ایاد اسے لے کر حمزہ کے فلیٹ پر آگیا وہ دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا مگر خوبصورت فلیٹ تھا غانیہ فلیٹ کا جائزہ لینے میں مصروف تھی جب اس نے کمرے سے دو لڑکیاں نکلتی دکھایں
“یہ کون ہیں دونوں “اسنےپلٹ کر ایاد سے پوچھا
“میری گرل فرینڈز ” وہ بے نیازی سے بولا
“کیا” صدمے سے اسکی آنکھیں پھٹ گئیں” تم یہان ان کے ساتھ اکیلے رہتے ہو ”
“ہاں تو” اسنے کندھے اچکاے
“بے شرم انسان مجھے کیوں لے آۓپھر ”
“گرل فرینڈ بنانے” اسنے اسے مزید ستایا
“تم “وہ غصے سے پلٹی اور سائیڈ سے پڑا گلدان اٹھا کر اسے دے مارا وہ تیزی سے پیچھے ہوا
“تمہیں تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گی”
اسنے چیزیں اٹھا اٹھا کر اسے مارنا شروع کردیں وہ دونوں حیران پریشان کھڑی تھیں
“اف کیا کر رہی یہ …پاگل ….چھوڑو ….بات سنو” مگر اس پر کسی چیز کا اثر نہیں ہورہاتھا” وہ دیکھو تمہارے پیچھے سانپ ” ایاد نے اسکے پیچھے اشارہ کیا
وہ چیختی ہہوئی بھاگ کر صوفے پر گئی
“کہاں ..کہاں “وہ ایک ہی جست میں اس تک پہنچا اور اسے بازو سے پکڑ کر نیچے اتارا
“بھابھی اسے سنبھالیں اور اسے تیار کر دیں ابھی ہمارا نکاح ہو گا ”
“یہ کیا کہہ رہے ہو تم ایاد “مزنہ حیران ہوئی
“میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گا “اسنے اشارے سے کچھ سمجھایا
“کیوں.. کیوں میں کیوں کروں تم سے شادی “غنی مچلی
“تمییں تو تفصیل سے سمجھاوں گا “معنی خیزی سے کہا گیا
“نہیں نہیں “وہ انکار میں سر ہلانے لگی
“تو کیا تم اس کھڑوس سے کروگی شادی کچا کھا جاے گا تمہیں اور دیکھ لیا ہے میں نے کسکو کتنا پیار ہے تم سے کسی کو پرواہ نہیں ہے تمہاری “اسنے حقیقت بیان کی
غانیہ پھر کچھ نہ بولی وہ ٹھیک ہی تو کہہہ رہا تھاکوئی وہاں اس سے پیار نہیں کرتا تھا اور پھر اسنے خاموشی سے نکاح نامے پر سائن کر دیۓ تھے
★★★★★★
“شیزہ جلدی سے تیار ہو جا ؤ نکاح خواں آتے ہی ہوں گے” میمونہ بیگم کمرے میں آکر بولیں
“آپ کو ایک بار کی بات سمجھ نہیں آتی نہیں کرنی مجھے مؤ حد سےشادی” اسنے بدتمیزی سے کہا
“کیوں نہیں کرنی اگر اس سے نہیں کرنی تو پھر کس سے کرنی ہے خدا کا واسطہ ہے شیزہ مجھے اور ذلیل مت کرو” وہ بے بسی سے بولیں وہ جانتی تھیں اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے
“میں ذلیل کر رہی ہوں آپ کو ..نہیں مما …ذلیل تو سلطانہ بیگم نے کروا دیا ..ایک بیٹا نہیں قابو آسکا ان سے اور غانیہ اس کو تو میں ایسا سبق سیکھاؤں گی یاد رکھے گی “اسکے لہجے میں نفرت پی نفرت تھی
“جو بھی ہے اب تمہاری شادی مؤحد سے ہو گی اور آج ہی ہو گی سمجھی” اور پھر میمونہ بیگم نے کچھ پیار اور کچھ سختی سے نکاح نامے پر دستخط کروا ہی لیے تھے مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کی بیٹی کے دماغ میں کیا چل ریا ہے
★★★★★
“پھر کیا سوچا بھابھی آپ نے “ایاد مزنہ کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا
“کس بارےمیں” وہ چونکی
“گھر واپس جانے کے ”
“ابھی میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی ہوں سمجھ نہیں آرہی کیا کروں میں فرجاد ،،،،” اسنے بات ادھوری چھوڑ دی
“اففف بھابھی آپ یقین کریں بھیا بہت بدل گئے ہیں آپ ایک بار چلیں تو سہی… “اس کے لہجے میں التجا تھی اپنے عزیزبھائی کی یہ حالت اس سے دیکھی نہ جاتی تھی وہ اس ہی دن مزنہ کو تارا بیگم کے اڈے سے نکال لایا تھا مگر مزنہ کےبے حد اسرار پر اسے گھر کی بجاے فلیٹ پر لے آیا تھا
“ابھی نہیں پلیز مجھے کچھ وقت دو” مزنہ کے جواب پر وہ خاموش ہو گیا
“ٹھیک ہے جیسے آپکی مرضی آپ اچھی طرح سوچ سمجھ لیں پھر فیصلہ کیجئے گا غانیہ کہاں ہے” اسے اچانک غانیہ کا خیال آیا
“وہ کمرے میں ہے…. بہت معصوم لڑکی ہےحبتوں کی ترسی ہوئی کبھی اکیلے مت چھوڑنا اسے ٹوٹ جائے گی وہ” اس کے لہجے میں دکھ بول رہا تھا جسے سمجھ کے ایاد نے اثبات میں سر ہلایا اور اٹھ کر کمرے میں چلا گیا
★★★★★★
وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا شیزہ کو اپنا منتظر پایا وہ کمرے میں ٹہل کر اس کا انتظار کر رہی تھی اسے دیکھتے ہی اس کی طرف آئی
“تم نے انکار کیوں نہیں کیا اتنے آرام سے مان کیوں گے” اس نے غصے سے کر پوچھا
“ہونہہ اس خوش فہمی میں مت رہو کہ میں نے تمہاری محبت میں یہ سب کیا اب میں اتنا خود غرض بھی نہیں ہوں کہ باپ کے بندھے ہاتھ جھٹک دوں ورنہ تم جیسی لڑکی میرا آئیڈل کبھی نہ تھی “موحد نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا اور واش روم میں گھس گیا وہ تلملا کر رہ گئی
★★★★★★
ایاد رات بھر گھر نہیں آیا تھا اور فرہاد کا کچھ پتا نہیں تھا اس واقعے کے بعد عباد کے ولیمے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے سب اس وقت لاوٴنج میں موجود تھے سلطان صاحب بے حد پریشان تھے عباد اور فرجاد بھی سر جھکاۓ کسی سوچ میں گم تھے
“کچھ معلوم ہوا ایاد اور فرہاد کا” سلطانہ بیگم نے لاوٴنج میں قدم رکھتے ہوئے پوچھا عباد کے نفی میں سر ہلانے پر ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا
“ملاؤ فون ایاد کو گھر بلاؤ اور کہو چھوڑ کر آۓ اس حرافہ کو ہم ایسی بدکردار لڑکی کو کبھی اپنی بہو تسلیم نہیں کریں گے” انعم نے چونک کر اپنی ساس کو دیکھا شکل و صورت سے خوبصورت نظر آنے والی عورت کی سوچ کتنی بد صورت تھی” اس میں غنی کا کیا قصور ہے آنٹی” اس نے غانیہ کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا اسے غانیہ کے لیے ایسے الفاظ بہت برے لگے تھے
“کیوں اس کاقصور کیوں نہیں ہے ایسے ہی تو ایاد نے اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا لیا کچھ نہ کچھ ہاتھ اس کا بھی ہے” وہ نخوت سے بولیں اسی لمحے ایاد غانیہ کے ساتھ لاوٴنج میں داخل ہوا سلطانہ بیگم کی چونکہ اس کی طرف پشت تھی اس لیے وہ اسے نہیں دیکھ سکیں ایاد نے انکی تمام باتیں سن لی تھیں
بھابھی صحیح کہہ رہی ہیں اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے” ایاد کی آواز پر سب نے چونک کر اسے دیکھا سلطان مہراب اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھے اور ایک زوردار تھپڑ اس کے گال پر مارا فرجاد تڑپ کر آگے آیا” بابا پلیز ”
“مت روکو مجھے اتنا کچھ کر کے بھی کس قدر ڈھٹائی سے کھڑا ہے عزت خاک میں ملا دی اس نے ”
وہ چیخ کر بولے تو وہ ان سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بولا “کون سی عزت کیسی عزت آپ لوگوں کی عزت تب کہاں تھی جب مزنہ بھابھی اس گھر سے گئیں تھیں وہ آپ لوگوں کی عزت نہیں تھیں ان کے لیے تو کوئی نہیں تڑپا کسی نے آواز نہیں اٹھائی کہاں ہوں گی وہ کبھی سوچا آپ نے تو پھر اب کیوں عزت یاد آنے لگی” اسنے انہیں آئینہ دکھایا
سلطانہ بیگم نے معاملہ گرم دیکھا تو آگے بڑھیں
“اس کو کیوں لے آۓ ہو “انہوں نے ڈری سہمی غانیہ کو حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا واپس چھوڑ کر آؤ اس گند کی پوٹلی کو میں اس گھھر میں اسے قطعاً برداشت نہیں کر سکتی …”
“آئم سوری مما مگر یہ ناممکن ہے یہ بیوی ہے میری نکاح کیا میں نے اس سے ” وہ حتمی لہجے میں بولا
“تو کیا ہوا طلاق دے دو اس جیسی لڑکیاں گھر بسا نے کے قابل نہیں ہوتیں مزنہ کو ہی دیکھ لو بھاگ گئی کسی کے ساتھ “اب کے ان کا لہجہ نرم تھا فرجاد کو لگا وقت پیچھے چلا گیا ہو غانیہ کی جگی مزنہ اور ایاد کی جگہ فرجاد کھڑا ہو مگر فرق اتنا تھا کہ غانیہ کے لیےایاد مضبوط چٹان ثابت ہورہا تھا اور فرجاد نے مزنہ کو خود دوذخ میں دھکیل دیا تھا وہ مضبوط قدم اٹھاتا سلطانہ بیگم کے سامنے جا کھڑا ہوا اور اپنے مخصوص ٹھوس لہجے میں بولا
“آج تو آپ نے مزنہ کے بارے میں یہ سب کہہ دیا آج کے بعد اگر آپ نے ایسا ویسا کچھ کہا تا میں بھول جاؤ ں گا کہ میرا آپ سے کیا رشتہ ہے” اس نے آج تک براہ راست سلطانہ بیگم سے بات نہ کی تھی اور آج وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا ان کی زبان تالو سے چپک گئی
“جاؤ غانیہ کو کمرے میں لے جاؤ یہ اب عزت ہے تمہاری اگر اس کے ساتھ اس گھر میں کسی قسم کوئی زیادتی ہوئی تو اس کے زمہ دار تم ہو گے” انگلی اٹھا کر ایاد کو وارن کرتاوہ اپنے کمرے میں چلا گیا
کمرے میں آکر وہ صوفے پر ڈھے گیا ایک ایک زخم پھر سے ہرا ہو گیا تھا” پلیز لوٹ آؤ مزنہ واپس آ جاؤ دیکھو کتنا بکھرگیا ہوں تمہارے بغیر اس سے پہلے تمہاری جدائی مجھے ختم کر دے لوٹ آؤ” اب وہ بے آواز رو رہا تھا
زندگی پر کتاب لکھوں گا
اس میں سارے حساب لکھوں گا
پیار کو وقت گزاری لکھ کر
چاہتوں کو عزاب لکھوں گا
ہوئی برباد محبت کیسے
کیسے بکھرے ہیں خواب لکھوں گا
اپنی خواہش کا تزکرہ کر کے
اسکا چہرہ گلاب لکھوں گا
میں اس سےجدائی کا سبب
اپنی قسمت خراب لکھوں گا
★★★★★★
“دیکھا تم نے سب کتنا غلط کہہ رہے تھے مجھے یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا” غانیہ نے کمرے میں آتے ہی شکوہ کیا وہ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا “پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے گا ”
“کیسے ٹھیک ہو گا سب مجھے پتا ہے کچھ ٹھیک نہیں ہو گا ” اسنے رخ موڑ لیا
“افوہ میں ہوں نا تمہارے ساتھ میرے ہوتے کیا ٹینشن ریلکس رہو بس مما سے دور رہنا…. اچھا ”
غانیہ نے نات سمجھ کر اچھے بچوں کی طرح سر ہلا دیا اسنےمسکرا کر اسے خود سے لگا لیا
★★★★★★
وقت کا کام ہے گزرنا اچھا ہو یا برا گزر ہی جاتاہے مؤحد نے بھی شادی کے بعد خود کو بہت مصروف کر لیا تھا وہ رات گۓ گھر آتا تھا مما کی زبانی اسے معلوم ہوا تھا کہ شیزہ سارا دن اپنی ممی کے گھر گزارتی ہے اس نے بھی خاص نوٹس نہ لیا وہ خود بھی اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اس دوران انعم اور عباد ایک بار آۓ تھے جنہیں دیکھتے ہی شیزہ نے کافی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا وہ بدلحاظ اور منہ پھٹ ہو گئی تھی صوفیہ بیگم اور ریحان صاحب سے تو بات ہی نہیں کرتی تھی مؤحد رات گیارہ بجے گھر آیا تو صوفیہ بیگم اور ریحان صاحب کو لاوٴنج میں بیٹھے پایا وہ حیران ہوتا ان کے پاس بیٹھ گیا
“کیا ہوا آپ لوگ اب تک جاگ رہے ہیں ”
“ہاں بیٹا وہ شیزہ ابھی تک گھر نہیں آئی” صوفیہ بیگم نے پریشانی سے بتایا
“اپنی مما کی طرف ہو گی” اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکاۓ” نہیں وہ تو وہاں گئی ہی نہیں “صوفیہ بیگم ہولے سے بولیں” خدانخواستہ کسی مصیبت میں نہ ہو آج کل کے حالات بھی بہت خراب ہیں” اسی لمحے شیزہ لڑکھراتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی صوفیہ بیگم اس کی طرف بڑھیں
“بیٹا کہاں رہ گئی تھی تم اتنی دیر لگا دی ”
“کیوں ـ ـ آپ ـ ـ سے کس ـ ـ نے ـ ـ کہا میری ـ ـ چوکیداری کریں ” وہ لڑکھڑا کر کہتی صوفے پر گر گئی وہ نشے میں تھی اس کی حالت دیکھ کر تینوں نفوس ساکت رہ گۓ
“کیا بکواس بند کرو سیدھی طرح بتاو کہاں سے آرہی ہو” مؤحد غصے سے اسکی طرف بڑھا اور بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا
“کیوں…. کیا ..کہا میں… نے. میں اپنی…. زندگی …..خود جیتی ہوں تم….. لوگ کون…. ہوتے ہو سوال جواب کرنے والے “مؤحد کے تھپڑ نے اس کے حواس بیدار کر دئیے سارا نشہ ہرن ہو گیا
“تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی گھٹیا انسان “وہ چیخی
جسٹ شٹ اپ گیٹ لاسٹ فرام ہیر میں تم جیسی بدکردار لڑکی پر تھوکنا پسند نہیں کرتا” مؤحد کی برداشت جواب دے گئی تھی” بیٹا آرام سے” صوفیہ بیگم نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا
“نہیں مما بہت ہو گیا بس اس سے زیادہ میں برداشت نہیں کر سکتا ”
“میں بھی تم جیسے انسان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی غانیہ جیسی تھڑڈ کلاس لڑکی ہی تمہیں سوٹ کرتی ہے” کہتے ہی وہ باہر نکل گئی ریحان صاحب اپنا سر تھام کر وہیں بیٹھ گئے آج انہیں اپنی جلدبازی پر افسوس ہو رہا تھا
★★★★★★
غانیہ ایاد کے ساتھ ایڈجسٹ ہو گئی تھی وہ نرم دل کی تھی بہت جلد بات بھول جاتی تھی ایاد اسے روز کہیں نہ کہیں گھمانے لے جاتا ایاد کی اتنی محبت پا کر وہ بہت خوش تھی ایاد اسے ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کرتا تھا مگر اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا اکثر اس کے تنگ کرنے پر وہ روہانسی ہو جاتی سلطانہ بیگم سے دوبارہ اس کی ملاقات نہ ہوئی تھی کیونکہ ناشتہ وہ لوگ اپنے کمرے میں کرتے تھے اور باقی سارا دن گھر سے باہر آج بہت دن بعد وہ گھر پر تھے عباد اور انعم ہنی مون کے لیے مری جارہے تھے دروازے پر دستک ہوئی تو غانیہ نے دروازہ کھولا اور انعم کو دیکھ کر بے ساختہ اس کے گلے لگ گئی “ارے ارے اندر تو آنے دو”انعم ہنس کر بولی
” ہاں ہاں آؤ نا” وہ الگ ہو کر اسے اندر لے آئی” ہم لوگ مری جارہے تھے تو سوچا تمہیں مل آؤں” انعم نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا” بہت اچھا کیا تم مجھ سے ناراض تو نہیں ہو نا “غانیہ نے اس کے برابر بیٹھے ہوئے کہا “میں کیوں نازاض ہوں گی تم سے تم نے تو کچھ کیا ہی نہیں ”
“ہاں جی جو کیا ہے وہ میں نے ہی تو کیا ہے “ایاد واش روم سے نکلتے ہوئے بولا اس کی بات پر انعم بے ساختہ مسکرائی” ہاں بالکل سارا قصور آپ کا ہے ”
“یہ کیا ہے” ایاد نے ناول اٹھاتے ہوئے بولا” آپکے کام کا نہیں ہے یہ مجھے دیں” غانیہ اٹھ کر اس سے ناول چھیننے لگی” جب میرے کام کا نہیں تو تمہارے کا کیسے ہو سکتا” وہ اب صفحے پھاڑنے لگا “یہ …کیا کر رہے ہیں آپ تھوڑا سا رہ گیا ہےـ ـ ایاد” اب وہ دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگ رہے تھے انعم مسکرا کر باہر نکل آئی
ایاد نے آدھے سے زیادہ ناول پھاڑ دیا تھا اسے بری طرح رونا آیا وہ پاؤں پٹختی لاوٴنج میں آکر بیٹھ گئی فرجاد کی نظر اس پر پڑی تو وہ اسے روتا دیکھ کر اس کے پاس آیا “ارے گڑیا کیا ہوا رو کیوں رہی ہو ”
“کچھ نہیں بس ویسے ہی ” اسنے جلدی سے آنسو صاف کیے
“نہیں نہیں بتاؤ مجھے شاباش کسی نے کچھ کہا ہے ”
“نہیں ” اس نے نفی میں سر ہلایا
“ایاد نے ” فرجاد نے اندازہ لگایا
“جی”
“کیا کہا ہے ”
“انہوں نے میرا ناول پھاڑ دیا ہے” یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگ گئی اس کی بات پر اس نے گہرا سانس بھرا وہ تو پتا نہیں کیا سمجھ بیٹھا تھا” میں اسکے کان کھینچوں گا تم رو مت چپ کرو شاباش” وہ اس کے آنسو صاف کرنے لگا “میں صرف اسکا نہیں تمہارا بھی بھائی ہوں اگر کوئی کچھ بھی کہے تو مجھے بتانا… ہوں ”
“بھائی “وہ چونکی” ہاں کیوں کیا ہوا ”
“کچھ نہیں وہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے نا “وہ معصومیت سے بولی
“میں تو ہوں نا “اس نے اثبات میں سر ہلا دیا” گڈ یونہی ہنستی رہا کرو آج کے بعد بالکل مت رونا چلو میں ایاد جی خبر لوں اس نے میری بہن کو تنگ کیوں کیا ” وہ اسے لیے کمرے کی طرف چل دیا
★★★★★★