اگربتیو کی خوشبو غم کے احساس کو اور بھی بڑھا رہی تھی ۔۔۔
پھر لوگوں کی دھیمی دھیمی دل چیرتی سرگوشیاں ۔۔
اس کے اعصاب اب جواب دینے لگے تھے لیکن نہیں !!!
نہیں ہرگز نہیں ۔۔۔
وہ ہار نہیں مان سکتی تھی ۔۔
اس کے چھوٹے بہن بھائی اس کی آغوش میں سہمے بیٹھے تھے ۔۔۔۔
اب بھی ان کا اندر کچھ نا مطمئین تھا کہ اس کی صورت اب بھی ان کے سروں پر چھائوں تھی ۔۔۔
کسی بڑے کے ہونے کا احساس بھاری بھرکم غم کے بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود بھی انہیں مطمئین رکھے ہوِئے تھا ۔۔!
اس پر بہت ذمہ داریاں تھیں ۔۔ ایسے میں وہ ہار کیسے مان سکتی تھی ۔۔
دوپٹے کا گولا منہ پر رکھے وہ اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ رہی تھی جب ہنسی کی آواز نے اسے چونکا دیا تھا ۔۔۔!
آج اماں کا سوئم تھا ۔۔۔۔
ایسے میں کون تھا جو ہنس سکتا تھا ۔۔؟؟
سرخ برستی آنکھوں کو صاف کرتی وہ کمرے سے باہر نکل کر دیکھنا چاہتی تھی جب کانوں سے زہر میں ڈوبے طنزیہ جملے ٹکرائے تھے ۔۔
“اڑی پھر رہی تھیں بھابھی ۔۔ ہنہہ!
قدم زمین پر نہیں پڑ رہے تھے ۔۔۔
اچھا ہوا جو ہوا ۔۔۔ لگ پتہ گیا !
کیسے ناک چڑھا چڑھا کر بات کر رہی تھیں ۔۔!”
یہ رمشہ پھپھو کی آواز تھی ۔۔۔
جسے سن کر وہ غم و غصہ سے کانپ اٹھی تھی ۔۔
“ارے وہی تو میں سوچوں ۔۔ ایسے کیسے کوئی رئیس زادہ عاشق ہو گیا ۔۔۔۔ اتنا قیمتی سامان لائے وہ بھئی میری تو آنکھیں ہی پھٹ گئیں ۔۔ پتا چلا بکری کو قربانی کے لیئے تیار کر رہے ہیں ۔۔۔!”
یہ جملہ تائی امی کے منہ سے نکلا تھا اور پھر سے دبی دبی سی ہنسی گونجی تھی ۔۔۔
“ائے اللہ معاف کرے ۔۔ اس طرح بات نا کرو ۔۔۔
مگر مجھے لگتا ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اس میں میشا کا پورا ہاتھ ہے ۔۔۔۔
سب جانتی تھی وہ اس لڑکے کے بارے میں ۔۔۔۔ جان کر بھاگ گئی ہے آسائشوں کے پیچھے ، ذمہ داریوں سے جان چھڑوا کر ۔۔
تیز طرار بھی تو کتنی تھی ۔۔۔۔۔
کب سے جاب کر رہی تھی ۔۔ نین مٹکا کر لیا لوگا کہیں ۔۔۔”
تنبیہ کر کے سب سے گھٹیا بات کرنے والی یہ اس کی بڑی پھپھو تھیں ۔۔۔۔
اور بس یہاں برداشت ختم ہو گئی تھی ساشہ کی !
ان کے سامنے جا کر وہ فوری طور پر کچھ کہہ نہیں پائی تھی ۔۔۔
حلق میں پھنسے آنسئوں نے کچھ کہنے کے قابل چھوڑا ہی نہیں تھا ۔۔
بھاری سی سانس بھر کر اس نے پھر سے کچھ کہنے کی ہمت مجتمع کی تھی مگر اس سے پہلے ہی علیشہ کچن سے نکل کر ہاتھ نچا نچا کر شروع ہو گئی تھی ۔۔
“آپ لوگ لے لیتے ذمہ داری میری بیوہ ماں اور اس کے سات بچوں کی ۔۔۔۔ روکھی سوکھی جیسی چاہے مگر دو وقت کی روٹی کھلاتے ۔۔ پھٹے پرانے کپڑے دیتے مگر لے لیتے ذمہ داری ہماری ۔۔۔۔ نہ کرتی وہ جاب ۔۔ سات پردوں میں رہتی ۔۔ وہ بھی اور ہم بھی۔۔۔ گھر بیٹھے بیٹھے ہمیں سہارہ ملتا اگر !
باتیں بنوا لو جتنی چاہے ان لوگوں سے ۔۔۔ کہنے کو تو بس بات کی ہے ۔۔ گولی تھوڑی ماری ۔۔ مگر آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ لوگوں کی ایسی باتیں گولی سے زیادہ اثر کر رہی ہیں ۔۔ ماں مر گئی ہماری ۔۔ بہن کا کچھ پتہ نہیں ہے وہ کس حال میں ہے ، کہاں ہے ؟ ۔۔ اور ان کی باتیں سنو !
مالی مدد تو دور کی بات ہے ۔۔ ہمدردی کے دو بول تک بول نہیں سکتے آپ لوگ ، تو پھر کیوں ہیں آپ لوگ یہاں پر ؟؟؟ کیاں کر رہے ہیں آپ لوگ یہاں پر ؟
اٹھیں ۔۔۔ ابھی اور اسی وقت اٹھیں ۔۔۔!! نکلیں آپ لوگ یہاں سے ۔۔۔۔ ! میں نے کہا نکلیں !!”
علیشہ کا بس نہیںں چل رہا تھا انہیں چٹکی بجا کر گم کر دے وہاں سے ۔۔۔۔۔
وہ سب “ہائے ہائے” “توبہ توبہ” “چلن تو اس کے بھی ٹھیک نہیں” کرتی صحن سے نکل گئی تھی ۔۔۔ اور گھنٹے بھر بعد ہی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر گھر سے بھی نکل گئیں ۔۔۔ گویا انہیں بہانہ چاہیے تھا !
یہ سب دیکھ کر ساشہ گھبرا گئی تھی اور جب شفیق ماموں نے جانے کی تیاری شروع کی تب تو اس کے ہاتھ پیر بلکل ہی پھول گئے تھے ۔۔۔
“ماموں ۔۔۔! وہ ۔۔”
ساشہ کے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہی ماموں نے حوصلہ دینے والے انداز میں اس کا سر تھپتھپایا تھا ۔۔۔
“میرا بہادر بچہ ! پریشان مت ہونا ۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔!
اللہ پر بھروسہ رکھنا اور خود کو اکیلا مت سمجھنا ۔۔۔
کبھی بھی کسی بھی معاملے میں میرے مشورے کی ضرورت ہو تو بے جھجک رابطہ کر لینا ۔۔۔۔۔”
اس نرم سے حوصلہ افزا جملے پر ساشہ گم صم سی انہیں جاتا دیکھتی رہ گئی تھی جب پیچھے سے علیشہ کھلکھلائی تھی ۔۔۔
ساشہ آنکھیں پھاڑے اسے حیرت سے دیکھنے لگی ۔۔ سمجھنا مشکل تھا وہ کیوں ہنس رہی ہے ۔۔۔ وہ بھی ایسی کربناک ہنسی ۔۔۔۔!!
آنکھ سے نکلتے آنسو کو انگلی کے پورے پر چنتی وہ ہنوز مسکراتے ہوئے گویا ہوئی تھی ۔۔۔
“مطمئین ہو جائیں ساشہ آپی ۔۔۔ ہر فکر سے خود کو آزاد سمجھیں ۔۔ آپ کے ساتھ شفیق ماموں کے “مشورے” ہیں !
اب دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی ۔۔۔ ماموں کے مشورے زندہ باد !!”
حق دق سی ساشہ بلکل نہیں سمجھ پائی تھی کہ علیشہ مزاق کر رہی ہے یا سنجیدہ ہے وہ تو جب جاتے جاتے اس نے سیڑھی پر رکھے گملے کو لات رسید کی تب اسے اندازہ ہوا تھا کہ وہ طنز کر گئی ہے ۔۔۔!!
*********
“اوہو !!
بھاگنے کی پلاننگ ہو رہی یے ۔۔؟؟؟”
وہ جو اس اکلوتی بند کھڑکی کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی ہیچھے سے آتی تمسخرانہ آواز پر اطمینان سے پلٹی تھی ۔۔
“موسم اتنا بھی ٹھنڈا نہیں ہوا ہے ۔۔۔ دن بھر تو بہت حبس رہتا یے ۔۔۔ سو اس لیئے کھڑکی کھولنا چاہتی تھی ۔۔۔
ورنہ بھاگ کر کیوں جائوں گی میں ؟
میرا شوہر یہاں ہے ۔۔۔ پھر کیوں بھاگنے لگی میں ؟؟”
کین سے کولڈ ڈرنک پیتے پارس کو زبردست کھانسی آئی تھی ۔۔۔
“شوہر ؟ سیریسلی شوہر ؟ اب بھی شوہر ؟”
اس کے دماغ میں یہ الفاظ چکرانے لگے تھے جبکہ خاموش نظروں سے اسے تکتی میشا اس کے نزدیک ہی فلور کشن پر بیٹھ گئی تھی ۔۔
پارس کی کھانسی ٹھیک ہوئی تو ہنسی کا دورا پڑ گیا اور جب ہنسی رکی تو وہ یکدم بلکل سنجیدہ ہو کر میشا کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔
“تمہارے دماغ پر لگتا ہے گہری چوٹ آئی ہے ۔۔۔۔۔۔!”
“میرے دل پر چوٹ آئی ہے ۔۔”
میشا کی آواز سرگوشیانہ تھی ۔۔۔
“دل پر ؟ کیوں ؟ کیا پیار ویار کر بیٹھی تھیں مجھ سے ؟”
پارس کا انداز پر مزہ تھا ۔۔۔
گویا وہ سیریس نہیں لے رہا تھا ۔۔۔ صرف انجوائے کر رہا تھا اس کی باتوں کو ۔۔!
“تھی نہیں ہوں !
پیار کر بیٹھی ہوں ۔۔۔۔ نکاح کے فوراً بعد مجھے محبت ہو گئی تم سے ۔۔۔ کیونکہ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ جو نکاح تک پہنچ سکتا ہے ۔۔۔ وہ فلرٹ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔”
وہ اس کی گرے آنکھوں میں اپنی سیاہ جھلملاتی آنکھیں گاڑ کر افسردگی سے بولی تھی ۔۔۔
پارس نے ایک بار پھر طویل عرصے کا قہقہ لگایا تھا ۔۔۔۔
“چچ ۔۔۔ ایک تو یہ مگر !
اچھا حقیقت پتا لگنے کے بعد تو محبت بھی ختم ہوگئی ہوگی نا ؟”
وہ یوں بات کر رہا تھا جیسے اس کے سامنے کوئی چھوٹا سا معصوم بچہ ہو اور جن پریوں کے خود ساختہ قصے سنا رہا ہو ۔۔۔ اور وہ اس کا دل رکھنے کو حیرت اور دلچسپی کا اظہار کر رہا ہو ۔۔۔
لیکن میشا بچی نہیں تھی ۔۔۔ وہ اس کی سنجیدگی کا مسنوعی پن اچھی طرح سمجھ رہی تھی ۔۔
“نہیں ۔۔۔ محبت ختم نہیں ہوتی ۔۔ بلکہ مر جاتی ہے ۔۔۔۔ بہت گھسی پٹی بات ہے مگر حقیقت ہے ۔۔۔”
پارس کچھ لمحوں تک اس کی لرزتی بھیگی پلکوں کو دیکھتا رہا پھر شانے اچکا کر پیچھے کو گر گیا ۔۔۔۔
“کچھ وقت بعد تمہاری محبت مر جائے گی ۔۔ فاتح خوانی کی تیاری کر رکھو !”
میشا نے اس کی یہ بات بلکل ان سنی کر دی تھی اور نا پسندیگی لہجے میں سمو کر اس سے پوچھا تھا ۔۔
“کتنی بار نکاح کی توہین کی ہے تم نے ؟”
“امم ۔۔۔۔۔ تم سے پہلے تک ایک ۔۔ اب دو !!”
“دو ؟؟؟ صرف دو ؟؟؟”
میشا کے لہجے میں خوشگوار حیرت تھی ۔۔۔۔
اس کا خیال تھا اس گھٹیا پیشے سے منسوب لوگ نا جانے کتنی بار ایسا کرتے ہیں ۔۔۔
“ہاں صرف دو ! کیونکہ نکاح تک پہنچنے کی ضرورت صرف دو کیسز میں ہی پیش آئی ہے ۔۔۔۔۔ باقی تو محبت کے نام پر اپنا آپ ویسے ہی نچھاور کرنے کو تیار ہو گئی تھیں ۔۔۔ !!”
“ویسی لڑکیوں سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔۔۔ محبت کتنی بھی شدید کیوں نا ہو ۔۔ جب “بات” حد سے آگے بڑھنے لگے ۔۔ تو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔۔۔
اور اگر وہ نہیں لیتیں تو وہ بھی محبت نہیں کرتی ہونگی ۔۔۔۔۔۔ تمہیں ان کی خوبصورتی چاہیے تھی اور انہیں ۔۔ انہیں تمہاری کسی بھی چیز سے غرض رہی ہو ۔۔۔ مگر محبت وحبت کا کوئی دخل نہیں ہوگا ۔۔۔۔ آئی ایم شیور ۔۔۔!”
میشا کے انداز میں ان لڑکیوں کے لیئے کسی قسم کا افسوس نہیں تھا ۔۔۔
“کیا فرق پڑتا ہے میشا ڈیئر ؟
انہوں نے نکاح کو ضروری نہیں سمجھا ۔۔۔ تم نے نکاح کر لیا !
کیا فرق پڑتا ہے ؟؟؟؟ انجام تو ایک ہی جیسا ہونا ہے نہ ؟”
“تم میرے انجام کی باتیں نا ہی کیا کرو تو اچھا یے پارس ڈیئر ۔۔۔۔
مجازی خدا ہو ۔۔ اللہ معاف فرمائے ۔۔ خدا نہیں ۔۔۔۔۔!!
اپنی بربادی پر وہ لڑکی جس سے تم نے نکاح کیا تھا ۔۔۔ چیخ سکتی ہے ۔۔۔۔ پوچھ سکتی ہے کہ جب وہ اپنی حد میں رہی تھیں تو اس کے ساتھ ایسا کیوں کر ہوا ؟؟
اللہ کی بارگاہ میں تو وہ بری ہوگی ۔۔۔
ان کا ضمیر تو مطمئین ہوگا ۔۔۔ ورنہ ضمیر کی مار بہت گہری چوٹ دیتی ہے ۔۔۔!
لیکن جو اپنی مرضی سے محبت کے نام پر تمہاری دسترس میں آ گئیں وہ اپنی بربادی پر کسی سے شکوہ نہیں کر سکیں گی ۔۔۔۔ وہ شکوہ کرنے کا حق کھو دیں گی ۔۔۔ دنیا میں جو تکلیفیں ہوں گی سو ہوں گی ۔۔۔ وہ تو اللہ کی بارگاہ میں بھی گنہگار ہوں گی ۔۔۔”
بول بول کر میشا کا حلق سوکھ گیا تھا ۔۔۔۔ پارس کے ہاتھ سے کین لے کر اس نے اپنے منہ سے لگا لیا تھا اور پارس منہ کھولے اسے دیکھ کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔
“سہی کی استانی لگ رہی ہو !”
کافی دیر بعد وہ بس یہی کہنے کے قابل رہا تھا ۔۔۔۔
“وہ لڑکی جس سے تم نے نکاح کیا تھا ۔۔۔ کیا اب بھی تمہارے نکاح میں ہے ؟”
وہ اٹھنے لگا تھا جب میشا کی بات پر پھر گر گیا ۔۔۔۔
“ہاں ۔۔۔۔!”
میشا کی نظریں اس کی پرسکون چہرے پر ساکت رہ گئی تھیں ۔۔۔
“اور وہ کس حال میں ہے ؟”
کانپتی ہوئی آواز بمشکل نکلی تھی ۔۔
“عیش میں ہے ۔۔۔۔ شروع شروع میں بہت چیختی چلاتی تھی ۔۔۔
اب تو گردن ہی ڈھیلی نہیں ہوتی محترمہ کی ۔۔۔۔۔
ہم غلاموں کو تو منہ بھی نہیں لگاتی اب ۔۔۔ بس مالکوں کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“بس !! بس کر جائو خدا کے واسطے ۔۔۔ ورنہ میں منہ توڑ دوں گی تمہارا ۔۔!”
میشا کو اچانک اس سے شدید کراہیت محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔ کانوں پر ہاتھ رکھ کر وہ چیخی تھی ۔۔۔ ایک ساتھ کئی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر آ نکلے تھے ۔۔۔۔
بلکل اچانک ہی وہ اپنی ہمت ہارنے لگی تھی ۔۔۔
“تم ہی نے پوچھا تھا ۔۔۔!”
وہ شانے اچکا کر بے نیازی سے بڑبڑایا پھر قدرے سنجیدگی سے زرا آگے کو جھک کر گویا ہوا ۔۔۔
“میشا مجھے کوِئی فرشتہ صفت شخص مت سمجھنا ۔۔۔ بلکہ میں کہتا ہوں مجھ سے کسی انسانیت کی امید بھی مت رکھنا ۔۔۔
ربانی کا حکم ہے تمہیں صحیح سلامت اس کے حوالے کروں ۔۔ ورنہ میں تمہیں اپنا ایسا روپ دکھاتا کہ تم مر جانے کی تمنا کرتیں ۔۔۔۔ کوئی امید نا رہتی تمہارے اندر !
ناجانے تمہاری کیا پلاننگ ہے ۔۔ تم کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہو ۔۔۔ جو کرنا چاہو کرو ۔۔ آئی ڈونٹ کیئر ۔۔ مگر ایک بات ذہن میں بٹھا لو ۔۔ بھاگنے کی غلطی مت کرنا ۔۔۔۔ ورنہ میں تمہاری کھال ادھیڑ دوں گا ۔۔ یا یہی یہیں جنگل میں کہیں زندہ دفنا دوں گا!”
اس کی گرے آنکھوں میں اتنی سرد مہری تھی کہ میشا کانپ کر رہ گئی تھی ۔۔۔
پیر کے قریب رکھے خالی کین کو پیر سے دور پھینک کر وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا جب میشا نے مدھم آواز میں پوچھا تھا ۔۔
“محبت کی ہے آپ نے کبھی ؟”
“ہاں ۔۔۔۔”
پارس نے رکے بغیر جواب دیا تھا ۔۔
میشا کے چہرے پر پہلے حیرت اور اگلے ہی پل افسردگی چھا گئی ۔۔
“کس سے ؟؟”
“پیسے سے ۔۔۔”
کچن سے جواب دیا گیا ۔۔ اور اس کا جواب سن کر میشا مطمئین سی مسکرا اٹھی ۔۔
“تو پارس ڈیئر ! محبت کا نزول ہونے والا ہے ۔۔۔ تیاری کر رکھو ۔۔”
میشا نے کہا نہیں تھا ۔۔ صرف سوچا تھا ۔۔۔ دل کی گہرائی سے !!
پارس جس کام سے منسوب تھا اس کے لیئے کچھ عجیب نہیں تھا لڑکیوں کا رونا گڑگڑانا منتیں کرنا چیخنا چلانا اور بد دعائیں دینا ۔۔۔
وہ ان سب کا عادی تھا ۔۔ یہ چیزیں بے اثر تھیں اس پر ۔۔۔
سو میشا نے اسے محبت سے سمجھانے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔۔
یوں بھی وہ دیکھ چکی تھی ۔۔۔ وہ دوسری منزل پر آباد تھی اور گھر ہر طرف سے بند تھا ۔۔۔۔۔ ایک کھڑکی تھی جو شائد باہر سے بند کر دی گئی تھی اور نیچے جانے کا ایک دروازہ تھا جہاں تالا لگا رہتا تھا ۔۔۔۔۔
عقل کا تقاضہ یہی تھا کہ کچھ پریکٹکلی کیا جائے ۔۔۔ کچھ ایسا جو اثر کر جائے ۔۔۔۔!
اور وہ ان تین دنوں میں اتنا تو اندازہ لگا چکی تھی پارس کے لیئے محبت ایک قطعی انجان جزبہ تھا ۔۔۔۔ وہ محبت جو سچی تھی ۔۔ بے غرض تھی ۔۔ پاک تھی ۔۔ جیسی محبت کی میشا قائل تھی ۔۔۔!
********
نہا دھو کر اس نے پارس کے لائے چند جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہن لیا تھا ۔۔۔
ورنہ مسلسل چھ دنوں تک وہ زرق برق سرخ شرارہ پہنے اسے اپنے جسم پر کانٹے چبھتے محسوس ہو رہے تھے ۔۔
انگوری رنگ اس پر بہت کھلتا تھا اس کا اندازہ پارس نے لگایا تھا جو دروازے میں کھڑا ہاتھ سینے پر باندھے اسے صاف ستھری چادر پر نماز کے بعد اب دعا مانگتے بہت دیر سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
“دعا کچھ زیادہ ہی لمبی نہیں ہو گئی تھی ؟”
میشا نے چادر تہہ کرتے ہوئے اطیمان سے بھری ایک نظر اس پر ڈالی اور چادر دیوار میں بنی الماری میں رکھ کر اس کے قریب چلی آئی ۔۔۔۔
“مانگا بھی تو بہت کچھ ہے !”
“ارے ۔۔۔۔ کیا کیا مانگ لیا ؟”
“اپنے گھر والوں کے لیئے اس وقت صبر سکون اور زندگی ۔۔۔
اپنی عزت کے لیئے حفاظت ۔۔۔
حفاظت کرنے کے لیئے تم !
اور تمہارے لیئے ہدایت !!”
پارس نے پہلے تو آنکھیں پھیلائیں پھر ہنستا چلا گیا ۔۔۔
“تم ۔۔۔ !! افسانوں کا بہت اثر ہے تم پر ؟؟؟ کیا سمجھ رہی ہو ؟ میں ولن سے ہیرو بن جائوں گا ؟
ہاہاہاہا ۔۔۔!!!!
اچھا پیاری لڑکی ۔۔۔۔ اگر تمہاری خواہش ہے کہ کچھ وقت فلمی احساسات کے نظر ہو جائے تو آئو ۔۔
تمہاری یہ خواہش میں پوری کر دیتا ہوں ۔۔ اتنی اچھی بچی بن کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ کچھ تو انعام ملنا چاہیے !”
پارس اس کا ہاتھ پکڑے اسے کمرے سے باہر لے آیا تھا ۔۔ وہ بھی چپ چاپ الجھی ہوئی سی اس کے ساتھ کھنچتی چلی گئی تھی ۔۔۔
نماز کے انداز میں بندھا دوپٹا کھول کر شانوں پر ڈالتے ہوئے اس نے حیرت سے پارس کو دیکھا تھا جس نے اپنا موبائل ایک گانا چلا کر سائڈ رکھ دیا تھا ۔۔۔
“آئو ۔۔۔۔!”
ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر پارس نے اسے اپنے قریب کیا تھا ۔۔۔ وہ بیچاری ہڑبڑا کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔ سوائے آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھنے کے کچھ بھی نہیں کر پائی تھی ۔۔۔!
“اے کاش کہ ہم ہوش میں اب آنے نہ پائیں ۔۔
اے کاش کہ ہم ہوش میں اب آنے نہ پائیں ۔۔
بس نغمے تیرے پیار کے گاتے ہی جائیں ۔۔
اے کاش کے ہم ہوش میں اب آنے نہ پائیں ۔۔
اے کاش کے ہم ہوش میں اب آنے نہ پائیں ۔۔
کھلتی مہکتی یہ زلفوں کی شام ۔۔
ہنستے کھنکتے یہ ہونٹوں کے جام ۔۔
آ جھوم کے ساتھ اٹھائیں ۔۔
بس نغمے تیرے پیار کے گاتے ہی جائیں ۔۔
اے کاش کے ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
میشا سمجھ نہیں پا رہی تھی اچانک اس کی آنکھوں میں دھندلاہٹ کہاں سے آ گئی تھی اور پل پل بڑھتی کیوں جا رہی تھی ۔۔۔
وہ پارس کا چہرہ دیکھنا چاہ رہی تھی مگر یہ دھندلاہٹ !
پارس یقیناً اچھا ڈانسر تھا ۔۔۔
اور میشا اچھی ہم رقص ۔۔
وہ زندگی میں پہلی بار اس طرح رقص کر رہی تھی مگر بہتر کر رہی تھی ۔۔۔۔
جب جب اس کے قدم زرا ڈگمگا جاتے پارس اسے سنبھال کر یوں گھما ڈالتا کہ اس کا ڈگمگانا بھی ڈانس سٹیپ بن جاتا ۔۔
گانا ختم ہونے والا تھا اور شائد پارس کو بھی اندازہ ہوگیا تھا جو اس نے گھما کر میشا کو اپنے بازو پر گرا لیا تھا ۔۔۔
اف ۔۔۔ بالآخر دھند چھٹ گئی تھی ۔۔
اس کے بازو پر گرنے سے آنکھوں جمح ہوتے سارے آنسو آنکھ کے کنارے سے نکلتے بالوں میں جذب ہونے لگے تھے ۔۔۔۔
گہری سانس بھر کر میشا نے آنکھیں زور سے میچ کر کھولی تھیں ۔۔ سارا منظر واضح تھا اور منظر میں پارس گم صم سا یک ٹک اسے تک رہا تھا ۔۔۔۔
بہت ہی نا فہم سے تاثرات تھے اس کے چہرے پر ۔۔۔ ناجانے کب سے !
نظریں چراتی ہوئی وہ اس کے بازو سے اٹھی تو پارس کو بھی جیسے ہوش آیا تھا ۔۔۔
گردن کھجاتے ہوئے وہ بلا وجہ ہی ہنس پڑا تھا ۔۔۔۔
“مجھ سے دور رہا کرو بیوٹی فل !
پیار ویار نہ ہو جائے مجھے تم سے ۔۔۔”
پارس نے کوشش کی تھی وہ اپنی آواز کی لڑکھڑاہٹ پر کنٹرول کر لے ۔۔ مگر وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔
“اللہ کرے ہو جائے ۔۔۔!!!”
پارس کے گال کو آہستگی سے سہلا کر وہ کچھ پل اس کے پتھریلا چہرہ تکنے کے بعد کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ پارس بت بنا کھڑا رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔
وہ ہنس کر اسکا مزاق اڑانا چاہتا تھا مگر دائیں گال پر وہ نرم سا ٹھنڈا سا احساس بہت اثر انگیز تھا جو اسے بہت دیر تک اپنے زیر اثر رکھے ہوئے تھا ۔۔
اور اس اثر سے باہر نکلتے کے ساتھ ہی اس نے ایک جھرجھری سی لی تھی ۔۔۔
“واٹ دی ہیل!”
بغلیں جھانکتا وہ بڑبڑا کر رہ گیا ۔۔۔۔!
**********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...