اس خوفناک رات کو بیتے آج چوتھی رات تھی۔جس رات غموں کا سایہ چپک گیا تھا ان سب کی زندگیوں کے ساتھ۔ مہجبین کے برئین ٹیومر سے لے کر انجبین کی طلاق تک۔زیان کے بدلتے روئیے سے اس پہ لگنے والے الزام تک۔
جس رات مہجبین کی امی نے اسکو اپنے پاس آنے کو کہا تھا کہ کہیں یہ لڑکی خود کو ہی نہ نقصان پہنچا دے۔اس لیے پہلے انہوں نے اپنی طرف آنے کو کہا! اور اس کے بعد انہوں نے آس بارے میں بات کی کہ انجبین کو طلاق ہو گئی ہے۔۔۔طلاق کی خبر سن کر مہجبین رک نہ پائی اور گھر جانے سے پہلے اس نے انجبین سے ملنے کی بہت ضد کی جس کی وجہ سے زیان اسے نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں لے گیا۔
کاش وہ اسکی بات نہ سنتا اور نہ وہاں لے کر جاتا۔نہ دونوں دوستوں کے درمیان تلخ کلامی ہوتی۔ اور نہ مہجبین یوں بستر سے لگ جاتی۔
زیان میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں! مہجبین بستر پر ٹھیک ہو کر بیٹھتے ہوئے بولی۔
اسکے چہرے سے لگ رہا تھا کہ اسکے ذہن میں جو سوال ہے وہ بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔اور وہ اس کا جواب لیے بنا نہیں رہے گی۔
زیان نے ٹیبلٹس اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔
زیان: میں جواب دوں گا لیکن اس سے پہلے وعدہ کرنا ہو گا تمہیں بھی مجھ سے۔ زیان نے دو ٹوک لہجے میں اپنی بات کی تھی۔اس انداز سے بات کرنے سے مہجبین بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتی تھی اسے یوں محسوس ہوتا جیسے مانگنے والا کچھ ایسی چیز مانگے گا جسے دینے کی سکت یا حوصلہ مہجبین میں نہیں ہوگا۔
مہجبین: میں وعدہ؟ مگر کیا؟ میرے سے آپکو وعدے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے زیان!
مہجبین کی آواز بے حد مدہم تھی،اسکی صحت روز بروز گرنے لگ گئی تھی۔
زیان: کیا سوچ رہی ہو؟
مہجبین: کچھ بھی نہیں۔وہ ہاتھ کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے بولی۔
زیان اس کے قریب بیٹھ کر اس کے ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔
مہجبین: آپ کسی سے پیار کرتے تھے؟ مہجبین ایسا سوال پوچھے گی اس کے لیے زیان تیار نہیں تھا۔
زیان: نہ کبھی بھی نہیں۔۔۔زیان نے اتنی جلدی سے جواب دیا کہ جیسے اگر اس نے دیر لگا دی تو اس کا بہت اہم راز فاش ہو جائے گا۔۔۔
“لو دوائی لو اپنی اور یہ فضول باتیں سوچنا چھوڑ دو”۔
مہجبین: زیان انسان کا سچ اسکی آنکھوں میں ہوتا ہے نا۔آپ ہی نے کہا تھا انجبین کے گھر میں۔آپکو یاد ہے نا۔ مہجبین نہ جانے کیوں آج ایسے سوالات اٹھا رہی تھی۔۔وہ تو زیان کے ایک بار کہ دینے پہ ایمان لے آتی تھی۔
زیان نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور اپنی ڈبڈباتی آنکھیں لیے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
مہجبین اسے یوں جاتے دیکھتی رہی۔۔وہ مسکرا رہی تھی جیسے اسے اپنے آپ پہ ہنسی آرہی تھی۔
__________________
انجبین بیٹی کہاں جا رہی ہو تم؟ ماں نے پیچھے سے آواز دے کر روکنا چاہا لیکن تب تک وہ گھر سے باہر نکل گئی تھی۔ تین دن رات لگاتار وہ بھی الجھن کا شکار رہی تھی۔
اپنی دوست کو ایسے باتیں سناتی ایسے الزامات اسکے شوہر پہ لگاتی وہ بہت کچھ ایسا بول گئی تھی جو اسے زیب نہیں دیتا تھا۔۔۔ جو کم سے کم اسے اپنی دوست کو نہیں کہنا چاہیئے تھا۔
انجبین جوں ہی گھر سے باہر نکلی سامنے سے اسے کاشف آتا دیکھائی دیا۔وہ بہن کو دیکھتے ہی اس کے پاس آگیا۔
کاشف: کہاں جا رہی ہیں آپی؟ تعجب سے کاشف نے اپنی بہن سے پوچھا۔
انجبین: اچھا ہوا تم آگئے مجھے جبین کی طرف جانا تھا اب تم لے چلو پلیز۔ وہ جلدی سے گھر جانے کو پلٹی۔
کاشف: وہ لوگ گھر پر نہیں ہیں! کاشف نے نرمی سے جواب دیا۔۔۔
انجبین: تم کو گھر بیٹھے الہامات کے ذریعے پتہ لگتا ہے کاشی؟ انجبین کا لہجہ سخت تھا،وہ اپنے کیئے کی جلد از جلد معافی مانگ لینا چاہتی تھی! اسی وجہ سے اسکا مزاج سخت لگ رہا تھا۔
کاشف نے بات ہنس کر ٹال دی وہ جانتا تھا کہ اسکی بہن کس قدر ضدی ہے۔
“اندر تو چلیں بتاتا ہوں”
کاشف نے گھر کے اندر آکر پانی پیتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔۔۔
کاشف: وہ زیان بھائی جبین آپی کو ہسپتال لے کر گے۔
انجبین: تمہیں کس نے بتایا؟ اور کیوں گئے ہیں وہ۔
کاشف: میں اس آفس میں ہی جاتا ہوں تھوڑی دیر کے لیے راشد بھائی کی جگہ۔۔تو وہاں زیان بھائی جلدی سے نکل گئے تھے کہ جبین آپی کو چیک اپ کے لیے لے جانا ہے۔۔
انجبین: کیا ہوا ہے اسے وہ ٹھیک تو ہے؟ کس ہسپتال گئے ہیں وہ لوگ مجھے بھی لے چلو پلیز بھائی ہو نا۔وہ بچوں کی طرح بے چین ہو گئی تھی۔اسے مکافات عمل سے شدید خوف آتا تھا۔وہ اس قدر اذیت ناک ماحول میں رہی تھی کہ کبھی تو اسکی ذہنی صحت کے بارے میں بھی شک ہونے لگتا تھا۔
کاشف نے شام کو زیان کے گھر لے جانے کا وعدہ کیا تو تب کہیں جا کر انجبین نے یہ ضد چھوڑی تھی۔
___________________
“زیان پلیز بار بار ایک ہی بات مت کریں۔ اگر اب بھی آپکی یہی ضد رہی تو میں امی کے گھر چلی جاؤنگی!” مہجبین اپنا ہاتھ چھڑوا کر زیان سے چند قدم آگئے چلنے لگی۔اور پھر اچانک سے رک گئی اور پلٹ کر زیان کے پاس چلی آئی اور اپنا ہاتھ زیان کے ہاتھ میں دے دیا۔ “نہیں جاؤنگی مگر یہ بات نہ کیا کریں پلیز” اس کی آواز بھرائی تھی وہ ڈبڈباتی آنکھوں سے زیان کو دیکھ رہی تھی۔ زیان اس پاگل سی لڑکی کو دیکھے جا رہا تھا۔وہ مسکرا دیا اور نرمی سے مہجبین کا ہاتھ تھام کر گاڑی تک لے آیا۔
“ایکسکیوز می بیٹا” یہ آواز کار پارکنگ میں کھڑی ایک نئی ماڈل کی ہنڈا کار میں سے آئی تھی۔ زیان نے مہجبین کو بیٹھاتے ہوئے دروازہ بند کر کے گاڑی کی جانب گھوم کر دیکھا۔
گاڑی میں بیٹھے ہوئے اس شخص سے زیان پہلے بھی مل چکا تھا۔اس کا چہرہ رنگ بدلتا جاتا تھا جیسے جیسے پہلی ملاقت کی یاد آتی جارہی تھی۔ اسے اپنا کیا ہوا وعدہ یاد آنے لگا تھا۔
زیان: جی انکل! آپ یہاں کیسے؟ زیان نے اپنے تاثرات کو اپنے قابو میں لاتے ہوئے سوال کیا۔
گاڑی میں خاور خان بیٹھے ہوئے تھے اور وہ مسلسل مہجبین کو دیکھ رہے تھے۔اپنی اس بیٹی کو جس نے باپ کا نام سن رکھا تھا مگر دیکھا نہیں تھا۔
خاور خان: میں تو بیٹا ایسے ہی ایک دوست کو دیکھنے آیا تھا۔تو یک ہیں آپکی بیگم۔
وہ گاڑی سے باہر نکل آئے تھے اور مہجبین کی طرف ہی بڑھ رہے تھے۔ انہیں اپنی جانب آتا دیکھ کر مہجبین احتراماً گاڑی سے نکلنے لگی تو خاور خان نے ہاتھ کے اشارے سے وہیں بیٹھے رہنے کو کہا اور پاس آکر سر پہ ہاتھ پھیرا۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کی سونی نگاہوں کی تاب نہ لا سکے،اس کی آنکھوں میں موجود اجنبیت محسوس کر کے خاور خان کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے۔ انکے ہاتھ کی لرزش کو مہجبین نے اپنے سر پر محسوس کیا تھا۔ اپنائیت بھرا لمس اور اس لمس میں بھی اجنبیت کی ملاوٹ! وہ ڈھیروں سوال دل میں لیے سلے ہوئے لبوں کے ساتھ گھر لوٹ رہی تھی۔
___________________
مہجبین اور زیان شام کو گھر واپس آئے تو وہاں انجبین پہلے سے ہی موجود تھی۔اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ مہجبین کو دیکھتے ہی بجلی کہ سی تیزی سے آگے بڑھی اور اس کے گلے جا لگی! یہ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوا کہ مہجبین بت بنی کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ وہ سمجھ بھی نہیں سکی کہ یہ اچانک سے کیا ہوگیا ہے۔ زیان کی دھڑکنیں بترتیبی سے چلنے لگی تھی۔
وہ وہاں سے چلا آیا،اس کا دل الجھنوں کا شکار ہوئے جا رہا تھا۔وہ کیا کرے کیا نہ کرے۔
وہ اپنی دل کی کیفیت کس سے بیان کرے،
کون اس کی الجھنوں کو سمجھے گا،
خود غرض بن کر ہمیشہ جس کو خدا سے مانگا تھا وہ پھر سے زندگی میں لوٹ آئی تھی۔ اب اسے اپنا آپ بہت حقیر لگ رہا تھا۔ زیان کے سامنے دو ایسی لڑکیاں موجود تھیں جن میں سے ایک اس کی چاہت تھی تو دوسری کی چاہت وہ خود تھا۔
وہ آج جان گیا تھا کہ ذہنی اذیت کیا ہوا کرتی ہے۔ اور اس تکلیف کو سہنا کس قدر کٹھن ہوتا ہے۔
________________
انجبین کے جانے کے بعد سے مہجبین بہت بہتر دیکھائی دے رہی تھی۔ وہ جیسے کھل اٹھی تھی۔اسکی دوست اس کے گھر آئی اپنی غلطی کی معافی مانگی اور وہ کتنی خوش ہوئی تھی یہ جان کر کے مہجبین ماں بنے والی ہے۔ وہ اتنے غم سہنے کے باوجود بھی دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا جانتی تھی۔
مہجبین جب کمرے میں آئی تب زیان اپنی دراز کی صفائی کرنے میں مصروف تھا۔
مہجبین: کیا تلاش کر رہے ہیں زیان آپ؟ مہجبین اپنا آپ سنبھالتی ہوئی زیان کے قریب ہی بیٹھ گئی زمین پہ۔
زیان: بس ایسے ہی سیٹنگ ٹھیک کر رہا ہوں۔ اور یہ تم زمین پہ کیوں بیٹھ گئی؟ وہ پریشان ہو گیا تھا۔
اس نے جلدی سے مہجبین کو کھڑا کر دیا، اور خود بھی کھڑا ہو گیا۔ “یہ حرکتیں نہ کرو تو کیا ہی بات ہو جائے” زیان نے عجیب سے گھٹن زدہ ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔
مہجبین: اچھا جی تو آپ بھی میرے پاس بیٹھیے اور دیکھیں آج میں خوش ہوں! وہ مسکرا رہی تھی اور اسکی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
زیان: مجھے بھی تو شامل کرو نا اس خوشی میں۔۔ زیان سچ مچ اس خوشی کی وجہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔
زیان کے بار بار اسرار کرنے پہ مہجبین نے بات بتانے کی حامی بھر لی تھی۔
مہجبین: جب ہم لوگ انجبین کے گھر گئے تھے تب اس نے مجھے کہا تھا۔ ” تم اور تمھارا شوہر شوہر میری طلاق کی وجہ ہو”۔۔۔
مہجبین کو وہ بات یاد کر کے اذیت ہوئی تھی۔اسکی آنکھوں میں آنسوں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔
زیان: ہم وجہ کیسے؟ اور میں کیوں! زیان کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ وہ شدید حیرت میں مبتلا ہے۔اس کے دل پہ یہ بات سن کر کیا گزری وہ بس زیان ہی جانتا تھا۔
مہجبین نے مہندی کی رات سیڑھیوں سے گرتی ہوئی انجبین کے زیان کے سہارا لینے سے، مہندی لگاتے ہوئے ہاتھ تھامنے سے لے کر جب وہ لوگ نائلہ آپی کے ساتھ گئے تھے تب تک کی ہر وہ بات زیان کو بتائی جس کو دیکھ کر وہاب انجبین کو طعنے دیتا تھا۔۔
مہجبین بچوں کی طرح ہر بات بولے جا رہی تھی۔ اسکا تو جیسے ایمان تھا کہ زیان کی نیت کبھی خراب ہو ہی نہیں سکتی۔ اور انجبین کے دل میں زیان ہوتے تو وہ بتاتی کیوں نہ۔ ہاں وہ کبھی کبھی ان کے سامنے آنے سے کنی کتراتی تھی اور بوکھلاہٹ کا شکار ضرور ہوتی تھی لیکن اس بات کو وجہ بنا لینا کسی کو اذیت دینا بلکل بھی اچھا نہیں لگتا۔
دونوں بہت دیر یونہی بیٹھے رہے! مہجبین بولتی رہی اور زیان سنتا رہا۔ کیا کرتا اگر سنتا نہ۔ چور تو تھا اس کے دل میں۔ بول دیتا تو یہ مان ٹوٹ جاتا اسکی بیوی کا ۔ وہ سب کچھ سنتا رہا۔ اس کے اندر مہجبین نام کا طوفان اٹھنے لگا تھا۔
___________________
رات کے اس پہر جب سب سو رہے تھے تب وہ بےچینی کے، اضطراب کے حال میں نیند سے بیدار ہوا۔ اٹھ کر وضو کیا اور نماز تہجد کی نیت کی۔ آج پہلی بار اس کے ذہن میں شیطانی وسواس یا کوئی بھی دوسرا وہم خیال اسکے ذہن میں پروان نہیں چڑھ رہا تھا۔
وہ سجدہ میں گیا تو جیسے اس کے دل کا غبار اور سر پر سوار بوجھ سر جھکنے کی بدولت کم ہونے لگا تھا۔ دوسری رکعت میں اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔ وہ بے اختیار تھا۔ الله تعالیٰ نے اس کو دیکھا دیا تھا کہ وہ اکیلا کچھ بھی نہیں ہے۔
وہ ہاتھ اٹھا کر اپنے اللّٰه سے مانگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پہ آنسوؤں رواں تھے۔۔
اے اللّٰه تو جانتا ہے مجھ میں بہت سے نقائص ہیں۔ میں بہت کمزور ہوں۔ مجھے حمت دے۔ مجھے نکال اس مشکل سے۔ میرے دل میں پیار ڈالا ہی تھا تو عطا بھی کر دیتا! کیوں مجھے الجھنوں کا شکار کیا۔ میں نے پیار تو نہ مانگا تھا آپ سے۔ میرا دل مائل کیوں کیا تھا۔ ایک بے بس انسان کے اتنے امتحان کیوں لیتا ہے باری تعالیٰ۔
مولا میری لغزشوں کو معاف کر دے! میں آج کے بعد اس نامحرم کی چاہت نہیں رکھوں گا دل میں۔
بس اپنی بیوی کے لیے جیوں گا اسکی چاہت کروں گا۔ مجھ حقیر کی دعا قبول کر لینا۔
“وہ پھر سے سجدے میں چلا گیا تھا، اس مالک قل کے آگے جھک گیا تھا جس نے پیار کا ننھا سا پودا دل میں لگایا تھا” وہ انجبین کے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی کے لیے خود کو مجرم سمجھتا تھا۔
“اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے”،
( چاہت کا ہی تو جھگڑا تھا مولا 6)
“اور ایک میری چاہت ہے”،
( تیری چاہت قبول ہے مولا)
“ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے”۔
(ہو تو رہا ہے مولا)
“پس اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے کو اس کے جو میری چاہت ہے”۔
(تیری چاہت کی چاہت میرے دل میں جگا دے یا اللّٰه).
“تو وہ بھی میں تجھ کو دے دُوں گا جو تیری چاہت ہے”۔
(جو دے دیا ہے اللّٰه جی وہی میری چاہت ہے اس سے منہ نہ موڑوں گا)
“اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے”،
(اب ایسا نہ ہوگا)
“تو میں تھکا دُوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے”۔
(میں تھک گیا ہوں، میں ہار گیا ہو مجھے اس پستی سے نکال دے۔ میں تیری رضا میں راضی ہوں)
“پھر وہی ہو گا جو میری چاہت ہے”۔
(قبول ہے مجھے)
زیان کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ اشکوں سے لبریز آنکھیں لیے سجدے جب اٹھا تو وہ خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔
اسے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنائی دی، زیان نے پلٹ کر دیکھا تو وہاں مہجبین موجود تھی۔ اور مسکرا رہی تھی۔
مہجبین: کیا مانگ رہے ہیں آپ؟ مہجبین بہت مشکل سے زیان ک پاس بیٹھی تھی۔ زیان نے روکنا چاہا تھا لیکن وہ اب کی بار ماننے والی نہیں تھی۔
زیان: تمہیں مانگ رہا تھا! زیان کا انداز اس قدر محسور کن تھا کہ مہجبین سنتے ہی شرما گئی۔
_____________________
مہجبین کی بیماری کے بارے میں گھر میں سب کو ہی خبر کر دی گئی تھی۔ اور مہجبین امید سے ہے یہ بات بھی سب کے علم میں تھی۔ جس روز سے انجبین کو اس بیماری کے بارے میں بتایا گیا اس دن کے بعد سے وہ روز اپنی سہیلی سے ملنے آنے لگی تھی۔
اس کی نگاہوں کا مرکز مہجبین سے زیادہ زیان ہوا کرتا تھا۔ جو اپنی بیوی کی کیئر ایسے کرتا تھا جیسے وہ کوئی چھوٹی سی بچی ہو۔
جہاں زیان اور مہجبین کی زندگیوں میں آنے والی خوشی کو لے کر سب خوش تھے، وہیں مہجبین کی بیماری پریشانی کا باعث بنی ہوئی تھی۔ وہ کسی صورت بھی اپنے ہونے والے بچے کو دنیا میں لانے سے قبل ہی ختم کر دینے کو ہرگز تیار نہیں تھی۔ یہ بات سب ہی اسے سمجھا چکے تھے لیکن وہ ہر بار انکار کر رہی تھی۔
مہجبین کی امی: جبین زندگی کے ساتھ ہی تو تمام خوشیاں جڑی ہوتی ہیں۔ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو کیا فائدہ؟ بولو۔
مہجبین: زیان ہیں۔ ماں بھی ہیں میرے بچے کی پھوپھو بھی ہیں۔۔ وہ اٹھلاتے ہوئے کہتی۔ اس کا مان تھی اسکی فیملی۔
گھر میں موجود افراد کو وہ ہنس کر ٹال دیا کرتی تھی۔
زیان: تم نے کیا سوچا؟
مہجبین: کچھ بھی نہیں۔ بہتر ہے آپ بھی مت سوچیں وہ جو ممکن نہیں ہے۔
زیان: لیکن تم یہ سب کر کے اپنی زندگی اپنے ہاتھ سے ختم کرنے کے درپے ہو۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ زیان کا لہجہ قدرے درشت تھا۔
مہجبین: اب آپ بلاوجہ بحث کر رہے ہیں زیان! مہجبین کا لہجہ بچوں جیسا معصومانہ اور شفاف تھا۔
زیان: ٹھیک ہے کرو جو جئ چاہتا میرا کیئر کرنا تو تمھیں یوں بھی گراں گزرتا ہے۔ تمھاری چند سانسیں بچا لینے کی کوشش بھی تمھیں اچھی نہیں لگتی۔ زیان نے پلٹ کر مہجبین کو دیکھا تو وہ رو رہی تھی۔ اپنی آواز کو دبانے کی خاطر اس نے اپنا ہاتھ منہ پہ نہایت مضبوتی سے دبایا ہوا تھا۔
اسکی جب کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا تو اس نے اپنے آپ کو زیان کے سینے میں چھپا لیا اور زیان کی شرٹ پکر کے بولی،
مہجبین: “سانس گنتی کے مقرر ہو چکے ہیں نہ کوئی حادثہ ہمیں پہلے مار سکتا۔نہ ہی کوئی حفاظت ہمیں زیادہ دیر زندہ رکھ سکتی ہے”۔ پلیز زیان مان جائیں مجھے اس بچے کو جنم دینے سے مت روکیں پلیز! مہجبین کی آنکھوں سے آنسوں بہتے بہتے اس کے رخساروں تک آچکے تھے۔۔
زیان عجیب کشمکش کا شکار تھا، اس کی الجھن بجائے کم ہونے کے زیادہ ہو گئی تھی۔ وہ اپنی بات کہنے کے لیے مناسب الفاظ کی تلاش میں تھا جب مہجبین پھر سے بولنے لگی وہ بہت سی باتیں بولنا چاہتی تھی۔
روتے روتے جبین نے زیان کی شرٹ کے کالر کو تھام رکھا تھا وہ سسک رہی تھی اور روتے ہوئے ہی بولی،
مہجبین: انسان مرجاتا ہے،اور زندگی پھر بھی زندہ رہتی ہے۔ زیان اس زندگی کو زندہ رہنے دیں پلیز! اس نے زیان کا ہاتھ اپنے جسم کے اس حصہ پہ لگایا جہاں ایک اور زندگی اپنا وجود رکھتی تھی۔
__________________
امی مجھ میں کیا کمی تھی جو مجھے زیان جیسا لڑکا نہیں ملا۔ انجبین نے ماں سے سوال کیا جو وہ بہت دیر سے کرنا چاہتی تھی۔ بس ماں کے سلام پھیرنے کا انتظار کر رہی تھی۔
ماں کو بیٹی کا یہ سوال کچھ عجیب سا لگا تھا، اسی لیے تو انہوں نے جواب نہ دیا بلکہ خاموشی سے انجبین کے چہرے کو دیکھتی رہیں تاکہ اندازہ لگا سکیں کے انکی بیٹی سوچ کیا رہی ہے۔
ماں کو خیالوں میں الجھتے دیکھ کر انجبین نے مسکراتے ہوئے کہا،
انجبین: امی ایسا نہیں ہے کہ میں جبین سے حسد کرتی ہوں یا زیان میں انٹرسٹڈ ہوں۔ بس نصیبوں میں فرق کی بات کر رہی۔ کل تک جس لڑکی کو میں اپنے سائے میں لے کر چلتی تھی۔ آج وہ ایک پھل دار سایہ شجر ہے اور میں ایک سوکھی شاخ۔
انجبین کی آنکھوں میں شدید جلن محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ بہت دنوں سے اپنے آنسوؤں کو اپنے ہی اندر جذب کرتی رہی تھی۔
ماں اس کی باتوں کے جواب میں کیا کہ سکتی تھیں۔نصیب کا لکھا،قسمت کی خرابی اور ان کے علاوہ تھا بھی کیا جسے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا تھا۔
_____________________
جبین امی کہ رہی ہیں کہ تم نے آج جوس نہیں پیا تھا صبح! زیان جوس کا گلاس ہاتھ میں لیے کرسی کے پاس رکھے فرشی کشن پہ آکر بیٹھ گیا۔۔
مہجبین: مجھے نہیں پینے کا دل کر رہا۔
زیان: دل میرا بھی نہیں کر رہا لیکن کیا کروں پینا تو ہوگا ہی۔ زیان کی دل موہ لینے والی مسکان اور اس کے ساتھ ابروں کی جنبش۔ اور جنبش بھی اس جانب جہاں نظر پڑتے ہی مہجبین شرما جاتی اور اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگ جاتی کہ نہیں آپ نہ دیکھا کریں نظر لگ جائے گی۔
وہ زیان کو زیادہ دیر تک انکار کر ہی نہیں سکتی تھی۔ وہ یہ بات ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتی تھی کہ اس نے اپنی ذات کو زیان کے لیے فنا کر رکھا ہے۔ ایک پل کی مسکراہٹ کے لیے جانے وہ کتنے جتن کیا کرتی تھی!
جب تک زیان نے خوب اچھے سے گلاس میں موجود جوس کی آخری بوند تک مہجبین کے منہ میں نہ ٹپکا دی وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔
جوس ختم کر کے جبین نے بچوں کی طرح اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے ہونٹ صاف کیے اور گلاس زیان کی گود میں رکھ دیا۔
زیان: تم نے مجھ سے بچہ پیدا کرنے کی ضد کی تھی۔ میں نے تمہیں اجازت دے دی!
مہجبین: اب آپ کیا اس اجازت کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں ؟ مہجبین کا لہجہ یک دم تلخ ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے بدلتے لہجے کی پرواہ نہ کی۔
زیان اس بات کو سن کر غصہ نہ ہوا، بلکہ اسی ٹھنڈے اور دھیمے مزاج اور نرمی سے بولا،
زیان: اگر خوشی دینا کسی کو قیمت چکانا ہے تو ایسا ہی سمجھ لو۔
وہ گلاس رکھنے باہر چلا گیا اور واپسی پہ اسے اپنی بات کا جواب لینا تھا۔
_____________________
بات کا جواب لیںنے سے پہلے زیان کسی اور کام میں مصروف ہو گیا جس کی وجہ سے جواب نہ لے سکا۔
مہجبین بلکونی میں کھڑی تھی، وہ اپنے سامنے موجود چاند کو دیکھ رہی تھی! چاند اس رات بھی تو تھا جب وہ دلہن بنی زیان کے پاس آئی تھی۔ اس کی زندگی میں آنے والی وہ پہلی خوشی تھی۔ پہلی دلی خوشی، جس سے اسے تسکین ہوئی تھی۔
میں نہیں رہوں گی تو تب بھی یہی منظر ہوگا کیا؟ کیا ہمارے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میری زندگی بھی کیسی عجیب زندگی ہے۔
زندگی بھر خوشیوں روٹھی رہی مجھ سے،
اب جب کے خوشیاں قریب آئی ہیں، تب زندگی روٹھنے کی تیاری کر چکی ہے۔ وہ موت کا سوچ کر ان اچھے لمحات کو غم میں ڈوبے ہوئے نہیں گنوانے دینا چاہتی تھی۔ لیکن آخر کو وہ بھی تو انسان تھی۔ اسکے دل میں بھی زندہ رہنے کی خواہش نے جنم لیا تھا۔اسے بھی زندگی اچھی لگنے لگی تھی۔اپنے ہونے والے بچے کا سوچ کر وہ کس قدر خوش تھی، لیکن کیا پتہ وہ اس کو دیکھ سکے گی بھی یا نہیں! مہجبین نے آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اٹھا کر آسمان کو دیکھا! اس کے اندر سے کہیں بہت دور سے ایک آواز آئی “*آخر میں ہی کیوں*!”
آج وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ اس کے سر میں اٹھنے والی درد کی لہریں اس کی سوچوں کو منتشر کر رہی تھیں۔ چودہویں کا چاند بھی دھندلا سا گیا تھا، اس کا سر چکرانے لگا تھا! وہ گرنے لگی تھی اسے سر میں درد ہونے لگا تھا۔۔ وہ زمین پر گر جاتی اگر زیان بروقت وہاں پہ نہ آجاتا۔۔ زیان کے پہنچتے ہی مہجبین بے ہوش ہو گئ…
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...