“ماں کو تو بالکل فالتو سمجھ لیا ہے ناسجاول؟” وہ لوگ گھر پہنچے تو سبھی انہی کے انتظار میں تھے۔ لاؤنج میں بیٹھے سب سجاول سے گلے شکوے کرنے میں مصروف تھے۔ چونکہ عصر کا وقت تھا سو زہرہ بی اور گھر کے بڑے مرد حضرات اس وقت اس محفل کا حصہ نہ تھے۔ یہ وقت زہرہ بی گاؤں کی عورتوں کے ساتھ گزارتی تھیں۔
وہ قدسیہ بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا جب انہوں نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس سے گلہ کیا۔
“ارے امی ایسا سوچابھی کیوں آپ نے” وہ جھٹکے سے سر اٹھا کے سیدھا ہوتا ہوا بولا۔
“تو اور کیا سوچا جائے جب ہمیشہ ماں ہی کال کرے اور باپ بھی آواز خود ہی سنائے؟” وہ غصے سے بولیں۔
“امی اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں بھول ہی گیا ہوں آپ لوگوں کو” اس نے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ دھرے تو انہوں نے وہ بھی ہٹا دیے۔ یہ شدید غصے کا اظہار تھا۔
“میں مصروف ہی بہت ہوتا ہوں امی۔ دن رات کوئی نہ کوئی میٹنگ اور ہر وقت مینیجر کی کالز۔ سچ کہہ رہا ہوں ” اس نے گلےپر سے جلد کو دو انگلیوں سے کھینچتے ہوئے سچا ہونے کی دلیل دی۔
“ہاں جی تائی بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ دن رات کالز میں بہت ہی مصروف ہوتا ہے ” جبل نے لقمہ دیا تو وہ جو گلا پکڑے بیٹھا تھا فوراً دوسرے ہاتھ سے پیچھے بیٹھے جبل کی ٹانگ پر چٹکی بھری اور دانت پیس کر بولا ” بکواس بند رکھ”
وہاں بیٹھی غنویٰ کے علاوہ ساری نوجوان پارٹی میں تجسس پیدا ہو چکا تھا۔
“مجھے مت سناؤ مصروفیت والے بہانے ۔ میں بتائے دے رہی ہوں کہ اگر زہرہ بی نے ایک بھی لفظ تمہارے لیے اب کہہ دیا تو ہم نہیں ہاں نہ والی ٹال سننے والے تمہاری۔ صاف بات ہے کہ ہر بات میں اب میں بے اختیار ہوں تمہاری طرف سے” وہ بھری ہی بیٹھی تھیں۔ سجاول کو افسوس ہوا۔
“امی میں ہر بار سوچتا ہوں بس کوئی نہ کوئی مصروفیت نکل ہی آتی ہے ۔ میں اب دیکھیں پورے ہفتےکے لیے آیا ہوں کہیں نہیں جا رہا۔ جہاں باندھنا ہے باندھ دیجیے گا میں نہیں بھاگتا پورا ہفتہ کہیں بھی۔” اس نے پھر سے ہاتھ ان کے گھٹنوں پہ دھرے۔
“سجاول زمان! بات میرے ماننے کی نہیں ہے۔ بات ہے میرے مان کی۔ میں نے کتنے مان سے تمہاری سفارش کی تھی زہرہ بی سے ہر ہفتے آیا کرے گا ابھی جانے دیں کچھ سٹیبل ہو جائے تو ایک ٹھکانے پہ آجائیگا روٹین سیٹ ہو جائیگی۔مگر ایک بھی لفظ کا مان رہنے دیا ہو تم نے؟ یہ حبل اور جبل بھی تو ہیں ۔ سال ضائع کر لیا مگر ماں کا مان نہیں توڑا۔ کہیں گئے وہ دونوں؟ بتاؤ کہیں ایک بھی جگہ ماں کی اجازت کے بغیر جاتے ہوں؟”
ان کی اس بات پہ فجر کا “استغفراللہ” صاف سنائی دیا تھا جس سے جبل کا فخر سے اٹھنے والا سر فوراً نگوں بھی ہو گیا تھا۔ قریب ہی اک صوفے پر بیٹھے حبل نے فجر کو گھوری سے نوازنا لازمی جانا تھا۔
“تم بھی کم نہیں ہو فجر زمان ! میری ایک بھی اولاد نے مجھے وہ خوشی نہیں دی جو میں چاہتی تھی۔ تم نے نمل کی طرح ایک بھی بار خوشی سے کہا ہو کہ مجھے بھی پڑھنا ہے؟ ” قدسیہ کے کان میں اس کی آواز صاف پہنچی تھی تبھی انہوں نے اسے بھی سنانا بھی ضروری سمجھا۔
“ارے تم سے اچھی تو وہ اکرم بھائی کی بیٹی ہے پیسہ بھی کما رہی ہے محنت کا اور پڑھائی بھی نہیں چھوڑی۔ درمیان میں اس کی ماں بھی ہاتھ سے گئی بھائی بھی گیا ۔ باپ کا سہارا ہے بس۔ مگر دیکھو کیسے محنت کرتی ہے وہ بچی۔ تمہیں دیکھو تو سب سہولیات ہیں مگر وہی ہڈی میں ناقدری گھسی ہوئی ہے”
انہوں نے اسے شرم دلائی تو جہاں فجر کا سر جھک کے گردن کے ساتھ لگا تھا وہیں لاؤنج میں داخل ہوتے کومیل کو فخر سے سر اونچا ہوتا محسوس ہوا تھا جیسے اسی کی تعریف کی گئی ہو۔
“بھابھی میں تو خود تنگ آگئی ہوں اس کومیل سے۔ دیکھیں تین ہفتے بعد آج شکل دکھا رہا ہے ۔ بھلا ہم نے کیاپا بندیاں لگائی ہوئی ہیں جو یہ لوگ اتنا اکتا گئے ہیں ابھی سے ہم ماں باپ سے۔ رات ان کے ابو بھی پریشان بیٹھے انہی کا سوچ رہے تھے۔ وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا ہے ان سب نے ہمیں” کومیل پہ نظر پڑتے ہی آمنہ بیگم نے بھی اپنا حصہ ڈالنا لازمی سمجھا۔ وہ جو سر اور گردن تانے کھڑا تھا اب فوراً سے کہیں چھپ جانے کو جگہ تلاشنے لگا۔
غنویٰ کے لیے سب کچھ نیا تھا۔ سب لڑکے آج ہی اکٹھے ہوئے تھے ۔ سجاول اور کومیل کو پہلی بار دیکھا تھا مگر دیکھا بھی بھرپور شرمندگی میں ڈوبے ہوئے تھا سو مسکراہٹ آنکھوں میں ٹھہر سی گئی تھی۔ سب اونچے لمبے لڑکے اس وقت سر جھکائے بیٹھے تھے۔ لڑکیوں میں بھی منال اور اس کے علاوہ سبھی کے دل دھک دھک کر رہے تھے کہ کسی بھی وقت ان کی شامت آ سکتی ہے۔
“میں تو پہلے ہی کہتی تھی تم سب سے کہ لڑکوں کو گھر سے مت نکالو۔ گھر ہی واپس آئیں شام کو مغرب تک سب لڑکے گھر پر موجود ہوں ۔ مگر نہیں انہوں نے ضد کی اور تم لوگوں نے فٹ سے پوری بھی کر دی۔ نہ تو ان میں حیا باقی رہ گیا ہے اب اور نہ ہی عقل” زہرہ بی جانے کب وہاں آئی تھیں کہ کسی کو علم نہ ہو سکا تھا۔ حتیٰ کہ ان کے عصا کی آواز بھی نہ کوئی سن پایا تھا۔
ان کی آواز کان میں پڑنے کی دیر تھی کہ لاؤنج میں موجود ہر ذی نفس الرٹ ہوا۔ سجاول فوراً ان کی طرف آیا اور ان کو بازو سے پکڑ کر ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ سہارا دینے کا انداز تھا چاہے جیسا بھی تھا۔ مگر زہرہ بی نے یوں دیکھا جیسے جانتی ہی نہ ہوں۔
جبل اور حبل اپنے یہاں وہاں پھینکے ہوئے بیگز سنبھالنے لگے۔ کومیل تو پہلے ہی کھڑا تھا اب بھی سر جھکائے وہیں کھڑا رہا۔
لڑکیاں سب منتشر ہو چکی تھیں ۔ فجر نے سر پر لیا ہوا دوپٹہ مزید آگے کو کھسکایا۔ کل والی نصیحت بہت تھی اس کے لیے۔ نمل اٹھ کے کچن کی طرف گئی اور رانی کو بھی بلا لیا جو بہت مزے سے سب کی عزت افزائی سن رہی تھی۔ اجر جو صوفے پر بیٹھی موبائل پر لگی ہوئی تھی، اس نے موبائل ٹانگ کے نیچے چھپایا۔
غنویٰ اور منال البتہ آرام سے بیٹھی تھیں ۔
قدسیہ بیگم اپنی جگہ سے اٹھ گئی تھیں ۔ آمنہ بیگم نے پاس کھڑی جھاڑ پونچھ کرتی ہاجرہ کو کچن سے پانی لانے بھگایا تھا۔ کشور بیگ تخت پہ بیٹھی کپڑے تہ لگا رہی تھیں انہوں نے کپڑے سائڈ پہ کر کے زہرہ بی کے لیے جگہ بنائی۔
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئیں تخت تک آئیں اور عصا ایک طرف رکھ کر بیٹھ گئیں ۔ سجاول منہ تکتا رہ گیا مگر زہرہ بی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہ تھا۔
“زہرہ بی” ہمت کر کے مخاطب کر ہی لیا تھا ۔
“قدسیہ ! آج رات کے کھانے میں کیا بنا ہے؟” انہوں نے اسے بالکل ہی نظر انداز کیا۔
” آپ کے لیے شوربے والے کدو ہیں ۔ گوبھی آپ کے بیٹوں کے لیے ۔ اور پالک آلو ہیں بچوں کے لیے ۔ ” انہوں نے ہمیشہ کی طرح پوری رپورٹ دی۔
“ٹھیک ہےمیں اب کمرے میں چلوں گی۔ آمنہ مجھے کمرے تک چھوڑ آؤ” صاف اشارہ تھا کہ سجاول سامنے سے ہٹ جائے۔ اور سجاول تھا کہ اس وقت اسے جان کے لالے پڑے تھے۔ گھر کی سب سے مضبوط پارٹی روٹھی بیٹھی تھی تو خاک کوئی راز کھولتا۔ اس نے تو اب تک جبل اور حبل تک کو نہ بتایا تھا۔ وہ خود سے سب اندازے لگاتے تو الگ بات تھی مگر سجاول نے ایک بھی لمحہ افشانہ کیا تھا۔
وہ آمنہ بیگم کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف مڑ گئیں تو بالکل خاموش بیٹھی غنویٰ بھی اٹھی۔
“آپ کہاں جا رہی ہیں ؟” قالین پہ بیٹھی منال نے سر اٹھا کر پوچھا۔
“نماز ادا کرنے جا رہی ہوں” وہ آہستہ سے بولی۔
“ابھی تو اذانیں ہوئی ہیں بہن! ابھی سے جا رہی ہو” فجر بولی۔
“نماز وقت پہ پڑھ لینا ہی بہتر ہے ۔ لیٹ ہو گی تو نفس چھوڑ دینے پہ اکسائے گا۔ بہتر ہے اسے وقت پہ ادا کر لیا جائے۔ بعد میں ٹکریں مارنے کا کیا فائدہ؟” وہ بولی تو وہاں بیٹھی اجر اور منال سمیت فجر بھی جی بھر کے شرمندہ ہوئی تھی جبکہ کشور بیگم اور قدسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے نظروں کا تبادلہ کیا تھا۔ سجاول ، کومیل اور جبل، حبل نے بھی نظروں کا تبادلہ کیا مگر نوعیت مختلف تھی۔
وہ اٹھ کر کمرے کی جانب چل دی تو باقی لڑکیاں بھی نیا نیا ہوا اثر لیتے ہوئے نماز کی تیاری کرنے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لاؤنج سے سب کے نکلنے کے بعد وہ چاروں ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔ کوئی بات سوجھ نہیں رہی تھی سو سب نے اپنے موبائل نکالے اور واٹس ایپ کھول لیا جہاں چاروں کا ایک گروپ تھا ۔
اس گروپ میں چاروں ہر وہ بات کیا کرتے تھے جو گھر والوں سے مخفی رکھنا چاہتے تھے اور خصوصاً اس وقت یہ گروپ بہت کام آتا تھا جب سب لڑکیاں آپس میں سامنے بیٹھی پلاننگ کر رہی ہاتی تھیں اور یہ لوگ ان کی باتوں کو گروپ میں اسی وقت پہ ڈسکس کر کے اندرونی قہقہے لگا رہے ہوتے تھے۔
“اب یہ کون سی بلا تھی؟” سب سے پہلے سجاول کا میسج پوپ اپ ہوا(سامنے آیا)۔
“ہاں میں نے بھی پہلی بار دیکھی ہے۔” کومیل نے ٹائپ کیا اور سینڈ کر دیا۔ ان کے میسجز پڑ ھتے ہوئے جبل اور حبل نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اکٹھے ہی ٹائپ کرنے لگے۔
“اوئے تمیز سے رہ! بہن ہے میری وہ” جبل نے میسج لکھا اور بھیج دیا۔ سامنے تخت پہ لیٹا سجاول اور صوفے پہ ٹانگیں پسارے بیٹھا کومیل اکٹھے اٹھ بیٹھے تھے۔ چہروں سے صاف ظاہر تھا اب مذاق بنانے والے ہیں۔
“کیا ہے؟ بہن ہی ہے ہماری وہ۔ آئیندہ اس کے بارے میں یوں بات کرتے ہوئے سو دفعہ سوچنا سمجھے؟” حبل نے میسج ٹائپ کر کے بھیجا اور ان کو اشارہ کیا کہ موبائل چیک کریں۔
“گھر سے باہر رہ کر میرا معدہ کافی کمزور ہوگیا ہے ۔سخت چیزیں مجھے ہضم نہیں ہوتیں اب۔ سو مذاق نہ کرو ڈیولز(شیطانو!) مجھے ہضم نہیں ہو رہا۔” سجاول نے بہت سارے ہنسنے والے ایموجی بنا کر یہ میسج سینڈ کر دیا تھا۔
“ہی از ایبسولیوٹلی رائٹ بروز! سیم کنڈیشن ہئیر”
(وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے بھائیو! میری طرف بھی ایسا ہی معاملہ ہے )
کومیل کا بھی ہنسی روکتے ہوئے برا حال تھا۔
“بکواس بند کرو۔ بہن ہی ہے ہماری۔ ” یہ حبل کا میسج تھا جس میں اس نے سرخ مرچ جیسی غصے والی کئی ایموجی بنا ئی ہوئی تھیں۔
“امی کے کزن تھے ایک۔ وفات پا گئے ہیں۔ اِن کی کفالت کرنے والے افراد پہ چونکہ بوجھ تھیں سو امی نے یہاں بلوا لیا ہے۔ مطلب نہیں سمجھے تو مزید وضاحت میرے پیارے بھائی حبل زمان کریں گے۔ ٹو بی کن ٹی نیوڈ (جاری ہے۔۔)”
یہ میسج جبل کی طرف سے تھابہت ہی پیاری مسکراتی ہوئی ایموجی کے ساتھ۔
وہ آمنے سامنے موجود ہونے کے باوجود بھی میسج پر بات کر رہے تھے۔ نمل نے کچن سے جھانک کے دیکھا اور واپس رانی کو ہدایات دے کر باہر نکل آئی۔
“کومیل میرا فارم؟” وہ سیدھی کومیل کی طرف آئی تھی۔
“ہاں آپی وہ بیگ میں ہے۔ میں بعد میں دیتا ہوں ابھی بہت اہم کام ہے سوری ابھی تنگ نہ کریں ” اس نے میسج پڑھتے ہوئے نمل کو بھی جواب دیا تھا۔ نمل اسے ٹکر ٹکر گھورنے لگی تھی۔
“چھا لا دیتا ہوں نا آپی صبر بھی کر لیا کریں کبھی۔” اسے گھورتا دیکھ کر کومیل کو اٹھنا ہی پڑاتھا۔
“جبل ! میری تصویریں سکین کروا لائے ہو؟” اس نے ہمیشہ کی طرح حبل کے بجائے جبل کو مخاطب کیا تھا۔ حبل نے دل ہی دل میں دانت پیسے تھے۔
“نہیں بہن آج کام بہت تھے میں بھول گیا۔ سچ میں سیل بھی ابھی پکڑا ہے تو میسج دیکھا ہے تمہارا۔حبل سے پوچھ لو سچی!” جانتا تھا حبل سے تو اس کے فرشتے بھی نہ پوچھیں گے۔
“کل کروا دینا پلیز میں نے اٹیسٹ بھی کروانی ہیں ” نمل نے گھبرا کر فوراً سےاسے ہی اگلی بات بھی کہی اور سجاول کی طرف چلی آئی جو تخت پہ لیٹا کم اور بچھا زیادہ ہوا تھا۔
“کمبل لا دوں بھیا؟” اس کا کندھا ہلاتے ہوئے وہ بولی۔ حبل جی جان سے جلا تھا۔ لیٹا تو آخر وہ بھی ہوا تھا تو کیا اس کو ٹھنڈ نہیں لگتی تھی اس کے خیال میں؟ دل مزید جلا۔
“جبل تیرے پاؤں بھی ٹھنڈے ہو رہے ہیں کیا؟ میرے تو جم رہے ہیں ۔ کوئی کمبل لائے تو اپنے لیے بھی منگوا لئیں(لینا)۔” حبل نے نمل کو سنانے کو جبل سے کہا۔
جبل اور سجاول کا قہقہہ بلند ہوا تھا جبکہ نمل مکمل طور پہ بلش کر ہی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا وہ ایک دم سے بول پڑے گا ۔
“نمل میں ٹھیک ہوں ۔ تم چائے بنا دو ایک اچھی سی بس” سجاول نے اس کی خجالت دور کرنے کو کہا تو وہ کچھ بھی کہے بغیر کچن کی طرف چلی گئی۔
“کیا عجیب مخول (مذاق) ہے میرے ساتھ۔ باہر کی کوئی لڑکی اس کا بھائی نہیں رہنے دیتا میرے ساتھ اور گھر میں ا س نے کبھی خود نہیں بلایا مجھے” حبل جیسے جلاپڑا تھا۔
“شرم کر شرم اگر ہے تو۔ ” سجاول نے اپنے پاس پڑا ہوا کشن اٹھا کے اس کی طرف اچھالا جو اس نے فوراً اے پیشتر کیچ کیا تھا۔
“چل یار ابا کے پاس سے ہی ہو آتے ہیں ” سجاول کہہ کر اٹھا تو وہ دونوں بھی جوتے پہنتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سب نمل، منال کے کمرے میں تھیں جبکہ نمل کچن سے کام کرکے اب کمرے کی طرف آئی تھی۔ کمرے میں فجر اور منال نے اودھم مچا رکھا تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ سے ہٹ چکی تھی۔ نمل کمرے کے دروازے میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی۔
غنویٰ اور اجر جو آپس میں باتیں کر رہی تھیں اس کی اس حالت کو دیکھ کر ہنس پڑی تھیں۔
“آجاؤ جو رہ گیا ہے تم بھی بکھیر دو” اجر نے اسے چھیڑا۔
“لاؤ نی لاؤ مینوں شگناں دی مہندی
مہند ی کرے ہتھ لال میرے بنڑے دے” منال گانا گاتی اور ڈانس کرتی ہوئی فجر کے سامنے آتی اور فجر کوئی نہ کوئی چیز اسے مارنے کو ڈھونڈنے لگ جاتی تھی۔
نمل کی حالت پتلی ہو رہی تھی جب غنویٰ اٹھی اور ا س کی طرف آئی۔
“چلو یار کیوں دل پہ لے رہی ہو” اسے بازو سے پکڑ کر وہ اندر لے آئی اور بیڈ پر بٹھا دیا۔
یہ کمرہ بھی اجر اور فجر کے کمرے سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ تقریباً اسی طرز پہ ہی بنایا گیا تھا۔ بس بیڈز کی پوزیشن آمنے سامنے تھی۔ جبکہ اجر اور فجر کے بیڈز میں ایک الماری ہی کا فرق تھا۔
“میں یہ سب برداشت نہیں کر پا رہی غنویٰ ۔ میرا دل ڈوب رہا ہے ” نمل شاک میں تھی۔ ابھی صبح ہی تو رانی کے ساتھ مل کے پورے کمرے کی تفصیلی صفائی کی تھی اس نے۔
“میں ڈوب رہا ہوں ں ں ، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں ں ں۔۔
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں ں ۔۔۔” منال نے نمل کی بات میں سے لفظ ‘ڈوب رہا” سن لیا تھا سو اب اس کا اگلا گانا شروع ہو چکا تھا۔ اجر کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔ جبکہ غنویٰ نے بمشکل اپنی ہنسی کو روکا تھا۔
“میں اسے قتل کر دوں گی اجّی آپی روک لیں اسے”فجر چیخی تھی جبکہ نمل نے زمین پہ گرے کشنز اٹھا کر منال اور فجر کی طرف پھینکنے شروع کر دیے تھے۔ ایک جنگ تھی جو چھڑ چکی تھی۔ غنویٰ اور اجر نے خاموشی سے سب کاروائی دیکھنے کے لیے خود کو کمرے کے دائیں کونے میں پڑے صوفوں کی طرف گھسیٹا تھا کہ وہ اس وقت کمرے کا سب سے پُر امن کونہ تھا۔
“منحوسو ! آج ہی صفائی کی تھی میں نے پورے کمرے کی ۔ ستیاناس مار دیا ہے ساری محنت کا” نملان کی طرف گولہ باری کیے جا رہی تھی اور ان دونوں کو جگہ نہ ملتی تھی کہاں جا چھپیں ۔
“فجر اللہ پوچھے تجھے تیرے تو سامنے میں نے کمرہ صاف کیا تھا تو بھی دھوکہ دینے لگ گئی ہے ” اس نے ایک اور کشن تاک کے فجر کو مارا تھا وہ اوئی اوئی کرتی رہ گئی ۔
“اور تو منلی تو نے بھی بہن کا خیال نہیں کیا اللہ مجھے ایسے بچے دے جو تیرے بال کھینچ کھینچ کر گنجی کریں تجھے” اس نے ایک کشن زمین سے اٹھایا اور منال کی طرف پھینکا تھا اور وہ بے شک بالکل نشانے پہ لگا تھا۔ غنویٰ اور اجر کا ہنس ہنس کے برا حال تھا۔
“یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے تم لوگوں نے ؟ کوئی اور بھی رہتا ہے گھر میں ۔ کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے ؟ چھوٹی بچیاں ہو کیا اب؟ اور اجر تم کتنے مزے سے بیٹھی ہوئی ہو۔ یہ سب تمہیں دیکھ کر ہی خراب ہوئی ہیں۔ شرم کرو تم لوگ۔” قدسیہ بیگم اچانک کمرے میں آئی تھیں اور آتے ہی سب کی کلاس لینی شروع کر دی تھی۔
“غنویٰ بیٹا آپ کو زہرہ بی اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں۔” انہوں نے اسے اطلاع دی تو وہ جی اچھا کہتی ہوئی باہر کی جانب چل دی تھی۔ اس کے جانے کے بعد وہ پھر سے ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔
“ابھی کچھ دیر پہلے رو کے ہٹے ہیں تم لوگوں کی انہی فضول حرکتوں کو اور اب پھر وہی حال۔ کوئی شرم حیا کر لو ۔ انسانوں کا گھر ہے یا چڑیا گھر کہ جب دیکھو اودھم مچا ہوتا ہے” وہ اچھے خاصے غصے میں تھیں۔
“اجر ڈوب کے مر جاؤ سامنے بیٹھی مزے لے رہی ہو۔ بڑی ہو ان سب سے۔ کوئی اتہ پتہ نہیں کہ دادی بھی یہیں ہوتی ہیں ۔ ان کا ہی لحاظ کر لیا کرو ۔ مگر سب شرم حیا ختم ہو چکی ہے تم لوگوں میں ”
اب جیسے ہر طرف موت سی خاموشی تھی۔
“اجر کچن میں چلو آج روٹیاں تم بناؤ گی۔ فجر ابھی میٹھے میں کچھ نہیں بنا ہوا۔ تم بناؤ گی اور اب دونوں دفعہ ہو جاؤ۔ منال تم رانی کے ساتھ چھت سے اور باہر لان سے کپڑے اتار کر لاؤ گی۔ نمل کمرہ سیٹ کرو تم۔ اور اب اگر ایک بھی آواز آئی تو بہت بری پیش آؤں گی میں” انہوں نے سب کو کام پہ لگایا اور باہر نکل گئیں۔ نمل ، فجر اور منال نے ایک دوسرے کو منہ چڑایا اور اپنے اپنے کام نپٹانے نکل گئیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...