” لِسن ۔ لِسن ماہی !!” وہ اپنی کلاس فیلو سے بات کرتی ہوئی کلاس کے اندر جارہی تھی جب اسے صبار کی آواز سنائی دی ۔اس نے مسکرا کر پیچھے دیکھا۔
” ایس بی !تو؟ ” وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساسات سے لبریز صبار کی جانب بڑھ گئی ۔
” وہ ۔۔۔ میں۔۔” وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔
” کیا؟”
” میں تجھے پروپوز کرتے وقت یہ دینا بھول گیا تھا ۔” صبار کے ہاتھ میں سرخ گلاب کا ایک پھول تھا ۔
” wow ” حمائل نے بڑی خوش دلی سے گلاب صبار کے ہاتھ سے لے لیا ۔
” Its lovely لیکن تو ابھی کیوں دے رہا ہے ۔؟” اس نے صبار کو ٹوکا ۔
” پتا ہے ایک month پورا ہو گیا ؟”
” تو کیا ہوا ؟” اس وقت دیتا تو تجھے عام سی بات لگتی ۔ ابھی دے رہا ہوں ۔ ہمیشہ یادر رہے گا۔delayed rose”۔۔۔. ”
” یہ کہاں سے ملا ؟” حمائل نے گلاب سونگھتے ہوئے پوچھا۔
” اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لان سے ۔” صبار نے سچ بو ل دیا ۔
” وہاٹ ؟ ایس بی ! تو یہ توڑ کے لایا ہے ۔؟” وہ ناراض ہوتے ہوئے بولی ۔
سوری میں بھول گیا تھا کہ میں نے مالی سے محبت کی ہے ۔” صبار کے انداز میں شرارت تھی ۔
وہ خفیف انداز میں مسکرائی ۔ آئندہ شہر کے سب سے بڑے فلاور شاپ پہ جا کے سب سے پیارے rose تیرے لیے لاؤں گا ۔” اس کے کان میں بول کر وہ جانے کو مڑا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اصغر کا فون آیا تھا ۔اس کا امتحان شروع ہو گیا تھا اور اس نے دینا سے دعا کرنے کی درخواست کی تھی ۔
یااللہ اس کو اس امتحان میں اور مجھے اس امتحان میں پاس کردے ۔” اس نے تہ دل سے دعا مانگی اور جائے نماز بچھا کر عصر کی نماز پڑھنے لگی ۔
” نماز پڑھنے کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ ” یااللہ! مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ مجھے کو ئی راستہ نہیں دکھ رہا ۔ تو ہی سب کچھ جانتا ہے اللہ !تو ہم پر رحم فرما ۔ ہماری آزمائشوں کو ختم کردے ۔ آمین۔” اس نے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر دے ۔ کبھی کبھی دل میں اتنے در د اٹھتے ہیں کہ زبان ان کی ترجمانی سے محروم ہوتی ہے ۔
وہ دل پر ایک بھاری بوجھ لیے جائے نماز سے اٹھی اور طاق سے قرآن پاک اٹھا کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ وہ سورة طہٰ کی تلاوت کرنے لگی ۔” اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے ۔” آیت نمبر 26 پر پہنچ کے وہ لمحہ بھر کو رک گئی اور میرے کا م کو مجھ پر آسان کردے ۔” وہ اسی کا ورد کرنے لگی ۔ اور میرے کام کو۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہ گئے ۔” اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے۔” وہ رونے لگی ۔
” یااللہ ! ہم ٹوٹتے ہیں ۔ بکھرتے ہیں پھر جڑتے ہیں اور جیتے ہیں ۔۔ یااللہ !تو ہی ہمارا کارساز ہے ۔اللہ ! اس ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل کو میرے لیے آسان فرما اور پھر سے جڑنے میں میری مدد فرما ۔” وہ سسکنے لگی اور میرے کا م کو مجھ پر آسان کر دے ۔” وہ اسی آیت کا ورد کرتی گئی ۔ آنسوؤں کے سمند ر تھے جو آنکھوں سے بہ کر گالوں پر پھیل جاتے ۔
” میرے اللہ ! میرے کارساز! ” وہ ہچکیاں لینے لگی ۔ اس کے اشکوں کی لڑیاںٹھوڑی تک بہتی گئیں پر آج وہ ان آنسوؤں کو نہیں پونچھ رہی تھی ۔ ان آنسوؤں نے اللہ کے سامنے آزادی سے بہنا تھا۔وہ واحد ذات جو کسی کی آنکھوں سے بہنے والے ایک قطرہ پانی کو بھی بے مول نہیں ہونے دیتا ۔ اس کے سامنے بہنے والے اشکوں کے سمندر کی تو بڑی قیمت ہوتی ہے ۔وہ روتی رہی ، سسکتی رہی۔ اسے یقین تھا اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ اسے سن رہا ہے اور اب اسے لگ رہا تھا جیسے اس کا دل ہلکا ہو گیا ہے ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ ڈریسنگ روم کی دیوار پہ لگے فل سائز مرر کے سامنے کھڑی صبار کا دیا ہوا گلاب سونگھ رہی تھی۔” میں تجھے پروپوز کرتے وقت یہ دینا بھول گیا تھا ۔” وہ مُسکرائی ۔” ابھی دے رہا ہوں ۔ ہمیشہ یاد رہے گا۔ delayed rose۔۔۔ ” ایک حسین سے احساس نے اسے اپنے حصار میں لے لیا ۔
delayed rose۔۔۔ ” اس نے زیر لب دہرایا اور اس گلاب کو سکاچ ٹیپ کی مدد سے آئینے کے ایک کونے پہ چپکا دیا ایک چٹ پر delayed rose لکھ کر اس نے گلاب کے نیچے چپکا دیا اور دیر تک کھڑی اس کو دیکھ کر مسکراتی رہی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
آپ کی زندگی میں ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں آپ کے سامنے بہت سارے راستے ہوتے ہیں اور ان کئی راستوں میں صرف ایک ہی راستہ منزل کی طرف جاتا ہے ۔ لہٰذا کئی راستوں میں آپ کو صرف ایک راستہ چننا ہوتاہے جو آپ کو آپ کی منزل تک پہنچا دے، لیکن یہ عمل آسان نہیں ہوتا ۔
اس نے دودھ ابال کر گلاس میں ڈال دیا ۔” دودھ دیکھ کر پھر سے شکلیں بنائے گی وہ ۔” دینا کمرے کے اندر جاتے ہوئے بڑبڑائی ۔
” اوہ ! دودھ۔۔۔”دینا کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس دیکھ کر مرینہ جھنجھلائی۔
” ہاں جی ! دودھ۔۔۔” دینا نے دودھ کا گلاس میز پررکھ دیا ۔
اب اٹھو شاباش ! تنگ نہ کرو ۔” وہ مرینہ کو بٹھانے لگی ۔
“نا بجیا! پلیز ۔۔ مجھے دودھ نہیں پینا ۔” مرینہ نے سماجت کی اور بدستور لیٹی رہی ۔
” یہ سب تو تجھے اچھل کو د کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ ” عرینہ الماری سے کپڑے نکالتے ہوئے بولی ۔
” میں اچھل کود تھوڑی کررہی تھی ۔ وہ تو سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میرا پیر پھسل گیا اور موچ آگئی۔ ” مرینہ نے ناراضی سے کہا ۔
” بس ! جو بھی تھا لیکن ڈاکٹرنے کہا ہے پندرہ دن تک پلستر نہیں اترے گا ۔” دینا نے یاد دلایا ۔
“اور تب تک تمہیں اچھی غذا کھانی چاہیے جس سے تمہیں طاقت ملے ۔”
” لے !طاقت؟ اے دینو! تو مجھے بتا کہ تو اس کو باکسنگ کیلئے بھیج رہی ہے جو طاقت والی غذا کھلا رہی ہے ؟” عرینہ اپنے کپڑے پلنگ پر پھینک کر مرینہ کے پلنگ کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی ۔
” تم خدارا خاموش رہو تھوڑی دیر کے لیے ۔” دینا نے عرینہ کو ٹوکا ۔
” اور تم ! اٹھتی ہو یا بلاؤں بڑی ماں۔۔۔” وہ کہتے کہتے رکی ۔” جس عورت کا نام لے کر میں پوری زندگی مرینہ کو ڈراتی رہی آج وہ عورت کمرے کے کسی کونے میں بیٹھی تسبیح پڑھ رہی ہوگی ۔ اس نے تاسف سے سوچا ۔
” مرینہ !خدا کے لیے اُٹھو ۔ تنگ نہ کرو مجھے ۔” وہ جھنجھلائی ۔
” بجیا ! مجھے اُلٹیاں آتی ہیں دودھ سے ۔” مرینہ منہ پھلا کر دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
” میری بلو رانی !اٹھ ناں ۔ شاباش !دودھ پی ۔” عرینہ نے میز پر سے دودھ کا گلاس اُٹھا لیا ۔
” تو جانتی نہیں ہے بلیوں کادودھ سے بڑا گہرا تعلق ہے ۔” وہ مرینہ کے پاس بیٹھنے لگی ۔
” چل تو اٹھ میری بلی کو میں ہی دودھ پلاتی ہوں ۔ ” عرینہ نے دینا کو کہنی ماری ۔وہ جواباً گھورتی ہوئی اٹھ گئی ۔
” شاباش !میری بلی۔”
” ہائے ! میرا پیر ۔” مرینہ درد کی شدت سے چلائی ۔ اس کے ساتھ مرینہ بھی چلانے لگی ۔
” اٹھو ۔ بیوقوف! تم اس کے پاؤں پر بیٹھ گئی ہو۔” دینا نے بڑھ کر عرینہ کو بازو سے پکڑ کر اُٹھا دیا۔
” دودھ پلائی کی رسم نہیں تھی یہ ۔” درد کی شدت کی وجہ سے مرینہ رونے لگی ۔
تھوڑی دیر اور بیٹھتیں تو ہڈی ٹوٹ جاتی میری ۔ ایسے بیٹھی تھی جیسے بادشاہت کے تخت پر بیٹھی ہو۔”
” وہ سخت برہم تھی ۔
” لے ۔ تو ہی پلا ۔عرینہ نے دودھ کا گلاس دینا کو تھما دیا ۔”
یہ کام تجھ جیسی سلیقہ مند لڑکی ہی کر سکتی ہے ۔ ” اس کے لہجے کے طنز کو بھانپ کر بھی دینا خاموش رہی ۔ ”
اونہہ۔ یہ تو ٹھنڈا ہو گیا ۔ اس نے بیزاری سے سوچا اور کمرے سے نکل گئی ۔
” میری طاقت پگھلتی جارہی ہے ۔ اب دیکھو تو۔ ۔۔ ایک چھوٹا سا کام مجھ سے نہ ہوا ۔ ” وہ بوجھل سے اندا ز میں باورچی خانے کے اندر داخل ہوئی ۔ “مرینہ تنگ بھی تو بہت کرتی ہے۔اماں کو پتا چلا کہ اس نے دودھ نہیں پیا تو الگ ناراضی ہوں گی۔” اس نے دوددھ کا گلاس چولہے کے پاس رکھ دیا ۔” لیکن میں کیا کروں؟ میرا بھی ایک مسئلہ تو نہیں ۔ ” اس نے دیگچی چولہے پر رکھ دی ۔” مرینہ ٹھیک ہوتی تو میں اس موضوع پہ بات کرلیتی لیکن ۔۔ اب تو نہیں ہو سکتی بات جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی۔ دیگچی میں گھی ڈال کر اس نے سوچا۔” اس حالت میں بات کروں گی تو یہ تو صاف خود غرضی ہوئی ناں ۔ آخر کو وہ چھوٹی بہن ہے میری۔” کٹے ہوئے پیاز گھی میں ڈال کر اس نے اپنائیت سے سوچا اور دیگچی میں چمچہ ہلانے لگی ۔ دوپہر کے کھانے میں مرینہ نے دال چاول کھانے کی فرمائش کی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اکیڈمی سے واپس آکر اس نے گھر کی دیوار پرپھیلی انگور کی بیل پہ ایک نظر دوڑائی ۔
Lovely” ” اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
wow” ” اس میں grapes بھی ہیں ۔”
وہ انگور کا گچھا توڑنے میں ناکا م رہی ۔
” Fatty maa! the grapes are sour.. ” سپورٹس سوٹ پہنے شہروز گھر کے اندرونی حصے سے برآمد ہو ا۔
” None of yours business ” حمائل نے اسے گھورا اور خجل سی جا کر لان میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔شہروز سیٹی بجاتا ہو اگیٹ سے نکل گیا ۔
” بیٹا حمائل ! امی جی کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا ۔ وہ اورنج کلر کی ساڑھی پہنے گیٹ کے پاس کھڑی مسکرا رہی تھیں ۔ حمائل جا کر ان کے گلے لگ گئی ۔
I missed you so much۔۔۔.” ” اس نے ان کا بوسہ لیا ۔
” I missed you too ” انہوں نے بھی حمائل کا ہاتھ چوم لیا ۔
” رشید !گاڑی میں سامان پڑا ہے وہ اندر لے آؤ۔” ملازم کو ہدایت کر کے وہ حمائل کے ساتھ گھر کے اندرونی حصے کی جانب چلی گئیں ۔
” اس گہری شام میں اگر میں کوئی اور دعا مانگتا تو یقینا قبول ہو جاتی لیکن مجھے تمہاری ضرورت تھی۔” لاؤنج کے صوفے پر بیٹھے و ہ اطمینان سے سوچ رہے تھے ۔
” تم نے پورا ایک مہینہ گھر سے باہر گزارا ہے تمہیں نہیں بتا سکتا کہ یہ وقت میں نے کیسے کاٹا ہے؟بہ ظاہر ٹی وی سکرین پر نظریں جماتے انہوں نے سوچا ۔ ” کاش اپنے احساسات کا اظہار کرنا اتنا آسان ہوتا جتنا اس وقت تھا۔ ” انہوں نے کن اکھیوں سے اپنی بیوی کو دیکھا ۔ ” جب وہ میری طاقت تھی۔” انہوں نے مرینہ کے چہرے سے اپنی نگاہیں ہٹا لیں۔” آج تم میری طاقت ہو تو یہ سب کہہ دینا کس قدر مشکل ہے ۔” وہ صوفے پر سے اٹھ گئے ۔
” آپ کی تنہا ئیوں میں پھر سے خلل بن کر آئی ہوں میں،لیکن کیا کروں ؟ برسوں پہلے دل نے مجبور کیاتھا اور آج اپنے بچوں کی محبت نے۔” وہ حمائل کو رات کا مختصر سا جواب دیتی رہیں۔ ان کا دھیان اس شخص کی جانب تھا جو اجنبیوں کی طرح ان سے مل کر کمرے میں چلا گیا تھا ۔ ” آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں لیکن آپ سے دوررہتی ہوں ۔خود پہ یہ ستم آپ ہی کی خاطر تو کرتی ہوں لیکن کیا کروں؟میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی ۔” انہوں نے تاسف سے سوچا ۔
” تم سے میں شاید اس لیے نہیں بول پا رہا کہ تم میرا یقین نہیں کرو گی ۔” کمرے کے اندر جاتے ہوئے انہوں نے سوچا۔” بر سوں پہلے اس نے ٹوٹی کانچ کے ٹکڑے سمیٹتے ہوئے اپنی انگلیوں کو زخمی کیا تھا اور آج تم میرے ساتھ ہر قدم پہ کھڑی میری ذات کے ٹکڑے سمیٹ کر زخمی ہورہی ہو۔ اس کے ہاتھوں پہ پٹی میں نے لگائی تھی ۔ تمہاری ذات کے زخموں پر مرہم لگانا بھی میرا فرض ہے ۔” وہ ایزی چئیر پر بیٹھ گئے ۔
” لیکن مجھے ڈر ہے ۔” انہوں نے بے چینی سے سوچا ۔
” بڑی پھوپھی اور پھوپھا جی عمرہ سے واپس آگئے ہیں ۔ مہمان بہت آرہے ہیں اور فردوس بھابھی اکیلی ہیں ۔اس لیے انہوں نے ہاتھ بٹانے کے لیے مجھے بلایا ہے ۔” دینا نے اعلان کیا ۔
شکر ہے اللہ کا خیریت سے واپس آگئے ۔ ” بڑی ماں نے ایک گہرا سانس لیا۔
” اطلاع کس نے دی ؟” انہوں نے سر اٹھا کر آم کے گھنے درخت کو دیکھا ۔
” علی بھائی کا فون آیا تھا ۔ وہ لینے آرہے ہیں مجھے ۔”
” تو تو جارہی ہے ۔؟ عرینہ نے سوال کیا ۔
” جانا پڑے گا ” ۔ دینا نے مختصر جواب دیا ۔
” وہ مسرورہ کیا کرتی ہے ؟” کا م کرے ناں اپنے گھر کے ۔” عرینہ کے اندا ز میں بیزاری تھی۔
” وہ تمہاری طرح ہے ۔ کام نہیں کرتی ۔” دینا کے انداز میں شرارت تھی ۔
” بیٹا !تم علی کو فون کر کے بتا دو کہ ہم آرہے ہیں ۔ وہ ہمیں لینے نہ آئے ۔” بڑی ماں نے دینا کو ہدایت کی۔
” جی ۔میں کردیتی ہوں ۔ ” دینا چارپائی سے اٹھ کر برآمدے کی طرف گئی ۔
” اماں ! آپ کیوں جارہی ہیں ۔؟ “عرینہ اداس ہو گئی ۔
” وہ اللہ کے گھر کی زیارت کر کے آئے ہیں ۔ میں اورفرحت ملنے چلے جائیں گے ۔ ” وہ چارپائی پر سے اٹھتے ہوئے بولیں ۔
” میں اور مرینہ گھر پر اکیلے رہیں گے ؟ “اسے فکر لاحق ہو گئی ۔
” علی ہو گا باہر ڈیرے پر ۔اصغر کے جانے کے بعد وہ ہی تو ہررات آکر سوتا ہے ڈیرے پر” ۔ وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں ۔
” جاگتا تو نہیں ہے ناں سوتا ہے ۔” عرینہ بُڑبُڑائی اورمرینہ کو اطلاع دینے کمرے کے اندر چلی گئی ۔
” فرحت ! تم بھی جلدی سے تیا ر ہو جاؤ ۔ شام ہونے والی ہے ۔” وہ اپنے کمرے کے اندر گئیں اور تھوڑی دیر بعد نکلیں تو کمرے کے دروازے میں منہ پُھلائے کھڑی عرینہ کے پاس آ کر بولیں۔
” میں جاتے ہی علی کو بھجوا دوں گی ۔ تم بالکل بھی فکر نہ کرو ۔ دروازے بند کر کے رکھنا ۔ میں آیت الکرسی کی حصار میں لے لوں گی تمہیں ۔” اور پھر وہ بھار ی بھاری قدم اٹھاتی دینا کے پاس جاکر بیٹھ گئیں ۔
” میر ی ماں تو گھنٹوں کھڑی رہتیں اور نہ تھکتیں ۔”
عرینہ نے غور سے برآمدے کے دوسرے سرے میں چارپائی پر بیٹھی عورت کو دیکھا ۔
” یہی ہرے رنگ کا جوڑا اماں پر کتنا جچ رہا تھا ۔ جب انہوں نے عید پہ اس پہنا تھا ۔پر آج تو لگتا ہی نہیں یہ عورت اماں ہے ۔اتنی خاموش تو نہیں تھیں وہ ۔” عرینہ نے بے یقینی سے سوچا اور مرینہ کے لیے پانی لانے باورچی خانے چلی گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
سی گرین کلر کی لانگ شرٹ کے ساتھ گولڈن کلر کا پاجامہ پہنے وہ لاؤنج میں کھڑی تھی۔اس کے سیاہ،خوب صورت ، لمبے بال بڑی بے پروائی سے اس کے کندھوں پہ پڑے تھے ۔ اس نے ایک ہاتھ میں اپناسیل فون اور دوسرے ہاتھ میں میچنگ کاکلر ہینڈ بیگ تھاما ہوا تھا ۔
” تم کہیں جارہی ہو ؟” امی جی اپنے کمرے سے نکل کر اس کی طرف آگئیں ۔
” ہاں ۔ ایس بی کے گھر گیدرنگ ہے” ۔
” کیسی گیدرنگ؟”
” وہ قاسم انکل جاپان سے آئے ہوئے ہیں ناں ۔ I thought you know about his arrival ”
” اوہ ہاں ! پر میں بھول گئی تھی ۔”
” please Maa!Now don’t say that you are becoming old.I am still young like you”.
” اوکے ۔ انہوں نے اس کا بوسہ لیا ۔
” I love you.. ” اس نے اپنا سر ان کے سینے پر رکھ دیا ۔
” I know ” انہوں نے اپنے بازو اس کے گر حائل کیے ۔
” چلو تم انجوائے کر و میں پھر کبھی مل لوں گی ان سے ۔” انہوں نے پیارسے اس کی کمر پر تھپکی دی۔
” By the way تمہاری ائیر رنگز بڑی اچھی ہیں ۔” انہوں نے اس کی گولڈن کلر کی ائیر رنگز کی تعریف کی ۔
” اور لاکٹ بھی ۔” اس نے لاکٹ دکھاتے ہوئے کہا ۔
” Your sense of style is always good ”
” Because I am your daughter ” وہ مسکرائی ۔
” اللہ حافظ “۔ لاؤنج کا دروازہ کھول کر وہ باہر جانے لگی ۔
” کہاں جانے کی تیاری ہے “؟ وہ آفس سے آگئے ۔
” حمائل مسٹرقاسم سے ملنے جارہی ہے ۔” امی نے جواب دیا ۔
” کون مسٹر قاسم ؟ وہ صوفے پر بیٹھ گئے ۔
” صبار کے فادر۔۔۔ ” اس بار بھی جواب امی نے دیا ۔
” اس وقت؟ ” انہوں نے ٹائی ہٹا کر صوفے پررکھ دی ۔ حمائل لاؤنج کے دروازے میں خاموش کھڑی تھی۔و ہ اپنے باپ کے غیر ضروری سوالوں کے جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی تھی۔
” گیدرنگ ایوننگ کو ہے ۔ آپ کو کیا لگتا ہے مجھے دن کو جانا چاہیے ؟” اس نے کاٹ دار لہجے میں کہا ۔
میں نے ایسا تو نہیں کہا ۔” ان کا انداز بے نیاز سا تھا۔
” لیکن جلدی واپس آنے کی کوشش کرنا۔ ” انہوں نے حمائل کا چہرہ دیکھے بنا کہا۔
” یہ rulesآپ کے لیے بھی ہونے چاہئیں۔ ” اس نے سخت لہجے میں کہا ۔
حمائل ! امی نے اسے خاموش کرنے کی کوشش کی ۔
” ہر انسان کی اپنی proper limits ہوتی ہیں” ۔ ان کا لہجہ سر د تھا ۔ نہ جانے وہ کیوں اسے کریدنا چاہتے تھے ۔
” لیکن میری کوئی limits نہیں ۔” حمائل کی آواز اونچی ہو گئی ۔
” Stop itحمائل” ! امی چلائیں ۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم ؟
” وہی جو آپ نہیں کہہ سکتیں ۔” اس نے معنی خیز انداز میں کہااور ایک جھٹکے سے باہر نکل گئی ۔
” آئی ایم سوری ۔ وہ بس ذرا ۔۔۔” وہ ان کے پاس آکر بیٹھ گئیں ۔
” تم یہ مت بھولوکہ وہ تم سے زیادہ میری بیٹی ہے ۔” انہوں نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لیا۔
” تمہیں اس کو ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا ۔”
وہ آپ کے ساتھ بد تمیزی سے بات کر رہی تھی ۔” وہ نرم لہجے میں بولیں ۔
” اس کو کوئی مسئلہ درپیش ہے، وہ ڈسٹرب ہے ۔ لیکن میں وجہ نہیں سمجھ پا رہا ۔ ” انہوں نے آنکھیں بھینچ لیں۔
” اسے کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ ڈسکس کرتی ۔ کسی بات کو وہ چھپاتی نہیں ۔”
” تم اس کے رویے سے اندازہ لگا لو ۔ ہر بات بولی تو نہیں جا سکتی ۔”
” آپ بلاوجہ فکر مند ہورہے ہیں ۔ ایسی کوئی بات نہیں وہ تو شروع ہی سے منہ پھٹ ہے ۔”
” میں آج بھی دل سے سوچتاہوں مرینہ ۔!انہوں نے آنکھیں کھول کر اپنی بیوی کو دیکھ کر متانت سے کہا اور پھر سے آنکھیں بند کر دیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
بڑی پھوپھی کے گھر میں مہانوں کی آمد اور ان کی خاطر مدارت نے اسے اتنا مصروف رکھا کہ وہ اصغر یا مرینہ تو کیا اپنے بارے میں بھی سوچ نہ پاتی ۔ پھوپھی کے گھر میں ایک ہفتہ گزار کر اگر وہ جسمانی طور پر تھک گئی تھی تو ذہنی طور پر وہ پر سکون تھی ۔”یہاں مرینہ میرے سامنے نہیں ہوتی شاید اس لیے ۔۔۔” وہ یقین سے سوچ لیتی ۔
” میرا خیال ہے مجھے چلنا چاہیے ۔”صحن میں پڑی چارپائی پر فردوس بھابھی کے پاس بیٹھی وہ گوشت کاٹ رہی تھی ۔
” کیا مطلب چلنا چاہیے ؟” فردوس بھابھی نے ناراض ہو کر کہا ۔
” مطلب یہ کہ مہمان آنا بند ہو گئے ہیں ۔ میں یہاں پورا ایک ہفتہ رہی ہوں ۔پیچھے مرینہ بھی بستر پر پڑی ہے ۔اماں کو مشکل ہو گا کا م سنبھالنا ۔”
” لو بھئی ! عرینہ جو ہے گھر میں اور بڑی ممانی ۔”
” عرینہ کالج جاتی ہے او بڑی ماں تو پانچ منٹ سے زیادہ کھڑی نہیں رہ پاتیں ۔ ان کی تو طاقت جیسے ختم ہو گئی ہو۔ ” وہ اچانک اداس ہو گئی ۔
” اچھابھئی ! چلی جانا لیکن آج نہیں کل۔” فردوس بھابھی نے طے کیا ۔
” ابھی عصر کا وقت ہے ۔ ابھی بھی جا سکتی ہوں ۔ کوئی دور تھوڑی ہے ۔” وہ چارپائی سے اٹھ گئی ۔
” نا بھئی آج تو تم نہیں جاسکتیں ۔” فردوس بھابھی اس کے پیچھے باورچی خانے تک آگئیں۔
” اچھا ٹھیک ہے ۔ میں نہیں جاتی آج ۔” وہ چولہے میں آگ جلانے لگی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
“ویلکم !ویلکم ! مائی لیڈی ۔” اس کو دیکھتے ہی صبار اس کی جانب بڑھ گیا ۔
” تھینک یو !” اس نے صبار کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ۔
” یہ میرے لیے ؟” صبار حمائل کے ہاتھ میں پھول دیکھ کر مسکرایا ۔
No! these are for uncle.” ” اس نے ایک نازو ادا کے ساتھ کہا اور اپنے باقی دوستوں کی جانب بڑھ گئی ۔
” تم سب لوگ آگئے ہوتو چلو میں تم لوگوں کو ڈیڈی سے ملواتا ہوں ۔”
صبار کے ڈیڈی سے ملنے کے بعد وہ کافی دیر تک گپ شپ کرتے رہے ۔” پارٹی ختم ہونے کے بعد بھی وہ سب صبار کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھے مطیع کے دلچسپ لطیفوں سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔”
” Let’s play a game. ” تابندہ اپنی گود میں پڑے کشن پہ بازو جماتے ہوئے بولی ۔
میٹ کے بورنگ جوکس سننے سے اچھا ہے کوئی گیم کھیلی جائے ۔”
” ہماری باتیں سننے کے لیے ہمارے جیسا Taste ہونا چاہیے۔ ” مطیع جھٹ سے بو ل پڑا ۔ تابندہ نے ناگواری سے اسے گھورا لیکن خاموش رہی ۔”
” ہاں ۔ چلو Truth and dare گیم کھیلتے ہیں۔” افصہ صوفے سے اٹھی۔ حمائل کی نظریں بے اختیار وال کلاک کی طرف اٹھ گئیں ۔ ساڑھے دس بج رہے ہیں۔ وہ صوفے سے اٹھی ۔
” پہلے سیٹنگ تو کر لو ۔” اس نے کمرے کے درمیان میں پڑی میز کے گرد کرسیاں رکھ دیں۔”
” کامل نے کوکا کولا کی خالی بوتل اٹھا کر میز کے اوپررکھ دی ۔ گیم شروع ہو گیا ۔
” تو آج بہت پیاری لگ رہی ہے ۔ یہ شاید میں تجھے نہ بتا پاؤں ۔” صبار نے بوتل گھماتے ہوئے حمائل کو دیکھ کر سوچا۔
بوتل کا سرا تابندہ کی طرف تھا ۔” تو تو بہت بولتی ہے ناں ۔چل آج کوئی ایسی بات کہہ دے ۔ جو تو نے کبھی نہ بولی ہو ۔ ” صبار نے تابندہ سے پوچھا ۔
” ریڈیو پہ میوزک، نیوز سب چلتا ہے ۔ ” مطیع نے تابندہ کے بولنے سے پہلے جھٹ سے کہہ دیا۔
” مجھے یہ کہناہے کہ ۔۔۔” تابندہ ہکلاتے ہوئے بولی ۔
” OMG!تابو! تو بولتے ہوئے جھجک رہی ہے ؟” حمائل نے حیرانگی سے کہا۔
” کہ۔۔۔ میٹ ! میں جو بھی بولتی ہوں یا کرتی ہوں It’s all just for fun۔۔۔ ” تابندہ نے مطیع کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
” I don’t actually mean it! “تابندہ بولتی گئی ۔
” بس کر یار!بس کر۔۔۔ تیرا دیوداس صدمے سے مر جائے گا۔”
مطیع نے اسے چھیڑا وہ جواباًمسکرادی ۔
گیم پھر سے شروع ہو گیا ۔ کامل نے بوتل گھمائی۔ بوتل کاسرا صبار کی طرف تھا ۔
” میں dare لیتا ہوں ۔ ” صبار کرسی سے اٹھا ۔
” چل ! ماہی کیلئے ایک سونگ گا لے ۔” کامل نے حکم دیا ۔
” اوکے ۔! Maahi! It’s for you ” صبار نے اپنائیت سے حمائل کو دیکھا ۔ اس نے جلدی سے اپنی نگاہیں جھکا لیں ۔
وہ گانے لگا۔ ” میری قسمت کے ہر اک پنے پہ
میرے جیتے جی بعد مرنے کے
میرے ہر اک کل ہر اک لمحے میں
تو لکھ دے میرا اسے
ہر کہانی میں ، سارے قصوں میں
دل کی دنیا کے سچے رشتوں میں
زندگانی کے سارے حصوں میں
تو لکھ دے میرا اسے
اے خدا! اے خدا
جب بنا اس کا ہی بنا
” اوئے رانجھے۔! بس کر ۔۔۔۔ تیری ہی ہے ۔ کوئی اور بے وقوف اس کو آکے نہیں لے جائے گا ۔ ” مطیع نے مذاق اڑایا ۔
” wowایس بی ! you are supreb ” افصہ نے تعریف کی ۔
” جس کیلئے گایا وہ تو کچھ بولی ہی نہیں ۔” صبار کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔
” وہ ابھی تک شاک میں ہے ۔” مطیع جلدی سے بولا ۔ سب ہنسنے لگے ۔
گیم شروع ہوا تو افصہ نے بوتل گھمائی ۔ بوتل کا سرا مطیع کی طرف تھا ۔
” یہ بتا کہ ۔۔۔Do you love somone? ” افصہ نے پوچھا ۔
” یہ کیسا سوال ہے ؟” مطیع ست پٹا گیا ۔
” short question ” صبار جلد ی سے بولا ۔
” نہیں ۔ میں اس کا جواب نہیں دوں گا ۔” مطیع بضد تھا ۔
” نہیں ۔ تجھے جواب دینا پڑے گا۔
” میں نہیں دوں گا ۔”
” تو cheating کررہا ہے ۔”
” چھوڑ ناں ایف !ہوگی کوئی اس کی طرح کی جوکر ۔” حمائل نے مذاق اڑایا ۔
” تیرے والے سے بہت بہتر ہے ۔” مطیع نے حمائل کو جواباً گھورا۔
” میٹ ! میں پوچھ رہی ہوں ہاں یا ناں ؟” افصہ نے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔
” ہاں ! مطیع نے مختصراً کہا ۔
” wow ۔ کون ہے وہ ؟ حمائل کا اشتیاق بڑھ گیا ۔
” سوال صرف ہاں یا ناں کا تھا ۔” مطیع سنجیدہ ہو گیا ۔ سب حیرت سے اس کا منہ دیکھ رہے تھے اور بریک وقت سب کے ذہنوں میں یہی ایک سوال تھا ۔ کون ہوگی وہ ؟” لیکن مطیع کسی صورت نام بتانے پر راضی نہیں ہوا ۔
حمائل نے بوتل گھمائی ۔ بوتل کا سرا پھر سے مطیع کی طرف تھا ۔
” اب نام بتا دے اس فی میل جوکر کا ۔ ” حمائل کا انداز تحکمانہ تھا ۔
” یہ کیا ہے ؟ تم لوگ صرف میر ے پیچھے پڑے ہو ۔ ” مطیع بڑ بڑا کر اٹھ گیا ۔
” نام بتا ۔” تابندہ نے مطیع کا بازو پکڑ لیا ۔
گیم کے بیچ میں نہیں اٹھ سکتا تو ۔ ” وہ مجبوراً واپس بیٹھ گیا ۔
” بتا دے میٹ !پیار کیا تو ڈرنا کیا ۔” صبار نے اسے چھیڑا ۔ مطیع نے ایک نگاہ اپنے دوستوں پر ڈالی اور پھر آنکھیں جھکا کر دھیرے سے بولا” تابو” ۔
” وہاٹ ؟؟؟” سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔
” you stupid شکل دیکھی ہے اپنی گدھے !” تابندہ سینڈل اتار کر مطیع پر جھپٹ پڑی ۔
برگر کھا کھا کے کوفتہ بن گیا ہے اور میرا نام لیتا ہے ۔ ” تابندہ کے منہ میں جو آرہا تھا وہ بولے جارہی تھی ۔
” تابو !stop it” ” صبار نے تابندہ کو ہاتھ سے پکڑ کر زبردستی بٹھا دیا ۔
” مجھے تو تھپڑ پڑنے والے ہیں لیکن تجھے تو جوتے کھانے ہیں میرے یار! کیوں نہ ابھی سے رولیں؟ ” صبارنے جا کر مطیع کے کان میں کہا۔ وہ مظلوموں کی طرح سر جھکائے بیٹھارہا ۔
” تم سب ایسے نہ دیکھو مجھے” اس نے سر اٹھا کر سب کو دیکھا ۔
” ہا ں ہاں ! ایسے نہ دیکھو اسے ۔۔ پھولوں کے ہار پہنا دو اس کو ” تابندہ نے طنز کیا ۔
” میرا فی الحال شادی کا کوئی ارادہ نہیں ۔” مطیع کرسی سے اٹھتے ہوئے اپنے خاص انداز میں بوالا ۔
It’s twelve O’clock. I think we should leave now” ” افصہ اٹھتے ہوئے بولی اور اس کے ساتھ ہی سب اٹھ گئے ۔
” Thank God!بارہ بج گئے ۔ early جاتی تو انہیں لگتا کہ I’m obeying him.” ۔” حمائل نے اطمینان سے سوچا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شام کے وقت وہ مسرورہ کے ساتھ چھت پر ٹہل رہی تھی ۔
” علی بھائی کے کمرے میں ہر چیز کتنے سلیقے سے پڑی ہے۔ ماشااللہ۔ لگتا ہی نہیں یہا ں کوئی رہتا ہے ۔” اس نے کمرے کے اندر جھانک کر کہا ۔
” اب تو وہ آپ کے ڈیرے پر جا کے سو جاتے ہیں ۔ تبھی ہر چیز سلیقے سے پڑی ہے ورنہ تو ۔۔ ” مسرورہ ٹہلتے ہوئے بولی ۔
” تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں ایک جیسے ہیں ۔ عرینہ کو ویسے بھی سلیقہ مند لوگوں سے چڑ ہے۔” یہ سوچ کر وہ یک لخت مسکرائی۔
” لگتا ہے اماں مجھے بلا رہی ہیں ۔” مسرورہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی ۔
” چلو ۔ تم جاؤ میں تھوڑی دیر ٹہل کے آتی ہوں ۔” وہ ٹہلتے ہوئے بولی ۔
” نجانے میری منزل کیا ہو ؟ مجھے تو راستوں کاانتخاب کرنا بھی نہیں آتا ۔”
اس نے آسمان پر دمکتے تاروں کے بیچ چمکتے چاند کو دیکھ کر اداسی سے سوچا ۔” میں چاند بن جاؤں؟ جو دوسروں کو روشنی دیتا ہے ۔یا پھر کوئی اشارہ بن جاؤں جو صرف اپنے لیے چمکتا ہے ؟ “بدستور آسمان کو دیکھتے ہوئے وہ ٹہلتی رہی اور بے اختیار کسی کے ساتھ ٹکرا گئی۔
” اوہ !” وہ گھبرا گئی ۔
” آپ ؟ اس نے علی کو پہچان لیا ۔”
آپ تو ڈیرے پر جا کے سوتے ہیں ناں ؟ اس نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے، لیکن وہ خاموشی ے سر جھکائے کھڑا رہا ۔
” کیا ہوا ۔؟ آپ خاموش کیوں ہیں ؟” اس نے تشویش ناک نگاہوں سے علی کو دیکھا ۔ علی کے کمرے میں سے آتی بلب کی روشنی میں اس نے دیکھا وہ رو رہے ہیں ۔ دینا کے وجود بھر میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔
” یہ خاموش کیوں ہیں ؟ کچھ بولتے کیوں نہیں ؟” اور یہ آنسو؟ اس کا دم گھٹنے لگا ۔
” بتائیں ناں علی بھائی ! کیا ہوا ؟” اس نے علی کو جھنجھوڑا ۔
” عرینہ ۔۔۔۔” وہ کوشش کے باوجود بو ل نہیں پایا ۔
” کیا ہوا عرینہ کو ؟ بتائیں ناں ۔” دینا نے علی کا بازو پکر کر اسے زور سے ہلایا ۔
” وہ کہیں غائب ہو گئی ہے ۔” وہ مٹی کے ڈھیر کی طرف نیچے بیٹھتا چلا گیا ۔
” کیا مطلب ؟ غائب ہو گئی ہے ؟ “وہ علی کے پاس بیٹھ کر بے یقینی سے بولی ۔
آپ کھل کر بات کیوں نہیں کرتے ؟ وہ جھنجلا گئی ۔ا س کا دل گھبرا رہا تھا ۔
” وہ آج اپنی عیسائی دوست کے گھر گئی تھی پر واپس نہیں آئی ۔ اس کی دوست کا منگیتر بھی غائب ہے ۔ وہ ایسے بول رہا تھا جیسے اس میں ذرا برابر طاقت نہ ہو ۔دینا کو اپنی سماعتوں پر پہاڑ گرتے محسوس ہوئے ۔ خالی الذہنی کے عالم میں اس نے بے یقینی سے علی کے سمٹے ہوئے وجود کو دیکھا ۔
” ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ” ا س کو اپنے بولے ہوئے الفاظ سنائی نہیں دئیے آج زندگی میں پہلی بار اسے اپنی کہی بات پہ یقین نہیں تھا۔
” عرینہ غائب ہے ؟ اس نے خود سے پوچھا ۔ “نہیں ایسا نہیں ہو سکتا “۔ اتنا تو وہ عرینہ کو جانتی تھی کہ وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرسکتی ۔
” آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ اس کے اندر اچانک توانائی آگئی تھی ۔
” بہت تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملی ۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے دینا؟ کیا ایسا ممکن ہے؟
وہ دینا کو دیکھ کر بے بسی سے رونے لگا۔ دینا کو لگا جیسے وہ خواب دیکھ رہی ہے پر و ہ آنسو۔۔۔۔ وہ حقیقت تھے ۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی ۔
” مجھے جانا ہے ۔” وہ جانے لگی ۔
” بھائی اور ابا ڈھونڈنے گئے ہیں اسے۔ یہاں کسی کو نہیں پتا ۔۔۔ خاموشی سے جانا ۔ ” اس نے جاتے جاتے علی کی آواز سنی اور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی ۔
” میں ڈھونڈ لاؤں گی عرینہ کو اور دکھاؤں گی سب کو کہ وہ سب غلط تھے۔ ” اس نے فیصلہ کیا اور خاموشی سے گھر سے نکل گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
“کیا تو بھی میر ی طرح فرسٹریٹڈ ہے ؟ حمائل نے لاؤنج سے نکلتی تابندہ کو دیکھ کر حیرت سے سوچا۔ ” تیر اباپ بھی منافق ہے کیا ؟ اور تیرے گھر میں بھی کوئی منزہ علی رہتی ہے ؟ اس لیے تو ذرا سی بات پر میٹ سے لڑ پڑتی ہے ۔ اس نے سیاہ رنگ کی کار میں بیٹھی تابندہ کو دیکھ کر سوچا ۔ اپنی محرومیاں یا د کر کے وہ اچانک اداس ہو گئی ۔
” ہائے ۔poor mat.. ” تابندہ نے اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے سوچا ۔
” تو مجھے سب کے سامنے نہ کہتا تو میرا reaction بھی ایسا نہ ہوتا ۔Anyways I love you ” اس نے اپنائیت سے سوچا اور مسکرا دی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتی وہ لیزا کے گھر تک پہنچ گئی ۔
” کیا کہوں گی اندر جا کر ؟” تھوڑی دیر دروازے میں کھڑے رہنے کے بعد وہ کچھ بھی سوچے بغیر لیزا کے گھر میں داخل ہوگئی ۔
برآمدہ تاریک تھا ۔ صرف ایک کمرے میں سے بلب کی روشنی جھانک رہی تھی ۔ دینا بھاری بھاری قدم اٹھاتی اس کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔ اندر سے آنے والی رونے کی آواز نے اس کے قدم جھکڑ لیے ۔
” تم یہ رونا بند کردو اور یہ لو پانی پی لو ۔ ” ایک جوان نسوانی آواز ابھری اور اس کے ساتھ چند دبی دبی ہچکیاں۔
” ممی ! آپ کیوں چپ بیٹھی ہیں ؟” وہ آواز جھنجلا گئی ۔
دینا نے بڑھ کر کمرے میں جھانکا ۔ لیزا پلنگ پر سمٹی ہوئی بیٹھی سسک رہی تھی ۔ اس کے پاس ایک عمر رسیدہ عورت بیٹھی تھی جو یقینا اس کی ماں تھی۔ ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھی بھاری بھر کم وجود والی عورت یقینا شمعون کی ماں تھی۔
” جوزف گئے ہیں اسے ڈھونڈنے۔۔” لیزا کے سرہانے کھڑی کرسٹینا کو اس نے پہچان لیا ۔
” آپ سب ایسے کیوں بیٹھے ہیں ؟۔” مجھے یقین ہے جوزف اسے ڈھونڈ نکالیں گے ۔” کرسٹینا اپنی ساس کے پاس کرسی پر بیٹھ گئی ۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی ۔ دینا کا دل گھبرانے لگا ۔ اس کے قدم غیر ارادی طور پر کمرے کے اندر داخل ہوئے ۔
” لیزا!” دینا کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
” کرسٹینا دیکھتی ہی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ دینا کو کالج کے زمانے سے جانتی تھی ۔ جب وہ بی اے کررہی تھی اور دینا ایف اے ۔
” دینا !تم ؟اس نے بے یقینی سے دینا کو دیکھا ۔ دینا خاموشی سے آگے بڑھ گئی ۔ اسے خود بھی اس حقیقت کا یقین نہیں تھا ۔
لیزا نے سر اٹھا کر دینا کو دیکھا اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر اس کے پاس گئی ۔ ” کیوں آئی ہو تم یہاں؟کیا کرنے آئی ہو ؟” لیزا کی آواز اونچی ہو گئی ۔
” عرینہ ۔۔۔۔ عرینہ کو لینے آئی ہوں ۔” اس کے لہجے میں اعتماد تھا ۔
” ابھی بھی تم لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ یہاں ہے ؟ بھاگ گئی ہے ۔وہ ۔۔۔ میرے منگیتر کے ساتھ ۔۔۔” آنسوؤں کی گہری لڑیاں آنکھوں سے ٹھوڑی تک بہ گئیں ۔
” بھروسہ کیا میں نے اس پر، لیکن وہ اس لائق ہی نہیں تھی ۔میں نے اسے دوست سمجھا ۔ شمعون سے ملوایا اسے لیکن اس نے کیا کیا ؟”
” جانتی ہو؟ بھاگ گئی اس کے ساتھ ۔۔” لیزا چیختے چیختے نڈھال سی دینا کے قدموں میں بیٹھ کر سسکنے لگی ۔
” یہ سچ نہیں ہے لیزا! عرینہ ایسا نہیں کر سکتی ۔ میں جانتی ہوں اسے ۔ تم بھی جانتی ہو ۔ دوست ہے وہ تمہاری۔” وہ لیزا کے پاس نیچے بیٹھ گئی ۔
” دوست ہے نہیں تھی ۔” لیزا کی آواز پھر سے اونچی ہو گئی ۔
” چار سال کی دوستی میں اعتماد تو ہونا چاہیے ۔” دینا نرم لہجے میں بولی ۔
” ہاں اعتماد ہی تو کیا تھا اس پر اور آج وہ مجھے برباد کر کے چلی گئی ۔توڑ دیا اس نے میرا اعتماد ۔”
” تم نے یہ کیسے مان لیا کہ اس نے تمہارا اعتماد توڑا ہے ؟”
“میں اگر گھر میں نہیں تھی تو کیوں آئی وہ یہاں ؟ وہ جانتی تھی گھر پر کوئی نہیں ہے پھر بھی وہ یہاں آئی ۔ خود کے ساتھ برا کیا میں نے ۔ اس پر بھروسہ کر کے خود کو برباد کر ڈالا میں نے۔” لیزا نے اپنے گھٹنوں پہ سررکھ دیا ۔
تم جاؤ یہاں سے ۔جاؤ۔” سر اٹھا کر اس نے دینا کو دیکھا ۔
” تم جس لڑکی کی تلاش میں آئی ہو ۔ وہ بھاگ گئی ہے ۔ اس کے لیے یہ بھی کوئی بات نہیں کہ وہ جس کے ساتھ بھاگی ہے وہ مسلمان نہیں، ایک عیسائی ہے ۔” لیزا اپنی جگہ سے اٹھ گئی ۔ دینا وہیں پہ بیٹھی رہی ۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ کبھی اٹھ نہیں پائے گی ۔
” اس کے لیے تو اس کے خاندان کی عزت کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔” لیزا کی باتیں پگھلے ہوئے سیسے کی مانند دینا کے کانوں میں اتررہی تھیں ۔ اس نے بے یقینی سے لیزا کو دیکھا ۔اس کے الفاظ تیروں کی مانند برس کر دینا کا سینہ چھلنی کررہے تھے ۔
وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھ گئی ۔بے خیالی میں اس کی سیاہ چادر اس کے سر سے پھسل کر مٹی کے ڈھیر کی مانند نیچے گر گئی ۔
” جو اپنی عزت کرنا نہیں جانتی تھی اس کے پیچھے اپنی چادر چھوڑ جانا بے وقوفی ہے ۔” اس نے کسی کی آواز سنی ۔
اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کروہ باہر کی طرف بھاگی تھی ۔ کس قدر تکلیف دہ بات تھی ۔ وہ ایک پختہ یقین اور مضبوط ارادہ کرکے آئی تھی ۔ لیزا ٹوٹا ہوا اعتماد اور کچلی ہوئی عزت لے کر جارہی تھی ۔
” بھاگ گئی ہے وہ۔ میرے منگیتر کے ساتھ ۔” لیزا کی آواز اس کا تعاقب کررہی تھی ۔ وہ تیزی سے گھر کے دروازے سے نکل گئی ۔ ” وہ اس لائق ہی نہیں تھی ۔” اسے لیزا کی آواز سنائی دی ۔ اس نے اپنے کانوں کو ہاتھوں سے دبایا ۔” شمعون سے ملوایا اسے ۔” آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی ۔
” عرینہ شمعون سے ملی تھی ؟کب؟ اس نے کبھی یہ نہیں بتایا مجھے ۔” وہ تنگ و تاریک گلیوں میں بھاگتی جارہی۔
” کیوں آئی ہو یہاں ؟ اس پر بھروسہ کر کے خود کو برباد کر ڈالا ۔ ” لیزا کی نفرت بھری آواز ، اس کے آنسو، اس کی سسکیاں ۔۔دینا بھاگتی چلی گئی ۔” اس کے لیے تو اس کے خاندان کی عزت کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ” وہ دھڑام سے نیچے گر گئی ۔ اسے ٹھوکر لگی تھی یا لیزا کی اس بات نے اسے ڈس لیا تھا ؟ وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ بس اس کے سینے میں درد اٹھا ، درد کی شدت سے اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ اور وہ وہیں پہ، اس ویران گلی میں ٹھنڈی زمین پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ وہ دبے قدموں لاوئج میں داخل ہو ئی ۔ لاؤنج کی کھڑکیوں سے پردے سرکے ہوئے تھے اور ان کے ذریعے چاندنی اندر جھانک رہی تھی ۔
” آگئیں تم؟” لاؤنج میں بے چینی سے ٹہلتا ہوا سایہ اس کے پاس آگیا ۔
” ہاں ۔ اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا ۔
” بڑی دیر کر دی ۔” ان کی آواز میں فکر مندی کے ساتھ ساتھ نرمی کا عنصر بھی تھا ۔
” آپ کو میری چوکیدار ی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ میں بچی نہیں ہو ۔اپنی Timing جانتی ہوں ۔” اس کا لہجہ سخت تھا ۔
” اسے چوکیداری نہیں فکر مندی کہتے ہیں ۔” ان کے انداز میں در گزر اور نرمی تھی ۔
” کس مٹی کا بنا ہے یہ شخص؟” چاند کی مدھم روشنی میں اس نے انہیں بہ غور دیکھ کر سوچا ۔
” آپ کو میرے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔” اس نے خشک لہجے میں کہا اور دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
” باپ ہو ں میں تمہارا ۔” آواز میں بے بسی تھی ۔
” یاد دلانے کا شکریہ ۔” اس کا لہجہ سخت تھا ۔
” تمہیں کیا ہوگیا ہے بیٹا ؟ ” وہ اس کے نزدیک آگئے۔
” Nothing ” مختصر سا جواب دے کر وہ کمرے کی طرف جانے لگی ۔
” حمائل بیٹا ! انہوں نے اسے پیچھے سے آواز دی ۔ وہ رک گئی ۔
” مجھے نیند آرہی ہے ۔ سونے جارہی ہوں میں”بنا پیچھے مڑ ے و ہ بے تاثر آواز میں بولی اور کمرے کے اندر چلی گئی ۔وہ بے بسی سے اسے جاتا دیکھتے رہے ۔”
حمائل کی بے رخی اور اس کا سخت لہجہ ان کے لیے بے انتہا تکلیف دہ تھا لیکن یہ بات وہ اپنی بیٹی کو سمجھا نہ سکے ۔ کیوں کہ وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھی۔”
” وہ بوجھل قدم اٹھاتے اپنی کمرے کے اندر چلے گئے ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اس رات کوئی نہیں سویا تھا ۔بڑی ماں کو گہرا صدمہ پہنچا تھا، اس لیے اماں اور فیروز بھائی انہیں ہسپتال لے کر گئے تھے ۔
“پھوپھا جی اور فیروز بھائی کل پوری رات ڈھونڈتے رہے ہیں ان کو ۔پھر کچھ پتہ نہ چلا” ۔ مرینہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ فیروز بھائی تھانے میں رپورٹ درج کروانا چاہتے تھے ۔ لیکن اماں اور پھوپھا جی نے ان کو منع کردیا کہ جن کو نہیں پتا انہیں بھی معلوم پڑ جائے گا۔” دینا خاموشی سے مرینہ کی باتیں سنتی رہی ۔ ۔
میں حیران ہو ں کہاں جا سکتے ہیں وہ ۔ اتنی تلاش کے باوجود بھی نہیں ملے ۔”
” جنہیں ملنا ہوتا ہے بنا تلاش کیے بھی مل جاتے ہیں ۔”
آپ کو یقین ہوتا ہے کہ ایسا ہوا ہے ۔؟ ” مجھے تو خواب لگ رہا ہے ۔” مرینہ کی آواز آنسوؤں سے بھر گئی ۔
” یقین نہ کرنے سے حقیقت بدل تو نہیں جاتی ۔ مجھے پہلی بار لیزا پرترس آرہا ہے ۔”
” ترس کے لائق لیز ا نہیں ، عرینہ ہے ۔” وہ مرینہ کے پاس سے اٹھ کر باہر آگئی ۔
” تمہیں یوں چلے جانا تھا ہماری زندگیوں سے ؟”
” جاتے وقت تم نے ایک بھی بار ہمارے بارے میں نہیں سوچا ؟ ” اس اذیت کے بارے میں ، جس سے ہم ابھی گزر رہے ہیں ۔” وہ صحن کی طرف چلی گئی ۔”
” وہ انسان جو تم سے بے انتہا محبت کرتا ہے، تم نے جا کر ظلم کیا ہے اس پر ۔”
” اس کی نظروں میں علی کا چہر ہ گھوم گیا اور اس کے آنسو۔ ” دینا کے سینے میں ایک درد سا اٹھا ۔
” اپنے مرے ہوئے باپ کی عزت اچھا ل کر تم اپنی زندگی بنانے گئی ہو ۔۔عرینہ حمید!لیکن تم سکون کو ترسو گی، اپنی بیوہ ماں کا بھی خیال نہیں کیا تم نے ۔” وہ آم کے پیڑ کے نیچے زمین پر بیٹھ گئی ۔
” تمہاری ماں ہسپتال میں پڑی صدمے سے دوچار ہے ۔ تم ایسے کیسے جاسکتی ہو ہم سب کو چھوڑ کر ؟” وہ رونے لگی اور تمھار ااکلوتا بھائی جو سات سمند رپار اسی یقین کے ساتھ بیٹھا ہے کہ یہاں ہم اس کی عزت کو پلو سے باندھے اس کی حفاظت کررہے ہیں ۔”
” یہ تم نے کیا کردیا عرینہ ؟”
” اس کو میں نے بھیجا تھا ۔ ” وہ آئے گا تو میں کیا کہوں گی ۔” سردی کی شدت سے اس کا وجود سن ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی ٹانگیں سمیٹ لیں ۔
زندگی میں کچھ حقیقتوں کا یقین کر نا تکلیف دہ ہوتا ہے اور جب آپ یقین کرلیتے ہیں تو آپ کی تکلیف دوبالا ہو جاتی ہے، درداور بڑھ جاتا ہے ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کمرے میں جاکر اس نے بنا لائٹ آن کیے اپنا ہینڈ بیگ اور سیل فون سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا ۔ منزہ بیڈ پر سور ہی تھی ۔ وہ بنا کپڑے تبدیل کیے کرسی پر جا کر بیٹھ گئی ۔
” زندگی میں پہلی بار عمل کے بجائے الفاظ پر یقین کیا ہے میں نے ۔ ” اس نے اپنی ٹانگیں سمیٹ کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی ۔ ” آپ کے ایکشن آپ کے words سے different ہیں لیکن میں آپ کےactions پر یقین نہیں کر سکتی ۔” اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے سوچا ۔ آپ چاہے جو بھی کریںBut you can’t regain my trust.. ” میرا بھروسہ توڑ کے آپ نے میرا آئیڈیل توڑا ہے ۔ میرا بے پنا ہ نقصان کیا ہے آپ نے ۔میں آپ کو معاف نہیں کرسکتی ۔ نہ اپنے لیے ۔ نہ امی جی کے لیے ۔” اس نے دل میں طے کیا۔ ” سچ تو یہ ہے کہ اب میں آپ پہ ٹرسٹ کرنا ہی نہیں چاہتی ۔” بلاوجہ اس کی بند آنکھوں میں پانی اتر آیا ۔
پانچ دن بعد بڑی ماں کو ہسپتال سے گھر لایا گیا ۔ وہ لاغر اور کمزور سی عورت کسی زاویے سے بڑی ماں نہیں لگ رہی تھیں ۔
دینا نے برآمدے میں ان کا بستر لگا دیا اور ان کے سرہانے جا کر بیٹھ گئی ۔ بہت دنوں بعد انہیں گھر میں دیکھ کر دینا کو سکون سا مل گیا تھا۔
” تم ذراپنے کمرے میں جاؤ۔ مجھے بھابھی سے ضروری بات کرنی ہے ۔” پھوپھا جی کو دیکھتے ہی اس نے دوپٹے کا پلو سر پر ڈال دیا اور بڑی ماں کے پاس سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
” بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی کچھ پتا نہیں چلا ان دونوں کا” ۔ اس نے پھوپھا کی آواز سنی ۔ وہ کمرے کے دروازے میں کھڑی ہو کر با ہر دیکھنے لگی ۔
” معاشرے میں جو عزت تھی ہماری، وہ خاک میں ملا دی آپ کی بیٹی نے ” وہ کرسی پر بیٹھ گئے ۔ ان کا لہجہ سخت اور آواز اونچی تھی۔ بڑی ماں کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے ۔
” غلطی کر دی ہم نے جو آپ کی بیٹی کو اپنایا ۔” ان کے لہجے میں حقارت تھی ۔
” پتا ہے لوگ کیا کہتے ہیں؟ سراج کی بہو ایک عیسائی کے ساتھ بھاگ گئی ہے ۔” بڑی ماں کی آنکھوں سے اشکو ں کی لڑیاں رواں تھیں ۔
” میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا ضرورت تھی اسے آگے پڑھانے کی ؟” ان کا لہجہ کاٹ دار تھا ۔ بڑی ماں کے آنسو ان کے چہرے کو تر کرنے لگے ۔
” جو عزت تھی وہ تو مٹی میں مل گئی ہے لیکن جو رہی سہی عزت ہے وہ میں کھونا نہیں چاہتا ۔ ” وہ کرسی سے اٹھ گئے ۔
” آج سے نہ میری بیوی بچے یہاں آئیں گے اور آپ لوگوں کو بھی وہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔” فیصلہ سنا کے جانے لگے ۔ بڑی ماں چھت کو گھورتی رہیں ۔ ان کے آنسو ان کے چہرے کو بھگوتے رہے۔ کمرے کے دروازے میں کھڑی دینا کا کلیجہ کٹ سا گیا ۔اس عورت کی یہ اوقات تو نہیں تھی۔
” زندگی بھر اس شخص نے بڑی ماں کے آگے احترام سے سر جھکایا ہے اور آج تمہاری وجہ سے۔۔۔” اس کی آنکھیں گر م پانی سے بھر گئیں ۔
” سراج بھائی صاحب۔” یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟” اماں کمرے سے نکل آئیں ۔
” بس فرحت !” انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اماں کو خاموش رہنے کا حکم دیا اور جانے لگے۔
” رشتہ داریاں ایسے نہیں توڑی جاتیں ۔” اماں چند قدم بڑھا کر ان کے پیچھے گئیں ۔
” آپ پہلے اپنی لڑکیوں کو عزت سے رہنا سکھائیں ۔رشتے داریاں بعد کی چیزیں ہیں ۔” ان کے لہجے میں نفرت و حقارت اور نجانے کیا کیا زہر بھرا تھا ۔ دینا نے دروازہ تھام لیا ۔
” آج وہ ہمارے کردار پر تھوک کے گئے ۔ عرینہ ! صرف تمہاری وجہ سے۔۔” وہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی رہی ۔اس کی طاقت جیسے اچانک کسی نے چھین لی تھی ۔
پھوپھا کے گھر سے جاتے ہی بڑی ماں کے منہ سے درد اور تکلیف بھری ایک چیخ نکلی تھی ۔اماں بھاگ کر ان کے پاس چلی گئیں ۔دینا نے ان کے اس جانا چاہا لیکن اس کے پیروں میں تو جان ہی نہیں تھی۔ اس نے قدم اٹھانا چاہا لیکن وہ بیٹھتی چلی گئی ۔
اس نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس دیں لیکن کافی دیر تک بڑی ماں کی تکلیف بھری چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔ بڑی کوششوں سے جب اماں نے انہیں چپ کروایا، تب دینا نے اپنے کانوں سے انگلیاں ہٹا ئیں لیکن وقفے وقفے سے ابھرتی ان کی سسکیاں ۔۔۔دینا کو ہر بار اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اکیڈمی جاتے ہوئے اس نے صبار کو فون ملایا۔
” ہیلو! ایس بی ۔ کہاں غائب ہے یار ؟ آج کیفے ٹیریا میں نہیں دیکھا تجھے ۔”
” میں آج یونیورسٹی نہیں گیا تھا ۔” صبار کی آواز مرجھائی ہوئی سی تھی ۔
” کیوں ۔؟
” یار! fever ہوگیا ہے مجھے ۔”
” اوہ اور تو نے بتایا تک نہیں ۔”
” نہیں یار ! اتنا fever بھی نہیں ۔ ٹھیک ہو جاؤں گا ۔”
” یہ کیا بات ہوئی ؟” تومجھے بتا تو دیتا ناں ۔۔” وہ ناراضی سے بولی ۔
” تو کیا کرتی جان کر ؟”
” میں تجھے دیکھنے آجاتی ۔”
” تو ابھی آجا ۔”
” اوکے آئی ایم کمنگ۔” اس نے فون بند کر کے ڈرائیور کو گاڑی دوسری طرف موڑنے کو کہا ۔
” تم سے ملنا باقی ہر کام سے زیادہ اہم ہے ۔ ” اس نے اطمینا ن سے سوچا تھا ۔
” راستے میں پھولوں کی دکان سے اس نے تازہ سرخ گلاب خریدے اور صبار سے ملنے چلی گئی۔
” ہیلو آنٹی ! ایس بی سے ملنے آئی ہوں ۔” وہ لان میں کھڑی مالی کو ہدایت دیتیں صبار کی ممی سے ملی۔
“ہیلو بیٹا ! ” چلو تم مل لو صبار سے ۔ وہ اپنے بیڈروم میں ہے ۔ میں چائے بجھواتی ہوں ۔ ” ان کی بات سن کر حمائل گھر کے اندرونی حصے کی جانب چلی گئی ۔
” ہائے ۔” اس نے صبار کے کمرے کے اندر جھانکا ۔
” ہائے ۔ کم ان !” وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
” These are for you! ” اس نے پھول صبارکو تھما دیے ۔
” Thanks.. ” اس نے پھولوں کو سونگھ کر سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا ۔
” How are you now? ” حمائل ایک کرسی گھسیٹ کر صبار کے بیڈ کے نزدیک بیٹھ گئی۔
” felling much better۔۔۔ ” اس نے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا یا۔
” تو اس simple سے سوٹ میں بھی بہت پیاری لگ رہی ہے ۔”
” Oh!, Thanks ” اس نے اپنے سراپے پر ایک نگاہ ڈالی اور تھوڑی خجل سی ہو کر بولی ۔”
اکیڈمی جارہی تھی ۔نہیں گئی ۔یہاں آگئی ۔”
” تو سچ میں بہت پیاری لگ رہی ہے ۔” صبار نے دل سے اس کی تعریف کی ۔
” بس ایک کمی ہے ۔”
” کیا؟” حمائل نے سوالیہ انداز میں صبار کو دیکھا ۔
” come closer ” صبار نے اسے ہاتھ کے اشارے سے پاس آنے کا کہا ۔ حمائل جھجھکتی صبار کے بالکل نزدیک ہو گئی ۔ صبار نے ہاتھ بڑھا کر اس کی چوٹی کھول دی ۔
” یہ کھلے اچھے لگنے ہیں ۔” وہ اس کے کان میں بولا ۔ حمائل گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی ۔ وہ ہنسنے لگا ۔
” “May I come in ? کمرے کے دروازے میں ممی کھڑی تھیں ۔
” yes . Mummy!!! ” ” صبار سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ۔ حمائل تھوڑی پیچھے ہو کر بیٹھ گئی ۔
” بہو پیاری ہے میری ۔” وہ دوسری کرسی پر بیٹھ گئیں ۔ صبار اور حمائل نے حیرت سے ان کو دیکھا ۔
” ممی ! صبار نے ناراضی سے اپنی ماں کو دیکھا ۔
you were spying? ”
” no بیٹا ! وہ ہنسنے لگیں ۔ ”
آئی ایم سوری ! میں حمائل کے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھنا چاہتی تھی ۔ you know! It was not intentionally ” انہوں نے صبار کو اور پھر حمائل کو دیکھ کر اپنی صفائی دی ۔
” That’s very bad ” صبار نے بحث کی ۔حمائل خاموش رہی ۔
” آئی ایم سوری ۔” ان کی آنکھوں میں شرارت کی چمک تھی ۔
” Anyways. your choice is a good one ”
” ٰI have to go حمائل جلد ی سے اٹھ گئی ۔
” اتنی جلدی ؟ صبار اداس ہو گیا ۔
” بس ۔ مجھے جانا ہے ۔ بائے ۔ ” وہ تیزی سے کمرے سے باہرنکل گئی ۔
” بیٹا ! چائے تو پی کے جاتی ۔” صبار کی ممی نے آواز دی ۔حمائل بھاگ کر گھر سے نکل گئی ۔
ایک خوبصورت سے احساس نے اس کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا ۔۔” تم مجھے مکمل کردو گے ۔ میری ذات کی محرومیوں ?
میں جارہا ہوں۔” صبار نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ واوپر کیا ۔
” I know ” وہ اپنے ناخنوں پہ لگی نیل پالش کو کھرچتی رہی ۔
” کچھ کہے گی نہیں ؟”
” نہیں!” اس کی نگاہیں اس کی نگاہیں نیچے کی طرف جھکی تھیں ۔
” ماہی میری طرف دیکھو۔”
” تیری طرف دیکھوں گی تو رو پڑوں گی ۔”
” صبار نے زبر دستی اس کا چہرہ اوپر کیا ۔ بے اختیار گرم گرم آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ گئے ۔
” Mahi! please don’t cry۔۔۔ ” صبا ر کا دل کٹ سا گیا ۔ حمائل خاموشی سے روتی رہی۔
” Oh, Sorry بیٹا ! آئی ایم لیٹ ۔” گولڈن کلر کی ساڑھی پہنے صبار کی ممی تیزی سے اس کی طرف آگئیں۔
” ok mami I am just coming!.. ” صبارکی پریشان نظریں حمائل کے اداس چہرے پر مرکوز تھیں ۔
” یہ واپس آئے گا ۔ میں تمہیں زیادہ عرسہ اس سے دور نہیں رکھوں گی ۔” حمائل کے اداس چہرے کو دیکھ کر انہوں نے کہا۔
” Don’t cry darling ” انہوں نے حمائل کے سرپر ہاتھ پھیرا ۔ ”
میں وہاں تمہارا wait کررہی ہوں۔ حمائل سے مل کے وہاں آجانا۔” وہ ویٹنگ لابی کی طرف چلی گئیں۔
” میں کانٹیکٹ کروں گا ۔ ہم بات کریں گے ۔” صبار نے حمائل کے چہرے پر بہتے اشکوں کو دیکھا۔ اس کا دل چاہا وہ ان قطروں کو اپنی ہتھیلیوں میں جذب کرلے یا پھر ان موتی جیسے آنسوؤں کے قطروں کو چن کر اپنے پاس محفو ظ لرلے ۔
اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن حمائل نے اسے پیچھے کی طرف دھکیلا۔
” ایس بی ! گو ۔۔۔۔” وہ چلائی ۔
اناؤنسمنٹ ہورہی تھی ۔
” اوکے ٹیک کئیر ۔ بائے ۔” صبار نے خالی الذہنی کے عالم میں اس کے گال کو چھوا اور ویٹنگ لابی کی طرف تیزی سے بڑھ گیا ۔ وہ سخت ملول تھا اور بے حد رنجیدہ ۔ اس نے مڑ کر دیکھا حمائل آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی پارکنگ کی سمت جارہی تھی ۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپا ہواتھا۔صبار نے اپنی گرے شرٹ کے آستین سے اپنی آنکھوں کی نمی کو صاف کیا ۔ اس نے دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھا تھا ۔
پارکنگ کی سمت جاتی حمائل نے ایک بار مڑ کر صبار کو دیکھا ۔ وہ اپنی ماں سے گلے مل رہا تھا ۔ حمائل کی آنکھ سے ایک گہری لڑی بہہ نکلی ۔ا س نے الٹے ہاتھ سے اپنے رخسار پر رینگتے اشکوں کو صاف کیا۔ اس کے بعد حمائل نے مڑ کر نہیں دیکھا تھا ۔ وہ بھاگتی ہوئی پارکنگ کی سمت گئی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...