اسے یہ بات سمجھ لینی چاہئیے تھی کہ وہ جو کچھ سننے جا رہی ہے وہ بہت سنجیدہ نوعیت کی بات ہو گی، کیونکہ آج ابا کا لہجہ بہت ہی الگ لگ رہا تھا جب سے انجبین کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
بات سن لینے کے بعد تو جیسے انجبین کو اپنی سماعتوں پہ اعتبار ہی نہیں رہا تھا کہ جو کچھ اس نے سنا ہے، کیا وہ ہی بات کہی گئی ہے یا یہ بس اسکے دماغ میں ہونے والی امجینیشن کا کمال ہے۔۔
کالی نظروں سے کبھی ماں تو کبھی ابا کا چہرہ تکتی ہوئی انجبین بات دوہرانے کا بھی نہیں کہ سکتی تھی کہ ایسا کہنا بے ادبی سمجھا جاتا کہ دماغ کہاں گم ہے جو بات سمجھ نہیں آتی ہے۔۔
کمرے میں گہری خاموشی تھی،گھڑی کی ٹک ٹک ٹک کے علاوہ کسی بھی طرح کی کوئی آواز کمرے کے اندر موجود نہیں تھی۔۔
کمرے کے اندر کا سکوت تو سمجھ میں آنے والی بات تھی لیکن گھر بھر میں جیسے سناٹا چھا گیا تھا، بس ایک جھینگڑ کی آواز تھی جو رات میں کہیں دور اپنے سر بکھیڑ رہا تھا۔۔
انجبین کی جانب سے کوئی جواب نہ پا کر ماں نے بیٹی کی خاموشی کو رضامندی سمجھ لیا اور مسکراتے ہوئے بیٹی کو گلے سے لگا لیا۔۔ مبارک ہو! ماں اس سے زیادہ کچھ کہ نہیں پائی اور سسک کر رہ گئیں۔۔
ایکک سسکی میں نہ جانے کتنے زمانوں کا سفر تھا جو مس یاسمین تہہ کر گئیں تھی، ایسے جیسے کل ہی تو یہ بیٹی پیدا ہوئی تھی اور اس کا یوں رشتہ آنا اور یہ سوچ کر ہی ماں کا کلیجہ کٹ رہا تھا کے اپنے باغ کا ایک پھول کیسے کسی کی جھولی میں ڈال دیں۔۔۔۔۔
جہاں یہ بات خوشی ساتھ لائی تھی وہیں بہت سے اندیشوں نے بھی سر اٹھا لیا تھا۔ بہت سے دکھوں نے بجھی ہوئی راکھ میں سے کوئی شعلہ پھر سے جلا دیا تھا۔۔۔۔
کوئی چنگاڑی جو سلگنے لگی تھی۔۔۔ کمرے میں سسکیوں اور ہچکیوں کی آوازیں بلند ہونے لگئیں تھی۔
ماحول کی اداسی سے انجبین کا دم گھٹنے سا لگا تھا اسی لیے وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ چودہویں رات کی شفاف چاندنی میں انجبین لان میں آکر گھاس پر بیٹھ گئی تھی۔
اس بات کے باوجود کہ گرمی کی راتوں میں اکثر لان میں کوئی زہریلا کیڑا مکوڑا دیکھائی دیتا رہتا ہے۔ ایسے میں اس کا یوں بیٹھنا خطرہ سے خالی ہرگز نہیں تھا۔
خطرہ زندگی کا ہی تو حصہ ہے، کون جانتا کب کیسے کسروپ میں یہ خطرہ نگاہوں کے سامنے آجائے اور انسان اس سے کتنا بھی بھاگ لے دور مگر جو ہونا ہے وہ ہوگا ہی۔
خوشی کے ساتھ جڑے ایسے غموں کی وجہ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ جی رہے ہیں۔کل تک جو گھر سوگوار تھا جہاں اداسی تھی اب وہیں پہ ہنسی کی آواز گونجے گی, جہاں ویرانی تھی وہ سب جگہ آباد ہو گی۔ ایسے تو میرے چلے جانے کے بعد میرے اپنے گھر والے میرے بنا جی لیں گے۔۔گھر سے جدا ہونے کا خیال آتے ہی انجبین کی پلکیں نم ہونے لگی اور وہ اپنا سر جھکا کر بیٹھ گئی۔
نہ جانے کتنی ہی دیر انجبین ایسے تنہا بیٹھی رہی اور یوں روتے روتے نہ جانے اس کی آنکھ لگ گئی۔ وہ ادھر بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی۔۔
اس کی نیند کی ڈور تب ٹوٹی جب فاریہ کے قدموں کی آہٹ سنائی دی, وہ بجلی کی سی تیزی میں ٹھیک ہو کر بیٹھ گئی۔
OOOOO()()()()()000
فاریہ: آپی اکیلی اتنی رات کو یوں گھاس پہ بیٹھی ہوئی ہو کیا بات ہے تم ٹھیک تو ہو نا؟ فاریہ کے لہجے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کتنی پریشان ہے، اور کتنی ہی دیر سے بہن کو ڈھونڈنے میں لگی ہوئی ہے۔ وہ جیسی بھی ہے, ہے تو بہن ہی۔۔۔ بہن کے ساتھ ہی تو ایسے کیا جاتا ہے۔
انجبین: فاری تم کیوں آگئی باہر؟ میں آنے لگی تھی نا ابھی۔۔۔
( انجبین کی آواز میں بے حد اپنائیت تھی, اس نے آج سے پہلے کبھی بھی اپنی بہن کے ساتھ ایسے نرم لہجے میں بات نہیں کی تھی)۔۔
فاریہ نے بہن کے رویے میں اس قدر اپنائیت بھرا رویہ محسوس کیا تو بہن کے کندھے سے سر لگا کر بیٹھ گئی۔۔ دونوں بہنیں نہ جانے کتنی ہی دیر ایسے چپ چاپ بیٹھی رہیں۔
خاموشی کی بھی ایک اپنی زبان ہوا کرتی ہے, ایسی زبان جس کو صرف احساس سے سنا جا سکتا سمجھا جا سکتا ہے۔۔۔ ایسے ہی لمحے دو اجنبی لوگوں کو قریب لے آیا کرتے ہیں۔۔ یوں ہی آج ان دو بہنوں کے درمیان حائل یہ برف آج پگھلنے کو تھی۔۔ اس میں شددت کا موجب انجبین کی دلی کیفیت, اس کا اکیلا پن تھا۔۔وہ اپنے دل کی باتیان کہ دینا چاہتی تھی مگر کس سے؟
دوست زندگی میں بنی ہی ایک اور وہ اس اہم موقع پر اتنی دور تھی کہ اگر آنا بھی چاہتی تو کم سے کم دو روز سے پہلے مل نہیں سکتی تھی۔
باتوں باتوں میں اچانک انجبین نے فاریہ سے سوال کیا, یہ جانتے ہوئے بھی کہ رات کے اس پہر ایسا سوال فاریہ کے لیے وبال جان بن سکتا ہے۔
انجبین: فاریہ مجھے مس کرو گی؟ انجبین نے بے نیازی سے سوال کیا اور چاند کو دیکھنے لگی۔
فاریہ: کیوں؟ میں مس کیوں کرنے لگی! ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی کوئی مس کرتا ہے کیا۔ فاریہ نے مسکراتے ہوئے بہن کے چہرے کو دیکھا۔ جہاں آج خلاف معمول الجھن دیکھائی نہیں دے رہی تھی بلکہ ایک بہت پرسکون انجبین دیکھائی دے رہی تھی۔۔ سچ میں ایسا تھا یا بس فاریہ کے ساتھ کہے جانے والے چند دوستانہ جملوں نے فاریہ کے ذہن پر اسقدر اچھا اثر ڈالا تھا۔۔
انجبین: نہیں ابھی کی بات نہیان کر رہی ہوں دیکھو نا اگر پڑھنے چلی گئی کہیں باہر یا کم سے کم دوسرے شہر میں۔ انجبین نے اصل بات بتانے سے گریزہی کیا, جو بھی ہو دونوں بہنوں میں ابھی اتنی بھی دوستی نہیں تھی کہ سب کچھ ایک دمسے کہ دیا جائے, وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کی بہن کے لیے اسکا ہونا نہ ہونا کچھ معنی بھی رکھتا ہے کہ نہیں۔۔۔فاریہ اس سوال کے جواب میں خاموش رہی, وہ بھی انجبین کی طرح اپنی فیلنگز کو اپنی بہن کے سامنے آشکار نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد دونوں بہنیں ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے کمرے کی جانب چل دی۔
ایسے ہی جیسے تسبی کے دانے ایک کے بعد ایک کر کے پیچھے چلے آتے ہیں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے۔۔۔۔۔
/\////////////\
امی یہ آپکے مجنوں بیٹے کو کیا ہوا ہے؟ جب سے میرے دیور کے رشتے کی بات چلی ہے اس کا رنگ کیوں زرد ہوتا جا رہا ہے دن بہ دن؟
نائلہ کی کُریدنے کی عادت اور اس پے یہ چبھتا ہوا لہجہ بے حد ناگواری کا باعث بنتا۔
زیان بہن کی باتیں سنی ان سنی کر رہا تھا, لیکن آخر کب تک ایک انسان صرف خاموشی سے باتوں کو سن سکتا ہے۔ زیان نے اٹھ کر وہاں سے جانے کی کوشش کی تو نائلہ نے اس کا راستہ روک لیا اور سامنے کھڑی ہو گئی۔
نائلہ: چلیں ٹھیک ہے اچھی بات ہے باپ تو تھا نہیں بھائی ہی تھا اب وہ بھی اگر بدل جائے گا تو کیا عزت ہو گئ سسرال میں۔۔۔
شمائلہ: آپی خدا کے لیے ہر بات کا الزام کیوں بیچارے کو دیے جا رہی ہو ؟
شمائلہ جو بہت دیر سے یہ تمام باتیں سن رہی تھی, آخر اس معاملے بول اٹھی۔
اس سے پہلے کہ نائلہ کوئی جواب شمائلہ کو دیتی زیان نے دونوں بہنوں کے ہاتھ تھام لیے اور دونوں کو سامنے صوفہ پہ بیٹھایا اور خود زمین پہ ان کے سامنے دوزانوں ہو کر بیٹھ گیا۔
چند لمحے کی گہری خاموشی کے بعد زیان بولا,
زیان: آپی مجھے اس رشتہ کے تہہ ہو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مجھے کبھی بھی دوڑ میں شامل ہونے کا کوئی شوق نہیں رہا۔ یہ بات آپ بھی اچھی طرح سے جانتی ہیں۔ زیان نے ایک نظر دونوں بہنوں کو دیکھا اور پھر ایک نظر ماں کو, ماں کو دیکھ کر وہ بے ساختہ مسکرا دیا۔
زیان نے پاس رکھا پانی کا گلاس لیا اور اس میں سے ایک گھونٹ لیا۔۔۔ پھر نائلہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔
زیان: آپی آپ کو پتہ ہے, ہر معاملہ اپنے ہاتھ میں نہیں لیا جاتا۔ کچھ معاملات اس اوپر والے کے اختیار میں ہی رہنے دینا چاہئیے۔۔
زیان کی بات ابھی مکمل نہ ہو پائی تھی کہ نائلہ پھر سے بول اٹھی,
نائلہ: میں اپنی نند اور دیور کو اپنی سلسبیل کی طرح سمجھتی ہوں۔۔
زیان: آپی آپ کا مزاج بھی بادشاہ جیسا ہے جس کا بس چلے تو زندگی اور موت بھی اپنے ہاتھوں میں ہی رکھ لیں۔ زیان اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔ اس کے جانے کے بعد شمائلہ نے بہن کو دیکھ کر سرد آہ بھری اور خاموش ہو گئی۔۔
دونوں بہنیں اٹھ کر کمرے کی جانب جانے لگیں تو پیچھے سے آواز آئی, آواز ان کی ماں کی تھی۔
ماں نے اشارے سے نائلہ کو پاس آنے کو کہا, شمائلہ کے لیے کوئی حکم نہیں تھا کہ وہ وہیں رکی رہے یا وہاں سے چلی جائے۔
اس بات کا اختیار خود شمائلہ کے پاس ہی تھا, وہ چاہے تو پاس آکر بات سن لے اگر نہیں سننا چاہتی تو اس میں کسی قسم کی زبردستی نہیں کی جا رہی تھی۔
ماں: گزرے زمانوں میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا, ایسی جگہ کا بادشاہ کہ جہاں پہ لوگوں کی جلدی موت واقع نہیں ہوتی تھی۔
وہاں کے بادشاہ نے ایک ایسا حیرت انگیز اعلان کیا کہ جس کو سن کر لوگ ششدر رہ گئے۔۔۔ وہ اعلان تھا کہ ” لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کو اٹھا کر پہاڑ سے نیچے پھینکا کریں گے, عمر کی ایک خاص حد کو پہنچ جانے کے بعد۔۔
جانتی ہو نائلہ اس بادشاہ کو اپنی غلطی کا احساس کب ہوا تھا ؟ نائلہ نہ جانے کہانی سننے میں کس قدر محو تھی کہ ماں کے پکارنے پر بھی خیالوں کی وادی کی سیر کر کے واپس نہ آئی۔۔ ماں نے بیٹی کا شانہ پیار سے تھپکا تو نائلہ نے بے چینی سے پوچھا جی اماں پھر کیا ہوا؟؟
ماں: پھر ہوا یہ کہ وہ جب اکیلا رہ گیا تب اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنوں کو اپنی عمر کے ان لوگوں کھو دیا تھا, جن سے اس کے دل کی باتیں کی جاسکتی تھیں۔۔۔ بیٹا لوگوں کو کھو دینے کی غلطی کبھی مت کرنا۔ ماں نے کہانی کے اندر چھپے ہوئے اس پیغام کو بیٹی تک پہنچا دیا تھا۔۔۔
¥¥¥¥¥¥¥¥•••••••¥¥¥¥¥¥¥
جائے نماز پر بیٹھے ہوئے زیان کا چہرہ اس کے ہاتھوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ وہ نہ جانے کون سی ایسی دعا مانگ رہا تھا جس کی قبولیت کے لیا وہ دینا مافیا سے بے نیاز بیٹھا تھا۔شمائلہ کے کمرے میں آنے سے لے کر اس کے کرسی پہ بیٹھنے اور زیان کے فارغ ہونے کے انتظار میں رسالہ اٹھا کر پڑھنے تک کی تمام حرکات و سکنات سے زیان بلکل بھی آگاہ نہیں تھا۔۔
آمین!
ہمیشہ انچی آواز میں کہتا تھا ۔۔ آج بھی اتنا اونچا ہی بولا تھا۔۔۔۔
بس اس قدر اونچا کہ بہن کمرے کے اندر ہونے کے بجائے دروازے میں کھڑی ہوتی تو اس آواز کو سن نہ پاتی۔”ثم آمین”
یہ آواز شمائلہ کی تھی جس کی آواز سن کر زیان چونک گیا اور عقب میں بیٹھی ہوئی شمائلہ کو بے یقینی سے دیکھنے لگا۔۔ بہت دیر تک خاموش رہنے کی وجہ سے زیان کی آواز بے حد گرجدار ہو رہی تھی, اس کی آواز سن کر شمائلہ کا جواب دینے کے لیے کھلا ہوا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔۔
شمائلہ: تم تم تم کون ہو؟ شمائلہ شرارت سے بھائی کو دیکھتے ہوئے بولی۔ زیان کے کمرے میں دیکھنے لائق صرف زیان ہی تھا۔۔ اس کے علاوہ کمرے میں بس کتابیں اور بہت سے کپڑے زیان کی پسند کے, زیان کی چوائس واقع ہی بہت بہترین تھی۔۔
لباس کی نفاست اور ان کے رنگ کا انتخاب اس بات کو ثبوت ہے کہ کس قدر اچھے ذوق کا حامل ہے پہننے والا۔۔
زیان: میں ہوں آپکا ایک عدد پیارا سا بھائی۔ زیان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور پاس آکر بیٹھ گیا۔ زیان کے سر پر رکھی ہوئے نماز کی ٹوپی بڑھے ہوئے بالوں کی وجہ سے ٹھیک طرح سے بیٹھتی نہیں تھی۔۔۔۔
شمائلہ: بھائی آواز ایسی کیوں ہوئی تم روتے رہے ہو کیا؟ ( ہاتھ بڑھا کر بھائی کے سر سے ٹوپی اتار کر اپنے سر پر رکھ لی)
زیان: نہ رونے کی کیا بات ہے, میں کیوں رونے لگا؟ (انگلیوں کی مدد سے بال سنوارتے ہوئے) زیان نے جواب دیا اور ایک نظر بہن پر ڈالی, جو بلکل ماں کی طرح دیکھائی دے رہی تھی۔۔
شمائلہ: آج آپی نے غلط بات کی زیزو۔ سوری میں کچھ کہ بھی نہ سکی۔ ( شمائلہ نے جھجکتے ہوئے اپنی بات مکمل کی)۔
زیان نے بات سن کر کوئی بھی ایسی حرکت نہ کی جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ خوش ہے یا نہیں۔ آیا یہ بات اسے ناگوار گزری ہے۔۔۔یا نہیں۔۔
زیاان: ان کا مزاج ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے آپی, وہ ہمیشہ اپنی جیت چاہتی ہیں۔۔۔ خیر ان کی بات چھوڑیں آپ کب جا رہی ہو گھر واپس یہ بھائی صاحب آپکو لینے کیوں نہیں آتے۔۔ اس کو بھی تو نہیں تنگ ڈال دیا کہیں ابھی سے۔ زیان کا موڈ بدلنے میں کچھ دیر نہیں لگا کرتی تھی وہ ایکٹنگ کرنے میں ماہر تو تھا ہی اور یہ ایکٹنگ بہن کے سامنے ہو تو اس پر حقیقت کا گماں ہونے لگتا تھا۔
رات نہ جانے کتنی دیر دونوں بہن بھائی ایسے ہی بیٹھ کر باتیں کرتےرہے, اور کب ان کے پیچ ہونے والی باتیں اختتام کو پہنچی۔۔
O O O O. O. O
رشتہ سے انکار کی کوئی خاص وجہ تو تھی نہیں جس کو وجہ بنا کر رشتہ سے انکار کیا جاتا۔ خضر صاحب نے اپنے بیٹے عابد کو بھی اس رشتہ کے متعلق بتا دیا تھا اور یہ بھی بتایا کہ لڑکے والے زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہتے وہ لوگ منگنی کی جگہ نکاح, اور نکاح کی جگہ رخصتی کے خواہشمند ہیں۔۔
اس سب گہما گہمی کے دوران قرۃ العین کے علاوہ کسی کا خیال اس بات کی جانب نہیں گیا کہ شاہدہ آنٹی رشتہ لینے کے لیے آئی بھی تو وہ اپنے بیٹے کے لیے کیوں نہ آگئیں۔ اس بات کے پیچھے ایسی کون سی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس بات کا ذکر عینی نے عابد سے بھی کیا تھا لیکن عابد نے ہمیشہ کی طرح یہ کہ کر بات ٹال دی کہ یہ تم عورتوں کی پرانی عادت ہے, سیدھی سادی بات کو بھی اس قدر پیچیدہ بنا دیتی ہیں کہ کچھ ہو نہ ہو اپنا دماغ لازمی خراب کر لیا جائے۔۔۔میاں بیوی کے درمیان یہی باتیں ہو رہی تھی کہ کمرے کے دروازے پہ ہونے والی دستک پہ دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر دروازے کی جانب, بیک وقت دونوں میاں بیوی بول اٹھے, “کون ہے ؟”
میں ہوں انجبین یہ آپکے نام کوئی لیٹر آیا ہے۔ انجبین نے دروازے کی دستک کو ڈھولک کی تھاپ میں بدل دیا تھا جو مزے سے دروازے سے سر ٹکا کر بھائی اور بھابھی کے دروازہ کھولنے کا انتظار کرنے لگی۔۔
یہاں دروازہ کھلا وہاں انجبین گرتے گرتے بچی اور اس نے گرنے سے بچنے کے لیے سہارا لیا عینی کا اور عینی اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھی۔ وہ ہڑبراہٹ میں پیچھے ہٹ گئی اور اتنی پیچھے کہ میز پر جھکے ہوئے عابد سے ٹکرا گئی, عابد بیوی کے ایسے ٹکرا جانے سے گھبرا گیا اور چیخنے لگا۔ کمرے بھر میں دھکم پیل اور چیخ و پکار سن کر فاریہ بھی دوڑتی ہوئی کمرے میں آگئی۔
اوندھے منہ گرے ہوئے عابد نے فاریہ کو مدد کے لیے بلایا کہ آو مجھے کھڑا ہونے میں مدد کرو۔ بیوی کی ٹکڑ نے عابد کے گھٹنے کو زخمی کر دیا تھا اس لیے ان سے اٹھنے بھی نہیں ہو رہا تھا ۔ عینی اور فاریہ نے عابد کو قدموں پہ کھڑا کیا تو انجبین نے بھائی کے گھٹنے سے بہنے والے خون کو دیکھا تو فوراً مرہم پٹی کا سامان لینے چلی گئی, بہن کو جاتے۔ دیکھ کر عابد آوازیں دیتا ہی رہ گیا۔ *لیٹر تو دیتی جاؤ انجبین* مگر تب تک انجبین بہت دور جا چکی تھی۔
عابد: پاگل لڑکی خون دیکھ کر ہمیشہ ڈر جاتی ہے, زخم سوئی کا ہو یا تلوار کا انجبین میں یہ حوصلہ کہاں کے دیکھ سکے۔ ایک یہی تو طریقہ ہوتا تھا اسے ڈرانے کا۔ عابد بھائیی اپنا زخم دیکھتے جا رھے تھے اور ساتھ بولے چلے جا رہےتھے۔
اتنے میں انجبین کمرے میں داخل ہوئی,انجبین کی انٹری دیکھنے لائق تھی۔
ایک ہاتھ فل سٹریچ کیا ہوا, اسی ہاتھ میں تھاما ہوا فرسٹ ایڈ کٹ, اور منہ کمرے سے باہر کی طرف اور دوسرے ہاتھ میں اٹھایا ہوا لیٹر اپنی آنکھوان کے سامنے کہ کہیں غلطی سے بھی زخم دیکھائی نہ دے جائے۔ بھابی کو کٹ پکڑوانے کے بعد منہ موڑ کر انجبین بھائی سے بولی۔
انجبین: بھائی پہلے ڈاک والے کو کچھ بخشش کوئی نظر نیاز دو پھر لیٹر ملے گا۔
عابد: تمھارے مانگنے سے پہلے ہی یہ کام کر چکا ہوں۔۔ بھابھی کے پاس ہیں تمھاری, آوچھ دیکھ کے یار عیننو, ,,,,,,, درد کے مارے عابد کی چیخ نکل گئی۔ عینی پہلی مرتہ کوئی ایسا کام کر رہی تھی اس لیے ہاتھ کانپ رہے تھے, فاریہ نے بھابی سے سامان لیا اور بھائی کا زخم صاف کرنے لگی
————————-
کبھی کبھی ہماری زندگی میں ایسی خوشی ایسا اچھا لمحہ بھی آتا ہے جس کے بعد ایک لمبی جدائی اور طویل مدد تک دوری نہ چاہتے ہوئے بھی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
جانا ضروری ہے بھائی؟ انجبین نے بھائی کی کلائی کو تھامتے ہوئے سوال کیا اور سوالیہ نظروں سے گھر والوں کی طرف دیکھا جیسے ان کی طرف سے اپنی بات کی تائید چاہتی ہو, مگر گھر والے انجبین کی اس بات کو سمجھ ہی نہ پائے تھے کہ وہ یہ سب پوچھ کیوں رہی ہے۔
وہ لیٹر جو عابد بھائی کے لیے آیا تھا وہ کینڈین ایمبسی کی طرف سے تھا۔ جس میں ان کی درخواست کے منظور ہو جانے کی خوشخبری تھی۔ عابد کو جاب لیٹر ملا تھا اس کے ساتھ پانچ سال کے لیے کینیڈا میں رہنے کا اجازت نامہ بھی موجود تھا۔ خضر صاحب کے ایک دوست نے عابد کو نوکری کی آفر کی تھی, عابد نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں زرا دیر نہیں کی۔
اچھی نوکری اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں جانے کے لیے لوگ ترستے ہیں جہاں کے خواب ملک کے ہزروں لاکھوں نوجوان آنکھوں میں لیے پھڑتے ہیں۔۔
عابد: انجبین جانا تو ہے نا نوکری تو میں یہاں بھی چھوڑ کر بیٹھا ہوں نا۔۔نوکری چھوڑنے کی بات گھر والوں کے لیے بھی نیا انکشاف تھا۔۔۔
گھر میں ابھی باتیں ہو رہی تھی کہ اچانک سے خضر صاحب کو جیسے بہت ضروری بات یاد آگئ اور وہ اٹھ کر کمرے میں چلے گے اور عابد کو بھی اندر آنے کا کہ گئے۔۔۔باقی سب کے لیے ابا کا ایسا کرنا کچھ عجیب سا تھا۔ مس یاسمین آپ بھی آئیے اندر,ہنسی مزاق کے دلدادہ انجبین کے والد اکثر موڈ میں ہوتے تو اپنی بیگم کو ایسے ہی مخاطب کیا کرتے تھے۔
عینی: ماموں جی!
خضر: جی بھانجی جی؟
عینی: عابد صاحب کی بیوی کو بھی اندر بلا لیں نا۔ عینی بھی شرارت کے موڈ میں تھی۔
خضر: اوہ ہاں میں تو بھول ہی گیا کے میرے برخوردار اب اپنی بھی فیملی والے ہیں, آئیے آئیے آپ کے بنا تو یہ اجلاس نا مکمل ہو گا۔ انجبین اور فاریہ تم دونوں کمرے کے قریب بھی نہ بھٹکنا سمجھی نا۔ اور کاشف تم بھی۔ بچوں کو ان سیدھے سادے الفاظ کے ساتھ اندر آنے سے منع کرتے ہوئے خضر صاحب اپنی بھانجی اور بہو کو اپنے ساتھ لے کر چل دیے کمرے کی جانب۔
—===—+++—++++—+++–
امی میں اور سبیل کے بابا آرہے ہیں,پھر چلیں گے انجبین کے گھر رشتہ کی تاریخ پکی کرنے کے لیے۔ نائلہ جسے گئے ہوئے مشکل سے ایک ہفتہ ہی گزرا تھا وہ اب پھر سے آرہی تھی۔ کال نکلنے کے بعد کی گئی تھی اس لیے ماں نے آنے سے روکنا مناسب نہیں سمجھا۔ گزشتہ چار روز سے وہ خود بستر سے لگ کر رہ گئیں تھی اس لیے وہ نہیں چاہتی تھی کہ داماد اور بیٹی اس حالد میں دیکھ کر پریشان ہو جائیں,
آخر کو ماں تھی کیسے بیٹی کے لیے اپنی صحت کو بھانہ بناتی, ان کی بیٹی اس ققت ایک ماں کا کردار ادا کر رہی تھی۔ نائلہ کی کال ختم ہوئی تھی کہ ساتھ ہی انہوںے کال زیان کو کردی کہ بیٹے کو بہن کے آنے کی خبر کر دی جائے۔ خبر آنے کی ہی دی گئی ۔۔۔آنے کا مقصد نہیں بتایا گیا, بتا کر کرتی بھی کیا؟ بیٹا تو جیسے پتھر کا بنا ہوا تھا اس کے اندر کی فیلنگز کیا ہیں یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
زیان امی کے کال کرنے کے پیچھے چھپی ہوئی اصل وجہ کو جان گیا تھا, کرسی کی پشت سے سر لگا کر اس نے آنکھیں موند لیں تھی۔ زیان اپنے خیالوں کی وادی میں گھوم رہا تھا اسے وہ تمام لمحے یاد آرہے تھے جب جب بہنوں کے لیے اس نے اپنی پسند کو قربان کیا تھا۔ تمام عمر وہ دیتا ہی رہا تھا, نہ کسی سے مانگا نہ ہی کبھی کسی چیز کی چاہت رکھی۔ وہ اپنے معاملات میں خدا کے سوا کسی دوسرے کو شامل نہیں کیا کرتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ دوسروں کے لیے اچھا سوچنے اور اچھا کرنے والے کے ساتھ کبھی برا نہیں ہو سکتا۔۔ میں ایک لڑکی کے لیے اپنی بہن کا ساتھ کیسے چھوڑ سکتا ہوں, ایسی لڑکی جس کے جزبات کا عمل مجھے ہے بھی نہیں نہ جانے وہ مجھے اس نگاہ سے دیکھتی بھی ہے کہ نہیں, اب کیا فرق پڑتا ہے۔ میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں ۔۔۔ زیان نے سر جھٹک کر اپنے خیالات کو بھی جھٹکنا چاہا مگر ایسا کہاں ممکن ہے کہ انسان زور سے سر کو ہلائے تو جیسے سر گیلا ہونے پہ پانی کے قطرے دور جا گرتے ہیں ایسے ہی سر جھٹکنے سے ہم اپنی سوچوں اور الجھنو کو بھی دور پھینک سکتے۔۔
O. 0. 0…….
جب سے عینی نے مہمانوں کے آنے کے بارے میں بتایا تھا تب سے ہی انجبین جیسے گم سم سی ہو گئی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ اس قدر جلدی میں کیوں ہو رہا ہے۔اتنی جلدی میں تو آج سے پہلے کسی کی شادی نہیں ہوتے دیکھی, اور جہاں وہ اس الجھن کا شکار تھی وہیں پہ اس بات کی خوشی بھی کہ وہ جبین سے پہلے دلھن بنے گی۔ شام میں پہننے کے لیا لباس ڈھونڈتے ہوئے انجبین نے آدھے سےزیادہ الماری خالی کر دی تھی لیکن ابھی تک کوئی ایسا ڈریس نہیں ملا تھا جس کو قبولیت بخشی جاتی شام کے لیے۔
وسوسے عجیب خیالات اور ان کے ساتھ نروس ہونا انجبین ان تمام باتوں کی ان سوچوں کی کبھہ بھی عادی نہیں رہی تھی وہ تو آزاد سی لڑکی تھی اسے اس شادی کے لیے تیار ہونے کے لیے وقت چاہیئے تھا, لیکن شاید اب وقت کی ہی کمی تھی اسی لیے تو یہ سب کچھ اس قدر جلدی جلدی ہو رہا تھا۔
لان میں کرسیاں رکھ دی گئی تھیں اور درمیان میں ایک میز کے اوپر کھانے پینے کاسامان پہلے سے ہی سجا دیا گیا تھا۔اب بس انجبین کے آنے کا انتظار ہو رہا تھا۔وہ آئے تو اس کو انگوٹھی پہنا کر چھوٹی سی رسم اداکر لی جائے۔ خوشی کے اس موقع پر سب لوگ خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آخر کو دو خاندانوں نے آپس میں جڑنے کا فیصلہ جو کر لیا تھا۔ زیان اس سب سے الگ ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور فعن کو کانوں سے لگائے اپنے آفس والوں کو ضروری ہدایات دینے میں مصروف تھا۔ہلکے نیلے رنگ کے کرتے کے اوپر کے دو بٹن کھلے رکھنا یہ زیان کی عادت تھی اور آستین چڑھائے رکھنا۔ وہ جب بھی ایسے کپڑے پہنتا تھا تو شمائلہ کہتی تھی لو جی آگیا ٹرک ڈرائیور۔
آج بھی وہ اسی لباس میں چلا آیا تھا, کیوں آیا تھا وہ نہیں جانتا تھا, مگر اسے تو لایا گیا تھا اس کی شکست کی خوشی میں۔ وہ پسند تو کرنے لگا تھا انجبین کو مگر پیار؟ کیا اس پسند کرنے کو پیار کرنے کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وہ اس بات کا جواب نہیں جانتا تھا, اسی لیے تو وہ چپ تھا مگر اس کی آنکھیں بولتی تھیں وہ کہتی تھی کہ ہاں اس کے جزبات سچے ہیں, ہاں وہ اچا ہے اپنی لگن میں۔۔ مگر اس کے لب سلے ہوئے تھے۔۔
ااگر آپ لوگوں کو ناگوار نہ گزرے تو میں ایک سوال کروں۔یہ عابد بھائی تھے جو واجد بھائی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور بہت خاموش تھے۔
عابد: آپ سب بڑوں کی باتوں میں میرا یہ سوال کرنا شاید آپ لوگوں کو ناگوار بھی گزرے۔لیکن یہ سوال میرے دماغ میں بہت دیر سے چل رہا ہے۔۔۔
واجد: جی جی کیوں نہیں پوچھیں آخر کو آپ لڑکی کے بھائی ہیں۔
عابد: آپ سب لوگ شادی کی تاریخ لینے تو آگئے ہیں لیکن معزرت کے ساتھ, ابھی تک ہم نے لڑکے کو نہیں دیکھا ہوا۔ اور نہ ہم وہاب کی نیچر کے بارے میں جانتے ہیں۔ عابد کا یہ سوال جیسے انجبین کے دل کی آواز تھا, وہ بھائی کی بات سن کر کھل اٹھی۔مگر اس نے اپنی خوشی کو دل میں ہی دبا لیا۔۔۔
واجد: ارے یہ نیچر تو بس جیسی ہمارے زیان کی ہے ایسا ہی وہاب ہے, کوئی فرق نہیں دونوں میں۔ کیوں نائلہ؟
نائلہ: جی جی کیوں نہیں ایک جیسے ہی تو ہیں دونوں۔
جواب پا کر گھر والے خوش ہو گئے کہ زیان جیسی نیچر کا لڑکا آج کل کے دور میں کہاں مل سکتا ہے۔. اپنی نیچر سے ملتے جلتے وہاب کا تذکرہ سنتے ہی زیان کے لبوں پہ ذو معنی مسکراہٹ آگئی اور وہ نہ جانے کیوں بس انجبین کو دیلھنے لگا چپ چاپ اور سوچ میں ڈوبا ہوا۔۔ زیان سوچوں کی دنیا سے تب واپس آیا جب سامنے کھڑی فاریہ کہ رہی تھی,
فاریہ: بھائی منہ میٹھا کریں نا منگنی ہو گئی ہے آپ کدھر گم ہو گئے ہو۔۔۔
زیان نے مسکرا کر سجھی ہوئی پلیٹ میں سے ایک چھوٹا سا گلاب جامن اٹھا لیا اور فاریہ سے واش روم کا راستہ پوچھا وہ منہ ہاتھ دھونے کے لیے جانا چاہتا تھا یا شاید آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے۔۔
فاریہ راستہ دیکھانے کے لیے آگے چل رہی تھی کہ زیان نے دو قدم پیچھے رک کر گلاب جامن کو پوری قوت سے اٹھا کر چھت پہ پھینک دیا اور ایسے ہی منہ چلانے لگا جیسے کہ وہ کچھ کھا رہا ہے۔۔
فاریہ: اور لیں گے بھائی ؟
زیان: آہ نہیں ابھی پہلے میں فریش ہو لوں نا پھر کھاتا ہوں۔۔ فاریہ زیان کو چھوڑ کر باہر چلی گئی۔۔۔
زیان نے جلدی جلدی ہاتھ منہ دھویا اور بہت دیر تک یوں ہی کھڑا رہا۔۔
“واہ اوپر والے, زندگی میں لاتے بھی ہو,,, اور پھر لے جاتے ہو۔۔ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کرتے ہو۔ جو بھی کرتے ہو خوب کرتے ہو۔ کہو کچھ اور رہہتا ہے” اے زندگی تھجے کیا کہوں،
تو نے میرے ساتھ یہ کیا کیا،
جہاں آس کا کوئی “دیا” نہیں،
مجھے اس نگر پہنچا دیا،
نہ میں بڑھ سکوں، نہ میں رک سکوں،
نہ ہی دل کی بات سمجھ سکوں،
نہ کسی کو کچھ بھی کہ سکوں،
تجھے کیا کہوں تو نے کیا کیا،
مجھے منزلوں کی خبر تو دی,
پر راستوں کو الجھا دیا،
اے زندگی تجھے کیا خبر،
یہاں کس نے کس کو گنوا دیا،
اے زندگی تجھے کیا کہوں
تو نے میرے ساتھ یہ کیا کیا۔”؟
زیان ایسے ہی گیلے بالوں کے ساتھ باہر نکل آیا ۔
خضر صاحب: جی زیان بیٹا میں نے آپکی امی سے آپکو مانگ لیا ہے۔۔
زیان: میں سمجھا نہیں مجھے مانگ لیا مطلب۔ زیان اس بات کا مطلب سچ میں سمجھ نہیں پایا تھا۔
شاہدہ(زیان کی امی بولیں): بیٹا شادی کے دنوں میں تم انکل کی سائڈ سے شامل ہو گے۔۔ سر راشد کی جگہ تم وہ سب کام کرو گے جو ان کی ذمہ داری ہوتے۔
سب کی آنکھیں نم تھی, سب زیان کے جواب کے منتظر تھے۔۔
یان: انکل میں سر کی جگہ کبھی نہیں لے سکتا لیکن میں آپ کے لیے یہاں آتا رہوں گا آپ جو کام کہیں گے میں وہ کرتا رہوں گا۔ بوڑھے باپ کو اپنے بیٹے کی یاد ستاتی تو ہوگی, یہی بات سوچ کر زیان نے حامی بھر لی۔۔۔
******************
جبین انجبین کی منگنی کے بعد پہنچی تو گھر میں ایک بھرپور ڈرامہ ہوا۔ ڈنڈا اٹھائے جبین انجبین کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور اس کے ساتھ بولتی چلی جا رہی تھی اس شور کی وجہ سے پورا گھر میدان جنگ بنا ہوا تھا۔ جبین کسی صورت بھی انجبین کی بات سننے کو تیار نہیں تھی۔۔۔ میرے بغیر سب کچھ کر لیا اور اوپر اوپر سے میں تمھاری سہیلی بہنوں جیسی اور یہ کرتی بہن کے ساتھ۔۔
عابد بھائی اسے پکڑیں نا ہرنی جیسی چال کیسے چھلانگیں لگا رہی ہے۔ جبین تھک کر صوفہ پہ بیٹھ گئی اور بھایئوں سے منت سماجت کرنے لگی کہ کوئی تو مدد کردو۔
جب انجبین نے دیکھا کہ جبین اب تھک چکی ہے تو کچن سے مٹھائی لے کر آگئی اور جبین کو مٹھائی دیتے ہوئے بولی,
انجبین: جبو دیکھو نہ میری مرضی کی کسی نے پرواہ بھی نہیں کی زبردستی میری شادی تہہ کردی اور یہ انگوٹھی بھی تو دیکھو۔
جبین نے دوست کا اترا ہوا چہرہ دیکھا تو اس کے فریب میں آگئی جیسے سچ مچ گھر والے ظلم کر رہے ہیں انجبین پہ۔
مٹھائی ہاتھوں میں اٹھائے جبین بھاگ کر خضر صاحب کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔
جبین: انکل جی یہ ظلم کیوں کر رہے ہیں آپ بیچاری کے ساتھ, اور آنٹی آپ کیوں ہنس رہی ہیں, , کیسی ماں ہیں بیٹی کے ساتھ ایسا کون کرتا ہے آنٹی۔ جبین کی آواز ایسی تھی جیسے ابھی رو دے گی۔
ماں: بیٹی میں تو جیسی ہوں چلو بری ہی سہی, پیچھے اپنی دوست کے نکلتے ہوئے دانت تو دیکھو۔
جبین: یہ بیچاری ڈر کے مارے دانت نکال رہی ہو گی وہ لڑکا ہے بھی تو ایسا ۔۔۔ میں نے دیکھا تھا افف توبہ۔
ماں: کس لڑکے کی بات کر رہی ہو جبین۔۔ ماں نے گھوم کر دونوں لڑکیوں کو دیکھا اور کچھ نہ سمجھنے والے اندز میں سوال کیا۔۔
جبین: وہی آپکا داماد اور کون آنٹی۔
یاسمین: میرےداماد کو تم نے کہاں دیکھ لیا؟؟
جبین: کیوں وہ زیان نہیں ہے کیا۔۔۔ جبین کی بات کے بعد ایک دم سے سناٹا چھا گیا سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ کچن سے نکلتی ہوئی عینی نے جواب دیا
عینی: نہیں اس کی بڑی بہن کا دیور ہے وہاب اس سے رشتہ ہوا ہے۔
جواب سننے کے بعد جبین کی وہ تمام شوخی ہوا ہو گئی اور وہ کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں انجبین کی طرف دیکھنے لگی۔۔انجبین نے صوفہ سے اٹھتے ہوئے جبین کو اپنے پیچھے چلے آنے کا اشارہ کیا تو وہ بنا کسی توقف کے اسکے پیچھے چل دی۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جبین نے سوال کیا،
جبین: تم خوش تو ہو نا؟
جبین کا سوال سن کر انجبین کے چلنے کی رفتار ایک دم سے بہت کم ہو گئی, کم ہوتی رفتار اس بات کی جانب اشارہ تھی کہ انجبین کچھ سوچ رہی ہے۔
انجبین: خوشی کا اصل مفہوم کیا ہے تمھارے خیال میں؟ انجبین نے پلٹ کر دیکھا تو سوال کیا, سوال بھی اس مہان ہستی سے جس کو کبھی ایسی گہری باتیں سمج ہی نہیں آتی تھی۔
جبین نے کچھ دیر سوچا اور جواب دیا,
جبین: خوشی سے مراد کے تم اندر سے مطمئن ہو اس شادی کو لے کر, اس رشتے اس لڑکے کے لیے۔۔
انہی باتوں کے ہوتے ہوئے وہ دونوں انجبین کے کمرے میں داخل ہو چکی تھیں اور اپنی مرضی کے مطابق دونوں نے اپنی نشستیں سنبھال لی تھی۔
انجبین: میں خوش ہوں کہ میرے ماں باپ خوش ہیں۔ میرے لیے وہ لڑکا ابھی تک بلکل اجنبی ہے جبو, نہ ہم نے کبھی بات کی, ایک بار کے علاوہ تو وہ مرے سامنے بھی نہیں آیا۔۔ انجبین نےاپنا چہرہ تکیہ پر ٹکا لیا اور سہیلی کی طرف دیکھ کر جواب دیا۔
انجبین نے وہاب کے ساتھ پہلی ملاقات کا بتایا تو جبین کچھ لمحے خاموش رہی اور پھر بولی,
جبین: اس سب میں زیان کہاں رہ گیا, اس کی امی نے تمھیں اپنے بیٹے کے لیے کیوں نہیں مانگا؟
انجبین: ہو سکتا میں اسے پسند نہ ہوں, میں کون سی حور پری ہوں جو ہر کسی کے دل میں جگہ بنا لوں گی۔ ویسے بھی وہاب بلکل کسی رومانٹک ناول کا ہیرو لگتا ہے جانتی ہو بہت ضدی سا لگا مجھے تو,,,, انجبین خیالوں میں وہاب کی تصویر کشی کرتے ہوئے بولی۔
ہیرو لگتا ہے؟ مگر تم نے کب دیکھا اس کو؟ جبین نے خفا ہوتے ہوئے پوچھا،۔۔ وہ سچ مچ اس بات پر ناراض ہو رہی تھی۔
زیان کی بہن کی شادی میں آیا ہوا تھا, بدتمیزی بھی کی میرے ساتھ اس نے اور ڈانس کرنے کو بھی بولا۔ انجبین نہ جانے کون سے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی اور بولتے ہوئے اسے یہ تک نہ یاد رہا کہ وہ بات کس سے کر رہی ہے۔۔
انجبین کی بات ختم ہونے کے بعد کمرے میں خاموشی چھا گئی, انجبین نے پلٹ کر جبین کی طرف دیکھا ہی تھا کہ زناٹے دار تپھڑ انجبین کو آلگا۔۔ وہ حیرت سے جبین کو دیکھتی ہی رہ گئی۔۔
انجبین: جب جب جبو تت تم نے مجھے مارا؟ “ہکلاتے ہووئے انجبین نے بات مکمل کی”۔ چانٹا کافی قوت سے مارا گیا تھا انجبین کی حالت دیکھنے لائق تھی۔۔ آنسوں سے بھری آنکھیں اور اس پہ یہ لال ہوتا چہرہ۔۔
جبین: اپنی بکواس بند کرو, اتنے پیارے پیارے لڑکے کمینی اکیلی دیکھتی رہی یہ نہ ہوا کہ مجھ معصوم کو ایک تصویر ہی بھیج دے۔۔۔ اور یہ میں نے مارا کیوں کہ تم نے اس بدتمیز شخص سے شادی کی حامی کیسے بھر لی؟ بولو بتاؤ نا۔
انجبین چمک کر بولی “مرد تو ہونا ہی ایسا چایئے تیز مزاج کا, یو ناؤ دیٹ کہ مجھے ایسے مرد پرکشش لگتے کیا اب اس کے سامنے وہ معصوم سا زیان بچہ لگتہ ہے جبو بچہ, بس مونچھیں رکھنے سے کوئی مرد بن نہیں جاتا, مرد تو ایسا ہوتا۔ ایک دن بدتمیزی کی اگلے ہی روز رشتہ بھیج دے۔
جبین: یہ بھی تو ہو سکتا تمھیں وہ بس بدلہ لینے کو بیوی بنا رہا ہو اس حد تک بھی تو لوگ جا سکتے ہیں نا, جبین نے خوف زدہ سی شکل بنا کر انجبین کو دیکھا۔۔ جو اس وقت خود کو اس دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی سمجھ رہی تھی۔
جبین کی بات کا اس نے رتی بھر بھی برا نہیں منایا۔ اگلے دن کی شاپنگ کا پلان ترتیب دیا گیا اور اس کے بعد جبین اپنے گھر چلی گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...