جب سے اُنہوں نے اُس سے بات کی تھی ، اُسے بے چینی نے گھیر رکھا تھا۔ اُن کی کہی باتیں سو فیصد ٹھیک تھیں۔مگر اُس کے پاس اِس سب کا حل طلاق تھا اور نہ ہی واپس جانا۔ اُسے اپنی بات کا بھرم عزیز تھا۔ آخر مرد تھا اپنی غلطی تسلیم کرنے میں زندگی ختم کر دیتا ، بھلے دِل کُرلاتا رہتا مگر انا اور ضد ختم نہ ہوتی۔ لیکن ظاہر ہے وہ واپس نہ جاتا تو بابا اُس سے پُوچھنے کی زحمت کیے بغیر اپنا فیصلہ سُناتے اور ہر صورت میں اُس سے عمل بھی کرواتے اور وہ بے بس سا دیکھتا رہ جاتا۔
وہ باہر نِکلا اور اپنے اپارٹمنٹ کے چھوٹے سے لان میں چلا آیا۔
اُسے ہر حال میں مما کو ہاں یا نہ میں جواب دینا تھا۔ اُسے کیا کرنا تھا وہ نہیں جانتا تھا ۔ لا متناہی سوچوں نے اُسے گھیر رکھا تھا۔
“میں ہی کیوں اکیلا اِس عذاب میں ہوں۔ دُور تو وہ بھی ہوئی تھی۔ پھر اب فیصلہ اُس سے کیوں نہیں مانگا جا رہا۔ اب کیوں خاموش ہےوہ”
“یقیناً وہ بھی یہ تعلق توڑنا نہیں چاہتی” دِل خوش فہم ہوا۔
“نہیں ۔ اُس نے کہہ دِیا تھا کہ اب میں نہیں آؤنگی کبھی۔” اُس نے دِل کو ڈپٹا مگر دِل کےڈُوبنے پر تکلیف خود کو ہوئی تھی۔
” تم غلط بیانی کر رہے ہو ۔ اُس نے کہا تھا جب تک تمہارا ذہن گوارہ نہ کرے تب تک ہم ایک دوسرے کا سامنا نہیں کریں گے” دِل چوٹ سہتا ایک بار پھر سے کھڑا ہوا تھا۔
” تو وہ چُپ کیوں ہے؟ مجھ پر ہی سب ملبہ کیوں گِر رہا ہے؟” وہ کُرلایا۔
“کیوں کہ ابتداء تُم نے کی تھی” دِل نے ہولے سے کہا اور گہرائی میں اُسے ڈھونڈنے کو ڈوبا جِسے شعوری کوشش میں گنوا دِیا گیا تھا۔عُنید نے بے اِختیار دِل پر ہاتھ رکھا تھا۔ دِل کی بات رُوح تک میں گھاؤ لگا گئی تھی۔
“ہاں شاید یوں ہی کُچھ تھا” وہ ٹھنڈی گھاس پر بیٹھتا چلا گیا۔”اُسے کچھ تو میرے درد کا اندازہ ہوگا” وہ رونے لگا۔ بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ درد کی شدت سے دُہرا ہوگیا۔
“عُنید تُم مجھے سوچا کرو گےکیونکہ تب صرف سوچوں کی گُنجائش ہوا کرے گی” دُور کہیں سے وہ آواز آئی تھی ۔وہ بے چین ہو ہو گیا۔اُس کے پاس واقعی اب بس سوچیں تھیں۔
“بات کوطُول مت دو۔ وہ بہت ہی معمولی بات تھی۔ وہ بھول چُکی ہو گی اور تمہارا اِنتظار کرتی ہوگی” دِل ایک بار پھر سے دھڑکا تھا۔
“میں کیسے اُس کا سامنا کرونگا” وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگا جہاں چھوٹی چھوٹی بدلیوں نے چاند کو چُھپایا ہوا تھا۔ اُسے بے اِختیار وہ یاد آئی تھی ۔ وہ آنکھیں میچے دُکھ کو اندر گہرائی میں اُتارنے لگا۔
“یااللہ! جیسے میرے دِل میں اُس کے لیے بھلائی ڈالی ہے اِسی طرح اُس کا دِل بھی میرے لیے بھلائی پر آمادہ ککر دے۔ میں اُسے وہاں سوالیہ نشان بنا کر چھوڑ آیا ہوں ۔ اُسکا محرم ہو کر بھی کُچھ حیثیت نہیں میری۔ تُو نے اُسے میرا بنایا تھا یہ تیرا فیصلہ تھا اللہ۔ میں نے تیرے فیصلے کی نفی کرنی چاہی۔ مُجھے معاف کر دے میرے اللہ میں بےبس ہوں۔ میں تجھ سے دُنیا کی عورتوں میں سے وہ مانگانگتا ہوں جِسے تُو نے میرے لیے پسند کیا اور میں اُسے ٹھکرا آیا۔ اللہ میرا دِل اگر پھیر دِیا ہے تو عقل کو بھی وسوسوں سے نِجات عطا کر۔ اللہ ! مجھے اپنے سب فرائض ادا کرنے کی توفیق دے۔ اللہ !مُجھے موقع اور ہمت دے میں اُس کے پاس جا کر اپنی کم ظرفی کا کُھلے دِل سے اعتراف کر سکوں”
وہ وہیں گھاس پر سجدے میں گِرا زارو قطار رو رہا تھا۔
کہاں لے جاؤں گا تجھ کو، شبِ تاریک میں اس وقت
اے میرے دکھ! میں بے بس ہوں، میرے پہلو میں ہی سو جا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“اے آنکھیں بند رکھو ناں” پرِیا نے اُسے آنکھیں کھولتی دیکھا تو اُسکے سر پر چپت لگائی۔ وہ فوراً آنکھیں بند کر گئی۔
نینی سونے جا چُکی تھیں جبکہ پرِیا اُسے لیے اپنے سٹوڈیو میں آگئی تھی۔ اپنی پینٹنگ تو وہ اُس دِن مکمل نہ کر پائی تھی مگر اب اُسے یاد آیا کہ ابھی بھی اُس کے پاس ایک چیز تھی جو تحفتاً اُسے دے سکتی تھی۔
” آنکھیں کھول لیں مادام ! سرپائز اِز ویٹنگ فار یو” پرِیا کے کہتے ہی اُس نے پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں۔ وہ سامنے کہیں نہیں تھی۔
” پیچھے” پرِیا نے ہدایت کی۔
” وہ پیچھے مُڑی تو آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ پرِیا نے سامنے ایک کینوس کو بہت ہی پیارے رِبن سے باندھا ہو اتھا ۔
” امیزنگلی ایڈوریبل” وہ بے اِختیار بولی تو پرِیا شرارت سے ابرو اچکائے اسے دیکھنے لگی۔
“تُم یا پینٹنگ؟” وہ صرف مسکرا دی۔ سامنے کینوس پر عُنیزہ کی ہی تصویر بنائی گئی تھی۔
“تُم جب فرسٹ ٹائم ملی تھیں وہاں ہال میں۔ تب تمہارے یہی ایکسپریشنز تھے” وہ مسکراتی ہوئی ایک طرف پڑا اسٹول کھینچ کر بیٹھ چُکی تھی۔
عُنیزہ کو سمجھ نہ آیا کہ وہ اب آگے کیا بولے۔
چلو آؤ کافی بناتے ہیں پھر باہر لان میں بیٹھ کر اِنجوائے کرتے ہیں ٹپیکل ایشین بن کر” پرِیا اُس کا ہاتھ پکڑ کر اسٹوڈیو سے باہر کی طرف چل دی۔
کچن میں آکر دونوں کافی بناتے ہوئے بھی باتیں کر رہی تھیں۔
“میری بہن مجھ سے زیادہ خوش ہوگی اور دیکھنا تمہاری اب وہ دِن رات جان کھایا کرے گی کہ مُجھے بھی بنا کر دو” عُنیزہ کافی پھینٹتے ہوئے بولی۔
” اور مُجھے اچھا لگے گا جب وہ مجھ سے فرمائش کرے گی” پرِیا نے دُودھ گرم کیا اور عُنیزہ نے کافی مکس کی۔ کریم ڈالنے کے بعدہلکا سا کافی پاؤڈر چھڑکا ، مگ اُٹھائے اور باہر کی طرف چل دیں۔ رات پُورے جوبن پر تھی ۔ لان میں ایک طرف ایک میز اور دو کُرسیاں رکھی گئی تھیں۔ وہ دونوں چلتی ہوئی اُس طرف آئیں ۔
“عُنیزہ” پرِیا نے کُرسی پر بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
“جی” عُنیزہ اُس کے اپنا نام بولنے پر حیران ہوئی تھی ۔
“تُم ہر وقت حِجاب میں کیوں رہتی ہو؟” پرِیا نے کہا تو وہ مُسکرا دی۔
“تا کہ میں راستوں سے گُزروں تو میری پہچان ہو جائے کہ میں مُسلمان ہوں”
“عُنیزہ میں بھی حِجاب لینا چاہتی ہوں” پرِیا نے تھوڑا سا آگے ہوتے ہوئے کہا۔
“تو لے لیا کرو اِس میں مُشکل کیا ہے” وہ مُسکرا کر بولی۔
“ہے مُشکل ۔ لوگ آپ کو ایکسیپٹ نہیں کرتے۔”
“لوگوں کی عادت ہے۔ تُم کچھ بھی کرو کیڑے نکالیں گے ہی۔ اور تم یہاں لیتی بھی ہو حِجاب تو کوئی تمہیں پرسنلی نہیں کچھ کہنے والا۔ایسے لوگ ہمارے پاکستان اور اِنڈیا میں یہاں کی بہ نسبت زیادہ ہیں اور تُم تو۔۔۔۔”
“میں مُسلمان ہونا چاہتی ہوں” پرِیا اچانک سے بولی تھی تو عُنیزہ رُکی تھی۔ دِل نے بیٹ مِس کی۔
” تُم نے اِسلام کو اسٹڈی کیا ہے؟” وہ آہستہ سے بولی۔
” ہاں! میں نے اپنی ماں سے اِسلام کی باتیں سُنی ہیں۔ اُنکی خواہش تھی کہ وہ اِسلام قبول کر لیں۔ اُنہوں نے قُران کا ترجمہ نہیں پَڑھا تھا ۔ اُنہوں نے اس کے لیے باقاعدہ عربی سیکھی تھی۔” مگ میز پر رکھا اور اوپر چاند کو دیکھنے لگی جو کبھی بدلیوں میں چھپتا اور کبھی چھب دکھا جاتا۔ اتفاقاً آج موسم اچھا تھا کہ برف باری کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا۔
” ڈیڈی پُوری طرح ممی کے ساتھ تھے۔ وہ ممی کے ساتھ ہی اِسلام قُبول کرتے ۔ مگر جب سب کچھ سوچا جاچکا تو ممی اچانک سے ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں” وہ بولی تو لہجے میں ڈھیروں اُداسی تھی۔ عُنیزہ بس خاموشی سے اُسے دیکھتی رہی۔
“ممی کی ڈیتھ کے بعد ،ڈیڈی یہاں شفٹ ہو گئے۔ اُنہوں نے میری تربیت کے لیے کوئی عیسائی ، ہندو یا کسی بھی اور مذہب کی گورنس نہیں چُنی۔ وہ اب بھی کہتے ہیں کہ میں ایک ایسی عورت کی بیٹی کو کسی غیر مذہبی کے ہاتھ کیوں تھما دیتا جو اِسلام کی عاشق تھی۔ اُن کا اِنتخاب نینی تھیں ۔ کیونکہ وہ مُسلمان تھیں ۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ خود اب مُسلمان ہوجائیں ۔ مگر اُنہوں نے پہلے اسلام کا مُطالعہ کرنا شروع کیا۔ ممی کی طرح عربی تو اُنہوں نے نہیں سیکھی مگر ہر قسم کا ترجمہ پڑھ کر دیکھا۔ اور اِتنے سالوں بعد۔۔۔ جب آج اُن کی کال آئی شام میں۔ اُنہوں نے کہا پری میں آنے والا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ اِسلام قبول کروں” وہ بات کرتی ہوئی ننگے پاؤں ٹھنڈی گھاس پر چلنے لگی تھی۔ عُنیزہ نے بھی اُس کی تقلید میں اپنے پاؤں سلیپرز سے آزاد کیے اور اُس کے ساتھ چلنے لگی۔
” یہ سب اسٹڈی تو تُمہارے والدین کی تھی پری۔ تمہاری اپنی ریسرچ کہاں ہے؟” وہ جو تب سے خاموش تھی پرِیا کے رُکنے پر بولی۔
” میں نے اسٹڈی نہیں کیا۔ میں نے سیکھا ہے۔ نینی نے مُجھے نماز تک پڑھنا سِکھایا ہے عُنیزہ۔ اور جو سکون مجھے نماز میں آتا ہے وہ سکون مجھے ممی ڈیڈی کی یاد میں بھی نہیں آتا۔ میں بہت زیادہ نماز نہیں پڑھتی ہوں۔ مگر جب پڑھتی ہوں تو مجھے نہیں ہوش ہوتا کہ میں کہاں ہوں” وہ بھیگی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی جبکہ عُنیزہ کے دِل میں سکون اُتر رہا تھا۔ اُسے اپنا آپ اُس سے بہت چھوٹا لگا، مگر اُس کے ساتھ ہونے پر دِل خوش تھا، اللہ نے اب کی بار بھی اُسے مُنفرد لوگ عطا کیے تھے۔
“تمہیں پتہ ہے ہندومت کی پُرانی اور اصل ورژن کی کتابوں میں بھی پرافٹ محمدﷺ کا ذِکر آتا ہے” وہ ایک دم سے پُر جوش ہوتی اُس کی طرف مُڑی تھی۔ وہ مُسکرا دی۔
” تمہیں عجیب لگا کیا؟” پرِیا بولی تو وہ جو بس اُسے دیکھ رہی تھی اُس نے اُسکا ہاتھ تھام کر لَو سینڈوچ (دونوں ہاتھوں کے درمیان اس کا ہاتھ رکھ کر) بناتے ہوئے تھوڑا اونچا ہو کر اُسکا ماتھا چُوما تھا۔ پرِیا کُھل کر مُسکرا دی۔
” مُجھے بہت اچھا لگ رہا سب کُچھ ۔میں بھی لوگوں سے زیادہ گھلتی ملتی نہیں ہوں تمہاری طرح پری۔ اور جب تُم مجھے ملی تھیں مجھے بُرا لگا تھا۔ لیکن آج سمجھ آرہا ہے۔ اللہ کے فیصلے ہمارے فیصلوں سے ہمیشہ افضل ہوتے ہیں۔اُس نے خود مُجھے تُم سے ملوایا تھا” وہ جھلملاتی آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔
“عُنیزہ میرے لیے ایک دُعا کر وگی؟” وہ بولی ۔
“ہاں ناں شیور!” وہ مُسکرائی تھی۔
“دُعا کرنا کہ وہ اپالو کو اُسکی بیلرینا مل جائے” وہ اُداس سی بولی اور واپس ٹیبل کی طرف چل دی۔ جبکہ عُنیزہ حیران ہوئی ۔
“کیا ہوا بھئی؟ ” اُس نے ویسی ہی حیرانگی سے سوال کیا۔
“کیا ہونا تھا۔ کُچھ بھی نہیں ہوا” پرِیا نے کہا اور اپنا خالی مگ لیے اندر کی جانب بڑھنے لگی۔
” جی نہیں ! میڈم پرِیا دی گریٹ آرٹسٹ کسی کے غم میں مبتلا ہیں” اُسنے ساتھ چلتے ہوئے اپنا کندھا اُس کے کندھے کو مارتے ہوئے اُسے چھیڑا۔
” جی نہیں ٹو یو ٹو! میں کسی کے غم میں مبتلا نہیں ہوں”وہ اُسے گھورتی ہوئی آگے بڑھی۔
” لگ تویوں ہی رہا ہے” عُنیزہ فوراً سے اُس کے سامنے آئی تھی۔
” حد ِ ادب گستاخ! میں نے ایسا غم نہیں پالا ابھی” وہ بولی۔
” آہم آہم! گستاخی معاف حضور مگر کنیز کو آپ گل و گلزار ہوتی نظر آ رہی ہیں” عُنیزہ آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی تو پرِیا نے اُس کے بازو پر چُٹکی بھری۔
“رہنے دو ایک تو بہت ہی سڑا ہوا بندہ ہے دوسرا وہ کسی اور کا ہو چُکا ہے تیسرا اِتنے حسین لوگوں کو اپنا بہت زعم ہوتا ہے ۔ میں سادگی پسند ہوں مجھے جو پسند آئیگا وہ بہت عام سا ہوگا مگر بہت خاص ہوگا دیکھنا تم بلکہ بیٹ لگا لو” اُس نے آخر میں ہاتھ آگے بڑھایا تھا مگر عُنیزہ نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگا کر زور سے بھینچا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج اُسے اپنی سب پینٹنگز کو فریمز میں سیٹ کروانا تھا اور جو پینٹنگ وہ مکمل نہ کر پائی تھی وہ بھی مکمل کرنی تھی جبکہ عُنیزہ کو یونیورسٹی جانا تھا ۔ اُس کا فائنل سمسٹر چل رہا تھا۔پرِیا نے اُسے ساتھ چلنے کی آفر کی کہ اُسے ڈراپ کر دے گی۔ ددونوں نے ناشتہ کیا اور باہر آگئیں۔ پرِیا تو ویسے بھی آج کل بہت خوش تھی ۔ایک تو عُنیزہ کو گھر لے آئی تھی دوسرا ڈیڈ کی فلائٹ بھی کنفرم ہو چُکی تھی۔اور خوش تو عُنیزہ بھی بہت تھی۔ اُسے یہاں ہر طرح کا سکون مُیسر تھا۔
پرِیا کو اپنے ڈیڈ کے آنے سے پہلے اپنے سب کام ختم کرنے تھے تا کہ اُن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گُزار سکے۔ اُسے بے چینی سے اُن کا اِنتظار تھا۔ وہ پانچ ماہ بعد آرہے تھے۔
وہ دونوں ہلکی پھلکی باتیں کرتی ہوئی جا رہی تھیں۔ اُس نے آج عُنیزہ کی مما اور بہن سے بھی بات کی تھی اور عُنیزہ کی بہن اُس سے بات کر کے بہت خوش تھی۔ اُس نے اُسے اپنا بھی اسکیچ بنانے کو کہا تھا۔ اور پرِیا فوراً راضی ہو گئی تھی جس پر وہ مزید خوش ہوئی تھی۔
وہ لوگ عُنیزہ کی یونیورسٹی پہنچ چُکی تھیں۔ اُس کے ڈیپارٹمنٹ کے پارکنگ ایریا میں اُسے اُتار کر اُس نے گاڑی ریورس کی اور اُسے آواز دی”جب فری ہوئی ،بتا دینا میں ہی پِک کرو ں گی ۔ کلئیر؟”
” میں نے یونیورسٹی کے بعد سٹور پر بھی جانا ہے۔ خود آجاؤنگی۔ تُم گھر پر ٹِک کر میرا ویٹ کرنا” وہ گاڑی کی کھڑکی کی طرف جھکی ہوئی بولی۔
“بہتر سرکار” وہ سینے پہ ہاتھ رکھے تھوڑا جھک کر بولی تو عُنیزہ مُسکرا دی۔
“فی امان اللہ” عُنیزہ نے کہا تو وہ جوگاڑی آگے بڑھا رہی تھی، ٹھٹکی۔ اُسے بے اِختیار اپنی ممی یاد آئی تھیں۔ وہ بھی ہمیشہ یوں ہی اُسے یوں ہی رُخصت کیا کرتی تھیں۔
وہ مُسکرا دی۔ بہت عرصے بعد اُس نے یہ الفاظ سُنے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فریمز کروانے کے بعد شام میں وہ فارغ تھی۔ اُس نے پارک جانے کا سوچا تا کہ اُس دن رہ جانے والی پینٹنگ کو مکمل کر سکے۔
اُس نے پینٹنگ کو ایزل میں سیٹ کیا اور اُسے تلاش کرنے لگی جو آج وہاں نہیں تھا ۔ اُس نے گہری سانس اندر کھینچی ، کندھے اُچکائے اور اُسی کی مخصوص نشست کی طرف چل دی۔
وہ تقریباً ایک پُرسکون جگہ تھی۔ بینچ پر بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا اُس نے اندر کھینچی اور جھیل پر نظریں جما کر منظر ذہن میں لانے لگی جو اُس دن اُس نے دیکھا تھا۔
واپس نگاہیں کینوس پر ٹکائیں اور برش کو پینٹ میں بھگو کر اسٹروک لگانے لگی۔
“ہئے!!” وہ اتنی مگن تھی کہ اُسکی آواز سے اُچھل پڑی۔
‘یہ ابھی تو یہاں کہیں نہیں تھااچانک کہاں سے حاضر ہوا’اُس نے سوچا اور کینوس پر سے نظریں ہٹا کر اُسے دیکھتے ہوئے مسکرا دی۔
” ہائے! کیسے ہو؟”
“کمپلیٹ نہیں ہوئی؟” وہ اُس کے سوال کو نظر انداز کرتا ہوا بولا اور اُس کے دائیں طرف آ کر بیٹھ گیا۔
” نہیں” پرِیاکو اُس کا سوال کو گول کر جانا اچھا نہیں لگا تو وہ رُکھائی سےبولی۔
“سوری” وہ شرمندہ ہوا۔ پرِیا حیران ہوئی ۔’اسے پتہ لگ گیا کہ مجھے بُرا لگا ہے’
” فار واٹ؟” اُس نے پوچھنا مُناسب سمجھا۔
“اُس دن میں نے تمہارا بہت ٹائم لیا تم یہ مکمل نہیں کر پائیں” وہ بولا تو پرِیا کے ماتھے پر بل پڑے۔ پھر ٹھنڈی سانس بھرتی ہوئی بولی”اِٹس اوکے”
اب دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ نہ تو پرِیا کے پاس کُچھ بولنے کو تھا نہ ہی اُس کے پاس۔ وہ اچانک کھڑی ہوئی پینٹنگ کو ایزل سے اُتارا اور ایزل کو فولڈ کیا۔ وہ سوچتی آنکھیں سے اُسے دیکھ رہا تھا، اپنا کام کرنے کے بعد وہ اُس کی طرف مُڑی۔
“چلو آج نینی کے ہاتھ کی کافی پلاتی ہوں” اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کھڑا کرتے ہوئے کہا۔
” تمہاری پینٹنگ ابھی بھی مکمل نہیں ہوئی ” اُس نے ایک بار پھر بات کو بدل دیا۔
” تم مجھے نہیں گھما سکتے ویسے۔ یہ ایزل پکڑواور آؤ” اُس نے اُس کے ہاتھ میں ایزل دیا پینٹنگ اور برش باکس خود پکڑتے ہوئے آگے کو چل دی جبکہ وہ حیرانگی سے اُسے دیکھتا رہ گیا۔
تھوڑا آگے جا کر جب پرِیا کو احساس ہوا کہ وہ پیچھے نہیں آرہا تو وہ پلٹی ا ور اُسے گھور کر پیچھے آنے کا اِشارہ کیا۔
وہ گہرا سانس بھرتا اُس کے پیچھے چل پڑا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...