ایاد نے اپنا بزنس سیٹ کر لیا تھا اب وہ بےحد مصروف ہو گیا تھا مگر وہ اُسے نہیں بھلا سکا تھا وہ اب بھی اس کی تلاش میں تھا مگر وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئی تھی ـ پہلی بار تو وہ خود کسی لڑکی کی طرف متوجہ ہوا تھا مگر وہ اسے مل نہیں رہی تھی وہ ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ اس کا سیل فون بج اٹھا اس نے نمبر دیکھ کر فون کان سے لگا لیا ” ہاں حمزہ بولو “حمزہ اس کا بہت اچھا دوست تھا ” خبر پکی یے نا ؟؟”دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا گیا اس نے تیزی سے کال کاٹ کر فون جیب میں ڈالااور باہر نکل گیاـ
★★★★★★★★
“مؤحد بیٹا بات سنو”صوفیہ بیگم نے کمرے سے نکلتے مؤحد کو بلایا
“جی مما”وہ ان کے پاس آکر بیٹھ گیا
“سلطانہ بھابھی ایک ماہ کے اندر شادی کرنا چاہتی ہیں یہ سب اتنی جلدی کیسے ہو گا ؟؟”
“کچھ نہیں ہوتا مما شادی تو کرنی ہے نا آپ پریشان نہ ہوں اور ڈیٹ فکس کر دیں سب اچھا ہو گا انشاءاللہ ”
“انشاءاللہ ـ تم نے اپنے بارے میں کیا سوچا ؟؟”
“کیا مطلب؟؟”
“کب ارادہ ہے تمہارا شادی کا ؟؟”
“میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا” وہ نظریں چرا گیا
“کب سے یہی سن رہی ہوں کب تک بہانے بناتے رہو گے ؟ اس بے وفا کو بھلا کر اب نئی زندگی شروع کرو ”
“وہ بے وفا نہیں ہے مما ”
” خیر جو بھی ہے میں چاہتی ہوں کہ انعم کے ولیمے پر تمہارا اور غانیہ کا نکاح ہو جائے ” انہوں نے بڑے آرام سے بم پھوڑا
“کیا کہہ رہی ہیں آپ مما ؟؟میں اس سے شادی کیسے کر سکتا ہوں ؟؟وہ بہت چھوٹی ہے مجھ سے اور وہ اسد ـ ـ ”
“نہیں میں نہیں چاہتی اسکی شادی اسد سےہو میمونہ بیگم کا رویہ مجھے بالکل پسند نہیں جو ہوا اسے بھول جاؤ غانیہ اتنی بُری نہیں جتنا اسے بنایا گیا تم اچھی طرح سوچ لو پھر جواب دینا “یہ کہہ کر وہ کمرے میں چلی گئیں اور وہ جہاں تھاوہیں بیٹھا رہ گیا
★★★★★★★★
وہ صوفے پر بیٹھی تھی جب تارا بیگم اندر داخل ہوئیں اس نے ایک نظر اٹھا کر دیکھا اور پھر رخ پھیر لیا
” کیا سوچا ہے تم نے ؟؟” اس نے کوئی جواب نہ دیا “دیکھو لڑکی جتنا وقت تمہیں ہم دے سکتے تھے دے چکے اب تمہیں کام کرنا ہے ”
“کام ” اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا
“ہاں کام جو ہم کرتےہیں ”
“بھول ہے تمہاری میں کبھی تمہاری بات مانوں گی سمجھی ” مزنہ غرٙا کر بولی
“سیدھی طرح مان جاؤ گی تو تمہارا ہی فائدہ ہے ورنہ ہمیں منانا آتا ہے ”
“کر لوجو کرنا ہے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردو گی تو نہیں مانوں گی ”
“دیکھتی ہوں کیسے نہیں مانتی “وہ اس پر ایک تیز نظر ڈال کر چلی گئی ـ مزنہ نے کرب سے آنکھیں موند لیں اب تو اسے رونا بھی نہیں آتا تھا رو رو کر آنکھیں خشک ہو چکی تھیں
★★★★★★★
دونوں طرف سے شادیوں کی تیاریاں عروج پر تھیں سلطانہ بیگم کی خواہش کے مطابق ایک ماہ بعد کی تاریخ رکھی گئی تھی وہ چاہتی تھیں کہ اس خوشی کے موقع پر ان کے بھائی شیر علی بھی موجود ہوں سلطان مہراب کر اجازت سے وہ آج اپنے میکے آئیں تھیں انہیں یقین تھا کہ وہ مان جائیں گے مگیر وہ تو دنگ رہ گئیں جب انہوں نے کھڑے کھڑے ہر رشتہ ختم کر دیا
“بھائی جان اس میں میرا کیا قصور ہے میں نے تو پوری کوشش کی تھی فرجاد کو روکنے کی مگر آپ تو جانتے ہیں وہ کون سا میرا سگا بیٹا یے جو میری مانتا ” وہ روہانسی ہو کر بولیں
” تو تمہیں کس نے کہا تھا کہ تم ثمانہ کی شادی فرجاد سے ہی کرو عباد اور فرہاد سے بھی تو کر سکتی تھی ـ تمہیں کیا لگتا ہے جنہوں نے میری بیٹی کی زندگی میں اندھیرے لکھ دیئے ہیں میں انکی خوشی میں آؤں گا خام خیالی ہے تمہاری ـ قطعاً نہیں چلی جاؤ یہاں سے اور بتا دینا مہراب کو میں بدلہ لے کر رہوں گا “وہ نخوت بھرے انداز میں انکی حیثیت بتا رہے تھے اتنی عزت افزائی پروہ چپ چاپ واپس آ گئیں
★★★★★★★
مؤحدسے بات کر کے وہ قدرے مطمئن تھیں انہیں یقین تھا وہ ضرور مان جائے گا وہ غانیہ سے بھی بات کرنا چاہتی تھیں مگر یہ سوچ کر خاموش ہو گئیں کہ پہلے مؤ حد کی رضامندی معلوم ہو جائے ـ مؤحد کی گاڑی کا ہارن بجا تو کمرے سے باہر نکل آئیں وہ آج ہر صورت اس سے بات کرنا چاہتی تھیں وہ لاوٴنج میں آیا تو انہیں بیٹھا دیکھ کر سیدھا ان کے پاس چلا آیا “السلام و علیکم مما خیریت آپ اب تک جاگ رہی ہیں ؟؟” اس نے فکرمندی سے پوچھا
“وعلیکم السلام تم بھی تو اتنے دنوں سے لیٹ گھر آرہے ہو کیا بات ہے کسی چیز سے بھاگ رہے ہو “انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
“ارے نہیں مما بس آفس میں مصروفیت زیادہ تھی ” وہ نظریں چرا کر بولا
“ہمم مان لیتی ہوں ـ تم بتاؤ تم نے کیا سوچا ؟؟”
“کس بارے میں ؟؟؟” وہ انجان بنا
“تم جانتے ہو میں کیا پوچھ رہی ہوں ”
“مما جب آپ فیصلہ کر چکی ہیں تو میرے انکار یا اقرار سے کیا فرق پڑتا ہے آپ جیسا چاہیں کر لیں “وہ بے بسی سے کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا یہ دیکھے بغیر کے اس کے اقراد نے اس کی ماں کو کتنی خوشی دی ہے
★★★★★★★
“غانیہ بیٹا ” صوفیہ بیگم نے انعم سے بات کرتی غانیہ کو پکارا
“جی آنٹی “وہ ان کی طرف پلٹی
” ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو ” وہ اٹھ کر ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی
“لگتا ہے کوئی خاص بات ہے “انعم متجسس ہوئی
“ہاں بہت خاص ” وہ دھیمے سے مسکرائیں
“بیٹا میں نے سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ کیا ہے ”
” کیسا فیصلہ آنٹی ؟؟”
“میں چاہتی ہوں کہ تمہاری اور مؤحد کی شادی ہو جائے میں نے اس سے بات کر لی ہے اسے کوئی اعتراض نہیں ”
“جی ” وہ ہونق بنی ان کا چہرہ دیکھنے لگی
“واو مما واٹ آسرپرائیز آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا “انعم خوشی سے جھوم اٹھی
“کیونکہ میں غانیہ کی مرضی بھی جاننا چاہتی ہوں تم پر کوئی دباؤ نہیں اگر تم ایسا نہیں چاہتی تو بلاجھجھک بتا دو ”
“نہیں آنٹی مجھے کوئی اعتراض نہیں ” وہ ہکلا کر بولی تو صوفیہ بیگم نے اسے گلے لگا لیا اور اس کے سر پر بوسہ دیا “خوش رہو جیتی رہو اللہ تمہیں لمبی عمر دے
مزنہ کسی گہری سوچ میں گم تھی جب ملازمہ کچھ ڈبے لے کر کمرے میں داخل ہوئی اسکے ساتھ ایک اور لڑکی بھی تھی جس کے ہاتھ میں بیگ تھا “میڈم کا آڈر ہے کہ یہ پہن کر تیار ہو جاؤ “اس نے ڈبے بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا وہ خاموش بیٹھی رہی “اسے تیار کر دینا “ملازمہ لڑکی کو کہہ کر بایر نکل گئی
“چلو اٹھو لڑکی “اس نے بازو سے پکڑ کر اٹھانا چاہا
“دفعہ ہو جاؤ یہ سب لے کر نہیں پہنوں گی میں “وہ یکدم سے چیخی
” آہستہ بولو کیوں مرنا چاہتی ہو ” لڑکی نے سرگوشی کے انداز میں کہا
“مرنے دو مجھے تم نکلو یہاں سے ” وہ بپھر کر کھڑی ہوئی اور اسے دھکا دینے لگی پھر پلٹ کر سارے ڈبے کھلے دروازے سے باہر پھینک دئیے ـ چیخ وپکار سن کر میڈم تارا اندر آئی اس کے ساتھ ایک اونچا لمبا جوان مرد تھا ” کیا تماشہ لگا رکھا ہے یہ تم نے اسے تیار نہیں کیا مہمان آتے ہی ہوں گے ” میڈم لڑکی سے مخاطب تھی
“میڈم یہ مان ہی نہیں رہی اور یہ دیکھیں ” اس نے پھیلاوے کی طرف اشارہ کیا
“تمہیں میری زبان سے کہی ہوئی بات سمجھ نہیں آتی “میڈم نے غصے سے اس کے بال پکڑ کر جھٹکا دیا “یہاں مفت میں بٹھا کر کھلانے کو پیسے نہیں دئیےتمہارے بھائی کو ـ اب چپ کر کے تیار ہو جاؤ ورنہ ” وہ انگلی اٹھا کر وارن کرنے کے انداز میں بولیں
“ورنہ کیا کیا کر لو گی نہیں مانوں گی تمہاری بات ”
“ہمم اوکے ” میڈم نے گہرا سانس بھر کے اسے دیکھا اور اس آدمی کو کچھ اشارہ کر کے باہر چلی گئیں مگر کمرے سے باہر آتی چیخیں وہ بخوبی سن سکتی تھیں
★ ★ ★ ★ ★
“افوہ کیا مصیبت ہےایک بات تمہیں سمجھ نہیں آتی کیا” ایاد جھنجھلایا فروا اسکی گرل فرینڈ تھی وہ اسکے بے حد اسرار پر آج اس سے ملنے آیا تھا
” اتنا غصہ کیوں ہو رہے ہو کیا فرق پڑتاہے اگر تم تھوڑی سی میرے ہاتھ سے کھا لو گے ویسے بھی تم نے سنا نہیں مل کر کھانے سے پیار بڑھتا ہے” فروا اسکے بازو سے لگ کر کھڑی ہو گئی اور آئیسکریم اسکے منہ کی طرف بڑھائی” جسٹ شٹ اپ” اسکی حرت نے ایاد کو غصہ دلادیا” دور کھڑی ہو کر بات کرو”
“ہاہا …افوہ… بہت غصہ کرنے لگے ہو کوئی بات نہیں ایسے بھی اچھے لگتے ہو” وہ بڑی ادا سے مسکراﺉ ایاد نے تنگ آکر اسے بازو سے پکڑ کر دور دھکیلا اور آئسکریم اسکے منہ پر پھنک دی وہ بروقت پیچھے ہوئی آئیسکریم اسکی بجائے پیچھے سے گزرتے موحد پر پڑی اور اسکے بلیک کوٹ کو داغدار کرگئی فروا اسے دیکھ کر ہنسنے لگی اسکی ہنسی نے موحد کو آگ لگا دی اس سے پہلے کہ ایاد اس سے سوری کرتا وہ چند قدم چل کر آگے آیااور غصے سے بولا “کم از کم کچھ مینرز سیکھ لو تم لوگ سڑک پر کھڑے ہو کر اس طرح کی چھچھوری حرکتیں تم جیسوں کا شیوہ ہوں گی مگر یہ شرافت کے زمرے میں ہرگز نہیں آتیں بجاے اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کہ تم لوگ مزاق اڑا رہے ہو”
” انف مسڑ ” ایاد نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا “مانا غلطی ہے میری مگر یہ لینگوج بھی کم ازکم کسی شریف انسان کی ہرگز نہیں” ایاد نے تنفر سے سر جھٹکا اور تیز نظروں سے اسے گھورتا وہاں سے چلا گیا
★ ★ ★ ★ ★ ★
“دیکھو اب بھیا کے سامنے کم کم جانا اور بولنا تو بالکل کم شوہروں کے سامنے کم بولتے ہیں بس جی جی کرتے ہیں اچھا ” انعم نے غانیہ کو نصیحت کی
“ہمم ٹھیک ہے “اس نے تابعداری سے سر ہلایا انعم کو اس پر بے اختیار پیار آیا “میری پیاری بھابھی ” انعم نے ا س کا گال چوما
“بد تمیز میں تمہاری بھابھی نہیں ہوں “وہ برا مان گئی
“ہاہاہا بن تو جاؤ گی نا ” غانیہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ سامنے سے آتے مؤ حد کو دیکھ کر چپ کر گئی “بھیا آرہے ہیں “انعم نے سرگوشی کی وہ ان دونوں پر ایک نظر ڈالتا اوپر چلا گیا
“کیا ہوا اتنی رونی صورت کیوں بنا لی ؟؟”
“تم نے دیکھا نہیں وہ کتنے غصے سے مجھے دیکھتے ہیں عباد بھیا تو ہر روز تم سے کال پر اتنی بات کرتے ہیں اور یہ ” وہ روہانسی ہو کر بولی
“ارے ارے بھائی کا مزاج ہی ایسا ہے دیکھنا شادی کے بعد ٹھیک ہو جائیں گے چلو شاپنگ پر چلتے ہیں تمہاری بھی تو شاپنگ کرنی ہے ” وہ اس کا دھیان بٹانے کے لیے بات ہی بدل گئی اور کامیاب بھی ہو گئی کیونکہ غانیہ اب کپڑوں کی بات کرنے لگی تھی
★ ★ ★ ★ ★
“میں آج شام کو وہاں جاوں گا” ایاد نے چائے کاسپ لیتے ہوئے کہا
” بہت محتاط ہوکر یہ لوگ بہت تیز ہیں ” حمزہ فکرمندی سے بولا
“یوڈونٹ وری پہنچ تو میں وہاں جاوں گا مگر پریشانی یہ ہے کی اگر مزنہ بھابھی وہاں نہ ہوئیں تواور یا پھر اگر میری ملاقات مزنہ بھابھی سے نہ ہو سکی تو کیا ہوگا ” وہ متفکر انداز میں بولا
“یہ خبر تو بالکل پکی ہے کہ جو نئی لڑکی وہاں آئی ہے وہ مزنہ بھابھی ہی ہیں ولید بخاری خود چھوڑنے گیا ہے وہاں ” حمزہ نے اسے یقین دلایا
“ہمممممم ” وہ کسی گہری سوچ میں گم بولا
“تم کہو تو میں بھی چلوں تمہارے ساتھ ” حمزہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ پوچھا
“نہیں ابھی میں اکیلا ہی جاوں گا ” وہ کھڑا ہوتے ہوئے بولا
“تم ایک بار بھابھی کو نکال لو ہوہاں سے پھر ہم ان پر آسانی سے ہاتھ ڈال سکیں گے ” حمزہ بھی اسکے ساتھ ہی صوفے سے اٹھا
“ہوں ٹھیک ہے میں اب چلتا ہوں پھر ملاقات ہوگی” ایاد نے گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا ” اوکے فی امان اللہ”
“اللہ حافظ” وہ مصافحہ کر کے باہر چل دیا
. ★ ★ ★ ★ ★
شادی کا دن سر پر آ پہنچا تھا آج مہندی کا فنکشن تھا حویلی کے رواج کے مطابق شیزہ اور انعم کو سخت پردہ کروایا گیا تھا انعم تو خاموشی سے مان گئی تھی مگر شیزہ نے خوب واویلا کیا تھا لیکن میمونہ بیگم کی ڈانٹ پر اسے چپ کرنا پڑا تھا عباد بار بار ایاد کا نمبرڈائل کر رہا تھا جوکہ بند آرہا تھا “کہاں چلا گیا یہ ” وہ غصے سے بڑبڑایا ایسی بھی کیا مصروفیت بھلا کی بندہ اتنے اہم موقع پرغائب ہو جائے دوسری طرف شیزہ اندر ہی اندرپیچ وتاب کھا رہی تھی وہ اپنے ساتھ بیٹھے ایادکو دیکھنا چاہ رہی تھی جو اتنے بڑے گھونگھٹ کی وجہ سے ناممکن تھا” ہونہہ ویسے تو بہت ماڈرن بنتی ہیں سلطانہ بہگم اور رواج اتنے دقیانوسی “اسنے کڑھ کر سوچا مگر اس سب سے بے خبر سلطانہ بیگم بہت خوش تھیں وہ سارے ارمان پورے کر رہی تھیں وہ ہر چیز پرفیکٹ چاہتی تھیں وہ کسی کو بات کرنے کا موقع دینا نہیں چاہتی تھیں مگر وہ نہیں جانتیں تھیں کہ آگے انکے ساتھ کیا ہونے والا تھا
★ ★ ★ ★ ★
ہیل کی ٹک ٹک کی آواز پر اسنے سر اٹھا کر دیکھا ایک درمیانی عمر کی بے انتہا فیشن ایبل عورت باریک نیٹ کی بلیک اینڈ گولڈن ساڑھی میں ملبوس بڑی ادا سے چلتی ہوئی اسکے سامنے والے صوفے پر آکربیٹھ گئی “معزرت جناب آپکو ہماری وجہ سے اتنا انتظار کرنا پڑا” وہ پیششہ وارانہ انداز میں مسکرائی وہ دل ہی دل میں ہنسا ” کیا نام ہے آپکا ”
“ہمیں ایادکہتے ہیں” اسنے گردن اکڑا کر بتایا
“بہت خوبصورت نام ہے بالکل آپکی طرح’ وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولی
“پتا نہیں اور کتنا انڑویو لے گی” وہ اسکے یوں دیکھنے پر کوفت کا شکار ہوا وہ اس وقت میڈم تارا کے بڑے سے بنگلے کے خوبصورت سے ڈرائینگ روم میں خالد کےساتھ بیٹھا تھا خالد کے ساتھ اسکے کاروباری مراسم تھے وہ میڈم تارا کا خاص بندہ تھا ایاد بھی اسی کے توسط سے یہاں موجود تھا
“اور کتنا انتظار کراو گے یار” وہ خالد کی طرف جھک کر بولا مگر آواز اتنی ضرور تھی کی میڈم تک پہنچ جاتی “ہاں ہاں کیوں نہیں مگر پہلے اگر رقم کی بات ہو جاتی تو ،،،، “میڈم نے بات ادھوری چھوڑ دی
” فکر مت کریں مال میری مرضی کا اور قیمت آپکی مرضی کی ” اسنےدل ہی دل میں اپنی اداکاری کو داد دی اس بات پر تو میڈم تارا نہال ہی ہو گئیں
“کیوں نہیں میں ابھی آپکی خدمت میں حاضر کرتی ہوں جو پسند ہوں منتخب کر لیجے گا “وہ اندر کی طرف بڑھ گئی کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کے ساتھ اندر داخل ہوئی
وہ عجیب و غریب حلیے والی دونوں لڑکیاں آکر اسکے دائیں بائیں بیٹھ گئییں وہ بے چین ہو اٹہا اگر مزنہ بھابھی یہاں نہیں تو پھر کہاں گئیں اسکی بے چینی تارا بیگم کی تیز نظروں سے مخفی نہ رہ سکی
” لگتا ہے آپکو مال پسند نہیں آیا” تارا بیگم نے کھوجتی نظروں سے اسے دیکھا اسنے کچھ دیرسوچا پھر گلا کھنکار کر بولا “جی ہاں معزرت کے ساتھ مگر میرا ٹیسٹ ہرگز ایسا نہیں “اسنے منہ کے عجیب و غریب زاویئے بناے
” ناراض کیوں ہوتے ہیں جناب ایک اور تحفہ بھی ہے ہمارے پاس مگر وہ ذرا موڈی ہے” وہ لگاوٹ سے بولی
” تو پھر دیرکس بات کی میڈم بلائیں نہ اس حسینا کو” خالد نے آنکھ سے کوئی اشارہ کیا
” جاؤ ٹینا بلا کر لاو اسے “میڈم نے ایک لڑکی کو اٹھایا دوسری لڑکی ایاد کو عجیب نظروں سے گھور رہی تھی کچھ ہی دیر بعد وہ لڑکی مزنہ کو لیے اندر آئی وہ ریڈ کلر کے سٹائلش سوٹ میں تھی ڈوپٹہ اچھی طرح پھیلا کر خود کو ڈھانپا ہوا تھا چہرے پر گہرا میک اپ چہرے کے نیلوں کو مٹانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا وہ تیزی سے کھڑا ہوا”واؤ” اسنےستائشی انداز میں کہا ایاد کی آواز پر مزنہ نے دھیرے سے سر اٹھایا اور ساکت ہو گئی ایاد کو معلوم تھا کہ وہ یونہی ری ایکٹ کرے گی اسلیۓ خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور تارا بیگم کی طرف مڑا وہ جانتا تھا اب آگے اُسے کیا کرنا ہے
★ ★ ★ ★ ★
اگلے دن وہ صبح صبح حویلی پہنچا تو اس کا سب سے پہلا سامنا سلطان فرجاد سے ہوا وہ دیکھتے ہی اس کی طرف آۓ”کہاں تھے تم کل سے ؟؟ فون بھی بند تھا تمہارا ؟؟”
ایاد کو ان کا غصہ کرنا اچھا لگا ” بھیا وہ میں رات مصروف تھا ” وہ شرارت سے ان کے گلے لگتےہوئے بولا
” زرا ہٹو اور بتاؤ کہاں مصروف تھے ؟؟” وہ اسے الگ کرتے ہوئے بولے اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب دیتا عباد درمیان میں بول پڑا “کہاں تھے تم ؟؟تمہیں پتا ہے کل میرا مہندی کا فنکشن تھا پھر بھی غائب رہے ”
“افوہ اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں آپ لوگ آتو گیا ہوں نا اور آپ کی شادی ہے آج آپ جائیں تیاری کریں صبح صبح موڈ خراب کر لیں گے تو بھابھی کو یہ کریلے جیسا سڑا ہوا منہ دیکھنا پڑے گا ” یہ کہہ کر وہ تیزی سے اوپر بھاگ گیا”ٹھرو ذرا” عباد اسکے پیچھے لپکا مگر وہ دروازہ بند کر چکا تھا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...