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزنس سیٹنگ میں مصروفیت کی وجہ سے ایان جا نہیں پایا تھا اور وفا کو لگا وہ ناراض ہو گیا ہے۔
ایک دکھ سا اسے محسوس ہونے لگا تھا۔
” تنہا رہ رہ کر انسان تنہاٸی کا اس قدر عادی ہو جاتا ہے، کہ پرواہ کرنے والے فریبی لگنے لگتے ہیں۔“
وفاافسردگی سے سوچ سکی۔
اسکارخ سینٹرل کیلگری کے آفس میں بیٹھے زمانے بھر کے بےزار جیمز کی طرف تھا۔
وفا اسکے سامنے کرسی پر جا بیٹھی تھی، امید بھری نظروں سے اسنے جیمز کو دیکھ کر پوچھا۔
” سوری ۔۔۔۔۔آٸی کانٹ فاٸنڈ۔“
جیمز نے صاف گوٸی سے انکار کردیا، بھوری آنکھوں کی چمکتی جوت لڑکھڑا کر بجھ گٸ،
” پلیز۔۔۔۔۔ٹراۓ فار می پلیز۔“
وفا بھیگی آنکھوں سے ملتجی ہوٸی۔
” سوری یو ہیو ٹو گو۔“
جیمز لاپرواہی سے بولا تھا۔
منت سماجت کے بعد بھی جیمز کے انکار پر وہ تھکن زدہ وجود گھسیٹے نکل آٸی۔
تھکن اس کےپور پور میں سراٸیت کر رہی تھی،اتنی محنت، سفر سب راٸیگاں چلا گیا، شدید دکھ نے اسے گھیر لیا، وہ سڑک کنارے سنگی بینچ پر بیٹھ گٸ، سر ہاتھوں میں گراٸے وہ الجھی ہوٸی سی زندگی کے الجھے دھاگوں کے بارے سوچ رہی تھی۔
اٹھارہ سال دے وہ جس امید کی روشنی لیے اندھیرے میں اجالے کی تلاش کی خواہاں تھی، آج اس امیدکے ننھے دیے کو بے دردی سے پھونک کر بجھا دیا گیا تھا۔
” اب تو سب وجہیں ختم ہو گٸ، سب ہی راہیں مسدود ہو گٸیں۔“
وفا کی آنکھ کے گوشے بھیگنے لگے تھے، جسے وفا نے بے دردی سے مسل دیا۔
“میں اتنی کمزور نہیں ہوں کہ ٹسوے بہاتی پھروں،“
گہرا سانس کھینچ کر اس نے خود کو نارمل کیا۔
کبھی یہ سوچ چھو کر بھی نہیں گزری تھی، اگر وہ ہار گٸ تو کیا ہوگا، اسے اتنا یقین تھا کہ جیت اسکا مقدر ضرور بنے گی۔
گہری چپ لیے، وہ اپنے سامنے اندھیر ہوتی زندی کو سوچ ہی تھی، جب گاڑی کے ٹاٸروں کی آواز چرچراٸی، وفا اپنی سوچ میں گم تھی، اسے احساس ہی نہیں ہوا کب ایان اسکے ساتھ آ بیٹھا۔
کافی دیر وہ اسےدیکھتا رہا اور ہاتھ بڑھا کہ اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاٸی۔
وفا نے چونک کر داٸیں جانب دیکھا، ایان سنجیدہ نظروں سے اسےدیکھ رہاتھا۔
” آپ روٸی ہیں۔؟“
ایان اسکی جانب دیکھتے ہوۓ بولا، وفا خاموش رہی۔
” کیا پرابلم ہے۔؟“
ایان آگے جھک کر گھٹنوں پر کہنیاں رکھ لیں۔
وفا نے آہستگی سے سب بتادیا۔
ایان نے اسکی کلاٸی تھامی اور جیمز کے آفس کی طرف لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا، وفا نے اسکے مضبوط ہاتھ میں اپنا نازک ہاتھ دیکھا۔
ایان گلاس ڈور دھکیلتا جیمز کے آفس میں داخل ہوا۔
جیمز نے ناگواری سے ایان کو دیکھا۔
ایان نے اسکی کلاٸی چھوڑ دی اور ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھے جیمز کی جانب جھکا۔
” تم سمجھ تو گٸے ہو گے۔“
ایان کینڈین لب و لہجے میں بولا۔
جیمز نے سختی سے انکار کیا اور انہیں آفس سے نکل جانے کو کہا۔
ایان سیدھا ہوا اور ٹیبل کے اس پار جا کر جیمز کو کالر سے پکڑ لیا۔
” ایان پلیز۔۔۔۔“
وفا بوکھلا کر بولی، ایان نے ایک نظر اسے دیکھا اور جیمز کے کان میں دھمکی دے ڈالی۔
جیمز کا رنگ اڑ گیا۔
” گیو می ون ڈے۔“
جیمز خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوۓ بولا۔
” ون ڈے۔“
ایان انگلی اٹھا کر بولا اور سنجیدگی سے وفا کو لیے باہر نکل آیا۔
” تمہیں مجھے پر اعتبار کرنا چاہیے تھا۔“
ایان خفگی سے بولا۔
” میں نہیں چاہتی، میری پریشانیاں آپ کو پریشان کریں۔“
وفا خفیف سی بولی۔
ایان نے خفگی بھری نظر اس پر ڈالی۔
” ایم سوری۔“
وفا شرمندہ سی بولی تھی، ایان نے گاگلز لگی آنکھوں سے اسے دیکھا، واہ شرٹ اور بلیو نیرو جینز میں وی ویس کوٹ پہنے صبیح چہرے پر سنجیدگی لیے ہینڈسم لگ رہا تھا۔
” فار واٹ۔“
ایان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
” اس دن آپ کو ہرٹ کر دیا۔“
وفا مدھم لہجے میں اسے دیکھتے ہوۓ بولی۔
” اوکے۔“
ایان نے سنجیدگی سے کہا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
” چلو تمہیں ڈراپ کردوں۔“
ایان نے حکمیہ لہجے میں کہا تو وہ ناچار بیٹھ گٸ۔
گاڑی خوبصورت آٸس بار کے سامنے جا رکی۔
” تم میرے لیے کافی پی سکتی ہو تو، میں بھی تمہاری پسند کی آٸس کریم کھا سکتا ہوں۔“
ایان اسے مسکراتی نظروں سے دیکھتا گاڑی سے نکل آیا، وفا کو اسکی تقلید کرنی پڑی۔
” کبھی جو یہ شخص اگلے کی مرضی پوچھنا گوارہ کے۔“
وفا اسکے ساتھ چلتی ہوٸی اندر آگٸ، ایان الگ تھلگ ٹیبل پر جا بیٹھا۔
” اب بولو کونسا فلیور پسند ہے۔“
ایان خوشگوار موڈ میں آگیا تھا، وفا کبھی اسکے موڈ کو سمجھ نہیں پاٸی تھی۔
” میری بھی کوٸی پسند ہے۔“
وفا نے حیرانگی سے خود سے سوال کیا اور ایان کی طرف دیکھا، جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
” کوٸی بھی۔“
وفا نے کندھے اچکاتے ہوۓ کہا۔
” آج سلیکٹ کرلو، فیورٹ فلیور۔“
ایان نے مینو بک میں موجود سارے فلیور منگوا لیے، ٹیبل آٸس کپ سے بھر گیا تھا۔
”Vegan, Ben, jerry, oatly, magnum, cocobliss, Nadamoo, sorbabes , hageen dazs these are famous in canada“
ایان نے نام بتاۓ ،وفا نے حیران نظروں سے اسے دیکھا، وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاۓ بازو سینے پر باندھے مسکرا رہا تھا، اسکی سنجیدگی کا خول چٹخنے لگا تھا شاید۔۔۔۔۔
”میری طرف سے چھوٹی سی پارٹی ہے، میں نے بزنس سٹارٹ کیا ہے، اسکی خوشی میں۔“
ایان بازو کھول کر سیدھا ہو کربیٹھا اور چمچ اسکی طرف بڑھایا۔
” ٹیسٹ کرو، جو بیسٹ لگے وہ تمہارا فیورٹ ہو گا۔“
ایان نے چمچ سنبھالا اور ایک کپ اپنے قریب کیا۔
” یہ ٹراۓ کرو۔“
وہ ایان کی تقلید میں ٹیسٹ کرنے لگی، وہ جب بھی چمچ منہ میں ڈالتی، ایان ابرو کے اشارے سے پوچھتا کیسی لگی، وہ سر ہلا دیتی۔
باری باری سارے کپ ٹیسٹ کرےکے بعد وفا نے ویگن کو سلیکٹ کیا۔
” رٸیلی۔“
ایان نے دایاں ابرو اٹھاکے اسے دیکھا۔
وفا نے دوسرا چمچ لیتے ہوۓ سراثبات میں ہلایا۔
” می ٹو۔“
ایان مسکرایا تھا، وفا اسکے دھوپ چھاٶں کے سے مزاج پر مسکرا کر رہ گٸ۔
آٸس کریم کھانے کے بعد وہ وہاں سے نکل آٸے۔
” یو آر دا ون، آٸی فیلٹ پیس فل۔“
You are the one I felt peacefull
ایان نرم لہجے میں بول رہا تھا۔
وفا نے حیرت سے اسے دیکھا۔
” کیوں۔؟“
وفا اسے دیکھتے ہوۓ ہاتھ سینے پر باندھ کر بولی۔
” یو آر سمیلر ٹو سچ دیٹ گاۓ آٸی وانٹ ٹو میری مے بی اٹس دا ریزن۔“
you are similare to such that guy i want to marry , may be its the reason.
ایان کندھے اچکاتے ہوۓ بولا۔
وفا نے رخ موڑ لیا، اسکی نظر عینا اور عناٸیہ پر پڑی تو اس نے ایان کی طرف دیکھا۔
” عینا۔“
وفا نے ایان کا رخ ادھر موڑا۔
ایان کا خوشگوار موڈ پل میں بدلا، اس نے بڑھ کے وفا کے لیے گاڑی کادروازہ کھول دیا۔
وفا بیٹھ گٸ تھی، عینا سلگھ کے رہ گٸ۔
ایان گھوم کے ڈراٸیونگ سیٹ کی طرف بڑھا اور گاڑی زن سے بھگا لی۔
” دیکھا تم نے۔“
عینا کڑھ کر بولی تھی، عناٸیہ نےکندھے اچکا دیے، گویا میں کیا کر سکتی ہوں۔
” اب جب بھی جیمز کے آفس میں جانا ہو مجھے کال کر دینا۔“
ایان اسے اپارٹمنٹ کے گیٹ پر اتارتے ہوٸے بولا۔
” ٹھیک ہے۔“۔
وفا نے سر اثبات میں ہلایا۔
” مسکرانے میں قباحت نہیں ہے۔“
ایان نے کہتے ہوۓ کلچ چھوڑا اورایکسلیٹر پر دباٶ بڑھا دیا۔
وفا نے حیرانگی سے دور ہوتی گاڑی ک دیکھا، آج اس تیکھے مزاج والے انسان نے اسے پل پل حیران کیا تھا۔
” لٹس سی، زندگی کہاں لے جاتی ہے۔“
وفا مسکراتے ہوٸے اندر چلی آٸی، اس نے خود زندگی کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایان دن رات محنت کرنے لگا تھا، اس نے منی رسٹ واچ موباٸل فون کے لیے واٸس ڈسکریپشن ماٸکروفون سافٹ وٸیر بنایا، جس سے کسی بھی منی فون کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔
” ایان ملک، آر یو شیور، اٹ ورکس۔“
ولیم ایڈورڈ نے اسے انہماک سے کام کرتے دیکھ کر بولا۔
” ییس ایم شیور۔“
ایان پورے یقین سے بولا۔
ولیم ایڈورڈ نے مسکرا کر اسے دیکھا، وہ بہت محنت کر رہا تھا۔
” گاڈ بلیس یو۔“
ولیم چلا گیا۔
ایان دلجمعی سےایک ایک چیز نوٹ کر رہا تھا۔
ناٸک سافٹ وٸیر کمپنی میں اسے کافی تجربہ مل چکا تھا، ایان اسی کو بروٸے کار لا رہا تھا۔
اسے اپنی محنت پر پورا یقین تھا۔
رات گٸے وہ گھر لوٹا تو اکاش ملک ہال میں صوفے پر بیٹھے تھے، ایان سلام کرتا ہوا گرنے کے انداز میں بیٹھا، تھکن اسکے چہرے سے عیاں تھی۔
” مام سو گٸیں ڈیڈ ۔؟“
ایان نارمل لہجے میں بولا۔
” ہاں۔۔۔۔“
اکاش ملک لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف تھے۔
ایان کوٹ صوفے پر ڈالی، ٹاٸی اتار کر کچن کی طرف بڑھا، اسے زوروں کی بھوک لگ ہی تھی۔
اکاش ملک نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور پھر اپنے کام میں مگن ہو گٸے۔
فریج میں فروٹس، جوس ، سبزیاں اور دودھ پڑا تھا، کچھ بھی کھانے کو نہیں تھا، وہ منہ بناتا واپس آ گیا، صوفے سے ٹاٸی اور کوٹ اٹھا کر کمرے کی طرف بڑھا۔
” بیوی لے آٶ تو کم ازکم بھوکا تو نا سونا پڑے۔“
اکاش ملک نے کہا تو اسکے قدم رک گٸے وہ پلٹا اور انکی پشت کو گھورتا ہوا واپس کمرے میں چلا آیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...