پچھلے سال، ایک روز شام کے وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں باہر گئی۔ ایک لمبا تڑنگا یورپین لڑکا کینوس کا تھیلہ کندھے پر اٹھائے سامنے کھڑا تھا۔ دوسرا بنڈل اس نے ہاتھ میں سنبھال رکھا تھا اور پیروں میں خاک آلود پشاوری چپل تھے۔ مجھے دیکھ کر اس نے اپنی دونوں ایڑیاں ذرا سی جوڑ کر سرخم کیا۔ میرا نام پوچھا اور ایک لفافہ تھما دیا۔ ’’آپ کے ماموں نے یہ خط دیا ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’اندر آ جاؤ‘‘ میں نے اس سے کہا اور ذرا اچنبھے سے خط پر نظر ڈالی۔ یہ اچھن ماموں کا خط تھا اور انہوں نے لکھا تھا، ’’ہم لوگ کراچی سے حیدرآباد سندھ واپس جا رہے تھے۔ ٹھٹھ کی ماکلی ہل پر قبروں کے درمیان اس لڑکے کو بیٹھا دیکھا۔ اس نے انگوٹھا اٹھا کر لفٹ کی فرمائش کی اور ہم اسے گھر لے آئے۔ یہ دنیا کے سفر پر نکلا ہے اور اب ہندوستان جا رہا ہے۔ اوٹو بہت پیارا لڑکا ہے میں نے اسے ہندوستان میں عزیزوں کے نام خط دے دیئے ہیں اور ان کے پاس ٹھہرے گا۔ تم بھی اس کی میز بانی کرو۔‘‘
نوٹ: اس کے پاس پیسے بالکل نہیں ہیں۔
لڑکے نے کمرے میں آ کر تھیلے فرش پر رکھ دیئے۔ اور اب آنکھیں چندھیا کر دیواروں پر لگی ہوئی تصویریں دیکھ رہا تھا۔ اتنے اونچے قد کے ساتھ اس کا بچوں کا سا چہرہ تھا، جس پر ہلکی ہلکی سنہری داڑھی مونچھ بہت عجیب سی لگ رہی تھی۔
ایک اور ہچ ہائیکر (Hitch Hiker) میں نے ذرا کوفت سے سوچا۔ اچھن ماموں بے چارے فرشتہ صفت آدمی اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئے ہوں گے کیوں کہ یہ بین الاقوامی آوارہ گرد اپنی مطلب برآری کے لئے راہ چلتوں سے دوستی کر لینے کا فن خوب جانتے ہیں۔
’’شاہدہ نے بھی آپ کو سلام کہا ہے‘‘ اس نے میری طرف مڑ کر بڑی اپنائیت سے کہا۔
’’شاہدہ؟‘‘
’’آپ کی کزن شاہدہ۔ میں بنارس میں ان کے ہاں مقیم تھا اور لکھنؤ میں آپ کی پھوپھی کے ہاں۔ اور چاٹگام میں انکل انور کے ہاں رہوں گا اور اگر دارجلنگ جا سکا تو کزن مطہرہ کے گھر پر ٹھہروں گا۔‘‘ اس نے جیب میں سے مزید لفافے نکالے۔
’’بیٹھ جاؤ۔ اوٹو۔ چائے پیو۔‘‘ میں نے ایک لمبا سانس لے کر کہا۔ مجھے وہ دو ڈچ ہچ ہائیکر یاد آئے، جنہوں نے کراچی میں لڈن ماموں کے گھر پر ڈیرے ڈال دیئے تھے، کیوں کہ ان کے پاس پیسے ختم ہو گئے تھے۔
’’میں ترکی اور ایران ہوتا ہوا آیا ہوں اور جرمنی سے یہاں تک میں نے موٹروں اور لاریوں میں لفٹ لئے ہیں۔ اب لنکا جاؤں گا۔ پھر تھائی لینڈ وغیرہ۔ وہاں سے کار گو بوٹ کے ذریعے جاپان، امریکہ اور اس کے بعد گھر واپس۔ اس وقت تو میں اورنگ آباد سے ایک ٹرک پر آ رہا ہوں۔‘‘
’’بے حد ایڈونچر رہے ہوں گے تمہارے سفر میں۔‘‘
’’ہاں، استنبول میں میں تین راتیں غلطہ کے پل کے نیچے سویا۔ اور ایران میں۔۔۔‘‘ پھر اس نے مختلف چھوٹے چھوٹے ایڈونچر سنائے۔ ’’میں کو لون یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں‘‘ اس نے مزید اطلاع دی۔
’’پاکستان اور ہندوستان میں تم نے کیا فرق پایا‘‘ کھانے کی میز پر میں نے اس سے پوچھا۔
’’وہاں سب لوگ مجھ سے مسئلہ کشمیر پر بڑے جوش و خروش سے باتیں کرتے تھے۔ یہاں کشمیر اور پاکستان کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے۔ یہاں کے مسائل۔۔۔‘‘ پھر اس نے ہندوستان کے مسائل پر ایک جامع تقریر کی۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا، ’’میں دولت مند سیاحوں اور عام یورپینوں اور امریکنوں کی مانند محض تاج محل دیکھنے نہیں آیا ہوں۔ میں رات بھر دوکانوں کے برآمدوں میں سوتا ہوں۔ کسانوں کی جھونپڑیوں میں رہتا ہوں۔ مزدوروں سے دوستی کرتا ہوں۔ حالانکہ ان کی زبان نہیں سمجھ سکتا۔‘‘
کھانے کے بعد اس نے بمبئی کا نقشہ نکال کر فرش پر پھیلایا۔ بے چارے انگریز بمبئی کے طرز تعمیر کو وکٹورین گوتھک کہتے تھے۔ یہاں کیا کیا چیزیں قابل دید ہیں؟
’’ایلیفنٹا اور اپالو بندر۔ اور۔۔۔‘‘
’’یہ سب گائیڈ بک میں بھی موجود ہے‘‘ اس نے ذرا بے صبری سے میری بات کاٹی اور ہندوستان کی معاشیات اور عمرانیات پر نہایت ثقیل اور مدلل گفتگو سے مجھے نوازا۔
’’اوٹو! تمہاری عمر کتنی ہے‘‘ میں نے مسکرا کر پوچھا۔ ’’میں اکیس سال کا ہوں۔‘‘ اس نے بڑے وقار سے جواب دیا، ’’اور جب جرمنی واپس پہنچوں گا تو بائیس سال کا ہو جاؤں گا اور اس کے اگلے سال مجھے ڈاکٹریٹ مل جائے گا۔ میں یونیورسٹی میں جرمن غنائیہ شاعری کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ جرمنی میں صرف ڈاکٹریٹ ملتا ہے۔ جس طرح آپ کے بی۔ اے۔ ایم۔ اے۔‘‘ بعد ازاں وہ دیر تک جرمن غنائیہ شاعری، عالمگیر سیاست اور ہندوستانی آرٹ پر روشنی ڈالتا رہا۔ وہ تصویریں بھی بناتا تھا۔ کس قدر بقراط لڑکا ہے۔ میں نے دل میں سوچا۔ بیشتر جرمنوں کی طرح انتہائی سنجیدہ، دھن کا پکا اور حس مزاح سے تقریباً عاری۔
’’میں رات کو سونے سے پہلے آپ کی کتابیں دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
’’یقیناً۔‘‘
رات گئے تک نشست کے کمرے میں روشنی جلتی رہی۔ صبح تین بجے غسل خانے میں پانی گرنے کی آواز آئی، تو میری آنکھ کھل گئی۔ وہ راتوں رات نہا دھوکر فارغ ہو چکا تھا تاکہ صبح کو اس کی وجہ سے گھر والوں کو زحمت نہ ہو۔ ناشتے کے وقت اس نے ہندوستان کے متعلق اس کتاب پر تبادلہ خیالات کیا جو اس نے رات بھر میں پڑھ کر ختم کر ڈالی تھی۔ پھر اس نے بمبئی کا نقشہ اٹھایا اور سیاحی کے لئے نکل گیا۔
وہ اپنے تھیلے میں پانچ کتابیں لے کر چلا تھا جن پر کمرہ ٹھیک کرتے وقت میری نظر پڑی۔ گوئٹے کی فاؤسٹ، ہائینے کی نظمیں، رلکے، بریخٹ اور انجیل مقدس۔ شام کو جب وہ تھکا ہارا مگر بے حد بشاش واپس آیا تو میں نے اس سے کہا، ’’اوٹو! کل رات تم خدا سے منکر تھے، مگر انجیل ساتھ لے کر گھومتے ہو!‘‘ اس پر اوٹو نے خدا کے تصور میں ایک جذباتی سہارے کی انسانی حاجت پر مختصر تقریر کی۔
’’اوٹو! تم ایلیفنٹا گئے تھے؟ وہاں کی تری مورتی اور دیوتا۔۔۔‘‘
’’میں کہیں بھی نہیں گیا۔ وکٹوریہ گارڈن میں دن بھر بیٹھا عوام کے ہجوم کا مطالعہ کرتا رہا۔ انسان، انسان سب سے بڑا دیوتا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں۔ یہ تو بالکل ٹھیک ہے۔ مگر تم نے کھانا کہاں کھایا؟‘‘
’’میں نے ایک درجن کیلے خرید لئے تھے۔‘‘ مجھے دفعتاً سخت ندامت ہوئی، کہ چلتے وقت سنڈوچز اس کے ساتھ کرنے مجھے کیوں نہ یاد رہے۔ اور مجھے اچھن ماموں کے خط کا خیال آیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ اس کے پاس پیسے تقریباً بالکل نہیں ہیں۔
کھانے کی میز پر اس نے کہا، ’’میں بہت دنوں بعد پیٹ بھرکے کھانا کھا رہا ہوں۔‘‘ میں اس سے جرمنی کے متعلق باتیں کرتی رہی۔ برلن کی دیوار کا ذکر کرتے ہوئے اس نے مجھے اطلاع دی کہ وہ بہت سخت اینٹی کمیونسٹ ہے۔
’’گھر پر میری اماں بھی میرے لئے بہت مزیدار کھانے پکاتی ہیں۔ آپ میری اماں سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔ اب ان کی عمر بیالیس سال کی ہے۔ مصائب نے ان کو قبل از وقت بوڑھا کر دیا ہے، مگر وہ اب بھی دنیا کی حسین ترین عورت ہیں۔‘‘
’’تم ان کے اکلوتے لڑکے ہو؟‘‘
’’ہاں، میرے ابا فوجی افسر تھے۔ اماں پرشا کی رہنے والی ہیں۔ اماں سترہ سال کی تھیں، جب انہوں نے ابا سے شادی کی۔ ابا پولینڈ کے محاذ پر مارے گئے۔ ان کے مرنے کے دوسرے مہینے میں پیدا ہوا۔ بمباری سے بچنے کے لئے مجھے کندھے سے لگائے لگائے اماں جانے کہاں کہاں گھومتی رہیں۔ وہ مجھے گود میں اٹھائے، سرپر رو مال باندھے، فل بوٹ پہنے، مختصر سا سامان میری پریمبو لیٹر میں ٹھونسے گاؤں گاؤں پھرتی تھیں اور کھیتوں کھلیانوں میں چھپتی رہتی تھیں۔ اماں پولینڈ میں ایک گاؤں میں چھپی ہوئی تھیں جب پولش فوجی اس رات اس مکان میں گھس آئے۔ میں اس وقت پورے چار سال کا تھا۔ میرے بچپن کی واضح ترین یاد اس قہر ناک رات کی ہے۔ میں ڈر کر پلنگ کے نیچے گھس گیا۔ جب افسروں نے میری اماں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو میں زور زور سے رونے لگا۔ وہ اماں کو گھسیٹ کر باہر کھیتوں میں لے گئے۔۔۔
اماں کئی دن بعد واپس آئیں۔ وہ فوجیوں سے بچنے کے لئے اتنے عرصے تک ایک کھلیان میں چھپی رہی تھیں اور میں اس خالی مکان میں اکیلا تھا اور باہر گولیاں چلنے کی آواز پر سہم سہم کر کونوں کھدروں میں چھپتا پھرتا تھا اور نعمت خانے اور باورچی خانے کی الماریاں کھول کھول کر کھانے کی چیزیں تلاش کرتا تھا اور جو کچھ پڑا مل جاتا تھا بھوک کے مارے منہ میں رکھ لیتا تھا۔ مگر وہ الماریاں سب اونچی اونچی تھیں جن میں کھانے پینے کا سامان رکھا تھا‘‘ وہ چپ ہو گیا اور خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔ ’’یہ چاول بہت مزے کے ہیں‘‘ اس نے چند منٹ بعد آہستہ سے کہا۔
اسی وجہ سے میں جنگ کا تکلیف دہ ذکر اس سے نہ چھیڑنا چاہتی تھی۔ میں جنگ کے بعد بڑی ہونے والی نسل سے اس طرح کے لرزہ خیز واقعات سن چکی تھی۔ مجھے وہ فرانسیسی لڑکی یاد آئی جس نے زوالِ فرانس کے بعد اسی اوٹو کے ہم قوم جرمنوں کی درندگی کے قصے سنائے تھے۔ اسی پولینڈ میں جہاں اوٹو اور اس کی ماں پر یہ سب بیتی، اسی زمانے میں وہ ناتسی گیس چیمبر بھی دن رات کام کر رہے تھے، جہاں روزانہ ہزاروں یہودیوں کو موت کے بھینٹ چڑھایا جاتا تھا اور مجھے اس روسی لڑکی کا قصہ یاد آیا جو مجھے کسی نے سنایا تھا۔ اپنے سارے خاندان کو اپنے سامنے جرمن مشین گن کی نذر ہوتے دیکھ کر پل کی پل میں صدمے کی شدت سے اس روسی لڑکی کے بال سفید ہو گئے تھے۔
یہ ۱۹۴۵ء کے بعد کے یورپ کی نوجوان نسل تھی۔ دنیا کو ’تہذیب‘ سکھانے والے انسانیت پرست مسیحی مغربی یورپ نے اپنے بچوں کو ترکے میں کیا دیا تھا۔
’’اب تمہاری ماں کچھ کام کرتی ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’نہیں، وہ محض ایک ’ہاؤس فرا‘ ہیں۔ ان کو فوجی بیوہ کی حیثیت سے پنشن ملتی ہے۔ ہمارا چھوٹا سا دو کمروں کا مکان ہے۔ میں شام کی شفٹ میں ایک فیکٹری میں کام کرتا ہوں۔ میری اماں بہت بھولی بھالی ہیں۔ اسٹرولوجی میں یقین رکھتی ہیں اور پابندی سے گرجا جاتی ہیں۔ پچھلے سال میں نے سائیکل پر سارے جرمنی کا چکر لگایا تھا۔ جرمنی دنیا کا حسین ترین ملک ہے۔‘‘
ہر ملک اس کے باشندوں کے لئے دنیا کا حسین ترین ملک ہونا چاہئے۔ مگر تم ’نئے ناتسی‘ نہ بن جانا۔ ’’نہیں۔ میں ’نیا ناتسی‘ نہیں بنوں گا۔ مجھے یہودیوں سے بہت زیادہ نفرت نہیں ہے‘‘ اس نے سادگی سے کہا۔ مجھے ہنسی آ گئی۔
’’میرے نانا اور نانی اب بھی مشرقی جرمنی میں ہیں۔ مگر ہم ان سے نہیں مل سکتے۔ جس طرح آپ کا آدھا خاندان یہاں ہے، اور آدھا پاکستان میں‘‘ اس نے کانٹا اٹھا کر مجھے سمجھایا۔
دوسرے روز اس نے وعدہ کیا کہ شہر کی قابل دید جگہیں ضرور دیکھ کر آئے گا۔ مگر وہ اس روز بھی دن بھر رانی باغ میں بیٹھا رہا۔
چوتھا دن اس نے وارڈن روڈ پر بھولا بھائی ڈیسائی انسٹی ٹیوٹ کے برآمدے میں بیٹھ کر لاؤس کی جنگ کے متعلق مضامین پڑھنے میں گزارا۔ اندر لڑکیاں رقص سیکھ رہی تھیں اور ہال میں حسین کی نئی تصاویر کی نمائش ہو رہی تھی۔ ’’لہٰذا میں ساتھ ساتھ آرٹ و کلچر سے بھی بہرہ ور ہوتا رہا‘‘ اس نے واپس آ کر کہا۔
بمبئی میں وہ سارے فاصلے پیدل طے کرتا تھا اور وارڈن روڈ سے فلورا فاؤنٹن تک پیدل جاتا تھا۔
’’میں آٹھ آنے سے ایک روپیہ روز تک خرچ کرتا ہوں اور زیادہ تر کیلے کھاتا ہوں۔ ہر جگہ بے حد مہمان نواز لوگ مل جاتے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ انسان انفرادی طور پر اس قدر سیدھا سادا اور نیک ہے اور اجتماعی حیثیت میں درندہ بن جاتا ہے؟‘‘ یہ سوال کرنے کے بعد وہ منہ لٹکا کر بیٹھ گیا۔ اس دن وہ ایک ٹرک کمپنی سے طے کر آیا تھا بنگلور تک ان کے ٹرک پر جائے گا۔ صبح سویرے اس نے اپنے تھیلے میں کتابیں اور کپڑے ٹھونسے، دوسرا تھیلا، جو اس کا سفری خیمہ اور بستر تھا، لپیٹ کر کندھے پر رکھا، خدا حافظ کہا اور ٹرانسپورٹ کمپنی کے دفتر فلورا فاؤنٹن پیدل روانہ ہو گیا۔
اوٹو کو گئے کئی مہینے گذر گئے۔ اچھن ماموں کا خط آیا تو میں نے انہیں شکایتاً لکھا کہ آپ کے بیٹے اوٹو نے یہاں سے جا کر یہ بھی اطلاع نہ دی کہ کم بخت اب کہاں کی خاک چھان رہا ہے۔ میں نے یہ خط پوسٹ کیا ہی تھا کہ شام کی ڈاک سے اوٹو کا لفافہ آ گیا۔ اس کے ٹکٹوں پر لاؤس کے بادشاہ کی تصویر بنی تھی اور خط میں لکھا تھا،
’’وہ جرمن لڑکا جو آپ کے گھر پر ٹھہرا تھا آپ کو بھولا نہیں ہے۔ آپ میرے ساتھ بہت مہربان تھیں۔ (میری انگریزی کمزور ہے غلطیاں معاف کیجئے گا) آپ میرے ساتھ بڑی بہن کی سی شفقت سے پیش آئیں اور میں محبت پر بہت یقین رکھتا ہوں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ابھی بہت کم عمر ہوں، لیکن آپ نے ٹھیک کہا تھا، دنیا میں صرف وہی لوگ خوش رہ سکتے ہیں جو زندگی کو بغیر کسی پس و پیش کے اور بغیر سوالات کئے منظور کر لیں۔ ہم جتنے زیادہ سوالات کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ انکشاف ہوتا ہے کہ زندگی کافی مہمل ہے۔۔۔
لنکا میں میں نیورا ایلیا سے کنیڈی ایک ٹورسٹ بس کے ذریعے گیا۔ بس میں ایک سنگھالی طالب علم سے میری دوستی ہو گئی۔ اس نے راستے میں مجھے اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ اس کا نام راجہ تھا۔ اس نے میرے لئے پھل بھی خریدے۔ بس میں بہت سے ڈھول رکھے تھے۔ راجہ خوب گانے گاتا رہا۔ آبشار بہت خوب صورت لگ رہے تھے۔ راجہ نے مجھ سے کہا۔ چلو ہم سب نہائیں۔ چند منٹ بعد وہ مر چکا تھا۔ وہ پانی میں ڈوب گیا تھا۔ دو گھنٹے کی تلاش کے بعد اس کی اکڑی ہوئی لاش ہمیں ایک چٹان کے نیچے ملی۔ یہ سب کیا ہے۔ میں سوچتا رہا ہوں کہ یہ کیسے ہوا۔ ہم میں سے کوئی بھی راجہ کو اس حادثے سے بچا نہ سکتا تھا۔ کیا یہ اتفاق تھا یا اسی کو ’قسمت‘ کہتے ہیں؟ راجہ اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا تھا۔ اس کے بہن بھائی پانچ اور پندرہ کی عمروں کے درمیان مر چکے تھے۔ اس کا باپ نابینا ہے اور ماں بہت بیمار۔ راجہ ان لوگوں کا کفیل تھا۔۔۔
مدرائے میں ایک نوجوان شاعر نے مجھ سے کہا کہ دنیا کی وجہ سے وہ بہت دکھی ہے۔ مدراس میں میں نے ریڈیو انٹرویو سے کچھ روپے کمائے۔ پھر میں پینانگ گیا جو بڑا خوب صورت جزیرہ ہے اور وہاں بے شمار چینی رہتے ہیں۔
ایک مال گاڑی کے آخری ڈبے میں بیٹھ کر میں بنک کاک پہنچا اور بدھ خانقاہوں میں مقیم رہا اور راہبوں کے ساتھ کھانا کھاتا رہا۔ دوپہر کو خوب صورت لڑکیاں خوش لباس خواتین اپنی اپنی قسمت اور مستقبل کا حال پوچھنے راہبوں کے پاس آتی تھیں۔۔۔
زیادہ تر بھکشو محبت کے بھوکے ہیں اور بے تحاشا تمباکو پیتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے۔ بوڑھی مذہب پرست خواتین انہیں کھانا اور پیسے دیتی رہتی ہیں۔ بہت سے بھکشو خانقاہوں میں اس لئے بیٹھے ہیں کہ انہیں محنت کرنا اچھا نہیں لگتا۔ یہ لوگ سخت کاہل ہیں، مگر ان کے مذہب میں اس کا ہلی کا ایک مقدس جواز موجود ہے۔ نروان کی تلاش۔۔۔ بعضے ان میں سے واقعی سنجیدگی سے مراقبے میں مصروف ہیں۔ لیکن زیادہ تر بھکشو کھانے اور خواتین سے گپ کرنے کے علاوہ سوتے رہتے ہیں۔
نانگ کائی میں میں میکانگ دریا میں نہایا اس کے بعد لاؤس آ گیا۔
دین تین ایک بڑے سے گاؤں کی مانند ہے۔ دھوپ بہت تیز ہے اور سڑکیں گرد آلود۔ صرف راتیں خوش گوار ہیں کیوں کہ اندھیرا ساری بد صورتی، ظلم اور تشدد اور خون ریزی کو اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔ مچھر بہت ہیں۔
سوآنا تک ایک طیارے میں مجھے مفت کی لفٹ مل گئی اور اب میں پکسے میں موجود ہوں۔ پھر کمبوڈیا جاؤں گا۔ میں انکل انور کے پاس چٹاگانگ نہ جا سکا کیوں کہ برما سے مشرقی پاکستان داخل ہونے میں بڑی دقتیں تھیں۔ میں نے سرخ چین اور شمالی ویٹ نام کے لئے ویزا کی درخواست دی ہے۔ پیکنگ اور ہنوئی سے مجھے پھوم پنہہ میں جواب مل جائے گا۔ کل میں یہاں سے جنوبی ویٹ نام جا رہا ہوں۔ اس غلط سلط انگریزی کے لئے دوبارہ معافی چاہتا ہوں۔
آپ کا بہت شکر گزار۔
اوٹو کروگر‘‘
فروری ۱۹۶۳ء کے ایک غیر ملکی رسالے میں ’ویٹ نام کی جنگل وار‘ کے عنوان سے ایک رنگیں تصویروں والا مضمون چھپا ہے۔ ان تصویروں میں گوریلا سپاہیوں کو بندوقوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کشتیوں میں بیٹھے ہوئے گوریلا قیدی میکانگ دریا کے پار لے جائے جا رہے ہیں اور کسان عورتیں یہ کشتیاں کھے رہی ہیں۔ کنارے پر پہنچ کر ان قیدیوں کو گولی مار دی جائے گی۔ دھان کے کھیتوں کے پانی میں سے جنگی قیدی گذر رہے ہیں اور مضمون کے آخر میں دو صفحات پر پھیلی ہوئی ایک تصویر ہے۔ جس میں دھان کے ہرے کھیت ہیں اور دھان کی بالیاں ہوا کے جھونکوں سے جھکی جا رہی ہیں اور لمبے پتوں والے درخت ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ افق پر درختوں کی قطاریں ہیں اور سبزہ اور پانی۔ یہ ایسا دلفریب منظر ہے۔ مصور جس کی تصویریں بناتے ہیں، شاعر نظمیں کہتے ہیں اور افسانہ نگار ’دھرتی کی عظمت‘ کے متعلق کہانیاں لکھتے ہیں۔ ان ہرے بھرے درختوں کے پیچھے کسانوں کے پر امن جھونپڑے ہوں گے اور اس گاؤں کے باسی تنکوں سے بنی ہوئی چھجے دار نوکیلی ٹوپیاں اوڑھے دن بھر پانی میں کھڑے رہ کر دھان بوتے ہوں گے اور گیت گاتے ہوں گے اور فصل تیار ہونے کے بعد منڈی میں جا کر محنت سے اگایا ہوا یہ دھان تھوڑے سے پیسوں میں فروخت کر کے اپنی زندگیاں گزارتے ہوں گے۔ اس ندی کے کنارے لڑکیاں اپنے چاہنے والوں سے ملا کرتی ہوں گی اور نوجوان مائیں رنگ برنگے سیرونگ پہنے، گھڑے اٹھائے اپنے بچوں کو نہلانے کے لئے دریا پر آتی ہوں گی۔
لیکن اس تصویر میں جو اس وقت میرے سامنے رکھی ہے کٹے پھٹے چہروں والی نیم عریاں اور خون آلود نوجوان لاشیں پڑی ہیں۔ دور ایک کونے میں بھورے رنگ کا مہیب جنگی طیارہ کھڑا ہے اور تصویر کے نیچے لکھا ہے،
’’موت کا کھیت۔۔۔ ویت کونگ گوریلے جن کو میکانگ دریا کے دھان کے ڈیلٹا میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان کے ساتھی ایک دوسرے کے ساتھ رسیوں سے بندھے سرجھکائے ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔ اس خوں ریز دست بدست لڑائی میں ایک نوجوان ہچ ہائیکر بھی جو میکانگ دریا کے کنارے سے گذر کر شمالی ویٹ نام جا رہا تھا، ایک اتفاقیہ گولی کا نشانہ بن گیا۔ اس خوب صورت ملک میں یہ بھیانک خانہ جنگی ۱۹۴۴ء سے جاری ہے اور۔۔۔‘‘
میں نے تصویر کو دوبارہ غور سے دیکھا۔ ساحلی گھاس پر اوندھی پڑی ہوئی ایک لاش کا چہرہ اوٹو سے ملتا جلتا تھا۔ اوٹو کروگر زندگی کا تجربہ حاصل کرنے دنیا کے سفر پہ نکلا تھا۔
٭٭٭