وہ پچھلے کئی سالوں میں کئی بار پاکستان آتا جاتا رہا تھا اسے کبھی واپس جاتے ہوئے اس قسم کی کیفیات کا شکار نہیں ہونا پڑا تھا جس قسم کی کیفیات کا شکار وہ اس بار ہوا تھا۔ جہاز کے ٹیک آف کے وقت ایک عجیب سا خالی پن تھا، جو اس نےا پنے اندر اترتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ اس نے جہاز کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ بہت دور تک پھیلے ہوئے اس خطے میں کہیں امامہ ہاشم نام کی ایک لڑکی بھی تھی۔ وہ وہاں رہتا تو کبھی کہیں کسی وقت کسی روپ میں وہ اسے نظر آجاتی۔ اسے مل جاتی۔ یاکوئی ایسا شخص اسے مل جاتا جو اس سے واقف ہوتا لیکن وہ اب جہاں جا رہا تھا اس زمین پر امامہ ہاشم کہیں نہیں تھی۔ کوئی اتفا ق بھی ان دونوں کو آمنے سامنے نہیں لاسکتا تھا۔ وہ ایک بار پھر ایک لمبے عرصے کے لئے”امکان ” کو چھوڑ کر جارہا تھا۔ وہ زندگی میں کتنی بار “امکان ” کو چھوڑ کر جاتا رہے گا۔
دس منٹ کے بعد پانی سے ٹرینکولائز کو نگلتے ہوئے اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ زندگی میں کہیں بھی نہیں کھڑا تھا۔ وہ زندگی میں کبھی بھی نہیں کھڑا ہوپائے گا۔ اس کے پیروں کے نیچے زمین کبھی نہیں آسکے گی۔
ساتویں منزل پر اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے بھی اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ وہاں جانا نہیں چاہتا تھا وہ کہیں اور جانا چاہتا تھا۔کہاں۔۔۔۔۔؟
اس نے اپارٹمنٹ کے دروازے کو لاک کیا۔ لاؤنج میں پڑے ٹی وی کو آن کیا۔ سی این این پر نیوز بلیٹن آرہا تھا۔ اس نے اپنے جوتے اور جیکٹ اُتار کر دور پھینک دئیے۔ پھر ریموٹ لے کر صوفے پر لیٹ گیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ چینل بدلتا رہا ۔ ایک چینل سے گونجتی آوازنے اُسے روک لیا۔
ایک غیر معروف سا گلوکار کوئی غزل گا رہا تھا۔
میری زندگی تو فراق ہے ، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
اس نے ریموٹ اپنے سینے پر رکھ دیا۔ گلوگار کی آواز بہت خوبصورت تھی یا پھر شاید وہ اس کے جذبات کو الفاظ دے رہا تھا۔
ہمیں جاں دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر جو نہیں کوئی، تو ہمیں سہی
شاعری، کلاسیکل میوزک ، پرانی فلمیں ۔ انسٹرو مینٹل میوزک اسے ان تما م چیزوں کی worthکا اندازہ پچھلے کچھ سالوں میں ہی ہونا شروع ہوا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں نے اس کی موسیقی کے انتخاب کو بہت اعلیٰ کردیا تھا اور اردو غزلیں سننے کا تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
سر طور ہو، سر حشر ہو ، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں ، وہ کہیں ملیں ، وہ کبھی سہی ، وہ کہیں سہی
اسے ایک بار پھر امامہ یاد آئی۔ اسے ہمیشہ وہی یاد آتی تھی۔ پہلے وہ صرف تنہائی میں یاد آتی تھی پھر وہ ہجوم میں بھی نظر آنے لگی۔۔۔۔۔ اور وہ۔ وہ محبت کو پچھتاوا سمجھتا رہا۔
نہ ہو ان پہ جو مرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں ان ہی کا تھا، میں ان ہی کاہوں، وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
سالار یک دم صوفے سے اٹھ کر کھڑکیوں کی طرف چلا گیا۔ ساتویں منزل پر کھڑے وہ رات کو روشنیوں کی اوٹ میں دیکھ سکتا تھا۔ عجیب وحشت تھی جو باہر تھی۔ عجیب عالم تھا جو اندر تھا۔
ہو جو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پر نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں، وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
وہاں کھڑے کھڑکیوں کے شیشوں کے پار اندھیرے میں ٹمٹماتی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنے اندر اُترنے کی کوشش کی۔
“میں اور کبھی کسی لڑکی سے محبت کروں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
بہت سال پہلے اکثر کہا جانے والا جملہ اسے یاد آیا۔ باہر تاریکی کچھ اور بڑھی ۔ اندر آوازوں کی بازگشت۔۔۔۔۔ اس نے شکست خوردہ اندا ز میں سر جھکایا پھر چند لمحوں کے بعد دوبارہ سر اٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ انسان کا اختیا ر کہاں سے شروع کہاں پر ختم ہوتا ہے؟ڈپریشن کا ایک اور دورہ ، وہ باہر نظر آنے والی ٹمٹاتی روشنیاں بھی اب بجھے لگی تھیں۔
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو ، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
سالار سکندر نے مڑ کر اس کی اسکرین کو دیکھا ، گلوگار لہک لہک کر بار بار آخری شعر دہرا رہا تھا۔ کسی معمول کی طرح چلتا ہوا وہ صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔ سینٹرل ٹیبل پر رکھے ہوئے بریف کیس کو کھول کر اس نے اندر سے لیپ ٹاپ نکال لیا۔
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو ، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
گلوکار مقطع دہرا رہا تھا۔ سالار کی انگلیاں لیپ ٹاپ پر برق رفتاری سے حرکت کرتے ہوئے استعفیٰ لکھنے میں مصروف تھیں۔ کمرے میں موسیقی کی آواز اب ڈوبتی جارہی تھی۔ استعفیٰ کی ہرلائن اس کے وجود پر چھائے جمود کو ختم کر رہی تھی وہ جیسے کسی جادو کے حصار سے باہر آرہا تھا۔ کوئی تو ڑ ہورہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“اپنے کیر ئیر کے اس اسٹیج پر اس طرح کا احمقانہ فیصلہ صر ف تم ہی کرسکتے تھے۔”
وہ فون پر سکندر عثمان کو خاموشی سے سن رہا تھا۔
“آخر اتنی اچھی پوسٹ کو کیوں چھوڑ رہے ہو اور وہ بھی اس طرح اچانک اور چلو اگر چھوڑنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر آکر اپنا بزنس کرو۔ بینک میں جانے کی کیا تک بنتی ہے۔” وہ اس کے فیصلے پر بری طرح تنفید کر رہے تھے۔
“میں اب پاکستان میں کام کرنا چاہتا ہوں ۔ بس اسی لئے جاب چھوڑ دی۔ بزنس نہیں کرسکتا اور بینک کی آفر میرے پاس بہت عرصے سے تھی۔ وہ مجھے پاکستان پوسٹ کرنے پر تیار ہیں، اسی لئے میں اسے قبول کر رہا ہوں۔” اس نے تمام سوالوں کا اکٹھا جواب دیا۔
“پھر بینک کو بھی جوائن مت کرو،میرے ساتھ آکر کام کرو۔”
“میں نہیں کرسکتا پا پا! مجھے مجبور نہ کریں۔”
“تو پھر وہیں پر رہو۔ پاکستان آنے کی کیا تک بنتی ہے؟”
“میں یہاں پر رہ نہیں پا رہا۔”
“حب الوطنی کا کوئی دورہ پڑا ہوا ہے تمہیں؟”
“نہیں۔۔۔۔۔”
“تو پھر۔۔۔۔۔؟”
“میں آپ لوگوں کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔” اس نے بات بدلی۔
“خیر یہ فیصلہ کم از کم ہماری وجہ سے تو نہیں کیا گیا۔” سکندر عثمان کا لہجہ نرم ہوا۔
سالار خاموش رہا۔ سکندر عثمان بھی کچھ دیر خاموش رہے۔
“فیصلہ تو تم کر ہی چکے ہو۔ میں اب اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کرسکتا۔ ٹھیک ہے آنا چاہتے ہو آجاؤ۔ کچھ عرصہ بینک میں کام کرکے بھی دیکھ لو لیکن میری خواہش یہی ہے کہ تم میرے ساتھ میرے بزنس کو دیکھو۔” سکندر عثمان نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
“تمہارا تو پی ایچ ڈی کا بھی ارادہ تھا۔اس کا کیا ہوا؟” سکندر عثمان کو بات ختم کرتے کرتے پھر یاد آیا۔
“فی الحال میں مزید اسٹڈیز نہیں کرنا چاہ رہا۔ ہوسکتا ہے کچھ سالوں بعد پی ایچ ڈی کے لئے دوبارہ باہر چلا جاؤں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پی ایچ ڈی کروں ہی نہ۔” سالار نے مدھم آواز میں کہا۔
“تم اس اسکول کی وجہ سے آرہے ہو؟” سکندر عثمان نے اچانک کہا۔” شاید۔۔۔۔۔ سالار نے تردید کی۔ وہ اگر اسکول کو اس کی واپسی کی وجہ سمجھ رہے تھے تو بھی کوئی حرج نہیں تھا۔
“ایک بار پھر سوچ لو سالار۔۔۔۔۔! سکندر کہے بغیر نہیں رہ سکے۔
“بہت کم لوگوں کو کیرئیر میں اس طرح کا اسٹارٹ ملتا ہے جس طرح کا تمہیں ملا ہے۔ تم سن رہے ہو۔”
“جی۔۔۔۔۔!” اس نے صرف ایک لفظ کہا۔
“باقی تم میچور ہو، اپنے فیصلے خود کرسکتے ہو،” انہوں نے ایک طویل کال کے اختتام پر فون بند کرنے سے پہلے کہا۔
سالار نے فون رکھنے کے بعد اپارٹمنٹ کی دیواروں پر ایک نظر دوڑائی۔ اٹھارہ دن کے بعد اسے یہ اپارٹمنٹ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پیر س سے واپسی پر اس کی زندگی کے ایک نئے فیز کا آغاز ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر وہ اسلام آباد میں اس غیر ملکی بینک میں کام کر تا رہا۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ اسی بینک کی ایک نئی برانچ کے ساتھ لاہور چلا آیا۔اسے کراچی جانے کا موقع مل رہا تھا مگر اس نے لاہور کا انتخاب کیا۔ اسے یہاں ڈاکٹر سبط کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل رہا تھا۔
پاکستان میں اس کی مصروفیات کی نوعیت تبدیل ہوگئی تھی مگر ان میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ یہاں بھی دن رات مصروف رہتا تھا۔ ایکexceptional ماہر معاشیات کے طور پر اس کی شہرت اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھی۔ حکومتی حلقوں کے لئے اس کا نام نیا نہیں تھا مگر پاکستان آجانے کے بعد فنانس منسٹری مختلف مواقع پر اپنے زیر تربیت آفیسر کو دیئے جانے والے لیکچرز کے لئے اسے بلواتی رہتی۔ لیکچرز کا سلسلہ بھی اس کے لئے نیا نہیں تھا۔Yale میں زیر تعلیم رہنے کے بعد وہ وہاں مختلف کلاسز کو لیکچر دیتا رہا تھا یہ سلسلہ نیویارک منتقل ہوجانے کے بعد بھی جاری رہا ۔ جہاں وہ کولمبیا یونیورسٹی میں ہیومن ڈویلپمنٹ پر ہونے والے سیمینارز میں حصہ لیتا رہا بعد میں اس کی توجہ ایک بار پھر اکنانکس کی طرف مبذول ہوگئی۔
پاکستان میں بہت جلد وہ ان سیمینارز کے ساتھ انوالو ہوگیا تھا۔ جوIBAاور LUMS, FAST اور جیسے ادارے کروارہے تھے۔اکنامکس اور ہیومن ڈویلپمنٹ واحد موضوعات تھے جن پر خاموشی اختیار نہیں کیا کرتا تھا۔ وہ اس کے پسندیدہ موضوع گفتگو تھے اور سیمینارز میں اس کے لیکچرز کا فیڈ بیک ہمیشہ بہت زبردست رہا تھا۔
وہ مہینے کا ایک ویک اینڈ گاوں میں اپنے اسکول میں گزارا کرتا تھا اور وہاں رہنے کے دوران وہ زندگی کے ایک نئے رخ سے آشنائی حاصل کر رہا تھا۔
“ہم نے اپنی غربت اپنے دیہات میں چھپادی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے لوگ مٹی کو کارپٹ کے نیچے چھپا دیتے ہیں۔”
اس اسکول کی تعمیر کا آغاز کرتے ہوئے فرقان نے ایک بار اس سے کہا تھا اور وہاں گزارے جانے والے دن اسے اس جملے کی ہولناکی کا احساس دلاتے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں غربت کی موجودگی سے نا آشنا تھا۔ وہ یونیسکو اور یونی سیف میں کام کے دوران دوسرے ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کے بارے میں بھی بہت ساری رپورٹس دیکھتا رہا مگر پاکستان میں غربت کی آخری حدوں کو بھی پار کرجانے والی لوگوں کو وہ پہلی بار ذاتی طور پر دیکھ رہا تھا۔
“پاکستان کے دس پندہ بڑے شہروں سے نکل جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ چھوٹے شہروں میں رہنے والے لوگ تیسری دنیا میں نہیں دسویں بارھویں دنیا میں رہتے ہیں۔ وہاں تو لوگوں کے پاس نہ روزگار ہے ، نہ سہولتیں ۔ وہ اپنی آدھی زندگی خواہش میں گزارتے ہیں اور آدھی حسرت میں مبتلا ہو کر۔ کون سی اخلاقیات سکھا سکتے ہیں آپ اس شخص کو جس کا دن سوکھی روٹی سے شروع ہوتا ہے اور فاقے پر ختم ہوجاتا ہے۔ اور ہم۔۔۔۔۔ ہم لوگوں کی بھوک مٹانے کے بجائے مسجدوں پر مسجدیں تعمیر کرتے ہیں۔ عالی شان مسجدیں، پرشکوہ مسجدیں، ماربل سے آراستہ مسجدیں۔ بعض اوقات تو ایک ہی سڑک پر دس دس مسجدیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ نمازیوں سے خالی مسجدیں۔”
فرقان تلخی سے کہتا تھا۔
“اس ملک میں اتنی مسجدیں بن چکی ہیں کہ اگر پورا پاکستان ایک وقت کی نماز کے لئے مسجدوں میں اکٹھا ہوجائے تو بہت سی مسجدیں خالی رہ جائیں گی۔ میں مسجد یں بنانے پر یقین نہیں رکھتا۔جہاں لوگ بھوک سے خودکشیاں کرتے پھر رہے ہوں جہاں کچھ خاص طبقوں کی پوری نسل جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہو وہاں مسجد کے بجائے مدرسے کی ضرورت ہے۔ اسکول کی ضرورت ہے، تعلیم اور شعور ہوگا اور رزق کمانے کے مواقع تو اللہ سے محبت ہوگی ورنہ صرف شکوہ ہی ہوگا۔
وہ فرقان کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا تھا۔ اس نے مستقل طور پر گاوں جانا شروع کیا تو اسے اندازہ ہوا تھا فرقان ٹھیک کہتا تھا۔ غربت لوگوں کو کفرتک لے گئی تھی۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتیں ان کے اعصاب پر سوار تھیں اور جو ان معمولی ضرورتوں کو پورا کردیتا وہ جیسے اس کی غلامی کرنے پر تیار ہوجاتے۔ اس نے جس ویک اینڈ پر گاؤں جانا ہوتا اسکول میں لوگ اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے جمع ہوتے۔ بعص دفعہ لوگوں کی قطاریں ہوتیں۔
“بیٹے کو شہر کی کسی فیکٹری میں کام پر رکھوادیں۔ چاہے ہزار روپیہ ہی مل جائے مگر کچھ پیسہ تو آئے۔”
“دوہزار روپے مل جاتے تو میں اپنی بیٹی کی شادی کردیتا۔”
“بارش نے ساری فصل خراب کردی ۔ اگلی فصل لگانے کے لئے بیج خریدنے تک کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ آپ تھوڑے پیسے قرض کے طور پر دے دیں۔ میں فصل کاٹنے کے بعد دے دوں گا۔”
“بیٹے کو پولیس نے پکڑ لیا ہے، قصور بھی نہیں بتاتے بس کہتے ہیں ہماری مرضی جب تک چاہیں اندر رکھیں تم آئی جی کے پاس جاؤ۔”
پٹواری میری زمین پر جھگڑا کر رہا ہے۔ کسی اور کو الاٹ کر رہا ہے۔ کہتا ہے میرے کاغذ جعلی ہیں۔”
“بیٹا کام کے لئے پاس کے گاؤں جاتا ہے۔ روز آٹھ میل چل کر آنا پڑتا ہے۔ آپ ایک سائیکل لے دیں مہربانی ہوگی۔”
“گھر میں پانی کا ہینڈ پمپ لگوانا ہے،آپ مدد کریں۔”
وہ تعجب سے ان درخواستوں کو سنتا تھا۔ کیا لوگوں کے یہ معمولی کام بھی ان کے لئے پہاڑ بن چکے ہیں ۔ ایسا پہاڑ جسے عبور کرنے کے لئے وہ زندگی کے کئی سال ضائع کر دیتے ہیں۔ وہ سوچتا۔
مہینے کے ایک ویک اینڈ پر جب وہ وہاں آتا تو اپنے ساتھ دس پندرہ ہزار روپے زیادہ لے کر آتا وہ روپے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بہت سے لوگوں کو بضاہر بڑی لیکن حقیقتاً بہت چھوٹی ضرورتیں پوری کر دیتے تھے۔ ان کی زندگی میں کچھ آسانیاں لے آتے اس کے لکھے ہوئے چند سفارشی رقعے اور فون کالز ان لوگوں کے کندھوں کے بوجھ اور پیروں میں نہ نظر پڑنے والی بیڑیوں کو کیسے اتاردیتے ۔ اس کا احساس شاید سالار کو خود بھی نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لاہور میں اپنے قیام کے دوران وہ باقاعدگی سے ڈاکٹر سبط صاحب کے پاس جاتا تھا۔ ان کے ہاں ہر رات عشاء کی نماز کے بعد کچھ لوگ جمع ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کسی نہ کسی موضوع پر بات کیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ اس موضوع کا انتخاب وہ خود کرتے بعض دفعہ ان کے پاس آنے والے لوگوں میں سے کوئی ان سے سوال کرتا اور پھر یہ سوال اس رات کا موضوع بن جاتا۔ عام اسکالرز کے برعکس ڈاکٹر سبط علی صرف خود نہیں بولتے تھے نہ ہی انہوں نے اپنے پاس آنے والے لوگوں کو صرف سامع بنادیا تھا بلکہ وہ اکثر اپنی بات کے دوران ہی چھوٹے موٹے سوالات بھی کرتے رہتے اور پھر ان سوالات کا جواب دینے کے لئے نہ صرف لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے بلکہ ان کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ان کے اعتراضات کو بڑے تحمل اور بردباری سے سنتے۔ ان کے پاس آنے والوں میں صرف سالار سکندر تھا جس نے کبھی سوال کیا تھا نہ کبھی ان کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی تھی۔ وہ کبھی کسی بات پر اعتراض کرنے والوں میں شامل نہ ہوا نہ کسی بات پر رائے دینے والوں میں۔
وہ فرقان کے ساتھ آتا۔ فرقان نہ آتا تو اکیلا چلا آتا، کمرے کے آخری حصے میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتا، خاموشی سے ڈاکٹر صاحب اور وہاں موجود لوگوں کوسنتا۔ بعض دفعہ اپنے دائیں بائیں آبیٹھنے والے لوگوں کے استفسار پر اپنا ایک جملہ پیش کرتا۔
“میں سالار سکندر ہوں، ایک بینک میں کام کرتا ہوں۔”
وہ جب تک امریکہ میں رہا تب ہر ہفتے ایک بار وہاں سے ڈاکٹر سبط علی کو فون کرتا رہا مگر فون پر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو بہت مختصر اور ایک ہی نوعیت کی ہوتی تھی۔ وہ کال کرتا ڈاکٹر صاحب ریسیو کرتے اور ایک ہی سوال کرتے۔
وہ پہلی بار اس سوال پر تب چونکا تھا جب وہ پاکستان سے چند دن پہلے امریکہ آیا تھا اور ڈاکٹر صاحب اس کی واپسی کا پوچھ رہے تھے۔ اسے تعجب ہوا تھا۔
“ابھی تو نہیں۔۔۔۔۔” اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا تھا۔ بعد میں وہ سوال اسے کبھی عجیب نہیں لگا کیونکہ وہ لاشعوری طور پر جان گیا تھا کہ وہ کیا پوچھ رہے تھے۔
آخری بار انہوں نے وہ سوال اس سے تب کیا تھا جب وہ امامہ کی تلاش میں ریڈ لائٹ ایریا میں پہنچا تھا۔ پیرس واپس پہنچنے کے ایک ہفتے کے بعد اس نے ہمیشہ کی طرح انہیں کا ل کیا تھا۔ ہمیشہ جیسی گفتگو کے بعد گفتگو اسی سوال پر آپہنچی تھی۔
“واپس پاکستان کب آرہے ہیں؟”
بے اختیار سالار کا دل بھر آیا۔ اسے خود کو کمپوز کرنے میں کچھ دیر لگی
“اگلے ماہ آجاوں گا ۔ میں ریزائن کر رہا ہوں۔ واپس آکر پاکستان میں ہی کام کروں گا۔”
“پھر ٹھیک ہے، آپ سے اگلے ماہ ملاقات ہوگی۔” ڈاکٹر صاحب نے تب کہا تھا۔
“دعا کیجئے گا۔” سالا ر آخر میں کہتا۔
“کروں گا کچھ اور۔۔۔۔۔؟”
“اور کچھ نہیں۔ اللہ حافظ۔۔۔۔۔” وہ کہتا۔
“اللہ حافظ۔” وہ جواب دیتے۔ گفتگو کا یہ سلسلہ پاکستان آنے تک جاری رہا جب وہ ان کے پاس باقاعدگی سے جانے لگا تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لاہور آنے کے بعد وہ باقاعدگی سے ان کے پاس جانے لگا تھا۔ اسے ان کے پاس سکون ملتا تھا۔ صرف ان کے پاس گزارا ہوا وقت ایسا ہوتا تھا جب وہ کچھ دیر کے لئے مکمل طور پر اپنے ڈپریشن سے آزادی حاصل کر لیتا تھا۔ بعض دفعہ ان کے پاس خاموش بیٹھے بیٹھے بے اختیار اس کا دل چاہتا وہ ان کے سامنے وہ سب کچھ اگل دے جسے وہ اتنے سالوں سے اپنے اندر زہر کی طرح بھرے پھر رہا تھا۔ پچھتاوا، احساس جرم ۔۔۔۔۔ بے چینی، بے بسی ، شرمندگی ، ندامت ، ہر چیز۔ پھر اسے خوف پیدا ہوتا ڈاکٹر سبط علی اس کو پتا نہیں کن نظروں سے دیکھیں گے۔ اس کی ہمت دم توڑ جاتی۔
ڈاکٹر سبط علی ابہام کو دور کرنے میں کمال رکھتے تھے۔ وہ ان کے پاس خاموش بیٹھا رہتا۔ صرف سنتا، صرف سمجھتا، صرف نتیجے اخذ کرتا۔ کوئی دھند تھی جو چھٹ رہی تھی۔ کوئی چیز تھی جو نظر آنے لگی تھی۔جن سوالوں کو وہ کئی سالوں سے سر پر بوجھ کی صورت میں لئے پھر رہا تھا ان کے پاس ان کے جواب تھے۔
“اسلام کو سمجھ کر سیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اس میں کتنی وسعت ہے۔ یہ تنگ نظری اور تنگ دلی کا دین نہیں ہے نہ ہی ان دونوں چیزوں کی اس میں گنجائش ہے۔ یہ میں سے شروع ہوکر ہم پر جاتا ہے۔ فرد سے معاشرے تک۔ اسلام آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ چوبیس گھنٹے سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح ہر جگہ مصلیٰ بچھائے بیٹھے رہیں۔ ہر بات میں اس کے حوالے دیتے رہیں۔ نہیں، یہ تو آپ کی زندگی سے ۔۔۔۔۔ آپ کی اپنی زندگی سے حوالہ چاہتا ہے۔ یہ تو آپ سے راست بازی اور پارسائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ دیانت داری اور لگن چاہتا ہے۔ اخلاص اور استقامت مانگتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان مانگتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان اپنی باتوں سے نہیں اپنے کردار سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔”
سالار ان کی باتوں کو ایک چھوٹے سے ریکارڈ ر میں ریکارڈ کرلیتا پھر گھر آکر بھی سنتا رہتا۔ اسے ایک رہبر کی تلاش تھی، ڈاکٹر سبط علی کی صورت میں اسے وہ رہبر مل گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“سالار آؤ، اب آ بھی جاؤ۔کتنی منتیں کرواؤ گے؟” انیتا نے اس کا بازو کھینچتے ہوئے ناراضی سے کہا۔
وہ عمار کی شادی میں شرکت کے لئے اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ تین دن کی چھٹی لے کر حالانکہ اس کے گھر والوں کا اصرار تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لئے آئے۔ شادی کی تقریبات کئی دن پہلے شروع ہوچکی تھیں۔ وہ ان تقریبات کی “اہمیت” اور ” نوعیت” سے واقف تھا۔ اس لئے گھر والوں کے اصرار کے باوجود تین دن کی رخصت لے کر آیا اور اب وہ عمار کی مہندی کے فنکشن میں شرکت کرہا تھا جو عمار اور اس کے سسرال والے مل کر کر رہے تھے۔ عمار اور اسری ٰ دونوں کے عزیز و اقارب اور دوست مختلف فلمی اور پاپ گانوں پر رقص کرنے میں مصروف تھے۔ ایک طوفان بدتمیزی تھا جو وہاں برپا تھا۔ سلیولیس شرٹس، کھلے گلے ، جسم کے ساتھ چپکے ہوئے کپڑے، باریک ملبوات، سلک اور شیفون کی ساڑھیاں ، نیٹ کے بلاؤز اس کی فیملی کی عورتیں بھی دوسری عورتوں کی طرح اسی طرح کے ملبوسات پہنے ہوئے تھیں۔
مکسڈ گیدرنگ تھی اور وہ تقریب شروع ہونے پر اس ہنگامے سے کافی دور کچھ ایسے لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو کارپوریٹ یا بینکنگ سکیٹر سے تعلق رکھتے تھے اور سکندر یا اس کے اپنے بھائیوں کے شناسا تھے۔
مگر پھر مہندی کی رسومات کا آغاز ہونے لگا اور انیتا اسے اسٹیج کی طرف لے گئی۔ اسریٰ اور عمار بے تکلفی سے اسٹیج پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ پہلی بار اسریٰ سے مل رہا تھا۔ عمار نے اس کا اور اسری ٰ کا تعارف کروایا۔ مہندی کی رسومات کے بعد اس نے وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر کامران اور طیبہ نے اسے زبردستی روک دیا۔
بھائی کی مہندی ہورہی ہے اور تم اس طرح وہاں کونے میں بیٹھے ہو۔” طیبہ نے اسے ڈانٹا تھا۔ تمہیں یہاں ہونا چاہیئے۔”
وہ ان کے کہنے پر وہیں کامران اور اس کی بیوی کے ساتھ کھڑا ہوگیا ۔ اس کے ایک کزن نے ایک بار پھر دوپٹہ اس کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی جو وہ سب ڈالے ہوئے تھے۔ اس نے ایک بار پھر قدرے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے اسے تنبیہ کی۔
اگلے چند منٹوں کے بعد وہاں رقص شروع ہوچکا تھا۔ عمار سمیت سارے بہن بھائی اور کزنز رقص کر رہے تھے اور انتیا نے اسے بھی کھینچنا شروع کردیا تھا۔
“نہیں انیتا! میں نہیں کرسکتا۔ مجھے نہیں آتا۔”
اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے معذرت کی مگر اس کی معذرت قبول کرنے کے بجائے وہ اور عمار اسے کھینچ کر رقص کرنے والوں کے ہجوم میں لے آئے تھے۔ کامران اور معیز کی شادی میں وہ بھی ایسے ہی رقص کرتا رہا تھا، مگر عمار کی مہندی پر وہ پچھلے سات سالوں میں اتنا لمبا ذہنی سفر طے کرچکا تھا کہ وہاں اس ہجوم کے درمیان خالی بازو کھڑے کرنا بھی اس کے لئے دشوار تھا۔ قدرے بے بس مسکراہٹ کے ساتھ وہ اسی طرح ہجوم کے درمیان کھڑا رہا پھر اس نے انیتا کے کان میں کہا۔
“انیتا۔۔۔۔۔ میں ڈانس بھول چکا ہوں۔Please let me go۔ (برائے مہربانی مجھے جانے دو) ۔”
“تم کرنا شروع کرو۔۔۔۔۔آجائے گا۔” انیتا نے جواباً اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اب اسریٰ بھی اس ہجوم میں شامل ہوچکی تھی۔
“میں نہیں کرسکتا ۔ تم لوگ کرو۔ میں انجوائے کر رہا ہوں۔ مجھے جانے دو۔”
اس نے مسکراتے ہوئے نکلنے کی کوشش کی ۔ اسریٰ کی آمد نے اسے اس کوشش میں کامیاب کردیا۔
“عروج ہرقوم ، ہر نسل کا خواب ہوتا ہے اور پھر وہ قومیں جن پر الہامی کتابیں ناز ل ہوئی ہوں وہ تو عروج کو اپنا حق سمجھتی ہیں ، مگر کبھی بھی کسی قوم پر عروج صرف اس بنا پر نہیں آیا کہ اسے کتاب اور نبی دے دیا گیا جب تک اس قوم نے اپنے اعمال اور افعال سے عروج کے لئے اپنی اہلیت ثابت نہیں کردی وہ کسی مرتبہ کسی مقام کسی فضیلت کے قابل نہیں ٹھہریں۔ مسلمان قوم یا امت کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے ۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اعلی طبقات تعیش اور نفس پرستی کا شکا ر ہیں۔ یہ دونوں چیزیں وبا کی طرح ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے سے دوسرے سے تیسرے اور پھر یہ سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔” اسے وہاں کھڑے ان ناچتی عورتوں اور مردوں کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے بے اختیار ڈاکٹر سبط کی باتیں یاد آنے لگیں۔
“مومن عیاش نہیں ہوتا نہ تب جب وہ رعایا ہوتا ہے نہ تب جب وہ حکمران ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کسی جانور کی زندگی جیسی نہیں ہوتی۔ کھانا پینا، اپنی نسل کو آگے بڑھانا اور فنا ہوجانا۔ یہ کسی جانور کی زندگی کا انداز تو ہوسکا ہے مگر کسی مسلمان کی نہیں۔ “سالار بے اختیار مسکرا دیا۔ وہ آج پھر “جانوروں ” اور”حشرات الارض”کا ایک گروہ دیکھ رہا تھا۔ اسے خوشی ہوئی ، وہ بہت عرصہ پہلے ان میں سے نکل چکا تھا۔ وہاں ہر ایک خوش باش ، پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ بلند قہقہے اور چمکدار چہرے اور آنکھیں۔ اس کے سامنے طیبہ عمار کے سسر کے ساتھ رقص کر رہی تھیں ۔ انیتا اپنے سب سے بڑے بھائی کامران کے ساتھ۔
سالار نے اپنے ہاتھ کی ا نگلیوں سے دائیں کنپٹی کو مسلا۔ شاید یہ تیز میوزک تھا یا پھر اس وقت اس کا ذہنی اضطراب اسے اپنی کنپٹی میں ہلکی سی درد کی لہر گزرتی محسوس ہوئی۔ اپنے گلاسز اُتار کر اس نے بائیں ہاتھ سے اپنی دونوں آنکھیں مسلیں۔ دوبارہ گلاسز آنکھوں پر لگاتے ہوئے اس نے مڑ کر راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی، کچھ جدوجہد کے بعد وہ اپنی جگہ چھوڑتے ہوئے اس دائرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسے بخوشی راستہ دے دیا گیا۔
“کدھر جارہے ہو؟” بے ہنگم شور میں طیبہ نے بلند آواز میں جانے سے پہلے اس کا بازو پکڑ کر پوچھا تھا۔ وہ ابھی رقص کرتے کرتے تھک کر اس کے پاس کھڑی ہوئی تھیں ان کا سانس پھولا ہوا تھا۔
“ممی! میں ابھی آتا ہوں۔ نماز پڑھ کر۔”
“آج رہنے دو۔۔۔۔۔”
سالار مسکرایا مگر اس نے جواب میں کچھ نہیں کہا بلکہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے نرمی سے ان کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا دیا۔
وہ اب باہر نکلنے کی تگ ودو کر رہا تھا۔
“یہ کبھی نارمل نہیں ہوسکتا۔ زندگی کو انجوائے کرنا بھی آرٹ ہے اور یہ آرٹ اس بے وقوف کو کبھی نہیں آئے گا۔” انہوں نے اپنے تیسرے بیٹے کی پشت کو دیکھتے قدرے افسوس سے سوچا۔
سالار نے اس ہجوم سے نکل کر بے اختیار سکون کی سانس لی تھی۔
وہ جس وقت نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر کے گیٹ سے باہر نکل رہا تھا۔ سنگر اس وقت گانے میں مصروف تھا۔ اس وقت مسجد کی طرف جانے والا وہ اکیلا تھا۔ شاید گاڑیوں کی لمبی قطاروں کے درمیان سے سڑک پر چلتے ہوئے وہ مسلسل ڈاکٹر سبط علی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ “سینکڑوں “کے اس مجمع کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا جو اس کے گھر ناچ گانے میں مصروف تھے۔ مسجد میں کل” چودہ” لوگوں نے باجماعت نماز ادا کی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستان آنے کے بعد اسلام آباد اپنی پوسٹنگ کے دوران وہ سکندر عثمان کے گھر پر ہی رہتا رہا۔لاہور آنے کے بعد بھی کسی پوش علاقے میں کوئی بڑا گھر رہائش کے لئے منتخب کرنے کی بجائے اس نے فرقان کی بلڈنگ میں ایک فلیٹ کرائے پر لینے کو ترجیح دی۔
فرقان کے پاس فلیٹ لینے کی ایک وجہ اگر یہ تھی کہ وہ لاہور میں اپنی عدم موجودگی کے دوران فلیٹ کے بارے میں کسی عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوتا تھا تو دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ فلیٹ کی بجائے کوئی گھر لینے پر اسے دو چار ملازم مستقل رکھنے پڑتے جب کہ اس کا بہت کم وقت فلیٹ پر گزرتا تھا۔ فرقان کے ساتھ آہستہ آہستہ لاہور میں اس کا سوشل سرکل بہت وسیع ہونے لگا تھا۔فرقان بہت سوشل آدمی تھا اور اس کا حلقہء احباب بھی خاصا لمبا چوڑا تھا۔وہ سالار کے موڈ اور ٹمپرامنٹ کو سمجھنے کے باوجود اسے وقتاً فوقتاً اپنے ساتھ مختلف جگہوں پر کھینچتا رہتا۔
وہ اس رات فرقان کے ساتھ اس کے کسی ڈاکٹر دوست کی ایک پارٹی اور محفل غزل میں شرکت کے لیے گیا تھا۔وہ ایک فارم پر ہونے والی پارٹی تھی۔اس نے سالار کو مدعو کر لیا اور محفل غزل کا سن کر وہ انکار نہیں کر سکا۔
فارم پر شہر کی ایلیٹ کلاس کا اجتماع تھا۔وہ ان میں سے اکثریت کو جانتا تھا۔وہ اپنے شناسا کچھ لوگوں کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ڈنر چل رہا تھا اور ان ہی باتوں کے دوران اس نے فرقان کی تلاش میں نظر دوڑائی تھی وہ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔سالار ایک بار پھر کھانے میں مصروف ہو گیا۔کھانے کے بعد اسے چند لوگوں کے ساتھ فرقان کھڑا نظر آ گیا۔وہ بھی اس طرف بڑھ آیا۔
“آؤ سالار! میں تمہارا تعارف کرواتا ہوں۔”فرقان نے اس کے قریب آنے پر چند جملوں کے تبادلے کے بعد کہا۔”یہ ڈاکٹر رضا ہیں۔گنگا رام ہاسپٹل میں کام کرتے ہیں۔چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں۔”سالار نے ہاتھ ملایا۔
“یہ ڈاکٹر جلال انصر ہیں۔”سالار کو اس شخص سے تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔فرقان اب کیا کہہ رہا تھا وہ سن نہیں پایا۔اس نے جلال انصر کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔دونوں کے درمیان بہت رسمی سا مصافحہ ہوا۔جلال انصر نے بھی یقیناً اسے پہچان لیا تھا۔
سالار وہاں ایک اچھی شام گزارنے آیا تھا مگر اس وقت اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک اور بری رات گزارنے آیا تھا۔یادوں کا ایک سیلاب تھا جو ایک بار پھر ہر بند توڑ کر اس پر چڑھائی کر رہا تھا۔وہ سب اس طرف جا رہے تھے جہاں بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔اس کے ساتھ اب فرقان تھا۔جلال انصر اب اس سے کچھ آگے دوسرے ڈاکٹرز کے ساتھ تھا۔سالار نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کی پشت کو دیکھا۔
دشتِ تمہائی میں اے جانِ جہاں
لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے
تیرے ہونٹوں کے سراب
اقبال بانو گانا شروع کر چکی تھیں۔
دشتِ تنہائی میں
دوری کے
خس و خاشاک تلے
کھل رہے ہیں
تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
اس کے ارد گرد بیٹھے لوگ اپنا سر دھن رہے تھے۔سالار چند ٹیبلز کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔اسے زندگی میں کبھی کسی شخص کو دیکھ کر رشک نہیں آیا تھا ، اس دن پہلی بار آ رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ گزر جانے کے بعد اس نے فرقان سے کہا۔
“چلیں؟”فرقان نے چونک کر اسے دیکھا۔
“کہاں۔۔۔۔۔؟”
“گھر۔۔۔۔۔۔”
“ابھی تو پروگرام شروع ہوا ہے۔تمہیں بتایا تو تھا ، رات دیر تک یہ محفل چلے گی۔”
“ہاں ، مگر میں جانا چاہتا ہوں۔کسی کے ساتھ بھجوا دو۔تم بعد میں آ جانا۔”
فرقان نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
“تم کیوں جانا چاہتے ہو؟”
“مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے۔”اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
“اقبال بانو کو سنتے ہوئے بھی کوئی دوسرا کام یاد آ گیا ہے؟”فرقان نے قدرے ملامتی انداز میں کہا۔
“تم بیٹھو میں چلا جاتا ہوں۔”سالار نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
“عجیب باتیں کرتے ہو۔یہاں سے کیسے جاؤ گے۔فارم اتنا دور ہے۔چلو اگر اتنی ہی جلدی ہے تو چلتے ہیں۔”فرقان بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
میزبان سے اجازت لیتے ہوئے وہ دونوں فرقان کی گاڑی میں آ بیٹھے۔
“اب بتاؤ۔یوں اچانک کیا ہوا ہے؟”گاڑی کو فارم سے باہر لاتے ہوئے فرقان نے کہا۔
“میرا وہاں ٹھہرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔”
“کیوں۔۔۔۔۔؟”سالار نے جواب نہیں دیا۔وہ باہر سڑک کو دیکھتا رہا۔
“وہاں سے اُٹھ آنے کی وجہ جلال ہے؟”
سالار نے بےاختیار گردن موڑ کر فرقان کو دیکھا۔فرقان نے ایک گہرا سانس لیا۔
“یعنی میرا اندازہ ٹھیک ہے۔تم جلال انصر کی وجہ سے ہی فنکشن سے بھاگ آئے ہو۔”
“تمہیں کیسے پتا چلا؟”سالار نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں کہا۔
“تم دونوں بڑے عجیب انداز میں آپس میں ملے تھے۔جلال انصر نے خلافِ معمول تمہیں کوئی اہمیت نہیں دی جب کہ تمہارے جیسی شہرت والے بینکر کے سامنے تو اُس جیسے آدمی کو کھل اٹھنا چاہئیے تھا۔وہ تعلقات بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا ، خود تم بھی مسلسل اُسے دیکھ رہے تھے۔”فرقان بہت آرام سے کہہ رہا تھا۔
“تم جلال انصر کو جانتے ہو؟”
سالار نے گردن سیدھی کر لی۔وہ ایک بار پھر سڑک کو دیکھ رہا تھا۔
“امامہ اسی شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی۔”بہت دیر بعد اس نے مدھم آواز میں کہا۔فرقان کچھ بول نہیں سکا۔اسے توقع نہیں تھی جلال اور سالار کے درمیان اس طرح کی شناسائی ہو گی ، ورنہ وہ شاید یہ سوال کبھی نہ کرتا۔
گاڑی میں بہت دیر خاموشی رہی پھر فرقان نے ہی اس خاموشی کو توڑا۔
“مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی ہے کہ وہ جلال جیسے آدمی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی۔یہ تو بڑا خرانٹ آدمی ہے۔ہم لوگ اس کو “قصائی” کہتے ہیں۔اس کی واحد دلچسپی پیسہ ہے۔مریض کیسے لا کر دے گا ، کہاں سے لا کر دے گا ، اسے دلچسپی نہیں ہوتی۔تم دیکھنا آٹھ سال میں یہ اسی رفتار کے ساتھ پیسہ کماتے ہوئے لاہور کا سب سے امیر ڈاکٹر ہو گا۔”
فرقان اب جلال انصر کے بارے میں تبصرہ کر رہا تھا۔سالار خاموشی سے سن رہا تھا۔جب فرقان نے اپنی بات ختم کر لی تو اس نے کہا۔
“اس کو قسمت کہتے ہیں۔”
“تمہیں اس پر رشک آ رہا ہے؟”فرقان نے قدرے حیرانی سے کہا۔
“حسد تو میں کر نہیں سکتا۔”سالار عجیب سے انداز میں مسکرایا۔”یہ جو کچھ تم مجھے اس کے بارے میں بتا رہے ہو۔یہ سب کچھ مجھے بہت سال پہلے پتا تھا۔تب ہی جب میں امامہ کے سلسلے میں اس سے ملا تھا۔یہ کیسا ڈاکٹر بننے والا تھا ، مجھے اندازہ تھا مگر آج اس فنکشن میں اسے دیکھ کر مجھے اس پر بےتحاشا رشک آیا۔کچھ بھی نہیں ہےاس کے پاس۔معمولی شکل و صورت ہے۔خاندان بھی خاص نہیں ہے۔اس جیسے ہزاروں ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔لالچی ، مادہ پرست بھی ہے مگر قسمت دیکھو کہ امامہ ہاشم جیسی لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہوئی۔اس کے پیچھے خوار ہوتی پھری۔میں اور تم اسے قصائی کہہ لیں ، کچھ بھی کہہ لیں ، صرف ہماری باتوں سے اس کی قسمت تو نہیں بدل جائے گی نہ اس کی نہ میری۔”
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔فرقان نے اس کے چہرے کو دھواں دھواں ہوتے دیکھا۔
“کوئی نہ کوئی خوبی تو ہو گی اس میں کہ۔۔۔۔۔کہ امامہ ہاشم کو اور کسی نہیں صرف اسی سے محبت ہوئی۔”وہ اب اپنی دونوں آنکھوں کو مسل رہا تھا۔
“مجھے اگر پتا ہوتا کہ یہاں تم جلال انصر سے ملو گے تو میں تمہیں کبھی اپنے ساتھ یہاں نہ لاتا۔”فرقان نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا۔
“مجھے بھی اگر یہ پتا ہوتا کہ میں یہاں اس کا سامنا کروں گا تو میں بھی کسی قیمت پر یہاں نہ آتا۔”سالار نے ونڈ اسکرین سے نظر آنے والی تاریک سڑک کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے سوچا۔
کچھ اور سفر بےحد خاموشی سے طے ہوا پھر فرقان نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
“تم نے اسے کبھی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی؟”
“امامہ کو۔۔۔۔۔؟یہ ممکن نہیں ہے۔”
“کیوں؟”
“میں اسے کیسے ڈھونڈ سکتا ہوں۔کئی سال پہلے ایک بار میں نے کوشش کی تھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اب۔۔۔۔۔۔اب تو یہ اور بھی مشکل ہے۔”
“تم نیوز پیپرز کی مدد لے سکتے ہو۔”
“اشتہار دوں اس کے بارے میں؟”سالار نے قدرے خفگی سے کہا۔”وہ تو پتا نہیں ملے یا نہ ملے لیکن اس کے گھر والے مجھ تک ضرور پہنچ جائیں گے۔شک تو ان کو مجھ پر پہلے بھی تھا اور فرض کرو میں ایسا کچھ کر بھی لوں تو نیوز پیپر میں کیا اشتہار دوں۔کیا کہوں؟”اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
“پھر اسے بھول جاؤ۔”فرقان نے بڑی سہولت سے کہا۔
“کوئی سانس لینا بھول سکتا ہے؟”سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔
“سالار! اب بہت سال گزر گئے ہیں۔تم آخر کتنی دیر اس طرح اس لاحاصل عشق میں مبتلا رہو گے۔تمہیں اپنی زندگی کو دوبارہ پلان کرنا چاہئیے۔تم اپنی ساری زندگی امامہ ہاشم کے لئے تو ضائع نہیں کر سکتے۔”
“میں کچھ بھی ضائع نہیں کر رہا ہوں۔نہ زندگی کو ، نہ وقت کو ، نہ اپنے آپ کو۔میں اگر امامہ ہاشم کو یاد رکھے ہوئے ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں اسے بھلا نہیں سکتا۔یہ میرے بس میں نہیں ہے۔مجھے اس کے بارے میں سوچنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن میں اس تکلیف کا عادی ہو چکا ہوں۔وہ میری پوری زندگی کو dominate کرتی ہے۔وہ میری زندگی میں نہ آتی تو میں آج یہاں پاکستان میں تمہارے ساتھ نہ بیٹھا ہوتا۔سالار سکندر کہیں اور ہوتا یا شاید ہوتا ہی نہ۔مجھ پر اس کا قرض بہت ہے۔جس آدمی کے مقروض ہوں اس کو چٹکی سے پکڑ کر اپنی زندگی سے کوئی باہر نہیں کر سکتا۔میں بھی نہیں کر سکتا۔”
سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
“فرض کرو دوبارہ نہ ملے پھر۔۔۔۔۔۔؟”فرقان نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔یکلخت گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔بہت دیر بعد سالار نے کہا۔
“میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔کسی اور موضوع پر بات کرتے ہیں۔”اس نے بڑی سہولت سے بات بدل تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چند سالوں میں فرقان کی طرح اس نے بھی گاؤں میں بہت کام کیا تھا اور فرقان کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے کیونکہ فرقان سے برعکس وہ بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا۔اس نے چند سالوں میں اس گاؤں کی حالت بدل کر رکھ دی تھی۔صاف پانی ، بجلی اور بڑی سڑک تک جاتی پختہ سڑک ، اس کے پہلے دو سالوں کی کارکردگی تھی۔تیسرے سال وہاں ڈاک خانہ ، محکمہ وزارت کا دفتر اور فون کی سہولت آئی تھی اور چوتھے سال اس کے اپنے ہائی اسکول میں سہ پہر کی کلاسز میں ایک این جی او کی مدد سے لڑکیوں کے لئے دستکاری سکھانے کا آغاز کیا گیا۔گاؤں کی ڈسپنسری میں ایمبولینس آ گئی۔وہاں کچھ اور مشینری نصب کی گئی۔فرقان کی طرح یہ ڈسپنسری بھی اس نے اپنے وسائل سے اسکول کے ساتھ ہی شروع کی تھی اور اسے مزید بہتر بنانے میں فرقان نے اس کی مدد کی تھی۔
فرقان کے برعکس اس کی ڈسپنسری میں ڈاکٹر کی عدم دستیابی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔اس کی ڈسپنسری کا باقاعدہ آغاز ہونے سے بھی پہلے ایک ڈاکٹر اس کی کوششوں کی وجہ سے وہاں موجود تھا۔
اسکول پر ہونے والے تمام اخراجات تقریباً اسی کے تھے لیکن ڈسپنسری کو قائم کرنے اور اسے چلانے کے لیے ہونے والے اخراجات اس کے کچھ دوست برداشت کر رہے تھے۔یونیسیف میں کام کے دوران بنائے ہوئے کانٹیکٹ اور دوستیاں اب اس کے کام آ رہی تھیں اور وہ انہیں استعمال کر رہا تھا۔وہ یونیسیف اور یونیسکو میں اپنے بہت سے دوستوں کو پاکستان آنے پر وہاں لا چکا تھا۔وہ اب وہاں ووکیشنل ٹریننگ کی پلاننگ کرنے میں مصروف تھا ، مگر چوتھے سال میں صرف یہی کچھ نہیں ہوا تھا کچھ اور بھی ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سکندر عثمان اس دن سہ پہر کے قریب اسلام آباد آتے ہوئے گاڑی کا ٹائر پنکچر ہونے پر سڑک پر رُک گئے تھے۔ڈرائیور ٹائر بدلنے لگا اور وہ سڑک کے اطراف نظریں دوڑانے لگے۔تب ان کی نظر ایک سائن بورڈ پر پڑی۔وہاں لکھے ہوئے گاؤں کے نام نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔سالار سکندر کے حوالے سے وہ نام ان کے لئے نا آشنا نہیں تھا۔
ڈرائیور جب ٹائر بدل کر واپس ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا تو سکندر عثمان نے اس سے کہا۔
“اس گاؤں میں چلو۔”انہیں اچانک ہی تجسس پیدا ہوا تھا۔اس اسکول کے بارے میں جو سالار سکندر پچھلے کئی سالوں سے وہاں چلا رہا تھا۔
پکی سڑک پر تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے دس منٹ میں وہ گاؤں کے اندر موجود تھے۔آبادی شروع ہو چکی تھی۔کچھ کچی پکی دکانیں نظر آنے لگی تھیں۔شاید یہ گاؤں کا “کمرشل ایریا ” تھا۔
“یہاں نیچے اتر کر کسی سے پوچھو کہ سالار سکندر کا اسکول کہاں ہے۔”سکندر عثمان نے ڈرائیور کو ہدایت دی۔اس وقت انہیں یاد آیا تھا کہ اس نے کبھی ان کے سامنے اسکول کا نام نہیں لیا تھا اور جہاں ان کی گاڑی موجود تھی وہاں آس پاس کسی اسکول کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔گاؤں کے لوگوں کے لیے چند سال پہلے سکند عثمان کی گاڑی بےحد اشتیاق یا تجسس کا باعث بنتی مگر پچھلے کچھ سالوں میں سالار اور فرقان کی وجہ سے وہاں وقتاً فوقتاً گاڑیوں کی آمد ہوتی رہتی تھی۔یہ پہلے کی طرح ان کے لیے تعجب انگیز نہیں رہی تھی مگر وہ گاڑی وہاں سے ہمیشہ کی طرح گزر جانے کی بجائے جب وہیں کھڑی ہو گئی تو یک دم لوگوں میں تجسس پیدا ہوا۔
سکندر عثمان کی ہدایت پر ڈرائیور نیچے اتر کر پاس کی ایک دکان کی طرف گیا اور وہاں بیٹھے چند لوگوں سے اسکول کے بارے میں پوچھنے لگا۔
“یہاں سالار سکندر صاحب کا کوئی اسکول ہے؟”علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا۔
“ہاں جی ہے۔۔۔۔۔یہ اسی سڑک پر آگے دائیں طرف موڑ مڑنے پر بڑی سی عمارت ہے۔”ایک آدمی نے بتایا۔
“آپ ان کے کوئی دوست ہیں؟”اس آدمی نے جواب کے ساتھ ساتھ سوال بھی کیا۔
“نہیں میں ان کے والد کے ساتھ آیا ہوں۔”
“والد؟”اس آدمی کے منہ سے بےساختہ نکلا اور وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ یک دم سکندر عثمان کی گاڑی کی طرف دیکھنے لگے۔پھر اس آدمی نے اٹھ کر ڈرائیور سے ہاتھ ملایا۔
“سالار صاحب کے والد آئے ہیں بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔”اس آدمی نے کہا اور پھر ڈرائیور کے ساتھ گاڑی کی طرف آنے لگا۔وہاں بیٹھے ہوئے باقی لوگ بھی کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے آئے۔
سکندر عثمان نے دور سے انہیں ایک گروپ کی شکل میں اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ کچھ اُلجھن کا شکار ہو گئے۔ڈرائیور کے پیچھے آنے والے آدمی نے بڑی عقیدت کے ساتھ کھڑکی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔سکندر عثمان نے کچھ تذبذب کے عالم میں اس سے ہاتھ ملایا جب کہ اس آدمی نے بڑے جوش و خروش سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اس سے مصافحہ کیا۔اس کے ساتھ آنے والے دوسرے آدمی بھی اب یہی کر رہے تھے۔سکندر کچھ اُلجھن کے انداز میں ان سے ہاتھ ملا رہے تھے۔
“آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے صاب۔”
پہلے ادھیڑ عمر آدمی نے عقیدت بھرے انداز میں کہا۔
“آپ کے لیے چائے لائیں یا پھر بوتل۔۔۔۔۔”وہ آدمی اسی جوش و خروش سے پوچھ رہا تھا۔ڈرائیور اب گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔
“نہیں۔۔۔۔۔کوئی ضرورت نہیں۔بس راستہ ہی پوچھنا تھا۔”انہوں نے جلدی سے کہا۔
ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔وہ آدمی اور اس کے ساتھ کھڑے دوسرے لوگ وہیں کھڑے گاڑی کو آگے جاتے دیکھتے رہے پھر اس آدمی نے قدرے مایوسی سے سر ہلایا۔
“سالار صاحب کی اور بات ہے۔”
“ہاں سالار صاحب کی اور ہی بات ہے۔وہ کبھی کچھ کھائے پئیے بغیر یہاں سے اس طرح جاتے تھے۔”ایک دوسرے آدمی نے تائید کی۔وہ لوگ اب واپس قدم بڑھانے لگے۔
سالار گاؤں میں موجود ان چند دکانوں کے پاس ہی اپنی گاڑی کھڑی کر دیا کرتا تھااور پھر وہاں موجود لوگوں سے ملتے ان کی پیش کردہ چھوٹی موٹی چیزیں کھاتا پیتا وہاں سے پیدل دس منٹ میں اپنے اسکول چلا جاتا تھا۔وہ لوگ مایوس ہوئے تھے۔سکندر عثمان نے تو گاڑی سے اترنے تک کا تکلف نہیں کیا تھا ، کھانا پینا تو دور کی بات تھی۔
گاڑی اب موڑ مڑ رہی تھی اور موڑ مڑتے ہی ڈرائیور سے مزید کچھ کہتے کہتے سکندر عثمان خاموش ہو گئے۔پچھلی سیٹ پر بیٹھے ونڈ اسکرین کے پار نظر آنے والی وسیع و عریض عمارت ان چھوٹے چھوٹے کچے پکے مکانوں اور کھلے کھیتوں کے درمیان دور سے بھی حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی تھی۔سکندر کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ وہاں اتنا بڑا اسکول چلا رہا تھا مگر ان کو دم بخود اس اسکول کی دور تک پھیلی ہوئی عمارت نے نہیں کیا تھا بلکہ اسکول کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر لگے اس سائن بورڈ نے کیا جس پر تیر کے ایک نشان کے اوپر جلی حروف میں اردو تحریر تھا۔سکندر عثمان ہائی اسکول ، ڈرائیور گاڑی اسکول کے سامنے روک چکا تھا۔
سکندر عثمان نے گاڑی سے اتر کر اس عمارت کے گیٹ کے پار عمارت کے ماتھے پر چمکتے ہوئے اپنے نام کو دیکھا ، ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیر گئی۔سالار سکندر نے ایک بار پھر انہیں کچھ بولنے کے قابل نہیں رکھا تھا۔گیٹ بند تھا مگر اس کے دوسری طرف چوکیدار موجود تھا جو گاڑی کو وہاں رُکتے دیکھ کر گیٹ کھول رہا تھا۔ڈرائیور جب تک گاڑی سے اترا چوکیدار باہر آ گیا۔
“صاحب شہر سے آئے ہیں ذرا اسکول دیکھنا چاہتے ہیں۔”ڈرائیور نے چوکیدار سے کہا۔سکندر عثمان ہنوز اس اسکول پر لگے اپنے نام کو دیکھ رہے تھے۔
“سالار صاحب کے حوالے سے آئے ہیں؟”چوکیدار نے پوچھا۔
“نہیں۔۔۔۔۔”ڈرائیور نے بلا توقف کہا۔”ویسے آئے ہیں۔”سکندر عثمان نے پہلی بار اپنی نظریں ہٹا کر ڈرائیور اور پھر چوکیدار کو دیکھا۔
“میں سالار سکندر کا باپ ہوں۔”سکندر عثمان نے مستحکم مگر بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ڈرائیور نے حیرانی سے ان کو دیکھا۔چوکیدار ایک دم بوکھلا گیا۔
“آپ۔۔۔۔۔آپ سکندر عثمان صاحب ہیں؟”سکندر کچھ کہے بغیر میکانکی انداز میں گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ شام کو جاگنگ ٹریک پر تھا جب موبائل پر سکندر عثمان کی کال آئی۔اپنی بےترتیب سانس پر قابو پاتے ہوئے وہ جاگنگ کرتے کرتے رُک گیا اور ٹریک کے پاس ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔
“ہیلو پاپا! السلام علیکم۔”
“وعلیکم السلام۔۔۔۔۔ٹریک پر ہو؟”انہوں نے اس کے پھولے ہوئے سانس سے اندازہ لگایا۔
“جی۔۔۔۔۔آپ کیسے ہیں؟”
“میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔”
“ممی کیسی ہیں؟”
“وہ بھی ٹھیک ہیں۔”سالار ان کی طرف سے کچھ مزید کہنے یا پوچھنے کا انتظار کرتا رہا۔دوسری طرف اب خاموشی تھی پھر چند لمحوں کے بعد وہ بولے۔
“میں آج تمہارا اسکول دیکھ کر آیا ہوں۔”
“رئیلی۔۔۔۔۔!” سالار نے بےساختہ کہا۔
“کیسا لگا آپ کو؟”
“تم نے یہ سب کیسے کیا ہے سالار؟”
“کیا۔۔۔۔۔؟”
“وہ سب کچھ جو وہاں پر ہے۔”
“پتا نہیں۔بس ہوتا گیا۔مجھے پتا ہوتا تو میں آپ کو خود ساتھ لے جاتا۔کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟”سالار کو تشویش ہوئی۔
“وہاں سالار سکندر کے باپ کو کوئی پرابلم ہو سکتی ہے؟”انہوں نے جواباً کہا۔سالار جانتا تھا وہ سوال نہیں تھا۔
“تم کس طرح کے آدمی ہو سالار؟”
“پتا نہیں۔۔۔۔۔آپ کو پتا ہونا چاہئیے ، میں آپ کا بیٹا ہوں۔”
“نہیں مجھے۔۔۔۔۔ مجھے تو کبھی بھی پتا نہیں چل سکا۔”سکندر کا لہجہ عجیب تھا۔سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔
“مجھے بھی کبھی پتا نہیں چل سکا۔میں تو اب بھی اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔”
“تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔سالار ایک انتہائی احمق ، کمینے اور خبیث انسان ہو۔”سالار ہنسا۔
“آپ ٹھیک کہتے ہیں ، میں واقعی ایسا ہوں۔۔۔۔۔اور کچھ۔۔۔۔۔؟”
“اور۔۔۔۔۔یہ کہ میں بڑا خوش قسمت ہوں کہ تم میری اولاد ہو۔”سکندر عثمان کی آواز لرز رہی تھی۔اس بار چپ ہونے کی باری سالار کی تھی۔
“مجھے اس اسکول کے ہر ماہ کے اخراجات کے بارے میں بتا دینا۔میری فرم ہر ماہ اس رقم کا چیک تمہیں بھجوا دیا کرے گی۔”
اس سے پہلے کہ سالار کچھ کہتا فون بند ہو چکا تھا۔سالار نے پارک میں پھیلی تاریکی میں ہاتھ میں پکڑے موبائل کی روشن اسکرین کو دیکھا۔پھر جاگنگ ٹریک پر لگی روشنیوں میں وہاں دوڑتے لوگوں کو کچھ دور وہ وہیں بیٹھا خالی الذہنی کے عالم میں ان لوگوں کو دیکھتا رہا پھر اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ٹریک پر آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رمشہ سے سالار کی پہلی ملاقات لاہور آنے کے ایک سال بعد ہوئی تھی۔وہ لندن اسکول آف اکنامکس کی گریجویٹ تھی اور سالار کے بینک میں اس کی تعیناتی ہوئی تھی۔اس کے والد بہت عرصے سے اس بینک کے کسٹمرز میں سے تھے اور سالار انہیں ذاتی طور پر جانتا تھا۔
رمشہ بہت خوبصورت ، ذہین اور خوش مزاج لڑکی تھی اور اس نے وہاں آنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی ہر ایک سے خاصی بےتکلفی پیدا کر لی تھی۔ایک کولیگ کے طور پر سالار کے ساتھ بھی اچھی سلام دعا تھی اور کچھ اس کے والد کے حوالے سے بھی وہ اس کی خاصی عزت کرتا تھا۔بینک میں کام کرنے والی چند دوسری لڑکیوں کی نسبت رمشہ سے اس کی کچھ زیادہ بےتکلفی تھی۔
لیکن سالار کو قطعی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ کس وقت رمشہ نے اسے کچھ زیادہ سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا۔وہ سالار کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھنے لگی تھی۔وہ اس کے آفس میں بھی زیادہ آنے جانے لگی تھی اور آفس کے بعد بھی اکثر اوقات اسے کال کرتی رہتی۔سالار کو چند بار اس کا رویہ کچھ خلافِ معمول لگا لیکن اس نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے شبہات کو جھٹک دیا مگر اس کا یہ اطمینان پورے ایک سال کے بعد ایک واقعے کے ساتھ رخصت ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار صبح آفس میں داخل ہوا اور داخل ہوتے ہی چونک گیا۔اس کی ٹیبل پر ایک بہت بڑا اور خوبصورت بکے پڑا ہوا تھا۔اپنا بریف کیس ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے وہ بکے اٹھا کر اس پر موجود کارڈ کھولا۔
“ہیپی برتھ ڈے ٹو سالار سکندر۔”
رمشہ ہمدانی۔
سالار نے بےاختیار ایک گہرا سانس لیا۔اس میں کوئی شک نہیں تھا آج اس کی سالگرہ تھی مگر رمشہ یہ کیسے جانتی تھی وہ کچھ دیر کسی سوچ میں گُم ٹیبل کے پاس کھڑا رہا پھر اس نے بکے ٹیبل پر ایک طرف رکھ دیا۔اپنا کوٹ اتار کر اس نے ریوالونگ چئیر کی پشت پر لٹکایا اور چئیر پر بیٹھ گیا۔بکے کے نیچے ٹیبل پر بھی ایک کارڈ پڑا ہوا تھا۔اس نے بیٹھنے کے بعد اس کارڈ کو کھولا۔چند لمحے تک وہ اس میں لکھی ہوئی تحریر پڑھتا رہا پھر کارڈ بند کر کے اس نے اپنی دراز میں رکھ دیا۔وہ نہیں جانتا تھا اس کارڈ اور بکے پر کس ردِ عمل کا اظہار کرے ، چند لمحے وہ کچھ سوچتا رہا پھر اس نے کندھے جھٹک کر اپنا بریف کیس کھولنا شروع کر دیا۔وہ اس میں سے اپنا لیپ ٹاپ نکال کر بریف کیس کو نیچے کارپٹ پر اپنی ٹیبل کے ساتھ رکھ رہا تھا جب رمشہ اندر داخل ہوئی۔
“ہیپی برتھ ڈے سالار۔”اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
سالار مسکرایا۔
“تھینکس۔۔۔۔۔”رمشہ اب ٹیبل کے سامنے پڑی کرسی کھینچ کر بیٹھ رہی تھی ، جب کہ سالار لیپ ٹاپ کو کھولنے میں مصروف تھا۔
“بکے اور کارڈ کے لیے بھی شکریہ۔یہ ایک خوشگوار سرپرائز تھا۔”
سالار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا وہ اب اپنا فون لیپ ٹاپ کے ساتھ اٹیچ کرنے میں مصروف تھا۔
“مگر تمہیں میری برتھ ڈے کے بارے میں پتا کیسے چلا؟”وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
“جناب یہ تو میں نہیں بتاؤں گی۔بس پتا چلانا تھا۔چلا لیا۔”رمشہ نے شگفتگی سے کہا۔”اور ویسے بھی دوست آپس میں یہ سوال نہیں کرتے۔اگر دوستوں کو ایسی چیزوں کا بھی پتہ نہیں ہوگا تو پھر وہ دوست تو نہیں ہوئے۔”
سالار لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں جمائے مسکراتے ہوئے اس کی بات سنتا رہا۔
“اب میں سارے اسٹاف کی طرف سے پارٹی کی ڈیمانڈ کے لیے آئی ہوں۔آج کا ڈنر تمہیں ارینج کرنا چاہئیے۔”سالار نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔
“رمشہ! میں اپنی برتھ ڈے سیلیبریٹ نہیں کرتا۔”
“کیوں۔۔۔۔۔۔؟”
“ویسے ہی۔۔۔۔۔۔”
“کوئی وجہ تو ہو گی۔۔۔۔۔۔؟”
“کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔بس میں ویسے ہی سیلیبریٹ نہیں کرتا۔”
“پہلے نہیں کرتے ہو گے مگر اس بار تو کرنی پڑے گی۔اس بار تو سارے اسٹاف کی ڈیمانڈ ہے۔”رمشہ نے بےتکلفی سے کہا۔
“میں کسی بھی دن آپ سب لوگوں کو کھانا کھلا سکتا ہوں۔میرے گھر پر ، ہوٹل میں ، جہاں آپ چاہیں مگر میں برتھ ڈے کے سلسلے میں نہیں کھلا سکتا۔”سالار نے صاف گوئی سے کہا۔
“یعنی تم چاہتے ہو ہم تمہارے لیے پارٹی ارینج کر دیں۔”رمشہ نے کہا۔
“میں نے ایسا نہیں کہا۔”وہ کچھ حیران ہوا۔
“اگر تم پورے اسٹاف کو پارٹی نہیں بھی دے سکتے تو کم از کم مجھے ڈنر پر تو لے جا سکتے ہو۔”
“رمشہ! میں آج رات کچھ مصروف ہوں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ۔”سالار نے ایک بار پھر معذرت کی۔
“کوئی بات نہیں میں بھی آ جاؤں گی۔”رمشہ نے کہا۔
“نہیں یہ مناسب نہیں ہو گا۔”
“کیوں۔۔۔۔۔؟”
“وہ سب مرد ہیں اور تم ان سے واقف بھی نہیں ہو۔”اس نے بہانا بنایا۔
“میں سمجھتی ہوں۔”رمشہ نے کہا۔
“پھر کل چلتے ہیں؟”
“کل نہیں۔۔۔۔۔پھر کبھی چلیں گے۔میں تمہیں بتا دوں گا۔”
رمشہ کچھ مایوس ہوئی مگر اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ اسے فی الحال باہر کہیں لے جانے کا ارداہ نہیں رکھتا۔
“اوکے۔۔۔۔۔”وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
“مجھے اُمید ہے ، تم نے مائنڈ نہیں کیا ہو گا۔”سالار نے اُسے اٹھتے دیکھ کر کہا۔
“نہیں بالکل نہیں۔It’s alright” وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔سالار اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔اس کا خیال تھا سالگرہ کا وہ معاملہ وہیں ختم ہو گیا۔یہ اس کی غلط فہمی تھی۔
لنچ آور کے دوران اس کے لیے ایک سرپرائز پارٹی تیار تھی۔اس کے باس مسٹر پال ملر نے بڑی گرم جوشی سے سالگرہ پر مبارک باد دی تھی۔وہ پارٹی رمشہ نے ارینج کی تھی اور کیک اور دوسرے لوازمات کو دیکھتے ہوئے وہ پہلی بار صحیح معنوں میں تشویش میں مبتلا ہوا تھا اگر پہلے رمشہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی پسندیدگی ظاہر کر رہی تھی تو اس دن اس نے بہت واضح انداز میں یہ بات ظاہر کر دی تھی۔وہ لنچ آور کے بعد تقریباً آدھ گھنٹہ اپنے آفس میں بیٹھا پہلی بار رمشہ کے بارے میں سوچتا رہا۔وہ اندازہ کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس سے کون سی ایسی غلطی ہوئی تھی، جس سے رمشہ کو اس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت خوبصورت تھی۔پچھلے کچھ عرصے میں ملنے والی چند اچھی لڑکیوں میں سے ایک تھی مگر وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس میں انوالو ہونے لگے۔وہ پچھلے کچھ عرصے سے رمشہ کے اپنے لیے خاص روئیے کو اس کی خوش اخلاقی سمجھ کر ٹالتا رہا تھا ، مگر اس دن آفس سے نکلتے ہوئے اس کی طرف سے دئیے جانے والے چند پیکٹس کو گھر جا کر کھولنے پر اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔وہ ابھی ان تحائف کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو رہا تھا ، جب فرقان آ گیا۔ڈرائنگ روم میں پڑے وہ پیکٹس فوراً اس کی نظر میں آ گئے۔
“واؤ ، آج تو خاصے تحائف اکٹھے ہو رہے ہیں۔دیکھ لوں؟”فرقان نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
سالار نے صرف سر ہلایا ، گھڑی ، پرفیومز ، ٹائیاں ، شرٹس ، وہ یکے بعد دیگرے ان چیزوں کو نکال نکال کر دیکھتا رہا۔
“یہ تمہاری بری کا سامان اکٹھا نہیں ہو گیا؟”فرقان نے مسکراتے ہوئے تبصرہ کیا۔”خاصا دل کھول کر گفٹس دئیے ہیں تمہارے کولیگز نے۔”
“صرف ایک کولیگ نے۔”سالار نے مداخلت کی۔
“یہ سب کچھ ایک نے دیا ہے؟”فرقان کچھ حیران ہوا۔
“ہاں۔”
“کس نے؟”
“رمشہ نے۔”فرقان نے اپنے ہونٹ سکوڑے۔
“تم جانتے ہو یہ سب گفٹس ایک ڈیڑھ لاکھ کی رینج میں ہوں گے۔”وہ اب دوبارہ ان چیزوں پر نظر ڈال رہا تھا۔
“صرف یہ گھڑی ہی پچاس ہزار کی ہے۔کوئی صرف کولیگ سمجھ کر تو اتنی مہنگی چیزیں نہیں دے گا۔تم لوگوں کے درمیان کوئی۔۔۔۔۔۔”فرقان بات کرتے کرتے رُک گیا۔
“ہم دونون کے درمیان کچھ نہیں ہے۔کم از کم میری طرف سے ، مگر آج میں پہلی بار پریشان ہو گیا ہوں۔مجھے لگتا ہے کہ رمشہ۔۔۔۔۔۔مجھ میں کچھ ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔”سالانے نے ان چیزوں پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
“بہت اچھی بات ہے۔چلو تم میں بھی کسی لڑکی نے دلچسپی لی۔”فرقان نے ان پیکٹس کو واپس سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
“ویسے بھی تم بہت کنوارے رہ لیے۔لگے ہاتھوں اس سال یہ کام کر لو۔”
“جب مجھے شادی ہی نہیں کرنی تو میں اس سلسلے کو آگے کیوں بڑھاؤں۔”
“سالار دن بہ دن تم بہت impractical کیوں ہوتے جا رہے ہو؟تمہیں اب سیٹل ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے۔ہر لڑکی سے کب تک اس طرح بھاگتے پھرو گے۔تمہیں اپنی ایک فیملی شروع کر لینی چاہئیے۔رمشہ اچھی لڑکی ہے۔میں اس کی فیملی کو جانتا ہوں۔کچھ ماڈرن ضرور ہے مگر اچھی لڑکی ہے اور چلو اگر رمشہ نہیں تو پھر تم کسی اور کے ساتھ شادی کر لو۔میں اس سلسلے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔تم اپنے پیرنٹس کی مدد لے سکتے ہو مگر اب تمہیں اس معاملے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے۔تمہیں ان تمام باتوں کے بارے میں غور کرنا چاہئیے اور کم از کم دوسرے کی بات پر کچھ کہہ ضرور دینا چاہئیے۔”
فرقان نے آخری جملے پر زور دیتے ہوئے کہا اس کا اشارہ اس کی خاموشی کی طرف تھا۔
“اس سے دوسرے کو یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ وہ کسی مجمعے کے سامنے تقریر نہیں کرتا رہا۔”فرقان نے کہا۔
“تم کبھی اپنی شادی کے بارے میں سوچتے نہیں ہو؟”
“کون اپنی شادی کے بارے میں نہیں سوچتا؟”سالار نے مدھم آواز میں کہا۔”میں بھی سوچتا ہوں مگر میں اس طرح نہیں سوچتا جس طرح تم سوچتے ہو۔چائے پیو گے؟”
“آخری جملے کے بجائے تمہیں کہنا چاہئیے تھا کہ بکواس بند کرو۔”
فرقان نے ناراضی سے کہا۔سالار نے مسکرا کر کندھے اچکا دئیے وہ اب چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...